علاج میں دوائی مقدار کے تعین کا پیمانہاز۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومنتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔ دوائی خوراک دوا کی طاقت اور مریض کی ضرورت کو پیش نظر رکھےت ہوئے متعین کیا جاتا ہے۔جو خوراکی مقدار کتب میں لکھی ہوتی ہے یہ وہ متعدل خوراک ہوتی ہے جو عام انسانی جو اوسط جسامت رکھتا ہو کے حساب سے ہوتی ہے۔اگر کوئی زیادہ جسامت والا ہوگا تو اس کے لئے خوراک مین اضافہ کیا جائےگا اور اگر کوئی کمزور جسم کا مالک ہوگا تو اس کی صحت کے مطابق خوراک کا تعین کیاجائے گا۔بچوں کو خوراک کی مقدار کم رکھی جاتی ہے بلکہ عمر کے لحاظ سے کم و بیش کی جاتی ہے۔ دوائوں کی تقسیم غذائی دوا۔ دوائے اصلی۔پھر حیوانی۔نباتاتی۔جماداتی۔اس کے بعد درجہ بندی اول تا چہارم۔یعنی کس قدرجہ میں دوا کی دوائی خوراکی مقدار کیا ہونی چاہئے۔کتابوں میں لکھی گئی مقدار تخمینی ہوتی ہے حتمی نہیں ۔لکھنے والا اپنے مطالعہ و مشاہدہ کی بنیاد پر دوا کی مقدار خوراک کا تعین کرتا ہے۔یہ حتمی نہیں ہوتی۔اگر کوئی معالج کسی دوا میں ضرورت کے وقت کمی یا زیادتی کرتاہے تو اسے اختیار ہوتا ہے۔لیکن تخمینی مقدار کسی حدتک محفوظ ہوتی ہے یعنی اگر اس مقدار میں دو کھالی جائے تو نقصان کا امکان کم سے کم ہوتا ہے۔عمومی طورپر دیکھا گیا ہے کہ متعین مقدار سے اگر کسی نے زیادہ دوا کھابھی لی تو ایک نارمل انسان اسے برداشت کرسکے۔عمومی طورپر خوراکی مقدار سے اگر تین گنا دوا کھالی جائے تواسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ طبی کتب اور بن سو وابسطہ لوگوں میں ایسا بھی مشاہدہ ہوا ہے کہ جو مقدار خواک کسی نسخہ یا مفرد دوا میں لکھ دی گئی ہے اس سے سرمو انحراف نہیں کرتے،اگر دوا دی جائے گی تو نسخہ میں لکھی ہوئی مقدار کے مطابق ہی ہوگی۔کم یا زیادہکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس کواکی مقدار سے اگر مریض پر غیر طبعی اثرات کا ظہور ہوتا ہے تو اسے نقص کہا جاتا ہے۔اس نقص کو دور کرنے کئے لئے طرح طرح کے جتن کئے جاتی ہے،بالخصوص جب زہریلی اور جماداتی ادویات کی باری آتی ہے۔ تریاق و اکسیر کی حقیقت مقدار خوراک۔ عمومی طورپر معدنی اور زہریلی ادویات طب میں استعمال کیا جانا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔کشتہ جات۔جیسے شنگرف،پارہ۔سم الفار۔فولاد۔۔تانبہ۔نیلا تھوتھا۔وغیرہ وغیرہ۔اگر انہیں ٹھیک طریقے سے بنالیا جائے۔اور بروقت استعمال کیا جائے تو یہ چیزیں تریاقی صفات کی حامل اثرات میں برق رفتار ہوتی ہیں ۔لیکن ان کی مقدار خوراک میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے،کسی اناڑی یا غیر طبیب کو ان کے اندرونی استعمال کی اجازت نہیں دی جاتی ۔کیونکہ ان کی معمولی مقدار بھی تیز ترین اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ جو اس کے بروقت استعمال کا فن جان لیتا ہے وہ امراض سے بچائو کی حیرت انگیز صلاحیت کا مالک بن جاتا ہے۔اور جو یہ فن نہیں سمجھتا اور اس کے طریق استعمال سے بے خبر ہے اس کے ہاتھ میں یہ ادویات ہلاک کے اوزار ہیں۔
زندگی جینے کافن
زندگی جینے کافناظہار خیالسب تعریفیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے، جو بڑا مہربان نہایت رحم فرمانے والاہے ۔ درودوسلام ہو اللہ کے آخری نبی و رسول جناب محمد صلی لا یہ تم پر ۔ خوشگوار زندگی گزارنا ہر انسان کا ایک خواب ہوتا ہے۔ وہ پرسکون زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب کہ انسان دین اسلام پر عمل کرے، کیونکہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو زندگی کے ہر گوشہ میں انسان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ رب العزت کے نازل کردہ دین میں جہاں اُخروی معاملات میں رُشد و ہدایت دی گئی ہے، وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی گئی ہے۔ اس دین کا مقصد جس طرح انسان کی اخروی کامیابی ہے۔ اسی طرح اس دین کا یہ بھی مقصد ہے کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہو کر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی زندگی بسر کرے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم سلا می ایستم اکثر یہ دعا کرتے : رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطافرما۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ۔ ) ( صحیح بخاری، کتاب الدعوات، رقم الحديث : 6389)پیش نظر کتاب خالص قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں زندگی گزارنے کے سنہرے اسلامی اصولوں کو بیان کرتی ہے۔ احادیث کی تشریح میں روایتی انداز کے بجائے عملی اسلوب کو اختیار کیا گیا ہے، تا کہ قارئین آسانی سے سمجھ سکے۔ الغرض ڈاکٹر نورالحسین صاحب کی کتاب، زندگی جینے کا فن ، کا مطالعہ ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے اور عمل کرنے سے ان شاء اللہ کوئی بھی قاری خوشگوار زندگی گزار سکے گا، باذن اللہ ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس خدمت کو قبول فرمائے اور ذخیرہ آخرت بنائے اور اس کتاب کا نفع عام کرے اور مؤلف، ناشر اور جو کوئی اس کتاب کو پھیلائے ان کی مغفرت فرمائے۔خادم الاسلام ڈاکٹر محمد یسین شورا پوری
جڑی بوٹیوں سے کیسےفائدہ اٹھایا جائے
روزمرہ کی جڑی بوٹیوں سے کیسےفائدہ اٹھایا جائے کیا انگریزی کتب اور معالجین پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ آگے بڑھنے والی قومیں اپنی ضروریات کے پیش نظر کسی سے بھی کہیں سے بھی کچھ بھی حاصل کرنے کے لکئے پہنچ جاتے ہیں۔پھر اس کا برملا اقرار بھیکرتے ہیں کہ ہم نے فلاں چیز فلاں سے حاصل کی ہے۔یہ زندگی اور تحقیق کی صحت مندانہ روش ہے۔جس نے کو کام کیا اس کی اعتراف کرو اس کے حوالے سے بیان کرو۔تمہارے لئے اتناہی کافی ہے حوالہ دینے سے لوگ سمجھ جائیں گے کہ یہ علمی شخصیت ہے۔اور اس کا مطالعہ و مشاہدہ تجربہ دوسروں سے بہتر ہے۔بالفاظ دیگر یہ پڑھا لکھا ہے۔ اس کے برعکس جولوگ دوسروں کی باتوں کو اپنی تحقیق بتاتے ہیں انہیں وقتی سہارا تو مل جاتا ہے لیکن علمی دنیا میں یہ سرقہ کہلاتا ہے۔جب لوگوں کو اس علمی خیانت و بددیانتی کا پتہ چلتا ہے تواس کی عزت و شہرت کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ رہتی ہے۔اس کے بھرم کا بت آں واحد میں پاش پاش ہوجاتا ہے۔اس لئے علمی خیانت و بددیانتی سے بہتر ہے کہ جس کا جو حق ہے اسے دیدیا جائے۔ دیسی معالجین کے لئے انگریزی کتب۔ کچھ لوگ اس بات پر بضد ہیں کہ جو کچھ اہل بند کردیا ہے ہے وہ حرف آخر وہ ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہیں اور اس دریچہ کے علاوہ انہیں دیگر دریچوں سے جھانکنا گوارا نہیں۔اس میں شک نہیں کہ ایلو پیتھی کو اہل مغرب نے اہل بند پر مسلط کیا۔اور دیسی طب کے ساتھ موادانہ رویہ رکھا لیکن ضروری تو نہیں کہ جو چیز بھی ان کی طرف منسوب ہو وہ غلط و مضر پہلو ہی رکھتی ہو۔ روزمرہ کی جڑی بوٹیوں سے کیسےفائدہ اٹھایا جائے جس طرح اہل ہند علم العقاقیر۔خواص و ادویہ۔غذا و خوراک پر تحقیقات۔جڑی بوٹیوں پر تجربات کا وسیع جہان رکھتے ہیں۔اہل مغرب بھی کسی طرح کم نہیں ۔ان کی کتب اور ان کے مضامین و تحقیقات اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ اس فن مین اہل ہند سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔لیکن ہم ماضی اور کم علمی کو اتنا محبوب بنائے ہوئے ہیں کہ کسی دوسری طرف نگاہ اٹھانا گناہ سمجھتے ہیں۔ ان کتب کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟ علم العقایر وسیع علم ہے۔دنیا بھر میں اس پر کام ہورہا ہے۔نت نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں۔جو چیزیں مفروضات و واہموں پر مبنی ہوتی ہیں انہیں ترک کردیا جاتا ہے۔جو مفید پہلو رکھتی ہیں ان پرتحقیقات و تجربات کئے جاتے ہیں۔یہی وجہ سے کہ روزہ مرہ استعمال کی اشیاء کے وہ پہلو سامنے آرہے ہیں جن کا دیسی کتب میں ذکر تک موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس وسائل ہیں۔میدان عمل ہے۔لبارٹریز ہیں۔اور جدید سائنسی آلات ہیں۔پھر وہ ایک دوسری کی نقالی کے بجائےاپنی انفرادی رائے رکھتے ہیں۔اپنے تجربات کو خفیہ رکھنے اور صدری راز کہنے کے بجائے شائع کرنے میں زیادہ لطف محسوس کرتے ہیں۔عمومی طورپر انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ ارسطو۔بطلیموس وغیرہ نے کیا کہا وہ اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ آج کی تحقیقات کے نتائج کیا ہیں۔ہو لوگ عزت کو ان معنوں میں نہیں لیتے کہ صدیوں پرانے لوگوں کی تحقیقات و مفروضات کو من و عن تسلیم کرلیں۔وہ کہتے ہیں جو چیز دکھائی دے رہی ہے جو محسوسات و تجربات کے نتائج ہیں وہ کیا ہیں۔بے دھڑک بیان کرتے ہیں ۔اپنی کتب ان کے مضامین اور ان کی ویب سائٹس اس بات کی گواہ ہیں۔ لازمی نہیں کہ سب ہی اس معیار پر پورا اترتے ہیں کچھ غاصب و نقال سارق بھی ہیں۔لیکن ایک محقق و صاحب نظر کے لئے اس میں بہت سا سامان تسکین موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارمیکولوجی
فارمیکولوجیدوا۔ان کے اثرات و استعمالات۔۔ کتاب کے تیسرے حصہ میں علاج بالکیمیا،میں ادویات کے معالجاتی استعمال و مرکبات اور ترکیب استعمال کے تعلق سے دی گئی مقدار خوراک کو گرچہ بہت احتیاط و محتاط رہ کر درج کیاگیا ہے۔اس کے باوجود اس میں غلطیوں کا احتمال ہے اس لئے ادویات خصوصا جن کے مضمرات زیادہ ہوں ان کے استعمال سے پہے ایک دیگر کتب سے موازنہ کرلیا جائے۔کتاب کے دوسرے حصے میں ادویات کے۔۔۔۔نام لکھے گئے ہیں جن کے مارکیٹ نام۔۔۔۔وغیرہ بہ آسانی دستیاب ہیں، ڈائون لوڈ لنک
سوالاکھ جواب طلب کمنٹس۔
سوالاکھ جواب طلب کمنٹس۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔انٹر نیٹ کی دنیا میں کسی کونٹینٹ اور پر تبصرےیا رائے اہمیت رکھتے ہیں۔انہیں کامیابی یا ناکامی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔اپنے محدود وسائل مین رہتے ہوئے طبی مضامین صحت پر ہونے والے سوالات کے جوابات۔نت نئی کتب کے ڈیجیٹل ایڈیشنز۔دوسری زبانوں سے ترجمہ کی گئی قیمتی کتابوں کی اشاعت۔طب پڑھنے والے طلباء کے لئے کلاسز کا اہتمام۔مریضوں کا علاج و معالجہ۔آن لائن تشخیص۔ادویات کی فراہمی۔حکماء کے الجھے ہوئے مسائل کے جوابات۔یومیہ بنیاد پر لکھنے جانے والے تحقیقی مضامین۔دنیا بھر میں لوگوںکی توجہ سمیٹ رہے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں سے کچھ مصروفیات کی وجہ سے ادارہ ہذا کی دو نمائیندہ۔۔ ویب سائٹس۔(1)www.dnuyakailm.com(2)www.tibb4all.comپر توجہ نہ دے سکا۔آج دیکھا تو سوا لاکھ سے زائد کمنٹس موجود ہیں،جو اپنے طبی و روحانی مسائل ،اور ڈیجیٹل پرابلمز۔اور حل طلب امور ۔اور علمی سوالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ویب سائٹس پر دنیا بھر کے قارئین موجود ہیں۔ہر کوئی اپنی ضروریات اور پیچیدہ و پوشیدہ امراض۔عملی الجھنوں کے بارہ میں سوالات کرتا ہے۔سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ان سوالوں کے جوابات میں کئی دن لگ جائیں گے لیکن سائلین تو منتظر ہیں۔کچھ لوگ تو وٹس ایپ۔مسینجر۔فیس بک وغیرہ پر آکر تاخیر جواب پر شکایات کے انبار لگا دیتے ہیں۔جو مریض زیادہ پریشان ہوتے ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر جوابات فراہم کئے جاتے ہیں۔اب وقت صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ علمی کام اور ادارے کے امور پر توجہ کم اور سائلین کے جوابات کے لئے وقت درکار ہے۔بسااوقات کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ایک تلخ تجربہ۔ راقم الحروف سائلین کے لئے بہت سا وقت نکالتا ہے تاکہ پریشان حال لوگوں کے مسائل سن سکوں۔لیکن کچھ لوگ سوالات کے بجائے مباحثہ پر آمادہ ہوتے ہیں۔غیر ضروری مباحثہ کی وجہ سے دوسرے مستحق لوگوں کا حق مارا جاتاہے۔ایسے صاحبان سے گزارش ہے وقت کا خیال رکھئے۔۔۔۔دوسرے لوگ جن کا خیال ہے کہ وہ طب اور دیگر علوم میں سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔جب وہ الٹے سیدھے تجربات اور مشقت کرنے کے بعد مطلوبہ نتائج حاصؒ نہیں کر پاتے تو ان کا الجھا ہوا ذہن ۔اور ادھورا پن ۔اس قدر وقت ضائع کرتے ہیں۔یا جو مریض گرم سرد۔تر وغیرہ کا خود تراشیدہ فلسفہ رکھتے ہیں۔اور علاج کے لئے رجوع کرتے ہیں تو زیادہ وقت برباد کرتے ہیں۔انہیں جب بھی کوئی مشورہ دیا جاتا ہے تو اس کے توڑ کے لئے پہلے سے اشکا ل موجود ہوتا ہے۔
کچور’’زرنبار‘‘کےسحری خواص
کچور’’زرنبار‘‘نرکچورکےسحری خواصدیگرنام۔فارسی میں زرنباد ،بنگالی میں شٹی آکنگی یا پیاکچوروسنسکرت میں کرچور مرہٹی اور گجراتی میں کچوراانگریزی میں لانگ زیڈ واری اور لاطینی میںCurcuma Zedoariaکہتے ہیں ۔نبات الزرنباد ایک بہت اہم جڑی بوٹی ہے جو انڈیا میں کافی عرصے سے موجود ہے اور اسے خاص تقدس حاصل ہے۔ تجربات نے ثابت کیا ہے کہ اس پودے کے کئی اہم فوائد ہیں، خاص طور پر طبی میدان میں، اور یہ بہت سے کاسمیٹکس اور دیگر اہم چیزوں میں استعمال ہوتا ہے۔ان قدرتی پودوں میں سے ایک ہے جو ادرک کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے لیکن یہ زنبارڈ جڑی بوٹی کے پھول بڑے پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ , گندھک کے رنگ کا، اور ہیں… ایک جڑی بوٹیوں والا پودا جو اپنے رنگ اور ذائقے میں ادرک سے مشابہت رکھتا ہے اس پودے کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا حصہ “جڑیں” ہے یا جسے جڑی بوٹی کا ریزوم کہا جاتا ہے۔ کھانے میں ذائقہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مصالحہ جات میں، کیونکہ اس کا ذائقہ ادرک سے ملتا ہے، اس کے علاوہ اس کے ریزوم کے عرق کو بھی اس کی بیماریوں کے علاج کی صلاحیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس میں نمکیات، معدنیات، وٹامنز اور غیر مستحکم تیل شامل ہیں، اس میں جسم کے لیے ضروری غذائیت کے عناصر کے علاوہ ایک مضبوط خوشبو بھی ہے۔ماہیت۔یہ ہلدی کی طرح ایک بوٹی ہے۔زرنباد نبات کی جڑ ہے جوکسی قدر ہلدی سے مشابہت رکھتی ہے اس کی دو اقسام ہیں ۔ایک قسم خرد جو تیز بو والی ہوتی ہے۔جوکسی قدر سخت ہوتی ہے۔اس کو سالم ہی جوش دے کر خشک کرکے رکھتے ہیں تو اسکے کچور کہتے ہیں ۔دوسری قسم کلاں موٹی اور دراز ہوتی ہے اس کو زمین سے نکالنے کے بعد جوش دے کر ٹکڑے کرنے کے بعد خشک کرکے کام میں لاتے ہیں ۔اس کو نرکچور اور کپور کچری کہتے ہیں ۔دونوں کے افعال تقریباًیکساں ہیں زرنباد کی جڑی بوٹی کے اندرونی استعمالات اور فوائد :1- زرنباد کا پاؤڈر اسہال کو روکتا ہے، کیونکہ اس پاؤڈر نے ہاضمہ کے مسائل، خاص طور پر اسہال کے علاج میں اپنی طاقتور تاثیر ثابت کی ہے۔2- یہ ایک اہم پودا ہے جو معدے سے گیس خارج کرنے میں مدد کرتا ہے۔3- یہ جسم کو موٹا کرنے میں مددگار ہے، اس لیے بہت سے غذائیت کے ماہرین اسے استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کمزور لوگ اپنی کمزوری سے چھٹکارا پا سکیں۔ 4- یہ قے کو روکنے کا کام بھی کرتا ہے۔5- یہ خواتین کی رحم کے لیے بہت مفید ہے، اس لیے یہ جڑی بوٹی مسائلِ رحم کے حل کے لیے انتہائی مؤثر ہے۔6- اس پودے کا ابلا ہوا حصہ کیڑے کے ڈنک سے چھٹکارا پانے میں مدد کرتا ہے اور طبی رپورٹوں کے مطابق یہ اس حوالے سے ایک کامیاب علاج مانا جاتا ہے۔7- ان جڑوں کو کھایا بھی جا سکتا ہے اور یہ جسم کے لیے بے شمار فوائد فراہم کرتی ہیں، جن میں یہ شامل ہے کہ یہ پیشاب اور حیض کی روانی بڑھاتی ہے اور دل کی دھڑکن کو کم کرتی ہے، لہذا یہ بہت سے انسانی مسائل کے علاج کے لیے مفید ہے۔ زرین باد جڑی کے فوائد کیا ہیں؟زنباد جڑی بوٹی کے جسم کے لیے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں:زنباد جڑی بوٹی اسہال کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔زنباد کا پودا پیٹ کی گیسوں کو نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔زنبد وزن بڑھانے میں معاون ہے۔بھوک کو تیز کرنے میں مدد کرتا ہے۔کھانسی کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔زنباد کا پودا خواتین کے رحم کے لیے فائدہ مند ہے۔Zinbad پلانٹ ایک emmenagogue ہے.بخار کا علاج کرتا ہے۔گٹھیا کے علاج میں مدد کرتا ہے۔یہ جلد کی جلن کو دور کرنے میں معاون ہے۔کم بلڈ پریشر کا علاج کرتا ہے۔ملیریا کے علاج میں معاون ہے۔زنباد کو پیشاب آور دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔زنباد کا پودا ناگوار بدبو کو دور کرتا ہے۔زنباد منہ سے پیاز اور لہسن کی بدبو کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔زنباد کا پودا مسوڑھوں کو سخت کرنے میں معاون ہے۔زنباد کا پودا دانت کے درد اور درد کو دور کرتا ہے۔زنبد پاؤں کے نیچے کے درد کو ختم کرتا ہے۔زنباد کا پودا سر درد کو دور کرتا ہے۔زنبد چیونٹیوں کو ختم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ہاتھی کی بیماری کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ہے۔دل کو مضبوط بنانے میں مدد کرتا ہے۔زنبد درد کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔زنبد درد کا علاج کرتا ہے۔زنباد جڑی بوٹی زخموں اور زخموں کا علاج کرتی ہے۔نزلہ زکام کا علاج کرتا ہے۔بواسیر کے علاج میں معاون ہے۔یہ سر کی خشکی کو دور کرتا ہے۔مخالف عمر۔تناؤ کو دور کرتا ہے۔خواتین کے لیے زنباد جڑی کے فوائدزنباد خواتین کی صحت کے لیے اہم جڑی بوٹیوں میں سے ایک ہے، اس لیے ہم آپ کو خواتین کے لیے اس کے سب سے نمایاں فوائد کا ذکر کرتے ہیں:زنباد جڑی بوٹی متلی اور الٹی کو روکنے میں مدد کرتی ہے۔زنباد بچہ دانی کے لیے مفید جڑی بوٹیوں میں سے ایک ہے۔زنباد بچہ دانی کو متاثر کرنے والے صحت کے مسائل کے علاج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔Zinbad پلانٹ ایک emmenagogue ہے.ولادت کے بعد خواتین میں پاؤں کی سوجن کو دور کرتا ہے۔رحم کے لیے زنباد جڑی کے فوائدزنباد پودے کے بچہ دانی کے لیے بہت سے فوائد ہیں، خاص طور پر:زنباد بچہ دانی کے لیے مفید جڑی بوٹیوں میں سے ایک ہے۔زنباد بچہ دانی کو متاثر کرنے والے صحت کے مسائل کے علاج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اصول الطب Usoole tibbسید کمال الدین حسین ہمدانی
Usoole tibb Principles of medicineforewordThe main difference between man and animal is speech and consciousness. These two God-given abilities not only gave man the status of Ashraf-ul-Makhluqat but also introduced him to the mysteries and secrets of the universe that could take him to the heights of spiritual development. Knowledge of the hidden factors of life is the name of knowledge. There are two basic branches of knowledge, inner sciences and external sciences. Esoteric sciences have been related to the inner world of man and the civilization and refinement of this world. Apart from the Holy Prophets, the efforts made by the Godly Saints, the Sufis and Saints, and the thoughtful poets to beautify and refine the inner being of man are all different links in the same chain. The external sciences are related to the external world of man and its formation and construction. History and philosophy, politics and economics, society and science etc. are such fields of knowledge. The word has played a fundamental role in the protection and promotion of the sciences whether they are internal or external. Be it the spoken word or the written word, it has been the most effective means of transferring knowledge from one generation to another. The written word is older than the spoken word. Therefore, man invented the art of writing, and when the art of printing was invented, the life of the word and its circle of influence increased even more.Books are a store of words and the source of various sciences and arts. The main objective of the National Council for the Promotion of Urdu Language is to publish good poetry in Urdu and to make it available to the lovers of literature at minimum cost. Urdu is once known, spoken and read language in the whole country but its understanding, speaking and reading has now spread all over the world.The Council’s effort is to prepare good textbooks and extra-curricular books in each of these languages, which are equally popular among the people and the elite, and publish them in the best possible way. To achieve this objective, the Council has devoted its attention to the publication of books on various subjects as well as in criticism and translations of standard books in other languages. It is a matter of satisfaction for us that the development of Urdu Bureau and after its formation the National Council for the Promotion of Urdu Language, which have been published in Kata, have been well received by the Urdu readers.The Council has started a series of books of fundamental importance under a comprehensive programme, this book is a link in the series which it is hoped will fill a critical academic need.I would also request the scholars that if they find anything wrong in the book, write to us so that the remaining error can be removed in the publication.Dr. Muhammad Hameedullah Bhat – Director..Compilation With the name of the beloved father of the late and beloved Haziq-ul-Hikama, Mr. Syed Muhammad Riazuddin Hussain Sahib alias Hakeem Ahsan Sahib, I dedicate the acquisition of the art of medicine due to your artistic talent, but it was born in my heart and it was you. Due to the effect of prayers, the difficult stages of this art became easy due to my influence.Father Qibla not only kept Fan medicine in his family in Jalali district Aligarh, but also planted four moons in it with Sa’i Baligh and breathed a new spirit with his glory and wisdom. He compiled and recorded the experiences that he gained in all his life in a thick book and named this book as Riyaz-ul-Adawiya. Along with the knowledge of medicine, he was also well versed in chemistry and was an expert in killing all metals and the captive psyche, and this knowledge he acquired regularly from Allama Muhammad Ibrahim Ali Khan Sahib Ruhi (Physician Special in the state of Tonk, Rajasthan). Your library also has a rare collection of science and chemistry. His research work was in progress when he suffered a stroke and he died of this disease in Anhu and was buried in Pish Madar Darwaza Gurhi Jalali, which is his ancestral cemetery.Syed Muhammad Kamaluddin Hussain Hamdani link
تاریخ علم الادویہ
تاریخ علم الادویہ۔ پیش لفظ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق نطق اور شعور کا ہے۔ ان دو خداداد صلاحیتوں نے انسان کو نہ صرف اشرف المخلوقات کا درجہ دیا بلکہ اسے کائنات کے ان اسرار و رموز سے بھی آشنا کیا جو اسے دینی اور روحانی ترقی کی معراج تک لے جاسکتے تھے۔ حیات و کائنات کے مخفی عوامل سے آگہی کا نام ہی علم ہے۔ علم کی دو اساسی شاخیں ہیں باطنی علوم اور ظاہری علوم ۔ باطنی علوم کا تعلق انسان کی داخلی دنیا اور اس دنیا کی تہذیب و تطہیر سے رہا ہے۔ مقدس پیغمبروں کے علاوہ، خدارسیدہ بزرگوں، بچے صوفیوں اور سنتوں اور فکر رسا رکھنے والے شاعروں نے انسان کے باطن کو سنوار نے اور نکھارنے کے لیے جو کوششین کی ہیں وہ سب اسی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ ظاہری علوم کا تعلق انسان کی خارجی دنیا اور اس کی تشکیل و تعمیر سے ہے۔ تاریخ اور فلسفہ، سیاست اور اقتصاد، سماج اور سائنس وغیرہ علم کے ایسے ہی شعبے ہیں۔ علوم داخلی ہوں یا خارجی ان کے تحفظ و ترویج میں بنیادی کردار لفظ نے ادا کیا ہے۔ بولا ہوا لفظ ہو یا لکھا ہوا لفظ ، ایک نسل سے دوسری نسل تک علم کی منتقلی کا سب سے موثر وسیلہ رہا ہے۔ لکھے ہوئے لفظ کی عمر بولے ہوئے لفظ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے انسان نے تحریر کا فن ایجاد کیا اور جب آگے چل کر چھپائی کا فن ایجاد ہوا تو لفظ کی زندگی اور اس کے حلقہ اثر میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ کتا ہمیں لفظوں کا ذخیرہ ہیں اور اسی نسبت سے مختلف علوم وفنون کا سر چشمہ ۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا بنیادی مقصد اردو میں اچھی کتا میں طبع کرنا اور انھیں کم سے کم قیمت پر علم و ادب کے شائقین تک پہنچانا ہے۔ اردو پورے ملک میں کبھی جانے والی، بولی جانے والی اور پڑھی جانے والی زبان ہے بلکہ اس کے سمجھنے، بولنے اور پڑھنے والے اب ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں۔ کونسل کی کوشش ہے کہ عوام اور خواص میں یکساں مقبول اس ہر دلعزیز زبان میں اچھی نصابی اور غیر نصابی کتابیں تیار کرائی جائیں اور انھیں بہتر سے بہتر انداز میں شائع کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کونسل نے مختلف النوع موضوعات پر طبع زاد کتابوں کے ساتھ ساتھ تنقید میں اور دوسری زبانوں کی معیاری کتابوں کے تراجم کی اشاعت پر بھی پوری توجہ صرف کی ہے۔یہ امر ہمارے لیے موجب اطمینان ہے کہ ترقی اردو بیورو نے اور اپنی تشکیل کے بعد قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے مختلف علوم وفنون کی جو کتابیں شائع کی ہیں ، اردو قارئین نے ان کی بھر پور پذیرائی کی ہے۔ کونسل نے ایک مرتب پروگرام کے تحت بنیادی اہمیت کی کتابیں چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، یہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو امید ہے کہ ایک اہم علمی ضرورت کو پورا کرے گی۔ اہل علم سے میں یہ گزارش بھی کروں گا کہ اگر کتاب میں انھیں کوئی بات نادرست نظر آئے تو ہمیں لکھیں تا کہ جو خامی رہ گئی ہو وہ انگلی اشاعت میں دور کر دی جائے ۔پروفیسر سید علی کریم ۔(ارتضیٰ کریم) ڈائریکٹر۔ ۔۔۔سعد طبیہ کالج برائے برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان کا بھی منشور یہی ہے کہ نایاب اور پر مغز بہترین کتن قارئیں تک پہنچتی رہیں ۔یہ کتاب بھی اطباء اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے تحفہ ہے۔ ڈاؤن لوڈ کریں
//What is creatinine?کریٹینائن کیا ہے؟
کریٹینائن کیا ہے؟//What is creatinine? کریٹینائن ایک کیمیائی مادہ ہے جو کہ آپ کے جسم میں قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ آپ کی پٹھوں میں موجود ایک مادے کریٹین سے بنتا ہے۔ جب آپ کے جسم میں کریٹین ٹوٹتا ہے تو کریٹینائن بن جاتا ہے۔ گردوں کا کام: آپ کے گردے خون کو فلٹر کرنے کا کام کرتے ہیں اور اس میں موجود فضلے کے مواد کو پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج کرتے ہیں۔ کریٹینائن بھی ایک ایسا ہی فضلہ مادہ ہے جسے گردے خون سے فلٹر کر کے پیشاب کے ذریعے باہر نکالتے ہیں۔ کریٹینائن ٹیسٹ کی اہمیت: کریٹینائن ٹیسٹ کیسے کیا جاتا ہے؟ کریٹینائن ٹیسٹ کے لیے آپ کے خون کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد لیبارٹری میں اس نمونے کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ آپ کے خون میں کریٹینائن کی سطح کا تعین کیا جا سکے۔ کریٹینائن کی سطح کیوں بڑھ سکتی ہے؟ اگر کریٹینائن کی سطح زیادہ ہو تو کیا کرنا چاہیے؟ عمر اور جنس کی بنیاد پر کریٹینائن ٹیسٹ کی عام حد: اگر آپ کا کریٹینائن ٹیسٹ نارمل نہیں آتا ہے تو آپ کو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ وہ آپ کی طبی تاریخ اور دیگر علامات کے بارے میں پوچھیں گے اور مزید ٹیسٹ کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ نوٹ: یہ معلومات صرف عام معلومات کے لیے ہیں۔ کسی بھی طبی مسئلے کے لیے ہمیشہ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔کیا آپ کریٹینائن کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم کریٹینائن کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں۔ بلاشبہ گردے انسانی جسم کی چھلنی کا کام کرتے ہیں۔ یہ جسم سے زہریلے مادوں اورفضلات کو خارج کرتے ہیں۔یورک ایسڈ، یوریا، کریٹینائن اور دوسرے نقصان دہ فضلات کو پیشاب کے ساتھ جسم سے باہر نکالنے کا اہم کام بھی یہی گردے سر انجام دیتے ہیں۔ گردوں کا مزاج گرم تر ہے جبکہ فضلات سردی سے جسم میں رکتے ہیں۔ گردے خون کو صاف کر کے ہمیں کئی۔ امراض سے محفوظ رکھتے ہیں۔ گردوں کے مسائل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم گرم تر اور ترگرم قدرتی غذائوں پہ انحصار کریں۔ اسبابفریز، غیر طبعی اور مصنوعی غذائیں ہمیشہ ہمارے گردوں کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ کولڈ ڈرنکس، بیکری مصنوعات مصنوعی معدنی اجزاء، ملٹی وٹامنز ، اور ایلو پیتھک ڈاکٹروں کی اسٹیرائیڈ ادویہ کا بکثرت استعمال گردوں کے امراض کا سب سے بڑا سبب ہیں۔مذکورہ بالا غذائی بے اعتدالیوں سے بیچ کر ہم گردوں کے مسائل سے محفوظ رہ سکتےہیں۔ دیسی علاج البتہ بڑھے ہوئے کریٹینائن کو کم کرنے کے لیے سونف قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت ہیں۔ آپ روزانہ نصف گرام سونف پانی میں پکا کر ان کا قہوہ دن میں دو سے تین بار مریضوں کو پلانا شروع کر دیں۔ نظریہ مفرد اعضاء کے مطابق گرم تر اور ترگرم مزاج کی ادویہ فارما کو پیا کے 4 ملین ، 4 جدید 4 مسہل 5 تریاق 5 ملین ، نسخہ جاتمریض کی برداشت کے مطابق دیئے جاسکتے ہیں۔بطور علاج قسط شیریں کا سفوف ایک گرام نہار منہ کھانا بھی تاثیر الاثر نتا ئج کی حامل طبی دوا ہے۔ تین سے چار ہفتے استعمال کرنے کے بعد ٹیسٹ کروا کے چیک کر لیں، انشا اللہ کریٹینائین کی مقدار اپنے درست لیول پر آجائے گی۔ لیکن اس دوران ٹماٹر، پالک،چاول، گوشت، پروئین، بیسیم اور فولا دوالی سر د بادی غذائوں سے پر ہیز کرائیں،
طبی تقدمے
تعارف عجائبات عالم میں کچھ تو مادی مظاہر ہیں جنہیں یہ چشم سر دیکھا جا سکتا ہے، کچھ وہ ہیں جن کے اسرارور موز سمجھنے کیلئے علم ہی نہیں تجربہ و مشاہدہ بھی شرط ہے۔ ان میں سے ایک اعجو بہ یہ بھی ہے کہ طلوع اسلام کو ابھی نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ علوم و فنون کی مختلف شاخوں میں نہایت تیزی سے پیش رفت ہونے لگی۔ مذہبی علوم تفسیر ر، حدیث، فقہ ، سیرۃ اور مغازی وغیرہ کے علاوہ جن علوم میں مسلمانوں نے خصوصی دلچسپی لی اور ان میں نہایت تیزی کے ساتھ اضافے کئے، ان میں فن طب بھی شامل ہے۔ چونکہ اس کی فلسفیانہ اساس یونانی حکماء کی تصانیف پر رکھی گئی تھی اس لئے آج بھی طبیب کو حکیم کہا جاتا ہے۔ اب اسے مسلمانوں کی علمی رواداری یا دیانت ہی کہیں گے کہ انہوں نے یونانی حکماء سے طب کے ابتدائی رشتے کو فراموش نہیں کیا اور اسے طب یونانی ہی کہتے رہے ، حالانکہ وہ اپنی ترقی یافتہ شکل کے بعد بجاطور پر “طب العرب” کہے جانے کا حق رکھتی تھی۔ مگر اب حیرت یا افسوس اس پر ہے کہ طب یونانی نه یونان میں رہی، نہ یوروپ میں ، نہ ممالک عربیہ میں ۔ آج تک یوروپ اور بعض عرب ممالک میں بھی اس کا رواج ممنوع ہے۔ حالانکہ ایلو پیتھی میں طلب و جراحت کی بنیاد بھی حسین بن اسحق، ثابت بن قرة، محمد بن زکریا رازی، شیخ الرئیس بو علی سینا، ابن نفیس، داؤد انطاکی اور ابو القاسم زہرادی جیسے عبقری طبیبوں اور تشریح کے ماہروں نے فراہم کی ہے۔ طلوع اسلام کے بعد علم طب میں بحث و تحقیق کا بیشتر کام مسلم علماء نے کیا ہے اور ان کی کتابیں عربی یا فارسی زبانوں کا قابل فخر سرمایہ ہیں۔ اس فن کو ابتدا میں عباسی دربار خلافت سے جو سر پرستی ملی اس سے بہت پیش رفت بھی ہوئی لیکن بعد کی صدیوں میں اس سے نقصان بھی ہوا کہ صرف ظل الہی کے مزاج ہمایونی کی نگہداشت یونانی اطباء کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ دوسر انقصان مذ ہیں علماء کی غلط اندیشی سے ہوا کہ انہوں نے مذہب، اخلاقیات اور مسائل طبیہ مثلاً تشریح البدن کے رشتوں کو خالص اخلاقی اور مذہبی زاویے سے دیکھا حالانکہ یہ قطعاً غیر ضروری اور غیر متعلق تھا۔ اس طرح فن جراحت کو بہت نقصان ہوا اور وہ علم طب کے ساتھ ساتھ قدم نہیں بڑھا سکا، سست رفتار ہو گیا اور جراحوں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آگیا۔ بعد کے زمانے میں ایلو پیتھی نے فن جراحت کو ترقی دی حالانکہ موجودہ سرجری کی بنیاد بھی طب العرب کے مسلم حکماء کی رکھی ہوئی ہے اور آج بھی آپریشن میں استعمال ہونے والے بعض آلات وہ ہیں جن کی ابتدائی شکل قدیم اطباء کی کتابوں میں مل جاتی ہے۔ اس کے باوجود عہد وسطیٰ میں خصوصا عہد مغلیہ کے ہندوستان میں نامور اطباء پیدا ہوتے رہے جن کے علمی اور تحقیقی کارنامے آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعد اد روز مائل بہ زوال ہے۔ سلطنت مغلیہ کے خاتمہ کے بعد طب کی پیش رفت بھی رک گئی تھی اور روایتی طبیبوں کا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ وہ اپنے پیش رو حضرات کی بیاضوں اور قراباد مینوں سے تھے تلاش کریں اور انہیں اپنے کسب معاش کا ذریعہ بنا ئیں خودان میں ایجاد و اجتہاد کی صلاحیت نہ رہی تھی، علمی اور تحقیقی جذبہ سرد پڑ گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس فن شریف کی بقا اور تحفظ کیلئے دہلی کے خاندان شریفی حکیم محمود خان مرحوم اور مسیح الملک ہم اجمل خان مرحوم، نیز خاندان عزیزی لکھنو میں حکیم عبد العزیز، حکیم عبد الحمید حکیم عبد اللطیف فلسفی جیسے علماء پیدا کر دئیے جنہوں نے فن طب کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کیا اور اس فن شریف کا چلن ختم نہیں ہونے دیا جو مسلمانوں کی علمی میراث اور ان کی ثقافت کا ایسا مظہر تھا جس کو عام انسانوں کی خدمت کے لئے مسلمانوں کی کوشش کے ثبوت میں پیش کیا جا سکتا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اور ان حضرات کے معا بعد آنے والی نسل میں، حکیم عبدالحمید دہلوی مرحوم اور اُن کے بھائی حکیم محمد سعید شہید نے عملی طلب کو مقبول عام بنانے میں غیر معمولی کارنامے انجام دیئے۔ نظری سطح پر طب یونانی میں بحث و تحقیق کے دروازے بھی کھلے اور اس میدان میں جن اطباء نے نہایت بیش قیمت علمی خدمات انجام دیں ان میں پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن کا نام سب سے نمایاں ہے۔ پروفیسر سید ظل الرحمن عہد وسطی کے ہندوستان میں ایک نہایت قدیم علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں علوم اسلامیہ اور فن طب دونوں کی بڑی مستحکم روایت عہد سلطنت سے رہی ہے۔ اگر کوئی فن خاندانی ورثہ کے طور پر ملا ہو تو اُس میں بڑی برکت ہوتی ہے ، ذاتی کوشش و کاوش سے اس میں اضافہ کیا جائے تو وہ اس روایت کو اور بھی نہ صرف شاندار بلکہ جاندار اور پائیدار بنادیتا ہے۔ اس زمانے میں یونانی طب کے بہت سے کالج کھلے ہوئے ہیں ان سے علم طب کی سندیں لے کر نکلنے والے بھی کچھ کم نہیں، مگر اس کا ایک پہلو ایسا ہے جسے دیکھ کر کچھ زیادہ خوشی نہیں ہوتی ہ علم طب کے اکثر سند یافتہ خود کو حکیم کے بجائے ڈاکٹر کہنا اور کہلوانا پسند کرتے ہیں اور بیشتر علاج بھی ایلو پیتھی کی پیٹنٹ دواؤں سے کرنے لگے ہیں۔ مفردات سے علاج کرنے والے طبیب معدودے چند ہیں ، وہ بھی کہیں دیہات و قصبات ہی میں مل سکتے ہیں۔ حکیم سید ظل الرحمن کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ طب یونانی میں شرک“ کے مرتکب نہیں ہوئے اطباء سلف کے معیاروں سے ہی فن کی عملی اور نظری خدمت کرتے رہے ہیں۔ اُن کا یہ رویہ کسی عصبیت اور تنگ نظری کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ طب یونانی میں تمام علمی اور فنی مسائل کا حل موجود ہے