دہشت کے سائے تلے دہشت کے سائے تلے مترجم: فیاض الرحمن قادری آؤ اج ضمیر کا سودا کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔تم بک جاؤ ایک دھیلے میں ۔۔۔۔۔۔ میں بک جاؤں ایک دھمکی میں کچھ بک جائیں روٹی کے ٹکڑے کے عوض۔۔۔۔۔کچھ بک جائیں مدہوشی کے ایک جام کے عوض پر یہ قیمت کیسی ہے۔۔۔۔۔نسلوں کا سودا اور اتنا سستا۔۔۔ہمت کرو اگے بڑھو۔۔۔مانگو شرکت ایوانوں میں منصف کے میخانوں میں۔۔۔۔لیکن میں، تم، یعنی ہم۔۔۔۔۔ایسا کر نہیں سکتے۔۔۔۔یاں پہرہ ہے ہمارے ذہنوں پر یاں پہرہ ہے ہمارے نالوں پر ۔۔۔۔۔میں اپنی جگہ پہ جامد رہوں۔۔۔۔تم اپنی جگہ پہ ساکت رہو چپ چاپ ضمیر کا سودا کرلو تم۔۔۔۔۔چپ چاپ ضمیر کا سودا کرلیں ہم
فتاویٰ عالمگیری۔۔ مکمل 10جلدیں۔مکمل عربی /اردو
فتاویٰ عالمگیری۔۔ مکمل 10جلدیں۔مکمل عربی /اردو Fatawa Alamgiri. Complete 10 volumes. Complete Arabic / Urdu Fatawa Aalamgeeri Fatawa Aalamgeeri فتاویٰ عالمگیری Jild 1 to 10 جلد 1 سے 10 Complete in Arabic and Urdu Translation مکمل عربی اور اردو ترجمہ FatawaAalamgeeri-volume1-Urdu FatawaAalamgeeri-volume2-Urdu FatawaAalamgeeri-volume3-Urdu FatawaAalamgeeri-volume4-Urdu FatawaAalamgeeri-volume5-Urdu FatawaAalamgeeri-volume6-Urdu FatawaAalamgeeri-volume7-Urdu FatawaAalamgeeri-volume8-Urdu FatawaAalamgeeri-volume9-Urdu FatawaAalamgeeri-volume10-Urdu
فلسفہ قربانی قرآن کی نظر میں۔
فلسفہ قربانی قرآن کی نظر میں۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو انسانی تاریخ میں کچھ باتی ایسی ملتی ہیں جو ہبوط آدم سے لیکر آج تک مسلمہ چلی آرہی ہیں ۔ان میں سے ایک قربانی بھی ہے۔ تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے.قربانی انسانی تاریخ کا پہلا عمل ہے جس کی تاریخ اللہ نےاپنی کتاب مقدس میں بیان فرمائی ہے۔ یہ بھی پڑھیں اونٹ کے طبی فوائد طب نبویﷺ کی روشنی میں قربانی کی تاریخ خداوند عالم نے آدم کے بیٹوں کے واقعہ میں قربانی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس واقعہ میں ہمیں بہت سے عبرت آموز ، فائدہ من سبق حاصل ہوتے ہیں ”اور پیغمبر علیہ السّلام آپ ان کو آدم علیہ السّلام کے دونوں فرزندوں کا سچا ّقصّہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے “ ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۲۷) ۔ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس واقعہ کو صحیح طور پر نقل کریں ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم کے بیٹوں نے خداوند عالم سے نزدیک ہونے کے لئے اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کی ۔ سیدنا آدم کے بیٹوں کی سب سے پہلی قربانی یہ بھی پڑھیں کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟ دوسری قسط اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حادثہ خارج میں واقع ہوا ہے اورحضرت آدم کے بیٹوں کی قربانی کوئی افسانہ نہیں ہے ۔ حضرت آدم کے بیٹوں کے قربانی کرنے کا واقعہ پوری تاریخ بشریت میں پہلا واقعہ ہے ، اس وجہ سے خداوند عالم نے اس آیت اور دوسری آیات میں اس کو بیان کیا ہے ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ قربانی کرنے کے بعد ان دونوں قربانیوں میں سے ایک قربانی قبول ہوئی اور دوسری قبول نہیں ہوئی ۔ اگر چہ ان دونوں کا نام بیان نہیں ہوا ہے لیکن تاریخی واقعات میں اس معنی کی بہت تاکید ہوئی ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی وہ ہابیل تھے اور جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی وہ قابیل تھے (مجمع البیان ، طبرسی ، ج ۳ و ۴ ، ص ۲۸۳۔ روح المعانی ، ج ۴، جزء ۶ ، ص ۱۶۳) ۔ قربانی کا بنیادی مقصد قربانی اک بنیادی مقصد اطاعت و قرب ہے، قرب کے خداوندی کے خلاف طبع فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔تاکہ معلوم ہوسکے کہ قربانی دینے والا واقعی قربانی کا جذبہ رکھتا ہے ،اگر اطاعت کا عنصر ہی باقی نہ رہا تو قربانی کی غرض غائت ہی ختم ہوجاتی ہے۔مذکورہ بالا سطور میں بیان ہونے والے واقعہ میں دوبھائیوں کی قربانی کا ذکر ہے ایک سراپا عجز و انکساری کا مجسمہ تھا ،جب کہ دوسرا کبر و نخوت اور اور انا کا استعارہ تھا۔یہ دونوں نفسیاتی طورپر اپنی اپنی انتہائووں کو چھو رہے تھے۔اسلام اعتدال راہ کا نام ہے،نیت کا اظہار عمل سے ہوتا ہے،۔مال ودولت تو ایک اظہار کا ذریعہ ہے،اگر کوئی اپنا طرز عمل نہیں بدلتا زبان سے یا بظاہر عمل سے وہ ان رسومات کو ادا کربھی لیتا ہے جنہیں عرف عام مین قربانی کہا جاتا ہے ۔وہ عمل میں تو شریک ہوگا لیکن حقیقی مقصد فوت ہوجائے گا۔۔ قران کریم نے اس طرز عمل کو اپنے مخصوص انداز میں بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم نے سورہ حج کی ۳۴ ویں اور ۶۷ ویں آیت میں ذکر کیا ہے”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “۔ (سورہ حج ، آیت ۳۴) ہر امت کے لئے طریقہ قربانی مقرر ہے اور ” ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں “ (سورہ حج، آیت ۶۷) : جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے کہ ان آیات میں”منسک“ سے مراد قربانی ہے (مجمع البیان ، ج ۷ و ۸ ، ص ۱۵۰ ۔ معالم التنزیل ، بغوی، ج ۳ ، ص ۳۵۰) ۔ ۳۴ ویں آیت بھی اسی معنی کو بیان کرتی ہے کہ جانوروں کی قربانی گذشتہ امتوں میں رائج تھی ۔ کیا جانور ذبح کرنا ہی قربانی ہے اطاعت و ایثار کا ایک انداز جانور ذبح کرنا بھی ہے۔مسلمانوں میںجو طریقہ قربانی رائج ہے وہ مخصوص جانور ذبح کرنے کا ہے،اس کا نصاب بھی مقرر ہے اس کا طریقہ بھی مخصوص ہے۔ گوشت تو سارا سال کھایا جاتا ہے ،پھر اس دن کے ذبح کئے ہوئے جانور میں کونسی خاصیت ہے کہ اسے اتنی اہمیت دی گئی ہے؟مقصد گوشت کا حصول نہیں بلکہ اطاعت و قربانی اور خوہشات کو قربان کرنا بھی شامل ہے۔ قران کریم قربانی کی غرض وغائت بیان فرماتا ہے۔ لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ-وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ( الحج۳۷) ترجمہ: کنزالعرفاناللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو۔ جن چیزوں کو یعنی جانوروں کو ذبح کرنا ان کا گوشت کھانا وغیرہ کی
اونٹ کے طبی فوائد طب نبویﷺ کی روشنی میں
اونٹ کے طبی فوائد طب نبویﷺ کی روشنی میں ایک کوہان والی اونٹنی میں حمل 390 دن اور دو کوہان والی اونٹنی میں 406 دن رہتا ہے،سال، اور حمل 12-13 ماہ تک رہتا ہے۔۔ جہاں اونٹ ہر دو سال بعد ایک بچھڑے کو جنم دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مادہ عام طور پر اپنی زندگی میں 8 بچوں کو جنم دے گی، ب چھڑے کا اوسط وزن تقریباً 35 کلو ہے اور نر مادہ سے بڑا ہوتا ہے۔ اونٹ بہت اچھی ماں ہے اور اسے پسند نہیں ہے کہ کوئی اپنے بچے کے پاس جائے، اور اگر مادہ اپنا بچہ کھو دے تو اسے بہت تکلیف ہوتی ہے، بچھڑے 2 سے 3 ماہ کی عمر میں گھاس کھانا شروع کر دیتے ہیں اور اس کا دودھ چھڑایا جا سکتا ہے۔ 4 ماہ کی عمر میں، بہت سے پالنے والے نوجوان اونٹ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بھہ پڑھیں کیا قربانی خواب کی وجہ سے واجب ہوئی؟ اونٹنی جانور کی تولید نر اونٹ 6 سال کی عمر کو پہنچنے پر پختہ اور دوبارہ پیدا ہوتا ہے، جب کہ مادہ 3 سے 4 سال کی عمر میں دوبارہ پیدا کر سکتی ہے، اور افزائش کا موسم اس پر منحصر ہوتا ہے۔ چراگاہوں کی دستیابی، بارش اور سردی، اور اس طرح یہ ایک خطہ سے دوسرے علاقے میں مختلف ہوتی ہے یہ بھی پڑھیں اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم ۔۔۔۔۔۔۔۔ مختلف نام اونٹ کی پیدائش سے لے کر اب تک اس کے کئی نام ہیں، اس لیے پہلے سال اس کا “حور”، دوسرے سال “صفرودہ”، تیسرے سال “ہیگہ”، چوتھے سال “اجدہ” اور پانچویں سال “اجدہ” ہے۔ چھٹے سال “ثانیہ” اور “رابع” ہے، پہلا “قطر” ساتویں میں ہے اور “سر والا اونٹ” آٹھویں میں ہے، پھر اس کے علاوہ اور بھی نام ہیں جو روزمرہ کے استعمال میں آتے ہیں۔ یعنی چھوٹا اونٹ، اونٹوں کا ریوڑ، ہرن قافلے کے اونٹ کے لیے، اونٹ بوجھ کا اونٹ، بیٹھا ہوا اونٹ سوار اونٹ، اور ذلت اصل نر اونٹ ہے۔ کتاب یہاں سے حاصل کریں نیچے دیے گئے ٹیبل سےاونٹ کے طبی فوائد طب نبوی کی روشنی میں حکیم قاری محمد یونس شاہد میو کی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں۔ پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات اونٹ کے طبی فوائد طب نبوی کی روشنی میں :کتاب کا نام حکیم قاری محمد یونس شاہد میو :لکھاری / مصنف اردو :زبان (ُPdf)پی ڈی ایف :فارمیٹ 3.78 MB (3,966,032 bytes) :سائز 180 :صفحات >> Please Like Our Facebook Page for More Beautiful Books and Novels <<
ماضی بطور حال: تاریخ کے تناظر میں معاصر شناختوں کا ارتباط
ماضی بطور حال: تاریخ کے تناظر میں معاصر شناختوں کا ارتباط انسان زندگی میں مختلف مراحل میں مختلف نظریات قائم کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ نظریات مین بھی تغیرتا پیدا ہوتے رہتے ہیں یہ بھی پڑھیں کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟ دوسری قسط مشاہدات کی بنیاد پر نظریات کا یہ بدلائو ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ پہلے سنی ہوئی باتیں اٹل دکھائی دیتی ہیں۔ تجربات اور کثرت مشاہدات اس یقین مین تزلزل پیدا کردیتے ہیں یہ بھی پڑھیں اسباب بغاوت ہند، سر سید احمد خان PREVIEW DOWNLOAD
کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟ دوسری قسط
دوسری قسط کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟ مضمون نگار حکیم قاری محمد یونس شاہد میو دوسری قسط تاریخ کا فائدہ۔ تاریخ کا فائدہ و نقصان پر بحث اتنی طویل ہے کہ اسے کئی مجلدات پر پھیلایا جاسکتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ کو ہم کیوں اہمیت دیتے ہیں ؟یاتاریخ کا معاشرتی طورپر کردار کیا ہے؟مختصرا کہا جاےتو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور انہیں نہ دھرانا۔اور کام کی باتیں اپنانا۔ان کی کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے۔اگر ممکن ہوتو اپنا کردار ایسا متعین کرلیا جائے تو جو خود ایک تاریخ کا روپ دھار سکے۔ تاریخ کی ترتیب نو۔ تاریخیں عمومی طورپر شاہی درباریوں نے لکھی ہیں بالخصوص ہندستان میں تو اس کا خاص اہتما کیا گیا تھا۔بلکہ شاہان بند نے تو خود اپنے ہاتھوں سے چیدہ چیدہ واقعات ترتیب دئے ہیں۔تزک بابری۔تزک جہانگیری وغیرہ کچھ تواریخ ان لوگوں نے لکھی ہیں جو دربار شاہی سے واسطہ و بالواسطہ منسلک تھے۔بدایونی۔خاکانی۔قاسم فرشتہ۔وغیرہیہ لوگ تاریخ نگار کم درباری قصیدہ خواں زیادہ تھے۔ جہاں کہیں انہوں نے دائرہ وفاداری کو پھلانگنے کی کوشش کی وہیں پر تادیبی کارروائی سامنے آگئی ۔ مثلاََ بدیونی کے بارہ میں باداشاہ وقت کا یہ مقولہ مشہور ہے کہ میں نے تمہیں مورخ بنایا تم تو فقیہ نکلے۔مجبوری ہے کہ اس وقت کی تاریخ کا ہمارے پاس یہی ایک ذریعہ ہے۔اسی چراغ کی مستنیر کرنوں سے اپنے من کو روشن کرنا پڑتا ہے۔ میوات کی تاریخ کی ترتیب نو جس معاشرہ کی تاریخ مرتب کی جاتی ہے وہاں کا ماحول اور رسم و رواج اورلوگوں کے خیالات و رجحانات بہت اہمیت کے حامل اور ترایخ کے لئے خام مال کی حیثیت رکھتے ہیں۔اہل میوات نےتاریخ نویسی کا کام بہت دیر سےکم مقدار میں شروع کیا۔جتنی بڑی قوم ہے،تعدادی لحاظ سے اس کا حجم بہت بڑا ہے۔پاک و ہند میں اس کی منشتر افرادی قوت آج بھی اس کی عظمت پر گواہ ہے۔ لیکن جس مقدار میں آبادی ہے اس معیار کاکام سامنے نہیں آرہا ہے بسا غنیمت کہ ہلکی پھلکی انفرادی کوششیں کی جارہی ہیں،امید ہے یہ جو ئے ناتوان کسی دن ضرور سیلابی صورت اختیار کرلے گی۔ جو ملتا ہے بساغنیمت ہے۔ قومیں ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں ان کے راستے میں لق دق صحرا آتے ہیں،خوشگوار مناظر بھی آتے ہیں۔راہی جنتی ضرورت ہوتی ہے راستی سے گری پڑی چیزیں اٹھاتا ہے اور بوقت ضرورت کام میں لاتا ہے۔میوقوم کے بارہ میں جو کچھ لکھا گیا اور جنتی کوششیں کی جارہی ہیں ۔یہ ایک سیلاب کا پیش خیمہ ہیں۔اگر کسی میو نے زندہ رہنا ہے تو بکنگ جاری ہے جو آج کام کرے کرے میوات کی تاریخ میں اس کا نام لکھا جائے گا۔ تاریخ بنیادی طورپر ان لوگوں کی کتھا ہوتی ہوتی ہے جو اپنے حصے کی زندگی دوسروں کے لئے وقف کردیتے ہیں۔تاریخ کی اس قدر شاخیں ہیں جتنی انسان کی سوچ ہوتی ہے۔لفظ تاریخ میں سارا معاشرہ۔علوم و فنون۔عادات و اخلاق سب ہی کچھ آتا ہے۔لکھنےوالا اپنی پسند کا موضوع اختیار کرتا ہے اور پڑھنے والا اپنی پسند کا انتخاب کرتا ہے۔ عمومی طورپر لوگ لکھنے سے پہلے موضوع کی تلاش کرتے ہیں۔یہ سلسلہ کافی پیچیدہ بھی ہوتا ہے۔ایک بار جب لکھنا شروع کردیا جائے تو پھر انسانی قلم میں مضامین یوں اترتے ہیں کہ گویا یہ کوئی پرنالہ ہے جو ایک سیل رواں سے جڑا ہوا ہے جب تک سیل رواں موجود ہے اس کا بہائو کم نہیں ہوگا۔۔ لکھنے کا طریقہ۔ تاریخ بنانے کے لئے کسی خاص فلسفہ کی ضرورت نہیں ہے۔جو دیکھو لکھ دو۔فیصلہ بعد میں آنے والے کریں گے کہ کیا درست تھا کیا تھا ۔جو ایک بار کاغذ پر لکھا گیا وہ محفوظ ہوگیا۔مثلاََ آپ کسی سے بات چیت کرتے ہیں، ساتھ میں ایسا انتظام کریں کہ یہ گفتگو محفوظ بھی ہوجائے۔ اسے سلیقہ سے ترتیب دیں ،غیر ضروری الفاظ جو بے دھیانی یا تکیہ کلام کی وجہ سے زبان سے ادا ہوجاتے ہیں کو حذف کردی۔ ۔اسی تحریر کو آپ ایک ماہ کے بعد پڑھیں۔تو دیکھیں کہ کچھ ایسی باتیں بھی پڑھنے کو ملیں گی جن تو بات کرتے وقت دھیان ہی نہیں دیا گیا تھا۔ پھر چھ ماہ کے بعد اسی طرح سال بعد اس کا مطالعہ کریں۔دوسروں سے کہیں اسے پڑھ کر اپنی رائے دیں۔پھر کیا ہوگا۔دیکھتے ہی دیکھتے کچھ دیر کی گفتگو ایک کتاب کی تخلیق کا سبب بن جائے گی۔جتنے لوگ اسے پڑھیں گے اتنی ہی باتیں سامنے آئیں گی۔رفتہ رفتہ یہ کتاب کی ضخامت میں غیر محسوس طریقے سے اضافہ کا سبب بنتی جائیں گی۔ یہ کتاب جب ایک سو سال بعد پڑھی جائے گی تو ایک تاریخ بن چکی ہوگی۔یقین کرنا مشکل ہے لیکن تاریخ کی کتابوں میں یہی باتیں تو ہوتی ہیں،فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ عمومی طورپر بادشاہوں۔امراء وزراء،بڑے لوگوں کی باتیں ہوتی ہیں ،آپ نے یہی باتیں معاشرہ کے عام فرد کی لکھنی ہیں۔سو سال بعد بادشاہت،امیری۔غریبی سب رزق خاک ہوچکی ہونگی،اب ان دونون کی بات میں کوئی خاص فرق نہیں رہے گا۔کیونکہ بادشاہ اور عام آدمی ایک جیسی قبر میں محو آرام ہوتے ہیں،پڑھنے والا سوسال ماضی کو پڑھ رہا ہوتا ہے۔عام آدمی کی بات میںمعاشرہ کی عکاسی ہوتی ہے۔اس وقت ایک عام آدمی جس کی اکائی معاشرہ کی بنیاد ہوتی ہے کس طرح سوچتا ہے۔کیسے زندگی گزارتا ہے۔ بادشاہ یا وزیر و امیر کی زندگی سے تو معاشر ہ کی نبض کا پتہ نہیں چلتا۔البتہ اگرکسی نے رموز مملکت سیکھنے ہوں تو وہ بادشاہوں کی زندگی کا مطالعہ کرے۔عام آدمی کے لئے بادشاہ یا وزیر کی زندگی میں کیا کشش ہوسکتی ہے؟لبتہ عام آمی کی زندگی کے مطالعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زندگی کی سانسیں پوری کرنے کے لئے کتنے کربناک لمحات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔جینے کی کتنی قیمت دینے پڑتی ہے۔ تاریخ کا افسوس ناک پہلو۔ جن کتابوں کو تاریخ کی کتابیں کہا جاتا ہے وہ بنیادی طورپر چند لوگوں کی ادھوری روئے داد زندگی ہوتی ہے۔ان میں جو باتیں لکھی ہوتی ہین سچی بات تو یہ ہے ان مین پڑھنے والوں کے لئے سوائے دماغ سوزی اور ذہنی عیاشی کے کوئی سامان منفعت موجود نہیں ہوتا۔مذہنی کتب اس سے مستثنی ہیں کیونکہ اکارین مذہب کی زندگی سے بعد والے لوگ اپنی ضرورت
بنک کا سودBank interest
Bank interestبنک کا سود :بنک کا سود اسلام ا یک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جس میں تجارت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل راہنمائی موجود ہے۔آمد اسلام کے وقت سود نے کی جڑیں جزیرہ عرب تک پھیلی ہوتی تھیں۔وہ لوگ تجارت اور سود میں فرق نہیں سمجھتے تھے اسلام تجارت کے ان طور طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ،جس میں بائع اور مشتری دونوں میں سے کسی کو بھی دھوکہ نہ ہو ،اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جن میں کسی کے دھوکہ ،فریب یا فراڈ ہونے کا اندیشہ ہو۔یہی وجہ ہے اسلام نے تجارت کے جن جن طریقوں سے منع کیا ہے ،ان میں خسارہ ،دھوکہ اور فراڈ کا خدشہ پایا جاتا ہے ۔اسلام کے یہ عظیم الشان تجارتی اصول درحقیقت ہمارے ہی فائدے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔سود کو عربی زبان میں ”ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ احادیث مبارکہ میں سود کا تذکرہ گبائر مین کیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں کیا قربانی خواب کی وجہ سے واجب ہوئی؟ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ اسے خدا اور رسول سےجنف قرار دیا گیا ہے شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں۔” جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو ۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک جائے تو پہلے جو سود کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ دوزخی ہیں ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے بندے کو پسند نہیں کرتا ۔ن یہ بھی پڑھی زیر تبصرہ کتاب” بنک کا سود،اقتصادی اور شرعی نقطہ نظر “جامعہ ملک عبد العزیز سعودی عرب کے معاشیات کے پروفیسر محترم ڈاکٹر محمد علی القری کی عربی تصنیف ہے،جس کا اردو ترجمہ محترم عتیق الظفر صاحب نے کیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو سود جیسی لعنت سے چھٹکارا عطا فرمائے۔ کتاب یہاں سے حاصل کریں
کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟
کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟ کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟ پہلی قسط مضمون نگار حکیم قاری محمد یونس شاہد میو لکھنے والے میدان عمل کو کتنا بھی کشادہ رکھیں پھر بھی ان کا قلم معاشرہ کے لحاظ سے مخصوص افراد کے گرد ہی گھومتا ہے۔ جب کسی سلطنت یا مملکت کی تاریخ لکھتے یا پڑھتے ہیں ۔یہ تحریر چند شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ ضمناََ کچھ باتیں ماحول و معاشرہ کی بھی شامل ہوجاتی ہیں،بعد والے انہیں باتوں کو تاریخ کے نام سے بیان کرتے ہیں۔ ان مختصر تحریروں کی مدد سے لکھنے والا اور پڑھنے والا تخلیات کی مدد سے پورا معاشرہ تخلیق کرتے ہیں۔ جہاں کوئی چیز سمجھ میں نہ آئے ،وہاں مصنف یا قاری کا ذوق اور اان کی فہم خانہ پرُی کرتے ہیں ۔ ان کے بعد والے ان دونوں کو ملاکر مطالعہ کرتے ہیں،یوں یہ موضوع طوالت در طوالت کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں مورخین ہند تاریخ کی غرض و غائت سب سے پہلے اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ تاریخ کے مطالعہ کی غرض و غائت کیا ہونی چاہئے؟ تاریخ کا مطالعہ کیوں کیا جاتا ہے؟قابل غو ر بات یہ کہ انسانی مزاج میں ماضی پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، کوئی کتنا بھی بڑا کیوں نہ بن جائے، ماضی سے اس کا رشتہ کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ دراصل جو دنیا میں آیا ہے وہ ایک تسلسل عمل کا شکار رہا ہے۔اپنی مرضی سے آیا نہ آپنی مرضی سے گیا ۔ اس دنیا میں جیسے بھی حالات ملے ان سے نباہ کیا اور اپنی سانسیں پوری کرکے موت کی چکی میں پس گیا۔ وہ اس جہان کا معمولی سا حصہ دیکھ سکا ۔دنیا کی آشائش کا معمولی سا نظارہ کرسکا۔ جس کی جو زمہ داری تھی پوری کی اور چلتا بنا ۔ جب ہم کسی کتاب تاریخی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ اس زمانہ کے روزن دیوار سے دکھائی دینے والی ہلکی سی جھلک ہوتی ہے،جسے زندگی کی گہما گہمی میں مصنف دیکھتا اور پڑھتا پھر ہمت کرکے لکھتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں اسباب بغاوت ہند، سر سید احمد خان یہ کتاب تو دیگ کا وہ چاول ہے جسے دیگ کے کچا پکا ہونے کا اندازہ کرنے کے لئے پکانے والے اپنی دونوں انگلیوں سے دباتا ہے۔ اس چاول سے ذائقہ یا کچے پکے ہونے کا اندازہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے دیگ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ تاریخ کی کوئی کتاب کتنی بھی مطول و مفصل کیوں نہ ہو پھر بھی وہ اس معاشرہ کی چند باتیں ہی بیان کرتی ہے۔ وہ باتیں جہیں لکھنے والا اہم سمجھتا ہے یا جن کی اس وقت طلب ہوتی ہے۔ باقی بے شمار قیمتی اور اہم باتیں لکھنے سے رہ جاتی ہیں۔ ہر زمانے کا اپنا ذوق ہوتا ہے۔اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ کل جس بات کو اہم سمجھا جاتا تھا ،آج لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ اسی طرح آج جن چیزوں کو متاع عزیز سمجھا جارہا ہے۔آنے والے کل میں یہی ردی کی ٹوکری بھرنے کے کام آئیں گی۔ ایک وقت جو چیز اہم سمجھی جاتی ہے دوسرے وقت اس کی پہلے والی اہمیت باقی نہیں رہتی۔کیونکہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی اس لئے اہمیت بھی باقی نہیں رہی۔اہمیت تو ضرورت کے مطابق طے جاتی ہے، تاریخ سے استفادہ کا بہترین طریقہ تاریخ سے استفادہ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس زمانے کی تاریخ پڑھی جارہی ہے پڑھنے والا اپنے خیالات میں اسی دنیا میں پہنچ جائے تاکہ اسباب و محرکات معلوم ہوسکیں۔ کسی کی برائی یا بھلائی نکھر کر سامنے آسکے۔کبھی غور کیا ہے کہ تاریخ لکھنے والے حجروں میں بیٹھ کر لکھتے ہیں۔ بیان کرنے والے شریک واقعہ نہیں ہوتے اس کے باجود تحریر میں ایسی سلالت و روانگی پائی جاتی ہے۔ گویا لکھنے والا ان کرداروں کو تخلیق کررہا ہے۔ کبھی سوچا ہے سو ایک حجرے میں بیٹھا مورخ ،میدان کار زار میں جان ہومتا ہوئے جنگجو کی کیفیات کو محسوس کرسکتا ہے؟ یا پھر ایک قلم کار، جو نان شبینہ کا محتاج ہو، وہ بادشاہ کی نازک مزاجی کا اندازہ کرسکتا ہے؟۔ یا پھر ایسی سلطنت جو اپنے بیگانوں کی دسیسہ کاریوں کے چرکوں سے لہو لہاں ہوچکی ہو۔ اس میں اپنے بیگانوں کا کردار۔غدار و وفادار کا تعین کرسکتا ہے؟ ایک بد ذوق لکھاری، جب شاعری پر قلم اٹھاتا ہے، دل لگتی کہئے کیا وہ ردیف و کافیہ کی لذت محسوس کرسکے گا؟ ایک بھوکا، ننگا ،وسائل سے تنگ دست، کیا کسی مملکت کی مالی پوزیشن۔یا ٹیکس و مالیہ کا اندازہ کرسکے گا؟ ایسی طرح ایک وقت کھانے والا۔آدھے ستر ڈھاپنے والا، شاہی کپڑوں اور شاہانہ لباس کی کیفیت بیان کرسکے گا؟۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں ایک شہری بابو جس کا معدہ کثرت طعام کی وجہ سے تبخیر کا شکار ہے ، اسے غذا ہضم کرنے کے لئے طبیب کی پھکی کی ضرورت رہتی ہے۔جسے کثرت آرام اور فارغ رہنے کی وجہ سے نیند نہیںآتی ۔ گولیاں کھانا پڑتی ہیں۔وہ اس دیہاتی فاقہ مست کا حال کیسے معلوم کرسکتا ہے۔ جس کے لئے روٹی کا ایک سوکھا ٹکڑا دنیا جہاں کی نعمتوں سے بھاری محسوس ہوتا ہو۔ جو کام کی وجہ سے نیند سے بے حال ہوجائے۔صبح اسے جلد بیدار ہونا پڑے، اور رات گئے تک اسے کمر سیدھی کرنے کی فرصت نہ ملے۔ منرل پینے والے کیا جانیں،جوہڑ کے پانی سےکس طرح زندگی کی سانسیں برقرار رکھی جاتی ہیں؟ یہی تاریخ ہے۔ جسے غیر متعلقہ افراد ترتیب دیتے ہیں ۔ان کی پسند و ناپسند الگ ہوتی ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے کی نفسیات۔ایک دوسرے کی ضرورت۔ایک دوسرے کی مجبوریاں۔ ایک دوسرے کی ترجیحات زندگی سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ تاریخ تووہی لکھ سکتا ہے جو اس ماحول سےمانوس ہو۔مزاج میں کچھ نہ کچھ ہم آہنگی ہو۔ ذوق میں کچھ نہ کچھ مناسبت ہو۔دور مت جائے۔ اس کا جواب ہے۔ جس نے صدیوں پہلی کی نہیں بلکہ اپنے باپ دادا کی طرز معاشرت بھی توجہ سے نہ دیکھی ہو ۔ وہ کیا جانے کہ پچاس سال پہلے لوگوں کا مزاج کیا تھا؟ ۔ ان کا رہن سہن کیسا تھا؟۔وہ کس قسم کی خوراک پسند کرتے تھے۔ انہیں بتائو
مکتبہ علامہ سید سلیمان ندوی
علامہ سید سلیمان ندوی اور اردو زبان و ادب سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی رح [1884-1953]) ہندوستان کے ان ممتاز ونابغۂ روز گار شخصیات میں سے ہیں جن پر ہندی مسلمان کو بجا طور پر فخر ہے ہے ، ان کی جیسی ہستی صدیوں میں پیدا ہوا کرتی ہے ، “دبستان شبلی ” کے اس جانشین اکبر ، ادب و انشا کے سلیمان اعظم اور علوم اسلامیہ کے فرہاد نے اپنی تحریروں سے علم وفن کے مختلف النوع شاخوں کو گرانبار کیا ، پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر علم وتحقیق کا جوۓ شیریں رواں کیا ، تفسیر ، حدیث ، فقہ ، علم کلام ، لسانیات تاریخ جیسے دقیق موضوعات پر جہاں پہنچ کر بڑے بڑے مصنفین کا زور قلم بھی شرمانے لگتا ہے ، ادب و انشا ان سے منہ موڑنے لگتے ہیں ، حسن بیان یاوری نہیں کرتا ، لیکن سید صاحب کا قلم یہاں بھی ادب و انشا کے انمول موتی رولتے پرولتے اور انشا ۓ عالی کے نمونے تیار کرتے ہوۓ اس سبک خرامی سے آگے بڑھتا ہے کہ یہ سنگلاخ وبنجر زمینیں بھی ادب و انشا کا لالہ زار اور حسن بیان کا پر بہار گلستاں بن جاتی ہیں ۔ اردو زبان کے رمز آشنا مولانا عبد الماجد دریابادی کی یہ شہادت حق پر مبنی ہے ” سیرۃ النبی کی ضخیم مجلدات سے لے کر خیام ، خطبات مدراس اور رحمت عالم تک بڑی منجھولی اور چھوٹی کتابوں تک کون ایسی ہے جہاں حضرت سلیمان خشک مولوی معلوم ہوتے ہیں اور صحت زبان وسلاست بیان نمایاں نہ ہو ؟ شستگی ،متانت شرافت یہ تو ان کے اسلوب تحریر کے جوہر اصلی ہیں اور اس پر جا بجا شوخی وظرافت کی گلکاریاں اور حسن صناعت کی سحر طرازیاں جیسے خاتم سلیمانی میں نگیں “۔١ سید صاحب کی یوں تو تمام تصنیفات انشا کے زیور سے آراستہ اور حسن بیان سے پیراستہ ہیں ، لیکن ان میں “نقوش سلیمانی ” ، “یاد رفتگاں “، “حیات شبلی ” اور “خیام ” کا ادبی مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، یہ کتابیں ادب عالی کے شاہ کار اور عمدہ نثر نگاری کے خوبصورت نمونے ہیں ۔ نقوش سلیمانی : یہ بھی پڑھیں مورخین ہند یہ کتاب سید صاحب کے ان مضامین ، مقالات ، مقدمات اور خطبات کا مجموعہ ہے ، جو انہوں نے اردو زبان وادب اور اس کی تاریخ کے متعلق لکھے اور اردو مجالس میں پڑھے ، پوری کتاب کوثر و تسنیم سے دھلی زبان میں لکھی گئی ہے ، لسانی مباحث ہوں ، یا کتابوں پر لکھے گئے مقدمات، اردو زبان اور اس کے مسائل پر دیے گیے خطبات ہوں یا شعر وادب پر تبصرے ، ہر جگہ ادب کی گل ریزی اور انشا کی عطر بیزی ہے ، بقول مولانا عبد الماجد دریابادی ” کتاب کیا ہے ، سید صاحب کمالات ادبی وتنقیدی کی مہر زدہ دستاویز ” ۔ ٢ ,, مکاتیب مہدی ،، پر لکھے گئے مقدمہ کو پڑھیے اور سید صاحب کے دلنشیں اسلوب بیان پر سر دھنیے ! ,, مہدی مرحوم کے خطوط پر نقد وتبصرہ کرنا اور ان کی خوبیوں کو ایک ایک کر کے دکھانا ایساہی کام ہے جیسے کسی خوش رنگ اور خوشبو دار پھول کی ایک پنکھڑی کو توڑ کر کوئی ستمگار قدرت کی صناعی کی داد دے ، وہ پھول ہیں ، پھولوں کی قدر یہی ہے کہ آپ ان سے لطف اٹھائیں بس ، جہاں آپ نے ان کی طرف ہاتھ بڑھائے وہ مرجھانے لگے ، اور نازک پتیاں آپ کی انگلیوں کی سختی سے جھڑنے لگیں ، بہت بہتر سے بہتر صورت نزاکت ولطافت کی ان تصویروں کے لیے یہی ہے کہ دور ہی سے ان کی خوشنمائی ، خوش قامتی اور خوشبوئ کی تعریفیں کی جائیں اور ان سے خود لطف اٹھاۓ اور دوسروں کو بھی لطف اٹھانے دے ،، ٣ ۔ جگر مرادآبادی کے دیوان ,, شعلۂ طور ،، پر سید صاحب نے ایک طویل تقریظ لکھی ہے ، اس کی آخری پیراگراف میں انہوں نے انشا پردازی نہیں ، ساحری کی ہے ، نثاری نہیں ، شاعری کی ہے ، اس ادبی مقطوعہ کو بار بار پڑھیے اور اپنے کام ودہن کو شاد کام اور نشان جام کو معطر کیجیے ,, جگر کی شاعری میں نہ زلف وشانہ ہے ، نہ سرمہ وآئینہ ، نہ ہوس بالائے بام ، نہ شکایت منظر عام ، نہ اس کے کاشانۂ خیال میں چشم ہاۓ بسمل کی آئینہ بندی ہے ، نہ اس کے محبوب کے ہاتھوں میں قصاب کی چھری اور جلاد کی تلوار ہے ، نہ اس کے کوچہ میں شہداء کے دل و جگر کی گل کاری ہے ، وہ مست ہے اور اسی مستی میں کسی نادیدہ کا سراپا مشتاق ہے ………… جگر مست ازل ہے ، اس کا دل سرشار الست ہے ، وہ محبت کا متوالا ہے اور عشق حقیقی کا جویا ، وہ مجاز کی راہ سے حقیقت کی منزل تک اور میخانہ کی گلی سے کعبہ کی شاہ راہ کو اور خم خانہ کے بادہ کیف سے خود فراموش ہوکر ساقی کوثر پہنچنا چاہتاہے ،،٤۔ یاد رفتگاں : معارف میں وفیات پر لکھے گیے ماتمی مضامین کا مجموعہ ہے ، جو سید صاحب نے اپنے کرم فرماؤں ، عزیزوں دوستوں اور ملک اور بیرون ملک کے مسلم وغیر مسلم اصحاب علم وادب کے انتقال پر سپرد قلم کیا تھا ، ,,یاد رفتگاں ،، کا ورق ورق ادب و انشا کے انمول جواہر پارے سے لبریز ہے اور سید صاحب کی سحر آفریں انشا اور کمال تحریر کا بہترین نمونہ بھی ، خاص طور پر اس مجموعے میں شامل مضامین ” شبلی ” ، محمد علی” ، “اقبال ” اور” حکیم اجمل خاں ” کا مرتبہ اردو ادب میں بہت بلند ہے ۔ محمد علی جوہر کا ماتم اتنے درد انگیز اور پرسوز انداز میں کیا ہے کہ آج بھی پڑھنے والے پر رقت طاری ہوجاتی ہے ، ایسا معلوم ہوتاہے کہ صاحب خود رو رہے ہیں اور دوسروں کو بھی رلا رہے ہیں ، اس ماتمی مضمون کا
کیا قربانی خواب کی وجہ سے واجب ہوئی؟
کیا قربانی خواب کی وجہ سے واجب ہوئی؟ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور انسان کے اندر اللہ نے بے شمار صلاحتیں رکھی ہیں۔جن کا اظہار سوتے یا گاتے میں ہوتا رہتا ہے۔ کوئی مذہب یا قوم و ملک ایسانہیں جو خواب دکھائی دینے کا منکر ہو۔زندگی میں ہر انسان کوئی نہ کوئی خواب ضرور دیکھتا ہے۔ لیکن اس کا پورا ہونا نہ ہونا محل نظر رہتا ہے۔خوابوں کی تعبیر بہت بڑا فن ہے جس کا علم قران کریم کی رو سے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیا گیا تھا ۔سورہ یوسف میںحضرت کے تین خوابوں کا مع تعبیر ذکر موجود ہے۔اس کے علاوہ جد الانبیاء حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ؑکے خواب کا بھی ذکر موجود ہے۔کتب سماوی بائبل قدیم و جدید میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے ،تینوں الہامی مذاہب متفق اللسان ہیں کہ جد الانبیاء ؑ کو خواب دیکھا ئی دیا۔اس کے پورا کرنے کی تصدیق بھی فرمائی۔ یہ بھی پڑھیں اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم خواب کیوں دکھائی دیا؟ آیا خواب کی بنیاد پر اتنا اہم اور بنیادی حکم دیا گیا ،جب کہ وحی کا سلسلہ موجود تھا اس کی کیا ضرورت پیش آئی؟اللہ تعالیٰ وحی جلی کے ذریعہ بھی بیٹے کی قربانی کا حکم دے سکتے ہیں ؟لیکن خواب میںکیوں حکم دیا گیا؟ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔من جملہ اتباع کی ایسی صورت پیش کی گئی تھی جس میں غور و تدبر اور اطاعت کی گہرائی دنیا کو دکھانا مقصود تھی۔کیونکہ وحی جلی کی موجود گی میں کوئی آپشن باقی نہ رہتا۔ خواب کی تعبیر قَدْ صَدَّقْتَ ٱلرُّءْيَآ ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَ (الصافات – 105)۔ بے شک آپ نے خواب کو سچا کردکھایا یقیناً ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔۔ خواب ، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ان کی تعبیر ہوتی ہے . عام سا انسان بھی جانتا ہے کہ اس میں دیکھاہے جانے والے مناظر و واقعیات حقیقی نہیں بلکہ تمثیلی ہوتے ہیں . تعبیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں کسی دیکھی چیز کی وساطت سے کسی ان دیکھے نتائج تک پہنچنا . پھر اس ہی سے خواب کا انجام بتانے کا مطلب نکلتا ہے . یہ لفظ سورہ یوسف کی آیت ٤٣ میں استعمال ہوا ہے خواب کی شرعی حیثیت اللہ کے پیغمبروں پر جو وحی آتی ہے اس کی مختلف قسمیں ہیں، جن میں ایک خواب بھی ہے۔ یہ خواب دو طرح کے ہوتے ہیں۔ تمثیلی اور حقیقی۔ حقیقی اور عینی خواب میں اصل حقیقت صاف اور بے پردہ دکھائی جاتی ہے اور وہی مقصود ہوتی ہے، تمثیلی خواب میں حقیقت کو کسی اور پیرایہ میں دکھایا جاتا ہے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ خواب کہ گیارہ ستارے اور آفتاب وماہتاب ان کو سجدہ کررہے ہیں اور ان کو قحط اور خشک سالی کی حالت اور سوکھی بالوں اور دبلی پتلی گایوں کی صورت میں دکھائی گئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ بعض خواب مثالی صورت میں دکھائے جاتے ہیں اور تعبیر وبیان کے محتاج ہوتے ہیں، بعض ٹھیک ٹھیک مشاہدہ بن کر سامنے آتے ہیں، ان کے سمجھنے کے لیے تفصیل وتعبیر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خواب سے پہلے قربانی کا تصور مذاہب عالم میں قربانی ایک مسلمہ حقیقت ہے جس پر تمام ممالک کے لوگ کسی نی کسی طرح عمل پیرا ہیں،سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ و سیدنا اسماعیل علیہما السلام کے خواب سے پہلے قربانی کا تصور نہ تھا؟۔ ایسی بات نہیں قران کریم کی آیات کے مطابق پہلے انسان کی دنیا میں آمد سے ہی قربانی کا سلسلہ شروع ہوگیاتھا۔البتہ حالات کے مطابق اس کی ادائیگی کی مختلف شکلیں تھیں۔ قربانی کا مفہوم۔ ہم اردو میں لفظ قربانی ہی عام طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں قربانی کا ایک خاص مفہوم ہے جس کا تذکرہ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ:۔ ”یعنی قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔ چنانچہ عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لئے بولا جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں دین کی دعوت میں اہل میوات کا کردار ہرقوم کے لئے قربانی کا طریقہ موجود ہے قرآن کریم نے سورہ حج کی ۳۴ ویں اور ۶۷ ویں آیت میں ذکر کیا ہے”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “۔ (سورہ حج ، آیت ۳۴) اور ” ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں “ (سورہ حج، آیت ۶۷) ۔یقینا تھا تو پھر اس واقعہ کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے۔۔جد الانبیاءؑ کے خواب کو اتنی اہمیت اس لئے دی گئی ہے کہ قربانی کا جو تصور اس وقت راج تھا اسے بدلنا مقصود تھا۔اس سے پہلے قربانی کسی خاص چیز کے ساتھ منسوب نہ تھی ایک معمولی چیز سے لیکر قیمتی ترین متاع اولاد تک کو بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔ اس خواب کا حقیقی مقصد قربانی کو ایسا مفہوم رائج کرنا تھا جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔وہ پالتو جانور زبح کرنے کا تصور تھا۔اگر وہی آتی اور سیدھا سیدھا بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی جاتی تو یہ کام تو پہلے بھی لوگ کررہے تھے۔زمانہ ابراہیمیؐ میں آتش پرستی کا مسلک رائج تھا،اس میں اور نذر و نیاز ۔چڑھاوے آگ میں جھونک دئے جاتے تھے۔ یا پروہت کھاجاتے تھے۔مذہب کے رکھوالے اپنا حصہ رکھا کرتے تھے۔عام لوگوں کے لئے قربانی سے نفع رسانی ممنوع تھی۔ ہمیں مسلمان کیوں کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی اطاعت