چیونٹیاں کیسے بات کرتی ہیں: فیرومونز، سگنلز اور اجتماعی ذہانت قران کریم کی سورہ النمل میں چنیوٹیوں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے درمیان ہونے والا مکالمہ ذکر کیا ہے۔آج جدید تحقیقات کے نیتجہ میں ثابت ہوچکا ہے یہ کوئی افسانوی بات نہیں کہی گئی تھی بلکہ وہ حقائق تھے جو اس وقت تک لوگوں سے ناواقف تھے فہرست کا خانہتعارففیرومونز: چیونٹیوں کی کیمیائی زبانفیرومونز کی مختلف اقسام اور ان کے افعالچیونٹیاں فیرومونز کا کیسے پتہ لگاتی ہیں اور اس کا جواب دیتی ہیں۔چیونٹی کی مختلف انواع میں فیرومون کمیونیکیشنچیونٹی مواصلات میں دیگر سگنلنگ میکانزمسپرش مواصلاتسمعی اور وائبریشنل کمیونیکیشنبصری مواصلاتچیونٹی کالونیوں میں اجتماعی ذہانتبھیڑ کی ذہانت اور فیصلہ سازی۔ٹاسک ایلوکیشن اور لیبر کی تقسیمموافقت اور لچک۔۔۔۔۔۔۔۔تعارفچیونٹیاں زمین پر سب سے کامیاب اور پرچر کیڑوں میں سے ہیں، جو تقریباً ہر براعظم اور ماحولیاتی نظام میں رہتی ہیں۔ وہ دلچسپ طرز عمل اور پیچیدہ سماجی ڈھانچے کی ایک وسیع رینج کو ظاہر کرتے ہیں، جس نے محققین اور فطرت کے شائقین کی توجہ یکساں طور پر حاصل کی ہے۔ چیونٹی حیاتیات کے سب سے دلچسپ پہلوؤں میں سے ایک ان کا جدید ترین مواصلاتی نظام ہے، جو انہیں انتہائی مربوط اور موثر انداز میں مل کر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس مضمون میں، ہم چیونٹی کے مواصلات کی حیرت انگیز دنیا کا جائزہ لیں گے، ان قابل ذکر کیڑوں کی زندگی میں فیرومونز، سگنلز، اور اجتماعی ذہانت کے کردار کو تلاش کریں گے۔ ہم چیونٹیوں کی کیمیائی زبان کی جانچ کرکے شروع کریں گے، مختلف قسم کے فیرومونز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جو وہ اپنی سرگرمیوں کو بات چیت اور ہم آہنگی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگلا، ہم چیونٹیوں کے ذریعہ استعمال کردہ دیگر سگنلنگ میکانزم کی چھان بین کریں گے، جیسے سپرش، سمعی اور بصری مواصلات۔ آخر میں، ہم چیونٹی کالونیوں میں اجتماعی ذہانت کے تصور پر بات کریں گے، اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ ان کے قابل ذکر مواصلاتی نظام کس طرح ایک نسل کے طور پر ان کی کامیابی اور ماحولیاتی چیلنجوں کی ایک وسیع رینج سے نمٹنے کی ان کی صلاحیت میں حصہ ڈالتے ہیں۔ چیونٹی مواصلات کی دنیا کے اس دلچسپ سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہوں اور ان چھوٹی مخلوقات کی ناقابل یقین پیچیدگی اور کارکردگی کو دریافت کریں جو پوری دنیا کے ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فیرومونز: چیونٹیوں کی کیمیائی زبانچیونٹیاں بنیادی طور پر کیمیائی سگنلز کے ذریعے بات چیت کرتی ہیں جنہیں فیرومونز کہا جاتا ہے۔ یہ کیمیائی مرکبات انفرادی چیونٹیوں کے ذریعہ جاری کیے جاتے ہیں اور ان کے گھونسلے کے ذریعے ان کا پتہ لگایا جاتا ہے، جس سے وہ اپنے ماحول، وسائل کی موجودگی اور کالونی کی حالت کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔ فیرومونز کی پیچیدگی اور خاصیت چیونٹیوں کو اپنی سرگرمیوں کو مؤثر طریقے سے مربوط کرنے اور سماجی تنظیم کو برقرار رکھنے کے قابل بناتی ہے جو کہ بطور نسل ان کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔ اس حصے میں، ہم چیونٹیوں کے ذریعے استعمال ہونے والے فیرومونز کی مختلف اقسام کا جائزہ لیں گے اور کالونی کے اندر ان کے افعال کو دریافت کریں گے۔ فیرومونز کی مختلف اقسام اور ان کے افعالچیونٹیاں اپنی کالونیوں میں بات چیت اور تعاون کرنے کے لیے فیرومونز کی ایک صف کا استعمال کرتی ہیں۔ ان کیمیائی پیغامات کو ان کے مخصوص کرداروں کی بنیاد پر کئی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ہر ایک کالونی کی تنظیم اور کارکردگی میں حصہ ڈالتا ہے۔ چیونٹیوں کے ذریعہ استعمال ہونے والے فیرومون کی کچھ سب سے زیادہ مروجہ اقسام میں شامل ہیں : ٹریل فیرومونز:چیونٹیاں اپنے گھونسلے اور کھانے کے ذرائع کے درمیان راستے کو نشان زد کرنے کے لیے ٹریل فیرومونز کا استعمال کرتی ہیں۔ جیسے ہی کارکن چیونٹیاں خوراک دریافت کرنے کے بعد کالونی میں واپس آتی ہیں، وہ دوسری چیونٹیوں کو وسائل کی طرف رہنمائی کے لیے ٹریل فیرومونز جمع کرتی ہیں۔ جیسے جیسے زیادہ چیونٹیاں فیرومونز کے ساتھ پگڈنڈی کی پیروی کرتی ہیں اور اسے مضبوط کرتی ہیں، راستہ زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے، اضافی چیونٹیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور چارہ لگانے کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔الارم فیرومونز:خطرات یا خطرات کے پیش نظر، چیونٹیاں اپنے گھونسلے کے ساتھیوں کو خبردار کرنے کے لیے الارم فیرومون جاری کرتی ہیں۔ یہ غیر مستحکم کیمیکل کالونی سے تیز ردعمل کا آغاز کرتے ہیں، چیونٹیوں کو گھوںسلا کا دفاع کرنے، گھسنے والوں کو مشغول کرنے یا نقصان سے بچنے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔ملکہ فیرومونز:ملکہ چیونٹیاں الگ الگ فیرومون خارج کرتی ہیں جو کالونی کے اندر کارکن چیونٹی کے رویے اور تولید کو منظم کرتی ہیں۔ یہ کیمیکل ملکہ کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہیں، نئے تولیدی افراد کی نشوونما کو دبا کر اور کارکنوں کے تعاون کو فروغ دے کر کالونی کے سماجی ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہیں۔بروڈ فیرومونز:چیونٹی کے لاروا بروڈ فیرومونز پیدا کرتے ہیں، جو کارکن چیونٹی کے رویے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ترقی پذیر اولاد کی دیکھ بھال اور پرورش میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ فیرومونز کالونی کے اندر لیبر کی تقسیم کو بھی متاثر کر سکتے ہیں، کیونکہ بروڈ فیرومونز کے سامنے آنے والی چیونٹیاں بچے کی دیکھ بھال سے متعلق کام کرنے کے لیے زیادہ مائل ہو سکتی ہیں۔شناخت فیرومونز:چیونٹیاں گھونسلے کی شناخت کرنے اور دوسری کالونیوں سے گھسنے والوں یا چیونٹیوں کے درمیان فرق کرنے کے لیے شناختی فیرومونز پر انحصار کرتی ہیں۔ یہ کیمیکلز، جو عام طور پر چیونٹیوں کے کٹیکل یا exoskeleton پر پائے جاتے ہیں، ایک منفرد “کالونی دستخط” کے طور پر کام کرتے ہیں، جو چیونٹیوں کو اتحادیوں اور مخالفوں کے درمیان تفریق کرنے اور اپنے سماجی گروپ کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے قابل بناتے ہیں۔اوپر دی گئی مثالیں ان گنت فیرومونز کے ایک حصے کی نمائندگی کرتی ہیں جنہیں چیونٹیاں اپنی سرگرمیوں کو بات چیت اور ہم آہنگی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ چیونٹی کے مواصلاتی نظام کے تنوع اور موافقت کو ظاہر کرتے ہوئے فیرومونز کی مخصوص اقسام اور افعال انواع کے درمیان مختلف ہو سکتے ہیں۔ چیونٹیاں فیرومونز کا کیسے پتہ لگاتی ہیں اور اس کا جواب دیتی ہیں؟۔ چیونٹیاں اپنے اینٹینا کا استعمال کرتے
كتاب ما الفارق أو الفروق
كتاب ما الفارق أو الفروق أو كلام فى الفروق بين الأمراض تالیف ابو بکر محمد بن زکریا رازی تقدیم و تحقیق :ڈاکٹر سلمان قطایہ ((اردو ترجمہ) کہی ان کہی باتیں ۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو عقل و شعور بخشا۔اس کی جلاء کے لئے انبیاء مبعوث کئے گئے۔سب سے آخر میں خاتم النبیین حضرت محدﷺ کو تشریف لائے ۔سب پر درود و سلام ہو ۔آپ کی آل و اولاد اصحآب اہل بیت و زریات پر رحمتیں ہوں۔علم ایک صفت باری تعالیٰ ہے جسے بطور انعام انسانوں کو عطاء فرماکر تجربات کی بنیاد پر اس میں جلاء بخشی کا سامان بخشا۔ہر آنے والا دن گزرے ہوئے کل سے زیادہ علم کا سبب بنتا ہے۔جتنا علم آج ہے آنے والا کل اس میں اضافہ کا سبب بنے گا۔یہی سلسلہ نامعلوم وقت سے چلا آرہا ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔ایک وقت ایسا بھی آئےگا جب ایک عام انسان اتنی معلومات کا حامل ہوگا ۔جتنا پہلے علماء ہوا کرتے تھے۔ كتاب ما الفارق أو الفروق أو كلام في الفروق بين الأمراض…arbic اس کتاب کے مطالعہ سے عام انسان کو بھی اتنی معلومات ہوجائیں گی جتنی پہلے حاذق لوگوں کو بھی نہ تھیں۔پہلی نسل کے علوم دوسری نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں ۔بعد والے ان علوم کے ساتھ اپنے تجربات کو بھی شامل کرکے آنے والی نسلوں کے لئے وراثت میں چھوڑ جاتے ہیں۔ اخذ و استفادہ کا سلسلہ یوں چلتا رہے گا۔علم الطب ایک شریف علم ہے جس کی حاجت پر طبقہ و ملک اور ہر فرد کے لئے یکساں ہے۔جب تک دنیا قائم ہے تین شعبے بھی قائم رہیں گے(1)غذاو خوراک کا سلسلہ(2)لباس و تن پوشی کا سلسلہ(3)امراض و علاج دوا کا سلسلہ۔جب تک سانس ہے انسان ان تینوں باتوں کا محتاج ہے۔اگر کوئی علم طب میں حذاقت و مہارت پیدا کرلیتا ہے تو عزت و شہرت مال و دولت اس کے قدموں کی خاک بن جاتے ہیں۔ماہر طبیب کہیں بھی چلا جائے۔اس کی ضرورت ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان قدیم و نایاب جواہر عملی کو آپ کے سامنے پیش کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔قبل ازیں سوا سے زائد کتب کے تیار کئےجاچکے ہیں ۔۔یہ کتاب اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے اس میں ایک جیسے امراض جن کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں کے باریک فرق کو واضح کیا گیا ہے،تاکہ طبیب تشخیص مرض اور تجویز دوا میں خطاء کرنے سے محفوظ رہے۔بسا اوقات اشباء تشخیص معالج و مریض دونوں کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہے۔اگر یہ کتاب زیر مطالعہ رہے گی تو اس قسم کی پریشانیوں سے بچا جاسکے گا۔اس کتاب پر جمالی نگاۃ ڈالتے ہیں۔ پهلا مقاله امراض راس سے متعلق تفریقی نکات ۔ یہ پانچ فصلوں پر مختلف امراض دماغ کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ پهلی فصل ۔دوسری فصل: مختلف امراض چشم کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسری فصل: مختلف امراض گوش کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ ۔ چوتھی فصل : ناک و نتھنوں کے مختلف امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ پانچویں فصل : دانتوں کے مختلف قسم کے دردوں کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ دوسرا مقاله : آلات تنفس کے مختلف امراض کے درمیان تفریقی نکات۔ یہ تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ پهلی فصل حلق و حجرہ کے مختلف امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ : دوسری فصل: مختلف امراض رید کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسری فصل : سینے اور پہلو کے مختلف امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسرا مقاله معدہ، کبد، طحال، گردہ، مثانہ اور آلات تناسل کے مختلف امراض کے در میان تشخیص فارقہ ۔ یہ چارفصلوں پرمشتمل ہے۔ پهلی فصل معدہ کے متشابہ امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ دوسری فصل: کبد و طحال کے مختلف امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسری فصل: گردے اور مثانہ کے متشابہ امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ اور ۔ چوتھی فصل : آلات تناسل کو لاحق ہونے والے متشابہ امراض میں تشخیص فارقہ ۔ چوتھا مقاله : پورے بدن کو لاحق ہونے والے امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ ہ تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ پھلی فصل متشابہ بخاروں کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ دوسری فصل: اورام و قروح کے متشابہ احوال و عوارض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسری فصل: ناتبین کو عارض ہونے والے متشابہ احوال کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ پانچواں مقاله : نبض اور بول کی بعض متشابہ اقسام ۔ پھلی فصل متشابہ نبضوں کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ دوسری فصل: بول کے متشابہ احوال کے درمیان تشخیص فارقہ ۔۔ یہ تین سو زائد صفحات پر مشتمل کتاب معالجین کے لئے رہنما ثابت ہوگی۔اس میں سیرچ،کاپی پیسٹ ۔ضرووری باتوں کی نشان دہی کے لئے سہولت میسر ہے۔ایک طبیب اپنی ضرورت کے مطابق کسی بھی مرض اور تشخیصی التباس کو دور کرنے میں مدد لے سکتا ہے۔ آخر میں مطالعہ کرنے والوں سے التماس ہے کہ میرے والدیں اساتذۃ کرام۔اور میرے بیٹے سعد یونس مرحوم کو اپنی دعائوں میں ضرور یاد رکھیں ۔میرے چھوٹے بیٹے دلشاد یونس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ اس سے علمی کام لیتا رہے۔اور ادارہ کی طرف سے جاری اس علمی سلسلہ کو جاری رکھ سکے۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔
قتل حسین اصل میںمرگ یزید ہے
قتل حسین اصل میںمرگ یزید ہےاسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاء کے بعد(محمد علی جوہر)حکیم المیوات۔قاری محمدیونس شاہد میو۔اہل کربلاء کی قربانیاں اس قدرعظیم ہیں اگر ان کا تخیمنہ لگایا جائے تو حساب و کتاب کام کرنا چھوڑ جائے،اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اہل کربلاء نے اپنے بچوں سمیت قربانی کی مثال قائم کی۔اس کے بعد ان کا صبر و تحمل ان قربانیوں سے بھی بڑھا ہوا تھا۔کہ امام زین العابدین ؒ تین دھیئوں سے زائد اس دنیا میں مکین رہے لیکن صبر جا دامن نہ چھوڑا۔ایک وہ طبقہ ہے جو غم و غصہ کرتا ہے مصائب پر کئی کئی گھنٹے لچھے دار بیان کرتا ہے۔مصائب و ماتم میں نت نئے نکات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اٌنی روزی روٹی سیدھی کرتا ہےدوچار گھنٹے مصائب کربلاء بیاں بیان کرکے جب فراغت ہوتی ہے تو دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔جنہیں بے صبری سے ٹھونسا جاتا ہے۔اس وقت غم حسین کافور ہوچکا ہوتا ہے۔رونے و رلانے والے جب مخصوص مشق سے فارغ ہوتے ہیں تو دونوں سبیللوں او نیازوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔یعنی کچھ ہی دیر میں اپنے اس سوانگ کا پردہ اپنے ہاتھوں فاش کردیتے ہیں۔کہ بیان کربلاء ۔مصائب وغیرہ دراصل ایک ٹول ہے جس کی بنیاد پر اپنے مسلک اور روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔کیونکہ حاضرین کسی بھی مسلک ومذہب سے تعلق رکھتے ہوں سب کا یہی معمول ہے۔مقصد حسین اورکربلاء سے ملنے والے سبق کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ماناکہ یہ سب کچھ غم حسین مصائب کربلاء کی وجہ سے اہتمام کیا جارہا ہے؟تو امام حسین اور وقوعہ کربلاء کیا اچانک ہوگیا تھا؟ یا پھر ایک ڈیڑھ ماہ امام صاحب کچھ نظریات لیکر میدان میں نکلے تھے؟ایک شعر عمومی طورپر لوگ لکھتے اور پڑھتے ہیں۔بالخصؤص محرم الحرام میں۔قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہےاسلام زہدہ ہوتاہے ہر کربلاء کے بعد یہ بھی پڑھ سفر کربلاء کیا جس دین کو حسین نے زندہ کیا تھا ،وہ ہمارے پاس موجود بھی ہے کہ خالی دعوئوں سے گزارا کررہے ہیں؟اگر کوئی یہ سمجھادے کہ غم حسین میں پیش پیش لوگ اس دین کی تبلیغ کررہے ہیں جسے حسین نے بچایا تھا۔اسی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔جولوگ طریقہ حسینی سے انحراف کئے ہوئے ہیں ان پر افسوس کیا جاتا ہے؟آج عاشورہ کا دن ہے کوئی بتاسکتا ہے کہ وہ کونسا دین تھا جسے حسین نے کربلاء میں اپنا خاندان قربان کرکے بچایا تھا؟۔اس کی یہی خصوصیات ہیں جو ہم لوگ اپنی زندگیوں کی اپنائے ہوئے ہیں۔جس کی تبلیغ حسین نے کی تھی؟کیا آج بھی حسین کی طرح باطل کے سامنے کلمہ حق کہنے اور سنت حسینی کو اپنائے ہوئے ہیں ۔جن کاموں کے خلاف حسین یزید کے مقابل آئے تھے،ان سے نفرت ہوچکی ہے؟ایسا ہر گز نہیں ہے ۔حق تو یہ ہے کہ نام حسین کا لیتے ہیں اور پیروی یزید کی کرتے ہیں۔۔یہی ہماری زندگی کا خاصۃ ہے۔کربلا کا بیان اپنی ضروریات یا کاروباری ۔یا مسلکی ضرورت کے تحت کرتے ہیں ورنہ ہمیں خوف ہے کہیں کوئی ایسا انسان پیدا نہ ہوجائے جو سنت حسینی کو نافذ کرے اور یزیدی طریقہ کا انکار کرے؟قصدا امام حسین کی پیروی سے انحراف کرتے ہیں۔اور یزیدی طریقہ کار کو زندگی میں اپنائے ہوئے ہیں ۔گوبات زرا ٹیڑھی اور کہنے مشکل ہے۔لیکن یہ سب کچھ حقیقت ہے۔کسی سے جھگڑنے یا بحث و مباحثہ میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔صرف چند منٹ گریبان میں جھانک لیں۔اپنے اپنے کردار اور زندگی کی روش پر توجہ کرلیں۔اگر جذبات میں آکر لکھنے والے کو منکرین حسین میں شمار کرنے کا دورہ نہ پڑے تو یہ باتیں قابل غور ہیں۔ورنہ حسین سے کون بغاوت کرسکتا ہے؟
کتاب العمدۃ الجراحت۔ اردو۔
كتاب العمدة في الجراحت ۔(جلد اوّل) تالیف .امین الدولہ ابو الفرج ابن القصف المسیحی ..اُردو ترجمہ .ڈیجیٹل ایڈیشن۔ پیش کردہ:سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سوعد ورچوئل سکلز پاکستان کچھ اپنی باتیں۔ تمام من و احسان اس ذات بے مثال کے لئے جو اپنے کاموں میں کسی کی محتاج نہیں ہے۔وہ اپنے نظام زندگی کے نرالے ڈھنگ رکھتا ہے۔اور زندگی کے لئے وسائل مہیاکرتا ہے۔درود و سلام خاتم النبیین ﷺپر جس نے اس کا پیغام بلا کم و کاست دنیا تک پہنا اور ان کے آل و اصحآب پر جو بطور وسیلہ کار نبور کی ادائیگی کے لئے قبول فرمایا۔ کتاب عمدۃ الجراحت۔تین جلدوں پر مشتمل طبی دنیا کی بہترین کتاب ہے۔جس کی پہلی جلد آپ کے ہاتھوں میں ہے۔یہ کتاب اپنی جامعیت کے اعتبار سے عمدہ کاوش ہے۔مقالہ جات۔ابواب۔فصول اور ذیلی عنوانات۔اور جلی حروف سے خاص نکات کی وضاحت اس کی افادیت میں مزید نکھار پیدا کرنے کا سبب ہے۔ مصنف نے طبی موضوعات کو یکجا سمیٹا ہے وہ علم منافع الاعضاء۔علم الامراض۔شناخت الامراض ۔اسباب۔غذائیں اور دوائیں بڑے سلیقے سے لکھتے ہیں۔کتاب اکے اختتام پر جڑی بوٹیوں کو حروف تہجی کے اعتبار سے بیان فرماتے ہیں۔جو طبیب اس کو بغور مطالعہ کرےگا وہ بہت حد تک دیگر کتب کتاب عمدۃ الجراحت سےآزاد ہوجاتا ہے۔کچھ عنوانات کی فہرست دیکھئے۔ ا پہلا مقالہ : جراحت کی تعریف اور اخلاط کا بیان دوسرا مقالہ : اعضاء کا مزاج اور اعضائے مفردہ کی تشریح ۳- تیسرا مقالہ: اعضائے مرتبہ کی تشریح -۴- چوتھا مقالہ: امراض سے تعلق ان امور کا تذکرہ جن کا جاننا جرات کے لیے ضروری ہے پانچواں مقالہ بہ خون کے باعث پیدا ہونے والے اورام اور ان کی علامات چھٹا مقالہ: بلغم کی وجہ سے پیدا ہونے والے اورام اور ان کی علامات ساتواں مقالہ : صفرا کی وجہ سے پیدا ہونے والے اورام اور ان کی علامات آٹھواں مقاله : سودا کی وجہ سے پیدا ہونے والے اورام اور ان کی علامات نواں مقالہ : متعدد مادوں سے پیدا ہونے والی بیماریاں دسواں مقاله ان امور گلی کا تذکرہ جن سے علاج کے سلسلہ میں واقفیت ضروری ہے گیارھواں مقالہ : ان مفردات کا تذکرہ جو جراح کے لئے معالجہ میں ضروری ہیں۔ ،سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان کے محنتی کارکنوں نے اس کتاب کو اہل ذوق کے لئے پیش کیا ہے۔ ڈیجیٹل ایڈیشن میں سیرچ کی سہولت ضرورت کی اشیاء تلاش کرنا آسان۔کاپی پیسٹ کی سہولت۔ایڈیٹ ایبل فارمیٹ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اس کاوش کو نافع اور ادارہ ہذا کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔کتب کے حصول کے لئے ہماری ویب سائٹس وزٹ کیجئے۔www.dunyalaikm.com..۔ ..WWW.TIBB4ALL.com از۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان
کتاب الاغذیہ ابن زہر،غذا پر بہترین کتاب
کتاب الاغذیہ ابن زہر کچھ آپس کی باتیں۔ تمام حمدو ثناء اس باری تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے تخلیق کے بعد تغذیہ کا سلسلہ سہل الحصول بنادیا ۔انواع و اقسام کے اشیاء ہماری غذائی ضروریات کی تکمیل کے لئے باافراط بخشی ہیں۔اورہر مخلوق کی ضروریات کے بندوبست کردیا ہے ۔صلوٰۃ و سلام پیامبر حق ختم الرسلﷺ اور ان کی آل و اولاد اور اص حاب پر جن کا وجود اور کاوشیںہدایت و رہنمائی میں مرکزی کردار ہیں غذا سے علاج صدیوں پرانا ہے لیکن ہوس زر نے لوگوں کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی باندھ دی ہے،وہ غذا کے بجائے دوا تجویز کرتے ہیں۔گوکہ ہم پاک و ہند کے لوگ شعوری طورپر اس قسم کی بفسیات کے حامل ہیں کہ جب تک دوا نہ دی جائے علاج ممکن نہیں۔اسکا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایلو پیتھی جیسے علاج جسے دنیا بھر میں مسلمہ طورپر تسلیم کرکے اس کی سرپرستی میں بے شمار وسائل جھونکے جارہے ہیں ۔،یں غذا کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔البتہ دنیا کثیر المصارف تلخ تجربات کے بعد دوبارہ سے فطری علاج اور غذا کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوچکی ہے۔یار لوگ یہاں بھی اپنی تاجرانہ ذہنیت کے ساتھ آدھمکے ہیں۔اور انہوں نے غذا کو تقسیم در تقسیم کرکے۔کہیں وٹامنز کا عنوان دیا ہے تو کہیں۔ہارمونلز پروڈیکٹ بناکر پیش کیا ہے۔کہیں غذائی سمپلیمنٹ مارکیٹ میں بھیج دئے ہیں۔کاروباری ذۃن فطری و حقیقی غذا سے حتی الوسع لوگوں کو دو ر رکھنے کے جتن کررہے ہیں۔ کتاب الاغذیہ ابن زہر کی مختصرو جامع کتاب ہے۔اس تقسیم ابوابی اورحسن ترتیب بہت ہی دلکش ہے۔مصنف کھانے پینے آب و ہوا۔گھریلو اشیاء سے آگے بڑھ کرچرند پرند شکار۔حمام۔فواکہ۔روغنیات۔لباس۔غسل نیبد و بیداری کو مختصر انداز میں یوں سمیٹتے جاتے ہیں کہ پڑھنے والا لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔اور انہماک کے ساتھ آگے بڑھتا جاتا ہے۔مشتاق رہتا ہے کہ اگلی سطور میں کونسا خزینہ پوشیدہ ہے؟ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان نایاب و مفید پُر مغز کتب کی فراہمی میں بساط بھر کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔سوا سو کے قریب ڈیضیٹل فارمیٹ میں تیار کی جاچکی ہیں۔۔کتاب الاغذیہ ایک مفید اضافہ اور پڑھنے والوں کے لئے تحقہ ہے۔ طالب دعا۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی//سعد ورچوئل سکلز پاکستان ۔کتاب الاغذیہ ابن زہر ابن زھر (پیدائش: 1091ء— وفات: 1162ء) خاندان طب و ادب، شعر و سیاست میں اندلس کے نابغۂ روزگار خاندانوں میں سے ایک ہے، یہ خاندان ابتدا میں جفن شاطبہ کے جنوب مشرقی علاقے میں رہا اور وہاں سے مختلف علاقوں میں پھیل گیا، اس خاندان کے لوگ مختلف ادوار میں طب، فقہ، شعر، ادب، ادارت اور وزارت کے اعلی مراتب پر فائز رہے، ذیل میں ہم اس خاندان کے ان لوگوں کو زیرِ قلم لائیں گے جنھوں نے طب کے شعبہ میں کا رہائے نمایاں سر انجام دیا۔ عبد اللہ بن زہر[ترمیم] ان کا پورا نام “مروان عبد الملک بن ابی بکر محمد بن زہر الایادی” ہے، اپنے والد کی طرح فقیہ تھے، مگر طب میں شہرت پائی، پانچویں صدی ہجری میں بغداد، مصر اور قیروان میں اطباء کی سربراہی کی، پھر اپنے ملک واپس لوٹ گئے اور امیر مجاہد کے دور میں دانیہ منتقل ہو گئے جہاں امیر مجاہد نے ان کا خوب اکرام کیا اور یہیں سے ان کی شہرت اندلس اور مغرب میں پھیلی، ابن داحیہ “المطرب” اور ابن خلکان “وفیات الاعیان” میں لکھتے ہیں کہ دانیہ میں انھوں نے خوب جاہ وجلال، شہرت وعزت اور بہرپور دولت کمائی اور وہیں پر ان کا انتقال ہوا، جبکہ ابن ابی اصیبعہ لکھتے ہیں کہ وہ دانیہ چھوڑ کر اشبیلیہ آ گئے تھے جہاں ان کا انتقال ہوا۔ زہر بن زہر[ترمیم] ان کا نام “ابو العلاء زہر بن ابی مروان عبد الملک” ہے، یہ مندرجہ بالا کے بیٹے ہیں، ابی العلاء زہر کے نام سے معروف ہیں، یورپ سے دریافت ہونے والے بہت سے مختلف الاشکال آثارِ قدیمہ میں لاطینی زبان میں ان کا نام کندہ پایا گیا ہے جس سے اس زمانے میں یورپ کے طبی حلقوں میں ان کی شہرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، یہ فن انھوں نے اپنے والد سے سیکھا، ان کی دسترس فلسفہ اور منطق پر بھی تھی، جبکہ ادب اور فنِ حدیث قرطبہ کے شیوخ سے حاصل کیا، طب کی نظری اور عملی تعلیم دی اور بہت سارے تلامذہ ان سے فارغ التحصیل ہوئے، امراض کی درست تشخیص کے حوالے سے مشہور تھے، ان کی اس شہرت کی خبر اشبیلیہ کے امیر المعتمد بن عباد کو ہوئی تو انھوں نے انھیں بلاکر اپنے دربار سے منسلک کر لیا، 484 ہجری کو جب مرابطین نے اشبیلیہ پر حملہ کرکے اس کے امیر کو قید کر لیا تب تک وہ وہیں تھے، پھر سلطان یوسف بن تاشفین المرابطی نے انھیں اپنے دربار سے منسلک کر لیا اور وزارت کے منصب پر فائز کیا، ابن الابار اور ابن دحیہ کے مطابق ان کی وفات 525 ہجری کو کندھے کے درمیان ایک پھوڑے کی وجہ سے ہوئی اور ان کی لاش اشبیلیہ لے جائی گئی، مگر ابن ابی اصیبعہ کہتے ہیں کہ ان کی وفات اشبیلیہ میں ہی ہوئی تھی۔ عبد الملک بن ابی العلاء بن زہر[ترمیم] ان کا نام “ابو مروان عبد الملک بن ابی العلاء زہر” ہے، مندرجہ بالا کے بیٹے ہیں اور اس خاندان کے مشہور ترین فرد ہیں، اشبیلیہ میں پیدا ہوئے مگر مترجمین نے ان کے سالِ پیدائش کا ذکر نہیں کیا، ان کا سالِ پیدائش 484 اور 487 ہجری کے درمیان کا کوئی سال ہو سکتا ہے، اندلس میں اپنے زمانے کے مشہور ترین طبیب تھے، طب کی تاریخ ان کے خطرناک تجربات اور طب میں جملہ اضافوں اور دریافتوں کا تذکرہ سنہرے حروف میں کرتی ہے، وہ پہلے (عربی) طبیب تھے جنھوں نے حلق یا شرج سے مصنوعی غذائیت کا طریقہ دریافت کیا۔. یہ اور اس قسم کے دوسرے تجربات اور دریافتوں پر بحث انھوں نے اپنی طبی تصانیف میں بھی کی ہے جن میں قابلِ ذکر: کتاب التیسیر فی المداواہ والتدبیر جو کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہو چکی ہے، کتاب الاقتصاد فی اصلاح النفس والاجساد، کتاب الاغذیہ، کتاب الجامع۔ ان کے بیٹے ابو بکر بھی طبیب تھے اور ساتھ میں شاعر بھی تھے اور ایک بیٹی بھی طبیبہ تھیں، 557 ہجری کو وفاتی پائی، حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی وفات بھی اپنے والد کی طرح ایک پھوڑے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ محمد بن زہر[ترمیم] ان کا
کتاب الفاخر فی الطب دوم
کتاب الفاخر یہ دوسرا حصہ ہے۔یہ چھٹے باب سے شروع ہوتا ہے۔امراض چشم۔ساواں باب کان کے امراض۔آٹھواں نانک،نوواں منھہ دانت حلق۔دسواں سینہ۔گیارواں۔معدہ تک بیان کئے گئے ہیں۔کتاب میں رازی اپنے مخصؤص انداز میں امراخ کے اسباب و علل ۔علاض غذا و دوا بیان کرتے ہیں۔اپنے تجربات و مشاہدات کو ساتھ ساتھ بیان کرتے جاتے ہیں کتاب الفاخر فی الطب جلد دوم الحمد اللہ علی کل حال۔صلوٰۃ و سلام خاتم النبیین ﷺ اور ان کے آل و اصحاب پر۔ طبی دنیا میں نابغہ روزگار ہستیوں میں زکریا رازی بھی شمار کیا جاتا ہے،ان کی تصانیف ہر خاص و عام کے لئے یکسان مفید ہیں۔انسانی صحت کے بارہ میں جتنا مواد اور جس بھلے طریقے سے جمع گیا ہے اور کتاب کی زینت بنایا مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رازی پہلوں کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور راوی یا محقق طبیب کا حوالہ بھی دیتے ہیں،لیکن ان کا انداز تحریر اس قدر سہل ہے کہ عام پڑھا لکھا انسان بھی بسہولت مستفید ہوسکتا ہے۔اصل قدر و قیمت ماہر طبیب سے پوچھئے۔وہ کسی بھی مرض پر بحث کرتے ہوئے بے دھڑک دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔لیکن جہاں ضرورت محسوس کرتے ہیں اپنے مشاہدات و تجربات بھی برابر لکھ دیتے ہیں۔ابواب کے عناوین ان کے تحت مختلف سہ سرخیوں سے امراض کی نشان دہی کرتے ہیں۔غذا و دوا مفرد و مرکبات بیان کرتے ہیں۔اوزان کتاب الفاخر فی الطب جلد دوم لکھتے ہیں بنانے کی ترکیب بتاتے ہیں۔ قبل ازیں حصہ اول سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان کی طرف سے پہلے پیس کیا جاچکا ہے۔لیکن اس میں تصاویر کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔وقت کے تقاضوں کے پیش نظراس پر بھی دوبارہ سے محنت کرکے عناوین کے تحت مناسب تصایور شامل کردی گئی ہیں۔یہ دونں حصے ڈٰجیٹل ایڈیشن کی صورت میں قابل ریسرچ اور تلاش موضوع کی سہولت کے ساتھ حاضر خدمت ہے۔قابل قدر پر مغز کتب کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہے۔ ادارہ ہذا کی شائع شدہ کتب کی فہرست عند الضرورت طلب کی جاسکتی ہے۔ آکر میں استدعا کرتا ہوں کہ استفادہ کرنے والے حضرات جہاں کتاب میں کتابت کی اغلاط اور دیگر امور کی نشان دہی فرمائیں وہیں پر میرے والدین استاذہ کرام اور سعد بھائی(سعد یونس مرحوم )کو بھی دعائوں میں یاد رکھیں۔ از۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔
دست کار اہل علم
DastakarAhleSharaf – Dast-Kar-Ahl-i-Sharf-Tazkira-i-Nassajeen دست کار اہل شرفتذکرہ نساجین بسمہ تعالیٰ محدث و مؤرخ و فقیہ و علامہ حضرت مولانا ابو الماثر حبيب الرحمن الاعظمي قدس سرہ تمہید تذکرہ نویسی سوانح نگاری کافن وہ فن ہے جس کومسلم علمانے اس کے نقطہ عروج تک پہنچایاہےہمارے اسلاف نے اس کے ساتھ خاص اہتمام برتا ہے اور اس کو بڑی وسعت و ترقی عطا کی ہے۔ تاریخو تذکرہ نگاری کے ساتھ مسلمانوں کی دلچسپی کایہ عالم ہےکہ خو تاریخ بھی اس پر انگشت بدنداں ہے ۔ہر دور اور ہر زمانے میں ایک ایک موضوع پر نہ جانے کتنی کتابیں وجود میں آئیں۔ ہمارے اسلافمیں سے کسی نے ایک مخصوص خطہ اور علاقہ کو اپنا موضوع بنایا ، کسی نے ایک ملک کے حالات تحریر فرمائے کسی نے ایک شہر پر تصنیف و تالیف کے جوہر دکھائے کسی نے ایک صدی کے افراد کو اپنی تصانیف میں زندہ جاوید بنادیا ، علماء ادباء ، فقہار، محدثین کے حالات پوری دقیقہ رسی، باریک بینی اور امانت و دیانت کے ساتھ صفحہ قرطاس پر محفوظ کر دیا، جس کی برکت سے تاریخ و تذکرہ اور سوانخ و تراجم کا ایساذخیرہ وجودیں آیا کہ صرف اسی ایک فن سے عظیم الشان کتب خانہ تشکیل دیا جاسکتا ہے ۔محدث و مؤرخ و فقیہ و علامہ حضرت مولانا ابو الماثر حبيب الرحمن الاعظمي قدس سرہ کی تصنیف دست کا راہل شرف ، اس کتب خانہ میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے ۔ یہ کتاب حضرت محدث کبیر رحمہ اللہ علیہ نے اپنی علمی زندگی کے ابتدائی دور میں تحریر فرمائی تھی، لیکن اس کو زیور طباعت سے آراستہ ہو نا زندگی کے آخری دور میں مقدر تھا ، اس اثناء میں حسب ضرورت آپ نے اس میں بہت سارے اضافے بھی کیسے، غالباً حضرت محدث کبیر کا ارادہ صنعت و حرفت سے وابستہ اور دستکاری کرنے والے اہل علم و فن اور ارباب فضل و کمال پرستقل کتابوں کی تصنیف کا تھا، جس کا منظر کتاب دست کار ال شرف کا پہلا حصہ – تذکرۃ النساجین ، یارچہ بانوں کا تذکرہ ہے ، مگر اس کے بعد شاید آپ کو ہجوم اشتغال اور دوسرے علمی کاموں سے اتنی فرصت نہ ملی کہ وہ اس موضوع پر قلم اٹھائیں ۔ پیش نظر کتاب . دست کار اہل شرف ، یعنی تذکرہ النساجين ، پارچہ بافوںکاتذکرہ) اصحاب فضل و کمال کے تذکروں پرمشتمل ہے۔ اس کے اندر حضرت محدث کبیر نے سب سے پہلے انبیاء کرام علیم الصلوہ السلام)کے کپڑابننے کا تذکرہ کیا ہے، اس کے بعد صحابہ کرام (رضون الر علیم ) کا تذکرہ ہے، اس کے بعد یہ کتاب الف بائی ترتیب پر (حروف تہجی کے اعتبار سے) ہے۔ اس کا پہلا ایڈیش1306ھ،1985 ء میں حسن پریس موسے چھپا تھا، اس ایڈیشن میں یہ ترتیب توملحوظ تھی لیکن کچھ ایسے تذکرے بھی تھے جن کا ذکر اپنے مقام پر نہیں ہوسکا ، ان کو آخر میں تتمہ کی شکل میں شامل کیا گیا تھا، مثلاً حضرت جنید بغدادی کا تذکرہ حرف ج .کے تحت نہیں ہو سکا تھا، وہ بعد میں تتمہ کی شکل میں تھا، اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمه الله علهکا تذکرہ بھی آخری بطورتتمہ کے تھا صحابہ کرام می حضرت عمرو بن عاص اور حضرت زبیر بن عوام وغیر ہا کا تذکہ بھی آخر میں مذکور تھا۔ اسی طرح ایک صحابیہ قبیلہ بنت قیس تمھیں، ان کا ذکر بھی کتاب کے آخرمیں تھا۔ اور وہاں حضرت محدث کبیر نے تحریر فرمایا تھا کہ ان کا ذکر صحابہ کے ذیل میں ہونا چاہئے تھا مگر بھول سے وہاں ان کا ذکر نہیں ہو سکا ۔ اس ایڈیشن میں ترتیب جدید کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور قارئین کی سہولت کے لئے کوشش کی گئی ہے کہ اس قسم کے تمام تذکر دں کو اسی الف بائی ترتیب سے مرتب کر دیا جائے ۔ حضرت محدث کبیر کی یہ تصنیف مقبول خاص وعام ہوئی ہے، چنانچہ اس کا پہلا اڈیشن کئی سال ہوئے ختم ہو چکا تھا، اس اثناء میں اس کی طلب برابر بڑھتی رہی ، چونکہ بہت سے تارمین عربی وفارسی زبان سے آشنا نہیں ہوتے ، اور اس کتاب میں عربی وفارسی کی عبارتیں جا بجا بکھری ہوئی ہیں ، بہت سی عبارتوں کا ترجمہ تو خود حضرت مصنف علیہ الرحمہ نے بھی کیا ہے۔ لیکن بیشتر عبارتیں ایسی ہیں جن کا ترجمہ نہیں ہے ۔ پہلا ایڈیشن پڑھنے کے بعد بہت سے قارئین کرام کا تقاضا تھا کا عبارتوں کا اگر اردو رجمہ ہو جاتا تو اچھا تھا۔ موجودہ ایڈیشن میں ترجمہ کی بھی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے۔ یہ ترجمے حاشیے میں دیے گئے ہیں ، اور ان پر ہلالین (( کے درمیان (مسعود ) لکھ دیا گیا ہے ، تاکہ حضرت مصنف لیہ الرحمہ کے حواشی اور بعد کے ترجمہ کے درمیان امتیاز ہو سکے۔ موجودہ اڈیشن میں ایک نہایت بیش قیمت چیز اس کا قیمہ (دنیا میں پارچہ بانی کے مرکز) ہے ۔یہ حضرت محدث کبیر کا ایک مستقل رسالہ ہے ، یہ اگرچہ چند صفحات پرمشتمل ایک چھوٹا سا رسالہ ہے لیکن نہایت معلومات افزا پر مغز اور اپنے موضوع پر منفرد ہے ۔ مضمون اور مواد کے لحاظ سے اس کتاب کے ساتھ اس رسالہ کی خاص مناسبت تھی ، لہذایہ مناسب سمجھا گیا کہ اس کو بھی بطور ضمیمہ شامل اشاعتکر دیا جائے ۔ آخر میں دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں جو غیر معمولی تاخیر ہوئی ہے اس کے لئے ہم قارئینسے معذرت خواہ ہیں ، اور ان سے ہماری یہ درخواست ہے کہ دعا فرمائیں کہ اللہ جل شانہ ادارہ کی ان کوششوں کو قبول فرمائے ، اور حضرت مصنف علیہ الرحمہ کے دیگر علمی کارناموں کو قابل اشاعت بنانے اور منظر عام پر لانے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین ۔ کتاب یہاں سے حاصل کریں
محرم الحرام کی حقیقی روح۔
محرم الحرام کی حقیقی روح۔ از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔اسلامی دنیا میں عملی زندگی اور حقیقی اقدامات کو فراموش کردیا گیا ہے ۔لیکن انسانی جذبات تو جینے کے لئے کسی نہ کسی چیز کا تقاضاکرتے ہیں۔جینے کے لئے معاشرتی رنگینی زندگی کی چہل پہل کے لئے کچھ مواقع درکار ہوتے ہیں ۔یہ مواقع ہلہ گلہ کی شکل میں ہوں یا پھر مذہبی صورت میں ۔بہر حال ان کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ خواہش اور مذہب یہ خواہش اس وقت شدت اختیار کرجاتی ہے جب مذہب یا کسی معاشرتی پیغام کی حقیقی روح کو ترک کردیا جائے ۔اور من چاہے انداز میںکچھ رسومات کواپنا لیا جائے۔جب رسومات اور من گھڑت باتیں کہیں در آتی ہیں تو اصل روح کو دھکیل کر اپنی جگہ بناتی ہیں۔مثلاََ ایک دینی فریضہ نماز ہے۔روزہ۔زکوٰۃ۔حج صدقات و خیرات صلہ رحمی،معاشرتی حقوق کی پاسداری۔وغیرہ یہ سب باتیں ایک معاشرہ تشکیل دیتی ہیں،لیکن جب انہیں چھوڑ دیا جائے تو ایک خلاء پیدا ہوجاتا ہے اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے رسومات بدعات اور لایعنی باتوں کو اپنا لیا جائے۔وقت کے دھارے میں جب ایک نسل اپنا وقت پورا کرکے فنا کے گھاٹ اترتی ہے تو آنے والی نسل ان رسومات کو مذہبی درجہ دیتی ہے۔انہیں بلاجھجک اپنا لیتی ہے۔ساتھ میں گزری ہوئی نسل کے افعال و قوال۔کو بطور دلیل پیش کرتی ہے۔اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس سے حقیقی پیغام کو نقصان پہنچتا ہے کہ نہیں۔؟ یوں چند دیہائیوں بعد دین و مذہب میں پیدا شدہ رسومات خود مذہب کی جگہ براجمان ہوجاتی ہیں ۔جو جذبات مذہب ۔دین کی حمایت کے لئے ابھرا کرتے تھے اب وہ ان رسومات کی حفاظت اور ان میں بڑھوتری کے لئے موجزن ہوتے ہیں۔ اس وقت عمومی طورپر مسلمانوں کا جائزہ لیا جائےتو دین سے زیادہ رسومات پر مفتون ہیں۔جہلاء یا عوام الناس تو رہے ایک طرف سطحی الذہن علماء بھی ان رسومات کے محافظ بن جاتی ہیں ۔رفتہ رفتہ جید سمجھنے جانے والے لوگ بھی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، عوام ان کی خاموشی کو بطور جواز پیش کرتے ہیں۔ اس وقت ہمیں دین اور دینی ذمہ داریاں اور عائدہ کردہ فرائض اور تفویض کردہ ذمہ داریاں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔کچھ لوگ تو اپنے مسلکی و مذہبی رسومات و معاملات کے پرجوش مبلغ اور دافع ہیں بنے ہوئے ہیں کچھ لوگ سمجھ دار ہیں لیکن مصلحت و مفادات آڑے آتے وہ چُپ سادھ لیتے ہیں۔اس وقت محرم الحرام کے سلسلہ میں عجیب و غریب قسم کی رسومات۔واقعہ کربلاء پر غیر ذمہ دارانہ بیان بازی۔پورے نظام زندگی کا تعطل اس بات کا ثبوت ہیں کہ کربلاء والوں کے نام پرجو کچھ کیا جارہا ہے حقیقی روح اور عائد ہونے والی ذمہ داریوں کے خلاف ہے۔حقیقت سے انکا کوئی تعلق نہیں ہے۔عمومی طورپر لوگ اہلبیت اطہار صلوٰۃ اللہ علہیم اجمعین پر ہونے والے مظالم اور ناخوشگوار واقعات کو فرط جذبات سے حقیقی و غیر فطری انداز میں پیش کرتے ہیں ۔۔۔دوسرا طبقہ فریق ثانی کے دفاع میں گفتگو کرتے ہیں۔دونوںکا انداز گفتگو بے جوڑ ہوتا ہے۔مثلاََ جن مفاسد ات کو روکنے کے لئے یہ حادثہ فاجعہ وقوع پزیر ہوا۔وہ کیا تھے؟۔۔امام حسین رضی اللہ عنہ کن اعمال کے پابند تھے؟ اور کن باتوں سے منع کرنے تشریف لائے تھے۔؟۔۔جب پوچھا جاتا ہے تو امام حسین اور اہلبیت اطہار کی مظلومیت اورکردار کو عجیب طریقے سے پیش کیا جاتاہے؟سوچنا یہ ہے کہ جو پیغام حسین لیکر تشریف لائے کیا مبلغ و مدعی ومحبت حسین اس پر کار بند ہے۔جن کاموں کو یزید کرتاتھا سے رکے ہوئے ہیں؟مثلاََوہ شرابی تھے۔حقوق کی پامالی کرتے تھے۔غاصب تھے۔نبی ﷺ کی دین کو منہدم کرنے کے اقدامات میں ملوث تھے وغیرہ وغیرہ۔دوسری طرف حسین و اہلبیت کا روشن کردار ہے ۔آخری سجدہ میں بھی وہ اپنے عقائد و نظریات پر پابند رہے نماز نہ چھوڑی۔جماعت کے ساتھ نماز اداکرتے تھے۔ستم بالائے ستم کہ مخالف لوگ بھی آپ کے پیچھے نمازیں اداکرتے تھے۔ عبادات کو دیکھا جائے ۔تلاوت قران او ر تسبیحات کی طرف توجہ کی جائے تو فریق مخالف کچھ کم نہ تھا۔لیکن نظریات و پیغام میں متصادم تھے۔جمعہ کے دن جمعۃ مخالف فوج نھی امام حسین کے پیچھے جمعہ ادا کیا تھا؟کرداری طورپر دیکھا جائے توعمومی طورپر لوگ امام حسین کے افعال و کردار اور ان کی پاکیزہ سیرت اپنانے کی ہمت کسی میں بھی نہیں ہے ۔ لیکن نام حسین کا لیتے ہیں۔جب کہ کرداری طورپر لوگ یزید کے نقیب ہیں ۔افعال و کردار میں اس کے متبعین بنے ہوئے ہیں۔نماز کے تارک ہیں۔حقوق پامالی میں پیش پیش ہیں۔حقوق غصب کرنے۔دینی لحاظ سے فرائض میں غفلت ۔عبادات کی جگہ رسومات کا فروغ وغیرہ۔باقی اگلی قسط میں
الحاوی الکبیر فی الطب ،اردو جلد9
کوشش کیجئے۔ تمام خوبیاں اس علیم و خبیر کے لئے ہیں جس نے منبع و عموم فنون صاحب شریعت مطہرہ دیکر ایک امین و متین کو رسدول بناکر بھیجا اور ان کام نام محمدرسولاللہﷺ رکھا۔انہیں پاکیزہ کردار اور علو ہمت اہلبیت و اصحاب کی لے لوث خدمت گزار جماعت عطاء فرمائی۔ بحمد اللہ ایک عظیم طبی کتاب الحاوی الکبیر فی الطب۔کا نوواں حصہ آپ کے ہاتھوںمیں ہے۔میری معلومات کے مطابق یا دستیاب مواد کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کے انہیں حصص کا اردو مین ترجمہ موجود ہے۔بہت سے لوگ اسے مکمل کتاب سمجھتے ہیں۔حالانکہ یہ کتاب ادھوری ہے۔تقریبا نصف حصہ ابھی تک عربی زبان میں ہے۔یہ بھی ویب سائٹ پر اپ لورڈ ہے۔اردودان طبقہ استفادہ سے محروم ہے۔ممکن ہے مکمل کتاب ترجمہ ہوچکی ہو۔لیکن ہمیں دستیاب نہ ہوسکی۔ الحاوی الکبیر فی الطب ،اردو جلد1 آج صبح جب میں اردو ترجمہ کے تمام حصص کی ریمپوزنگ اور ڈزائننگ کربیٹھا تو خیال ہوا کہ عربی متن کی طرف رجوع کروں ۔تو ایک سفر دیگر تھا اس سفر کے بعد ۔میرے ذہن میں دیگر کتب کا خاکہ تھا کہ ان پت کام کیا جائے جیسے رازی صاحب کی ہی کتاب ۔الفاخر فی الطب کا جزو دوم۔۔اس کا مسودہ بھی تیا ر کرلیا تھا۔ ابھی کشمکش میں ہونکہ کس کتاب پر پہلے کام کیا جائے۔الحاوی کو مکمل کروں یا پھر الفاخر کی دوسری جلد پر کام کروں ۔اس کے علاوہ نایاب کتب میں بڑی تعداد موجود ہے جو کسی صاحب نظر کی توجہ کی منتظر ہے۔ آج جمعۃ المبارک۔۔۔۔۔5جون2024 ہے۔باہر ہلکی ہلکی بارش پھوار کی طرح موسم کو خوشگوار کئے ہوئے ہے۔گوکہ کئی ایک ملاقاتیں بھی ہیں ۔جمعہ کے لئے بھی جانا ہے۔رات بھر کام کرنے کی وجہ سے کافی تھکاوٹ بھی ہے۔لیکن علمی چس(نشہ کی حد تک) دامنگیر ہے۔لہذا پھر لیپ ٹاپ کھولا کام شروع کردیا ہے۔ زندگی کی ناپئیداری کسی پل چین نہیں دے رہی۔میرے بیٹے سعد یونس کو اگر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں بلاواآسکتا ہے تو میں تو پھر بھی 52 سال کا ہوچکا ہوں ۔اب انتظار کس بات کا؟۔جو ہوجائے بسا غنیمت ہے۔ممکن ہے آج کی بے آرامی میرے لئے صدقہ جاریہ میں تبدیل ہوجائے۔۔کسی بھی کتاب کی فروخت وقتی طورپر اہمیت رکھتی ہے۔لیکن اصل یہ ہے وہ کتاب کتنی لمبی زندگی پاتی ہے اور آنے والے وقت میں کس قدر لوگ استفادہ کرتے ہیں.زکریا رازی کو اس وقت دنیا سے گئے ہوئے 525 سال بیت چکے ہیں ۔انہوں نے اس کتاب کو کتنی صعوبتیں جھل کر ترتیب دیا۔لیکن اس کتاب نے خلق کثیر کو فائدہ پہنچایا امید ہے کہ ان کی بے آرامی راحت میں تبدیل ہوچکی ہوگی۔ممکن ہے یہی کیفیت میری بھی ہو۔ الحاوی فی الطب مکمل عربی زبان میں۔یہاں سے پڑھئے سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلزپاکستان کے پلیٹ فارم سے ہونے والی کاوشیں بھی زمانہ یاد رکھے گا۔وہ شکر گزار ہونگے کہ انہیں اس ادارہ کے توسط سے انمول طبی خزانہ ملا۔ان کی علمی تشنگی کا راستہ ملا۔یہ کوششیں کب تک جاری رہتی ہیں معلوم نہیں لیکن جب تک کوشش کی جاسکتی ہے ۔کرلینی چاہئے۔ برصغیر کی تاریخ ہے کہ زندگی میں کسی کی شخصیت تسلیم نہیں کی جاتی ۔مرنے کے بعد مجاوروں کی بہتات ہوجاتی ہے۔یقین نہ آئے تو بڑی بڑی گدیاں اور جانشینیاں دیکھلیں۔جن لوگوں نے بھوک پیاس مین مشقت کی تھی ان کی اولادیں ان کا صلہ وصول کرنے میں مصروف ہیں۔یہی حال علمی سرگرمیوں کا بھی ہے۔کہ لکھنے والوں نے پرخلوص انداز مین محنت شاقہ کے بعد ایک کتاب تیار کی زندگی میں اسے پزیرائی نہ ملی لیکن آنے والی نسلوں نے اسی محنت کو جو سب کے لئے ورثہ تھی۔پر تمام حقوق بحق مصنف و ادارہ محفوظ ہیں کا لیبل لگا کے اثاثہ تجارت بنالیا ۔ باقی کی مجلدات میں زیادہ محنت درکار ہوگی۔عربی سے اردو ترجمہ۔کمپوزنگ۔اور متعلقہ تصاویر۔جڑی بوٹیوں کی شناخت وغیرہ۔لکھنے پڑھنے سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان چیزوں کے لئے کثیر سرمایہ اور وقت ۔محنت اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس وقت وسائل مل بھی جائیں تو فرصت عنقاء ہوتی ہے۔ محترم قارئین سے ملتمس ہوں کہ وہ میرے لئے میرے والدین اساتذۃ کرام اور میرے بیٹے سعد یونس یونس مرحوم کے لئے ضرور دعا کریں۔ممکن ہے آپ کی دعائیں ہمارے لئے ذخیرہ آکرت بن جائیں ۔خلق خدا کی نفع رسانی عین منشائے خداوندی ہے۔پھر طب تو ایک ایسا ہنر و فن ہے جس سے ہر مذہب و ہر طبقہ کے لوگ استفادہ کرتے ہیں ۔یہ میدان رنگ و نسل ۔قوم رنگت کی چھوت سے ماوارء ہے۔کیونکہ خدمت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔نہ خدمت قومیت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔جوکام بھی انسانیت کی بنیاد پر کیا جائے گا اس میں اتنی ہی وسعت پیدا ہوتی جائے گی۔ از۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔ ……………………………………… امراض ، اسباب امراض اور معالجات کی شہرہ آفاق تالیف “الحاوی الکبیر فی الطب” کا اردو ترجمہ نواں حصہ رحم اور حمل کے امراض خلاصہ کتاب۔ پہلا باب . ۔رحم کے زخم ، نزف ، سیلان ، سرطان ، رجاء ( حمل کا ذب)، اور اس سے ملتے جلتے اور ام رحم، آکله، نتو، رحم، انقلاب رحم نیز تمام اقسام کے اور ام اور زخم ، تمد دو نفخ الرحم اور رحم میں پانی کا ہونا ، صلابت ( رحم کی سختی ) ، ضلع رحم ( رحم کا ٹل جانا ) ، رتق وفق رحم، قاطع سیلان چیزیں ، سیلان کے نقصانات ، بواسیر رحم اور شقاق الرحم سے عارض ہوانے والا نزف اور بطن رحم میں نفخے کے اسباب جن سے عورت پر حاملہ ہونے کا گمان لگتا ہے جسے بابور د کہتے ہیں ۔ دوسرا باب ۔اختناق الرحم ، سقوط الرحم ، اطراف کی جانب مائل ہو جانا ، اور غم رحم کا بند ہو جا نا ۔ تیسر ا باب حمل کی علامات ، کثرت تولید اور بانجھ پن ، جنس مذکر اور مؤنث کی پہچان اور ان کی تولید ، اسقاط کی علامتیں ، جنین کا قوی اور ضعیف ہونا اور ان کا تحفظ ، تدبیر حوامل ، اسقاط کے فوائد ، ازالہ بکارت کے بعد اعادہ بکارت کی تدبیر ، جنین
الحاوى الكبير فی الطب ۔جلد 7
ایک نظر ادھر بھی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے کتابوں سے لگائو اور خدمت فن کی توفیق عطاء فرمائی۔درود و سلام ہو حقیقی رہبر و رہنما سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکت پر اور ان کی آؒ و اصحاب پر جن کی وجہ سے آض ہمیں زندگی کی واضح راہ دکھائی دے رہی ہے۔ خدائے واحد کی رحمتیں شامل حال رہیں تو مشکلات آسانیوں مین بدل جاتی ہیں۔ الحاوی الکبیر فی الطب۔کی یہ ساتویں جلد ڈیجیٹل شکل مین آپ کے خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔یہ وہ باغ ہے جس سے ہر معالج و مریض اپنی ضرورت کے مطابق صحت کا پھل حاصؒل کرسکتا ہے۔ کتاب تو مکمل طورپر سونے سے تول پر لینے کے قابل ہے۔ہر جلد ایک نئی دنیا ہے۔لیکن اس جلد کی خاصیت نرالی ہے اس مین سینہ ۔(چھاتی)جگر اور دل کے امراض کو زیر بحث لایا گیا ہے۔اس وقت چھاتی ۔دل جگر وغیرہ کے جتنے مریض دکھائی دیتے ہیں شاید ہی پہلے کبھی یہ ہجوم مریضاں دیکھا گیا ہو۔۔ جیسے دیکھو جگر اور دل کی دوائیں اٹھائے پھر رہا ہے،لمبے چوڑے ٹیسٹ اور طویل مدتی علاج کے لئے در بدر بھٹکتے مریض گواہ ہیں کہ اس جلد کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی شیاد ہی کبھی محسوس کی گئی ہو۔چھاتی کا کنیسر خواتیں میں ۔دل کا مرض اور جگر کی بیماریاں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ ان کے الگ الگ ٹھقیقاتی سینٹر۔اور علاج گاہیں بنی ہوئی ہیں ۔یہ پاکستان میں ہی بلکہ عالمی سطح پر تینوں امراض بھیناک شکل اختیار کرچکے ہیں۔اگر الحاوی کا مطالعہ کیا جائے تو جو مہنگے علاج ۔کیمو تھراپیاں۔آپریشن۔سرجریاں۔لیزر شعاعیں۔نہ جانے کتنے ہی تکلیف دہ مراحل سے مریضوں کو گزرنا پرتا ہے۔ یہ دکھ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ،اسے صرف مریض یا لواحقین ہی محسوس کرسکتے ہیں۔۔ اس حصے میں دل جگر اور سینہ کے امراض کو غذائی اور فطری انداز میں جڑی بوٹیوں سے کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔یہ کتاب جس وقت لکھی گئی تھی کیمیلز اور ملاوٹ دنیا میں اتنی عام نہیں تھے۔لوگ فطری انداز میں جینے کے عادی تھے یہ حوس زر موجود نہ تھی معالجین بھی اپنے مریضوں کے لئے محنت کرتے اور آسان علاج کی جستجو میں رہا کرتے تھے۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان کی کاوشوں کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔جو ڈیجیٹل ایڈیشنز سے اپنے لیپ ٹاپ۔فونز۔اور ایل سی ڈیز پر فائدہ اٹھارہے ہیں۔کوئی بھی لفظ یا غذا۔مرض۔تلاش کرنے میں ۔اور ایک کلک میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں آسان ہے کیونکہ یہ ٹیکسٹ فارمیٹ۔پی ڈی ایف۔اور دیگر ایسے فارمٹ جو کسی بھی ڈیوائس کو سپورٹ کرتے ہون میں دستیاب ہے۔اسے آپ کسی بھی سیرچ ایک پروگرام کا حصہ بنا سکتے ہیں۔کاپی پیسٹ کی سہولت موجود ہے۔حوالہ دینا آسان ہے۔۔کاپی پیسٹ کی مدد سے سوشل میڈیا یا کسی کتاب کا حصہ بنا سکتے ہیں۔کوئی کاپی رائٹ کا جھنجٹ نہیں ہے۔ایک بار حاصل کرکے زندگی بھر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔فائونٹ چھوٹا بڑا کرنا ۔کلر تبدیل کرنا ،کوئی نئی چیز شامل کرنا،یعنی آپ اپنی کاپی میں کوئی بھی تغیر و تبدل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ادارہ ہذا اس سے پہلے بھی سینکڑوں کتب ڈیجیٹل فارمیٹ میں پیش کرکے اہل ذوق سے داد تحسین حاصل کرچکاہے۔باقی دو جلدیں ۔آٹھویں اور نویں بھی اسی ہفتہ پیش کردی جائیں گی۔زکریا رازی محروم کی دوسری کتاب۔کتاب الفاخر فی الطب کی دونوں جلدیں بھی پیش کردی گئی ہیں۔اس کے علاوہ کئی کتب ہیں۔تخمینہ ہے کہ 15 جلدیں ہوجائیں گی۔انہین ایک بنڈل کی شکل دیکر گلدستہ کی شکل میں پیش کردیا جائے گا۔ آخر میں قارئین سے ملتمس ہوں کہ ادارہ ہذا اور اس کے منتظمین۔بالخصوص میرے والدین اور سعد یونس مرحوم بانی ادارہ ہذا کو دعائوں میں ضرور یاد رکھیں۔یہ وہ محسن لوگ ہیں جو اس دنیا میں تو موجود نہیں لیکن ان لگائے ہوئے گلشن سے میں اور آپ خوشہ چینی میں مصروف ہیں۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔منتظم اعلی۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔ حصول کتاب کے لئے یہاں کلک کریں