عرفہ کے دن کے فضائل أفضلُ الدعاءِ دعاءُ يومِ عرفةَ ، وأفضلُ ما قلتُ أنا والنبيون مِنْ قبلي : لا إلهَ إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له صحيح الترمذي۔۔الصفحة أو الرقم: 3585 | خلاصة حكم المحدث : حسن ۔۔ حضرتِ طلحہ بن عبیداللہ بن کزید رضی اللہ عنہ سےروایت کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے۔ اور سب سے افضل جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام نے کہا ’’لا إلٰہ إلّا اللہ وحدہُ لاشریک لہ‘‘ ہے۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو یوم عرفہ کے فضائل میں سے کچھ یہ ہيں : 1 – اس دن دین اسلام کی تکمیل اورنعتموں کا اتمام ہوا صحیحین میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ایک یھودی نے عمربن خطاب سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آيت ہم یھودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے عمررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے کہا : اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا المائدة :3 . آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کوکامل کردیا اورتم پراپناانعام بھر پور کردیا اورتمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا ۔ توعمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے ، جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئ وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے ۔ 2 – عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے عید کا دن ہے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔ اسے اصحاب السنن نے روایت کیا ہے ۔ اورعمربن الخطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : یہ آيت اليوم اکملت جمعہ اورعرفہ والے دن نازل ہوئ ، اوریہ دونوں ہمارے لیے عید کے دن ہیں ۔ 3 – یہ ایسا دن ہے جس کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائ ہے : اورعظیم الشان اورمرتبہ والی ذات قسم بھی عظیم الشان والی چيز کے ساتھ اٹھاتی ہے ، اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے : وشاهد ومشهود البروج ( 3 ) حاضرہونے والے اورحاضرکیے گۓ کی قسم ۔ ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : ( یوم موعود قیامت کا دن اوریوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے ) اسے امام ترمذي نے روایت کیا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے حسن قرار دیا ہے ۔ اوریہی دن الوتر بھی ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں قسم اٹھائ ہے والشفع والوتر اورجفت اورطاق کی قسم ۔ الفجر ( 3 ) ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں الشفع عیدالاضحی اورالوتر یوم عرفہ ہے ، عکرمہ اورضحاک رحمہ اللہ تعالی کا قول بھی یہی ہے ۔ 4 – اس دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے : قتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کےبارہ میں فرمایا : ( یہ گزرے ہوۓ اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے ) صحیح مسلم ۔ یہ روزہ حاجی کے لیے رکھنا مستحب نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ررزہ ترک کیا تھا ، اوریہ بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ، لھذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے ۔ 5 – یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اولاد آدم سے عھد میثاق لیاتھا : ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اوران سے آمنے سامنے بات کرتے ہوۓ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیون نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں ، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس محض بے خـبر تھے ، یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ ، توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ الاعراف ( 172- 173 ) مسند احمد ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔ تواس طرح کتنا ہی عظیم دن اورکتنا ہی عظیم عھدو میثاق ہے ۔ یہ بھی پڑھیں خطباتِ حجۃ الوداع … تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹر 6 – اس دن میدان عرفات میں وقوف کرنےوالوں کوگناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی ملتی ہے : صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا حديث مروی ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا ، اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ ) عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہوۓ کہتے ہیں میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوۓ آۓ ہیں ) مسند احمد علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔ (۱) یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو تمام مناسک سکھلائے، پھر کہا أعرفت في أي موضع تطوف
ہم قربانی کے ثمرات سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ اورہم قربانی کیوں کرتے ہیں؟
ہم قربانی کے ثمرات سے کیوں محروم رہتے ہیں اورہم قربانی کیوں کرتے ہیں حکیم قاری محمد یونس شاہد میو قربانی کا لفظ ہمہ گیر اور پوری انسانی زندگی پر محیط ہے،جو جذبات قربانی کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اگر یہ سارا سال برقرار رہیں تو یہ دنیا جنت نظیر بن جائے۔مثالی معاشرہ بن جائے۔قربانی کا حقیقی مفہوم و غرض غائت سمجھ میں آجائے تو مزید کسی ہدایت یا قانون کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی عموی طورپر قربانی کا لفظ ایسی جگہ پر بولا جاتا ہے جہاں کسی خاص کاز /مشن کے لئے کسی پیاری چیز یا مفاد کو چھوڑ دیا جائے یا قربان کردیا جائے۔قربانی کوئی بھی دے اپنا ہو ا بیگانہ یہ اقدام قابل تحسین ہوتا ہے بالفاظ دیگر آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب انسان بلند عزائم و مقاصد کے لئے منزل بہ منزل سفر کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو اسے بہت سے خلاف طبع کام کرنے پڑتے ہیں ۔پہلے قدم پر ہی قربانی کا مطالبہ نہیں کردیا جاتا ۔بلکہ کچھ مقامات و منزل ہوتے ہیں جہاں پر قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جب انسان کسی خاص مقصد کے لئے وقف ہوجاتا ہے زندگی کا نصب العین بنا لیتا ہے تواس خاص نصب العین کے حصول میں جو بھی رکاوٹ آئے اسے عبور کرنا ہی فرض منصبی ہوتاہے۔من پسند چیزیں چھوڑی جاتی ہیں۔آرام و آشائش کو تج کیا جاتا ہے۔مقصد و نصب العین کے علاوہ ہر چیز بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔نصب العین اپنے پورے خدوخال کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔اس میں کمی زیادتی کاز کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوتا ہے۔ اہل اسلام جہاں بھی ہیں حتی المقدور قربانی کے نام پر بے شمار جانور ذبح کرتے ہیں۔پوری دنیا میں سنت ابراہیم عقیدت واحترام کے ساتھ پوری کی جاتی ہے،محرب و ممبر سے سیدنا براہیم ؑ و سیدنا اسماعیل کے جذبہ قربانی بیان کیا جاتا ہے۔۔ سوچنے والی بات ہے کہ ان دونوں باپ بیٹوں کو قربانی کے احکامات کس وقت ملے تھے؟۔قربانی تو اس سے مانگی جاتی ہے جس پر بھروسہ ہو۔جس کی اطاعت و تابعداری میں کسی قسم کا شائبہ نہ ہو۔ادنی سے ادنی حکم کو جان سے عزیز رکھتا ہو۔۔جیساکہ رب تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں خطباتِ حجۃ الوداع … تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹ وَ إِذِ ابْتَلی إِبراهیمَ رَبُّه بِکلماتٍ فَأتَمَّهُنَّ قالَ إِنّی جاعِلُک لِلنّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرّیتی قالَ لاینالُ عَهدی الظّالِمینَ(ترجمہ: (اور وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے چند باتوں کے ساتھ امتحان لیا۔ اور جب انہوں نے پوری کر دکھائیں ارشاد ہوا۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا اور میری اولاد (میں سے بھی(؟ ارشاد ہوا: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔) یعنی ابراہیم کو قربانی کا حکماس وقت دیا گیا جب دیگر احکامات کے پورے کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ایک جملہ قابل غور ہے کہ ظالموں کو اس کی برکات و ثمرات نہ ملیں گی۔یعنی اگر وہ یہ عمل کربھی لیں تو انہیں حقیقی ثمرات سے محروم ہوگی،کیونکہ ظلم کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا دینا ہے۔قربانی کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے،وہی قربانی کی روح کو پامال کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ بھی پڑھیں فلسفہ قربانی قرآن کی نظر میں اب رہے آج کے مسلمان تو ان میں قربانی کا جذبہ صرف جانور کے ذبح کرنے کی حد تک ہے۔اتباع اور اطاعت نامی کوئی چیز موجود نہیں ہے،اگر پورا سال ان احکامات کی پیروی کرتے جن کے پورا ہونے کی وجہ سے قربانی واجب کی گئی تھی تو اغیار کو یہ بات کہنے کی جسارت نہ ہوتی کہ قربانی پر جو مصارف برداشت کرنے پڑتے ہیں انہیں دیگر فلاحی کاموں میں لگا دیا جائے۔تو قربانی سے بڑھ کر خدمت انسانیت ہوگی۔ اسلام کا جو نظام حیات ہے جب اس پر عمل کیا جاتا ہے تو اس کی گنجائش باقی نہیں بچتی کہ کوئی بھوکا سوئے کسی نادار بھٹکتا پھرے۔یا اسلامی شعائر کی موجودگی میں کوئی اعتراض کی گنجائش دیکھے۔بنیادی طور پر اسلام کو جس قدر مسلمانوں نے بد نام کیا ہے اس کا عشر عشیر بھی اغیار نہ کرسکے ۔یعنی قربانی کے لئے جو شرائط تھیں کہ مال حلال ہو۔جذبہ اخلاص ہو۔صفائی کا خاص رکھا جائے۔ اس کے حصول سے لیکر اس کے گوشت کی تقسیم تک میں انصاف سے کام لیا جائے،اس سارے عمل میں ان آداب کا لحاظ رکھا جائے جن کا حکم دیا گیا ہے۔
خطباتِ حجۃ الوداع … تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹردوسری قسط
خطباتِ حجۃ الوداع … تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹر دوسری قسط ٭(31) مال ہڑپ کرنے کے لئے قسم کا وبال۔ حارث بن برصاء فرماتے ہیں کہ میں نے نبیؐ سے حجۃ الوداع میں سنا، آپﷺ نے فرمایا: من اقتطع حال أخیه بیمین فاجرة فلیتبوأ مقعده من النار” (ترغیب:۲؍۶۲) ’’جس شخص نے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم سے ہتھیایا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘ ٭(32) منشور ہدایت کی حفاظت۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیا اور فرمایا: یأیها الناس! إني قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم به فلن تضلوا أبداً: کتاب الله وسنة نبیه إن کل مسلم أخ المسلم المسلمون إخوة” (مستدرک حاکم:۱؍۹۳) ’’اے لوگو! بے شک میں تم میں وہ چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، وہ ہے: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔ بے شک ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (مستدرک حاکم:۱؍۹۳) ایسی غیر مستند روایات جو خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب ہیں یہ بھی پڑھیں جذبات آ پ کوبیمار کرسکتے ہیں۔ ٭ (33)مظلوم طبقہ کی نمائیندگی۔ عبدالرحمن بن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا: “أرقائکم، أرقائکم، أطعموهم مما تأکلون، واکسوهم مما تلبسون فإن جاء وا بذنب لا تریدون أن تغفروه فبیعوا عباد الله ولا تعذبوهم” (مسنداحمد:۴؍۳۶) ’’ اپنے غلاموں کا خیال رکھو! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ، جو خود پہنو، وہی ان کو پہناؤ… اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھیں کہ تم معاف نہ کرنا چاہو تو ان کو سزا مت دو بلکہ انہیں اللہ کے بندوں کو بیچ دو۔ ‘‘(سیرۃ النبی از شبلی نعمانی:ؒ۲؍۱۵۶) حکم:یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ جو کہ ابن عاصم بن عمر بن الخطاب ہے، ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت مصنف عبدالرزاق (۱۷۹۳۵)، طبرانی (۲۲؍۶۳۶) میں بھی ہے۔ اور ان دونوں سندوں میں سفیان ثوری کی تدلیس ہے اسی طرح طبقات ابن سعد (۳؍۲۷۷) اس میں عبداللہ الاسدی جو کہ ابواحمد الزبیری کی کنیت سے معروف ہے ضعیف راوی ہے کیونکہ یہ سفیان ثوری کی حدیث کے بارے میں غلطیاں کرتا ہے…مجمع الزوائد (۴؍۲۳۶) میں ھیثمی نے ذکر کیا اور کہا کہ اس روایت کو احمد اور طبرانی نے بھی اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے۔ الغرض غلاموں کے بارے میں اس مضمون کی حجۃ الوداع کے حوالے سے کوئی مستند روایت نہیں۔ نوٹ:لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ صحیح روایت بھی موجود ہے: إخونکم خولکم جعلکم الله تحت أیدیکم فمن کان أخوة تحت یده فلیُطعمه مما یأکل ولیلبسه مما یلبس ولا تکلفوهم ما یغلبهم فإن کلفتموهم فأعینوهم” (مسلم:۱۶۵۷،۱۶۶۱)، (مسنداحمد:۴۷۸۴)، (ابویعلی:۵۷۸۲)، (الادب المفرد:۱۸۰)، (ابوداود:۵۱۶۸)، (سنن بیہقی:۸؍۱۰)، (الشعب :۸۵۷۲)، (طبرانی فی الکبیر:۱۳۲۹۴) ان کتب میں اس مضمون کی روایت صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن وہ خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں۔ ٭(34)مال کے تحفظ کا حق Right of property) ابوحرہ الرقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا: “ألا ومن کانت عنده أمانة، فلیؤدها إلى من ائتمنه علیها” (مسنداحمد:۵؍۷۳) (محسن انسانیت از نعیم صدیقی:صفحہ ۵۸۵) حکم:یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں علی بن زید ضعیف ہے جو کہ ابن جدعان کی کنیت سے معروف ہے۔ ٭(35)۔ خاوند اور بیوی کے باہمی حقوق (Rights of husbands & wives) ابوامامۃ الباہلی سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں نبیﷺ نے فرمایا: “لا تنفق امرأة شیئا من بیتها إلا بإذن زوجها، قیل: یارسول الله! ولا طعام؟ قال: ذلك أفضل أموالنا، العاریة مؤداة، والمنیحة مردودة، والدین یقضی والزعیم غارم” (مصنف عبدالرزاق:۱۶۳۰۸) ’’ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ دینا جائز نہیں، قرض ادا کیا جائے، عاریتا واپس کی جائے، عطیہ لوٹایا جائے، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔‘‘حکم:یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسماعیل بن عیاش مُختلط راوی ہے۔ اس معنی کی روایت (ابوداود :۳۵۶۵، ابن ماجہ:۲۳۹۸) وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں کی گئی۔ یہ بھی پڑھیں فلسفہ قربانی قرآن کی نظر میں۔ ٭ (36)لوند،یا تاریخوں میں تبدیلی۔ ۔ابن عمر سے روایت ہے کہ نبیؐ نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا: ﴿إنَّمَا النَّسِئُ زِیَادَةٌ فِیْ الْکُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَه عَامًا وَیُحَرِّمُوْنَه عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ﴾ کانوا یحلون صفرًا عاما، ویحرمون المحرم عاما ویحرمون صفرًا عاما، ویحلون المحرم عاما، فذلك النسیئ (کشف الاستار:۱۱۴۱) ’’سال کی کبیسہ گری کفر میں ایک زیادتی ہے۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اس کے باعث بہکائے جارہے ہیں۔ وہ اسے ایک سال حلال کرلیتے ہیں اور اسے ایک سال حرام کرلیتے ہیں، تاکہ اس تعداد کا تکملہ کرلیں جو خدا نے حرام کررکھی ہے اور نسئ اس کوکہتے ہیں کہ وہ لوگ محرم کو ایک سال حرام قرار دیتے اور ایک سال صفر کو حلال قرار دیتے ، اسی طرح ایک سال صفر کے مہینے کو حرمت والا بنا دیتے ہیں تو ایک سال محرم کو لڑائی کے لئے حلال قرار دیتے ہیں۔‘‘ حکم:یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے۔ ٭ ابن صامت سے روایت ہے کہ آپﷺ نے عرفہ کے دن فرمایا: “إن الله قد غفر لصالحیکم وشفع صالحیکم في طالحیکم ینزل المغفرة فتعمهم ثم یفرق المغفرة في الأرض فتقع على کل تائب ممن حفظ لسانه ویده وإبلیس وجنوده على جبال عرفات ینظرون ما یصنع الله فیهم، فإذا نزلت المغفرة دعا وجنوده بالویل” (الموضوعات:۲؍۲۱۶، ترغیب:۲؍۲۰۲، منثور : ۱؍۲۳۰) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے صالحین کو بخش دیا اور ان کی ضعیف اعمال والے لوگوں کے بارے میں بھی سفارش قبول کی جس کی و جہ سے اللہ کی رحمت اُترنے لگی اور عام ہونے لگی، پھر یہ مغفرت زمین پر بکھیر دی گئی، زبان اور ہاتھ کے گناہوں سے بچنے والے ہر تائب پریہ واقع ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم کو ابلیس اور ا س کا لشکر عرفات کے پہاڑوں پر سے دیکھ رہے ہیں۔ جب بھی اللہ کی رحمت اُترتی ہے
خطباتِ حجۃ الوداع تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹر
خطباتِ حجۃ الوداع… تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹر پہلی قسط خطباتِ حجۃ الوداع… تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹر حکیم قاری محمد یونس شاہد میو اُس تاریک دور میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو تکریم آدمیت اور حقوق انسانی کا عملی درس دیا اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض سے آگاہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقوق و فرائض کی فکری اساس اور عملی نفاذ پر مبنی تاریخ ساز، دائمی، جامع اور ہمہ گیر منشور انسانی حقوق ’’خطبۂ حجۃ الوداع‘‘ کی شکل میں عطا فرما کر فلاحی اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی۔ جس کی بدولت دور ظلمت کی تاریکی اور غیر مہذب مغربی دنیا بالآخر تہذیب و تمدن کی دولت اور انسانی حقوق سے متعارف ہو کر دور جدید میں داخل ہوئی۔ انسانی ارتقاء کا یہ سفر جاری ہے۔ تاہم اس سفر کی سمت کی درستگی، حقوق انسانی کا حقیقی شعور اور نفاذ کی مخلصانہ و نتیجہ خیز کاوشیں اس وقت ہی ظہور پذیر ہوسکتی ہیں جب دور جدید کا انسان آج بھی سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح اپنا رہنما قرار دے جس طرح دور ظلمت میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی نے اسے رہنمائی عطا کی۔ احادیث ِنبویؐ کی روشنی میں ٖ ’حجۃ الوداع‘ کی و جہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ اکا یہ آخری حج تھا،اس کو ’حجۃ الاسلام‘بھی کہا جاتا ہے اس وجہ سے کہ ہجرت کے بعد آپؐ نے یہی ایک حج کیا، اس کے علاوہ اس کو’حجۃ البلاغ‘کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے جملہ مسائل حج اس کے ذریعے قول اور فعل اور کردار کے آئینہ میں دکھا دیئے اور اسلام کے اُصول و فروع سے آگاہ کر دیا۔ تاہم ان ناموں میں سے ’حجۃ الوداع‘ زیادہ مشہور ہوا، کتب ِاحادیث میں اکثر راوی اسی نام سے روایت کرتے ہیں۔ خطبہ حجۃ الوداع ایک اہم تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹر‘ کی حیثیت رکھتا ہے جو ذخیرہ احادیث و روایاتِ تاریخ کی صورت میں موجود ہے۔محدثین اور مؤرخین نے اپنے اپنے فن کے مطابق اسے اپنی تصنیفات میں ذکر کیا ہے۔ اب تک متعدد سیرت نگاروں نے ان شقوں کواکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سیرت کی کتابوں میں یکجا کی گئیں روایات کی تخریج و تحقیق کا کام کماحقہ نہ ہوسکا۔ اکثر مصنّفین نے صحیح احادیث کا اہتمام نہیں کیا بلکہ خطبہ حجۃ الوداع سے متعلق تمام رطب و یابس جمع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ کتب ِسیرت میں خطبات کی ترتیب کا بھی کوئی خاص لحاظ نہیں رکھا گیا بلکہ نبی کریمﷺ کے خطبات جو آپؐ نے تین دن مختلف مقامات واوقات میں دیے، ایک ہی جگہ جمع کردیئے گئے اور ان تینوں خطبوں کوایک ہی خطبہ (یعنی خطبہ حجۃ الوداع) کا نام دے دیا گیا۔ اسی طرح بعض بے سند تاریخی روایات بھی خطبات حجۃ الوداع کے نام سے متداول ہوچکی ہیں۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ محسن انسانیت محمد رسول اللہ ﷺ کے ان خطبات کو جوکہ ’حجۃ الوداع‘ کے نام سے موسوم ہیں، الگ الگ مقام اور وقت کی مناسبت سے اپنی تمام شقوں کے ساتھ مرتب کیا جاتا۔ راقم نے مذکورہ مضمون میں اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔لہٰذا آئندہ سطور میں اس ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ۹،۱۰،۱۲ ذوالحجہ کے خطبات جو یوم عرفہ، یوم النحر، یوم الرؤس اوسط ایام التشریق کے نام سے مشہور ہیں، میں سے ہر خطبہ اس کے مقام و دن کے ساتھ بالترتیب لکھ دیا گیا ہے۔ خطبات میں چونکہ نبی کریمﷺ نے اعادہ کے طور پر ایک خطبہ کے کچھ جملوں کو ہر خطبہ میں بیان فرمایا، لہٰذا مکرر شدہ جملوں کو طوالت سے بچاتے ہوئے صرف ایک خطبہ میں ہی لکھ دیا گیا ہے اور غیر مکرر جملے اپنے اپنے مقام پر درج کردیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ روایات جو کسی مقام کی طرف منسوب نہیں بلکہ راویوں نے صرف حجۃ الوداع یا حجۃ النبیﷺ کی طرف منسوب کرکے انہیں روایت کیا ہے ، اوررقم کردی گئی ہیں۔ اور اس میں صرف احادیث کی کتب سے صحیح روایات کا چناؤ کیا گیا ہے۔ تاریخی روایات کی اسنادی حیثیت ثانوی ہونے کی وجہ سے ان روایات سے گریز کیا گیا ہے، تاکہ رسول اللہﷺ کے اقوال مستند طور پر پیش کئے جاسکیں۔کوشش کی گئی ہے کہ صحیح و مقبول روایات ہی ان خطبات کا حصہ بنیں اور اس چیز کوممتاز کرنے کے لئے غیر مستند روایات کو آخر میں ان کے ضعف کی نشاندہی کے ساتھ درج کردیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ان تمام خطبات سے جو نکات آخر کار حاصل ہوتے ہیں، ان کو آخرمیں ایک مستقل صورت میں عنوانات کے تحت مدون کر دیاگیا ہے۔ حجۃ الوداع کاپس منظر نبوت کے ۲۳ سال پورے ہونے کو تھے،آپ نے اللہ کا پیغام لوگوں تک کما حقہ پہنچا دیا تھا اور آپ ؐ کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔یقینا آپ کو اس کا احساس تھا، جس کا پتہ آپﷺ کی وصیت سے چلتا ہے ،جو آپﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کا گورنر مقرر فرما کر بھیجتے ہوئے فرمائی تھی۔ آپﷺنے حضرت معاذ کو ۱۰ ہجری میں یمن کا گورنر مقرر کیا اور وصیت کی کہ ’’اے معاذ! غالبا تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے، بلکہ غالبا میری اس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے۔حضرت معا ذ یہ سن کر رسول اللہ ا کی جدائی کے غم میں رونے لگے ‘‘ (مسنداحمد ۵؍۲۳۵ ،مجمع الزوائد ۹؍۲۲) حج کامہینہ قریب تھا اور ضرورت اس بات کی تھی کہ رہبر اعظمؐ کی لوگوں سے آخری ملاقات اور آپ کے وصیتی ارشادات لوگوں تک پہنچ جائیں۔ آپﷺ نے اس سال حج کا ارادہ فرمایا اور اسی منصوبہ کے پیش نظر اطرافِ مکہ میں اس کا اعلان کر دیا گیا کہ نمائندگانِ قبائل اپنے قبائل کے افراد کے ساتھ اس اجتماع میں حاضر ہوں۔مسلمانانِ عرب جوق در جوق مکہ کی طرف روانہ ہونے لگے تھے۔شنبہ کے روز ظہر کے بعد مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ فرمایا۔ آٹھ دن کا سفر آپﷺ تقریبا آٹھ دن سفر کرنے کے
جذبات آ پ کوبیمار کرسکتے ہیں۔۔
جذبات آ پ کوبیمار کرسکتے ہیں۔۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو جذبات آ پ کوبیمار کرسکتے ہیں۔۔ کثیر الوقوع امراض معدہ کے نفسیاتی اسباب۔ بہت خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو معدہ کی تکالیف سے ناآشنا ہیں۔انہیں ہاضمہ اور قبض کشائی کے اودیات کرنے کی نوبت نہیں آتی۔معدہ کی تکالیف کا اتنی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت کوئی انسان امراض معدہ سے بچا ہوا نہیں۔ ۔۔۔ 1845ء۔۔ میں،ایک ڈاکٹر ولیم بیو مانٹ نے ایک عجیب و غریب مریض کا معائنہ کیا،جس کا نام ،الیکسس سینٹ،،،تھ۔ا، اس کے معدہ کو لگنے والی ایک گولی نے جھید ڈالا تھا،بری طرح زخمی ہو ا علاج و معالجہ سے تندرست تو ہوگیا لیکن ایک سوراخ باقی رہ گیا۔اس سوراخ سے ڈاکٹر موصوف ہو مریض کے معدہ کے اندرون حالات کے معائنہ کرنے کا موقع ملا۔ جو روز مرہ معدہ کے نادر واقع ہوتی رہتی ہیں،انہوں نے کھانا ہضم ہوتے ہوئے دیکھا، انہوں نے دیکھا ہاضمہ کے وقت معدہ کی جھلی کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے۔سرخ شوخ ہوجاتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں Ginger – ( حکیم قاری محمد یونس شاہد میو)ادرک۔زنجبیل،دیسی ٹانک اس کے علاوہ بھی کئی رنگ بدلتے دیکھے،ان میں سے کچھ رنگ تو ہاضمہ سے متعلق تھے، لیکن کچھ رنگوں کی بدلائو کا سلسلہ ہضم سے الگ تھا، اس وقت تک معالجین کو ایسی سہولیات موجود نہ تھیں کہ اس گہرائی سے مطالعہ کرنے کے اسباب مہیا ہوسکتے، ناہی اس وقت تک یہ معلوم تھا کہ ان رنگوں کا بدلائو کتنی اہمیت کا حامل ہے،۔ مارٹن کی طرح ٹام کے معدہ میں میں ایک سوراخ تھا ،اس کا سبب وہ مربہ تھا جسے بچپن میں گرم گرم انہوں نے حلق سے اتار لیا تھا جس کی وجہ سے حلق اور کھانے والے (مری)نالی بری طرح متاثر ہوئی تھی،زخم تو ٹھیک ہوگیا لیکن بھاری قسم کے کھرنڈ نے کھانے پینے کا راستہ نہایت تنگ کردیا،اس لئے مجبورا ان کے معدہ مین سوراخ کیا گیا ۔ اس کی مدد سے خوراک دی جاتی تھی۔ 1943ء میں دوماہرین ڈاکٹر سیوراٹ۔ڈاکٹر ہرالڈ نے ٹام اور اس کے حالات کا گہرائی سے طبی معائنہ کیا۔ انہوں نے دیکھا ہخوف کی وجہ سے جس طرح ٹام کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتاتھا اسی طرح اس کے معدہ کے استر کا بھی رنگ پھیکا پڑجاتا تھا۔اور معدہ کی حرکات بہت سست، یا بند ہوجاتی تھیں۔ یہ بھی پڑھیں معدہ کا السر کا آزمودہ علاج غصہ کا اثر اس سے مختلف نوعیت کا ہوتا تھا، معدہ کا اسٹر بھی تام کے چہرے کی طرح سرخ ہوجاتا تھا،اس میں تیزاب زیادہ پیدا ہونے لگتا، معدہ کی حرکات غیر معمولی طور پر بڑھ جاتیں۔جس وقت معدہ کا استر سرخ ہوتا اس میں زخم بہت آسانی سے لگ سکتا تھا اسے شیشے کی ڈنڈی سے چھونے سے خون بہنے لگتا۔اس سے نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اگر غصے اورجذباتی کیفیت زیادہ دیر تک قائم رہے تومعدہ کا السر آسانی سے بن سکتا ہے دماغ کے جذبات سے تعلق رکھنے والے مراکز ان تحریکات کے ذریعہ معدہ پر اثر انداز ہوتے ہیں جو دونوں کو مربوط کرنے کے لئے ایک عصب کے ذریعہ سفر کرتی ہیں۔ انگریزی میں یہ عصب کو” دے گیس نرو” اور اردو میں” عصب راجع” کہلاتا ہے۔ اس بات کا تجربہ کرنے کے لئے کہ اگر اس عصب کو کاٹ دیا جائے تو معدہ پر جذبات کا اثر ہوتا ہے کہ نہیں؟ انہوں اس پر گہرے غور و فکر کے بعد تجربہ کیا,باہمی مشاورت کے بعد اس عصب کو کاٹ دیا گیا، کیونکہ غذا کی نالی میں سرطان(کینسر) ہوگیا تھا۔ٹام کی طرح اس مریض کو بھی نلکی کے ذریعہ سے خوراک پہنچائی جاتی تھی۔ اس جراحی(آپریشن) سے اپہلے مریض کے چہرے پر جو تبدیلیاں رونماں ہوتی تھیں وہی تبدیلیاں معدہ کے استر بھی نظر آتی تھیں۔ عصب راجع کٹنے کے بعد مریض کے چہرے کے اثرات چہرے تک ہی محدود رہتے تھے، ان کا معدہ پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا یعنی عصبی تحریکات کا وہ راستہ بند ہوگیا جس کے ذریعہ یہ تغیرات پیدا ہوتے تھے۔
دروس العملیات از حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
دروس العملیات از حکیم قاری محمد یونس شاہد میو ہزاروں سال سے مخفی عملیات سے کام لینے کے طریقے سربستہ رازوں سے پرد ہ سرکانے کو بہترین کی کوشش طاقتیں کہاں جنم لیتی ہیں،ان سے کام کیسے لئے جاتے ہیں؟ ایک عام انسان مخفی طاقتوں سے کیسے کام لے سکتا ہے؟ ۔سخن ہائے گفتنی۔ انسانی زندگی میں کچھ چیزیں مختلف جہات سے اہمیت رکھتی ہیں۔کچھ چیزوں کو زندگی میں اہم سمجھ لیا جاتا ہے۔اور کچھ چیزوں کو معاشرہ اہم بنا دیتا ہے۔ جادو،جنات،نظروں سے اوجھل چیزیں انسان کو انجانے خوف میں مبتلاء رکھتی تھیں۔جب انسان کے پاس زندگی گزارنے کے لئے بہت کم وسائل موجود تھے یا انہیں استعمال کے بہت کم طریقے معلوم تھے، روغن اَرنڈ (بیدانجیر۔کسٹرائیل) کے100 طبی-فوائد تعلیمات سماوی سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہر وہ چیز جس کا وہ مقابلہ نہ کرسکتا تھا قابل توجہ تھی اسے کسی وقت بھی سراسیمہ کردیتی تھی۔جیسے جیسےانسانی شعور بیدار ہوتا گیا انسان اپنی ضروریات کی چیزوں کے بارہ میں آگاہی حاصل کرتا گیا اور زندگی کے ادنی تصور سے اعلی تصور و آشائش کی طرف گامزن ہوتا گیا۔ظاہری کرو فر میں لوگ شامل ہوتے گئے اور جنگلی زندگی سے تمدنی زندگی کی طرف چھوٹی بڑی کلانچیں بھرتا ہوا۔ پتھر کے دور سے جدید ٹیکنالوجی کی چکا چوند روشنی میں آپہنچے۔تعلیمات نبویﷺ کی روشنی نے انسان کو اعلی تصور حیات دیا ،لیکن جولوگ اندھیروں کے عادی تھے نسلا بعد نسلِِ ایک خاص ڈھب پر زندگی گزارنا اچھا لگتا تھا۔اس لئے و ہ تعلیمات سماوی اورٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کے بوجود افکار کی دنیا میں صدیوں پرانی سوچ سے باہر نکلنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ ماضی کے مقابلہ میں جو سہولیات مسیر ہیں ،اس سے قبل ان سہولیات کا تصور بھی محال تھا ،جو باتیں بادشاہوں کو بھی میسر نہ تھیں وہ عام انسان کی زندگی میں یومیہ معمولا ت میں داخل ہوچکی ہیں۔ نیچے دیے گئے ٹیبل سےدروس العملیات از حکیم قاری محمد یونس شاہد میوکی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں۔ پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات دروس العملیات :کتاب کا نام حکیم قاری محمد یونس شاہد میو :لکھاری / مصنف اردو :زبان (ُPdf)پی ڈی ایف :فارمیٹ 5.52 MB :سائز 162 :صفحات >> Please Like Our Facebook Page for More Beautiful Books and Novels <<
دماغ ،وقت۔پیش گوئی۔
دماغ ،وقت۔پیش گوئی۔ دماغ قدرت کا عظیم عطیہ ہے ،جاندار کو اس کی ضرورت کے مطابق دماغ دیا گیا ہے۔حیوانات میں سے کوئی ایسا جانور نہیں جسے دماغ نہ ملا ہو۔اسی کی بدولت وہ پیش بندی کرتا ہے۔اپنی ضرورت کی چیزیں مہیا کرتا ہے۔ماضی کے تجربات سے سبق لیتا مستقبل کی تیاری کرتا ہے۔انسان کو قدرت یہ نعمت اعلی سطح کی عطاء فرمائی ہے،یہ اپنے تجربات کی روشنی میں حالو استقبال کی تدابیر کرتا ہے۔ایک اچھوتی تحریر۔ از حکیم ۔۔۔ قاری محمد یونس شاہد میو دماغ وقت بتانے اور پیش گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے دماغ ایک ایسی مشین ہے جو ماضی کو اس لئے یاد رکھتا ہے تاکہ مستقبل کی پیش گوئی کرسکے۔ کئی ہزار لاکھبرس سے جانور مستقبل کی پیش گوئی کرنے کی دوڑ میں شامل چلے آرہے ہیں۔ جانور اپنے شکار کا،شکاری اور ساتھی مادہ یا نر کی حرکات کو پہلے سے ہی بھانپ لیتے ہیں وہ خوراک اکٹھی کرنے اور گھونسلے پناہ گاہیں بنانے کے عمل کی بدولت مستقبل کی تیاری کرتے ہیں وہ صبح و شام ، بہار اور خزاں کی آمد کا بھی تی انداز و انکا لیتے ہیں۔ جس در جے تک جانور مستقبل کو بھانپ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اس کا نتیجہ ان کی بقا اور سال کے پھیلاؤ کے ارتقائی عمل کے رواں رہنے کی صورت میں نکلتا ہے ۔ یہ بھی پڑھیں اونٹ کے طبی فوائد طب نبویﷺ کی روشنی می چنانچہ دماغ اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے پیش گوئی اور پیش بینی کرنے والی مشین ہے۔ اور چاہے آپ کو خبر ہو یا نہ ہو، آپ کا دماغ، لمحے لمحے کی بنیاد پر در پیش آنے والی صورتحال کے حوالے سے پیش گوئی کرنے کے خود کار عمل میں مصروف رہتا ہے ۔ تفصیل کے چندلمحات کا احاطہ کرنے والی یہ قلیل مدتی پیش گوئیاں مکمل طور پر خود کار اور لاشعوری ہوتی ہیں ۔ اگر ٹھپا کھانے والی کوئی گیند میر سے نیچے لڑھک جاتی ہے تو ہم خود کار طریقے سے اپنی حرکات و انداز میں اس طرح کی مطابقتیں پیدا کر لیتے ہیں کہ اسے ٹھپہ کھانے سے پہلےہی اٹھا لیں، جو کہ ہم اس وقت نہیں کرتے جب کوئی کیک(mifin) میز سے نیچے گر جاتا ہے۔ انسان اور جانور طویل مدتی پیش گوئی کی صلاحیت حاصل کرنے کے لئے مسلسل کوششیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ کسی جانور کی طرف سے اپنے ماحول کا جائزہ لینے کا ساد وساعمل اگلے چند منٹوں اور گھنٹوں میں درپیش آ نے والی صورتحال کی پیش گوئی کا پیش بینی کرنے کے ایک کوشش ہے یہ بھی پڑھیں کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟: جیسا کہ کوئی بھیڑیارک کر گردوپیش کے مناظر، آوازوں اور بو کے ذریعے ماحول کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے اشاروں کی علامات کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے جن کی بنیاد پر ممکنہ خطرے سے نہ سکے اور اپنے شکار اور ساتھی کو پا سکے۔ مستقبل کی پیش گوئی کرنے کے لئے دماغ ماضی کے واقعات و حالات کا وسیع تر ذخیرہ کر لیتاہے اور ایپل (کمپنی ) کے پشتہ بان (backup) سافٹ وئیر” ٹائم مشین” کی طرح ، بعض اوقات ان یادوں میں زمانی علامتوں ( تاریخوں )کا اضافہ بھی کردیتا ہے تا کہ زندگی کے ان واقعات پر نظر ثانی کی جا سکے جو ایک زمانی ترتیب کی صورت میں منظم ہوجاتے ہیں۔ ۔ دماغ ایک الی مشین ہے جو وقت بتاتی ہے آپ کا د ماغ گنتی۔/ شماریات کے وسیع تر سلسلوں کا احاطہ کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے بشمول شمار کے ان افعال کے جوکسی چہرے کی پہچان کرنے یا پھر شطرنج کے کھیل میں آپ کی اگلی چال کے انتخاب کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔ وقت بتانا شمار کرنے کے عمل کی ایک اور قسم ہے جو آپ کا دماغ سرانجام دیتا ہے: فعل محض ہماری زندگی کے سیکنڈوں منٹوں گھنٹوں اور دلوں کی پیمائش تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کے تحت ان زمانی نمونوں کی پہچان اور تخلیق بھی کی جاتی ہے جیسے مثال کے طور پر کسی گانے کا نفیس و پیچیدہ صوتی آہنگ (rhythem) یا پھر ایسی جتشیوں یا حرکات کی احتیاط کے ساتھ کی جانے والی زمانی ترتیب جس کی بدولت کوئی وزرش کرنے والا (gymnast) ایک معیاری یا بدتر درجے کی قلابازی یا ہاتھ کے بل الٹی جست لگانے round off) (backflip کا مظاہر ہ کرسکتا ہے۔ وقت بتانے کا عمل مستقبل کی پیش گوئی کا ایک اہم جزو ہوتا ہے۔ جیسا کہ موسمیات کا کوئی بھی باہر جانتا ہے بس اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ بارش ہوگی بلکہ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بارش کب ہوگی ۔ جس طرح کوئی بلی جب کسی پرندے کو پکڑنے کے لئے ہوا میں چھلانگ لگاتی ہے تو اسے امر کا لاز ماََ پیشگی تعین کرنا ہوتا ہے کہ مستقبل میں ایک سیکنڈ کے بعد پرندہ کہاں ہوگا ۔ مادہ پھول کو زرگل (Pollen ) کے ذریعے بار آور کرنے والے پرندے، اس سے بھی اگلے مرحلے میں اس وقت کا حساب رکھنے کے قابل جانے جاتے ہیں کہ انہوں نے کسی خاص پھول کا آخری مرتبہ کب دورہ کیا تھا، تا کہ ا گلے چکرتک اس میں دو بارہ رس Nectar) بھر جائے۔ کسی متحرک ہدف پربرچھی پھینکنے کی صلاحیت سے لیکر کسی لطیفےکے چھتے ہوئے نکتے کو موقع پر چست کرنے، یا بیتھون (Beethoven ) کی دھن، مون لایٹ سونا تا، کو پایانو پرب جانے سے لے کر روزانہ سونے اور جاگنے کے معمولات اور ماہانہ تولید ی گردشوں (reproductive cyclas) میں باقاعدگی پیداکرنے کی صلاحیت تک ، حیوانی رویے اور چیزوں کی شناخت کے عمل کا تقریبا ہر پہلو وقت بتانے کی صلاحیت کا محتاج ہوتا ہے۔
جہیز کو معاملہ اور یاکا،نفسیاتی اثرات
جہیز کو معاملہ اور یاکا،نفسیاتی اثرات از حکیم المیوات۔۔۔ قاری محمد یونس شاہد میو قومن کوابھار ہولے ہولے ہووے ہے۔جو چیز اباء واجداد مجبوری یاکسی مصلحت کی وجہ سو اپنائے ہوئے ہا۔جب انن کو متبادل ملو تو انن نے یہ چیز ترک کردی،لیکن یہ متروکہ چیز بعد والان کےمارے ورثہ یا تاریخ کہلائی۔جو بھی ان چیزن نے دریافت کرے گو محقق اور مورخ کہلائے گو.میوء سپوتن میںاپنا بڑان کا بارہ میں معلومات جمع(اکھٹی) کرنو ایک کارنامہ کہلائے گو۔ تاریخ لکھن کو نئیو انداز۔ میوات میں اب بھی اتنو کچھ موجود ہے جاکا مہیں دھیان نہ دئیو گئیو ہے۔بہت سی تاریخی عمارات ہاں ۔قلعہ۔مساجد۔سرائے۔نوہورہ۔کھیت کھلیان۔ان کو محل وقوع کی اہمیت و افادیت۔میواتی کی جغرافیائی اہمیت۔میوات کا باسین کی عادات رسومات۔ان کی معاشرتی و معاشی اہمیت،کوئی بھی قوم جب کائی عادت یا رسم اے اختیار کرے ہے توواکی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور رہوے ہے۔واکو پس منظر میں خاص ماحول رہوے ہے۔ای تو محقق مورخ کو کام ہے کہ یاکی کھوج لگائے۔وجہ تسمیہ ڈھونڈے۔جاماحول میں ای رسم پڑی وا وقت ایسی کہا کشش اور کھچائو ہو جو لوگن نے یہ رسومات اپنی زندگی کو حصہ بنا لی۔پھر نسل در نسل یہ بات لوگن کی زندگی کو حصہ بن گئی۔ جہیز کو معاملہ۔۔۔ جب سو میں میون کی محفلن میں شریک ہوں لگو ہوں زیادہ تر لوگن نے دہیج کی برائی اور کٹتی کرتو سنو ہوں۔جب میون کی پرے،پنچایت میںدہیج کا بارہ میں لوگن کی باری آوے ہے تو اتنا جوش و جذبہ سو تقریر کری جاوے ہے منہ سے جھاگ اُڑاہاں۔بولن والو اپنا آپا سو باہر ہوتو دکھائی دیوے ہے۔ کئی تو اتنا جذباتی ہوجاواہاں کہ ایسے لگے ہے جیسے ان کا گلہ پے چھری دھر دی ہوئے۔ ہر کوئی ایسے بولے ہے کہ دہیج لین والان کو ابھی گلہ گھوٹ دئیوں۔جب کہ یا معاملہ میں کوئی گھر ایسو بچو ہوئے گو جو دہیج نہ لیتے ہوئے یا وانے دہیج نہ دئیو ہوئے؟ سوچن کی بات ای ہے کہ دہیج کو سلسلہ شروع کہاں سو ہوئیو۔کونسی مجبوری،یا ضرورت ہی جاکی وجہ سو یا رسم دہیج نے پوری قوم جکڑ لی۔صدین سو میو یائے راضی خوشی کرتا آرا ہاں۔۔مذہبی۔معاشرتی۔معاشی۔خاندانی۔نفسیاتی،بہت سا اسباب موجود ہوسکاہاں۔کدی کائی نے یابارہ میں سوچنا کی زحمت ای گووارا نہ کری ہے ۔میں نے میوتااریخ ۔ادب۔شاعری۔صوفیانہ کلام۔سونح عمریاں۔کالم وغیرہ پڑھاہاں۔کائی بھی یا مسئلہ کے متعلق کچھ چیز موجود نہ ہے۔نہ کائی نے یا سلسلہ میں کوئی ہمت دکھائی دی ہے۔اگر کائی نے ایسو کوئی کام کرو ہے تومیری نگاہ سو نہ گزرو ہے۔کائی کے پئےکوئی ثبوت ہوئے تو بتاسکے ہے۔ جا دہیج اے مُکان کے مارے سارا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہاں۔آخر وامیں کونسو ایسو جادو ہے،جانے بھل بھلان کا ہوس گم کرراکھاہاں؟بھوک پیاس۔تنگ دستی ،افلاس اگر یا دہیج کو سبب ہو تو یائے ختم ہوجانو چاہئے ہو۔اگر یا کوسبب ہندوانہ رسومات ہی تو اب خیر سو اچھا ماڑا سارا مسلمان کہلواواہاں۔اگر یا کو سبب کوئی علاقائی مجبوری ہی تو کد کی ختم ہوگئی ہے۔۔۔ جب تک ہم ان باتن کی گہرائی میں نہ اترنگا تو ہم لوگن نے کیسے قائل کرنگا کہ دہیج بری بات ہے۔لعن طعن کرن سو بہتر ہے میون کی نفسیات کو تجزیہ کرو جائے۔وے اسباب ڈھونڈا جاواں، جو یا رسم اے چھوڑن کے کا بیچ میں رکاوٹ ہاں،مثلاََ ایک آدمی جوہڑ سو چُچی لگا کے پانی پی رو ہے۔دیکھن والو ایک مہنگی گاڑی میں بیٹھو واکو نصیحت کررو ہے کہ گدلا اور گندا پانی سو صحت خراب ہوجائے گی۔ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل کا مہیں اشارہ کرکے کہوے ہے کہ دیکھ میں بھی تو ہوں جو صاف پانی پئیو ہوں۔۔ ۔۔سوچن کی بات ای ہے کہ جب تک ہم وا سبب کو پتو نہ چلانگا،جا کی وجہ سو اُو جوہڑ میں منہ لگاکے پانی پین پے مجبور ہویو ہے۔ تو ہم وائے کیسے سمجھا سکاہاں۔تہارا لاڈ چونچلا اپنی جگہ پے۔لیکن ای بھی ہوسکے ہے واکے پئے زندگی بچان کو سہارو یہی جوہڑ ہوئے۔ زندگی میں وسائل ہوواں تو لاڈ چونچلا سُہاوا ہاں۔۔۔میون نے چاہئے کہ کوئی ایسو نظام بناواں جا میں نفسیات کی جانچ پرکھ ہوئے۔ جو چیز چھینی جائے والو بدل دئیو جائے۔ انسانی طبیعت بھی عجیب ہے نفع و نقصان سو بھی الگ یاکی حرص رہوے ہے کہ جو چیز یاسو چھینی جائے،واکا بدلہ میں کوئی نہ کوئی چیز دی جائے،ای مطمین ہوجاوے ہے۔یامیں بھوک امیری غریبی کو دخل نہ ہے ،ای تو نفسیاتی عمل ہے۔دہیج کا بارہ میں لوگن نے جتنا زورلگایا ہاں،ایسو لگے سب بے کار ہاں۔جب لوگن سے دہیج اے چھڑوانو چاہواہاں ۔بڑھیا بات ہے۔لیکن ہم نے یاکا بدلہ میں انن کےمارے کونسوانعام دھرو ہے۔۔۔کچھ نہ کچھ تو یاکو عوض ہونو چاہے۔ ۔۔۔۔
روغن اَرنڈ (بیدانجیر۔کسٹرائیل) کے100 طبی-فوائد
روغن اَرنڈ (بیدانجیر۔کسٹرائیل) کے100 طبی-فوائد سخن ہائے گفتنی رَبِّ يَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَيْرِ وَ بِكَ نَسْتَعِيْنُ. اے میرے رب (اس چیز کو) آسان فرما، اسے مشکل نہ فرمانا، اس کی تکمیل بخیر و خوبی فرما سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ. وہ کہنے لگے : آپ ہی کی ذات پاک ہے جوکچھ علم آپ نے ہمیں . اللہ تعالیٰ نےانسانی زندگی میں اس کی صحت اور زندگی کے حوالے سے ضرورت کی ساری اشیاء مہیا فرمادی ہیں۔لیکن انسان مفت میں ملی ہوئی نعمت کی قدر نہیں کرتے ۔ہر اس چیز کو سینے لگاتے ہیں جس میں انہیں مال جان اور وقت صرف کرنا پڑے۔انسانی طبقات میں سے کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس طرف مائل کردیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو فلاح انسانیت کے لئے وقت کردیں ۔سہولیات اور ضروریات زندگی بہم پہنچانے اور خدمت انسانی کے لئے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔جن چیزوں کو لوگ معمولی اور بے قیمت سمجھتے ہیں انہیں تحقیق کی کسوٹی سے گزار کر بتاتے ہیں کہ یہ قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔انہیں کام میں لائیں ان سے استفادہ کریں۔ مفت میں ملنے والی ان عظیم نعمتوں کی قدر کریں۔ یہ بھی پڑھیں اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم ارنڈ کا پیڑ عجیب و غریب صفات کا حامل اورصحت و طب کے میدان نے گہرے و قیمتی سامان و فوائد کا حامل ہے۔لیکن عام دستیاب ہے ہر جگہ ملتا ہے۔اسی افراط نے شاید اسے بے قیمت بنا دیا ہے۔جب کہ ارنڈ کے تمام اجزاء قبل از تاریخ سے انسانی صحت کے لئے گوناگوں فوائد سے لبریز خدمت کا ریکارڈ رکھتا ہے۔یہ درخت پیدا ہونے سے لیکر ایندھن بننے تک طبی فوائد سے مالا مال ہے۔ اس کا دامن خدمت انسانی کی تاریخ سے بھرا ہوا ہے۔میری پینتیس سالہ طبی زندگی میں بے شمار مرتبہ ارنڈ کا استعمال ہوا ۔ابتداء تجرباتی اور اندازہ سے استعمال کیا اس وقت طبی مواد (لٹریچر)بہت کم یا ہماری دسترس ے باہر تھا۔بس توکل علی اللہ اس کا استعمال کیا بہترین نتائج دیکھنے کو ملے۔ یہ بھی پڑھیں اصحاب صفہ اور کھانے پینے کے ذرائع جیسے جیس وقت کا گزرتا گیا مطالعہ و تجربات میں وسعت آتی گئی،ویسے ویسے ارنڈ کی اہمیت روشن مینارہ کی طرح ظاہر ہوتی گئی۔انتر نیٹ کی دنیا اس وقت تک آباد نہ تھی ۔آج اس جال نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔نایاب و قدیم و جدید طبی مواد اور کتب کا بے ذخیرہ اس کی مدد سے مطالعہ کے لئے دستیاب ہے۔ قدرت کا عجیب نظام ہے جب کتب نہیں ملتی تھیں اور وقت کی بہتات تھی۔مطالعہ کا شوق تھا۔طبی معلومات کے حصول کا جنون تھا۔جو چیز جہاں سے دستیاب ہوئی سینے سے لگالی۔ایک ایک حرف کو حرز جان سمجھا جاتا تھا۔اگر کوئی کتاب دستیاب ہوئی تو سارے کام چھوڑ کر اس کے مطالعہ میں منہمک ہوگئے۔بار بار مطالعہ کی۔مناسب و مفید نکات ڈائری میں لکھے یوں ایک لذت روحانی کا احساس ہوتا تھا۔آج کتب کا شمار نہیں ۔ہزاروں کی تعداد میں ذخیرہ کتب موجود ہے لیکن آج وہ فرصت و انہماک نہیں ۔۔ دل ڈھنوڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن بیٹھے رہے تصور جاناں کئے ہوئے۔۔۔ آج مطالعہ کے لئے وقت کم میسر ہے مصروفیات زندگی کی گہماگہمی ہے۔چند سطور کا لکھنا بھی مشکل لگتا ہے۔آج فرصت کے لمحات نکالنےکے لئے جتن کرنا پڑتا ہے۔۔۔ رمضان کی مبارک گھڑیاں اس لحاظ سے میرے لئے نعمت غیر مترقبہ ہیں کہ تلاوت۔استغفار۔دورد شریف۔دیگر عبادات کے بعد بھی کچھ وقت لکھنے لکھانے کے لئے نکل آتا ہے،انہیں لمحات کی برکت کے سبب یہ اوراق خاضر خدمت ہیں۔یہ سلسلہ سالوں سے چلا آرہا ہے قبل ازیں ان مبارک ساعات میں جو کتب لکھی گئیں وہ مقبول عام ہوچکی ہیں۔ www.tibb4all.com۔سے ہزاروں کی تعداد میں دائون لوڈ کی جاچکی ہیں دنیا بھر سے لوگ ان کی طلب کرتے ہیں ۔ان کے لنک انہیں سینڈ کردئے جاتے ہیں۔ یاد رہے اس وقت سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور کی دو ویب سائٹس (www.tibb4all.com…www.duniyakailm.com)کام کررہی ہیں۔جن پر بہت سے موضوعات پر یومیہ بنیاد پر کتب۔مضامین اور تحقیقات شائع کی جاتی ہیں۔تحقیق و تنقید کا سلسلہ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو کی خصوصی کمیٹی(شعبہ تحقیق و تالیف و تصنیف)کے تحت جاری ہے تصنیف و تالیفات پچاس سے زیادہ ہے اور شب و روز اس پر کام محنت ہورہی ہے۔اللہ تعالیٰ اس عمل میں خیر برکت کے ساتھ تسلسل نصیب فرمائے۔۔اللہ اس محنت کو قبول فرمائے اور میری قوم کے لئے نافع بنائے۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔۔۔ منتظم اعلی:سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راقم الحروف کی ان موضوعات پر کئی ایک تالیفات پہلے سے داد تحسین حاصل کرچکی ہیں (1)قران کریم کا میواتی زبان میں ترجمہ (2)سیر الطیبات یعنی بنات اربعہ (3) سیرت سیدنا حسن بن علی (4)حاشیہ تعلیم الاسلام (5)فضائل امت محمدیہ علیہ السلام (6) حضورﷺاپنے گھر میں (7)شجرہ خلفائے راشدین (7)ازواج مطہرات اور ان کے علمی کارنامے۔ (8)جن کو رسول اللہﷺ نے دعا دی (9) دربار نبوت سےجنت کی بشارت پانے والے لوگ۔ (10)کسب معاش اور اسلامی نقطۂ نظر۔ (11)فلسفہ قربانی،اس کے نفسیاتی اثرات۔ طب کے موضوع پر۔ (1)غذائی چارٹ (2)تیر بہدف مجربات (3)گھریلو اشیاء کے طبی فوائد (4)منتخب نسخے (5) قرا ن کریم سے اخذ کردہ طبی نکات (6)حاصل مطالعہ (7)تحریک امراض اور علاج (8) مدارس کے طلباء اور علماء کے لئے طب سیکھنا کیوں ضروری ہے؟ (9)وضو اور مسواک کے روحانی و طبی فوائد (10)خواص المفردات یعنی جڑی بوٹیوں کے خواص (11)کتب سماوی میں مذکورہ نباتات کے طبی خواص (12)ادویہ سازی (13)جادو اور جنات کا طبی علاج (14)معجز ہ تخلیق انسانی۔قران اور طب کی نگاہ میں (15)بچے میں روح کب پھونکی جاتی ہے ؟ قران و طب کی نظر۔ (16)صحاح ستہ میں مذکورہ طبی احادیث اور ان کی تخریج (17)طب نبوی عصر حاضر کے تناظر میں (18)صحت کے لئے 6ضروری چیزیں۔ (19)چہل احادیث فی الطب۔ (20)فالج اورطب نبویﷺ۔ (21)احادیث میں مذکرہ غذائیں اور دوائیں (22) احادیث مبارکہ سے اخذ کردہ طبی نکات (23)الاطعمہ والاشربہ فی عصر رسول ﷺکا اردوترجمہ ـ (24)التداوی بالمحرم۔ (25)طب نبوی اجتہاد و تجربہ ہے یا وحی ہے؟
گوت پال۔کی شہرت ہماری کم علمی۔
گوت پال۔کی شہرت ہماری کم علمی۔ گوت پال۔کی شہرت ہماری کم علمی۔ از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ انسانی زندگی میں کچھ باتیں اس طرح کی ہوتی ہیں روز مرہ کی بولی یا کثرت استعمال کی وجہ سے بہت مانوسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ان الفاظ یا ا ن اصطلاحات کے سننے سےایک مفہوم جنم لیتا ہے اس افہام کے لئے کسی وضاحت یا تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی،بس ایک تصور ابھرتا ہے جس سے اطمنان کی کیفت طاری ہوجاتی ہے۔ میو قوم اور دیگر اقوام ہند ایک مربوط نظام مین جکڑی ہوئی ہے،یہ نظام رگ و پے میں اس طعح سرایت جئے ہوئے کہ قدرتی طورپر کچھ اصطلاحات نسلا بعد نسلِِ منتقل ہوتی رہتی ہیں،ان میں ایک لفط پال،دوسرا لفظ گوت ہے۔یہ لفظ نہیں ایک تاریخ ہیں ان سے وابسطہ تمدن و عمرانیات کا وہ روشنی موجود ہے جس کی لو میں ہمارے اباء و اجداد اپنی منزل متعین کرتی آئی ہیں۔انہیں یہ خطوط پر جادہ منزل طے کرتے آئے ہیں۔ یہ بھی دیکھئے Mayo Nation 12 Paal and 52 goot.| میو قوم کے 12 پال اور 52 گوت جس طرح قومین اپنی زندگی کا دور مکمل کرکے زمین سے اپنی بساط لپیٹی ہوئی دوسروں کے لئے جگہ کالی کرتی جاتی ہیں ایسے ہی الفاظ کی بھی ایک زندگی ہوتی ہے،ان کی گرفت اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات ہوتے ہیں،جب یہ الفاظ و اصطلاحات بوڑھے ہوجاتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کی سانس دھیمی پڑنے لگتی ہیں یہ زندہ رنے کے لئے سسکنا شروع کردیتے ہیں اگر انہیں کہیں سے کوئی آکسیجن کا کوئی جھونکا مل جائے تو حالت سنبھل جاتی ہے،ورنہ زوال کی گھاٹی سے ان کی گراوٹ مین تیزی پیدا ہوجاتی ہے۔جب قومیں یا ان کی اصطلاحات جوان ہوتی ہیں تو ان کے مٹنے یا معدوم ہونے کا تصور بھی مشکل ہوتا ہے۔جیسے بڑی بڑی بادشاہتیں۔چودھریں۔سراداریان ہوتی ہیں ،جب ان کی شہرت نصف النہار پر ہوتی ہے تو ان کے بنا زندگی کے بارہ میں سوچنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں مورخین ہند لیکن ہر چیز کی ایک زندگی ہوتی ہے اس کا بچپن ،لڑکپن،جوانی ،کہولیت،،شخیوخیت۔او رمنزل عدم ہوتی ہے۔ یہ وہ فطری قوانین ہیں جن پر چار وناچار سب کو چلنا پڑتا ہے۔جتنی کسی قوم میں قوت مدافعت ہوگی اس کی زندگی اتنی ہی طویل ہوگی۔یہی کچھ الفاظ و مہاورات کے ساتھ بھی ہے۔ یہ بھی دین کی دعوت میں اہل میوات کا کردار گوت پال کا تصور ایشائی قوموں مین قدیم سے پایا جاتا ہے بالخصؤص ارض ہند میں اسے اہمیت و افادیت نرالی تھی۔آج بھی کہنگی اور پیرانہ سالی کے باجود اپنے اندر ایک کشش و دبدبہ رکھتے ہیں۔ مجھے کل باباجی محمد اسحق میو صاحب کا فون آیا(یہ ان کی زرہ نوازی تھی ورنہ ،من آنم کہ من دانم)۔اس میں میوء قوم کی گوت،پال کے بارہ میں بات چیت ہوئی ،منجملہ دیگر امور کے ایک مکالمہ یہ بھی ہوا کہ کونسی گوت کس کو رشتہ دیا کرتی تھی اور کس سے لیا کرتی تھی،گوکہ یہ روز مرہ سنی جانے والی بات تھی کہ فلاں ہمارا گوتی بھائی ہے فلاں سے ہم لیتے ہین ،فلاں گوت کی طرف ہماری بیٹیوں کی شادی ہوتی ہے۔سوال بہت مانوس اور سہل تھا۔لیکن جب اس بات کا حل تلاش کیا گیا تو یہ آسان و سہل بات سہل ممتنع ثابت ہوئی۔میں اس پر طویل کتابیں کھنگال ڈالیں ۔بڑے بوڑھوں سے ملاقات کی۔فون کئے ،انڈیااتک سے میوات میں رابطہ کالیں کیں حیرت کی بات ہے اس کا کوئی شافی و تسلی بخش جواب نہ مل سکا ۔اندازے ،ٹیوے ۔تخمینے۔اور آراء تو تھیں لیکن تحقیق نہ تھی۔ میں حیرت سے ساری رات نہ سو سکا ،مجھے اپنی علمی بساط سکڑتی ہوئی محسوس ہوگئی ،اپنہ کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوا۔تہجد کے وقت مجھے اس بات پر شرح صدر ہوا کہ ان نکات پر کام ہونا چاہئے جنہیں کم اہمیت دی جاتی ہے۔جن سے بحیثیت میو ہماری شناخت وابسطہ ہے۔ اس بارہ میں کئی احباب سے جو میوء قوم کے محسنین مین بجا طورپر شامل ہیں سے بات چیت ہوئی من جملہ ان میںسے حویلی رامیانہ ،سے عاصد رمضان میو بھی تھے۔ان کی قومی و ملی خدمات کی بنیاد پر میوات کے لوگوں نے بابائے میوات کا لقب بھی دیا ہوا ہے،یہ اس کقب کے بجا طور پر مستھق بھی ہیں۔ اس وقت میوات کے رہنے والے یا اس سے خطہ سے الگ ہونے والے لوگ جو میو کہلاتے ہیں ایک نئے جذبہ و شوق سے سرشار ہوکے اپنی گم شدہ تہذیب اور آبائو اجداد کی استخوان کہنہ کو دریافت کرنے میں مصروف ہیں۔ جس شوق و جذبہ سے یہ لوگ مصروف عمل ہیں،کاش یہ ایک صدی پہلے ہوجاتا تو آج تاریخ کا دھارا کسی اور سمت بہہ رہا ہوتا۔لیکن داور حقیقی نے ہر چیز کے لئے وقت کا تعین کیا ہے ،میوء قوم کے لئے یہ وقت متعین کیا گیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عروج بخشنا چاہتا ہے تو اس کے افراد کے دلوں میں ایک داعیہ اور جذبہ پیدا فرمادیتا ہے،وہ اَن جانے میں بھی ایسے کا م کرتے ہیں،جو منزل راہ کا تعین کرتے ہیں ،ان کے دلوں میں جذبات کا دریا موجزن ہوتا ہے۔وہ اپنے وسائل کے ساتھ ساتھ اپنا قیمتی وقت دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔انہیں جوکام قدرت سونپتی ہے ۔انہیں تعلق متوسطہ بناکر ان سے کام لیا جاتا ہے،جب کام مکمل ہوتاہے تو انہیں جو خوشی ملتی ہے وہ صلہ کم نہیں ہوتا۔یعنی ڈھنگ سے کیا ہوا کام اپنا صلہ خود ہوتا ہے۔اخلاص سے کے ساتھ کیاہوا کام،اپنے کے لئے یا قوم و ملک کے لئے اس کی تکمیل اس کے بعد پیدا ہونے والے اثرات بہترین عوض ہوتے ہیں۔میو سپوتوں نے چند دیہائیوں سے اپنی تاریخ اور ادب کو محفوظ کرنے ذمہ لیا ہے اور بہترین کتب منظر عام پر آئی ہیں۔ میو قوم میں خدمت کا جذبہ بہت بڑی مقدار میں دیکھنے کو ملتاہےاس کا محرک کچھ بھی ،شہرت ، کاروبار،خدمت وغیرہ انسان کی نفسیاتی جبلت ہے یہ اپنی محنت کا صلہ چاہتا ہے۔شکریہ کا طالب ہوتا ہے۔ انسان بہت چھوٹا ہے جد باز ہے حرص پر اترے تو کائنات سے بھی سیراب نہ ہو۔ماننے پر آئے تو تعریف کے دو بول ہی