کہامیو قوم چڑھتا سورج کی پجاری ہے؟۔ از۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میو قوم کو اپنو مزاج اور اپنی طبیعت ہے۔اپنان کے ساتھ جو بھی رویہ ہوئے ،دوسرا ن کے سامنے جھکنو۔ان کی تابعداری کرنو۔للہ فی اللہ ان کو حقہ بھرنو دیکھو جاوے ہے۔اپنان کے مارے بھی بہت سی خدمات ہاں کہ جب کائی تگڑا میو جاکے پئے دھن دولت ہوئے ،کے سامنے ہر طرح سو مخلصی پیش کراہاں۔ہم اُنن نے ہون بٹھاواہاں جہاں غریب دمی کا جھانکنا بھی اے بھی گوارو نہ کراہاں۔یا میں کونسی نئی بات ہے؟ ای تو دستور زمانہ ہے۔ہم بھی وائی کی پیروی میں مصروف ہاں۔آج کال جو بات گھنی دیکھنا کو ملے ہے اُو ایسا لوگن کے آگے نُہڑنو اور گردن جھکانو ہے جو اپنی محنت کا بل بوتا پے کائی عہدہ پے پہنچا ہاں۔یا اُنن نے کوئی کامیابی حاصل کری ہے۔میو قوم ایسا لوگن کے ساتھ وا سلوک اے کراہاں۔جو کھسران کے گھر اگر کوئی بالک پیدا ہوجائے تو کھسرا واکے ساتھ کراہاں ۔وائے چوم چوم کے مار دیواہاں؟سب سو پہلے سوچنا کی بات ای ہے کہ ان لوگن نے محنت کری اللہ نے ان کو محنت کو پھل دئیو۔لیکن مبارک باد دین والا۔ہار پہنان والا۔اور سوشل میڈیا پے مبارک بادی کا اشتہار چلان والا۔کہا بتا سکاہاں کہ ای سب کچھ جو میو قوم کا نام پے کرو جارو ہے؟۔واسو میو قوم کو کہا فائدہ ہے؟دوسری بات ای ہے کوئی قوم یا ادارہ جب ایوارڈ دیوے ہےجب واکے مارے کوئی بہتر خدمت سرانجام دی ہوئے۔کہا ان لوگن نے میو قوم کے مارے کوئی خدمت سر انجام دی ہے؟یا دوران سروس کوئی ایسو کام کرو ہے جاسو میو قوم کو فائدہ پہنچو ہوئے؟یابات سو انکار نہ ہے کچھ مطلبی لوگن نے ان سو میو قوم کا نام پے مفادات ضرور لیا ہونگا؟لیکن من الحیث القوم ان کا عہدان کو میو قوم کو فائدہ کم ای پہنچو ہے؟ کہامیو قوم چڑھتا سورج کی پجاری ہے؟۔ پچھلا ایک د و مہینان میں تین چار قسم کی مبارک بادن کا اشتہار چلا ہا۔(1)پاک فون میں کچھ میو سپوت پرموٹ ہویا اعلی عہدان تک پہنچا۔ان کو مبارک باد دی گئی۔(2)کچھ سی ایس پی آفیسرز اور سیول اداران میں تعینات ہویا۔ان میں مرد بھی ہاں عورت بھی ہا۔(3)کھیل کا میدان میں میو قوم کا بالکن نے تمغہ جیتا۔بہت خوشی ہوئی ۔ان کو بھی مبارک باد دی گئی۔ان کے علاوہ بھی کچھ لوگ اپنی اپنی فیلڈ میں کامیاب ہویا۔ان کو شمار نہ ہے۔نہ وے میڈیا پے آسکا۔کیونکہ اُن سو کائی کو مفاد ات وابسطہ نہ ہا۔یامارے میو قوم کا مطلبی لوگ ان کو مبارک باد نہ دے سکا؟ ۔سوچنا کی بات ای ہے۔کہ ان میو قوم کا سپوتن نے جو کامیابی حاصل کری ہے وامیں میو قوم کو کتنو حصہ ہے؟یا میو قوم نے ان کے ساتھ کہا تعاون کرو ہے؟یا میو قوم کے پئے کوئی ایسو لائحہ عمل موجود ہے جوجوہر قابل کی پرکھ کرکے نئی نسل کا ہونہارن کی حوصلہ افزائی کرسکے؟میری معلومات میں ایسو کچھ نہ ہے۔اگر کہیں کوئی ایسو کام کرروہے تو واکو دونوں ہاتھن سو سلام ہے۔اتنی بڑی قوم کے پئے کوئی ایسوسٹریکچر موجود نہ ہےکہ کم از کم نئی نسل کا کم وسائل نوجوانن نے پروموٹ کرسکے۔میو قوم کا نوجوانن کے مارے ہنرمندی اور سکلز کو بندو بست کرسکے؟البتہ کچھ لوگ ہاں جو یاکو درد راکھاہاں۔اور بساط بھر کوشش میں لگاہویا ہاں۔مجموعی طورپے میو قوم کی باگ دوڑ جن لوگن نے ککھیاراکھی ہے۔وے قوم کا مستقبل اور قوم کا نوجوانن کا مسائل اور ضرورتن سو بے خبر ہاںیا پھر مجرمانہ انداز میں انجان بنا ہویا ہاں۔بہتر انداز ای ہے کہ وے لوگ جو سرکاری عہدان پے رہتے ہوئے قوم کے مارے کوشش کراہاں۔وے لائق ستائش ہاں۔ان کی قدرکرنو قوم پے لازم ہے۔لیکن جو لوگ ریٹائرڈ منٹ کے بعد اپنو پیٹ درد میو قوم کے ظاہر کراہاں۔اُنن نے چاہے دوران سروس کچھ ڈھنگ کا کام میو قوم کے مارے کرجاواہاں۔میو قوم اے بھی چاہے کوئی ایسو انتظام کراں کہ حاضر سروس لوگن سواپنی قوم کے مارے کیسے بہتر سروس لے سکاہاں؟
صحابہ کرام اور رفاہی کام
صحابہ کرام اور رفاہی کام پیش لفظ اللہ جل مجدہ اور پیغمبر اعظم و آخر علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک پاکیزہ مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لیے اس کے جملہ خد و خال کو بیان فرمایا۔ ان خوبیوں کو بیان فرمایا جو کسی بھی کامیاب معاشرے کا حسن ہوتی ہیں اور اُن مفاسد اور گمراہیوں کو بھی کھول کھول کر بیان فرمایا جو معاشرتی حسن کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہیں اور پورا معاشرہ شکست وریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید نے اوامر و نواہی کے ساتھ ساتھ جو ماضی کی اقوام و ململ کے فقص بیان فرمائے ہیں اُن کا مقصد محض واقعات بیان کرنا نہیں بلکہ قرآن اُمت مسلمہ کو عروج و زوال کے یہ قصے اس لیے سناتا ہے کہ یہ وہ اقدار عالیہ اور اوصاف حمیدہ ہیں جنہیں اپنا کر مختلف اقوام کی تقدیر کا ستارہ کمال بلندی پر چمکا اور یہ وہ مفاسد اور خرافات ہیں جنہوں نے اقوام کو قعر مذلت میں گرا دیا۔ اور یہ سنت الہیہ ہے کہ انہی بنیادوں پر اللہ جل مجدہ نوازتا ہے اور غضب ناک بھی ہوتا ہے۔ قرآن کے مخاطبین اور محمد رسول اللہ صلی علمی ریم کے نام لیواؤں میں سے ایک معتدبہ طبقہ آج اغیار کی تقلید میں جہاں اپنی اقدار اور شناخت سے محروم ہو چکا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ ان ابدی محاسن سے بھی تہی دست ہو چکا ہے جو کبھی مسلم معاشرے کا طرۂ امتیاز تھے۔ دعوۃ اکیڈمی، بین الا قوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد اقدار اسلامیہ کو پروان چڑھانے اور اخلاقی برائیوں کے تدارک کے لیے جہاں ٹریننگ پروگرام کا اہتمام کرتی ہے وہاں مختلف طبقات کے لیے آسان، عام پیرایہ بیان میں قرآن وسنت کی روشنی میں ضخیم کتب کے ساتھ ساتھ کتا بچہ جات کی طباعت کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ صحابہ کرام اور رفاہی کامزیر نظر کتاب بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اللہ جل شانہ دعوۃ اکیڈمی کے کارکنان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور اپنے فضل خاص سے سرفراز فرمائے، آمین۔پروفیسر ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن۔ڈائریکٹر جنرل، دعوۃ اکیڈمیبین الا قوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کتاب یہاں سے حاصؒل کریں
آنکھوں کی حفاظت۔سرمہ اور وضو کاکمال
آنکھوں کی حفاظت۔سرمہ اور وضو کاکمال اس وقت جس قدر لوگ عینک یا لینز کی طرف آرہے ہیں یہ کوئی صحت مند رجحان نہیں ہے،بالخصوص ڈٰجیٹل دنیا میں آںکھوں کے بارہ میں زیادہ شکایات دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ایسے لوگ شاذ و نادر ہی ملیں گے جو موبائل سکرین پر نگاہین گاڑے ہوئے نہ ہوں۔نوجوان نسل جس تیزی سے آنکھوں کے امراض میں مبتلا ہورہی ہے۔محسوس ہوتا ہے کچھ عرصہ بعد عینک نہ پہننے والوں کو تعجب کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔یعنی وہ دن دور نہیں جب اس مرض/کمزوری کو ایک حقیقت سمجھ کر اپنا لیا جائے۔۔ آنکھ اور طب قدیمطبی کتب میں آنکھوں کے بارہ میں بہت سی ہدایات موجود ہیں۔کحل/سرمے/بھپارے۔ معجونات۔سبز جڑی بوٹیوں کا مختلف طریقوں سے استعمال۔سونے جاگنے سے متعلق۔بیش قیمت ہدایات۔جب ہم پرانی کتب کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ امراض چشم کی یہ کتب شاید ہماری ضروریات دیکھ کر ترتیب دی گئی تھیں۔مثلاََ الحاوی الکبیر فی الطب جلددوم۔کتاب الفاخر فی الطب جزو دوم کا چھٹا بات۔الزہراوی نے تو امراض چشم کا سرخیل ہے ۔اس کے علاوہ ہندو ویدک۔یونانی طب۔جدید دور میں رائج شدہ قانون مفرد اعضاء۔طب شاہدروی۔ہومیو پیتھک وغیرہ معروف طرُق علاج میں امراض چشم پر بہت کچھ موجود ہے۔لیکن امراض چشم تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ لوگ آئی سپیلشٹوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔مہنگے سستے علاج جو بھی تجویز کئے جائیں قبول کرتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ جدید دور کے ماہرین نے بہت سے باتیں بتائی ہیں جو پہلی کتب میں موجود نہیں تھیں۔کیونکہ یہ باتیں جدید آلات و تحقیقات کی مرہون منت ہیں۔ آنکھوں کی حفاظت۔سرمہ اور وضو کاکمالضروری تو نہیں کہ ہم معاشرتی طورپر مہنگے علاجوں کو اپنائیں۔ہمارے پاس بہت بڑا ذخرہ طبی کتب کی شکل میں محفوظ ہے ان سے استفادہ کیا جاسکتا۔ہرکسی ی خواہش ہے کہ اس کی آنکھیں بہترحالت میں رہیں۔لیکن بہتر صورت صرف مہنگے داروں ۔ٹیسٹ۔یا کیپسول ہی نہیں ۔بلکہ بہتر غذائی اور مختلف تدابہر۔سونے جاگنے۔تیز روشنی میں کام کرنے۔موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر جمائے بیٹھے رہنے وغیرہ میں اعتدال سے بھی ممکن ہے۔ آنکھوں کی حفاظت۔سرمہ اور وضو کاکمالمثلا صبح سویرے جب نماز فجر کے لئے بیدار ہوتے ہیں تو وضو کرتے ہیں۔ناک سنکتے ہیں۔چہرہ دھوتے ہیں۔اللہ توفیق دے تو وضو کرکے نماز فجر ادا کرتے ہیں۔۔ا س سے بے شمار طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ آنکھوں کو دوران وضو نمی ملتی ہے جہاں کثافت اور دن بھر کی آلائیشوں سے آنکھوں پر بوجھ آجاتا ہے۔صبح قدرتی طورپر صاف ہوکر وہ گوشہ چشم میں جمع ہوجاتا ہے۔صبح تازہ پانی کے چھینٹے اس کثافت کو بھی صاف کرتے ہیں ساتھ میں ان حصوں کو بھی نرم کرتے ہیں جو آنکھوں کی حفاظت کے لئے موقع محل کی مناسبت سے رطوبات کی افزائش کرتے ہیں۔آنکھ کا بہت حساس معاملہ اور اس کی پیچدگی اتنی زیادہ ہے جس کے بارہ میں ہر کوئی فکر مند رہتا ہے۔صبح تازہ پانی سے آنکھوں اور چہرے کو تر کرنا نگاہ کی تیزی کے لئے بہت مفید ہوتا ہے۔بالخصوص موبائل فون پر نظریں گاڑنے والوں کے لئے یہ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔اسلامی ہدایات کے مطابق نیند و بیداری کے اعمال ہی زندگی میں اپنا لئے جائیں تو بہت سارے صحت مندانہ فوائد تحفے میں مل جاتے ہیں۔رات کے وقت رسول اللہﷺ کے بارہ میں روایات(شمائل ترمذی۔اور دیگر کتب احادیث معتبرہ میں منقول ہے کہ رسول اللہﷺ رات کے وقت سرمہ کا استعمال کرتے تھے۔ایک آنکھ میںتین تین سلائیاں لگاتے تھے۔اپنے متعبین کو ہدایات فرماتے اثمد سرمہ لگایا کرو یہ بالوں کو اگنا اور نگاہ کو تیز کرتا ہے۔(حدیث)اثمد سرمہ ہو کوئی دوسرا سرمہ آںکھوں کی کثافت کو صاف کردیتا ہے ۔سرمہ انتہا درجہ کا انٹی بائیوٹک ہے۔دن بھر پڑنے والی دھول مٹی اور جراثیموں سے بھری ہوئی فضاء کی زہریلی ہوا سے پیدا ہونے والے انفیکشن کو ختم کرنے کا سہل الحصوص طریقہ ہے۔جب رات کو سرمہ لگایا جاتا ہے تو آنکھ بند رہتی ہے۔سرمہ آنکھ کی گہرائی تک اثر کرتا ہے۔صبح بیدار ہوتے وقت وہ تمام کثافتیں جو غیر محسوس انداز مین آنکھوں میں داخل ہوئیں تھیں باہر آجاتی ہے۔صبح پانی کے چھینٹے مارنا انہیں صاف کرکے آنکھوں کو مجلا کردیتا ہے۔اگلے دن کے لئے آنکھیں پھر سے تازہ دم ہوجاتی ہیں۔ جب کوئی سخت چیز یا غیر موافق ذرات آنکھ میں پڑتے ہیں تو فورا آنسو بہنا شروع ہوجاتے ہیں۔ان غدود اور مخفی اعضاء کو تری کی ضرورت ہوتی ہے۔وضو سے یہ کام بہتر طریقے سے پورا ہوجاتا ہے۔۔البتہ آشوب چشم۔یا آنکھوں کے زخم کی صورت میں خالص پانی کا استعمال نقصان دے سکتا ہے۔۔اس کے لئے کچھ عرقیات اور لیکوڈ اشیاء طب میں موجود ہیں ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتاہے
مطب اور نسخہ نویسی
مطب اور نسخہ نویسی طبیب کی صفاتعلم طب بہترین علم ہے بہترین علم ہے ،، اس کی غرض وغایت انسانی صحت کی حفاظت اور امراض کو دور کرنا ہے۔ اس کی تکمیل علم و عمل دونوں سے ہوتی ہے ، طب کا علم کتابوں کے مطالعہ ، اساتذہ و فن کے ماہرین کے لیکچر سننے سے اور کا نفرنسز ، سیمنار، اور ورکشاپ میں شرکت کرنے سے حاصل ہوتا ہے، اور طب کی عملی مشق ہسپتالوں میں اوپی ڈی اور آئی پی ڈی میں ماہرین فن کی صحبت میں اور نگرانی میں مریضوں کا معائنہ کر کے تشخیص کرنے اور مناسب نسخے تجویز کرنے سےحاصل ہوتی ہے۔ نسخہ نویسیطب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طبیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر محنت کر کے کچھ ضروری صفات پیدا کرے، یہ صفات اگر طبیب کے اندر حقیقت کے اعتبار سے پیدا ہو جائیں ، تو وہ طبیب انسانی معاشرت کے لئے ایک بہتے ہوئے چشمے کی مانند لوگوں کو فیضیاب کر سکتا ہے مختصراً ان صفات کو درج کیا جاتا ہے:پہلی صفت :اسے تمام امراض سے واقفیت ہو، مرض کی تشخیص کے لیے جن عوامل کی ضرورت ہوتی ہے اس سے بخوبی واقف ہو، اسی طرح مفر دو مرکب ادویہ کے افعال، مزاج اور مقدار خوراک اور مواقع استعمال زبانی یاد ہوں۔ دوسری صفتطب کے بنیادی نظریات مثلا طبیعت کا تصور ، مزاج و اخلاط کا نظریہ ، اسباب ستہ ضرور یہ ، علاج به غذا، علاج بالضد اور علاج بالتد بیر سے بھر پور واقفیت کے ساتھ اس پر اعتماد بھی ہو۔تیسری صفت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم و عمل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک عام کرے اس کو چھپائے نہیں بقراط کا قول ہے: علم و فن کا بخیل مال و دولت کے بخیل سے بڑا مجرم ہے۔ چوتھی صفت:طبیب کو چاہیے ہمہ وقت اپنے علم و فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے شوق اور لگن کے ساتھ اپنے کام میں مشغول رہے، طبیب کے اندر سادگی، حلم و بردباری، تواضع وانکساریہونی چاہیے ، اسے ہدایت کا چراغ اور حکمت کا سر چشمہ ہونا چاہیے۔پانچویں صفت:طبیب کے اندر لوگوں کے تین ده ردی، حسن اخلاق اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔چھٹی صفت:طبیب کو اپنی قابلیت پر فخر و گھمنڈ نہیں ہونا چاہیے اور ہم پیشہ لوگوں پر لوگوں پر کسی قسم کی تنقید و تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بنیادی اصولمرض کی تشخیص ہونے کے بعد طبیب کو پر سکون ماحول میں غور و فکر کرنے کے بعد نسخہ تجویز کرنا چاہیے۔سب سے پہلے مریض کا مزاج اور مرض کا مزاج سمجھنا چاہیے۔اسی طرح نسخہ تجویز کرتے وقت دواؤں کا مزاج اور موسم و عمر کا مزاج بھی پیش نظر ہونا چاہیے۔اگر کوئی ایسا مرض ہے جو کہ تدابیر سے دور ہو سکتا ہے تو علاج بالتد بیر کے ذریعے علاج کریں اسی طرح اگر غذاکے ذریعے دور ہو سکتا ہو تو غذا کے ذریعے علاج کریں، علاج بالدوا کی ضرورت سمجھیں تو نسخہ لکھنے سے قبلھوالشافی کی ی لکھیں۔ بنیادی اصولاپنے ذہن میں اس بات کو دھیان میں رکھیں کہ شفا صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ، طبیب اور دوائیں بطوراسباب کے ہیں۔اسی طرح نسخہ لکھتے وقت مریض کے ساتھ ردی خیر خواہی اور اس کا فائدہ پیش نظر رہنا چاہیے۔چه ند مختصر اور جامع ہونا چاہئے، ایسی دوا لکھنی چاہیے جو زیادہ مہنگی نہ ہو اور آسانی سے دستیاب ہو سکے۔ اوقات استعمال کے اصول. جوشانده، خیسانده، خمیره جات، عرقیات، شربت، معجون ، لعوق، ان چیزوں کو خلو معدہ یعنی صبح شاماستعمال کرانا چاہیے۔ اصلاحات کے اصولمسہل ادویہ کے نسخوں میں مفرح اور مقوی قلب ادویات بھی شامل کرنی چاہیے۔ ادویہ کے مضر اثرات کو کم کرنے کے مصلح ادویہ بھی نسخہ میں شامل کرنی چاہیے۔سمی ادویات کو بغیر مد بر کیے ہوئے ہر گز استعمال نہ کرانا چاہیے۔جو شاندہ کے ساتھ شربت بھی ہو تو اس کو جو شاندہ کے ساتھ ہی نسخے میں تحریر کرتے ہیں۔ مقدار خوراک کے اصولکسی نسخے میں جو شاندہ یا ادویہ لکھنی ہو تو درجہ اول و دوم کی حار ادویہ کا وزن 4 گرام اور بار د کا6 گرام لکھتے ہیں۔ درجہ سوم اور چہارم کی ادویہ مقدار میں کم لکھی جاتی ہیں۔درجہ سوم اور درجہ چہارم کی ادویات کو احتیاط کے ساتھ مطلوبہ مقدار میں لکھنی چاہیے۔عرقیات کا وزن ۵۰ سے ۱۰۰ ملی لیٹر ، شربت 20 سے 50 ملی لیٹر اور خمیر کا وزن 6 سے 12 گرام تک لکھنا چاہیے۔ اطعالیات اور قبض دور کرنے والی ادویہ رات میں سوتے وقت دی جاتی ہیں، ان کا وزن 6 سے 10 گرام تک ہو تا ہے۔( کشتہ جات کا وزن چاولوں میں لکھا جاتا ہے، یعنی چار چاول 1 / رتی تک عمومالعوق یا خمیرہ میں ملا کر دیتے ہیں ۔ بطور مثال زحیر مزمن کا نسخہ لکھا جاتا ہے تاکہ نسخہ نویسی کا خاکہ ذہن نشین ہو جائے:مثالھو الشافیقرص زحیر دو عد د اول، عقب آںریشہ خطمی 4 ماشہ ، تخم بار تنگ 4 ماشہ ، مروڑ پچھلی 4 ماشہ ، بیگری نیم کوب 6 ماشہ ،بادیان انجبار 6 ماشه در آب جوشانده صاف نموده ، شربت بیل 2 تولہ حل کرده بنوشند صبح و شام جوارش آملہ 6 ماشہ بعد غذائینسبوس اسپغول ۶ ماشہ بوقت خواب۔اوپراو پر مختلف ادویہ کی جو مقدار لکھی گئی ہے ؛ وہ بالغ اور متوسط قد و قامت رکھنے والے مریضوں کے لیے لکھی گئی ہے، اگر کوئی مریض بڑے قد و قامت والا اور زیادہ قوی ہو ؛ تو اس کے نسخے میں مقدار خوراک بڑھا سکتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی مریض دبلا پتلا نازک مزاج ہو تو مقدار نسبتا کم لکھتے ہیں۔بچوں میں دوا دیتے وقت مقدار خوراک کا ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے ، خاص طور پر درجہ سوم اور چہارم کی ادویہ سے پر ہیز کرتے ہیں، اور اگر شدید ضرورت ہو ؛ تو بہت تھوڑی مقدار میں دیں۔ بچوں میں دواؤں کی مقدار خوراک کے لیے ضابطے بچوں میں دواؤں کی مقدار خوراک کے لیے ایک ضابطہ مقرر کیا گیا ہے جو درج ذیل ہے : 1 سے 2 سال کی عمر کے بچوں میں بڑوں
۔مجربات حیات
مجربات حیات عرض مؤلف خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جس نے میرے ارادے کی تکمیل کی ہمت بخشی علم کسی خاندان کی وراثت نہیں ہے میں ایک بے علم خاندان کا فرد ہوں، باپ ان پڑھ تھا اس نے ہم بھائیوں کو پرائمری تک تعلیم دلوائی میں پانچ جماعت پڑھا اس کے بعد ملیریا بخار ہوا جو کہ ایک سال تک رہا اس کے اتر جانے کے بعد مثانہ کا ایک مرض لاحق ہو گیا جو کہ قریباً چودہ سال تک رہا اس دوران میں مختلف حکیموں کے پاس جاتا رہا اور غور کرتا رہا اور علم کا شوق پیدا ہو گیا۔ یہ بھی پڑھئے طب کی 300بہترین کتباسی دوران پاکستان بن گیا اور مہاجر کئی قسم کی امراض لے کر پاکستان آئے خاص کر ملیریا۔ اسہال مروڑ کمی خون عام کمزوری بچوں کا سوکھا اور طبیب بھی نزدیک کوئی نہ تھا اُن کا علاج معالجہ شروع کر دیا اور خاصا موقع علاج کا مل گیا اور کافی تجربات حاصل ہو گئے اور رسالہ الحکیم جو کہ لاہور سے نکلتا تھا اور رسالہ طبیب حاذق جو کہ مجرات سے نکلتا تھا لگوا لیے اور خاندانی حکماء کو ملنے کی کوشش کر کے ان سے خاندانی مجربات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور کافی مجربات مل گئے،مشہور زمانہ کتابیں بھی منگوالیں اسی دوران طب جدید شاہدرہ کے دو افراد حکیم مختار احمد صاحب اور حکیم صابر ملتانی مہینے سے مل کر طب جدید شاہد روی کا سبق حاصل کیا۔ اور ان کی تمام کتابیں خرید لیں خاص کر طبی اربعین جس میں ہومیو پیتھی اور ایلو پیتھی اور یونانی کے نسخہ جات ہیں ان کو تیار کر کے کافی فائدہ حاصل کیا۔ یہ بھی پڑھئے تقریبا ساڑھے تین سو علم طب کی کتابیں اردو زبان میںاسی دوران ایک دوست جو کہ طبیہ کالج کے فارغ بھی تھے اور طب جدید شاہدروی کے عامل بھی تھے ان کے بچے کو اسہال وقے شروع ہو گئے تمام یونانی اور طب جدید کے علاج کیے لیکن آرام نہ ہوا ایک ہومیوڈاکٹر لاہور سے تشریف لائے اُن کے ساتھ ذکر کیا ان سے حسب علامت دوا دی تو بچہ فوراً شفایاب ہو گیا اس واقعہ کے بعد اُن صاحب نے طب یونانی چھوڑ کر ہو میو پیتھی اپنا لی اور مجھ کو بھی کہا۔میں نے بھی کتب منگوا لیں اور تجربات شروع کیے اور ڈاکٹر رفیق احمد محلہ خرادیاں لاہور کے ساتھ آنا جانا ہو گیا انہوں نے مجھ کو سارے تجربات سمجھا دیے اور ایک سند بھی عطا کر دی اس کے بعد حکیم علامہ صابر ملتانی نے نظریہ مفرد اعضاء کی بنیاد رکھی پھر ان کے پاس آنا جانا شروع ہو گیا اور تعلیم بھی حاصل کی اور ان کی کتب خرید لیں ان تمام حالات میں مجربات کا کافی ذخیرہ حاصل ہو گیاکسی گاؤں میں جاتا تو اس گاؤں کے حکیم ڈاکٹر سے ملاقات کرتا اور اعلیٰ مجربات حاصل کرتا کسی گاؤں میں عطائی کے پاس کوئی نسخہ ہوتا تو اس سے جا کر حاصل کرتا حتی کہ اپنے اور کم و بیش تمام وقت کے رائج طبوں مثلاً آیورویدک یونانی طب جدید شاہدروی ہو میو پیتھی، بایو کیمک نظریہ مفرد اعضاء کے ہزاروں مجربات حاصل ہو گئے اور خیال کیا کہ جو ذخیرہ میں نے بڑی مشکل سے حاصل کیا ہے اس کو لوگوں تک پہنچاؤں اس ارادے سے قلم اٹھائی اور جولوگوں کے خاندانی نسخہ جات حاصل کیے یا کتابی تھے لیکن مجربات میں اعلیٰ قسم کے تھے تمام کو حاصل کر کے ایک کتابی شکل دے دی تا کہ خلق خدا اس سے فائدہ اٹھائے اور دکھی انسانوں کے لیے شفا کا باعث ہو۔میں نے کوئی نسخہ خواہ کیسی مشکل سے حاصل کیا ہے تمام کے تمام لکھ دیے ہیں اور دوسری جلد کا بھی انتظار نہیں کیا، اس کتاب میں بڑے بڑے اعلیٰ علاج جو عام کتابوں میں نہیں ملتے تفصیل کے ساتھ لکھ دیئے ہیں۔کشتہ جات جو کہ خود تیار کیے وہ بھی سارے لکھ دیے غذا کا ایک باب بھی لکھ دیا ہے۔ گرمی کے زمانہ میں روزہ داروں کے لیے شربت اور کئی اقسام کی ادویہ لکھ دی ہیں اور کئی شربت جو کہ خود تیار کر کے کافی شہرت حاصل کی ہے تمام لکھ دیے اس کتاب کے ہوتے ہوئے آپ کو کئی کتابوں کی ورق گردانی سے نجات مل جائے گی سر سے لے کر پاؤں تک تمام امراض اور زہر سانپ کے مجربات گر پڑنا، چوٹیں لگتا اور بچوں کے خاص علاج جو کہ کئی دواخانوں کے راز اور اشتہاری نسخہ جات ہر مرض میں لکھ دیئے ہیں۔کتاب کو ہر طرح کامیاب بنانے کی کوشش کی ہے ایک مبتدی سے لے کر تجربہ کار حکیم تک کی ضرورت پوری کرے گی انشاء اللہ پرانے اطباء کے اقوال بھی کافی مل جائیں گے اب دعا ہے کہ اس کتاب کو مقبولیت عامہ حاصل ہو۔ دعائے حکیم محمد حیات ساکن کیلے ڈاک خانہ خاص تحصیل و ضلع شیخو پورہ ایک لاجواب ہدایت ۔ میرا بیعت کا تعلق حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہور میلے کے ساتھ تھا اُن سے ذکر کیا تو فرمانے لگے کسی مرض کی سمجھ نہ آئے تو اس کا علاج نہ کریں اس لیے کہ جو زمانے کے تمام نظریات سیکھ لے اور دوسری ہدایت یہ کہ خدا کی مخلوق پر از حد رعایت کریں فیس نہ لیں اور کم سے کم قیمت وصول کریں۔ تمام عمر دونوں ہاتوں پر عمل کیا ہے خدا تعالیٰ قبول فرمائے آمین یا الہ العالمین اور آخرت میں کامیابی عطا فرمائے عذاب قبر سے محفوظ رکھے اور عذاب جہنم سے بچائے آمین یا اللہ العالمین ۔ مجربات حیات :-ڈاونلوڈ لنک :- حصہ اول :-حصہ دوم :
کتاب الصدمات
نصاب طب جدید کی عین مطابق دوسری کتاب۔ کتاب الصدمات سرج الاطباء حکیم مختار احمد۔ جانشین حضرتب موجد طب جدید۔بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريمدباچہمیں اپنے مالک حقیقی حکیم مطلق کا نام لے کر اس کتاب کو شروع کرتا ہوں جس کی رضا اور ارادہ سے ہی تمام کام سرانجام پاتے ہیں۔ رب الشرح لي صدري ويسر لي في امریالعلم علمان علم الأبدان وعلم الادیان – جاننا چاہئے کہ دنیا میں علم دو طرح کےہیں۔ ایک دینی یعنی روحانی علم دوسرے بدنی علم۔ خالق حقیقی نے اس جہان کی تمام موجدات کو دو چیزوں کا مجموعہ تخلیق کیا ہے۔ ایک روح اور ایک جسم بس ایک علم وہ ہے جس کا تعلق ہمارے روح سے ہے اور دوسرے۔کا تعلق جسم کے ساتھ ہے۔ اسی طرح دنیا میں امراض بھی دو قسیم کے ہی پیدا ہوتے ہیں۔روحانی امراض ہیں اور دوسرے جسمی امراض پس خالق حقیقی نے ان ہر دو اقسام امراض کے دفعیہ یا روک تھام کے لیئے معالج بھی دو قسم کے ہی پیدا کئے ہیں روحانی علم جانے والے حکیم کہلاتے ہیں ۔ اور بدنی علم جاننے والے طبیب کہلاتے۔ ہیں ۔ روحانی علم کو مذہب اور بدنی علم کو علم طب کہا جاتا ہے ۔ دنیا کی پیدائش – سے لے کہ آج تک یہ دونوں علم ضرورت زنانہ اور تمدن کے لحاظ سے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ان ہر دو قسم کے معالجوں کے مقا صد میں کبھی تبدیلی نہیں ہوئی جس طرح ایک روحانی معالج خواہ وہ کسی طریق یا مذہب کا پابند ہو اسکے مد نظر یہی بات ہوتی ہے۔ کہ دنیا کو اسی راہ پر چلایا جائے ۔ کہ جس پر چل کر وہ اپنے مالک حقیقی کی رضا حاصل کرتے ہوئے پیدائش کی اصل غرض کو پورا کر سکیں۔ اورروحانی امراض کی دنیا میں پیدائش نہ ہو ۔ اور روحانی مریض امراض سے نجات پائیں ۔ اسی طرح بدنی معالج کا بھی خواہ وہ کسی طریق طب کا حامل ہو۔ یہی کام اور خواہش ہوتی ہے۔ کہ دنیا میں ایسے طریق اور علاج رائج کئے جائیں۔ کہ لوگ بدنی امراض سے محفوظ رہیں ۔ اور جوکسی مرض میں گرفتار ہیں۔ وہ اس سے نجات حاصل کر سکیں ۔پس علم طب سے مراد وہ علم ہے ۔ کہ جس میں بدن انسان کے متعلق بحث ہو۔ اور اس کی مدد سے ہم بدنی امراض سے محفوظ رہ سکیں اور پیدا شدہ امراض کو دور کر سکیں۔ چونکہ تمام مقاصد انسانی کا لب لباب بقاء صحت و ازالہ مرض ہے ۔ اسلئے یہ بھی نہایت ضروری ہے ۔ کہ ہمیں پیدائش امراض اور طریق علاج کے متعلق صحیح علم ہو۔ پس وہ صحیح علم اس دور میں صرف طب جدیدمشرقی ہی پیش کرتی ہے ۔ ہندوستان میں جس طرح قوموں مذہب اور طرز معاشرت میںاختلاف بین پایا جاتا ہے۔ اسی طرح حصول صحت کے ذرائع بھی اس ملک میں مختلف ہیں۔ لیکن طب جدید ایسا عالمگیر اور آسان علم طب پیش کرتی جس میں کسی قسم کی پیچیدگیاں نہیں ۔ اور اس کا عامل یقین کی راہ پر چلتا ہوا ہرقسم کے امراض کا مداوا نہائیت، خوش اسلوبی سے کر سکتا ہے ۔اس کا طریق تشخیص اور طریق علاج ایسا مکمل اور آسان ہے کہ کسی دوسرے طریق علاج میں اس کی مثال نہیں ملتی مجھے اس جگہ کسی طریق طب کے نقائص بیان کرنیکی ضرورت نہیں بلکہ صرف طب جدید کی حقیقت کو واضح کرنا مطلوب ہے ۔ تاکہ حاملان طب جدید صحیح راہ عمل پر گامزن ہو کرمخلوق خدا کی بھلائی اور بہتری کا موجب بن سکیں ۔ طب جد ید کی وجہ تسمیہ : اس طریق طب کو ہم طب جدید مشرقی کے نام سے اسلے موسوم کر تے ہیں۔ کہ حضرت موجد طب جدید۔ استاذلا طبا حکیم احمد الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے خذما صفاودع ماکدر کے زریں اصل کے مطابق تمام مروجہ طبوں پر نظر کر تے ہوئے ان کی کمزوریوں اور اغلاط کو بے نقاب کر کے ایک نیا دستور العملتجویز فرمایا ۔اور وہ تمام نی اصول جو الگ الگ تمام طبوں میں پائے جاتے تھے۔ اس طب میں سب کو جمع کر دیا۔ چونکہ عام مروجہ طبوں کو تطبیق دے کر نئے سرے سے ایک ایسی طلب کی بنیاد ڈالی گئی جس کے اصول تمام طبوں پر حاوی ہیں۔ اور دنیا کی کوئی طلب نہیں جو ان کے ماتحت نہ آتی ہو ۔ اسلئے اسکول ہے مشرقی عالمیہ کہا جاتا ہے ۔ اب ذیل میں طلب سید شرقی کے اصول بیان کئے جاتے ہیں ۔امراض کی حقیقتصحت: جب تمام اعضای انسان اپنے پنے مینی کاموں کو یہ طور پر سر انجام دیتے ہوں تو اس حالت کا نام صحت ہے۔مرض : جب بعض اعضاء کے بعض افعال میں تقل طور پر بے اعتدالی واقع ہو۔ تو اس حالت کو مریض کا نام دیا جاتا ہے۔موت :- جب تمام اعضا ر اپنے اپنے فرائض منصبی کو نکلی چھوڑ دیں۔ تو اسے موت کے نام سے پکارا جائے گا۔پس جاننا چاہئے ۔ کہ تغیر افعال الاعضاء ہی ایک ایسا سبب ہے۔ جس سے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ کوئی سبب نہیں اور نہ ہو سکتا ہے۔ یہی ایک صحیح سبب ہے جس سے امراض ظہور پذیر ہو سکتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسا اصول ہے۔ جس پر باقی طریق علاج بھی باوجود دیگر سخت اصولی اختلافات کے ضرور متفق نہیں ۔ دنیا کی کوئی کبھی طب ایسی نہیں جو افعال الاعضا کے اعتدال کو مرض کے نام سے تعبیر کر سکے ۔ اور افعال الاعضاء کے تغیر کو حالت صحت کہہ سکے۔ ہر ایک طب با الاتفاق ایسے شخص کو تندرست ماننے پر مجبور ہے جس کے تمام اعضاء جسم اپنے اپنے مفوضہ افعال کو اعتدال سے بالا ہے ہوں۔ اور جس شخص کے بعض اعضاء طبعی اعتدال کو چھوڑ کر افراط یا تفریط کی طرف آن لائن پڑھیں ڈاون لوڈ کریں کتاب یہاں سے حاصل کریں
کچھ مشہور علامات اور انکا علاج
کچھ مشہور علامات اور انکا علاج (یہ مضمون ہماری کتاب تحریک امراض علاج۔سے مقتبس ہے،حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)مجھے اس باب کا اضافہ اس وقت کرنا پڑا جب میں نے اپنے چند شاگردوں کو یہ کتاب دکھائی، انہیں سمجھنے میں دشوار ی کا سامنا کرنا پڑا ۔اس لئے مجھے تمثیلاََ سمجھا نے کے لئے اس باب کا اضافہ کرنا پڑا ۔ یہ باب تھا تو غیر ضروری لیکن اگر کتاب و طریقہ کار کی تفہیم میں کام دے سکے، اس کے مطالعہ سے پوری کتاب سے استفادہ کیا جاسکے تو یہ چند اوراق کچھ زیادہ نہیں۔ہمارے احباب کچھ ایسے لوگ بھی آئے ہیں جو بنیادی طور پر طب سے شغف تو رکھتے ہیں لیکن علم ہونے کے باوجود انہیں بعض امراض میں جھجک محسوس ہوتی ہے انہیں لوگوں کی سہولت کے لئے ہم نے تجویز دی ہے کہ مشہور و معروف علامات کو بیان کرکے ان کا علاج لکھ دیا جائے تاکہ آنے والوں کو بھی آسانی رہے۔الف{انگلیاں ٹیڑھی ہونا}اگر مریض کی انگلیاں خود بخود ٹیڑھی ہوجایئں یہ غدی عضلاتی تحریک ہوتی ہے ۔ علاج کے لئے،حب اکسیر جدید غدی اعصابی ملین اور حب شفا ملاکر کھانے کو دیں ،انگلیوں پر گل کیسو اور پوست ریٹھہ ملاکر ٹھنڈے پانی سے ٹکور کرائیں جیسے ہی رطوبات کی کمی پوری ہوگی صحت لوٹ آئیگی، اللہ شفا دینے والاہے۔{ابکائیاں}ہر وقت کھانسی رہے بلغم خارج نہ ہوسردی میں سانس کی تنگی ہو ۔پمپ لینا پڑے، بعض اوقات دانتوں سے خون آنے لگے تو ایسے مریض اعصابی کھار اعصابی غدی تریاق ملاکر خمیرہ گائوزبان سے دیں اللہ شفا دیگا ۔{اپنڈے سائٹس/کانی آنت کا روم}پیٹ میں دائیں طرف سخت درد ہوتا ہے۔قبض کا رہنا کبھی قے منہ خشک،پیاس زبردست ریاح وغیرہ عضلاتی غدی تحریک ہوتی ہے ، علاج کے لئے۔غدی عضلاتی ملین۔حب السلاطین ۔غدی ہاضم وغیرہ دیں۔{اعصابی دردیں}جب اعصابی ٹھنڈی چیزیں زیادہ مقدا ر میں استعمال کی جائیں تو جسمانی حرارت کم ہوکر اعصابی دردیں شروع ہوجاتی ہیں،پسینہ زیادہ آتا ہے، پیشاب کی مقدار سفید رنگ میں کثرت سے آتا ہے۔خون کی کمی۔گھبراہٹ چلنے پھرنے میں معذوری ہر وقت لیٹے رہنے کو دل کرنا،چلنے میں سانس پھول جانا وغیرہ اعصابی عضلاتی علامات ہیںعلاج کیلئے اطریفل مقوی۔حب مقوی خاص حب فولادی ۔عضلاتی غدی مسہل دیں اللہ شفا دے گا۔ {آنکھوں سے پانی آنا}اکثر نزلہ زکام ہونا،ناک و منہ سے مسلسل پانی بہنا نیند نہ آنا ،پٹھوں کی دردیں وغیرہ ہوا کرتی ہیں، اعصابی عضلاتی تحریک ہوتی ہے۔ اس تحریک میں بلغم بنتا ہے اور ساتھ میں خارج بھی ہوتارہتاہے۔علاج کے لئے حب فولادی ۔حب اسطو خودوس ۔ وغیرہ دیں۔ٹکور کے لئے ہوالشافی چائے کی پتی3ماشے۔پوست خشخاش 3ماشے پھٹکڑی 3 رتی، تینوں کو تھوڑے سے پانی سے نم دیکر آنکھ پر باندھیں عضلاتی پردہ میں بہت قوت آجاتی ہے ۔{السر/عضلاتی}جو زخم مزمن صورت اختیار کرلے وہ السر کہلاتا ہے۔السر عضلاتی ۔ غدی۔اعصابی تینوں تحریکوں میں ہوتا ہے۔عام طور پر پہلے مقام مرض پر ہلکا ہلکا درد ہوتاہے، جو بڑھ کر سوزش وورم میں تبدیل ہوجاتا ہے، یہی حال رہے تو زخم بن جاتا ہے۔عضلاتی تحریک سے ہونے والا السر ترش ڈکاریں۔قبض۔ریاح کا دباؤ بھوک کی کمی۔چہرہ پر مایوسی، آنکھوں کی گرد سیاہ حلقے کیونکہ اس میں خلط سودا کی زیادتی، عضلاتی اعصابی تحریک ہوتی ہے۔غذا کے ساتھ دوا یہ دیں ۔ہوالشافی:گندھک آملہ سار5تولے، پارہ1تولہ،اجوائن دیسی4تولے رائی 4 تولے پہلے کجلی تیار کریں ،پھر اجوائن و رائی ملاکر باریک کرلیں ایک تا دو ماشے دن میں چار بار پانی کے ساتھ۔غدی عضلاتی ہے۔ہر قسم کے السر۔اندرونی و بیرونی ہر قسم کے زخم مفید ہے ترشی و تیزابیت کو چنددن میں ختم کردیتا ہے۔{السرغدی}یہ السر آنتوں کے غدد سوزش ناک ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، انتڑیوں میں مروڑ پیچس وغیرہ ہوتی ہے، آنتوں کے زخم پھٹنے کی وجہ سے خون رسنے لگتا ہے۔یہ غدی عضلاتی تحریک ہوتی ہے،خون پیپ آمیز پاخانے آتے ہیں،علاج کے لئے اعصابی غدی /اعصابی عضلاتی نسخہ جات دیں۔ ہوالشافی:ملٹھی۔سونف۔ہلدی۔تولہ، تولہ۔سب باریک کرلیں ایک تا دو ماشے تازہ پانی کے ساتھ دیں، اعصابی غدی اثرات کے حامل نسخہ ہے،انتڑیوں کی سوزش۔ ورم ،زخم السر کے لئے بے حد مفید ہے،پیچس کے لئے آب حیات ہے، دوسرا نسخہ بھی مفید ہے :ریٹھہ1تولہ،ہلدی5تولے،زیرہ سفید5تولے سب باریک کرلیں۔ایک تا دو ماشے دن میں چار بار۔اعصابی غدی ہے،پرانی پیچس انتڑیوں کے زخم میں مفید ہے سوزاک کے لئے تریاق ہے۔{اعصابی السر}یہ السر معدہ آنتوں اور غذا کی نالی کے اعصابی پردے میں زخم کی صورت اختیار کرجاتے ہیں اس السر مین خون نہیں آیا کرتا، ہاں درد ہوتا رہتا ہے۔لعاب دہن کی کثرت ہوتی ہے پیشاب زیادہ آتا ہے، پیٹ میں گڑ گڑ ہوتی ہے۔اعصابی غدی یا اعصابی عضلاتی تحریک ہوتی ہے۔اس میں عضلاتی غدی شدید دیں حب صابر وحب مقوی خاص ملاکر دیں۔{ایڑیوں کا درد}یہ عمومی طور پر عضلاتی تحریک سے ہوتا ہے کیونکہ حرکت کرنے سے درد کا احساس ہوتا ہے ۔یاد رکھئے کسی بھی عضلاتی علامت کا توڑ غدی تحریک پیدا کرنا ہوتا ہے یعنی غدی عضلاتی تحریک پیدا کردیں اللہ شفا دے گا۔کیونکہ خشکی کا توڑ گرمی ہوتا ہے۔{آنکھوں کی جلن}غدی تحریک کی وجہ سے یا گرم موسم میں آنکھوں میں جلن پیدا ہوجاتی ہے،سوزش و خشکی وغیرہ محسوس ہونے لگتی ہے،یہ غدی اثرات کا نتیجہ ہے۔علاج کے لئے ، ہوالشافی:افیون 4 ماشے شورہ قلمی1تولہ۔عرق گلاب1بوتل افیون وشورہ کو باہم ملا کر عرق میں حل کرلیں پھر نتھار کر بوتلوں میں بھر لیں۔اعصابی عضلاتی ہے، آنکھوں کی جلن،سوزش،خشکی وغیرہ میں بے حد مفید ہے، قطرہ قطرہ آنکھوں میں ڈالیں،خشکی کے کان درد کے لئے بھی مفید ہے جو لوگ ایک دوا کو مخصوص علامت کے لئے استعمال کرنے کے عادی ہیں انہیں اس کا تجربہ ضرور کرنا چاہئے۔{امساکی دواؤں کی تباہ کاری}سرکندھوں میں درد پٹھوں میں کھچاؤ اکڑاؤ وغیرہ پیدا ہونے کی زیادہ تر وجوہات امساکی دواؤں کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔اگر امساکی دوا کھاکر جماع میں مشغول ہوا ،اور کہیں درد شروع ہوگیا تو ساری زندگی درد پیچھا نہیں چھوڑتا۔ایسے مریضوں کی نبض غدی عضلاتی ہوتی ہے کیونکہ انگریزی دوائیں اکثر گرم (غدی) خشک (عضلاتی) ہوتی ہیں۔علاج کے لئے حب شفاء،اکسیر جدید،اعصابی عضلاتی اکسیر، مالش کے لئے روغن اوجاع دیں،جن سے پیشاب میںکمی ہو ایسی چیزیں بند کردیں،ایک دو ماہ میں رطوبتیں بکثرت پیدا ہوکر سب علامات دور ہوجائیں گی۔{آواز باریک ہونا
میو قوم کا محسن۔یامحسنن کی قوم۔
میو قوم کا محسن۔یامحسنن کی قوم۔ از۔ حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو۔میو قوم تعداد کا لحاظ سے بڑی قوم ہے۔اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔پاک و ہند اِن کی جنم بھومی ہے۔لامحالہ ان کی تعداد بھی انہیں جگہ پے گھنی ہونی چاہے۔بقول ریاض نور میو(رہبر میوات)چھوٹی میوات اور بڑی میوات۔ای ایسو لفظ ہے جانے دوری ایسے ختم کردی جیسے بیچ میں سو بارڈر نکال دئیو ہوئے۔میو قوم کا ہاتھ میں جب سو سوشل میڈیا آیا ئیو یاکا بارہ میں معلومات کو دائرہ بڑھتو جارو ہے۔میو قوم کی سوچ ثقافت ادبی روحانی۔خدمات۔سیاسی جدو جہد۔اور میو قوم کا لوگن کو سرکاری سماجی اور تنظمی عہدان پے براجمان ہونو۔مال و ثروت میں اضافہ کی وجہ سو گاڑی بنگلہ کار کوٹھین تک پہنچنو۔اور بھی بے شمار چیز ہاں۔جن کا توسط سو۔میون کی سوچ اور ان کا مزاج کا بارہ میں پتو چلے ہے۔اور ان کا باہمی معاملات میں رجحانات کہا ہاں؟یائی میڈیا کی وجہ سو ای بھی پتو چلو کہ میو قوم میں ایک گروہ ایسو بھی ہے وائے میون سو کچھ لینو دینو نہ ہے۔واکی ناک بہت لمبی ہے اُو سونگھتی ڈولے ہے کہ مفادات کہاں سو حاصل ہوسکاہاں؟۔ہوں جا ٹکے ہے۔جب تک مفادات دیکھاں واتھاں سو اُٹھا نہ ہاں۔ان کو طریقہ واردات ای ہے کہ ۔کائی نے اپنی محنت سو کوئی تمغہ حاصل کرو تو یہ کدا اٹھا کے ہوں پہنچ جاواہاں۔کائی نے کوئی نوکری حاصل کرلی تو وائے میو سپوت ثابت کرن کے مارے کھوب ڈھول باجا ن کے ساتھ رول مچاواہاں۔اگر کوئی گھنو آگے بڑھ جائے تو تمغہ ۔شیلڈ۔بیج۔پھولن ہار۔گلدستہ۔ایسے لئی پھراہاںجیسے کدی میونی اپنا روسا بالن نے منان کے مارے روٹین کی چھابی اے لئے ڈولے ہی۔اِننے یا بات سو کوئی غرض نہ ہے کہ جائے استعمال کررہا ہاں اُو زندہ ہے یا مرچکو ہے۔اگر مفادات وابسطہ ہوواں تو قبر پے سلامی دینا میں بھی کوئی حرج نہ ہے۔ جہاں مفادات نہ ہوواں۔ہون چاہے کوئی ذبح ہوئیو پڑو ہوئے۔ماررو بھی نہ لیواہاں۔ابھی تک ہم یاکو فیصلہ نہ کرسکا کہ ای سب کچھ میو قوم کا محسنن کے مارے ہورو ہےیا پھر قوم کو نام لیکے مفادات حاصل کرا جارا ہاں؟ ۔میو قوم واکی کامیابی پے شادیانہ بجائے جاپے محنت کری ہوئے۔قوم نے کوئی پڑھائیو ہوئے۔یا کائی کھلاڑی کی تربیت کری ہوئے۔کائی کو عہدہ دولوانا میں کوشش کری ہوئے۔۔۔میرو خیال ہے کہ ایسی مثال کم کم ای ملنگی۔اگر قوم کا ہونہار بچان کے مارے کوشش کراں۔تجارت کاروبار میں مدد کراں ۔پڑھائی میں معاونت کراں۔کھلاڑی۔ کی مدد کراں۔پھر وے لوگ کامیاب ہوواں تو قوم مستحق ہے کہ واپے سہائے۔اگر اپنا روز و بل بوتا پے کامیابی حاصل کرن والان کا گلان میں ہار گیرنو بنے ہے۔جو لوگ میو قوم کی کھاٹ اے کندھان پے اٹھائی ڈولا ہاں۔کہا اُن کے پئے کوئی ایسو لائحہ عمل ہے جاسو نوجوان قوم کو فائدہ پہنچے؟۔کمزورن کی مدد ہوئے۔ٹیکنیکل انداز میں آگے بڑھن کی کوئی صورت ہوئے؟۔۔۔۔میو قوم کا کھونٹیلن نے یا بارہ میں ضرور سوچنو چاہئے۔۔۔اگر قوم کی فلاح و بہبود صرف مالا پہنانا میں محسوس کراہاں۔اور دوچار فوٹو شیشن قوم خدمت ہے تو کوئی گلہ نہ ہے۔پھر جو کہن والا کہواہاں کہ۔۔کچران کی رکھوالی گادڑا کرراہاں۔۔۔۔سچی بات ہے۔
تاریخ طب و اخلاقیات اردو
تاریخ طب و اخلاقیات اردو طب عہد عتیق میںزمانہ ماقبل تاریخ تا چھٹی صدی عیسوی)CHAPTER-IMedicine in Ancient Times(Pre-Historic Times to 6th cent. AD)جب کبھی طب کی تاریخ پر فکر تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ علم کافی قدیم ہے اور اس کی تاریخ اس دور سے جاملتی ہے کہ جب فن تاریخ سازی بھی جو د میں نہیں آیا تھا۔ لیکن مورخین نے اس علم کی قدامت اور ابتدائی ہیئت سے متعلق اپنی اپنی آراء قائم کی ہیں اور کچھ مذہبی نظریات و عقائدسے بھی اس موضوع پر رہنمائی ملی ہے۔ بعد میں جب انسان نے تہذیب و تمدن کی منزلیں طے کیں اور اجتماعی زندگی اختیار کی تو دنیا میں انسانی آبادیاں وجود میں آئیں جو دنیا کی قدیم ترین اقوام اور ممالک کے وجود کا ذریعہ بنیں جن کو تاریخ میں قدیم تہذیبوں (ancient civilizations) کے تحت لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ان قدیم تہذیبوں کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ جب انسانی تہذیب و تمدن پروان چڑھا تو انسانی ترقی کی پہلی منزل ، علوم و فنون کا وجود میں آنا تھا، جن میں سے ایک علم طلب بھی تھا ، خواہ اس کی شکل کچھ بھی رہی۔ قدیم فنون میں بت تراشی، مصوری اور فن تحریر بھی شامل ہیں جن کی مدد سے تاریخی جانوروں سے حفاظت ممکن ہو۔ اس طرح جب کوئی بیماری درد، زخم، بخار، الٹی ، دست وغیرہ کی صورت میں نمودار ہوئی ہوگی تو فطری تقاضے کے تحت جانے ان جانے میں انسان نے اس کے علاج کی تدبیر ضرور کی ہوگی۔ چاہے آرام کے ذریعہ، چاہے کھانا پینا چھوڑ کر، یا کسی جڑی بوٹی یا گھاس پھوس وغیرہ کا استعمال کر کے۔ چنانچہ یہ اندازہ کافی حد تک درست ہے کہ انسانی وجود کےساتھ قدرت کی رہنمائی میں فن طب کی ابتدار ہوئی۔ عقائد انسان کیسے پیدا ہوا؟ جس طرح اس سوال کا جواب مختلف مذہبی عقائد کی روشنی میں مختلفہے مثلاً اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں آنے والے سب سے پہلے انسان حضرت آدم ہیں جبکہ غیر مسلموں کا عقیدو یہ نہیں ۔ اسی طرح علم طب کی ابتدار کے بارے میں مختلف مذاہب میں مختلف عقیدے ہیں ۔ کوئی مذہب اس فن کو انبیاء کرائم سے منسوب کرتا ہے جیسے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جب حضرت آدم دنیا میں تشریف لائے تو ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے منجانب اللہ آپ کو کچھ علوم ودیعت کیے گئے جس میں علم طب بھی تھا۔ عقیدہ یہ بھی ہے کہ حضرت اور بیس نے ہر قسم کے صنائع اور فلسفہ کی ابتداء کی تھی جس میں علم طلب بھی شامل ہے ۔ روایت یہ بھی ہے کہ حضرت سلیمان کو بذریعہ الہام علیم طلب کی تعلیم دی گئی تھی۔طب کی ابتداء کے بارے میں غیر مسلموں کے اپنے عقیدے ہیں۔ یہ ہودی حضرت سوئی کو مین طب کا موجد مانتے ہیں۔ مجوسی ( آتش پرست) اپنے پیغمبر زرتشت (Zoroaster) کوفن طب کا بانی قرار دیتے ہیں اور اہل ہنود اپنے بھگوان بر ہا کو ہرعلم وفن کا بانی (Founder) کہتے ہیں۔ بعض قوموں نے اپنے مذہبی پیشوا کو طبیب کا درجہ دیا۔ قدیم یونانی اپنے مذہبی پیشوا استقالی بیوس اول (1-Asclepius) کو طبیب اوّل کا درجہ دیتے ہیں۔ یونانیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اسقلی پیوس کو طب کی تعلیم حضرت اور لین نے دی تھی۔ حضرت اور لین کو یونانی زبان میں ” حرمس” (Hormes) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کتاب یہاںسے ڈائون لوڈ کریں
علم و علماء
مسلمانوں کے ہر طبقہ اور پیشہ میں علم و علماءمورخ اسلام۔حضرت مولانا قاضی اطہر صاحب مبارک پوری۔ؒحضرت مولانا قاضی اطہر صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ ، عصر حاضر کے معدودے چند دیدہ ور، صاحب نظر محقق مؤرخین اور اہل قلم کی صف اول کے سرخیل تھے۔ قاضی صاحب کی نوک قلم سے نکلی ہوئی ہر تحریر نے ارباب علم سے خوب خوب داد وتحسین وصول کیا اور ملک کے مستند اور قابل اعتبارتحقیقاتی اور نشریاتی اداروں نے بڑے فخر کے ساتھ اسے شائع کیا۔ زیر نظر کتاب ” مسلمانوں کے ہر طبقہ اور ہر پیشہ میں علم و علماء ” حضرت قاضی صاحب کی چند معرکۃ الآراء تصانیف میں سے ایک ہے اور موضوع کی ندرت، جامعیت، ترتیب مواد اور استنادی پہلوؤں کی روسے، دنیائے اردو میں منفرد اور پہلی باضابطہ تصنیف ہے۔ دراصل یہ ایک مقالہ تھا؛ جو قاضی صاحب نے ۱۹۵۵ء میں، جمعیتہ علمائے ہند کی دعوت پر انجمن خدام النبی بمبئی کی زیرنگرانی منعقدہ آل ان یاد بنی تعلیمی کنونشن ” کے موقع پر سپرد ” قلم کیا اور مجلہ البلاغ بمبئی کے تعلیم تعلیمی نمبر میں شامل اشاعت کیا گیا۔ ابلاغ کے اس شان دار علمی نمبر کو علمی حلقوں میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ بالخصوص مذکورہ بالا مضمون کو بڑی قدر و منزلت اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور پڑھا گیا۔ ملک کے اساطین علم و قلم نے ، اس کی بابت اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار کیا ، بیش قیمت تبصرے لکھے اور اپنی تحریروں میں اسے خوب خوب سراہا۔ نیز اس اہم اور علمی مقالے میں اضافے اور اس کی تکمیل کے مشورے دیے ، بعض بزرگ شخصیات اور موقر اداروں نے اس پر اصرار بھی کیا۔ اس کی جامعیت کے پیش نظر ، ملک و بیرون ملک کے بے شمار ار دور سائل نے اسے اپنی اشاعتوں میں شریک کیا۔مضمون کی اس مقبولیت اور پسندیدگی کے سبب حضرت قاضی صاحب نے ، عربی مآخذ کی امہات کتب کی مدد سے، اس کی تخیل اور موجودہ انگلی کے ازالے کی ٹھان لی اور اپنی بے پناہ علمی و تصنیفی مصروفیات کے باد صف، اسے ہر پہلو سے جامع اور کامل و عسل فرما دیا او بر اب یہ کتاب اس موضوع پر آئندہ کام کرنے والے مؤلفین اور ریسرچ اسکالرس کے لیے نہایت معتبر دستند ماخذ او شعل راہ بن گئی ہے۔ یہ کتاب منہ صرف یہ کہ ایک بصیرت افروز، چشم کشا اور فکر انگیز تحریر ہے؛ بلکہ بقول حضرت مولانا مفتی عقیق الرحمن صاحب عثمانی یہ مقالہ اس لائق ہے کہ صنعت و حرفت کی انقلاب انگیز توسیع و ترقی کے اس دور میں، مختلف جدید اور ترقی یافتہ زبانوں میں اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے علماء کو بھی اس کا بار بار مطالعہکرنا چاہیے ، جو علمی مشیخیت میں گم ہو کر اور زندگی کے عملی میدان سے بے و تعلق ہو کر بیٹھ گئے ہیں ۔ ( از مقدمہ کتاب)حضرت قاضی صاحب کا، زندگی کے آخری دور میں احقر کے قاضی صاحب نے نیاز مندانہ و تلمیذ انہ تعلق کے سبب ” شیخ الہند اکیڈمی“ کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عرصے میں حضرت کی متعدد کتابوں کی اشاعت کا اکیڈمی کو شرف حاصل رہا۔اکیڈمی کے روایتی اعلی معیار طباعت واشاعت کے باعث حضرت قاضی صاحب نے کتاب ہذا کا مسودہ ، اکیڈمی کو عنایت کیے جانے کی درخواست منظور فرمالی۔ مگر افسوس کہ جب مسودہ کتاب اکیڈمی کو موصول ہوا، تو حضرت قاضی صاحب عالم آخرت کو سدھار گئے تھے۔ کتاب یہاں سے ڈائون لوڈ کریں۔