کچور سے اپنا معدہ اور چہرہ صاف کیجئے از۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو خلاصہ مضمون۔کچور سے امراض معدہ کا حل۔گیس قبض سے چھٹکارا۔دانتوں کے مسائل میں کچور کا استعمالچہرہ کی صفائی میں کچور کا کردار۔(تفصیل کے لئے :کچور کے سحری خواص۔ کتاب دیکھئے) کچورکچور عام دستیاب ہونے والی مقامی دوا ہے جسے مفرد یا مرکب طورپر ضرورت مند صدیوں سے استعمال کرتے آئے ہیں۔کچور مقامی طورپر پیدا ہونے والی ہلدی نما چیز ہے۔ہلدی اور کچور دونوں ہی جسم کو فضلات سے پاک کرتے ہیں ان کا استعمال ان فضلات کو بھی بسہولت خارج کردیتا ہے جو بیماریوں کا سبب بنتے ہیں ۔۔ کچور کا عام استعمال اور بے قیمت فوائد۔ ہمارے ہاں ایک عمومی معاشرتی مسئلہ ہے کہ جب تک کوئی کسی چیز کے فوائد یا نقصانات کے بارہ میں نہ بتائے وہ چیز بے قیمت رہتی ہے۔جیسے ہی اس کے فوائد و نقصان سے کے بارہ میں پتہ چلتا ہے اس پر توجہ دیتے ہیں ۔ضرورت و بے ضرورت بے دھڑک استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔کچور عام دستیاب سہل الحصول معمولی قیمت رکھنے والی غذا /دوا ہے۔بے شمار فوائد کی حامل یہ فوائد ہیروں کے مول کی ہے لیکن معلومات کی نہ ہونے کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا جارہا ہے۔لیکن لوگ کچور کے اکسیری فوائدست آگاہ ہیں وہ خوب کام لے رہے ہیں ۔ زبان پر مَیل جمنا۔ زبان پر میل ہاضمہ کی خرابی کی علامت ہوتی ہے یعنی معدہ میں غیروری مواد موجود ہے۔جو میل کی صورت میں زبان پر ظاہر ہوتا ہے۔ جب یہ میل جمتا ہے تو ذائقہ کی حس کمزور ہوجاتی ہے ۔منہ بھرا بھرا رہتا ہے۔بھوک کم ہوجاتی ہے۔لذت محسوس نہ ہونے کی وجہ سے بہترین پکوان بھی بے لذت محسوس ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو زبان پر میل محسوس ہو تو کچور سے فائدہ اٹھائے۔ کچور کو چبا کر تھوک دیں پھر نیم گرم پانی سے کلی کریں، زبان اور گلا صاف ہوجاتے ہیں۔ منہ کی بدبو دور کرنا۔ منہ میں بدبو کا پیدا ہونا دراصل انسانی طبیبعت کی کسلمندی و کاہلی کی علامت ہوتی ہے ۔اگر دانتوں کی صفائی کی جائے۔مسواک کا ااہتمام کیا جائے۔کافی حد تک منہ کی بدبو پر قابو پایا جاسکتا ہے۔لیکن کچھ لوگوں کے منہ بو مسواک و برش کرنے پر بھی نہیں جاتی ایسے لوگ معدہ کے تعفن کا شکار ہوتے ہیںَکچور جہاںں منہ کی بدبو دور کرتا ہے وہیں پر معدہ کی اصلاح بھی کرتا ہے۔کھایا جائے یا چبایا جائے ہر دود صورتوں میں مفید ثابت ہوتا ہے۔ مطیب دہن ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ منہ کی بدبو کے لئے منہ میں چباتے ہیں۔یہ پودا منہ سے لہسن اور پیاز کی بو کو دور کر سکتا ہے۔ دانتوں کا درد: دانتوں میں درد مواد کے رک جانے اور اشیاء خوردو نوش کے متعفن ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔عمومی طورپر حساسیت بھی بڑھ جاتی ہے۔دانتوں کے درد اور ان کے دیگر امراض بذات خود بہت بڑا میدان عمل ہیں ۔لیکن کچھ باتیں گھر پر دستیاب اشیاء سے بھیقابو کی جاسکتی ہیں۔اگر کسی کو دانے درد ہوتو کچور کو کوٹ کر سفوف بنا لیں اور ایک دو چٹکی نیم گرم پانی میں گھول کر اس سے کلیاں کریں،دانتوں کا درد دور ہو جائے گا۔کچور کو کوٹ کر سفوف بنا لیں اور ایک دو چٹکی نیم گرم پانی میں گھول کر اس سے کلیاں کریں،دانتوں کا درد دور ہو جائے گا۔زنباد کا پودا مسوڑھوں کو سخت کرنے میں معاون ہے۔زنباد کا پودا دانت کے درد اور درد کو دور کرتا ہے۔ نظام ہضم کے مسائل۔نفع خاص۔ کاسرریاح مقوی معدہ و جگرہلدی50گرام اور کچور 50 گرام لیں ،۔۔۔ دونوں چیزیں پہلے سے پسی ہوئی نہ ہوں ، خود سفوف بنائیں ۔ یہ سفوف آدھا چمچ اور ایک سے آدھا چمچ دیسی گھی، ایک کپ گرم میٹھے یا پھیکے دودھ میں ملا کر صبح ، دوپہر اور شام یا صرف صبح و شام چسکی چسکی پیئیں یا آدھا چمچ دن میں تین بار پانی یا دودھ کے ساتھ ویسے ہی استعمال کریں۔یہ نسخہ ، جوڑوں ، پٹھوں اور کمر کے درد یا ایسے لوگ جو دن رات اپنے جسم کے دردوں میں تھکے اور الجھے رہتے ہیں۔زنباد جڑ کا پاؤڈر پیٹ کے درد کو دور کرنے اور اسہال کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ آنتوں کو متحرک کرتا ہے اور معدے سے گیسوں کو خارج کرتا ہے۔یہ بھوک کو دبانے کے لیے لیا جاتا ہے۔دار چینی کی جڑوں سے تیار چائے پینے سے خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ قے ابکائیاں ۔ قے بنیادی طورپر وہ معاد ہوتا ہے جو معدہ کے لئے بوجھ بن جائے۔معدہ پریشان ہوکر اسے باہر دھکیل دیتا ہے۔یہی غری ضروری مواد قے کہلاتا ہے،گوقے کی کئی اقسام ہیں اور اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں ۔اگر سبب جان کر علاج کیا جائے تو معوملی سمجھی جانے والی اشیاء بھی قیمتی ادویات کے قائم مقام ہوجاتی ہیں۔بد ہضمی سے قے ہو تو کچور تین گرام پانی سو گرام میں ابالیں۔جب باقی پچیس گرام رہے تو اسے چھان لیں اور پانچ گرام شہد خالص ملا کر چھ چھ گرام ہر آدھے آدھے گھنٹہ بعددیں۔قے رک جائے گی۔یہ متلی اور چکر کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔میٹابولزم کو متحرک کرتا ہے۔ انٹی السر۔ ہاضمے کو بہتر بناتا ہے: زرنباد ہاضمے کے نظام کو مضبوط بناتا ہے اور قبض، بدہضمی اور گیس جیسے مسائل کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔اس وقت بہت بڑی تعداد معدہ کے السر میں مبتلا ء مریضوں کی رجوع کرتی ہے ۔انہیں معدہ کا درد ہمہ وقت مبتلائے تشویش رکھتا ہے۔خوراک کی طلب نہیں ہوتی اگر ہوبھی جائے تو کھائی ہوئی غذا کے ہضم تک میٹھا میٹھا درد انہیں بے چین کئے رکھتا ہے۔کچور میں السر کے خاتمہ کی خاصیت پائی جاتی ہے۔اگر معالجین یا ضرورت مند کچور سے استفادہ کرنا چاہیں تو ایک سستی سے دوا سے السر کے موزی مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ۔حسن و زیبائش۔ (1)ابٹن:کچور، باؤبڑنگ، بابچی، خشخاش، انبہ ہلدی، ناگرموتھا، پاپڑی، چھلکا ترنج، صندل سفید، تمام اشیاء ہموزن سفوف بنالیں۔اس میں حسب پسند خوشبویات ملا لیں۔بوقت ضرورت جسم پر مالش کریں۔شباب افروز ہے۔(2)ابٹن۔کچور ،خشخاش،ناگرموتھا،انبہ ہلدی،صندل سرخ سب برابر برابر لے کر سفوف
کتاب الاغذیہ والادویہ جلد اول
احوال مخفی الحمد اللہ وسلام علی النبی الامی وعلی آلیہ وصحبہ و سلم۔ بحمد اللہ انسانی صحت و تندرستی کے لئے جن لوگوں نے جس انداز مین بھی کام کیا وہ زندہ جاوید اور محنت کرنے والوں کے لئے صدقہ جاریہ بنا۔صدیوں تک ان لوگوں کے نام کا جھنڈ بلند رہا کتاب ہذاکا مصنف تقریبا گیارہ سو سال پہلے اس دنیا فانی کو چھوڑ گیا ۔لیکن ہزار سال بعد ہمیں ان کی کتاب کی ضرورت محسوس ہوئی اور محنت شاقہ کے بعد اسے عربی سے اردو میں ڈھالا۔ یہ کتاب صدیوں کے طویل سفر میں کس کس کا سہارا بنی کچھ معلوم نہیں لیکن آج ہم اردو داں طبقہ کے لئے پیش کررہے ہیں یہ کتنوں کے فائدہ مند ثابت ہوگی خدا بہتر جانتا ہے۔پرمغز اور اعلی پائے کی کتابیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں ۔لکھنے والے کا نام زندہ رکھتی ہیں۔اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں۔ کتاب الاغذیہ والادویہ کا مصنف طب کے ساتھ دیگر علوم پر بھی گرفت رکھتا تھا۔دستیاب معلومات کے مطابق کئی علوم و فنون پر بہترین کتب لکھیں۔مخطوطہ جات کی شکل مین صدیوں تک لائبریریوں کی زینت رہیں ۔جدید کمپیوٹر نے انہیں ہم تک پہنچایا۔انٹر نیٹ کی دنیا اہل علم کے لئے نعمت عظمی سے کم نہیں ۔ہر چیز ڈیجیٹل فارمیٹ میں دستیاب ہے۔انگریزی۔فرانسیسی۔لاطینی۔فارسی عربی زبانوں مین لاتعداد کتب موجود ہیں ۔پی ڈی ایف فارمیٹ میں تو اربوں کتب دستیاب ہیں ۔لیکن ٹیکسٹ کی شکل میں اتنی تعداد موجود نہیں ہے۔ اردو ہندی پنجابی میواتی زبانیں علاقائی اور محدود لوگوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں گوکہ ان کا دائرہ ہر آن و ہر لمحہ پھیلتا جارہا ہے۔ان زبانوں مین نت نئے موضوعات پر کتابیں لکھی جارہی ہیں ۔سکین کرکے پی ڈی ایف فارمیٹ مین کافی ذکیرہ ملنے لگا ہے۔ طب میں کم کتب موجود ہین ۔البتہ مشہور و معروف کتب کی سکین شدہ شکل موجود ہے۔ان سے مواد نکالنا۔اور مطلوبہ ہدف تک رسائی محنت طلکب کام ہے اب لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ان کتب پر توجہ دیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ انٹر نیٹ کی دنیا میں سنے سنائے نسخہ جات۔لایعنی تعریفیں۔بے سروپا بے جوڑ مرکبات کے طوفان نے حقائق کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔اس غیر ذمہ دارانہ حرکات نے لوگوں کاطب سے بھروسہ ہی نہیں اٹھایا بلکہ متنفر کردیا ۔۔۔۔۔ہے۔ یہ بھی مطالعہ کرستے ہیں الأغذية والأدوية عند مؤلفي الغرب الإسلامي سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺْْسعد ورچوئل سکلز پاکستان۔ نے اپنے محدود و ناکافی وسائل میں رہتے ہوئے عزم کیا ہے کہ جہاں تک ہوسکے قیمتی نایاب کتب اور اردو ۔انگریزی۔فارسی۔عربی میں لکھی گئی طبی کتب کو اردو میں ڈھالا جائے۔۔اب تک ڈیڑھ سو سے زائد کتب تیار ہوچکی ہیں ۔۔ان میں سے ایک کتاب۔ الاغذية والادوية ۔ خوراک اور دواسازی بھی ہے۔یہ کتاب تقریبا ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔اسے مصنف نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ہم نے بھی اس کے تینوں حصے الگ الگ جلدوں میں ترتیب دئے ہیں ۔کتاب کے مطالعہ سے کچھ غیر مانوس باتیں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔کیونکہ مصنف ایک ہزار پہلے کی غذائوں اور دائوں کے بارہ میں لکھ رہا ہے۔ بہت سی چیزیں تو اب ناپید ہوچکی ہیں ۔کچھ کا وجود عنقا ہوچکا ہے۔کچھ ماحول اور معاشرت کی وجہ سے اپنی اصلی ہیئت کھوچکی ہیں۔اتنا کافی ہے کہ اس وقت کے طبی نکات و تحقیقات اور موجودہ دور کی تحقیقات کا موازہ کرلیا جائے۔جو چیزیں ہزار سال بھی کار آمد ہین یقینا اس بات کی مستحق ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ کتاب کو ابواب کی شکل میں الگ الگ عناوین کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔سہولت کےلئے جو فہرست عناوین ترتیب دی گئی ہے اس پر کلک کرکے مطلوبہ صفحہ تک رسائی مہیاکردی گئی ہے۔اس کے علاوہ کسی ایک عنوان کو کلک کرکے پہنچا جاسکتا ہے۔جس طرح مصنف کا اپنا انداز سخن تھا اسی طرح مترجم کا بھی انداز فہم اور انداز ابلاغ اپنا ہے۔۔اس میں کئی اشیاٗ کے معروف ناموں کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ پر لکھے گئے سیرچ ایبل الفاظ کو لکھاگیا ہے تاکہ تحقیق کی صورت میںسیرچ کرنے میں آسانی رہے۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کی ٓفیشل ویب سائٹس۔ https://tibb4all.com پر پیش کردہ کتب پر تبصرے و تعارفی مضامین موجود ہیں۔وہاں پر دائون لوڈ کا ٓپشن بھی ہے ۔دس ہزار سے زائد کتب مطالعہ کے لئے فری دستیاب ہیں۔البتہ کچھ کتب کو معمولی ہدیہ کے ساتھ مشروط کردیا گیا۔۔لنک کے ساتھ حصول کتب کا طریقہ بھی موجود ہے۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔کچھ مخیر حضرات ادارہ اور کارکنان کے ساتھ خیر خواہی مالی تعاون کی صورت میں کرکے سبسیکریپشن لے کر ان کتب کو افادہ عامہ کے لئے فری ڈائوں لوڈ کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ادارہ ایسے لوگوں کا شکر گزار ہے۔ از ۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺْْسعد ورچوئل سکلز پاکستان
مترجمین نےعیسائیت کی پیروی کیوں کی؟
یونانی سے عربی میں اتنے سارے مترجمین نےعیسائیت کی پیروی کیوں کی؟ناقل:۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میواسلامی دنیا میںیوں تو طب پر بہت کچھ لکھا گیا۔عقائد و نظریات پر ابحاث کی گئیں ۔اس موضوع پر اس قدر مواد موجود ہے ۔جمع کیا جائے تو ضخیم کتاب تیار کی جاسکتی ہے۔یہاں پرڈاکٹر پنک ہالم، مخطوطہ افسر عربی، برٹش لائبریری۔کی ایک تحریر مستعار لیکر نقل کررہے ہیں۔اردوداں طبقہ کے لئے مطالعہ معلومات افزاء ثابت ہوگا۔ یونانی سے عربی میں اتنے سارے مترجمین نے عیسائیت کی پیروی کیوں کی؟ ڈاکٹر پنک ہالم، مخطوطہ افسر عربی، برٹش لائبریری موضوعات عربی مخطوطاتثقافت اور مذہبسائنس اور طب لوگ اور تنظیمیں حنین بن اسحاق العبادیثابت بن قرہ الہرانیEuclid دوسرے ہمیں پا کر خوش ہیں جائزہ آٹھویں اور دسویں صدی کے درمیان ، تقریبا تمام یونانی ادب کو عربی میں ترجمہ کرنے کے لئے سخت کوششیں کی گئیں ، اور بغداد اس تحریک کا مرکز تھا۔ اتنے سارے مترجمین مسیحی کیوں تھے؟ آٹھویں اور دسویں صدی کے درمیان ، اس وقت دستیاب تقریبا تمام یونانی سائنسی اور فلسفیانہ متن کا عربی میں ترجمہ کیا گیا تھا ، اور اگلی صدیوں میں ترجمہ کی کوششیں جاری رہیں۔ ان کاموں کو انجام دینے والے مترجمین کا تعلق کسی ایک برادری سے نہیں تھا ، بلکہ بہت سے نسلی اور مذہبی نسل وں سے تھا۔ قابل ذکر مترجمین مسلمان تھے، جیسے حجاج بن یوسف بن مطار (786–830 عیسوی)، العباس بن سعید الجوہری (843 کے بعد فوت ہوئے)، اور یہاں تک کہ سبیان سیاروں کے پیروکار جیسے ثابت بن قرہ الحرانی (متوفی 901)۔ ان مترجمین میں سب سے بڑا حصہ عیسائیوں کا ہے، تو کیوں؟ حجاج بن یوسف بن مطار نے عربی بطلیمی کی کتاب الماجیسٹ کا ترجمہ کیا۔ ایم ایس 7474، صفحہ 1 ایف شامل کریں ایسا لگتا ہے کہ اس کی وجہ مسلم دنیا میں مختلف مسیحی برادریوں کو حاصل ہونے والی تعلیم کی اقسام کے ساتھ ساتھ ساتویں صدی کے دوران مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں عربی حملوں کے بعد پیدا ہونے والی نئی مذہبی اور سیاسی صورتحال ہے۔ شامی بولنے والی برادریاں سریانی زبان آرامی زبان سے ماخوذ ہے ، جو ایک قدیم سامی زبان ہے جو ایڈیسا شہر (اب جنوبی ترکی میں عرفہ) کے آس پاس کے علاقے کی مقامی ہے ، جو عربی حملوں سے پہلے کی صدیوں کے دوران عیسائیت کا ایک اہم مرکز تھا۔ مشرق قریب میں بازنطینی سلطنت میں عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد گرجا گھروں میں اپنی نمازوں اور عبادت کی رسومات میں سریانی زبان بولتی اور استعمال کرتی تھی۔ تھیوڈوسیئس کی یونانی کتاب الاکر کا عربی میں ترجمہ قستا بن لوقا البالباکی (متوفی 912ء) اور ثابت بن قرہ (متوفی 901ء) نے کیا ہے۔ دہلی عربی 1926ء، ص 1۔ ان سریانی بولنے والے معاشروں میں عیسائیوں کو خانقاہی اسکولوں میں تعلیم دی جاتی تھی ، جہاں انہیں سریانی کے ساتھ ساتھ نئے عہد نامے کی مادری زبان یونانی میں بھی پڑھایا جاتا تھا۔ مزید برآں، اس بات کے پختہ ثبوت موجود ہیں کہ ان سریانی-عیسائی برادریوں کے بہت سے ترقی یافتہ اسکولوں میں سائنس اور فلسفے پر قدیم کتابیں یونانی زبان میں پڑھائی جاتی تھیں، اور ان میں سے بہت سی کتابوں کا سریانی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ حنین بن اسحاق، عربی مسیحی مترجم حنین بن اسحاق (809-873 عیسوی) سب سے اہم اور مشہور مسیحی مترجم سمجھے جاتے ہیں اور سریانی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ حنین ایک عرب-عیسائی نیسٹورین تھا، جو غالبا اپنی مادری زبان کے طور پر عربی بولتا تھا۔ انہوں نے بچپن سے ہی سریانی زبان میں تعلیم حاصل کی، اپنے عیسائی دوستوں کے ساتھ اس زبان میں بات کی اور قدیم یونانی سیکھی اور مہارت حاصل کی۔ مزید برآں ، حنین اپنے وقت کے عظیم ترین طبیبوں میں سے ایک تھا ، جس نے یونانی ڈاکٹروں کی تحریروں کو منظم طریقے سے ترتیب دیا ، اپنی تحریریں لکھیں اور آنکھوں کے امراض میں مہارت حاصل کی۔ طبیب کی حیثیت سے ان کی شہرت کا اختتام خلیفہ متوکل (847–861 عیسوی) کے دربار میں طبیب بننے سے ہوا۔ حنین کی سب سے بڑی تحریروں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے دو ممتاز یونانی طبیبوں ، ہپوکریٹس (تقریبا پانچویں صدی قبل مسیح) اور گیلن (تقریبا 129 –216 عیسوی) کی تمام دستیاب تحریروں کا سریانی اور عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ حنین بن اسحاق نے یوکلڈ کی کتاب داتا کا عربی میں ترجمہ کیا، جسے ثابت بن قرہ الحرانی نے درست کیا۔ آئی او اسلامک 1249، ایف 1 وی۔ یہ نہ ہونے کے برابر نہیں ہے ، کیونکہ گیلن کی تحریریں قدیم یونانی ادب کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرتی ہیں جو آج تک زندہ ہے۔ گیلن دنیا کے سب سے نمایاں اور شاندار مصنفین میں سے ایک تھا ، جو ہمارے وقت کی تمام زندہ قدیم یونانی کتابوں کا تقریبا دس فیصد تھا۔ علم کی منتقلی کے نئے مواقع یہ حنین اور اس کے ایلک کا قدیم یونانی ادب کا علم اور سامی زبان پر ان کی مہارت تھی جس نے انہیں یونانی سے عربی میں ترجمہ کرنے کے لئے مکمل طور پر اہل بنا دیا۔ رومی سلطنت کے دور میں بہت سے سریانی عیسائی گروہ مذہبی تنازعات میں ملوث تھے لیکن اسلامی حکمرانی کے آغاز کے ساتھ ہی ان گروہوں پر قسطنطنیہ کا کنٹرول نہیں رہا اور نہ ہی انہیں اپنے قدامت پسند نظام پر عمل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جو معاشرے اب تک ایک دوسرے سے جدا تھے وہ آزادانہ طور پر مل کر کام کرنے کے قابل تھے۔ بنیادی ذرائع ثانوی ذرائع
التذکرہ جلد سوم اردو ترجمہ
التذکرہ للانطاکی،اردو ترجمہ۔جلد سومطب۔عملیات۔طلسمات۔تعویذات۔مخفیات۔ ارسال ہواتف۔جادو کا توڑ۔جنات سے چھٹکارا۔مترجم۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میواسلامی دنیا کے مصنفین کا طرز تالیف رہا ہے کہ وہ نسخہ جات اور طبی امور کی کتاب میں عملیات و روحانیات۔اور روحانیات کی کتب میں طبی نسخے ٹوٹکے لکھا کرتے تھے۔ان کے ابواب و فصول قائم کیا کرتے اور تفصیلی بحث کرتے تھے۔ان صفحات کے مطالعہ سے ایک طبیب اور عامل دونوں طرح کے لوگ استفادہ کرسکتے ہیں ۔ التذکرہ میں شیخ دائود انطاکی نے پہلی دو جلدوں میں طبی قوانین۔امراح عقاقیر،نسخہ جات اپنے مشاہدات و تجربات۔سب کچھ بیان کیا۔تذخرہ کی تیسری جلد کو طب کے ساتھ ساتھ ستاروں ۔طلسمات۔دعوات۔وزیمتیں ۔نقوش وغیرہ کے لئے کئی ابواب مختص کئے۔ طب و عملیات ہر زمانے کی ضرورت رہے ہیں ۔ان کی اہمیت کے پیش نظ اہل مشرق مین بخل و امساک اور علوم کو صدری راز کہہ کر چھپانے کی عادت تھی۔اگر کسی کو بتایا بھی تو ادھورا۔یہی حال نسخوں کے ساتھ بھی ہوا۔جب ہم طب و عملیات کی کتابوں میں اصؒ اعمال اور طبی نسخوں کو دیکھتے ہیں تو صاف فرق محسوس کرتے ہیں کہ۔فلاں نسخے۔یا عمل مین یہ بات پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ یہ بھی پڑھئے کتب حکیم قاری محمد یونس شاہد میوحصہ طبیب حضرات سے زیادہ عاملین کے لئے کار آمد ہے کیونکہ انہیں عملیات کا بہترین خزانہ دستیاب ہوگا۔التذکرہ کی تیسری جلد کو ترجمہ کے کرتے وقت نقوش و طلسمات اور دعائوں ۔عزیمتوں ۔کو ترجمہ رتے وقت زیادہ دقت اور وقت لگا ۔راقم الحروف طب کے ساتھ عملیاتپر بیسیوں کتب تالیف کرچکا ہے اس لئے ان مخفیات کو عربی سے اردو میں ڈھالنے میں آسانی رہی۔
14اگست2024(77)واں یوم آزادی اور میو قوم کا عزم،
14اگست2024(77)واں یوم آزادی اور میو قوم کا عزم،بدوکی کالج ایک سراب یا آب حیاتاز۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوکسی قوم کی زندگی کی آزادی اور سکھ کا سانس،آزاد ی کا احساس جینے کی امنگ دیتا ہے۔انسانی نفسیات ہے جب نعمت میسر ہوجائے تو اس کی ناقدری شروع کردیتا ہے ،اس کی اہمیت سے منہ پھیرنے لگتا ہے۔پاک و ہند کی تقسیم اور قیام پاکستان کے لئےتاریخ کی عظیم ہجرت ،تاریخ کا انمٹ باب ہے۔اس ہجرت میں کسی قوم کا اپنے گھر بار زمین جائیداد،اپنے پیاروں کو چھوڑکر پاکستان کا رخ کرنا بہت بڑا نتیجہ خیز فیصلہ تھا۔ میو قوم اس میں پیش پیش تھی۔ میو قوم آج معاشی ۔معاشرتی۔تعلیمی۔کاروباری۔حکومت میں انتظامی معاملات میں ایک اہم عنصر کے طور پے شامل اور گرانقدر خدمات سرانجام دے رہی ہے ۔ایسے اہم اور فیصلہ کن عہدوں پر براجمان ہے اگر کرنے پر آئیں تو کچھ بھی اقدام کرسکتے ہیں۔اس کی زندہ مثال میوقوم کے سپوتوں نے اعلی درجہ کے کاروبار کئے،تعلیمی ادارے قائم کئے۔اعلی درجےمصنوعات تیار کیں۔لیکن ابھی بہت کچھ سیکھنا اور کرنا باقی ہے۔اس طرف قوم کے اہل حل و عقد کر توجہ کرنے کی ضرورت ہے میوقوم نے ملک بھر میں دیگر اہل وطن کے ساتھ مل کر77واں جشن آزادی منایا ۔پاکستان کے عرض و طول میں تقاریب منعقد کی گئیں۔تعلیمی اداروں میں قوم کے ہونہار بچوں کی تقاریب ہوئی۔ترانے گائے گئے ملی نغمے پیش کئے گئے۔اسی قسم کی کئی ایک تقاریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا۔باوجوہ سب میں نہ جاسکا البتہ۔ ۔شہزاد جواہر صدر انجمن اتحاد و ترقی میوات پاکستان ۔(کے ڈیرے کماہاں)والی تقریب میں شریک ہوسکا۔گوکہ بعض وجوہات کی بنا پر پروگرام میں تبدیلی کرنا پڑی۔مجموعی طورپر جواہر صاحب کا جذبہ حب الوطنی اور میو قوم کی ترقی کا جذبہ قابل دید تھا۔ اس تقریب میں پرچم کشائی ۔حافظ شبیر احمد عثمانی(مشیر وزیر اعظم پاکستان) نے کی۔ان کی آمد پپھولوں سے استقبال کیا گیا۔مختلف قسم کی تقاریر ہوئیں مقررین نے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ کچھ مہمانوں کو دوسری تقاریب میں شرکت کرنی تھی وہ جلد رخصت ہوئے۔لیکن ۔انجمن اتحاد و ترقی میوات کے زیر سایہ قوم کے ہمدرد لوگ دیر تک۔ملکی حالات ممیو قوم کی ترقی۔وقت کے تقاضوں کے مطابق اہم فیصلے وغیرہ دیگر امور پر گفتگو ہوئی۔اس تقریب کے میزبان جناب ، شہزاد جواہر صدر انجمن اتحاد و ترقی میوات پاکستاان تھے۔ شرکاء میں، بابازادہ ڈاکٹر محمد اسحاق، سرپرست۔شبیر احمد عثمانی، وفاقی مشیر:چوہدری محمد عثمان آف بدوکی، سرپرست:چوہدری ناصر محمود، سابق ناظمچوہدری علی محمد سابق سیکرٹری کنٹونمنٹ،چوہدری محمد رمضان صدر غریب خواتین کی تنظیمچوہدری خالد محمود، سیکرٹری تعلیم انجمن:چوہدری آفتاب اختر، ممبر مجلس عاملہچوہدری فجر خان، ممبر مجلس عاملہسردار افضل کاہنہ نوچوہدری انور خا ،ن چوہدری محمد عالم : چوہدری اظہر اختر، قانونی مشیر انجمن: امجد شریف، میو نیوز: مشتاق امبریلیا اور: چوہدری آس محمد، اسلام آباد: عمر اسحاق میو کراچی: محمد ہارون: چوہدری محمد حفیظ۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ ماسٹرمحمد آسف میو۔جس موضوع پر طویل گفتگو ہوئی۔وہ میو بدوکی کالج کی تعمیر تھی۔تیس چالیس سال سے نذر انداز کئے جانے والا عظیم تعلیمی منصوبہ میں درپیش مسائل۔رکاوٹیں اسباب اور ان کے تدارک،عملی اقدام پر طویل مشاورت اور عملی اقدام کے سلسلہ میں انجمن اتحاد ،ترقی میوات پاکستان کا لائحہ عمل۔تعمیر ی امور میں رکاوٹوں پر قانونی مشاورت۔ذمہ داریوں کا تعین ۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی میو قوم کے سامنےتعمیر میں تاخیر کی وجوہات اور ۔تعمیری پہلو اجاگر کرنا اوقوم کے سامنے۔ممکنہ اقدام اور تعمیر کے سلسلہ میں مائل کرنا۔ملک گیر اجلاس۔ببیداری میو قوم کے لئے تقاریب کا انعقاد۔لٹریچر کی فراہمی۔ایسا شفاف تعمیری انتظام کہ قوم پر اعتماد طریقے سے میوکالج بدوکی کی اہمیت و افادیت اور وقت کی ضرورت سے بیداری مہم۔حاضرین نے اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق گفتگو میں حصہ لیا اور آراء پیش کیں ۔راقم الحروف نے اس بات پر زور دیا جب تک انمجن اتحاد ترقیمیوات پاکستان کو میڈیا پر اپنی گفتگو کا موضوع نہ بنائے گا ۔اس وقت تک تیس چالیس سال کے طویل عرصے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کو دور پر میں دشواری کا سامان کرنا پڑے گا۔لوگ جو دیکھتے اور سنتے ہیں اس پر یقین کرتے ہیں۔دلوں کا بھید اللہ جانتا ہے۔اللہ کرے جن جذبات کا اظہار کیا جن لوگوں نے عملی اقدام کے وعدے کئے انہیں عملی شکل دینے میں کامیابی ملے۔۔۔ بقیہ اگلی قسط میں۔ انجمن اتحاد و ترقی میوات کے اغراض و مقاصد۔اور چالیس سالہ جدود جہد پر بات کی جائے گی۔
میو قوم، 14 اگست1947 سے 2024 تک
میو قوم، 14 اگست1947 سے 2024 تک۔از ۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔تقسیم بر صغیر پاک و ہند کی ہجرت تاریخ کی بہت بڑی ہجرت تھی ۔جب ہندستان کے بطن سے پاکستان کا جنم ہوا تو بےشمار لوگ اس حادثہ سے متاثر ہوئے۔یہ بھی پڑھئے مِنی پاکستانhttp://مِنی پاکستان میو قوم اس تقسیم سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔میوا قوم یا میوات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ آزاد منش قوم تھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں حکمران طبقے نے اس قوم کی طرف سے تعلیم ،وسائل اور انصاف کی نہروں کوطاقت کے بل بوتے پر دہلی کی دہلیز تک محدود کردیا تھا۔حالانکہ دہلی اور میواتکی دیواریں متصل تھیں۔لیکن میو قوم سے جذبہ آزادی اور ان کی بہادری کوئی نہ چھین سکا۔یہ قوم کھری سچی اور جس بات کو حق سمجھتی اس پر ڈت جانا ان کے خمیر میں شامل تھا۔ہمیں افسوس کے سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہزاروں سے سال اپنا وجود بقرار رکھنے والی میو قوم کے پاس ہزار صفحات کی مستند تاریخ کی کتاب بھی نہیں ہے۔زبانی رویات ان گنت بہادری کی داستانوں سے بھرے ہوئے۔ یہ بھی پڑھئے جامعہ ملیہ میں ‘یوم میوات‘ کا انعقاد، سنہری تاریخ کی یادیں تازہمیو قوم کو غیر ملکی فاتحین سے جو لڑائی لڑنی پڑ وہ یہ تھی کہ وہ لوگ جس مذہب یا جس ملک سے بھی تعلق رکھتے ہوں،بہر حال وہ غیر ملکی تھے۔وہ عرب ہوں یا افغان۔کاکو رانا اور حسن میواتی کی مغلوں کے ساتھ مڈبھیڑ اس کا بین ثبوت ہے۔میوات جہاں بھی رہے اپنی مٹی اور اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتے رہے،تقیم ہند کے وقت ہجرت کرنے والی سب سے بڑی قوم میو تھی۔یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ دیگر قومیں اس ہجرت میں شریک نہ تھیں یا ان تک اس الائو کی تپش نہ پہنچی تھی۔لیکن میو قوم تو اس الائو میں مکمل طورپر جھونک دی گئی تھی۔میو قوم کو تقسیم سے سب زیادہ نقصان ہوا۔ میو قوم اپنے قول فعل کے تضاد سے ناآشنا تھی انہیں جو بھی سچا و کھرا انسان ملا اس کے پیچھے چل دی۔عام طورپر میو قوم کسی کی قیادت و سیادت کو تسلیم کرنا توہین سمجھتی ہے ۔یہ جس حال میں بھی ہو خوش رہتی ہے۔جو قومیں آزاد تو ہوں لیکن قیادت کے بغیر ہو سب سے زیادہ نقصان اٹھا تی ہیں۔یہ حال میو قوم کا بھی ہے۔آض تک میو قوم کسی قائد و رہبر کی قیادت پر متفق نہ ہو ئی ،کاش تقسیم ہند کے وقت میو قوم کسی ایک کو لیڈر تسلیم کرلیتی تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا۔آج بھی یہ قوم بے قیادت ہے البتہ اس وقت بھی کچھ مخلص لوگ موجود و مستحق تھے کہ سرداری کی پاگ اپنے سر سجاتے۔لیکن نقال و موقع پرستوں کے اس جم گھٹے میں شناخت اس وقت بھی مشکل تھی آج بھی مشکل ہے۔ میو قوم کے لاکھوں افراد پاکستان آئے اور سچے دل سے قربانی دی ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہجر کے اس سیلاب میں جنتا حصہ میو قوم تھا اسے آباد کاریاور ان کے کلیم اور ان کے حقوق میں بھی اتنا ہی حصہ ہوتا۔لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔میو قوم اپنے اصل مقام سے بھی زمین جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔یہاں بھیانہیں انصاف نہ ملا۔یوں اس قوم نے ایک مقصد کے لئے کئی کئی قربانیاں دیں۔آج چودہ اگست2024 ہے۔ آج سے ٹھیک 77 سال پہلے میو قوم نے آزادی کے لئے جو قربانی دی تھی اس پر بجا طور پر فخر کرتی ہے گوگہ پاکستان بننے سے لیکر آج تک میو قوم کی چال نسلیں آزادی کی فضائوں میں سانس لے رہی ہیں۔لیکن مغلوں اور انگریزوں سے لڑائی بھڑائی میں جوکردار میو قوم نے ادا کیا لکھنے والوں نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔ ورنہ تاریخ میں میو قوم کا مزید اجلا و بہتر کردار ملتا۔دودروں سے کیا گلہ خود میو قوم نے اپنی تاریخ کو یوں بھلایا جیسے ان کا اپنے ابائو اجداد سے کوئی تعلق نہ ہو۔آج میو قوم دیگر لوگوں کے ساتھ جشن آزادی میں شریک ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے صرف جھنڈیوں اور باجوں کے شور میں اضافہ کا بنے ہیں ۔کاش میو قوم زیادہ پرانی نہ سہی صرف 1947 کسے لیکر آج تک کی تاریخ ہی محفوظ کرلیتے تو یہ نئی نسل جو جشن آزادی کی خوشیوں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔وہ ضرور ان لوگوں کو یاد کرتے جو خاک و خون سے لت پت ہوکر کسمپرسی کی حالت پاکستان آئے تھے۔ہمارے دادا جان بتایا کرتے تھے جب کوئی قافلہ لڑنے یا کٹنے سے بچ کر حدود پاکستان مین داخل ہوجاتا تو اتنی خوشی ہوتی ممکن ہے آج کی نسل اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ خدا کرے کہ میری ارض پاک پرایسی بہار اترے کہ جسے اندیشہ خزاں نہ ہو۔ان لوگوں کو ضرور اپنی دعائوں میں یاد رکھئے ،جو اپنے پیاروں کے خون میں لتھڑے پائو سے سرزمین پاکستان میں داخل ہوئے۔جنہوں نے اپنے پیاروں کو بے بے گور و کفن چھوڑ کے حصول آزادی کا جھنڈا تھاما تھا۔جو ہوا سو ہوا کوئی بھی قیمتی چیز بے قربانی نہیں ملا کرتی۔انہوں نے تو اپنا فرض بہتر انداز میں نبھایا ،سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم پر جو فرائض عائد ہوتے کیا ہمیں ان کا احساس ہے۔کیا قوم و ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ؟
طب کی کتابوں میں عملیات وطلسمات کا عمل دخل۔2
طب کی کتابوں میں عملیات وطلسمات کا عمل دخل۔2قسط دوم۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو یہ روش ساری مسلمان دنیا میں جاری رہی۔بچپن میں عملیات کا بہت شوق تھا ،انمور لوگوں کے پاس درد بدر پھرتا رہا ۔عمومی طورپر کچھ عاملین بہت مشہور تھے،ان کی خدمات حاصؒ کرتا رہا،عمومی طورپر ایسا دیکھنے کو ملا جو لوگ عامل ہونے کی وجہ سے مشہور تھے ان کے پاس کوئی ایک آدھ عمل تھا ۔لو بھی اسی سلسلہ میں ان سے رجوع کرتے تھے۔لیکن ان کا کسی ایک عمل کی وجہ سے انہں مکمل عامل سمجھتے تھے۔وہ عامل بھی ان معنوں مین ہوتے کہ کہیں سے کوئی عمل ہاتھ لگ گیا ،عمل موثر ثابت ہوا وہی عمل اس کی روزی کا سبب بن گیا۔فن عملیار کے پارہ مین جب ان سے پوچھا تا تو سچی بات یہ ہے وہ بھی عوام الناس کی طرح کچھ نہ جانتے تھے۔ یہ بھی پڑھئے طب کی کتابوں میں عملیات وطلسمات کا عمل دخل۔1کتب عملیات اس کے بعد عملیات کی کتب ہاتھ لگیں اس فن کے لئے لگائو بہت زیادہ تھا ،اس وقت بساط بھر کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار رہتا تھا۔مطالعہ کا شوق تھا چند مشہو ر لائبریریوں تک رسائی تھی ۔کتابیں آسانی سے مل جاتی تھیں ۔اللہ نے فرصت دی تھی سوائے مطالعہ کے کوئی شوق نہ تھا ۔یومیہ پانچ سو صفحات کا مطالعہ گویا کہ روٹین اساطین طب مین شامل تھا۔کتاب سمجھ میں آئے نہ آئے لیکن اسے مکمل کرکے سکون ملتا ۔ انہین دنوں عملیات کی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔جیسے الغزالی۔ابو العباس بونے،امام سیوطی۔عملیات و طلسمات پر لکھی گئی مقامی مصنفوں کی کتب۔نقش سلیمانی،بیاض اولیاء۔شفاء المریض۔شمع شبستان رضا۔،بیاض محمدی۔مکوبات یعقوبی۔نافع الخلائق شمس المعارف۔مجربات دیربی۔کنز الحسین۔غنجینہ عملیات۔وغیرہ بہت سی کتب/ایک حکیم صاحب جن کا نام حکیم نبی خاں مرھوم تھا ۔ان کی کتب نے مجھے طب دنیا میں پہنچایا۔کی بیاض۔ان سب کے مطالعہ سے کچھ باتیں ڈائرہ میں نوڑ کرلیتا پھر موقع ملنے پر تجربہ کرتا۔مسجد کے آئمہ اور دینی اداروں میں فرائش سرانجام دینے والے لوگوں کے پاس وقت کی ولت نہیں ہوتی ۔یہ طبقہ زیادہ تر ۔بروقت کھاپیتا۔نماز پڑھاتا۔سوجاتا ہے۔یعنی وقت کا ضیاع جتنا یہ طبقہ کرتا ہے شاید ہی کوئی طبقہ ان کی برابری کرسکے۔جولوگ فارغ اوقات میں کتابوں سے راہ رسم پیدا کرلیتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرلیتے ہیں۔ان سب کتب میں ایک بات مشترک تھی کہ طبی کتب میں عملیات اور عملیات کی کتب میں طبی نسخے لکھے ہوئے تھے۔۔یہ سلسلہ سمجھ بوجھ کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدت اور ضرورت کی بنیاد پر چلتا رہا۔ طبی کتب کے اردو ترجم اور عملیات۔ یہ باتیں آج سے بیس تیس سال پہلے کی ہیں ۔آج جب اللہ نے طب پر کام کرنے کا موقع دیا اور فن طب طب نبویﷺ۔کئی کتب لکھی ۔ساتھ میں آج 52 سال کی عمر کو پہنچاہوں۔عربی و انگریزی کتب کے اردو تراجم کا سلسلہ جاری ہے۔عملیات و طب پر لکھا جارہا ہے۔جب بار بار طبی کتب کتب میں عملیاتی بحث اور عملیاتی کتب میں طبی نسخوں کی بھرمار دیکی تو ذۃن اس طرف مائل ہوا کہ اس عملیاتی و طبی تعلق اور ان کے گٹھ جوڑ کو سمجھا جائے۔آج کل ۔مصر کے شہر انطاک کے مشہور نابینا طبیب جو ٓدسویں صدی میں سکہ بند طبیب تھے۔کی کتاب :(تذكرة أولي الألباب و الجامع للعجب العجاب تأليف أحد تلاميذ داود بن عمر الأنطاكي 1008 ه.)کو اردو میں ڈھال رہا تھا کہ دوجلدیں تو ٹھوس طبی ابحاث۔اور امراض و علاج۔عقاقیر۔غذائیں وغیرہ پر تھیں ۔ لیکن تیسری جلد میں چند فصول میں فلکیات،نیرنجیات۔طلاسم۔چلہ وظائد۔تعویذات۔بھری ہوئے ملے۔اگر یہ بھی پڑھئے تقریبا ساڑھے تین سو علم طب کی کتابیں اردو زبان میں عملیات کے بارہ میں سوجھ بوجھ نہ ہوتی تو ایک طبیب کے لئے ان فصول کا ترجمہ کرنا دشوار ہوتا۔کیونکہ کوئی بھی فن ہو۔اس کی مخصوص اصطلاحات ہوتی ہیں ۔الفاظ کا چنائو مخصوص انداز میں کیا جاتا ہے۔یہ عملیات یا طب کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ فزیکس۔کیمسٹری۔بیالوجی۔یا پھر مذیبی فنون میں قران و حدیث تفسیر۔اصلو۔وغیرہ میں ایک ہی قسم کے الفاظ کو الگ الگ معنوں میں لیا جاتا ہے۔تذكرة أولي الألباب و الجامع للعجب العجاب تأليف أحد تلاميذ داود بن عمر الأنطاكي 1008 ه.۔کی تیسری جلد کی کچھ فصول اور عنوانات ملاحظہ ہوں۔6215 فصل في المحاريق وكيفية أعمالها 6516 فصل في التعافين 6517 فصل في المراقيد 6718 فصل في عمل النيرنجيات 6719 باب في الإخفاء 6820 حرف العين 7021 علم الحرف 8922 في معرفة التصرفات بالأوفاق العددية واستخراج الأعوان العلوية 9323 فصل في استخراج أسماء الملوك العلوية وأسماء الأعوان السفلية 9424 علم منازل القمر وما يتعلق به والكواكب وما يتعلق بها وغير ذلك 10125 فصل في أن الآدمي فيه شبه كل شيء من العالم السفلى والعلوي 10426 فصل في ذكر ملحمة مباركة على الكواكب السبعة السيارة 10627 فصل في الأوقاف السعيدة والأوقات النسخة وساعاتها 11128 باب في ذكر التهاييج۔مجھے لگا کہ کسی طبی کتاب کا نہیں بلکہ کسی عمیات کا ترجمہ کررہا ہوں۔۔۔بقیہ اگلی قسط میں ۔
طب کی کتابوں میں عملیات وطلسمات کا عمل دخل۔1
طب کی کتابوں میں عملیات وطلسمات کا عمل دخل۔1از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔برصغیر پاک و ہند مین عملیات۔نیرنجیات۔طلسمات۔دم جھاڑے اور تعویذات کو مسلمہ طورپر ہر ایک نے کسی نہ کسی انداز میں قبول کیا ہے۔کوئی طبقہ اس سے مبراء نہیں ہے۔اس موضوع پر بہت سی کتب موجود ہیں۔اور کتابیں بھی ان لوگوں نے لکھی ہیں جن کا نام مسلمہ طورپر ہر کے لئے مصدقہ ہے۔ریاضت کرنے والے گوشہ نشینوں۔صوفی منش لوگوں نے عملیات پر جو کام کیا وہ الگ سے میدان عمل ہے لیکن جب اطباء و حکماء کی باری آتی ہے تو ان کی کتب بھی اس سے خالی دکھائی نہیں دیتیں۔طب و حکمت کے موضوع پر مسلمانوں نے بہت کچھ لکھا اور نت نئے تجربات کی بنیاد پر ایک نیا جہان وجود میں لائے۔یہ فن انہیں فتوحات اسلامیہ کے وقت میں مال غنیمت کے طورپر ملا۔مسلمانوں نے اسے سینے سے لگایا۔یہ بھول گئے کہ یہ فن انہیں دوسروں سے پہنچا ہے۔اسے اپناکر من تن دھن سب نچھاور کردیا۔محنت شاقہ سے ایک نیا جہاں آباد کیا۔وہ خوشہ چینی سے امام وقت تک کا سفر کانٹوں بھری پگڈنڈی سے ہوکر مکمل کرتے ہیں۔یونان والے ستاروں ۔ طلسمات۔نیرنجیات۔عملیات۔ساعتوں کی پہچان۔ستاروں کے درجات و منازل کا تعین۔ان سے احکامات زندگی اخذ کرنا۔انہیں کی روشنی میں علاج و معالجہ اس امراض کی تقسیم۔ادویات کو کی درجہ بندی میں ان سے کام لینا وغیرہ ان کے مزاج و عقائد کا حصہ تھے۔۔ان کی کتابوں میں اس کے نظائر موجود ہیں۔وہ طب پر کوئی کتاب لکھتے تو اس میں عملیات و طلسمات کا ذخر کرتے ۔بسااوقات تو مسقتل ابواب قائم کرکے طویل بحث کرتے۔بقیہ اگلی قسط میں
تذکرہ دائود انطاکی۔جلد دوم
تذكرة أولي الألباب۔ والجامع للعجب العجاب۔تذکرہ۔جلد دومالمؤلف۔داود بن عمر/الأنطاكي( المتوافی:1008 ه.)مترجمحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومنتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺکے نام سے جانا جاتا ہے، تین حصوں پر مشتمل ایک کتاب ہےجس کا دوسرا حصہ کااردو ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔(مترجم حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد)اس کی پہلی جلد کا ترجمہ ڈیجیٹل فارمیٹ میں پہلے ہی قارئین تک پہنچ چکا ہے۔ جو انٹیوچ کے مشہور عرب طبیب دائودکی طرف سے لکھی گئی ہے۔اور اس میں 3000 دواؤں اور خوشبودار پودے شامل ہیں۔اس کتاب کے 37 ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخے ہیں جو عرب دنیا، یورپی ممالک، ہندوستان اور امریکہ کے کتب خانوں میں تقسیم کیے گئے ہیں اور یہ کئی بار چھپ چکی ہے اور اس کے زیادہ تر ایڈیشن ڈیوڈ کی یاد کا خلاصہ ہیں۔اس کے مواد اور پرانی اصطلاحات کی موجودگی جو کہ عصر حاضر کے قاری کے لیے سمجھنا مشکل ہے اس کتاب کا لاطینی، ترکی، فارسی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔تیسری جلد اردو ترجمہ کے ساتھ بہت جلد تیار ہوجائے گی۔احباب کسی بھی حصہ کو اپنی ضرورت کے تحت طلب کرسکتے ہیں۔(فی حصہ۔200 روپے۔ڈیجٹل فارمیٹ میں)
تذکرہ انظاکی۔جلد اول
تذكرة أولي الألبابوالجامع للعجب العجابتذکرہ انظاکی۔جلد اولالمؤلفداود بن عمر/الأنطاكي( المتوافی:1008 ه.) 10سوویں صدی میں انطاکیہ (اب ترکی) کا ایک نابینا طبیب د، مصنف اور سائنس دان کا لاجواب شاہکاراس کتاب میں۔۔۔مفردات:۔754۔،مرکبات:۔332:۔تعداد علاج امراض:۔74.۔ آخر میںعلوم مخفی پر بحث۔۔اس کے مصنف اور کتاب کی تاریخ بیانکی گئی ہے۔ سوانح مصنف اور تاریخ کتاب ڈیوڈ آف انطاکیہ، 10ویں صدی میں انطاکیہ (اب ترکی) کا ایک نابینا طبیب، مصنف اور سائنس دان۔ اتاکی کے بہت سے عرفی نام بتائے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ القاب بشمول بصیر، حکیم بصیر اور عالم علامہ ان کی ذہانت اور تدبیر کا اظہار کرتے ہیں (خافجی، ص 271؛ ابن عماد، جلد 8، صفحہ 415؛ احمد عیسیٰ، صفحہ 185-186) اور ایک اور حصہ اس کے نابینا ہونے کی وجہ سے (← مضمون کا تسلسل) کہ اس وجہ سے اسے اکما اور زریر (دونوں اندھے کے معنی میں) (→ ibid.) بھی کہا گیا۔ انتاکی فلسفہ، الہیات اور طب کے شعبوں میں بہت سے کاموں کے مصنف ہیں، لیکن ابتدائی اور دیر سے اسلامی مترجمین اور کتابیات نگاروں میں ان کی شہرت ہمیشہ طب میں ان کی مہارت کی وجہ سے رہی ہے۔ انتاکی کے بے شمار کاموں میں سے، جن میں سے کم از کم ان کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں(→ صالحیہ، جلد 1، صفحہ 109-110؛ بھی → مضمون کا تسلسل)،یہاں تک کہ دیگر موضوعات پر ان کی ایک تصنیف بھی شائع ہوئی ہے۔ انتاکی کی پیدائش کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہے، اس کے بچپن اور جوانی کے بارے میں انطاکیہ کے معاصر مصنف اور تاریخ دان، ابوالمعلی طلوی آرتوقی کی تحریروں سے معلومات ملتی ہیں۔ تالوی ارتاگی نے غالباً کئی بار انتاکی کو دیکھا اور لگتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے دوران انتاکی کی زندگی کے بارے میں اپنی تفصیلی رپورٹ لکھی ہے۔ انتاکی کے والد ایک بڑھئی تھے اور اس گاؤں کے سربراہ تھے جہاں وہ رہتے تھے(طلوی ارطگی، جلد 2، صفحہ 35)۔انتاکی پیدائش سے نابینا تھے اور بچپن میں قرآن حفظ کر چکے تھے۔ وہ سات سال کی عمر تک چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھا، یہاں تک کہ محمد شریف نامی ایک ایرانی شخص نے – جس نے اتاکی میں ذہانت کے آثار دیکھے تھے – نے ایک خاص تیل تیار کرکے اور اس کے جسم پر مالش کرکے اتاکی کا علاج کیا۔ محمد شریف نے انہیں منطق، ریاضی، طبیعیات کے ساتھ ساتھ فارسی اور یونانی بھی سکھائی۔ نابینا ہونے کے باوجود، انتاکی کو سائنس سیکھنے کی بڑی خواہش تھی اور اس لیے بہت سفر کیا۔ ان کا پہلا سفر اپنے والد کی موت اور جائیداد کے نقصان کے بعد تھا، جس کے دوران انتاکی نے دمشق، شام کے دوسرے شہروں اور قاہرہ کا سفر کیا(ibid.، جلد 2، صفحہ 35-36؛ بوستانی، جلد 7، صفحہ 578)۔ان دوروں میں اس نے ابی فتح محمد [مغربی]، بدرغازی اور علاؤالدین عمادی سے واقفیت حاصل کی اور ان سے مختلف علوم سیکھے(طلاوی ارطگی، جلد 2، صفحہ 37)۔شہاب الدین خفاجی کے مختصر حوالہ کے مطابق انطکی کے ایک طالب علم نے ان سے طب اور کچھ دوسرے علوم کی تعلیم حاصل کی، انطکی کے فلسفیانہ اور مذہبی عقائد کی وجہ سے اس زمانے کے بعض علماء نے اس کی مخالفت کی اور انطکی مکہ شہر کی طرف بھاگ گیا۔ اپنی جان کا خوف(ibid. مدنی، صفحہ 420-421)۔مکہ کے علماء انطاکی کا بہت احترام کرتے تھے(عیاشی، جلد 2، صفحہ 40)، لیکن اس شہر میں ان کا قیام زیادہ عرصہ نہ رہا اور اسہال یا زہر کی وجہ سے مکہ میں داخل ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصہ بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ صفحہ 149)۔ ان کی وفات کے وقت کے لیے، تاریخیں 990 (→ غازی، جلد 3، صفحہ 150)، 1005 (وان ڈائک، صفحہ 228)، 1007 (شوکانی، جلد 1، صفحہ 246) اور 1008 (کلاح، ص 140، مونجد، ص 276، اور مدنی (ص 421)۔اس کی نظموں کا انتاکی اپنے زمانے میں ایک مشہور ڈاکٹر تھا اور وہ دمشق میں ظاہریہ مدرسہ کے ایک سیل میں مریضوں کا علاج کرتا تھا(محبی، جلد 2، صفحہ 147؛ بھی → داؤد انتقی، تزین الاسواق، جلد 1، تعارف، صفحہ 147) 7)۔بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج میں ان کی مہارت کے بارے میں بہت سی کہانیاں سنائی گئی ہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اس نے مریض کی نبض لے کر مریض کی بیماری کی تشخیص کی(→ خفاجی، صفحہ 271؛ عیاشی؛ شوکانی، ibid.)،یا مریض کی آواز سن کر (بوستانی، جلد 7، صفحہ 578) (دیگر مثالوں کے لیے ان کے ذریعہ لوگوں کے ساتھ سلوک کرنے کی کہانیاں→ محیبی، جلد 2، صفحہ 147-148۔ عربی کتاب کے لئے یہاں رجوع کریںتحميل كتاب تذكرة أولي الالباب والجامع للعجب العجاب v 1 pdfاس تفسیر اور انطقی کی زندگی کے دیگر واقعات کے بارے میں، صفحہ 74-55 دیکھیں، خاص طور پر سورہ اعراف کی آیت 142 کا حوالہ اور یہ حقیقت بھی کہ انطقی نے ذوالفقار کی حدیث کا ذکر کرتے ہوئے حضرت علی کو جانشین مانا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، انطکی کو شیعہ سمجھا جاتا ہے(محبی، جلد 2، صفحہ 144-146؛ بوستانی، جلد 7، صفحہ 578؛ آغا بوزور تہرانی، صفحہ 207؛ احمد عیسیٰ، صفحہ 187)انتاکی کے لیے بہت سی اخلاقی خوبیاں درج ہیں، جن میں رات کی زندگی، قیامت کا خوف اور اس طرح کی چیزیں شامل ہیں(← ابن عماد، جلد. . بلاشبہ، دوسری طرف، بعض نے اس پر پیغمبر کے معراج کے معیار اور اینٹکی کے فلسفیانہ اندازِ فکر کے بارے میں اینٹکی کے مخصوص عقیدے کو سامنے لا کر عقیدہ کو خراب کرنے کا الزام لگایا ہے(→ خفجی، ibid.؛ محبی، جلد۔ 2، صفحہ 145-146)۔اینتاکی کا علم مختلف علوم میں مشہور رہا ہے، جس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ سوالات کے جواب میں اس کی تفصیلی وضاحتیں کسی مقالے کے سائز یا اس سے زیادہ تھیں۔ 1)تذکرہ الاولی الباب اور الجامع العجب العجاب جو ان کی سب سے اہم تصنیف ہے اور مختصراً تذکرہ داؤد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انتقی نے یہ کتاب 976 میں لکھی (داؤد انتقی، تذکرہ الالباب، جلد 1، صفحہ 27)۔ مذکورہ کتاب میں تعارف، چار ابواب اور اختتام (کتاب کے ہر باب کا عنوان جاننے کے لیے → عرفانی، جلد 19، صفحہ 95-96) شامل ہیں۔انتاکی نے طب کے مختلف