مورخین ہند سلاطین ہندستان کی معتبر و مستند کتب تاریخ پر تبصرے اور ان کے مصنفین کے تذکرے کتاب یہاں سے حاصل کریں یہ بھی پڑھیں اسباب بغاوت ہند، سر سید احمد خان
اسباب بغاوت ہند، سر سید احمد خان
اسباب بغاوت ہند، سر سید احمد خان 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانان ہند کو بیدا ر کرنے کی بے شمار کوششیں کی گئیں،اسباب و محرکات تلاش کئے گئے سر سید احمد خان مرحوم بھی انہیں مہربانوں مین شامل تھے جنہوں نشاء ثانیہ ہند مین من تن دھن قربان کرکے ایک تحریک کو جنم دیا۔اور ایک نظام تعلیم کا تحفہ دیا،اسباب بغاوت ہند ،بنیادی طورپر دل کے وہ پھپولے ہیں جو الفاظ کی شکل میں ڈھل کر قلم و قرطاس کی وساطت سے ہم تک پہنچے ہیں/ان کے سینے مین سلگنے والی چنگاریاں پڑھنے والا آج بھی محسوس کرتا ہے سید احمد تقوِی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل [3]، مصلح [4][5] اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔[6][7] 1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیے گئے۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہے اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کی طرف سے ستائش کی گئی۔[4] بغاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔ یہ بھی پڑھیں غیر معمولی زندگی،عمل کی اہمیت۔ 1859ء میں سر سید نے مرادآباد میں گلشن اسکول، 1863ء میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول اور 1864ء میں سائنسی سوسائٹی برائے مسلمانان قائم کی۔ 1875ء میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج جو جنوبی ایشیا میں پہلی مسلم یونیورسٹی بنا۔[8] اپنے کردار کے دوران میں سر سید نے بار بار مسلمانوں کو سلطنت برطانیہ سے وفاداری پر زور دیا اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کو اردو کو بطور زبانِ رابطۂ عامہ اپنانے کی کوشش کی۔۔ وہ اپنی برطانوی وفاداریوں کے سبب انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے گہری تنقید کا نشانہ بنا۔[9] سر سید کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر دو قومی نظریہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے دوقومی نظریے کو سترہویں صدی کے غیر اہم کردار حضرت مجدد الف ثانی کے سرمنڈھ دیتے ہیں۔ جس کا کوئی ٹھوس علمی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ اثر اور متاثر کی اتنی نسبت ہے جتنی کہ سکندراعظم اور نپولین میں موجود ہوسکتی ہے۔ سر سید کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے عقلیت پسند (معتزلہ) روایت کی وکالت نے عالمی طور پر اسلامی اصلاح پسندی کو متاثر کیا اور ناقابل تلافی نقصان دیا۔[10] پاکستان میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریسی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں۔[11] یہ بھی پڑھین ذہن میں بیٹھی ہوئی بات کا اثر
اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم
اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم حکیم قاری محمد یونس شاہد میو اس میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں پایا جاتا کہ تمام جانور، اپنےاپنے خدوخال کے ساتھ ،اپنے خالق کی لامحدود طاقت اورعلم کی عکاسی کر تے ہیں ۔ اللہ نے اس کا ذکر قرآن کی کئی سورتوں میں کیا ہے ،جہا ں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر وہ شے جو وہ تخلیق کرتا ہے دراصل ایک نشانی ہے ، یعنی ایک علامت ہے اور ایک انتباہ ہے ۔ سورۃ الغاشیہ کی آیت نمبر 17 میں اللہ نےایک جانور کا حوالہ دیا ہے اور ہمیں “اونٹ” کے متعلق سوچنے اور اسے بغور دیکھنے کی تلقین کی گئی ہے اور یوں ارشاد فرمایا ہے : أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ﴿١٧﴾ وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ ﴿١٨﴾ وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ ﴿١٩﴾ وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ ﴿٢٠﴾ فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ ﴿٢١﴾ (یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟ اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو۔جو شئے اونٹ کو ایک خاص جانور بناتی ہے وہ ا س کے جسم کی بناوٹ ہے جس پر سخت سے سخت حالات اور موسموں میں بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کے جسم کی ساخت اللہ نے اس قسم کی بنائی ہے کہ اونٹ کئی کئی دنوں تک خوراک اور پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے ۔ یہ کئی کئی روز کا سفر اپنی پیٹھ پر سینکڑوں کلو گرام بوجھ لاد کر طے کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔ ایک حکیم کے بارے میں حکایت بیان کی گئی ہے۔ اس کے سامنے اونٹ اور اس کی عجیب و غریب تخلیق کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے جبکہ وہ ایسے علاقے میں پیدا ہوا تھا جہاں اونٹ نہیں ہوتے تھے اس نے غور کیا اور کہا ممکن ہے اس کی گردن لمبی ہو(تفسیر قرطبی) خصوصیات اونٹ :۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے حوالہ سے مولوی عبدالقیوم قاسمی نے معارف القران میں لکھا ہے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں کہ اس جانور میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات رکھی ہیں ان میں چند ایک یہ ہیں کہ یہ جانور بہت بڑا صابر ہوتا ہے بھوک پیاس کافی عرصہ تک برداشت کرسکتا ہے پانی نہ ملے تو دس دن تک پرواہ نہیں کرتا اور وفادار اور اس قدر ہے کہ چھوٹا سا بچہ بھی نکیل پکڑ کر جہاں چاہے لے جاسکتا ہے اور چلتے وقت اکثر اپنا رخ قبلہ کی طرف رکھتا ہے خوراک کے معاملہ میں بالکل سادہ ہے ہر قسم کی کانٹے دارجھاڑیاں کھا لیتا ہے اور اگر اس کا مثانہ نکال کر کسی عاشق کے ہاتھ پر باندھ دیا جائے تو اس کا عشق زائل ہوجاتا ہے۔ صاحب تفسیر حسینی لکھتے ہیں اگر کسی کو محنت جفا کش اور سادگی سیکھنی ہو تو اونٹ سے سیکھے۔ ( تفسیر حسینی فارسی : ٩٤٨) اور یہی صفت دین کے مبلغ اور داعی کی ہونی چاہیے وہ اونٹ سے صبر کرنا سیکھے۔ تولد و تناسل۔ اونٹ ایک دلچسپ اور شائستہ جانور ہے، بہت پرامن اور شاذ و نادر ہی دشمنی کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن یہ اپنی مادوں سے حسد کرتا ہے، اور اسے ملاوٹ کے دوران کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں۔ :موسم تولید میں نر اور مادہ بے چین ہو جاتے ہیں اور ان سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے، نر زیادہ جارحانہ اور خطرناک ہو جاتے ہیں، اور ملاوٹ کے رویے سے خصیے بن جاتے ہیں۔ نر میں بڑا ہوتا ہے، اور مادہ میں ولوا گیلا اور سوجن ہو جاتا ہے، یہ بھی پڑھیں عید کی کتابیں سنگ محبت (مہوش علی) اونٹ کی عادتیں اور خصلتیں حیوانات کی چارقسمیں ہیں۔ (١) دودھ دینے والے (٢) سواری والے (٣) کھائے جانے والے (٤) باربرداری کے کام آنے والے۔ اونٹ ان چاروں کو جامع ہے اس میں نعمت عام ہے اور اس میں قدرت زیادہ مکمل ہے(تفسیر قرطبی) ماہرین حیوانات نے لکھا ہے جس وقت اونٹ کو غصہ آتا ہے یہ بلبلانے لگتا ہے تو یہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اس وقت اونٹ بد خلق ہوجاتا ہے اونٹ کے منہ سے سرخ(شقشقہ) کھال نکلتی ہے۔(الحیواۃ الحیوان کمال الدین الدمیری) یہ اس سے اپنے پیٹ سے نکال کر پھونک مارنے لگتا ہے اور بلبلانے لگتا ہے اور اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے اس طرح غصے کی حالت میں کھانا پینا ترک کر دیتا ہے اونٹ سب سے زیادہ بغض اور کینہ رکھنے والا جانور ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس میں صبرو تحملاور دوسروں پر حملہ کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے اونٹ کی خصوصیت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ اپنی ماں پر جفتی کرنے کے لئے نہیں چڑھتا ۔الدمیری لکھتے ہیں:صاحب المنطق نے کہا ہے کہ اونٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنی ماں پر(جفتی کرنے لئے)نہیں چڑھتا۔مزید انہوں نے ایک واقعہ نقل کیا ہے،پہلے زمانے مین مین ایک آدمی نے یہ کیا کہ اونتنی کو کپڑے سے ڈھانپ دیا۔پھر اس نے اس کے نواجوان بچے کو اس پر چھوڑ دیا،تو وہ چڑھ گیا۔جب بچے نے ماں کو پہچان لیا کہ یہی اس کی ماں ہے تو اس نے اپنےذکر کو کاٹ لیا۔ پھر وہ جوان اونٹ اس آدمی سے بغض رکھنے لگا،یہاں تک کہ اس نے موقع پاکراس آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دیا،اس کے بعد اس نے اپنے آپ کو بھی ہلاک کردیا۔ اگر اس کا مثانہ نکال کر کسی عاشق کے ہاتھ پر باندھ دیا جائے تو اس کا عشق زائل ہوجاتا ہے۔ صاحب تفسیر حسینی لکھتے ہیں اگر کسی کو محنت جفا کش اور سادگی سیکھنی ہو تو اونٹ سے سیکھے۔ ( تفسیر حسینی فارسی : ٩٤٨) اور یہی صفت دین کے مبلغ اور داعی کی ہونی چاہیے وہ اونٹ سے صبر کرنا سیکھے۔ اس کے علاوہ ان دونوں پر دم کا استعمال کرتے ہوئے پچھلی ٹانگوں پر پیشاب چھڑکتا ہے ۔ 20 منٹ، جب وہ اونٹ
مشرقی لوگوں کی میدان عملیات میں محنت۔
مشرقی لوگوں کی میدان عملیات میں محنت۔ مشرقی لوگوں کی میدان عملیات میں محنت۔ قاری محمد یونس شاہد میو مشرقی لوگ کتنے بھی مادہ پرست ہوجائیں پھر انہیں کسی نہ کسی انداز میں روحانی لوگوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔عملیات ایک ہنر و فن ہیں۔جو دیگر فنون کی طرح اساتذہ کرام کی نگرانی میں سیکھے جاتے ہیں۔لیکن آج پریس اور میڈیا کا دور ہے عملی مواد ہر ایک دسترس میں آچکا ہے عملیاتی کتب مفت میں ڈائون لوڈ کے لئے دستیاب ہیں۔لیکن استاد کی جگہ بہر حال خالی رہتی ہے۔ہر فن کے کچھ رموز ایسے ہوتے ہیں جنہیں اساتذہ کے جوتوں میںبیٹھ کر سیکھا جائے تو آسانی سے سمجھ میں آجائے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں اسی لمحے میں رہنا ہمارے ہاں عمومی طورپر عملیات چلوں وظائف اور تعویذات سکھانے کا نام ہے۔کچھ وظائف کرا دئے جاتے ہیں،،شرائط اس قدر تنگ و سخط ہوتی ہیں کہ عام لوگ اس میدان میں آنے کا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔چلہ وظائف تلقین کرنے کا عجیب انداز اختیار کیا جاتاہے ایک مخصو ص عبارت یا الفاظ مخصوص تعداد میں پڑھنے کی تلقین کردی جاتی ہے۔ساتھ میں کچھ ان دیکھے ڈر و خوف والی باتیں بھی بتادی جاتی ہیں کہ چلہ کے دوران اس قسم کے فلاں فلاں شکل و صورت میں خوف ذدہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔ بتانے والا بتاکر فارغ ہوجاتا ہے سالک بیک وقت چومکھی لڑائی لڑتا ہے۔ایک تو پرہیز وں کا خیال اور پابندی۔دوسرا عبارت کی تصحیح۔تیسرا تعداد کا شمار۔چوتھا ان جانا خوف جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ،جس سے سالک ہمہ وقت لرزاں و ترساں رہتا ہے۔چلہ وظائف خدا خدا کرکے مکمل ہوجاتا ہے ۔لیکن اثرات کیسے پیدا ہوں اس چلہ کی کامیابی کا ٹیسٹ کیسے کیا جائے۔ساتھ میں اجازت کی دم اور لگا دی جاتی ہے۔قصہ کوتاہ استاد کو معلوم ہوتا ہے کہ چلہ میں اثرات کیسے پیدا ہوتے ہیں نا شاگرد پوچھنے کی جسارت کرسکتاہے۔عقیدت و اعتماد کی بنیاد پر یہ سلسلہ نسل در نسل آگے بڑھتا رہتا ہے۔ سینکڑوں عملیاتی کتب اس وقت مارکیٹ میں موجود ہیں۔ان میں ملتے جلتے اعمال دئے گئے ہیں۔کچھ کتب میں حالات کے بدلائو کی وجہ سے پرانے اعمال حذف کرکے ان کی جگہ حالات حاضرہ کے مطابق لکھ دئے گئے ہیں۔لیکن کسی کتاب میں یہ بحث دیکھنے کو نہیں ملی کی عملیات کام کیسے کرتے ہیں؟کونسا عمل کس قوت کام دے گا۔یا یہ عملیات کن قوانین کے تحت موثر ہوتے ہیں ۔چلہ وظائف محنت کے باوجود کام کیوں نہیں دیتے؟ البتہ موکلات کی تعداد،ان کی شکل و صورت کیسے ہوگی،ان سے کونسے کام لئے جاسکتے ہیں؟یا کونسے امور ہیں جن کے کرنے سے عمل ختم ہوجاتا ہے؟دوسری اہم بات پرہیزوں کی ہے جس کی ہر کتاب میں طویل فہرست لکھی ہوئی ملتی ہے۔بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہمزاد موکلات اور جنات کو نہیں بلکہ عامل کو قابو کرنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں۔ستم بالائے ستم کہ کچھ اعمال میں شرط ہوتی ہے ساری زندگی پرہیزوں میں گزارنی پڑے گی نہیں تو عمل ضائع ہوجائے گا۔
دین کی دعوت میں اہل میوات کا کردار
دین کی دعوت میں اہل میوات کا کردار حضرت سید محمد نظام الدین اولیاء( 1237ءتا 1324ء) ولد سید احمد بخاری دہلی کے پاس ہی جنوب میں واقع ایک بستی میں مدفون ہیں جو اب انہی کی طرف منسو ب ہو کر’ بستی نظام الدین اولیاء‘ کہلاتی ہے۔ آپ کے القابات نظام الاولیاء،محبوب الہی، سلطان المشائخ، سلطان الاولیاء‘، ’زری زر بخش‘ وغیرہ ہیں۔ نام کے بعد اولیاءکا اضافہ غیر معمولی ہے۔ اولیاء، جمع ہے ولی کی۔ ’ولی ‘اللہ والے کو کہتے ہیں۔ اصولاً ان کا نام نظام الدین ولی ہو ناچاہیے تھا کیونکہ ایک شخص تھے اور ایک انسان کے لیے واحد کا صیغہ ولی ہو نا چاہیے تھا۔ لیکن ان کو ولی کے بجائے اولیاءکہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ بظاہر یہی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے یا انگریزی محاورے کے مطابق ایک آدمی پر مشتمل فوج کی حیثیت رکھتے تھے۔ دین کی جو خدمت اولیاءکی ایک جماعت نے سرانجام دینا تھی وہی حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے اکیلے ہی سرانجام دی۔ مرزا الہی بخش جو بہادر شاہ ظفر کے سمدھی تھے، دلی اجڑنے کے بعد بستی نظام الدین میں رہائش پذیر ہوئے۔ ان کے بنگلے کے قریب واقع مسجد ’بنگلے والی ‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ مولاناسماعیل کاندھلویؒ (متوفی 26 فروری 1898ء)نے اس مسجد کو اپنی محنت کا مرکز بنایا۔ میواتیوں کی خوش قسمتی کہ یہ مسجد میوات اور دلی کے رستے پر واقع تھی ۔ مولانا اسماعیل کاندھلویؒ آتے جاتے مسافر میواتیوں کا سامان اترواتے اور ان کو ٹھنڈا پانی پیش کرتے۔ عزت و احترام پر مبنی یہ سلوک ان میواتیوں کو دوبارہ اس مسجد میں آنے پر مجبور کردیتا۔ مولانا اسماعیل ؒمیواتی مزدوروں کو اجرت دے کر لاتے مسجد میں لاتے اور اُن کو دین کی تعلیم دیتے، کچھ ہی دنوں میں ان میواتی مزدوروں نے اجرت لینا چھوڑدی اورمستقل دین کے طلب گار بن گئے۔ یہ تعلق شناسائی میں تبدیل ہوا اور پھر عقیدت میں ڈھل گیا۔ مولانااسماعیل کاندھلویؒ دنیا سے رخصت ہو کر میواتیوں کے دلوںمیںجابسے۔ والد کی محنت کو ان کے بڑے بیٹے مولانا محمد ؒ نے بڑی خوش اسلوبی سے آگے بڑھایا۔ اُن کے بعد یہ ذمہ داری مولانا محمد الیاسؒ(1986تا1944) کے کاندھوں پرآن پڑی، جو معجزہ نرگس کے ہزاروں سال رونے کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے وہ اِن تین باپ بیٹوں کی چند دہائیوں پر مشتمل محنت کے بعد دنیا والوں نے وقوع پذیر ہوتے دیکھا، اب میوات میں جا بجا دیدہ ور پیداہوچکے تھے۔ 1941 میں میوات کے ایک قصبہ’ نوح‘ میں اجتماع کے لیے میدان تیار ہونے لگا ۔ یہ پانی پت کا میدان نہیں تھا کہ کوئی جنگ لڑی جاتی بلکہ یہ تو’ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں‘ کا دل کش نظارہ تھا۔ یہاں دلی نہیں بلکہ دل کو فتح کرنے کی تیاری کی جارہی تھی۔ نوح کے اس اجتماع میں 20سے 25ہزار لوگ شریک ہوئے۔ قصبے کی تقریبا ًسب مسجدوں میںنماز ہوئی، پھر بھی ہجوم اتنا تھا کہ چھتوں اور بالا خانوں پر آدمی ہی آدمی تھے، سڑکوں پر نمازیوں کی صفیں تھیں اور آمد ورفت بند ہو گئی تھی۔ نوح میں حاجی عبدالغفور میواتیمرحوم ہمیشہ مولانا(الیاسؒ)اور ان کے کثیر تعداد رفقاءکے میزبان ہوتے اور بڑی عالی حوصلی گی سے ضیافت ہوتی تھی، بعض اوقات نوح سے باہر بھی بڑے اہتمام سے کھانا لے کر جاتے تھے۔ 1947کے بعد میواتیوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کر کے پاکستان آگئی، یہاں ان کو لاہور، قصور اور سیالکوٹ کے پاک بھارت سرحدی علاقوں میں آباد کیا گیا۔ لاہور اورقصور کے سنگم پر ایک قصبہ ’رائے ونڈ‘ کے نام سے آباد ہے جو متحدہ ہندوستان کے نقشوں پر صرف اس وجہ سے نظر آتا تھا کہ وہاںسے گزر کر ریلوے لائن لاہور(موجودہ پاکستان ) سے فیروز پور(موجودہ بھارت ) کی طرف جاتی تھی۔ رائے ونڈاسٹیشن کے ساتھ ہی ایک قبرستان کی مسجد میں مولانا الیاسؒ کے تربیت یافتہ شاگرد حافظ محمد سلیمان میواتیؒ (متوفی1992)نے حفظ کے مدرسے کی بنیاد ڈالی جو بعد میں موجودہ تبلیغی مرکز کی جگہ منتقل ہوا اورحافظ محمد سلیمان میواتی اس کے مدرس اول مقرر ہوئے۔ حافظ صاحب مرکز کے امام اور خطیب بھی تھے۔ رائے ونڈ کے تبلیغی مرکز کو’ مدرسہ عربیہ رائے ونڈ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور مرکز میں چائے کی پیالیوں پر یہ نام1993 تک روغن سے لکھا ہواملتا تھا اور شاید اب بھی لکھا جاتاہو۔ حافظ سلیمان میواتی ؒکے رفقاءمیں حاجی عبدالرحمن میواتیؒ، میاں جی عبداللہ میواتیؒ اور دیگر شامل تھے۔ علاقہ میوات سے آئے ہوئے یہ تمام حضرات مولانا الیاس کے فیض یافتہ تھے۔ رائے ونڈ(لاہور، قصور) میں بھی اللہ والوں کی ایک ایسی ہی عارضی بستی وقتاً فوقتاً آباد ہوتی رہتی ہے جس میں دیواریں بانس کی اور چھتیں کپڑے کی ہوتی ہیں۔ 24تا26فروری 2018رائے ونڈ کی اجتماع گاہ کے ایک حصے میں لاہور، قصور اور میوات کا جوڑ ہورہا ہے جہاں اہل میوات ایک بارپھر دین کی محنت کو زندہ کرنے کے لیے جمع ہیں۔ اتفاق ایسا ہے کہ میواتیوں کے محسن اول مولانا اسماعیل کاندھلوی ؒ کی تاریخ وفات بھی 26فروری ہے، جن کی محنت سے پیدا ہونے والے یہ اللہ والے جہاں اپنے تمبو اور قنات لگا لیں وہ اولیا کی بستی بن جاتی ہے۔ جیسے ہی اجتماع گاہ میں بانس کی فصل اگتی ہے تویہ اللہ والے ان پر کپڑے کی چھتیں ڈال کر ان بستیوں کو آباد کردیتے ہیں۔ یہ عارضی لیکن مستقل اورد یر پا اثر رکھنے والی بستیاں دنیابھر میں ادھر ادھر دو چار دنوں کے لیے آباد ہوتی رہتی ہیں اور پھر ان بستیوں کے مکین ’تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ‘ کے مصداق انسانوں کے سمندر میں جذب ہو جاتے ہیں۔ لیکن جیسے سمندر میں کھاری اور میٹھے پانی کی دو لہریں ساتھ ساتھ چلتی ہیں مگر ایک دوسرے میں جذب نہیں ہوتیں اسی طرح یہ لوگ بھی معاشرے میں موجود دیگر انسانوں کے رنگ میں رنگے نہیں جاتے بلکہ اپنی الگ شناخت اورلہر برقرا رکھتے ہیں۔ چاروں طرف سے کھلی اوراوپر کی طرف سے معمولی کپڑے سے ڈھکی یہ رہائش گاہیں سردی، گرمی اور بارش کو روکنے میں پوری طرح ناکام ہوتی ہیں۔ باد ل گھِر
غیر معمولی زندگی،عمل کی اہمیت۔
پہلی قسط حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔ جو لوگ صرف باتوں کی بنیاد پر کامیابی چاہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے اس کائنات میں ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے۔سوچ کی بنیاد پر قیمت کا تعین ہوتا ہے۔بڑی سوچ،بڑی کامیابی۔کمزور سوچ معمولی کامیابی۔یہ فطرت کے قوانین کے خلاف ہے کہ کسی کو بغیر قیمت ادا کئےکچھ مل جائے۔ اگر بالفرض محال وقت طورپر کچھ خیرات میں مل بھی جائے تو محنت و قیمت کے بل بوتے پر حاصل شدہ کامیابی کی لذت کہاں نصیب ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ فلاں یوں کررہا ہے۔فلاں نے ایسا کردیا۔فلاں اس کا مستحق کہاں تھا؟ یاد رکھئے قدرت کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتی۔ کسی بھی میدان کی محنت و لگن اور مناسب قیمت ادا کرنے سے جو کامیابی ملتی ہے۔اس کی لذت مادی طورپر بیان کرنے کی چیز نہیں ہے ۔ یہ کیفیت تو صرف انہیں کو محسوس ہوتی ہے میدان کار زار کے شہ سوار ہوتے ہیں۔جو چیزذہن میں سوچی جاسکتی ہے وہ کی بھی جاسکتی ہے ۔ یہ بھی پڑھیں مضامین غیب آتے کہاں سے ہیں؟ کیونکہ سوچ بنیادی طورپر تخلیقی عمل کا نام ہے۔جب سوچ آگئی تو سمجھو وہ چیز تخلیق ہوگئی۔اسے مادی وجود میں لانے کے لئے محنت۔مہارت ۔لگن اورعمل پیہم چاہئے۔ قدرت کا یہ تحفہ کیا کم ہے کہ اس نے تمہیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی۔سوچ کی طاقت کو استعمال کرنے کا ہنر دیا۔عملی جامہ پہنانے کی سکت دی۔ایسا ماحول دیا جو اسے مادی وجود بخش سکتا ہے۔ایسی لگن سے ہمکنار کیا جوزاد راہ کے طورپر کام دیتی ہے۔ہمیں وقت دیا کہ سوچ کی تخلیق کو عملی جامہ پہنا سکو۔دل و ماغ کی سلامتی مفت میں ملی۔ سید قاسم علی شاہ لکھتے ہیں:”کامیابی کی کہانی میں طاقت یہ ہوتی ہے کہ اسے سننے کے بعد کئی لوگ موٹیویٹ ہوجاتے ہیں۔ بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی میں تحریک آجاتی ہے اور وہ تحریک اس معیاری ہوتی ہے کہ وہ زندگی میںنا ممکن کوممکن بنادیتے ہیں۔ کامیابی یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص معذور ہو، زندگی میں بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہو، مشکلات اور پریشانیاں ہوں، لیکن وہ ان سب کے باوجود کچھ کر کے دکھا دے۔ دنیا میں غیر معمولی (ایکسٹرا آرڈینری)بننے کیلے دو چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ آپ کی بھی پروفیشن میں ہیں۔ کسی بھی پیشے میں ہیں، کسی بھی شعبے میں ہیں، دنیا کا کوئی کام کررہے ہیں، کچھ بھی ہیں توسب سے پہلی چیز رویہ اور دوسرا مہارت ہے۔ یہ بھی پڑھیں۔۔ اسی لمحے میں رہنا ہمیں غیر معمولی بننے کیلئے ،پہلے اپنے رویے میں خود تبدیلی لانی پڑے گی ۔ ہمیں کامیاب کہانی بنانے کیلئے ایک اچھا موٹیویٹر بنتا ہے۔ اگر ہم اپنے موٹیویٹر نہیں بنتے تو پھر بھی کبھی غیر معمولی استادنہیں بن سکتے۔ موٹیویشن دینے کیلئے پہلی شرط یہ ہے کہ پہلے خودمونٹیوٹ ہوں تبھی دوسروں کو موٹیویٹ کرسکیں گے۔ جب آپ کے پاس آپ کے کام کرنے کی وجہ تنخواہ نہ ہو بلکہ کوئی مقصد ہو تو پھر آپ موٹیویٹر ہیں، کیونکہ تنخواہ تو بہت چھوٹی شے ہے، یہ کچھ دنوں میں ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن موٹیویشن تنخواہ سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ یہ ایک چیز ہے جو آپ کو اٹھاتی ہے، لے کر جاتی ہے گرمی برداشت کرنے پرمجبور کرتی ہے۔ قربانی دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور آپ کچھ کر گزرتے ہیں (سوچ کا ہمالیہ صفحہ15) رسول اکرمﷺ کابیان کردہ اصول زندگی ایک حدیث مبارکہ ہے۔۔ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه)ابو دائود۔) جو عمل میں پیچھے رہا اسے نصب آگے نہیں لے جاسکتا۔۔لوگ کئی چیزوں سے موٹیوٹ ہوتے ہیں۔عظیم کاموں کا ہدف۔مال و دولت ۔ خاندان و کنبہ۔ہم چشموں میں تفوق۔ان سب کے حصول کے لئے ساری زندگی کھپادی جاتی ہے۔اگر مقصد بڑا ہو۔تو اس لئے حالات بھی ایسے پیدا ہوجاتے ہیں۔اور اگرکام چور ہوتو اس کے لئے بہانے ہزار۔۔روئے بد را۔بہانہ بسیار۔۔ کائنات کا نظام کچھ اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے یہاں محنت ایک سکہ رائج الوقت ہے۔جنتی محنت کروگے انتا ہی فائدہ اٹھا سکو گے،کام چوررہے تو کچھ نہ ملے گا۔اگر زندگی کھانے پینے سونے جاگنے اور واش روم کی حد تک ہے تو آپ موضوع سخن نہیں ہوسکتے۔جب تک سانس ہے شاید تمہیں خود ہی اپنا وجود کا احساس ہو۔تمہاری زندگی سے اگر کسی کو فائدہ نہیں ہے تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ حسب نسب حسب و نسب سے زیادہ کردار کو اہمیت دی جاتی ہے۔حسب و نسب ایک ایسا خمار ہے جو ساری صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیتا ہے۔یا ایسی آگ ہے جس میں انسان کود تو جلتا ہی ہے لیکن اس میں وہ لوگ بھی خاکستر ہوجاتے ہیں جن کی اولاد ہونے پر اس کی گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔سطحی سوچ والا بھی اتنا تو شعور رکھتا ہے کہ پوچھ سکے کہ جن کے نام و نسب پر اِترا رہے ہو ان کے لئے تم نے کیا کیاہے۔ وہ زندہ لوگ تھے ان کا کردار دوامی تھا۔اگر ان کا کردار اچھا نہ ہوتا تو کبھی تم ان کی نسبت پر فکر نہ کرتے۔اگر تم ان کی اولاد ہوتے پر فخر کررہے ہو ممکن ہے وہ تمہاری طرف سے احساس کمتری کا شکار ہوں کہ کیسی نسل چھوڑی ہے۔جن کا زندگی جینےکے لئے کوئی مقصد ہی نہیں؟ کبھی سوچا ہے کہ دنیا میں بسنے والے لاتعداد لوگوں میں سے صرف انگلیوں پر شمار ہونے والے لوگ ہی کیوں زندہ رہے۔ان گنت اولاد آدم رزق خاک ہوئی؟کتنے جاہ و جلال والی سلطنتیں زمین بوس ہوئیں۔کتنے تاجوں سے مرصع سر ٹھوکریں میں رُلتے رہے۔ میر تقی میر کیسے وقت میں یاد آئے۔ کل پاؤں ایک کاسہء سر پر جو آگیا یکسر وہ اُستخوان شکستوں سے چور تھا کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا کونسا ایسا طبقہ ہے جس کے بے شمار لوگ اس دنیا سے کوچ کرگئے اور بے شمار لوگ اس وقت موجودد ہیں۔لیکن چند لوگ ہی کیوں مشہور ہوئے؟ممکن ہے اس کی بہت سی توجیحات کی جاسکیں۔لیکن یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں،زندگی انہیں کو ملی جو زندہ رہنا چاہتے تھے ۔انہوں
الخبز۔روٹی
الخبز۔روٹی۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو عرب و عجم ،پاک و ہند میں روٹیاں کئی اجناس کی تیار کی جاتی ہیں،من جملہ ان میں گندم،چاول،باجرہ،مکئی،جوار،چنا،وغیرہ۔عرب لوگ زیادہ تر جو کی روٹی بناکر کھایا کرتے تھے،گندم کی روٹی خال خال ملاکرتی تھی۔جو کی روٹی کا گھروں میں رواج تھا،گندم کی پیداوار کم ہوتی تھی ،بیرون ممالک سے گندم درآمد کی جاتی تھی،شاہد یہی وجہ ہے کہ جو چیزیں عام تھیں صدقہ خیرات میں ان کے احکامات بھی اسی قسم کے تھے۔مثلاََ صدقہ فطر میں جو کی مقدار زیادہ اور گندم کی کم رکھی گئی ہے کیونکہ عرب میں گندم گراں نرخوں پر ملا کرتی تھی۔جو کی پیداوار بھی اتنی زیادہ نہ تھی کہ ہر فرد کے لئے وافر مقدار میں دستیاب ہو۔اس لئے نان جویں بطور استعارہ استعامل ہوتی تھی ۔ ۔عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:” مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ، ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ(بخاری)عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی پے در پے تین دن تک سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی نہیں کھا سکے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے جا ملے( صحيح البخاري (7/ 75) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیمار کی عیادت کی، تو اس سے پوچھا: ”کیا کھانے کو جی چاہتا ہے؟“ اس نے کہا: گیہوں کی روٹی کھانے کی خواہش ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس گیہوں کی روٹی ہو، وہ اسے اپنے بیمار بھائی کے پاس بھیج دے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا مریض کچھ کھانے کی خواہش کرے تو وہ اسے وہی کھلائے“ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6224، ومصباح الزجاجة: 508) چھاننی کا استعمال آپ ﷺکے عہد مبارکہ میں آٹا پیس کر پھونک کے ذریعہ بھوسی اڑا دی جاتی تھی چھاننی کا رواج نہ تھا۔کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کھجور کے آٹاے میں گندم کی آٹا ملاکر روٹی بنائی جاتی تھی اسے حواری یا نقی کہاجاتا تھا۔ایک بار حضرت ام ایمن نے باریک آٹے کی روٹی پکاکر سامنے پیش کی تو پوچھا یہ کیا ہے؟َ فرمایا رغیف کہتے ہیں ۔ آپ ﷺنے اسے پسند فرمایا(واقدی) یہ مہمان نوازی کے لئے تھا لیکن عمومی طورپر ایسا نہ تھا۔ایک روایت میں ہے آپ نے زندگی میں کبھی باریک آٹے کی روٹی نہ کھائی تھی(بخاری،ابن ماجہ۔ابن حنبل)کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ ﷺکے سامنے دیسی گھی سے چپڑی ہوئی روٹی پیش کی گئی آپﷺ نے خوش ہوکر تناول فرمایا۔پوری حدیث یہ ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: ”میری خواہش ہے کہ اگر ہمارے پاس گھی میں چپڑی ہوئی گیہوں کی سفید روٹی ہوتی، تو ہم اسے کھاتے، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ بات انصار میں ایک شخص نے سن لی، تو اس نے یہ روٹی تیار کی، اور اسے لے کر آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ گھی کس چیز میں تھا؟ اس نے جواب دیا: گوہ کی کھال کی کپی میں، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 38 (3818)، (تحفة الأشراف: 7551) ایک بار حضرت عمر گھی کے ساتھ روٹی کھارہےتھے، ایک دیہاتی کو بھی شامل طعام کیا وہ بھی کھانے لگا(مالک) سول اللہ ﷺایک مرتبہ جلیل القدر صحابی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ آپ کی خدمت میں روٹی اور تیل لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا پھر آپ نے یہ دعا پڑھی: أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ» ”تمہارے پاس روزے دار افطار کیا کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں، اور تمہارے لیے دعائیں کریں“۔تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 476)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/118، 138، 201)، سنن الدارمی/الصوم 51 (1813) (صحیح)سنن أبي داود (3/ 367) حضرت صہیب سے مروی ہے کہ آپﷺنے کھجور کے ساتھ روٹی کھائی(ابن ماجہ) حضرت ثمامہ بن اثال کا مشہور واقعہ ہے جس کے آخری الفاظ یہ ہیں۔ قسم اللہ کی! یمامہ سے ایک دانہ گیہوں کا تم تک نہ پہنچے گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔صحيح البخاري (5/ 170)صحيح مسلم (3/ 1386)صحيح ابن حبان – محققا (4/ 43) روایات میں آتا ہے کہ یمامہ سے سفید گندم آیا کرتی تھی جسے خلفاء کے مختص کردیا جاتا تھا۔ممکن ہے یہ کوئی خاص گندم ہو عمومی گندم حجاز وغیرہ میں پائی جاتی ہو،لیکن حجاز کے بازاروں میں سفید گندم ملا کرتی تھی۔البتہ یمن زرخیز علاقہ تھا جہاں کھیتی باڑی عام تھی وہاں سے بازار حجاز میں گندم آیا کرتی تھی۔ابن الفقيه الهمذاني وكتابه البلدان صفحہ13)ابن رسنہ الاعلاق ص 19) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے تک گندم کی قلت رہتی تھی گرانی کے ایام میں دوگنا وزن جو کا دیکر گندم لیا کرتے تھے(ابن سعد)گندم کی روٹی کی بہت قدر و قیمت تھی جسے مہمانوں کے لئے پیش کرنا اچھا سمجھا جاتا تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک درزی نے دعوت کی رسول اللہﷺ سالن سے کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے کھانے لگے اسی دن سے مجھے کدو سے محبت ہوگئی۔کھانے پینے کیٖ اشیاء کی قلت تھی تاریخ میں یہ واقعہ بھی مذکور ہے کہ رسول اللہﷺ کی زرہ مبارکہ “جو” کے بدلہ میں رہن رکھی ہوئی تھی جسے اہل و عیال کی بھوک کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس وقت رسول اللہ ﷺاس دنیا سے تشریف لے گئے اس وقت بیس صاع غلہ کے بدلہ میں آپ کی ڈھال کسی یہودی کے پاس رہن میں رکھی ہوئی تھی(ترمذی)عمومی طورپر “جو”کی روٹیاں کھائی جاتی تھیں۔ہاتھ سے آٹا بنایا جاتا تھا۔کسی نے اصحاب رسول ﷺ سے سوال کیا ۔آپ لوگ آٹے کی صفائی کے لئے چھننی کا استعمال کرتے تھے؟ جواب
تاریخ طلسمات عہد بہ عہد
تاریخ طلسمات عہد بہ عہد طلسمات کی تاریخ علم الطلسمات۔۔۔ طلسمات کا لفظ ارباب لغت کے نزدیک فہم و ادراک سے بعید اوسربستہ راز کے معانی کا حامل ہے۔ اصطلاح میں بھی علم کو غیرمانوس حقیقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ علمائے علوم فلکیات کے نزدیک طلسم قو ائے ارضیہ اور حقائق ربانیہ کا علم ہے ،جس کا موضوع خیالات میں تصرف کر کے ظاہر میں باطنی مشاہدات کا وجود یاخلاف معمول واقعات کے خیالی اجسام کا پیدا کرتا ہے۔ طلسمات کافن محض عجائبات کے ظہور تک محدود نہیں بلکہ یہ علم مقدس انسانی زندگی میں درپیش تمام مشکلات و واقعات سے بھی بحث کرتاہے۔ طلسمات کے جملہ عمليات کو تسخیرحاضرات و روحانیات عناصرو حیوانات، تسخیر قلوب و خیالات اور اسمائے طلسمات چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے علم طلسمات ایک مکمل اور مضبوط قوانین کا نام ہے۔(مطالب العيون- جلد اول صفحہ 73) طلسمات کی تاریخ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو مورخین نے فن طلسمات کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے، ان میں سے اس کے ابتدائی مراحل کا ذکر اوراق تاریخ میں نہیں ہے۔ یہ زمانہ کئی ہزار سال قبل ازمسیح کا خیال کیا جاتا ہے۔ اس دور کے بارے میں اتنا پتہ ملتا ہے کہ یونانی ماہرین فن کو اس فن میں کمال حاصل تھا اور وہ انسان کی جملہ ضروریات و مشکلات کا حل طلسمات کی طاقت سے پیش کرتے تھے دوسرے دور کا ذخیرہ بھی بہت کم ملتا ہے۔ تیسرے دور میں تاریخ سے طلسمات کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کے مطابق اس دور میں طلسمات کا بہت زور تھا۔ اس عہد میں کالدو سریاں اور شاہان ایران نے اس فن کی سرپرستی کی جس سے اس فن میں بہت زیادہ ترقی ہوئی۔ یہ دور تین سو سال قبل از مسیح کا تھاچوتھادور اس عہد میں طلسمات نے یونانیوں کے بعد عربوں کی کوشش سے نئی زندگی حاصل کر کے عام مقبولیت پائی۔ اس دور میں عربوں نے اس فن کی کتابیں اور کامل و ماہر ہستیاں جمع کیں اور فلکیاتی علوم و فنون کی ترقی کے لئے ذرائع اختیار کئے۔ مرطاس نے اس فن کا محققانہ مطالعہ و مشاہدہ کر کے بہت سے طلسماتی اسرارورموز اور فنی حقائق کو بیان کیا ہے۔ اس طرح اس نے اس فن کے بہت سے ابتدائی اصول بھی وضع کئے۔ اس نے بہت سی کتابیں بھی لکھیں، جو آج کل تقریبا مفقود ہیں۔ صرف چند ایک کاذکر نوامیس رمانی المتوفی 37ء کی تصنیفات میں ملتا ہے۔ سن عیسوی کی دوسری صدی کے آخر میں مشہور طبیب جالینوس کا نام بھی فلکیات کی تاریخ میں ملتا ہے۔ جالینوس نے طب کے ساتھ اپنے شوق تحقیق کے لئے علوم فلکیات کا راستہ بھی تلاش کیا۔ اس نے طلسماتی معلومات پر انسانی امراض کی تشخیص کاطریقہ ایجاد کیا۔ جالینوس نے ہی سب سے پہلے طلسمات کاباقی فلکیاتی علوم سے ایک علیحدہ باب تیار کیا، تاریخ فلکیات میں جالینوس کا نام نہایت عظمت سے لیا جاتاہے ۔ اس کی تحقیقات کو عطائے فن نے عمر دراز تک اپنایا جالینوس نے طلسمات کے موضوع پر بات کی کتابیں لکھیں، لیکن ان میں سے اکثر ضائع ہو چکی ہیں۔ جو کتابیں موجود ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ فن کے بارے میں تمام معلومات کو بہت سادہ اور صاف الفاظ میں تحریر کر دیاہے۔ جالینوس ہی وہ پہلا ماہر فن ہے جس نے طلسمات کے فن کو طب کے بارے میں بھی تقابلی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ جالینوس کے بعد علمائے فن نے فن کے بارے میں انتہائی غفلت کا ثبوت دیا کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ فلکیات کافن مکمل ہو گیا ہے اور اب اس میں مزید ترقی کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد فلکیاتی باب میں کوئی معتد بہ اضافہ نہ ہو سکا۔ چار صدیوں تک طلسمات نے بہت عروج پایا لیکن اندر ہی اندر یہ فن زوال کا شکار ہوتا چلا گیا جو غیر محسوس طور پر بڑھتا رہا۔ چوتھی صدی عیسوی کا آخری زمانہ فلکیاتی علوم و فنون کے لئے بہت منحوس تھا اور اس دور میں فن اپنی زندگی کے آخری ایام میں تھا کہ عربوں کا زمانہ آیا جس سے اس فن کا شمار زندہ علوم میں ہونے لگا۔ ہماری نئی کتاب دروس العملیات کا مقدمہ شیخ ہمدانی حکیم طاوس ابن طرماح ہمدان میں پیدا ہوئے۔ نوامیس انہی کی تصنیف ہے۔ جسے بعد کے علمائے فن نے تاریخ فلکیات پر پہلی منضبط کتاب قرار دیا ہے، ان کی تصنیف کا عربی ترجمہ حکیم ابوبکر زکریا رازی نے کیا ہے۔ (از۔۔بوستان طلسمات) عرب جہاں پہلے جہالت اور تاریکی چھائی ہوئی تھی اس دور کے آخر میں سنبھلا اور علم و فن کی طرف متوجہ ہوا۔ اور ارباب فن نے دوسرے علوم و فون کے ساتھ فلکیات کے فن کو بھی مدون کیا، اور طلسمات کے باب میں قائل قدر اضافے کئے۔ . منصور بغدادی نے کتاب سماوی وصیل۔ علامہ ابوالحسن اعمالی نے عوارف الحروف، جلال ابن النمیر کشفی نے ہرامس جلالی جیسی معروف شہرہ آفاق کتابیں لکھیں ہیں اس طرح متاخرین علماے فن نے اس کی تکمیل میں کمال کوششیں کیں اور فلکیاتی علوم و فنون میں نئی نئی معلومات کا اضافہ کر کے فن کی اپنی علیحدہ حیثیت کی بنیاد قائم کر دی۔ /////////////// یہ بھی پڑحین چلے وظائف،عبادات میںپاکی کی غرض و غایت
لوگ کہتے ہیں ناول وقت کا ضیاع ہے؟
لوگ کہتے ہیں ناول وقت کا ضیاع ہے؟ ان سے کچھ نہیں سیکھتا کوئی۔میں بتاؤں کہ میں نے کیا سیکھا؟ •میں نے “جنت کے پتے” سے سیکھا کہ اچھی لڑکیاں سب کچھ نہیں کر لیتیں، وہ اللہ کا حکم مانتی ہیں اور اس سے اچھا گمان رکھتی ہیں۔ (نمرہ احمد). میں نے“نمل” سے سیکھا ہے کہ ہمارے لئے سب سے اہم فیملی ہوتی ہے، ان کو اپنے ہونے کا احساس دلانا چاہیئے۔ (نمرہ احمد). • میں نے “مصحف” سے سیکھا کہ اللہ ہمارا سب سے قریبی دوست ہے، وہ ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ (نمرہ احمد). • میں نے “متاع جاں ہے تو) سے سیکھا کہ کسی کہ جانے سے کوئی نہیں مرتا، بس جینے کے انداز بدل جاتے ہیں۔(فرحت اشتیاق). • میں نے “اندھیری رات کے مسافر” سے سیکھا کہ ہم حکمرانوں کی آس پر نہیں بیٹھ سکتے، ہمیں اپنی مدد خود آپ کرنی ہے۔(نسیم حجازی). •میں نے ” غم ہے یا خوشی ہے تو” سے سیکھا ہے کہ دل ٹوٹنے سے جو energy پیدا ہوتی ہے اسے ضائع نہیں کرتے بلکہ خود کو مضبوط بنانے کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔(تنزیلہ ریاض)۔ • میں نے’ یار یاروں سے ہو نہ جدا’ سے سیکھا ہے کہ دوست زندگی کا ایک اہم پہلو ہے، ان کیلئے جو قربانی دینی پڑے دو۔ (ماہرین زینب خان)۔ • میں نے” نیلم کا مرکت’ سے سیکھا کہ اپنے وطن کیلئے جان کی پرواہ کئے بغیر لڑنا چاہئیے۔(دیبا تبسم) • میں نے ” پیر کامل” سے سیکھا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ راست پر لے آئے اور جلد یا بدیر دعائیں قبول ہو ہی جایا کرتی ہیں۔ ( عمیرہ احمد). •میں نے “آب حیات” سے سیکھا کہ حرام کا مال آپ کو کبھی بھی نفع نہیں دے سکتا۔ (عمیرہ احمد) • میں نے “قربونت بیرم” سے سیکھا کہ معجزے بھی ہوتے ہیں اور ان پر یقین رکھنا چاہیئے۔ (سمرین شاہ)۔ •میں نے ” یارم” سے سیکھا کہ کوئی بھی چیز منحوس نہیں ہوتی، یہ بس ہمارے ذہنوں کے خرافات ہیں۔ ( سمیرہ حمید). • میں نے “قرارم کا تاج محل” سے سیکھا کہ ہم کسی بھی چیز سے اپنی محبت ختم نہیں کر سکتے ، چاہے وہ پہاڑ ہی کیوں نہ ہو۔ (نمرہ احمد)۔ • میں نے ‘ ایک لفظ محبت” سے سیکھا کہ جو دوسروں کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے خدا اس کیلئے آسانی پیدا فرماتا ہے۔ ( نیلم ریاست). • میں نے ‘من در عشق باشما ہاستم” سے سیکھا کہ ظلم پر خاموش رہنے والا بھی ظالم ہوتا ہے۔ (سمرین شاہ). •میں نے ‘آن’ سے سیکھا کہ توبہ کا در ہمیشہ کھلا ہوتا ہے، اور خدا کے ہر کام میں مصلحت چھپی ہوتی ہے۔ (میرب حیات)۔ • میں نے‘سانس ساکن تھی’ سے سیکھا کہ عروج کو ہمیشہ زوال آتا ہے مگر زوال کبھی بھی ہمیشہ کیلئے نہیں رہتا۔ (نمرہ احمد)۔ • میں نے ‘ میرا رکھوالا ‘ سے سیکھا کہ جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ (سمرین شاہ). میں نے ناولوں سے جینے کا ڈھنگ سیکھا۔ میں نے ناولوں میں دوسروں کی دنیا میں کود کر ایک نئی دنیا کو سر کیا ہے۔ میں مختلف ہوں کیونکہ مجھے مختلف چیزیں پسند ہیں۔😌♥️ میں نے جناب مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز سے سیکھا ہے کہ ایمان ہی سب سے بڑی اور مضبوط طاقت ہے۔ حب الوطنی کسے کہتے ہیں عمران سیریز سے بہتر کوئی پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا۔ میں نے جناب مظہر کلیم صاحب عمران سیریز سے سیکھا ہے ہنستے ہنستے خطروں سے بھڑ جانا اور ہنستے ہنستے ان سے نمٹنا۔ برے لوگوں کےساتھ برے بننے کی بجائے اپنا مقصد نکال کر انہیں ترک کر دینا۔ میں نے عمران سیریز سے سیکھا ہے کہ کبھی بھی اپنی ذاتیات کے لئے کسی سے بدلہ لینے کی غرض سے اس پر ظلم نہ کرنا لیکن اصول و قاعدہ و قانون کی پاسداری کے لئے لڑنا جہاد ہے میں نے جناب ابن صفی صاحب کی عمران سیریز و جاسوسی دنیا سے سیکھا ہے کہ قانون کی پاسداری اور قانون کی بالا دستی کس طرح قائم و دائم رکھی جا سکتی ہے
نبی کــریم ﷺ پر درود پڑھنے کے فــضائل
💖 نبی کــریم ﷺ پر درود پڑھنے کے فــضائل اور درود پاک نہ پڑھنے کی وعید علامہ ابن قیم ؒ نے درود شریف پڑھنے کے ۳۹ فوائد ذکر کئے ہیں ، ان میں سے چند اہم فوائد یہ ہیں : ❶درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہوتا ہے۔ ❷ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔ ❸دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ ❹ دس گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ ❺دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ❻دعاسے پہلے درود شریف پڑھنے سے دعا کی قبولیت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ❼ اذان کے بعد کی مسنون دعا سے پہلے درود شریف پڑھا جائے تو قیامت کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔ ❽درود شریف پڑھنے سے مجلس بابرکت ہو جاتی ہے۔ ❾جب انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا ہے تواللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے۔ ❿درود شریف پڑھنے والے شخص کی عمر اس کے عمل اور رزق میں برکت آتی ہے۔ ⓫درود شریف کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ ⓬درود شریف پڑھنے سے دل کو ترو تازگی اور زندگی ملتی ہے۔ ⓭درود شریف کــثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجـــات ملتی ہے 🌾 ابی بن کعب ؓ بیـان کـرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ❤’’اے اللہ کے رســـول ﷺ! ❈ میـں آپ ﷺ پر زیـادہ درود پڑھـتا ہوں ، تو آپ ﷺ کا کیا خــیال ہے کہ میں آپ ﷺ پر کتنـا درود پڑھـوں ؟ آپ ﷺ نے فـرمـــــایا ✦ مَــا شِئْتَ جتنا چـــاہو۔ میں نے کہا : چــــــوتھا حصہ؟ ✦آپ ﷺ نے فـرمــــــایا: مَا شِئْتَ ، فَـإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چــاہواور اگر اس سـے زیادہ پڑھــو گے تو وہ تمــہارے لئے بہتر ہے۔ ❈ میں نے کہا : آدھــا حصـہ ؟ آپ ﷺ نے فـرمــــــایا: مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چـــــاہو اور اگـر اس سے زیادہ پڑھـو گے تو وہ تمہـــارے لئے بہتـر ہے۔ میـں نے کہا : دو تہــــائی ؟ ✦ رسول اللہ ﷺ نے فـرمـــــــایا: مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چــــاہـو اور اگر اس سـے زیادہ پڑھــو گے تو وہ تمہــارے لئـے بہتـر ہے۔ ❈ میں نے کہا : میں آپ ﷺ پر درود ہی پڑھـتا رہوں تو ؟ 💝 نبی کریم ﷺ نے فـرمــــــایا: ★ إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچــا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ مـــعاف کر دئیے جائیں گـے۔ ★ ایک روایت ہے میں ہـے: إِذَنْ یَکْفِیْکَ اﷲُ ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ تب تمھیں اللہ(تعالیٰ) دنیا وآخـــــــرت کی پریشانیوں سے بچـا لے گا۔ 📚 ترمـذی:۲۴۵۷،وصحیحہ الالبانی ⓮روزِ قیامت نبی ﷺ کے سب سے زیادہ قــــــریب وہی ہو گا جو سب سـے زیادہ نبی کریم ﷺ پر درود شریف بھیجتا تھا۔ ▪ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ 🌹رســـول اکرم ﷺ نے فـرمــــــایا: ⊙ أَوْلَی النَّـاسِ بِیْ یَـوْمَ الْـقِیَامَـۃِ أَکْثَـرُہُمْ عَلَیَّ صَــــلاَۃً ★ قیامت کے دن لوگــوں میـں سے سب سے زیادہ میـرے قـــریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجـھ پر درود بھیــجے گا۔ 📚 رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہ🌹🌹🌹🌹🌹 💥 درود نہ پڑھنے پر وعیـد 🔥 💡 جـب نبی کـــریم ﷺ کا ذکر کیا جـــــائے تو ذکـرکرنے اور سننے والے دونوں کو آپﷺ پر درود بھیــجنا چـــاہیے۔ ❈نبی کـــــریـم ﷺ کا ارشـــاد ہے ⊙ رَغِـــمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ ✦ ’’اس آدمی کی ناک خـــاک میـں ملے جس کے پاس میـــرا ذکر کـیا گیا اور اس نے مـــجھ پر درود نہ بھیـجا۔‘ 📚 ترمـذی:۳۵۴۵۔وصحیحہ الالبانی ❈نیز رسول اللہﷺ ارشاد فـرمـــــــایا ⊙ اَلْبَــخِیْلُ الَّذِیْ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ ✦ بـــخیل وہ ہے جس کے پاس میـرا ذکر کیا جــائے اور وہ مـجھ پـر درود نہ بھیــجے۔ 📚 ترمـــذی:۳۵۴۶۔وصحیحہ البانی ابـن عباسؓ عنہ سے روایت ہے کہ 🌹نبـی ﷺ نے ارشـاد فــــــرمـایا ⊙ مَـــنْ نَسِیَ الصَّـــلاَۃَ عَلَیَّ خَطِیَٔ طَـرِیْقَ الْجَنَّۃِ 💥 جــــــو شخص مجـھ پر درود بھیجنا بھــول جائے وہ جنت کے راستے سـے ہٹ گـیا۔ 📚 صحیح الجامع للألبانی : ۶۵۶۸ 🤲🏻آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حقوق ادا کرنے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔ اور روزِ قیامت ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور آپ کے ہاتھوں حوضِ کوثر کا پانی نصیب کرے ۔ آمین یا رب العلمین نکاح کیلئے بہتر عورت ═════════════ سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّتِ عَمَّا یَصِفُوْنَ0 وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْ سَلِیْنَ0 وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ 0 سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ۔