Encyclopedia of Dietary Therapy غذا سے علاج کا انسائیکلوپیڈیا غذا کیا ہے؟ اس کرہ زمین پر بسنے والی ہر مخلوق کو غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ غذا جسمانی بھی ہوتی ہے اور غذا روحانی بھی ہوتی ہے کیونکہ انسان اور دوسری ہر مخلوق جسم کے ساتھ :روح بھی رکھتی ہے۔ اس کرہ ارض پر خواہ چرند ہوں یا پرندہ خواہ درندے ہوں یا انسان اور روحانی مخلوق جنات اور فرشتے ہوں۔ یا صحرا، خواہ درخت یا پودے ہوں یا ندی نالے ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق کہیں نہ کہیں سے اپنی ضرورت کے مطابق غذا حاصل کر رہا ہے۔ اگر اس کا ئناتی نظام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اکثر ایک کا فضلہ دوسرے کی غذا بن جاتا ہے۔جس طرح جسم کو جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ آگ مٹی ہوا پانی سے تخلیق ہوتی ہے اسی طرح جسمانی وجود کے اندر روح بھی کام کرتی ہے چاہے وہ جسم کسی بھی مخلوق کا ہو کیونکہ اس کائنات کے اندر ہر چیز اپنی شکل و صورت رکھتی ہے اور اس شکل و صورت کو تخلیق کرتی ہے۔ اگر جسم کی غذا مادی وسائل ہیں تو روحانی غذا روحانی وسائل ہیں انسانی جسم جو کہ ایک مشین ہے۔ اس مشین کو چلانے کے لیے روزانہ کم از کم دو وقت کی غذا کی ضرورت پڑتی ہے اور انسانی روح کی غذاء اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ جس طرح انسان اپنی مادی غذا کے ساتھ اپنی روحانی غذا ذ کر کے ذریعے حاصل کرتا ہے جو کہ جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسی طرح دوسری مخلوق بھی اپنی جسمانی غذا کے ساتھ اپنی روحانی غذا کے لیے ہمہ وقت اپنے خالق و مالک اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہے۔ اور اسی کی تسبیح کرتی ہے۔ جس نے اپنی خصوصی رحمت اور محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا۔اللہ رب ہے یعنی پالنے والا ۔ رب کے معنی یہ ہیں کہ پیدا کر کے مخلوق کو جسمانی اور روحانی وسائل عطا کرنے والا۔ تو ہمیں چاہیے کہ ہم جب بھی جسمانی غذا حاصل کریں تو اس رب کریم کا ذکر کر کے روحانی غذا حاصل کریں۔ ہمیں اس کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں تو ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ خالی زبان سے یہ کہنا کہ یا اللہ تیرا شکر، یا اللہ تیرا شکر ہے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس لیے شکر کا مطلب یہی استعمال ہے اگر روکھی سوکھی کھانا ہی زندگی کی معراج ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی تعداد میں زمین پر پھل، فروٹ، اناج پیدا کیوں کیے۔ اللہ تعالیٰ کی دوسری نعمتوں کے ساتھ ساتھ غذا ایک بے بہا نعمت ہے۔ لوگ غذا کو مختلف مقاصد کے لیے کھاتے ہیں۔ کوئی پیٹ بھرنے کے لیے کھاتا ہے کوئی توانائی بحال رکھنے کے لیے کھاتا ہے۔ کوئی پہلوان بننے کے لیے کھاتا ہے اور کوئی محض اس لیے کھاتا ہے کہ سانس چلتا رہے تا کہ وہ خالق کائنات کی عبادت کرنے کے قابل رہے۔آخر الذکر بندوں کے دم قدم سے ہی اللہ تعالیٰ ہم جیسے لوگوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔انہی نیک بندوں کے بارے میں حضور نبی کریم ملی الہ و سلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے کچھ بندے ایسے ہیں جن کی وجہ سے میں بارش برساتا ہوں اور زمین پر اناج اگا تا ہوں اور کھیتیوں کو اگاتا ہوں۔ اگر یہ میرے بندے میرے بھروسے پر کوئی قسم کھا لیں تو میں اپنے اوپر لازم کر لیتا ہوں کہ اسے پورا کروں۔“ہر شخص نے زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کھانا ہے۔ اگر وہ چند Selected چیزیں کھائی جائیں تو جزو بدن بن کر جسم کو توانائی مہیا کر کے روز مرہ کی گوناگوں مصروفیات کے قابل بناتی ہیں اور اگر غذا بلا ضرورت محض عادت کے طور پر ٹھونسی جائے تو یہ توانائی کو ضائع کر کے جسم میں امراض کے لیے آماجگاہ بن جاتی ہے۔ غذا اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے کہ اس میں مختلف عوامل سے گزر کر خون بن جانے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ غذا کے طور پر ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں۔ وہ معدہ میں جاتے ہی ہضم کے مختلف مراحل سے گزر کر خون بن جاتی ہے اور اس کا کچھ حصہ براہ بول و براز بطور فضلہ خارج ہو جاتا ہے ہم جیسی غذا کھا ئیں گے یقینا ویسا ہی خون بنائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اعلیٰ اور متوازن غذا کون سی ہوگی؟ اگر میں اس لفظ اعلیٰ اور متوازن کو اس مضمون کا عنوان بنا دوں تو یہ درست اور قرین قیاس لگتا ہے۔ اعلیٰ غذا اسے کہتے ہیں جو دیکھتے ہی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے منہ سے رال ٹپکا دے۔ رال ٹپکانا ایک محاورہ ہے۔ اصل میں اس کا طبی معنی یہ ہوگا کہ جو غذا دیکھنے کو بھی بھلی لگے اس کی خوشبو دل و دماغ کو مسرور کر دے اور شوق پیدا کر دے کہ فوراً اس پر ہاتھصاف کر دیا جائے۔ ایسی غذا کو دیکھتے ہیں بلکہ اس کے تصور سے ہی منہ میں ایک قسم کا پانی بھر آتا ہے۔ اسے ہی رال ٹپکنے کے محاورہ میں استعمال کیا گیا ہے۔حالانکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جن لوگوں میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے میرے نزدیک ان کا نظام ہضم بہترین ہوتا ہے اور جس کا نظام ہضم بہترین ہوگا اس کی صحت بھی یقینا بہتر ہوگی۔ لہذا اعلیٰ غذا اسے کہیں گے جسے دیکھنے، سونگھنے اورکھانے سے آتش شکم مزید بھڑک اٹھے۔تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے کہ مثلاً کڑاہی گوشت پکا ہوا ہے اور اسے خاتونِ خانہ نے روٹی کے اوپر ویسے ہی ڈال دیا ہے اور روٹی بھی زیادہ پکنے کی وجہ سے جلی ہوئی ہے تو کیا اس غذا کو اعلیٰ کہا جائے گا؟ اسے کھانے کو دل چاہے گا ؟اس کی نسبت یہی کڑاہی گوشت ایک بہترین پلیٹ میں رکھا جائے اور اس کے ساتھ سلاد ہو، وہی ہو، سبز دھنیا اور اناردانہ کی چٹنی رکھی ہو روٹیاں بہترین کچی ہوئی ہوں اور ہاٹ پاٹ میں محفوظ
ادویات کے منافع ومضرات کیا ہوتے ہیں؟قسط دوم۔
ادویات کے منافع ومضرات کیا ہوتے ہیں؟قسط دوم۔ عمومی طورپر نسخوں کو ان کے لکھے ہوئے فوائد کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔ضرورت مند جب مطالعہ کرتا ہےکہ اس کی ضرورت کا ذکر موجود ہے تو نسخہ بنانے کی تدابیر کرتا ہے۔اس سلسلہ میں کئی رکاوٹیں پیش آتی ہیں سب سے پہلی رکاوٹ تو یہ کہ ہے اس کے اجزاء کو تلاش کرنا ہی جان جوکھوں کا کام ہے۔پھر بنانے کی ترکیب اس قدر پیچیدہ ہوتی ہے کہ بہت سا وقت کا صرف ہوتا ہے۔پھر مرحلہ استعمال کا آتا ہے۔ اناڑی کو معلوم نہیں ہوتا کہ نسخہ کا استعمال کیا ہے؟۔ جب ناکافی معلومات کی وجہ سے ضرورت مند نسخہ کو استعمال کرتا ہے تو اس کے سامنے نسخہ کے منافع و مضرات نہیں ہوتے۔جس سے نقصان کا خدشہ رہتا ہے۔اس سلسلہ میں انگریزی ادویات کے ڈبہ پر لکھی ہوئی ہدایات میں ایک بات یہ بھی ہوتی ہے کہ نسخہ کو ڈاکٹر کی ہدایت مطابق استعمال کریں۔ نقصان کی صورت میں اپنے معالج سے رجوع کریں۔جب کہ دیسی نسخہ جات کو اتنا لاوارث سمجھاجاتا یہ بھی پڑھئے ہے کہ تیمار داری کے لئے آئے ہوئے لوگ بھی مریض کو دو چار نسخے مع فوائد بتاجاتے ہیں ۔کہ فلاں فلاں چیزیں آپ استعمال کریں۔بیماری سے جان چھوٹ جائے گی۔ دیسی طب میں منافع و مضرات پر بحث۔ بہت پہلے طبی کتب ۔عقاقیر کے فوائد پر مبنی کتب میں لکھا ہوا پڑھتا تھا کہ فلاض چیز فلاں عضو فلاں بیماری کے کے لئے فائدہ مند ہے اور ۔فلاں عضو اور فلاں علامات والے مریض کے لئے غیر نافع ہے۔،ساتھ میں مقدار خوراک۔ بھی لکھا ہوتا تھا۔عمومی طورپر ان ہدایات کو معالجین نظر انداز کردیتے ہیں۔ قرابدینی نسخہ جات۔ عمومی طورپرفارماکوپیاز۔اور قرابدین۔اور بیاضوں میں اجزاء کے اوزان کو دیکھیں تو بہت باریکی دکھائی دیتی ہے۔مثلاََ نسخہ ترتیب دیتے وقت۔ماشہ، رتیوں تک کا حساب رکھا جاتا ہے۔عربی، فارسی وغیرہ زبانوں میں لکھی ہوئی کتب یا آج سے تقریباپچاس۔سال پہلے تحریر شدہ طبی دستاویزات کو دیکھیں تو اوزان میں احتیاط واضح دکھائی دیتی ہے۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان کے کمپوزروں کو اس وقت مشکلات کا سامانا کرنا پڑتا ہے جب نسخہ جات میں فیصد اور اعشاریوں۔اور بٹوں کے حساب لکھنے پڑتے ہیں۔۔اوزان کو پنساری لوگ دیکھتے ہیں نہ معالجین اس طرف توجہ دیتے ہیں۔۔جب کہ نسخہ جات کی روح خالص اجزاء اور ان کے اوزان ہوتے ہیں۔ انہیں کی بنیاد پر منافع و مضرات لکھے جاتے ہیں۔ایک ماہر طبیب حازق معالج اپنی ضرورت اور تجربہ کے تحت کسی بھی دوا کو کہیں بھی استعمال میں لاسکتا ہے۔یہ نسخہ سے زیادہ معالج کا تجربہ ہوگا۔۔جب طب میں مہارت پیدا ہوجاتی ہے تو ان لمبے چوڑے نسخوں کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ درمیانہ راستہ۔ جولوگ علم العقاقیر میں مہارت رکھتے ہیں انہیں عمومی طورپر لمبے چوڑے نسخوں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔وہ مریض کے لئے مفردات ہی تجویز کرتے ہیں۔اگر معالج محسوس کرے کہ مرض میں شدت ہے اور دوا اس پائے کی نہیں ہے تو امدادی طورپر ایک دو اجزاء کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مفردات کام نہیں کرتے؟بلکہ مرض کی شدت و خفت کی بنیاد پر اجزاء میں کمی پیشی کردیتی جاتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے۔ جب مفردات سے کام لیا جاتا ہے تو معالج و مریض دونوں کے لئے آسانی رہتی ہے۔مریض بھاری خرچہ سے بچ جاتا ہے۔معالج کو اس مرف دوا کے منافع و مضرات کا گہرا علم و تجربہ مل جاتا ہے۔اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ مرض کی کس نوعیت میں کتنی مقدار میں دوا کارآمد ہوگی۔۔۔یوں معالج کے تجربے میں دن بدن اضافہ ہوتا جاتا ہے۔مشاہدات کی نت نی دنیا سامنے آتی ہے۔ اس جہت سے معالج جتنی کوشش کرتا ہے اس کے سامنے مفردات کے فوائد کی حیرت انگیز دنیا کھلتی جاتی ہے۔۔۔بقیہ اگلی قسط میں۔۔
ادویات کے منافع ومضرات کیا ہوتے ہیں؟
ادویات کے منافع ومضرات کیا ہوتے ہیں؟از۔۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوجب کسی د وا یا مرکب کے بارہ میں اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو لکھنے والا اپنے مطالعہ یا مشاہدات کی بنیاد پر لکھتا ہے،وہ منافع و مضرات کو اہتمام کے ساتھ جمع کرتا ہے۔مطالعہ کرنے والا اپنی ضرورت کے تحت بغور مطالعہ کرتا ہے۔دوا ہمیشہ فائدہ کی غرض سے استعمال کی جاتی ہے۔لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوا کھانے سے غیر طبعی علامات یا نقصان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔حالانکہ دوا تو فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہے.آئے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ (1)دوا کی ضرورت کیوں ؟ دوا انسان کے لئے مقصود بالذات نہیں ہوتی بلکہ دوا کو بوقت ضرورت کام میں لایا جاتا ہے۔انسان کی بنیادی ضروریات میں کھانا اور پینا ہے ،ان کا اعتدال ہی صحت کا ضامن ہوتا ہے۔جہاں انحراف ہوا یہی غذا بیماری کا سبب بن جاتی ہے۔گوکہ امراض کے کئی اسباب ہوتے ہیں لاحقے ہوتے ہیں ،بیرونی اثرات ہوتے ہیں۔ انہی غیر طبعی اثرات کو زائل کرنے کے لئے دوا تجویز کی جاتی ہے۔غذا یا دوا وہی ٹھی رہتی ہے جو انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق تجویز کی جائے۔(2) انسانی مزاج اور دوائیں۔انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف مزاج اور طبائع کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ان کے لئے اسی قسم کی غذائی اور بوقت ضرورت دوائیں رکھی ہیں۔۔جب ضرورت ہو ان سے فائدہ اٹھالیا جائے۔لیکن اگر غذائی طورپر طبیعت میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو دوا کا سہارا لیا جاتا ہے۔دوا مفردات سے بھی ہوسکتی ہے مرکبات بھی ہوسکتے ہیں۔یہ معالج حاذق کی تجویز ہے کہ وہ مفرد سے کام لیتا ہے یا مرکبات کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔جس انداز میں بھی ضرورت کی تکمیل ہو ،پوری کرنا ہی علاج کہلاتا ہے۔(3)لمبے چوڑو ے نسخوں کی حقیقت ۔اس وقت مختلف طریقہائے علاج رائج ہیں۔سب کو جمع کیا جائے تو ایک لمبی فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔من جملہ ان میں سے ۔دیسی طب۔ایلو پیٹھی۔ہومیو پیٹھی۔وغیرہ زیادہ معروف ہیں۔ اس میں ایلو پیتھی اپنی ادویات کے فوائد و مضرات ایک کتابچہ کی صورت میں لکھ کر دوا کے سات پیک کردیتی ہے۔اس کے مطالعہ سے دوا کی افادیت و مضرات کی سمجھ آجاتی ہے۔عمومی طورپر ایک مرض کے لئے ایک دوا تجویز کی جاتی ہے۔ ہومیو پتھی والے اپنے فارماکوپیا میں تو بیان کرتے ہیں لیکن ہر دوا کے ساتھ اس قسم کے لٹریچر کا اہتمام نہیں کرتے عمومی طورپر ان کے ٹینکچر ایک دو اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔انہیں مفردات کی کتب میں دیکھا جاسکتا ہے۔اس کے مفید و مضر پہلو کا مطالعہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ دیسی طب۔ یہ فطرت کے قریب ترین ہے ،کیونکہ جہاں غذا یعنی اناج اگایا جاتا ہے انہیں کھیتوں میں جڑی بوٹیا ں ہوتی ہیں وہی جڑی بوٹیاں اس اناج سے پیدا شدہ امراض کا علاج ہوتی ہیں یعنی قدرت نے غذا کے ساتھ امراض کا حل بھی اسی کھیت میں رکھ دیا ہے۔لیکن اطباء حضرات نے اپنے نسخہ جاتا میں اتنے زیادہ اجزاء شامل کئے ہوتے ہیں کہ ان کی فہرست دیکھ کر پنساری بھی سر پکڑکر بیٹھ جاتا ہے۔راقم الحروف کی نظروں سے ایسے نسخے بھی گزرے ہیں جن کے اجزاء سینکڑں سے بھی متجاوز تھے۔ یہ بھی مطالعہ کیجئے یہاں اگر اطباء کرا م ٹھوکر کھاتے ہیں، وہ نسخہ جات کے اجزا میں جو مفردات شامل کئے ہیں ،ان سے کے انفرادی فوائد لکھ دئے جاتے ہیں۔یوں ایک نسخہ اجزاء اور فوائد کے لحاظ سے ایک کتابچہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔پڑھنے والا سمجھتا ہے اگر یہ نسخہ تیار کرلیا تو زندگی بھر کے امراض کا خاتمہ ہوجائے گا۔جب جہد بسیار کے بعد تیار کرلیا جاتا ہے تو فوائد کے اعتبار سے وہی ڈھاک کے تین پات! ۔یہی حکمت کے زوال کے اسباب سےبہت بڑا سبب ہے۔ غیر حقیقی نسخہ نویسی۔اور غیر طبعی و غیر ضروری فوائد کی فہرست۔راقم الحروف لمبے چوڑے نسخہ جات کو دیکھتے ہیں کتاب کا اگلا صفحہ پلٹ دیتا ہے۔مطالعہ کو بھی وقت کا ضیاع سمجھتا ہے۔۔۔بقیہ اگلی قسط میں
قدرتی خوبصورتی کے لئے جڑی بوٹیاں
قدرتی خوبصورتی کے لئے جڑی بوٹیاں اپنے لئے ہربل شیمپو،کلینرز۔کریم۔غسل مرکب اور اسی طرح کی بہت سے اشیاء گھر پے بنائیں۔ روزمیر ی کلیڈ اسٹار قدرتی خوبصورتی کے لئے جڑی بوٹیاں اللہ وحدہ لاشریک ہے جس نے اپنی پیامبر بھیج کر انسانیت کی عقل کو جلاء بخشی۔اور رحمت ہو ان سچے کھرے لوگوں کو خاتم النبیین کا ساتھ نبھانے کی ہمت بخشی۔ خوبصورتی ہر ذی روح کی پسندیدہ چیز بنادیا مرد و خواتین تو رہے ایک طرف عام جانداروں میں اسحس کو رکھ دیا کہ خوبصورتی وبدبصورتی میں تمییز رکھ سکیں۔زمانہ قدیم سے ہی خوبصورتی اور جسمانی رعنائی کو برقرار رکھنے کے لئے مختلف قدرتی جڑی بوٹیوں اور دستیاب وسائل سے مرکبات استعمال کرنے کا رجحان رہا ہے۔خواتین اس بارہ میں زیادہ حساس واقع ہوئی ہیں۔یہ کسی ایک خطے یا ملک تک محدود نہ تھے کرہ ارض پر اس کے شواہد و نظائر موجود ہیں۔ قدرتی خوبصورتی کے لئے جڑی بوٹیاں پاک و ہند اور یونان میں جڑی بوٹیوں کا استعمال زیادہ رہا ہے۔لیکن دیگر ممالک بھی پیچھے نہ تھے۔گوکہ کاروباری مسابقت نے کیمیکلز اور تالیفی ادویات کی مارکٹنگ کی گئی۔اور قدرتی،فطری انداز علاج کو معتوب کیا گیا۔جبری طورپر ایک غیر فطری طریقہ علاج کو مسلط کیا گیا ہے۔لیکن حقیقت مصنوعی انداز اور حربوں سے چھپ نہیں سکتی۔ یہ بھی پڑھئے ’خوبصورتی‘ حاصل کرنے کے قدیم طریقوں اور رسموں کی واپسی یہ انگریز مصنف کی کاوش ہے جوکہ قابل قدر کتاب ہے۔معالجین اور عام لوگوں کے لئے فائدہ مند ہے۔اس کتاب میں سہل الحصول نکات و نسخے بیان کئے گئے ہیں۔جنہیں خواتین گھروں میں بلکہ اپنے کچن میں تیار کرسکتی ہیں۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچول سکلزپاکستان کا نصبالعین ہے کہ بہترین ،پر مغز کتب کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں احباب کی خدمت میں پیش کرتا رہے گا۔امید ہے اہل ذوق اس کاوش کو پسند فرمائیں گے۔اس کتاب میں بشری تقاضے مطابق خطاء و سہو رہ گئی ہوتو مطلع فرمائیں تاکہ درستگی کی جاسکے۔ از ۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان
کتاب العمدۃ فی الجراحت 2
کتاب العمدۃ فی الجراحت (جلد دوم)(اردو ڈیجیٹل ایڈیشنتالیف۔امین الدولہ ابو الفرج ابن القف المسیحی(1233۔۔1285ء)(630۔۔685ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔ابن القف، ان کے کارنامے اور ان کی تصانیف ابن القف کی زندگیابن القف کی تخلیقاتابن القف کی سرجری پر العمدہ کی کتابابن القف کے مضامینابن القف کی زندگیابو الفراج ابن القف 630 ہجری – 1233 عیسوی میں ایوبی بادشاہ الناصر صلاح الدین داؤد کے دور میں پیدا ہوا تھا ، وہ اپنے والد کے ساتھ شام کے شہر سرخد میں چلا گیا، جہاں ان کا تبادلہ دیوان ال میں کام کرنے کے لیے کر دیا گیا۔ شہزادہ عزالدین ایبک کے دور میں سرخاد اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا تھا۔ ان کے والد ابن ابی عصیبہ کے دوست تھے، جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں: “ان کے والد، موفق الدین، میرے ایک دوست تھے، جو ان کی محبت کا اثبات کرتے رہے، اپنی محفلوں کی قیمتی چیزوں کی حفاظت کرتے رہے۔ اور اس کی صحبت کی دلہنیں عربی کے علم میں ممتاز تھیں، اس نے اس کے تمام ماخذات اور شاخوں کو تحریر کیا ہے، اور وہ اس کے دور اور شان کے ہدف تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے پاس وہ خوش قسمتی ہے جو نظر کی خوشی ہے، اور تمام ممالک اور خطوں میں کوئی مصنف اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سدرخد میں ابو الفراج ابن القف نے طب کی تعلیم کا آغاز ابن ابی عصیبہ کے ہاتھ سے کیا۔ طبی صنعت میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا، جیسے کہ ہپوکریٹس کے مقالات حنین اور الفاسلو، اور اس کے علم کا تعارف وہ جانتے تھے کہ ان کے معانی کی وضاحت کیسے کی جائے، ان کے اصولوں کو سمجھا جائے، اور اس کے بعد علی نے لکھا ابوبکر محمد ابن زکریا الرازی کا علاج، وہ بیماریوں کی اقسام اور جسم میں بیماریوں کی سنگینی کے بارے میں کیا جانتے تھے، اور انہوں نے مصائب کے علاج اور مصائب کے علاج کے بارے میں تحقیق کی، اور وہ اس کی ابتدا اور ابواب کو جانتے تھے۔ اور اس کے اسرار اور اس کے نتائج کو سمجھ لیا، اس لیے وہ ابن ابی عصیبہ کے نامور طالب علم ہیں، جو 668 ہجری میں اپنی کتاب “The Eyes of News in the Class of Doctors” سے دنیا کو روشن کرنے کے بعد وفات پا گئے۔ “اس کے بعد ان کے والد امیر کے دربار میں کام کرنے کے لیے 1252ء میں دمشق چلے گئے اور ابو الفراج کے علم کا دائرہ وسیع ہو گیا ۔ وہ عظیم الشان نوری بیمارستان تھا جسے نورالدین محمود بن عماد الدین زینگی نے تقریباً ایک صدی قبل دمشق میں داخل ہونے کے بعد تعمیر کیا تھا، اس بیمارستان کی تعریف ابن جبیر اور ابن بطوطہ جیسے کئی مورخین اور سیاحوں نے کی تھی۔ یہ اسلام کی شان اور اس کے اداروں کی زینت ہے۔ صالحیہ دمشق کے ایک خوبصورت مضافاتی علاقے میں بمرستان القیمری تھا جس نے اپنے دروازے شہزادہ سیف الدین یوسف بن ابی الفرس القیمری کی سخاوت کی بدولت کھولے جن کی وفات 654ھ/1256ء میں ہوئی تھی۔ دمشق کی عظیم الشان مسجد کے قریب بیمارستان باب البرید کی تعریف کی، اس ترقی یافتہ ماحول اور اس کے پاس موجود سائنسی اداروں میں نوجوان ابن القف نے اپنی تعلیم اور طبی تربیت مکمل کی تاکہ اس پیشے پر عمل کیا جا سکے۔ دمشق میں ابن القف نے اپنے زمانے کے بہترین پروفیسروں سے طبی علم حاصل کیا۔ حسن الغنوی الداریر نے حکیم نجم الدین ابن المنفخ اور علی موفق الدین یعقوب الثمیری سے اقلید کی کتاب بھی پڑھی۔ الدین الاردی، اور اس نے اس کتاب کو اس فہم کے ساتھ سمجھا جس نے اس کے بند بیانات کو کھولا اور اس کی شکلوں کا مسئلہ حل کردیا۔ ابن القف کی تخلیقات اس دور میں تاتاریوں نے حملہ کیا، اور بغداد کی تباہی کے بعد، ہلاگو نے لیونٹ میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی، اور لیونٹ کے حالات بہتر تھے، اس لیے سب نے تاتاریوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا، اور ابو الفراج ابن القف۔ اردن کے قلعہ اجلون میں ڈاکٹر مقرر ہوئے اور وہاں اس نے 1271-1272 میں طب پر کتاب الشافعی لکھی، اس کی شہرت پھیلنے کے بعد وہ دمشق واپس آئے اور اس کے محافظ قلعہ میں خدمات انجام دیں اور وہاں کئی کتابیں لکھیں: جامع الرضا فی سال 1274 میں صحت اور بیماری کا تحفظ۔الکلیات ابن سینا کی کتاب قانون سے 1278 چھ جلدوں میں۔سرجیکل انڈسٹری کے کام میں میئر آف ریفارم کی کتاب ، جسے سال 1281 میں سرجیکل انڈسٹری میں میئر کے نام سے جانا جاتا ہے۔کتاب اصول اصول شرح الفصل 1283-1284۔تیسرے قانون پر بات چیت ، اشاروں کی کوئی وضاحت نہیں تھی، ایک مسودہ تھا، اور مراکشی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں اور مکمل نہیں ہوئیں۔ابن القف کا انتقال دمشق میں 685ھ میں باون سال کی عمر میں ہوا۔ ابن القف کی سرجری پر العمدہ کی کتابجہاں تک ان کی کتاب العمدہ فی السرجری کا تعلق ہے، یہ عرب میں سرجری میں مہارت رکھنے والی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے ، اگر عالمی نہیں، تو ابن القف کتاب لکھنے کی وجہ کے بارے میں تعارف میں کہتے ہیں: “کچھ کے بعد ہمارے زمانے کے جراحوں نے مجھ سے اس صنعت کے معاملے میں اس فن کے ماہرین کی عدم دلچسپی کی شکایت کی اور ان میں سے ایک کو صرف چند مرہموں کی ترکیب اور ان کے اجزاء کو ایک دوسرے میں شامل کرنے کا علم تھا۔ اور اگر کوئی اس سے پوچھے کہ یہ کون سی بیماری ہے جس کا تم علاج کر رہے ہو، اس کی وجہ کیا ہے، اور تم نے اس علاج سے اس کا علاج نہیں کیا، اور اس کے ہر اجزاء کی طاقت کیا ہے، تو اس کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔ اس کا جواب، سوائے اس کے کہ وہ کہے گا، “میں نے اپنے استاد کو اس تصویر کی طرح میں اسے استعمال کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے اسے استعمال کیا۔” پہلی جلد کا مطالعہ کیجئےپھر اس نے کہا، “یہ اس کے علاوہ ہے جو میں بیماریوں، اسباب اور علامات کے امتزاج کے بارے میں جانتا تھا، اور یہ کہ شفا دینے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا
تاریخ طب و اخلاقیات
تاریخ طب و اخلاقیات اردو ڈیجیٹل ایڈیشن۔( تالیف :۔ڈاکٹر اشہر قدیر صدر کلیات فیکلٹی آف یونانی میڈیسن جامعہ ہمدرد نئی دہلی ۔۔طب ایک شریف علم اور ہر ایک کی ضرورت کا ہنر ہے جوبھی اس سے وابسطہ ہوگا اس کی عزت وشہرت مال و دولت میں اضافہ ہوگا لیکن اس فن کے میدان میں اترنے کے لئے اخلاقی طورپر کچھ حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں ۔جنہیں اخلاقیات طب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ہر زمانے کے اساتذہ نے اپنے اپنے ماحول اور ضرورت کے تحت اخلاقیات مقرر کیں۔ہزاروں سالوں سے یہ سلسلہ یوں ہی چلا آرہا ہے۔مذاہب و ادیان نے بھی اخلاقیات طب کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ہر طبیب کو اس کا مطالعہ کرنا اہمیت رکھتا ہے۔آپ جس قوم و ملک کے اطباء کی خدمات سے استفادہ کریں ان لوگوں کی اخلاقیات وقواعد کا بھی احترام کریں۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان بہترین اور پرمغز کتب کے ڈیجیٹل ایڈیشنز پیش کرنا اپنا اعزازسمجھتا ہے۔ادارہ ہذا کے منتظمین کارکنان مبارکباد کے مستحق ہیں کہنایاب کتب اپنے قارئین کے لئے پیش کرنے میں حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیئے کتاب الاغذیہ ابن زہر،غذا پر بہترین کتاب اس کتاب میں بابلی آشوری۔مصری ہندی۔ایرانی وہ تمام تہذیبیں جو صفحہ ہستی سے اپنا وجود کھوچکی ہیں۔لیکن ان کی طبی خدمات اور اخلاقیات آج بھی اتنی ہی افادیت کی حامل ہیں جتنی ہزاروں سال پہلی تھیں۔ سخنہائے گفتنی نحمد اللہ تعالیٰ نصلی علی رسولہ الکریم۔صلوٰہ وسلام انبیاء و اتقیاء بالخصوص خاتم النبیین ﷺپر اور آپ کی آل و اولاد اصحاب پر،ان اہل علم پر جنہوں نے اپنی زندگی کی قیمتی او ر صحت مند ساعتیں فلاح انسانیہت کے لئے وقف کیں۔اپنی راحت والی گھگڑیوں کو مشقت میں تبدیل کرکے انسانیت کے لئے راحت و تندرستی کا سامان مہیا کیا۔۔ طب ایک شریف علم اور ہر ایک کی ضرورت کا ہنر ہے جوبھی اس سے وابسطہ ہوگا اس کی عز یہ بھی پڑھئے کتاب الفاخر فی الطب دوم وشہرت مال و دولت میں اضافہ ہوگا لیکن اس فن کے میدان میں اترنے کے لئے اخلاقی طورپر کچھ حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں ۔جنہیں اخلاقیات طب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ہر زمانے کے اساتذہ نے اپنے اپنے ماحول اور ضرورت کے تحت اخلاقیات مقرر کیں۔ہزاروں سالوں سے یہ سلسلہ یوں ہی چلا آرہا ہے۔مذاہب و ادیان نے بھی اخلاقیات طب کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ہر طبیب کو اس کا مطالعہ کرنا اہمیت رکھتا ہے۔آپ جس قوم و ملک کے اطباء کی خدمات سے استفادہ کریں ان لوگوں کی اخلاقیات وقواعد کا بھی احترام کریں۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان بہترین اور پرمغز کتب کے ڈیجیٹل ایڈیشنز پیش کرنا اپنا اعزازسمجھتا ہے۔ادارہ ہذا کے منتظمین کارکنان مبارکباد کے مستحق ہیں کہنایاب کتب اپنے قارئین کے لئے پیش کرنے میں حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ اس کتاب میں بابلی آشوری۔مصری ہندی۔ایرانی وہ تمام تہذیبیں جو صفحہ ہستی سے اپنا وجود کھوچکی ہیں۔لیکن ان کی طبی خدمات اور اخلاقیات آج بھی اتنی ہی افادیت کی حامل ہیں جتنی ہزاروں سال پہلی تھیں۔
مصری طب Egyptian Medicine
مصری طب Egyptian Medicine تعارف * دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں مصر کی تہذیب (Egyptian Civilization) بیحد مشہور ہے جس کا سبب مصری تہذیب سے متعلق معلومات کی کثرت ہے۔ صدیوں پرانے مصری اہرام (Pyramids of Egypt) ، مقبرے (tombs) اور پرانے کھنڈرات کو کھودنے سے جوشتی تختیاں (clay tables)، بردی نوشتے (papyri) ، حنوط شدہ لاشیں (mummies) اور دیگر نوادرات (antiques) ملے میں ان سے قدیم مصری تہذیب و تمدن اور علوم و فنون پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ مصری تہذیب کے تعلق سے بعض آثار و شواہد ایسے ہیں کہ جن سے قدیم مصر میں رائج طریقہ ہائے علاج کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ جس کو تاریخ طب میں مصری طب کے نام سے درج کیا گیا ہے۔ مصری طب کے ابتدائی نظریات قدیم مصریوں کا نظریہ صحت و مرض : قدیم مصر، BC 6000 میں جادو اور سکر جیسے پر اسرار علوم کا بہت زور تھے۔ چنانچہ ابتداء میں مصری طب کی بنیاد بھی جادو اور سحر جیسے فرسودہ نظریات پر مشتمل نظر آتی ہے۔ زندگی اور موت سے متعلق قدیم مصریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ زندگی لافانی ہے اور کوئی بھی جاندار خود نہیں مرتا جب تک کہ مرض یا کسی حادثہ کے سبب موت واقع نہ ہو۔ اہل مصر مرض اور کسی ناگہانی حادثہ کو بھوت، پر بیت اور بدروحوں کا سایہ سمجھتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ اگر بھوت پریت اور بدروحوں سے حفاظت ممکن ہو جائے تو پھر موت لاحق نہیں ہوسکتی۔ طریقہ علاج ظاہر ہے جب مرض کا سبب شیطانی طاقت اور بدروحوں کا سایہ سمجھا جاتا تھا تو علاج بھی جھاڑ پھونک اور ٹونے ٹوٹکوں سے کیا جانا لازم تھا۔ مصریوں نے انسانی جسم کو چھتیس (36) حصوں میں تقسیم کیا تھا اور ہر حصے کی صحت کا محافظ کوئی ایک دیوتا تصور کیا جاتا تھا اور ہر حصے میں لاحق مرض کا سبب بھی کوئی شیطانی طاقت ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ ابتدائی مصری طب میں علاج و معالجہ کے تعلق سے مختلف دیوتاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ مرض پیدا ہونے کی صورت میں صحت کے دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی جس میں تھی۔ تمام صحت کے دیوتائوں میں سب سے زیادہ مقدس اور شفار بخش و یوتا امحو طب (Imhotep) تھا۔ (em hetep” signifies he who cometh in peace – 1 ” یعنی جو سکون بخش – ہے۔ الحوطب کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ وہ بھی در حقیقت ایک انسان ہی تھا اور تاؤ (Ptab) کا وزیر اعظم تھے۔ وہ بہت بڑا عالم، فاضل ، ہیئت داں ، ساحر اور طبیب تھا۔ اس کو ہر مرض کے علاج میں مہارت حاصل تھی۔ چنانچہ معالج کی حیثیت سے مصریوں کو اخو طب سے بے پناہ عقیدت ہوگئی اور انھوں نے انکو طب کو رب الشغار (Healing God) مان لیا۔ حتی کہ اگر طب کی موت کے بعد مصریوں نے اس کے بت (statue) بنائے اور علاج کے تعلق سے اس کی پرستش عام ہو گئی۔ امجو جاب کے مندر لا علاج مریضوں کا واحد مھکا نہ تھے۔ میمفس (Memphis) کے مقام پر اکو طب کے سب سے زیادہ مندر بنائے گئے ۔ احوطب کے مسلک کا اہم ترین مقام میمنٹس ہی معلوم ہوتا ہے۔ مصری طب کی ارتقاء مصری طب کے تعلق سے جو ذرائع معلومات به شکل بردی نوشته بخشتی تختیوں اور حنوط شدہ لاشوں کے محفوظ ہیں ان کا بغور تجزیہ کرنے کے بعد ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء میں تو مصری طب جادو، سحر اور دیگر تو ہمات پر مشتمل تھی لیکن BC 3000 سے 2000BC 3000 BC کے درمیان مصریوں نے اس فن میں حیرت انگیز ترقی کرلی۔ مصری طب کی ترقی کا مختصر جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ مصری طب کے ذرائع معلومات پر ایک نظر ڈالی جائے۔ مصری طب کے ذرائع معلومات – مصری طب کے ذرائع معلومات میں بردگی نوشتوں (papyri) کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔ مصری طب سے متعلق چند معروف اور اہم بر دی نوشتوں پر مختصر تبصرہ درج ذیل ہے۔ جارج ایبرس کا بروی نوشته (Georg Ebers’ papyrus) یہ مرد کی نوشته 1873 میں بمقام لکسر (Luxor) دریافت کیا گیا تھا۔ اِس وقت لیپزگ یونیورسٹی Leipzig) (University کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ طب قدیم کے تعلق سے یہ نوشتہ بہت زیادہ اہم اور مشہور ہے کیونکہ یہ مکمل طور پر طبی تحریروں کا مجموعہ ہے کہ تمام طبی نوشتوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ یہ نہیں (20) میٹر لمبا ہے اور اس میں سترہ سو (1700) امراض اور ان کے علاج کی تفصیل ہے اس کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس زمانے میں یہ نوشتہ لکھا گیا تھا وہ BC 1553 سے BC 1550 کا زمانہ ہے۔ اس نوشتے میں جو کچھ بھی درج ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مرتب (edit) کیا گیا ہے۔ اس میں مرتب کا واحد کام اپنے زمانے میں موجود و تمام طبی معلومات کو یکجا کرنا ہے، اس نوشتے سے کھری طب کے ابتدائی حالات پر بھی کچھ روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ایک قدیم مصری بادشاہ نیو تھومس(Tulhomsis) نے جس کا زمانہ BC 6000 کا ہے، ایک کتاب علم طب پر لکھی تھی جس کے مطابق مصری طب اپنی ابتداء میں ام تسخیر اور جادوگری پر ہی مینی تھا۔ لیکن نوشتے کی بقیہ معلومات سے مصری طب کی ترقی کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصری علم تشریح (Anatomy) اور منافع الاعضاء (Physiology) سے بخوبی واقف تھے قلب ودماغ کو اہمیت دیتے تھے۔ قلب عضور رئیس (vital organ) سمجھا جاتا تھا اور اس کی حرکت نبض (pulse) سے معلوم کی جاتی تھی۔ قدیم مصری اعتبار کے نزدیک جسم کا اہم ترین عمل عمل تنفس (respiration) تھا وہ اس عمل کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے۔ دو خون کی اہمیت کو جانتے تھے ان کے نزدیک لال رنگ زندگی کی علامت تھا۔ مصری اطبار اسباب مرض میں موسموں کی تبدیلی ، سیاروں کی تبدیلی اور دیگر حیوانوں ( کیڑے مکوڑوں ) کو شمار کرتے تھے۔ جن امراض کا سبب آنکھ کے نظر نہیں آتا تھا ان میں کام چلانے کے لیے غیر مرئی کیڑے مکوڑوں کا تصور کر
معاہدہ بقراطیہ برائے معالجین ۔Hippocratic Oath
معاہدہ بقراطیہ برائے معالجین ۔Hippocratic Oath تعارف اس وقت معالجین مریضوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے یں ۔یا میڈیکل کے شعبے سے وابسطہ لوگوں سے جو توقعات وابسطہ ہیں،انہیں دیکھتے ہوئے معاہدہ بقراطیہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے اس خطرے کو بھانپ لیا گیا تھا کہ معالج اپنے فن و ہنر کو منفعت انسانی کے لئے استعمال کرے نہ کہ لالچ اور ذاتی اغراض کے لئے۔معاہدی بقراطیہ کے مطالعہ سے بہت سے دھندلکے دور ہوجائیں گے معالجین کے بارہ میں واضح ہوجائے گا کہ ان کے فرائض و ذمہ داریاں کیا ہیں؟ معاہدہ کی اہمیت و افادیت معاہدہ بقراطیہ جس کو عہد نامہ بقراط ، یا حلف نامہ بقراط بھی کہتے ہیں ۔ بقراط اور فن طب کے تعلق سے انتہائی اہم اور مشہور چیز ہے۔ یہ ایک عہد نامہ ہے جس کو بقراط (460-377BC) نے خود تشکیل کیا تھا، اس لئے اس کے نام سے منسوب اس عہد نامہ میں کچھ ایسی باتیں ہیں جولیسی اخلاقیات (Medical Ethics) سے تعلق رکھتی ہیں ۔ معاہدہ کی غرض و غایت بقراط کو اس عہدنامے ۔ کے تیار کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کا پس منظر یہ ہے کہ قدیم یونانیوں کے عقیدے کے مطابق ان کے مقدس دیوتا استقلی بیوس (Asclepius) کو علم طب بذریعہ الہام عطا کیا گیا تھا، پھر یہ علم بطور وراثت استقلی بیوس کی آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتا رہا۔ اور صرف ایک خاندان کی میراث بن کر رہ گیا۔ استقلی بیوس کے خاندان کے علاوہ کسی غیر فرد کو علم طب اس لئے نہیں سکھایا جاتا تھا کیونکہ ایک تو یہ علم مقدس تصور کیا جاتا تھا ۔ دوسرے اس کا تعلق انسان کی صحت، زندگی اور موت سے تھا، چنانچہ ذراسی بھی غفلت بیش قیمت انسانی جان کے ضائع ہونے کا جب بن سکتی تھی۔ اس لئے ہر شخص کو مطب کی تعلیم کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ جب بقراط استقلی بیوس کی سولہویں پشت (16th generation) میں پیدا ہوا تو اس کے نانے تک استقلی بیوس خاندان کے کچھ ہی لوگ بچے تھے، جن کے پاس علم طب موجود تھا۔ بقراط نے یہ کیفیت دیکھ کر مناسب سمجھا کہ طب کی بقاء اور فروغ کے لئے ضروری ہے کہ علم طب کو ایک سے نکال کر دوسرے لوگوں تک بھی پہنچایا جائے کیونکہ یہ ایک نیک اور شریف فن ہے اورنیکی مشخص سے کرنا لازم ہے، چاہے وہ اپنا رشتہ دار ہو یا غیر ۔ چنانچہ بقراط نے یہ فن شریف دوسرے لوگوں تک بھی پہنچانے کے لئے اپنے خاندان کے علاوہ غیروں کو بھی اپنا شاگرد بنایا اور ان کو طب کی تعلیم دی ۔ مگر اس نیک کام میں بقراط کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس مقدس علم کو حاصل کرنے کے بعد نا اہل ثابت ہو اور اس فن کا حق ادا نہ کر پائے یا اپنے فن میں کو تا ہی کرے۔ جس سے فن داغدار ہو، اس صورت حال سے بچنے کے لئے بقراط نے ایک اہم عہد نامہ تیار کیا۔ جب بقراط کے شاکر و علم طب کی تعلیم مکمل کر لیتے تو میدان عمل میں اترنے سے پہلے بقراط ان سے اس عہد نامہ کو پڑھوا تا اور اس معاہدہ پر کار بند رہنے کا عہد لیتا۔ اس کے شاگرد خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھاتے اور اپنے استاد سے وعدہ کرتے کہ وہ اس عہد نامے کے عین مطابق کام کریں کے۔ یعنی فن طب کی عزت و عظمت کو برقراررکھنے کے لئے ایک استاد اور شاگرد کے درمیان سے ایک معاہدہ تھا۔ معاہدہ بقراطیہ کے متن کا اردو ترجمہ Urdu Translation of the Text of Hippocratic Oath میں قسم کھاتا ہوں اس رب کی جو زندگی اور موت کا مالک ہے۔ صحت کا عطا کرنے والا ہے۔ شفار کا خالق اور علات کا پیدا کرنے والا ہے۔ میں قسم کھاتا ہوں اسقلی بیوس کی اور تمام دیوی دیوتاؤں کی ۔ حلف لیتا ہوں کہ اپنے عہد کو پورا کروں گا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اپنے استاد کو جس نے مجھے اس صنعت کی تعلیم دی ہے، بمنزلہ اپنے والد ہوگا، اساتذہ کی اولاد بھائی کے مثل ہوگی ، اور وہ اس فن کی ضرورت محسوس کریں گے تو بغیر اجرت کے طب کی تعلیم دوں گا۔ مریضوں کا فائدہ میرا فرض اولین ہوگا ۔ مضر اشیاء کے استعمال سے ان کو منع کروں گا ، مبلک ووا کسی کو نہ دوں گا، چاہے کوئی اصرار ہی کیوں نہ کرے اور نہ کسی کو مہلک دوا کے بارے میں بتاؤں گا ۔ عورتوں کو اسقاط حمل ادویہ ہرگز نہ دوں گا۔ میں اپنے پیشے میں پاک دامن رہوں گا۔ اگر مریض کے مثانے (bladder) میں پتھری ہوگی تو جراحت خود نہ کروں گا بلکہ مریض کو ماہر جراح (Surgeon) کے پاس بھیج دوں گا۔ مریضوں کے راز فاش نہیں کروں گا۔ جہاں بھی جاؤں گا مریضوں کی بھلائی کے کام کرنوں گا . اس کی خدمت کروں گا ۔ معاش میں اس کا حصہ لئے کام کروں گا۔ بقراط کا یہ عہد نامہ طبی اخلاقیات کی بہترین مثال ہے۔ اور ایک دستاویز ہے جو آج بھی مختلف طبی درسگاہوں میں پتھر پر کندہ ہے اور عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ے
حکیم محمد کبیر الدین۔مصنف طبیب ۔مترجم۔
حکیم محمد کبیر الدین۔مصنف طبیب ۔مترجم۔ محمد کبیر الدین Muhammad Kabiruddin تعارف علامہ محمد کبیر الدین انصاری کی شخصیت کو اگر طب یونانی کے تعلق سے مجاہد طب سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اگر بیسویں صدی (20th cent. AD) کے اوائل میں علامہ نے طبی تصنیف و تالیف کے میدان میں علمی جہاد نہ چھیڑا ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ طب یونانی ہندوستان میں لسانی بحران سے دوچار ہو کر آج قصہ پارینہ ہو گئی ہوتی۔ جہاں علامہ نے عربی زبان میں طب پر مقالات تحریر کئے وہیں طب یونانی کی بنیادی کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کر کے اس طب کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے کا معقول انتظام کر دیا۔ آج طب یونانی کا نصاب تعلیم جن کتب پر مشتمل ہے ان میں زیادہ تر علامہ محمد کبیر الدین کے ذریعہ ہی تحریر کردہ ہیں۔ طب یونانی کا یہ مشہور مصنف و مترجم (1894AD) میں صوبہ بہار کے ضلع مونگیر، قصبہ شیخو پورہ میں پیدا ہوا تھا اور تمام عمر طب کی خدمت میں گزارنے کے بعد 82 سال کی عمر کو پہنچ کر 1976AD کو اس دار فانی سے رخصت ہو گیا۔ تعلیم و تربیت کبیر الدین کا تعلق ایک علمی خانوادہ سے تھا، چنا نچہ ابتدائی تعلیم گھر سے ہی شروع ہوئی جو دینی اور لسانی تعلیمات پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد حصول علم کی غرض سے ہی ترک وطن کیا اور لکھنو ، کانپور اور دہلی سے علم طب اور عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ یہی نہیں اپنے شوق کی بناء پرفن خطاطی میں بھی کمال حاصل کیا۔ فضل و کمال کبیرالدین بیک وقت ایک فاضل طیب، بہترین استاد اور جلیل القدر مصنف و مترجم ثابت ہوئے۔ کبیر الدین بحیثیت طبیب علمی اعتبار سے کبیر الدین طب کے ہر پہلو پر درک رکھتے تھے۔ اگر چاہتے تو طبابت میں بھی کامل ہو جاتے۔ لیکن اپنے استاد محترم جناب حکیم اجمل خاں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے طبی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کو اپنا میدان خاص بنایا۔ کبیر الدین بحیثیت استاد طب یونانی پر مکمل عبور ہونے کی بنا پر آپ نے بطور مدرس بھی انا قام بنایا۔ انھوںنے استاد کے طور پر آیورویای یونانی بی کا یہ قرول باغ بنی دیلی، جام طیب کی قاسم جان، دہلی، نظامیہ طبیہ کالج ، حیدر آباد اور اجمل خان طبیہ کالج علی گڑھ، میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ آج بھی یہ چاروں طبی مراکز طب یونانی کی چوٹی کی درسگاہوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اور ان تمام جگہوں پر کبیر الدین کو بطور مدرس مدعو کیا گیا تھا۔ بیشک کبیر الدین ان اساتذہ میں سے تھے کہ جن کی شاگردی بھی باعث فخر و امتیاز ہوتی ہے۔ کبیر الدین بحیثیت مصنف : شاید خدا کو کبیر الدین سے طب یونانی کی تصنیف و تالیف و تراجم کا کام لینا ہی مقصود تھا، جو بعد میں اس فن کی بقاء کا سبب بنا۔ چنانچہ جب وہ مدرسہ طبیہ اگلی قاسم جان، دہلی سے طب یونانی کی تعلیم حاصل کر چکے تب ان کی علمی بصیرت دیکھ کر ان کے استاد محترم حکیم اجمل خاں نے ان کو ہدایت کی کہ وہ طبی تصنیف و تالیف کو اپنا میدان خاص بنا ئیں تو بہتر ہے۔ پھر کیا تھا استاد کی بات پر عمل کرتے ہوئے کبیر الدین نے علمی جہاد چھیٹر دیا۔ اس وقت طب یونانی کی بنیادی کتا ہیں چونکہ عربی و فارسی زبانوں میں ہی تمھیں، لہذا ان زبانوں سے واقفیت کم ہونے کی بنا پر ان تک عام طالب علم کی رسائی نہ تھی ، اس لئے کبیر الدین نے محسوس کیا کہ طب یونانی کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اردو تراجم کئے جائیں۔ چنانچہ آپ تن، ہن اور دھن سے ترجمے کے کام میں جٹ گئے اور انتہائی مہارت کے ساتھ اہم طبی کتابوں کے اردو تراجم کر ڈالے۔ آپ چونکہ صرف مترجم ہی نہ تھے، طبیب فاضل بھی تھے، اس لئے بعض دشوار مسائل کی تفسیر بھی آپ نے کی، اور کچھ نکات پر اپنی کامل رائے کا اظہار بھی کیا ۔ حکیم صاحب نے طب یونانی کی جن کتابوں کے تراجم کے یا ذاتی طور پر جو کتابیں یا رسائل و جرائد تحریر کئے ان کی فہرست طویل ہے۔ ذیل میں صرف ان کتابوں کی فہرست پیش کی جارہی ہے جو آپ کے ذریعہ اردو میں دستیاب ہو ئیں اور طبی نصاب تعلیم میں شامل کی گئیں۔ کلیات قانون اول اور دوم – ترجمہ کبیر اول، دوم، سوم اور چہارم ۔ افادہ کبیر اول اور دوم یاض کبیر اول اور دوم کلیات نیسی اول اور دوم، تشریح کبیر اول اور دوم کتاب الادویہ، کتاب لتكليس وغیرہ ۔ ان کتب کے علاوہ بھی علامہ نے طب کے مختلف موضوعات پر مقالات الصيد لدا ریر کئے جو ہاری اور اعلی طبی جرائد میں شائع ہوئے ۔ آپ نے خود بھی حیدر آباد سے شائع ہونے والے طبی جریدہ اسیح کی طباعت و اشاعت کے لئے مدیر اعلیٰ کے فرائض انجام دیئے ۔ مختصر یہ کہ بیسویں صدی میں طب کے علمی سفر کاسپہ سالار حکیم کبیر الدین کے علاوہ اور کوئی نہیں کہ جس نے اردو تالیفات کے ذریعہ نئی نسل کو علم طب سے روشناس کروایا۔
طبِّ اسلامی کا انسائیکلوپیڈیا القانون فی الطب
طبِّ اسلامی کا انسائیکلوپیڈیا، بو علی سینا کی شہرہ آفاق کتاب القانون فی الطب کا اردو ترجمہ القانون فی الطب علم طب، جراحی اور علم الابدان پر حکیم بوعلی سینا یا ابن سینا کی ایک مشہور تصنیف اور طبی معلومات کا سرچشمہ۔ اصل کتاب عربی میں ہے دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب میں علاوہ جراحی و علاج معالجہ کے طب کے دیگر علوم (مثلا تشریح، فعلیات وغیرہ) کے ابواب بھی جابجا دیے گئے ہیں۔، جلد اول طب میں قانون کی کتاب کو سب سے اہم سائنسی کتابوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ تقریباً دس صدیاں پہلے لکھی گئی تھی، اور بہت سے سائنسی اور تجرباتی نظریات اور جدید تجربہ گاہوں کی دریافت سے پہلے، یہ اب بھی ایک اہم حوالہ اور بنیادی اصول ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے اور منشیات کی تشکیل. علاج کے کچھ طریقے جو کہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے کے قانون میں بتائے گئے تھے اب بھی لاگو ہیں۔ جلد دوم جلد سوم۔ جلد چہارم عربی ٹیکسٹ فارمیٹ