میو کیوں اکھٹا نہ ہوسکا ہاں؟اسباب و عوارضات۔ ازحکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔ یامیں شک نہ ہے میو قوم ماضی پرست اور شخصیت پرست قوم ہے۔ماضی سو نکلنو ایسے لگے ہے کہ ان کی جان نکل ری ہے۔مور کی طرح میو سمجھے ہےکہ واکی طرح نہ تو کوئی ملوک ہے نہ کوئی خوددار ہے۔جب اپنو کھاوے ہے میو قوم کاجوانن کی منت سماجت ،تو کائی دوسرا کی بات کائیں کو سُنے؟۔کوئی ہم پے کیوں حکم چلائے ؟۔ہمارے گھرے دانہ تھوڑی گیر کے جاوے ہے؟۔ارے نواب ہوئے گو اپنے گھرے ۔ہم تو اپنو کھاواہاں اور اپنو کماواہاں؟۔ارے ہم کوئی کمی تھوڑا ہاں جو واکے پئے چل کے جاواں؟۔ہمارو تو کوئی ہمدرد نہ ہے سب لوگ مطلبی ہاں؟۔ہم نے بار بار آزمائش کری ہے بغیر ضرورت کے کوئی مار،رو بھی نہ لیوے ہے۔۔یہ بات ہر دوسرا میو کا منہ سو سنن کو ملاہاں۔۔یہ ایسا اوگن ہاں جو میو قوم اے اکھٹا نہ ہون دیواہاں ۔میو قوم میں بہت سی خوبی ہاں ۔لیکن ساتھ میں کچھ ایسا پہلو بھی ہاں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ میو جہاں بھی اکھٹا ہووا ہاں۔یا پھر ایک دوسرا سو بتلاواہاں۔نوں ضرو ر کہواہاں کہ میو قوم کدی اکھٹی نہ ہوسکے ہے؟لیکن یابارہ میں ہر کوئی اپنو نکتہ نگاہ بیان کرے ہے۔ چلو ہم کچھ اسباب ایسا بیان کررا ہاں ۔ضروری نہ ہے کہ ہماری بات حتمی اور آخری ہوئے۔البتہ ان باتن پے غور ضرور کرنو چاہئے۔میو آریہ قوم ہے جو قدیم زمانہ سو بر صغیر پاک و ہند میں آباد ہے۔ایک دوسرا کا دکھ سکھ ۔دوسری قومن سو لڑائی بھڑائی میں ایک دوسرا کے ساتھ مل کے مقابلہ کرتی رہی ہے۔تاریخ بتاوے ہے کہ میو قوم ایک دوسرا کے ساتھ اخوت و بھائی چارہ اور محبت کے ساتھ مل جل کے رہتی آئی ہے۔جا انداز میں میراثی ۔بھانڈ ۔جگا۔اور مورخ میون بارہ میں میو قوم کی تاریخ بیان کراہاں ۔اُو آج دیکھن کو نہ ملے ہے۔مثلاََ میو ایک دوسرا کی ٹانگن نے کھینچا ہاں۔ایک دوسرا کی کٹتی کراہاں۔مل کے نہ بیٹھا ہاں۔دھنوان لوگ، نرِدھن لوگن کی مدد نہ کراہاں۔جب سو میون پے پیسو آئیو ہے۔طلاق کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔یاکے علاوہ قوم سو گھنو اپنا کدا کی فکر میں مصروف ہاں۔خیر یہ کمزوری تو دوسری قومن میں بھی موجود ہاں ۔ایک میو ہونا کے ناطے ہم نے اپنی میو قوم میں یہ کمزوری گھنی محسوس ہووا ہاں۔جاپے دو پیسہ آیا وانے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کھڑی کرلی۔اور اپنا آپ اے عقل کل سمجھن لگ پڑو۔میو جب دوسری قومن سو لڑے ہا۔یا میون کا جو ہیرو گزرا ہاں۔یا تقسیم ہند سو پہلے میو جیسے اکھٹا رہوے ہا۔آج میون میں ای بات دیکھن کو نہ ملے ہے۔میو اکھٹا نہ ہونا کی وجہ ای ہے کہ میو قوم جب یا مارے اکھٹی رہوے ہی۔جن صفاتن نے ہم تاریخ میں پڑھاہاں۔وا وقت کائیں کو موجود ہی آج کیوں نہ ہاں؟بہت اہم سوال ہے؟انسانی نفسیات ہے کہ جب کوئی خطرہ ہوئے۔یا کوئی ضرورت یا لالچ ہوئے تو بہت سارا مختلف الخیال لوگن نے جمع کرسکے ہے۔میو قوم کی جو صفات بیان کری جاواہاں۔یہ وا وقت کی بات ہاں جب میو دوسری قومن سو لڑے بھڑے ہا۔کیونکہ ان کا مقابلہ کے مارے اکھٹو ہونو ضروری ہو۔اگر بکھرا رہتا تو تو دوسرا کو مقابلہ نہ کرسکے ہا۔ یا مارے اپنی بقا کی خاطر میو اکھٹا رہوے ہے۔آج میو یا مارے اکھٹا نہ ہوسکا ہاں کہ انن نے یا بات کی پروا نہ ہے کہ میو رہواہاں بھی ہاں کہ نہ ۔ پہلے میو کہلوانو ایک فخر کی بات اور اپنی شناخت ہی۔آج میو یا بات کو اہمیت نہ دیواہاں ۔کیونکہ اب میون نے ایسے لگے ہے کہ ان کا وجود کو کوئی خطرہ نہ ہے۔یا مارے اپناکام سو کا م راکھاہاں۔اکھٹا ہونا کی ضرورت ای محسوس نہ کراہاں۔دوسری بات جو کائی قوم اے اکھٹو راکھ سکے ہے ۔اُو لالچ اور مفادات کو اشتراک ہے۔اب میون نے اپنا اپنا کاروبار ۔دھندہ کرلیا ہاں ۔ایک دوسرا کی کم ای ضرورت محسوس کاہاں ۔کیونکہ جو بات کدی ایک میو سو ملاقات میں ملے ہی اب کائی بھی قوم کا فرد سو وہی فائدہ مل جاوے ہے۔یامارے اب میو ایک دوسرا کے پئے بیٹھنو اور اکھٹو ہونو بےکار کام سمجھاہاں۔تم نے کدی غور کرو ہے کہ میو دھنیڑی اور مال دار لوگن کے سامنے جھکا ہاں۔اور غریبن کی بے عزتی کرنا میں جھجک محسوس نہ کراہاں۔ایسی بات نہ ہے کہ میو جھکا نہ ہاں۔لیکن ان کو سر ہوُن جھکے ہے جہاں سامنے والا کی جیب بھاری ہوئے۔اگر یہی کیفیت رہی تو میو قوم کو اکھٹو ہونو بہت مشکل ہے کیونکہ اب میون کا قوم و فعل میں تضاد ہے۔اخلاص اور قوم کی خدمت ہماری ترجیحات میں سو خارج ہوچکو ہے۔۔اب قوم کے بجائے ضرورت ہاں۔جہاں سو فائدہ ملے ماکھین کی طرح کھنچا چالا جاواہاں ۔ایسی بات نہ ہے کہ میون کے پئےوقت نہ ہے۔لیکن قوم کے مارے نہ ہے ۔اپنی ضرورت و مطلب کے مارے چاہے کوئی ہم نے دھیرئیں سو لیکے سانجھ تک دھوپ میں ننگا پائوں کھرا کردئے تو ۔ہم نے کوئی اعتراض نہ ہے۔ اگر اجتماعیت اور میو قوم کی باری آئے تو ہزاروں بہانہ موجود ہاں۔
عید الاضحی کو یوں بھی مناسکتے ہیں۔
عید الاضحی کو یوں بھی مناسکتے ہیں۔ از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو اسلامی تہواروں میں عید الاضحی دو پیغمبروں کی یاد گار ہے جنہوں نے انسانیت کے سامنے پیغام ربی کو اس انداز میں پیش کیا کہ ان کی اس ادا کو آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ و اسوہ قرار دیدیا ۔ ساتھ میں کچھ فرائض و آداب بھی بتا دئے کہ عید قربان ایک اسلامی تہوار ہی نہیں یہ تو زندگی کا وہ فسلفہ ہے جس میں انسانیت کے لئے ایک لائحہ عمل پوشیدہ ہے۔مسلمانوں میں ایک کمزوری پائی جاتی ہے کہ یہ سطحی معامالات اور اپنی طبیعت کے قریب تریب جذبات کو جلد قبول کرتے ہیں ۔غور و تدبر اور احکامات کی روح کی طرف دھیان نہیں دیتے/ظاہری طورپر اس چیز کو پسند کرتے ہیں جس میں ذاتی تشہیر ہو اورنسفیاتی طورپر لوگوں میں برتری کا پہلوپایاجائے۔پویری زندگی میں یہی نفسیات کار فرما دکھائی دیتی ہے۔مثلاَ عباداتکا وہ پہلو جس میں لوگوں سے داد وصول کرنے کا پہلو نمایا ہو اسے بڑے اہتمام سے ادا کیا جاتا ہے۔اور جہاں اخلاص اور تنہائی او ر احکامات کی روح کا تعلق ہے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ قربانی صرف جانور خرید کر ذبح کرنا ہی نہیں اس قریضہ کے ساتھ دیگر معاشرتی فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔۔جن دو نبیوں کی سنت کی پیروی میں فریضہ قربانی ادا کیا جاتا ہے۔اگر یہ فلسفہ علماء کرام امت کے سامنے پیش کریں ۔اور عوام اس فلسفہ سے آگا ہوجائیں تو بہت سی غیر ضروری باتوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔قربانی کا طریقہ ہے خود سیکھتے ہیں ،نہ اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ہمیں تو ایک جانور چاہئے جس کی قیمت زیادہ ہو۔پھر اس کی نمائش اور اس کے چارہ کے لئے خود ساختہ برتری کا اہتمام۔عمومی طورپر لوگوں کو ذبیحہ کے بارہ میں ہی معلومات نہیں ہوتیں۔ذبح کرنے والا تبکیر پڑھتا بھی ہے کہ نہیں؟۔کچھ دہیاڑی دار لوگ عید کے موقع پر قصاب بن جاتے ہیں انہیں تکبیرات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔انہیں ذبیحہ کی نزاکت ویسے ہی معلوم نہیں ہوتیں۔مالک دولت کے خمار میں ایسا مست ہوتا ہے کہ اے سی روم سے باہر قدم رکھنا بھی گورا نہیں کرتا۔گلی محلوں میں جانوروں کے چارہ کی باقیات نے سڑانڈ پیدا کردی ہے۔بڑے شوق سے چارہ کھلاتے ہیں۔لیکن باقیات کو وہی پڑا رہنے دیتے ہیں۔یہی حال ذبیحہ کے بعد جانور کی باقیات کا بھی ہوتا ہے۔الائشوں سے گلی محلے اٹے ہوتے ہیں ۔گرمی کی وجہ سے گلیوں نالیوں گٹروں میں تعفن پیدا ہوکر ماحول کو مکدر کردیتا ہے۔گلی محلوں میں جانوروں کو باندھ کر مسافروں راہ گیروںکو تنگ کیا جاتا ہے ۔اگر کوئی سمجھائے تو اسے گستاخ قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے؟جانورں کی خریداری میں جو رقم صرف کی ہے اس کے حلال و حرام کی تمیز نہیں ہوتی ۔یہی وجہ ہے کہ باوجود اتنی مقدار میں جانور ذبح کرنے کے مسلمانوں کے رویوں میں اور زندگی کے چلن میںنماز روزہ حج۔قربانی۔اور زکوٰۃ جیسی عبادات بھی اصلاح نہیں کرستیں۔کیونکہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔مذۃبی طورپر عبادات نماز روزہ حج زکوٰۃ قربانی وغیرہ کے جو فضائل اور خواص بیان کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک بھی دکھائی نہیں دیتے۔مثلا ایک رمضان کا اثر دوسریٓے رمضان تک باقی رہتا ہے۔قربانی ایثار و ہمدردی اور معاشرتی طورپر قیمتی متاع کو قربان کرنے کا درس دیتی ہے۔گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔اخلاص اتنا کہ اس سے زندگی میں انقلاب پیدا ہوجائے۔۔۔۔قران کریم نے قربانی کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔۔۔وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(27)لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِۚ-فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ الْفَقِیْرَ(28)اور لوگوں میں حج کی عام ندا کردے وہ تیرے پاس حاضر ہوں گے پیادہ اور ہر دُبلی اونٹنی پر کہ ہر دُور کی راہ سے آتی ہیں تاکہ وہ اپنا فائدہ پائیں اور اللہ کا نام لیں جانے ہوئے دنوں میں اس پر کہ اُنہیں روزی دی بے زبان چوپائے تو ان میں سے خود کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ ۔۔دوسری آیت میں قربانی کا فلسفہ یوں بیان کیا گیا ہےلَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ- وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(37)اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو۔تقوی طہارت فلسفہ قربانی۔عبادات کی روح ان سب باتوں کو پس پشت ڈال کر ایک ایسی سوچ پیدا کرلی گئی ہے جس میں روح تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔اور خرفات کو قبول کرلیا گیا ہے۔جس دن مسلمان قربانی کے مفہوم کو سمجھ گئے اس دن معاشرتی و معاشی مسائل کا حل مل جائے گا۔۔۔قربانی کو اپنی مرضی کے بجائے اللہ کی رضا اور رسول اللہﷺ کی اتباع کا خیال رکھئے۔نمود و نمائش تو ختم ہوجائے گی۔لیکن اس کے ساتھ آپ کے مال و اور دھلاوے کے عمل کو بھی کھاجائے گی۔قربانی کا گوشت اور اس کے چمڑے کو صحیح مصرف میں لائے۔اور ذبیحہ کی باقیات اور الائشوں کو بروقت ٹھکانے لگئے۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ دو بوٹی گوشت کا خمار لائشوں کے تعفن میں دب کر برباد ہوجائے۔نیت کی خرابی جانور کی قبولیت میں آڑے آجائے۔۔۔۔اللہ حسن نیت،اوربہترین کردار عطاء فرمائے۔
الحاوي الکبير في الطب1(اردو ،ڈیجیٹل ایڈیشن )
امراض ، اسباب امراض اور معالجات کی شہرہ آفاق کتابالحاوي الکبير في الطب1(اردو ،ڈیجیٹل ایڈیشن )تالیف :ابو بکر محمد بن زکریا رازی (865ھ۔925ھ)ڈیجیٹل ایڈیشن:سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان 600 سال قبل لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب۔جو مصنف کی تجربات طبی عملی زندگی کا نچوڑ ہے۔آج بھی اس کی افادیت اتنی ہی مسلمہ ہے جتنی صدیوں پہلے تھی۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے تیارہ کردہجدید تصاویر۔ڈایا گرام۔اور امراض کی تشریح۔ طبی دنیا میںاپنی نوعیت بہترین کوشش۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں تو اسلامی دنیا میں بہت سے مصنفوں نے اپنی تجربات زندگی بھر کے نچوڑ اپنی کتب میں محفوظ کردئے۔کچھ کتب کو شہرت ملی کچھ گوشہ گمنامی میں رہیں۔کسی بھی کتاب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔لیکن زکریا رازی کی کتاب میں دو خصوصیات ہیں۔ایک تو اپنے وقت کے میڈیکل آفیسر تھے۔خود نسخہ جات بناتے،اصلاح کرتے اور بیمارستان میں مریضوں پر تجربات کرتے ۔اور یونانی مصنفین کی کتب سے استفادہ کرتے۔آخر میں اپنے تجربات و مشاہدات بیان کرتے۔یوں الحاوی فی الطب عملی لحاظ سے فائق ہے۔اس کی افادیت کے پیش نظر۔سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن(وزارت صحت و خاندانی بہبود۔حکومت ہند۔نئی دہلی نے،اس طبی انسائیکلو پیڈیا کو اردو میں ڈھالا۔اس وقت لوگوں کا مطالعاتی ذوق تبدیل ہوگیا ہے۔وہ ڈیجیٹل ڈیوائسز کو زیادہ پسند کرنے لگے ہیں ۔تحقیق و تدقیق کے انداز بدل گئے ہیں۔دنیا کی بہترین کتب ڈیجٹل شکل میں مہیا کی جارہی ہیں۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز بھی طبی خدمت میں مصروف عمل ہے ۔یہ ڈیجیٹل ایڈیشن اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔یہ ریسرچ ایبل۔الفاظ تلاش کرنے کی سہولت ۔کاپی پیسٹ کا آپشن۔کمپیوٹر ۔لیپ ٹاپ۔موبائل۔ٹیب میں چلنے کی سہولت۔۔۔ادارہ ہذاہ قارئیں سے امید رکھتا ہے کہ قابل تصحیح مقامات کی نشان دہی فرمائیں گے۔از۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومنتظم اعلی سعد طبیہ کالج //سعد ورچوئل سکلز پاکستان
چہار طب۔
چہار طب۔ مرتبہ۔عالی جناب ڈاکٹر ہربنس لال صاحب بترہمیں صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں سے کہ ہے ہے۔ فن طب تمام ابحاث کے باوجود عام فہم اس قدر ہےکہ اسکولوں کے طالب علم بھی بڑھ کر بخوبی استفادہ کر سکیں مصنف نے امراض کے تشخیص و شناخت کو نہایت آسان الفاظ میں لکھا ہے۔ یوں تو طب میں بہترین کتابیں لکھیے گئ ہیں چہار طب مگر ہر گلے رنگ بوئے دیگر استمیرے نزدیک سے مخزن چہار طب سے ہر ڈاکٹر ویدا در حکیم کو استفادہ کرنا چاہیئے ۔ کتاب کی ترتیب ایسی ہے کہ اس سے اطباء کے علاوہ عامتہ الناس بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آپ اس کتاب کے چند اوراق الٹئے۔ اس کے بعد آپ کو یہ دعوی صحیح معلوم ہونے لگے گا کہ مخز ن چہار طب سے کام لینے والا عام حالتوں میں اپنے اور اہل و عیال کے لئے ایک چھا خاصا ڈاکٹر بن سکتا ہے۔ اس کتاب میں بعض ایسے عجیب و غریب علاج بھی ہیں جو دوسرے کتابوں میں نایاب ہیں مصنف نے اس کتاب کو ہر طرح سے اپ ٹو ڈیٹ. بنانے کے پوری پوری تیاری کی ہے۔مجھے امید ہے کہ پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے ۔(ادارہ پبلیشر) کتاب یہاں سے ڈائون لوڈ کریں
قثاء الحمار۔گدھا کھیرا –
قثاء الحمار۔ گدھا کھیرا – گدھا ککڑی – جنگلی ککڑی – ککڑی۔Cucurbitaceae خاندانسائنسی نام: Ecballium elateriumانگریزی میں غیر ملکی نام: Squirting cucumber فرانسیسی میں: Cocombre d’âne قثاء الحمارگدھا ککڑی۔۔۔ایک ایسی جڑی بوٹی ہے جسے قدیم عرب طبیوں نے اپنی کتب میں جس کا بکثرت ذکر کیا ہے۔اس کے بے شمار استعمالات لکھے ہیں۔ہمارے ہاں دیسی طب میں اس کا ذکر کم ہی پایا جاتا ہے۔عمومی طورپر پاکو ہند کے اطباء اس جڑی بوٹی کاکم استعمال کرتے ہیں اکثر کو تو نام بھی معلوم نہیں ہے۔لیکن عرب اطباء اس کا استعمال کرتے ہیں۔فوائد بہت زیادہ ہیں کچھ کا ذکر اس مضموں میں کیا جاتا ہے۔ گدھا کھیرا، یا گدھا کھیرا، سب سے اہم دواؤں کے پودوں میں سے ایک ہے، اور Cucurbitaceae خاندان سےاس کے بہت سے استعمال ہیں۔ یہ ایک بارہماسی جڑی بوٹی ہے جو بحیرہ روم کے ممالک اور دیگر خطوں میں اگتی ہے۔ اس لیے ہم گدھے کھیرے کی جڑی بوٹی کی تفصیل کے ساتھ ساتھ گدھے کی ککڑی کی جڑی بوٹی کے فوائد اور نقصانات، اس کی کاشت کا طریقہ اور اس کی نشوونما کے لیے موزوں ماحول کی وضاحت کریں گے۔ گدھے کی جڑی بوٹی کی تعریفگدھے کی ککڑی کے پھل کینٹالوپ اور ککڑی کے پھلوں سے ملتے جلتے ہیں۔ اس کے دواؤں کے فوائد قدیم زمانے سے دریافت ہوئے ہیں، جب اسے اینٹی ہائپرٹینسی ایجنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ مندرجہ ذیل جدول میں اس پودے کی سب سے اہم درجہ بندی کی گئی ہے۔قثاء الحمارCucurbitaceae خاندانسائنسی نام: Ecballium elateriumعام نام: گدھا کھیرا – گدھا ککڑی – جنگلی ککڑی – ککڑی۔انگریزی میں غیر ملکی نام: Squirting cucumber – فرانسیسی میں: Cocombre d’âneبڑھتی ہوئی موسم اپریل سے دسمبر تک ہےگدھے کھیرے کی جڑی بوٹی کی نباتاتی تفصیلگدھے کھیرے کی جڑی بوٹی کی تفصیل درج ذیل نکات پر مشتمل ہے۔ ایک بارہماسی جڑی بوٹی جو بنیاد سے شاخیں نکلتی ہے۔ٹانگ موٹی، کھردری اور بالوں والی ہے۔اس کے پتے سادہ ہیں، لہراتی کنارے کے ساتھ۔پھول غیر جنس پرست ہیں۔نر پھول کلسٹر پھولوں میں جمع ہوتے ہیں۔کرولا پیلا ہوتا ہے اور 5 پنکھڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک گھنٹی ٹیوب کی شکل میں ایک ساتھ جڑی ہوتی ہیں، جس کے آخر میں 5 مستطیل لاب ہوتے ہیں۔گدھے کے ککڑی کی شکل اس کے مادہ پھولوں کی نسبت واحد ہوتی ہے۔پھل جڑی بوٹیوں سے لٹکتے ہیں اور شکل میں مستطیل ہوتے ہیں۔یہ کانٹے دار جھاڑیوں کے ایک گروپ سے ڈھکا ہوا ہے۔بیج لمبا اور ہموار ہوتے ہیں۔اس کا رنگ بھی سیاہ بھورا ہے۔گدھے ککڑی کا مسکن اور پھیلاؤگدھے کا ککڑی کا پودا دنیا کے کئی خطوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کا مسکن خاص طور پر بحیرہ روم کے ممالک اور ایران میں ہے۔ گدھے کھیرے کی جڑی بوٹی کے استعمال شدہ حصےگدھے کے کھیرے کے پودے کے استعمال شدہ حصے پھل ہیں۔جڑی بوٹی کے کیمیائی اجزاءگدھے کے کھیرے میں درج ذیل کیمیائی اجزا ہوتے ہیں۔Cucurbitacinرال.کاربوہائیڈریٹلعاب دار مواد۔یہ بھی پڑھیں: کاوا جڑی بوٹیگدھے کی جڑی بوٹی کے فوائدگدھے کھیرے کی جڑی بوٹی کے فوائد بے شمار ہیں، کیونکہ اس کے متعدد طبی اور کاسمیٹک استعمال ہوتے ہیں۔ وہ درج ذیل ہیں: طبی فوائد:پھل میں اینٹی آکسیڈنٹس کے ساتھ ساتھ جگر اور صفرا کو متحرک کرنے والی خصوصیات کے ساتھ ساتھ سوزش اور اینٹی وائرل خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ جہاں تک گدھے کے کھیرے کے پودے کے مشہور دواؤں کے استعمال کا تعلق ہے، وہ درج ذیل میں بیان کیے گئے ہیں: اس کے پانچ اہم ترین طبی فوائد: جگر یا پت سے متعلق بیماریوں کا علاج۔یہ جگر کی سروسس کو روکنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔نزلہ، زکام اور ہڈیوں کی بیماریوں کا علاج۔ اس کا رس سپرے کی بوتل میں ڈال کر ہر نتھنے میں ایک ایک قطرہ ڈالیں۔یہ مریض کی زبان کے نیچے صرف ایک قطرہ رکھ کر دمے کے مسائل کا علاج کرتا ہے۔یہ مریض کے کان میں صرف ایک قطرہ ڈال کر مرگی، آٹزم اور کان کے مسائل کا بھی علاج کرتا ہے۔گدھے کے کھیرے کا جوس اس کے پھلوں کو دبا کر نکالا جاتا ہے اور جوس کو پلاسٹک کی نہیں شیشے کے برتنوں میں ڈالا جاتا ہے تاکہ اس کا مادہ پلاسٹک کے ساتھ رد عمل ظاہر نہ کرے اور زہریلا بن جائے۔ اس کا رس نکالنے کے فوراً بعد اسے فریج میں بھی رکھنا چاہیے تاکہ یہ اپنی دوائی خصوصیات سے محروم نہ ہو۔گدھے کھیرے کی جڑی بوٹی کے کاسمیٹک فوائد: گدھے کھیرے کا پودا میلاسما اور چہرے پر ظاہر ہونے والی جھریوں کا علاج کرتا ہے۔ یہ مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعے کیا جاتا ہے:خشک کھیرے کے پتوں کو اچھی طرح پیس لیں۔پھر اسے اپنی پسندیدہ موئسچرائزنگ کریموں میں سے ایک کے ساتھ ملائیں۔پھر اسے چہرے پر لگائیں۔دیگر فوائدگدھا کھیرا ایک قسم کے مسالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جسے کھانے یا گوشت میں شامل کیا جا سکتا ہے یہ جسم کو قبض سے بچاتا ہے کیونکہ یہ ایک موثر جلاب ہے۔ آپ کو صرف گدھے کی کمان کے پھل کو خشک کرنا ہے، اور پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کا گودا سفید ہو گیا ہے، اسے اچھی طرح پیس لیں اور اسے استعمال کے لیے شیشے کے برتنوں میں رکھ دیں۔گدھے کھیرے کی جڑی بوٹی کے استعمال کی وارننگگدھے کے کھیرے کے بہت سے علاج کے فوائد کے باوجود اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں، جیسا کہ گدھے کھیرے کی جڑی بوٹی کے نقصانات درج ذیل ہیں:جڑی بوٹیوں کے پھلوں کا نچوڑ چپچپا جھلیوں پر پریشان کن اثر رکھتا ہے۔اس کے استعمال سے ناک میں جلن اور کھانسی ہو سکتی ہے۔اسے حمل یا دودھ پلانے کے دوران خواتین کو استعمال نہیں کرنا چاہئے۔واضح رہے کہ گدھا کھیرے کی جڑی بوٹی ایک انتہائی زہریلی جڑی بوٹی ہے جسے انتہائی احتیاط کے ساتھ سنبھالنا چاہیے۔ اس کے پھلوں کے گرد کانٹوں میں ایک زہریلا مادہ ہوتا ہے جو کہ موت کا باعث بن سکتا ہے اگر معاملے کو نہ بچایا گیا اور ڈاکٹر کو جلدی نہ پہنچایا گیا۔کاشتکاری اور پیداواری صلاحیتگدھے کا ککڑی کا پودا سڑکوں کے کناروں اور بیکار اور ہل چلی ہوئی زمینوں میں اگتا ہے۔ جڑی بوٹی کا نباتاتی حصہ ٹھنڈ کے لیے حساس ہوتا ہے، جبکہ جڑ کا حصہ ٹھنڈ کو
چوٹ لگنے سے اعضاء کا بے حس ہوجانا۔
چوٹ لگنے سے اعضاء کا بے حس ہوجانا۔تیربہدف دیسی علاجاز حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوآج کل روڈ ایکسیڈنٹ بکثرت ہورہے ہیں ۔بے شمار لوگ اعضاء کے مفلوج ہونے کی وجہ سے بستر مرگ تک پہنچ گئے ہیں۔مفلوج زندگی اور محتاجی کی وجہ سے گھر والوں پر بوجھ بن گئے ہیں بھاری اخرجات نے مالی مشکلا ت میں اضافہ کردیا ہے۔اس گھبیر صورت حال کو طب قدیم و جدید کے حوالے سے بیان کیا جارہا ہے۔۔گوکہ جدید میڈیکل میں بے حسی کا علاج مشکل اور مہنگا ہے۔لیکن دیسی طب اور اسلامی ۔یونانی طب میں اس کا شافی علاج موجود ہے۔میڈیکل ایسے مریضوں کو نیرو سرجن کے حوالے کرتی ہے جبکہ اس کا علاج دیسی طب میں اتناہی آسان ہے جتنا کہ دیگر امراض کا۔لیکن معلومات نہ ہونے کی وجہ سے معالجین ایسے مریض لینے سے گھبراتے ہیں۔ہم طب کی معرکۃ الارا کتاب۔الحاوی فی الطب۔رازی کے حوالے سے کچھ باتیں لکھتے ہیں۔ خدر کیا ہے خدر کی بیماری برودت کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ جن اعضاء میں یہ پیدا ہو جاتی ہیں ان میں حس و حرکت بمشکل ہو پاتی ہے ۔ مکمل طور پر برودت لاحق ہو جائے تو حس و حرکت قطعا موقوف ہو جاتی ہے۔ مزمن ہو جانے کی صورت میں استرخاء کا باعث بن جاتی ہے۔ ایک شخص اپنی سواری سے گر گیا۔ پشت کو زمین سے سخت دھچکا لگا۔ تیسرے دن آواز کمزور اور چوتھے دن بالکل بند ہو گئی۔ دونوں پیر ڈھیلے پڑ گئے تا ہم ہاتھوں کو کوئی گزند نہ پہونچا۔ تنفس میں رکاوٹ ہوئی نہ دشواری۔ ایسا ہونا لازمی تھا۔ کیونکہ اس حالت کے اندر گردن کے نیچے نخاعی مقام سوج گیا تھا۔ اس لئے پسلیوں کے درمیانی عضلہ میں استرخاء پیدا ہوا جس سے تنفس تو بہتر رہا مگر آواز بند ہو گئی۔ کیونکہ آواز کا تعلق حجاب حاجز سے اور چھ فوقانی عضلات سے ہوتا ہے۔ نفحہ ( جھونکا ) جو آواز کا جوہر ہوتا ہے وہ بھی موقوف ہو گیا کیونکہ اس کا تعلق بین اصلاحی عضلہ سے ہوتا ہے۔ اطباء نے جہالت سے پیروں پر دوالگانی چاہی۔ میں نے منع کیا اور دوا اس جگہ لگائی جہاں گرنے سے چوٹ پہونچی تھی۔ ساتویں روزنخاعی درم میں سکون پیدا ہوا تو آواز واپس آگئی اور پیر درست ہو گئے ۔ ( جالینوس) ہاتھوں کو کوئی ضرر اس لئے لاحق نہیں ہوا کہ اس کے اندر اعصاب عنقی نخاع سےآتے ہیں۔ (مؤلف)ایک شخص اپنی سواری سے گر گیا، چھوٹی انگلی ، اس کے پاس کی انگلی اور بیچ کی انگلی کا حصہ بے حس ہو گیا ہے۔ مجھے جب پتہ چلا کہ گرنے کے بعد چوٹ گردن کے آخری مہرے کو پہونچی ہے تو نتیجہ نکالا کہ ساتویں مہرہ کے بعد جو عصب واقع ہے اس کے دہانہ کے شروع ہی پر ورم آگیا ہے۔ کیونکہ علم التشریح سے یہ بات معلوم تھی کہ گردن سے نکلنے والے آخری عصب کے اجزاء میں سب سے نچلا جزء چھوٹی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی میں آتا ہے اور ان دونوں کی جلد نیز بیچ کی انگلی کے نصف جلد میں پھیل جاتا ہے۔ ( جالینوس) مرض سکتہ۔ مرض سکتہ چونکہ اچانک لاحق ہوتا ہے اس لئے اس بات کی علامت ہے کہ کوئی غلیظ یالیسدار بار د خلط ، شریفہ ) ، اور رفعہ (1) جیسے بطون دماغ کے اندر بھر گئی ہے۔ بیماری سخت ہے یا ہلکی۔ اس کا اندازہ تنفس کی کمی اور بیشی سے ہوگا۔ تنفس میں وقفے ہوا کرتے ہیں۔ بیماری کی حالت میں سانس کی آمد ورفت نہایت دشواری کے ساتھ اور یہ مشقت ہو گی۔ عارضہ دماغ کو لاحق ہو جائے تو مریض فور امر جائیگا ۔ کیونکہ ایسی صورت میں تنفس رک جائے گا اور چہرے کے اعضاء حرکت نہ کر سکیں گے ۔ عنقی نخاع کے اندر بیماری پیدا ہونے پر چہرے کے تمام(1) شریفہ : دماغ کی رقیق وغلیظ دونوں تھلیوں کے اند ر واقع ہونے والے بطون۔(۲) رفعیہ دماغ کے وہ بطن جو بھیجہ کے اند ر واقع ہیں۔عضلات حرکت کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اعضاء مسترخی ہو جائیں گے ۔ گردن کے نچلے حصے میں بیماری ہو تو تنفس محفوظ رہتا ہے مگر ما سوا موقوف ہو جاتے ہیں۔ بیماری نخاع کے کسی ایک حصے میں لاحق ہو تو وہ حصہ مسترخی ہو جائے گا۔ غرض بیماری ان اعضاء کے اندر ہو گی جن کے اعصاب ماؤف ہوں گے ۔ ( جالینوس)مریض بے حس و حرکت پڑا ہوا ہو تو یہ سکتہ کی حالت نہیں ہے کیونکہ سبات میں بھی ایسا ہوتا ہے اس حال میں دیکھو کہ مریض خراٹے لے رہا ہے اور تنفس یہ مشقت جاری ہے تو سمجھو کہ سکتہ ہے۔ عام طور پر یہ حالت فالج ہو جانے کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ ( جالینوس)جالینوس نے کہا ہے کہ کوئی عضو مسترخی ہو جائے تو دوائیں عصب کے اگنے کے مقام پر لگائیں ہم نے کچھ ایسے لوگوں کا شافی علاج کیا ہے جن کے پیروں کے اندر رفتہ رفتہ استرخاء پہ ہو کیا تھا ، چنانچہ دوائیں ہم نے قطن (پشت کے زیریں حصہ ) پر لگائیں۔ اس طرح پیروں پر کوئی دوا استعمال کئے بغیر وہ صحتیاب ہو گئے۔ (مؤلف)ایک اور شخص کے چوتڑ میں زخم ہو گیا تھا۔ دوران علاج گوشت گھل چکا تھا۔ صحت یاب ہوا تو پیروں کی دشواری حرکت پھر بھی باقی رہی۔ ہمیں قیاس آرائی سے معلوم ہوا کہ یہاں کسی عضو کے اندر ورم ہو گیا ہے چنانچہ اس جگہ پر محلل ادویہ کا استعمال کیا گیا جس سےمریض صحت یاب ہو گیا۔ (مؤلف)کسی بیماری کے بعد استر خاء پیدا ہو جائے تو ان مقامات کو سخونت (گرمی) پہونچاؤ جو ماؤف اعصاب کے اگنے کے مقامات ہیں کیونکہ یہاں اخلاط باردہ ہوتے ہیں۔ کیفیت ضربہ یا سقطہ کے بعد پیدا ہوئی تو غور کر کے دیکھو۔ استرخاء مشکل ہو گیا ہو ، حرکت ذاتی بالکل واپسنہ آتی ہو، حرکت کا کوئی شائبہ موجود نہ ہو تو سمجھ لو کہ عصب کٹ چکا ہے۔ لہذا علاج کی کوشش نہ کرو۔ بر عکس از یں عضو کے اندر کسی طرح کی حرکت موجود ہو اور دیکھو کہ وہ آگے کی جانب بڑھتا ہے
الحاوی الکبیر فی الطب۔للرازی۔پہلا حصہ
الحاوی الکبیر فی الطب۔للرازی۔پہلا حصہ(ڈیجیٹل ایڈیشن۔رنگین تصاویر سے مزین۔تحقیقات جدیدہ سے تقابل)امراض ، اسباب امراض اور معالجات کی شہرہ آفاق تالیف۔الحاوي الکبير في الطب(موسوم بہ حاوی کبیر ) کا اردو ترجمہ ۔ حصّہ اوّلتالیف :۔ابو بکر محمد بن زکریا رازی(865ھ تا925ھ)شائع کردہ :۔سینٹرل کونسل فار رسیرچ ان یونانی میڈیسین ۔(وزارت صحت و خاندانی بہبود ، حکو مت ہند نئی دہلی )الحاوی الکبیر اس وقت نوحصوں پر مشتمل اردو میں ترجمہ موجود ہے۔اس کتاب کی افادیت مسلمہ ہے یہ پہلا حصہ دوبارہ سے کمپوز کرکے ڈیجیٹل صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔کتاب میں دی گئی باریک و پر مغز ابحاث ایک طبیب کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔امراض سر اور اندرون و بیرونی طورپر لاحق ہونے والے امراض پر اس قدر تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ بہت کم لوگ لکھتے اور کم لوگ اس طرف دھیان دیتے ہیں۔ آئے پہلے حصے میں قائم کئے گئے عنوانات پر ڈالتے ہیں۔ پہلا باب سر کی بیماریاں۔ سکتہ ، فالج ، خدر، رعشہ، صعوبت حس ، فقدان حس، اختلاج حس و حرکت کے جملہ امراض، اعصاب کے لئے نقصان دہ اشیاء ، سر اور مالیخولیا کا علاج۔دوسرا بابسد رودوارتیسرا بابمالیخولیا، سوداوی غذا ئیں ، اس کے مخالف غذا ئیں، مالیخولیا کے مستعد اور بر عکس حضراتچوتھا بابقوائے دماغی، نفس کے قوائے ثلاث ، تخیل، فکر ، ذکر، ان کے مقویات و مضرات، دماغ اور ذہن کے لئے مضر اشیاء ، سوء مزاج دماغ سے متعلق جملہ امور اور اس کی کمی و زیادتی ، ذہین و عقل کے لئے مفید و مضر ، اچھے اور بُرے خوابوں سے متعلق امورپانچواں بابعطوس، سعوط اور شموم کے ذریعہ تنقید سر ، مفتح سدد دماغ، منافع عطاس، بھپارہ کے طبخ ، اس طبیخ سے نکل جانے والے اخلاط غلیظہ اور ناک کے ذریعہ صاف ہونے والی رطوبات، کثرتِ عطاس کا ازالہ ، غرور، مضوغ اور اشک آوری کے ذریعہ سر کا تنقیہ ، نیز تالو اور زبان کی جڑ کو صاف اور خشک کرنے والی چیزیں، غرغرے اور مضوعات وغیرہ، ان کے منافع اور دماغ کے جملہ امراض عارضہ ۔ لقوہ، جبڑوں کا چپکنا اور سرک جاناچھٹا بابساتواں بابصرع ، کابوس ، ام الصبیان اور خواب میں چونکناآٹھواں بابتشنج ، تمدد، کزازنوواں بابلیز غس، قرانیس، قادس – لیز غس اور قرانیس کا باہمی فرق، لیٹر غس کا قرانیس اور قرانیس کا لیٹر غس میں منتقل ہو جاتا۔دسواں باب ۔۔۔منفرد اور مشترک قرانیس ۔جنون، قطرب، ہذیان ہمراہ بے خوابی، بے خوابی کی تمام اقسام، اختلاط (عقل) ہمراہ حرارت ، یاسر اور دیگر اعضاء کے اور ام حارہ ۔گیارہواں بابصداع و شقیقہ اور ان کے محرکات ، کلائی سر اور سر کی کچی ، ضربہ سے دماغ کابل جانا، سر میں پانی کا بھر جانا اور اس کا محرک، سر کا مقدار سے بڑا ہونا اور پھولنا، درازوں کا کھل جاتا اور سر پر آبلوں کا پڑتا۔جس طرح صدیوں پہلے سر میں لاحق ہونے والے امراض قابل توجہ تھے آج بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں۔رازی مرحوم کی الحاوی الکبیر میں پرانے حکماء کے تجربات بالخصوص یونانی اطباء کے حوالہ جات بابجا دئے ہیں ۔رازی جہاں سے جو چیز لیتے ہیں حوالہ دیتے ہیں ۔۔الحاوی حاذق طبیب اور بہترین معالج کے معالجات اور تجربات پر مبنی دستاویز ہے۔صدیوں گزرنے کے باوجود اس کتاب کی اہمیت زرا بھی کم نہیں ہوئی۔لیکن طبائع کی کسلمندی اور اطباء کی تن آسانی نے ان خزائن سے محروم کردیا ہے۔ہر طبیب کو رازی کی الحاوی کا مطالعہ کرنا چاہئے۔بلکہ ضرورت کی عبارات پر نشانات لگانے کی ضرورت ہے تاکہ بوقت ضرورت ان سے کام لے سکے۔یہ کتاب یونانی اطباء اور مسلماں معالجین کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ہر طبیب کو اپنے مطب میں رکھنے کا خزانہ ہے۔سعد طبیہ کالج و سعد ورچوئل سکلز نے حسب روائت الحاوی الکبیر فی الطب کو ریکمپوز کراکے ڈیجٹیل صورت میں شائع کیا ہے۔اس بات کا لحاظ رکھا ہے سات سو سال پہلے لکھی جانے والی کتاب اور جدید تحقیقات میں کتنا بدلائو آیا ہے۔۔کتاب نو جلدوں پر مشتمل ہے۔عربی فارسی اردو میں موجود ایڈیشنوں میں مطلوبہ تصاویر اور اجزائے جسمانی کی تشریح تصایور کی صورت میں موجود نہیں تھی۔سعد ورچوئل سکلز پاکستان نے اس کا اہتمام کیا ہے کہ جو مرض بیان ہو اس کی ایک آرٹیفیشل انٹیلیجنس(A.I)کی مدد سےتصویر بناکر شامل کردی جائے۔اس پر بہت محنت اور سرمایہ صرف کیا گیا ہے۔تاکہ یہ قیمتی خزینہ اردو دان طبقہ کے دسترس میں آسکے۔پہلا حصہ مکمل ہوا ۔۔حاضرین اپنی ضرورت کے تحت۔ٹیکسٹ یا PDF فارمیٹ میں طلب کرسکتے ہیں۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومنتظم اعلی سعد طبیہ کالج//سعد ورچوئل سکلز پاکستان
بدبودار زخموں کا گھریلو علاج
بدبودار زخموں کا گھریلو علاجاز۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔زخم تازہ ہوں،یا پرانے اور بہتے ہوئے۔یا پھر زخموں میں تعفن پیدا ہوچکا ہو۔یا پھر پیپ بھر چکی ہو۔سب کے لئے میڈیکل والے انٹی بائیوٹک ادویات ،جیسے پائیوڈین،سپرٹ۔ہائیڈروجن ۔اکری فیون۔وغیرہ۔لیکن ان سے زخم خشک ہونے کے ساتھ ساتھ طوالت بھی پکڑتا جاتا ہے ۔ایک معمولی زخم پر بھی بہت عرصہ لگ جاتا ہے۔لیکن گھریلو طورپر کسٹرائل لگانے سے زخم میں بہتری آتی ہے بدبو پیدا نہیں ہوتی پیپ نہیں پڑتا۔اکڑائو اور جلن نہیں ہوتی،رات کے وقت درد کش دوا نہیں کھانی پڑتی۔
یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ
یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ: مولانا ابن الحسن عباسی (تبصرہ: محمد زبیر) ذوقِ مطالعہ، مراتبِ کمال کی تحصیل اور مدارجِ علم کی تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نصاب میں شامل کتب، انسان میں مطالعہ کی استعداد اور امہاتِ الکتب سے استفادے کی صلاحیت پیدا کر کے گویا اس کے ہاتھ میں علم کے لامحدود خزانوں کی کنجی دے دیتی ہیں۔ اب یہ انسان کے ذوقِ مطالبہ پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر علمی جواہر و لآلی سے اپنا دامن بھرتا ہے۔لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہ مطالعہ جو انسان کی تہذیبِ نفس، ترقی علم اور رفعتِ کمال کا سبب بنتا ہے ،وہ محض ”کتاب خوانی و ورق گردانی“ نہیں ہے۔ چنانچہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ کثیر المطالعہ اور وسیع المعلومات نہ ہونے کے باوجود علمی رسوخ و تعمق کے اعتبار سے قابلِ رشک مقام پر ہوتے ہیں اور اس کے برعکس بعض لوگ شرتِ مطالعہ اور وسعتِ معلومات کے باوجود اپنے مطالعہ و معلومات سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت تک سے محروم ہوتے ہیں اور تابہ رسوخ و تعمق چہ رسد؟ اور معلوم ہے کہ علم کی دنیا میں اصل مطلوب بفحوائے ”والراسخون فی العلم“ رسوخ اور تعمق ہے۔ دراصل مطالعہ ایک فن اور تکنیک کا نام ہے اور دیگر فنون کی طرح اس کے بھی کچھ اصول ہیں جنہیں ملحوظ رکھ کر ہی اپنے مطالعے کو مفید اور کار آمد بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ اور مشکل یہ ہے کہ یہاں کوئی ایسے لگے بندھے اصول نہیں ہیں جنہیں عمل میں لا کر ہر شخص اپنے مطالعہ کو علم آموز اور بصیرت افروز بناسکے، بلکہ مختلف مزاجوں اور طبیعتوں کے حامل افراد کیلئے مطالعے کے اصول الگ الگ ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایک شخص کیلئے مطالعے کا جو طریقہ بے حد مفید ہے، دوسرے شخص کے لیے وہ طریقہ چنداں مفید نہ ہو۔ اندریں حالات، مطالعے کے باب میں اپنے لیے درست سمت کے تعین اور مفید طرز کے انتخاب کی صورت یہ ہے کہ جن شخصیات نے اپنی زندگیاں علم کیلئے وقف کردی ہوں، اپناآپ کتابوں میں کھپا دیا ہو، دنیا اور اس کے تنعمات کو حصول علم کیلئے تج دیا ہو اور خود کو”فکر ایں وآں“سے آزاد کر کے مطالعہ ہی کے ہو کر رہ گئے ہوں، ان سے راہ و رسم بڑھائی جائے۔ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے اور ان کی رہ نمائی اور مشوروں کی روشنی میں جادۂ مطالعہ طے کیا جائے۔لیکن معلوم ہے کہ ہر شخص مقدر کا ایسا سکندر اور قسمت کا اتنا دھنی نہیں ہوتا کہ اسے ایسی شخصیات تک براہِ راست رسائی حاصل ہو، لہٰذا اس گتھی کے سلجھاؤ کی سب سے عمدہ صورت بس یہی رہ جاتی ہے کہ ایسی علمی شخصیات کے احوال، تجربات، مشاہدات اور تجاویز پر مشتمل کتب تالیف کی جائیں تا کہ تازہ واردانِ بساطِ مطالعہ ان کی روشنی میں اپنا مطالعاتی سفر اس راہ میں در پیش مشکلات سے بچتے ہوئے جاری رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائیں ہمارے روشن دلانِ سلف کو، کہ انہوں نے اس ضرورت کا ادراک کیا اور مختلف اوقات و اَد وار میں اس موضوع کو اپنی قلمی جولانیوں کی جولان گاہ بنایا۔ ”مشاہیر اہلِ علم کی محسن کتابیں“ (از علی میاں ؒ)، ”مطالعہ کیوں اور کیسے؟“ (از مولانا رحمت اللہ ندویؒ) اور مختلف رسائل کے مطالعہ نمبر اسی سلسلۃ الذھب کی خوبصورت کڑیاں ہیں۔ حال ہی میں ہمیں داغِ مفارقت دے کر جانے والے ادیبِ شہیر حضرت مولانا ابن الحسن عباسی ؒ کے زیر ادارت شائع ہونے والے رسالے ”النخیل“ (کراچی) کا مطالعہ نمبر موسوم بہ ”یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ“ اس موضوع کی مصنفات، مؤلفات میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ عباسی صاحب کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا آغا ز کس کتاب سے ہوا لیکن ہمارے مطالعے میں سب سے پہلے ان کی شہرہ آفاق کتاب ”متاع وقت، کاروانِ علم“ آئی اور ہمیں یہ نقشِ اولین ایسا پسند آیا کہ پھر ”کرنیں“، ”التجائے مسافر“، ”کتابوں کی درس گاہ میں“ وغیرہ ذالک من الکتب کا مطالعہ ذوق و شوق سے کیا،نیز زمانۂ تدریس میں اُن کی درسی شرح سے استفادہ ہوتارہا اور آج کل ان قلمی گلکاریوں کا نقش آخر یں ”یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ“ ہمارے زیر مطالعہ ہے جس میں عالم اسلام کے ستر سے زائد اصحابِ علم و فضل و ارباب قرطاس و قلم کے مطالعاتی احوال و تجربات، خود ان کے قلم سے مندرج ہیں۔ مولانا عباسی مرحوم نے ”النخیل“ کے مطالعہ نمبر کیلئے مختلف علمی شخصیات کے نام، ان کی علمی و مطالیاتی زندگی کے احوال کے متعلق، پانچ سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ ارسال کیا جس میں ان کے ذوقِ مطالعہ کے آغاز، ارتقا، پسندیدہ موضوعات، کتب اور مصنفین کے متعلق استفسار کیا گیا اور نئے لکھاریوں اور مطالعہ کرنے والوں کے لیے رہنما اصول بتلانے کی استدعا کی گئی۔ ان سوالات کے جواب میں بعض حضرات نے ایجاز و اختصار کے ساتھ اور بعض نے طوالت و اطناب کے ساتھ اپنے احوال، تجربات اور راہِ نوشت وخواند میں ”خضر راہ“ کا کام دینے والے اصولوں پر مشتمل مضامین تحریر فرمائے اور یوں ”النخیل“ کا یہ مطالعہ نمبر معیاری و ادبی تحریروں کا ایک ایسا گلدستہ بن گیا ہے جس کا ہر مضمون ”رنگ و بوئے دیگر“ رکھتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ایک اس خاص نمبر کے تعارف پر مشتمل مولانا عباسی مرحوم کی ایک تحریر ہے اور اس کے بعد چند ہندوستانی علمائے کرام کے مکاتیب بطورِ تقریظ مندرج ہیں۔ کتاب کا باقاعدہ آغاز ہمارے دوست اور ”النخیل“ کے معاون مدیر مولانا بشارت نواز صاحب کے مضمون سے ہوتا ہے جو کہ ”مطالعہ کے موضوع پر ترتیب دی گی کتابوں پر ایک تعارفی نظر“ کے عنوان سے معنون ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، اس مضمون میں مطالعہ کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں اور مختلف رسائل کے خصوصی نمبرات کا تعارف نہایت عمدگی اور خوبصورتی سے کرایا گیا ہے جسے پڑھ کر مطالعۂ کتب کا ایک ولولۂ تازہ دل میں پیدا ہوتا ہے۔ مولانا عبدالمتین عثمان منیری (بھٹکل، کرنائک، انڈیا) کا مضمون ”مطالعۂ کتب، کیوں اور کس طرح“ جو کہ اس کتاب
عاملین کس قوت سے کام لیتے ہیں؟
By what force do the agents work?عاملین کس قوت سے کام لیتے ہیں؟معالجاتی دنیا میں عملیات سب قومومں میں کسی نہ کسی حد تک کارفرما ہے۔ہر کوئی اپنی سوچ مذہب اور مسلک کے طورپر دم جھاڑا ۔گنڈے تعویذ۔جھاڑ پھونک کراتے اور کرتے ہیں۔اسی طرح جادو کا یقین ساری قوموں میں پایا جاتا ہے۔ان کاموں میں طاقت اور قوت کہاں سے آتی اور عامل لوگ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ عام انسان اور عامل یا جادو گر میں کیا فرق ہوتا ہے؟۔لوگ عاملین سے کیوں خوف کھاتے ہیں ؟۔اگر عامل دوسرے انسان پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے؟۔ ۔یہ ایک گہرا اور طویل موضوع ہے۔لیکن انسانی خفیہ صلاحتیں جب تک بیدار نہ ہوں یا پھر ان سے کام لینے کا طریقہ نہ سیکھیں ۔انسان دوسروں سے زیادہ کام نہیں کرسکتا ہے۔یہ بات اس ویڈیو میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے