میں ملتانی مرحوم سے کیسے مرعوب ہوا۔ میں ملتانی مرحوم سے کیسے مرعوب ہوا۔ پہلی قسط حکیم قاری محمد یونس شاہد میو (1)حکیم صاحب علیہ الرحمہ نے طبی استشہاد کے لئے جابجا آیات قرانی پیش فرمائیں، یہ انقلابی سوچ تھی۔اگر میرا حافظہ خطا نہیں کررہا تو میں نے حکیم صاحب کی ایک تحریر پڑھی تھی اور یہ تحریر آری دنوں کی ہے جب وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سر توڑ کوشش کررہے تھے ۔انہوں نے قران کریم کی ان تفاسیر کا گہرائی سے مطالعہ کرنا شروع کردیا تھا جو اردو مین دستیاب تھیں ۔ حکیم صاحب شاید عربی زبان سے ناواقف تھے،اس لئے قران کریم کے تراجم اور اردو تفاسیر سے استفادہ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا میں اپنے نظریہ کو قران کریم اور احادیث رسولﷺ کی کسوٹی پر رکھونگا۔جو اس کسوٹی پر پورا اترا باقی رکھونگا۔ یہ بھی پڑھیں چھ نبض کل امراض ورنہ اسے خارج کردونگا۔اس گہرے فکر و تدبر نے حکیم صاحب کی بینائی پر گیرا اثر ڈالا۔اور آخری عمر میں بینائی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ھکماء نے حضرت مجدد الطب کے نسخو ں،تشخیصات اور نظریات کو تو سینے سے لگایا۔ان سے استفادہ کیا لیکن حکیم صاحب کی آخری خواہش کا کسی نے احترام نہین کیا۔ان کے شاگردوں میں کئی لوگوں نے اپنی کتب میں آیات قرانیہ سے استشہاد کیا ہے ۔لیکن وہ بھیدوسروں کے سہارے۔یعنی کوئی خود حافظ نہ تھا۔کوئی عربی سے نابلد تھا۔اس کی نظیر قانون صابر۔عطیات صابر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ راقم الحروف نے اس طرف توجہ کی اور بساط بھر لکھا بھی ۔میں نے دیکھا کہ صابر ملتانی کا قانون طب نبوی کی تشریح ہے۔ تحدیث نعمت کے طور پر کہتا ہوں اللہ نے قانون صابر کی فہم بھی دی اور ۔عربی مداررس سے فارغ التحصیل ہونے کی حیثیت سے قران و حدیث یہ بھی پڑھیں عید ٹپس۔۔کونسا گوشت کس کے لئے مفید ہے ۔عربی فارسی۔اردو،پنجابی،اور میواتی میری مادری زبان ہے میں پڑھنے لکھنے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔اس لئے راقم الحروف نے چالیس کے قریب طب نبوی چھوٹی بڑی کتب لکھیں۔اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے ۔دیکھیں اللہ تعالیٰ کب تک یہ کام لیتے ہیں۔میرے ذہن میں یہ بات نکالے نہیں نکلتی ک جو کام صابر صاحب ادھورا چھوڑ کے گئے تھے اس کی قران و حدیث کی کسوٹی والا کام اللہ بندہ ناچیز سے لیگا۔اور لے رہا ہے۔ (2) مفرد اعضاءفارماکوپیا۔ حضرت مجدد الطب نے جو انداز اختیار کیا اور اپنے فارماکوپیا میں دوباتوں کا خصوصی خیال رکھا۔ایک تو وہ منشیات سے پاک تھا ۔دوسرا اس میں مہنگے اور نایاب اجزاء نہیں تھے۔سہل الحصول اتنا کہ اپنے باورچی خانہ میں سارا فارماکوپیا دستیاب تھا۔ یہ اجزاء ہمارے روزہ مرہ کے استعمال کی چیزیں تھیں۔اس لئے انہیں بطور دوا استعمال کرنے سے کسی کو وحشت نہ ہوئی۔ایک طبیب سے لیکر خاتون کانہ تک بے دھڑک استفادہ کرتے رہے اور کررہے ہیں۔ اس فارماکوپیا کو اللہ نے شرف قبولیت بخشا شاہد ہی طبی دنیا میں کوئی فرماکوپیا اس قدر استعمال کیا گیا ہو۔جتنا حکیم صاحب کا ترتیب دیا ہوا فارماکوپیا استعمال ہوا۔ حضرت مجدد الطب کی سوچ شاید یہ تھی تھی کہ طب کو اتنا سہل اور آسان بنا دیا جائے کہ فلاح انسانیت کا دروازہ کھل جائے۔وہ اپنی اس سوچ مین بہتر طریقے سے کامیاب ہوئے۔ افسوس ان کے ماننے والوں نے اسے پھر مہنگی اور نایاب ادویات۔زعفران۔کستوری۔عنبر کی طرف دھکیل دیا۔ جب کہ ان کا مقصد ان کی کتب اور ان کے تقاریر کے ریکارڈ سے واضح ہے کہ وہ عام ملنے والی سستی ترین اشیاء کے خواص معلوم کرکے خدمت خلق کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ان کی خواہش تھی جو کچھ تحقیق کیا جائے وہ اکیلے کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی میراث ہوتی ہے۔اسے شائع کرنا ضروری ہے۔بخل و امساک جرم تھے۔ الحمد اللہ راقم الحروف ان کے طریقے کو زندہ کرنے کی حتی الوسع کوشش میں لگا ہوا ہے۔اور ان کی قائم کردہ کسوٹی پر بےکار اور خش و کاشاک سمجھی جانے والی جڑی بوٹیوں پر لکھ رہا ہے۔نیم کے فوائد۔کسٹرائل کے 100 فوائد۔گیندنے کے پھول کے طبی خواص ۔اونٹ کے اجزاء کے طبی خواص۔گھریلو ایشاء کے طبی خواص۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کھائے جانے والے کھانے اور مشروبات۔احادیث میں مذکورہ غذائی دوائیں۔کتب آسمانی میں مذکورہ نباتات کے طبی فوائد۔وغیرہ۔یہ کتاب بھی اسی سلسلہ ذہبیہ کی کڑی ہے۔ (3)۔ہمیں اپنی روش بدلنا ہوگی۔ طبیب لوگ یاتو سہل پسندی سے کام لیتے ہیں چند نسخوں سے اپنی روزی روٹی کا سامان کئے بیٹھے ہیں۔روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔اس کے علاوہ طب سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ان سے کوئی گلہ نہیں کہ دیہاڑی باز ہیں جو طبیب کے روپ میں کاروبار کررہے ہیں۔انہوں نے کوئی خدمت نہیں کرنی کیونکہ یہ اس میدان کے بندے ہی نہیں۔ دوسرے قسم کے وہ لوگ ہیں۔جو سطحی علم رکھتے ہیں۔تحقیق و تدقیق ان کے بس کی بات نہیں ہے یہ لوگ اگر لکھے ہوئے کو ہی ٹھیک انداز میں سمجھ لیں تو بہت بڑی بات ہے۔کئی حکماء ایسے بھی دیکھے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن اچھے دوکاندار تھے۔انہیں تو ٹھیک انداز میں جڑی بوٹیوں کے نام تک نہیں آتے۔ لیکن وہ پنساری سے اپنا مافی الضمیر سمجھا دیتے ہیں وہ نسخہ پیک کردیتا ہے۔ یوں الٹے سیدھے تجربات کرکے حکیم حاذق کے درجے تک پہنچنے کے مدعی بن جاتے ہیں۔یہ لوگ بھی کاسہ لیس ہوتے ہین فن کی خدمت ان کے بس کا روگ نہیں۔ اب آتے ہیں صاحب علم اطباء کی طرف یہ پڑھنا لکھنا جانتے ہیں ۔کتب کا مطالعہ بھی رکھتے ۔لیکن ان میں سے چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو کتابوں میں لکھے ہوئے جو وحی کا درجہ نہ دیتے ہوں ۔لکھنے ووالے نے جو لکھ دیا اس سے سرمو انحراف کرنے کی جسارت کرنا بھی بڑی بات ہوتی ہے ۔ایسے لوگوں کے ذنہوں میں تعمیری اور تنقیدی مضامین کا پیدا ہونا۔بہت دشوار ہوتا ہے۔ اس وقت جو کتب مفرد اعضاء کے عنوان سے لکھی جاتی ہیں ان میں الفاظ کا ہیر پھیر ہوتا ہے۔ کوئی نئی بات دیکھنے کو نہین ملتی۔کسی کے نسخہ کو چند لفظوں کے بدلائو کے ساتھ اپنی طرف منسوب کردینے کو تحقیق کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ
حضرت مجدد الطب صابر ملتانی ؒکا احسان۔
حضرت مجدد الطب صابر ملتانی ؒکا احسان۔ حضرت مجدد الطب صابر ملتانی کا احسان۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو ساٹھ ستر کی دیہائی میں اہل پاکستان اور جہاں جہاں اردو سمجھی جاتی ہے پر بہت بڑا احسان کیا ۔اللہ نے ان کے ذہن رسا میں طب کے خش و کاشاک کی صفائی اور دیسی طب کی تجدید کا داعیہ پیدا ہوا وہ شخص یکا و تنہا ایسا کارنامہ سر انجام دیگا،کسی کے وہم میں بھی نہ تھا۔وہ بھی اسی نظام کا حصہ تھے۔ یہ بھی پٹھیں مفرددواء اور اس کے جواہر کا فرق اسی انداز مینںروزی روٹی کا سلسلہ کئے ہوئے تھے۔لیکن ایک کسک اور چبھن تھی ،جو انہیں کسی پل چین نہ لینے دیتی تھی۔ انہوں نے اپنے وجود کو طبور لبارٹری پیش کیا۔جو افعال و خواص سامنے آئے انہیں مزید کسوٹی پر پرکھا۔ جب شرح صدر ہوا تو اسے لکھ لیا۔اور باربار کی پرکھ پر پورا اترنے والا نسخہ یا جڑی بوٹی کے خواص شائع کردئے، یہ بھی پڑھیں علاج بالمفردات یہ اس وقت کے لوگوں کی سوچ نہ تھی ۔اس وقت بخل و امساک کی چادر میں لوگ چھپے ہوئے تھے۔نسخہ دینے سے جان دینا آسان معلوم ہوتا تھا۔ انہوں نے واقعی حیرت انگیز طریقہ سے تشخیص اورتجویز غذا،اور سہل الحصول دوا کی طرح ڈالی۔ جن لوگوں نے ان کے نظریہ کو سمجھا وہ حکیم حاذق بنے۔لیکن اس ارتقائی طریقہ کو لوگوں نے پھر سے پرانی ڈگر پر ڈال دیا ۔چاہئے تو یہ تھا کہ لوگ اس کی روح کو سمجھتے ہوئے طب کو کہیں سے کہیں لے جاتے۔ح یرت ہے جو فارماکوپیا حکیم مرحوم نے ترتیب دیا تھا جسے لاکھوں لوگوں نے کسوٹی پر کھرا پای ا۔میں کوئی نئی تحقیق شامل نہ کرسکے۔۔کچھ لوگوں نے کسی حد تک اس کی پاسداری کی لیکن ذاتی حد تک۔
مفرددواء اور اس کے جواہر کا فرق
مفرددواء اور اس کے جواہر کا فرق مفرددواء اور اس کے جواہر کا فرق از :مجدد الطب۔۔۔ ناقل حکیم قاری محمد یونس شاہد میو عام طور پر یہ ایک غلطی پائی جاتی ہے کہ دوا ء کا جو خلا صہ ، دست یا جو ہر نکالا جاتا ہے وہ اس دواء کا مؤثر ہ مادہ ہوتا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ دوا کی مختلف صورتیں اس کے مختلف عناصر کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کو کل دواء موثر و مادہ خیال نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ ان کے اکثر اثرات و افعال میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ کسی دوا کے خلاصہ کے اثرات اس کے سست اور جوہر سے بہت حد تک جداہوتے ہیں۔ یہی ہے کہ ان کے بنیادی اثرات بہت حد تک ملتے جلتے ہیں ۔ لیکن فعلی اور کیمیاوی افعال و اثرات میں بہت کچھ اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلا دوا کے کسی جز میں حمونت نمایاں ہو جا تا ہے کسی جز میں کھار کا اثر غالب رہتا ہے۔ اسی طرح کسی چیز میں چونا با فولاد کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ان اجزاء میں گرمی و سردی اور خشکی و رطوبت کی زیادتی ہو جاتی ہے اور بعض میں دخانی اثر بڑھ جاتا ہے۔ جیسے دودھ کی مثال ہماری روزانہ زندگی میں ہمارے سامنے پائی جاتی ہے۔ یعنی معالج کبھی وہی کا استعمال کرتا ہے۔کبھی وہی کا پانی مفیدسمجھتا ہے۔ اسی طرح کبھی مکھن کبھی گھی اور کبھی دودھ کا پانی استعمال کرانا پڑتا ہے۔ یہی صورت پنیر کی بھی ہے۔ اسی طرح دودھ کا سفوف بھی ایک علیحدہ جزو ہے۔ اس کو خالص دودھ نہیں کہنا چاہئے۔ کیونکہ اس کے خشک کرنے سے پانی کے ساتھ اس کے بہت سے نمک بخارات کے ساتھ اُڑ جاتے ہیں اور بہت حد تک انتہائی قسم کا خشک مواد بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں علاج بالمفردات یورپ اور امریکہ سے جو خشک دودھ آتا ہے اس کو خالص دودھ نہ سمجھ لینا چاہئے ۔ اس میں روغنی اجزاء اور ہاضم نمکیات کی کمی ہو جاتی ہے اور اس میں چونا اپنی مناسبت سے بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے اس کے استعمال سے جسم میں بدہضمی اور خشکی پیدا ہو جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو تو بہت نقصان دیتا ہے ،اس لئے اس کو بچوں سے دور رکھنا چاہئے۔ البتہ جن مریضوں میں کیلشیم (چونا) کی کمی ہو تو اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ادویہ اور ان کے اجزاء کا استعمال: مفردادویات تو جس صورت میں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں، یعنی سفوف محلول اور حبوب جس شکل میں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن مفرد دوا کے اجزاء کو جن صورتوں میں جدا کیا گیا ہے ان کو انہی صورتوں میں استعمال کرائیں ۔ یہ بھی پڑھیں روغن اَرنڈ (بیدانجیر۔کسٹرائیل) کے100 طبی-فوائد ان کو اگر کسی اور صورت میں استعمال کیا تو ان کے افعال و اثر بدل جائیں گے۔ ان کے استعمال میں اس فرق کو بھی مد نظر رکھیں مفرد دوا میں اس کے کئی مؤثر جو ہراس کے دیگر عناصر اور مواد کے اس طرح جذب اور شامل ہوتے ہیں کہ ان کے افعال و اثرات میں تیزی پیدا نہیں ہوتی۔ اور نقصان کا خطرہ ہیں رہتا۔ کیونکہ ان کے اثرات بھی ساتھ ہی ہوتے ہیں ۔ یہ بھی پڑھیں اونٹ کے طبی فوائد طب نبویﷺ کی روشنی میں لیکن مؤثرہ جز اور جو ہر ہر ایک اپنی جگہ تیز ہوتا ہے ان کے غلط استعمال سے نقصان ہو جانے کا خدشہ ہے۔ علاج بالمفردات کا قدیم طبوں میں یہ شعبہ بھی اپنے اندر کمالات فن رکھتا ہے۔ جس کا عشر عشیر بھی فرنگی طب میں نہیں پایا جاتا ہے۔ قدیم طبوں کی فوقیت ہے۔(فارما کوپیا از مجدد الطب 2/40)
علاج بالمفردات
علاج بالمفردات علاج بالغذاء سے جب طبیعت قابو میں نہ آئے اور اعضاء کے افعال درست نہ ہوں خاص طور پر مزاج جسم اور اخلاط کا توازن قائم نہ ہو سکے تو غذا کی بجائے ادویات سے علاج کرنا لازمی ہو جاتا ہے، کیونکہ جسم اور خون میں جس قدر زیادہ مقدار میں تیزی سے کیفیات پیدا ہوتی ہیں اور اعضاء کے افعال میں شدت پیدا ہوتی ہے اس قد رصرف غذاسے پیدا ہونا مشکل ہے۔ لیکن علاج بالدواکے ساتھ علاج بالغذا کے اصول بھی مد نظر رکھے جائیں تو بہت جلد کامیابی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں غذائی چارٹ علاج الدوا میں یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ علاج بالمفرد ادویات زیاد ہ افضل اور احسن ہے۔ مفرد دوا کے علاج سے مقصد یہ ہے کہ کسی مرض اور اس کی تمام علامات صرف ایک ہی دوا سے دور کر نے کی کوششیں کی جانے کی صورت مرض اور اس کی تمام علامات وہ کیمیاوی ہوں یا مشینی اور خاص طور پر جسم کے زہریلے موا وصرف ایک ہی دوا کے استعمال سے دور ہو جائیں۔ بے شمارا ایسی ادویات ہیں جو تنہا اپنے اندر شفائی بلکہ اکسیری اور تریاقی اثرات رکھتی ہیں ۔ ایک ایک مرض کے لئے متعد شفائی اثر رکھنے والی اکسیر تریاقی ادو یات پائی جاتی ہیں ۔ لیکن ان سے وہی معالج پورے طور پر مستفید ہو سکتے ہیں جن کوعلم المفردات پر غیر معمولی عبور ہوتا ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ مفردادو یات سے جہاں پرفوائد یقینی ہوتے ہیں ، وہاں پر اس کے غلط استعمال سے کوئی نام نقصان عمل میں نہیں آتا۔ اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ علاج المفردات کو مقدم رکھا جانا افضل و احسن ہے۔ یہ بھی پڑھیں روغن ارنڈ کے 100 فوائد قدیم طب کا کمال اور مفردات کا تجزیہ قدیم طبوں کے قانون کے مطابق ہر مفرود وا چار ارکان اور کیفیات سے مرکب ہوتی ہے، ان کے علاوہ ہر دوا میں ارکان(طیف)یعنی ایسا مادہ جو کسی رکن کے اجتماع یا دیگر اراکین سے مل کر مادو اور جسم کی صورت اختیار کرلے اس کو عناصر ہی کہنا بہتر ہے۔ جس کو انگریزی میں ایلیمنٹ (Element) کہتے ہیں ۔ اس سے ہم ماڈرن سائنس کے بہت قریب ہو جاتے ہیں ۔ ارکان اور عناصر کا ہی فرق ہم نے اپنی کتاب مبادیات میں لکھا ہے۔ یہاں اس کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ارکان کو عناصر سے الگ خیال کیا جائے ۔یہی عناصر یعنی ارکان کا طیف یا اس کا مجتمع مادہ و غیرہ ارکان و کیفیات سے الگ اجزاء ہیں ۔ بس حکما ، واطباء نے ان عناصر کو ادویات سے جدا کیا ہے، بھی قدیم طبوں کا کمال ہے۔ قدیم طبوں کےکمال فن کی صورت یہ ہے کہ ان عناصری اجزاء کو جواد ویات میں پائے جاتے ہیں جد اکر کے علاج میں استعمال کیا ہے۔ گویا مفرد در مفروصورت پیدا کر لی ہے اور اس طرح ضرورت کے مطابق اجزا ئ موثرہ اور جوہرخاص استعمال کر کے فن طب قدیم میں کمالات کی صورت میں پیدا کی ہیں جو فرنگی طب میں بالکل نہیں پائی جاتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ کمال فن پیدا ہی نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ کیفیاتی اور مزاجی افعال و اثرات اور عناصر سے وہ بالکل واقف نہیں ہے۔
چھ نبض کل امراض
چھ نبض کل امراض نبض سے تشخیص امراض بہت پرانا فن ہے،یوں کہا جاسکتا ہے جب سے علم طب کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے، نبض سناشی کا ساتھ میں پتہ چلتا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا،موشگافیاں کی گئیں۔ لیکن حضرت مجدد الطب نے جامع ومختصر انداز میں سمجھا دیا۔ دریا بہ حباب اندر۔۔۔کی مثال صادق آتی ہے ۔یہ کتابچہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ بہت مفید ہے،سمجھنے میں آسان ہے۔ یہ بھی پڑھیں ( حکیم قاری محمد یونس شاہد میو )علاج میں بدرقوں کی حقیقت نئے طلباء کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے ۔راقم الحروف نے بھی اس پر ایک کتابچہ لکھا ہے۔ہماری کتاب۔۔تحریک ، امراض،علاج ۔۔میں اس پر مفصل بحث موجود ہے کتاب یہاں سے حاصل کریں
ہم کیسے آگے بڑھ سکاہاں؟ (میواتی زبان میں)
عید کا دنن میں میوات کا دو بڑان نے میرے ذمہ کام لگایا ہا۔ان مین سو ایک ۔پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحق صاحب ہاں،جنن نے گوت پال کا بارہ مین لکھن کی ذمہ داری لگائی ہی۔۔۔دوسرا بابائے میوات۔جناب عاصد رمضان میو ،ہاں جنن نے میواتی زبان میں ،کچھ لکھن کو حکم کرو ہو، ای لکھائی ععاصد رمضان والا مضمون میں سو ہے۔ای کتاب تو مکمل ہوگئی۔۔پروفیسر صاحب کو حکم بھی ایک آدھ دن میں پورو ہوجائے گو ہم کیسے آگے بڑھ سکاہاں؟ (میواتی زبان میں،پہلی قسط) حکیم قاری محمد یونس شاہد میو اللہ کو لاکھ لاکھ شکر ہے جانے ہم آزاد پیدا کرا۔اورسوسچن سمجھن کی تمییز دی اچھا بُرا پرکھن کو شعور دئیو۔جب تک قوم میں کائی بات کو جذبہ پیدا نہ ہووے ہے وا وقت تک آگے بڑھنو مشکل رہوے ہے۔ بہت سی قوم یا مارے تباہ و برباد ہوگئی کہ اُنن نے پہلان سو کچھ سبق لیئو نہ خود کوئی ڈھنگ کو کام کرو۔جب کوئی قوم نفع سو خالی ہوجاوے ہے تودنیا میں واکی کوئی جگہ باقی نہ بچے ہے۔وائے مٹے ای سرے ہے۔ قدرت کو نظام ایسو ہے یا میںحالات کے مطابق ڈھلتا جائوگا تو بچا رہوگا۔دنیا تم نے وا وقت تک یاد راکھے گی جب تک تم ان کی بھلائی کے مارے سوچتا رہوگا۔ہلکا پھلکا کامن میں لگا رہوگا۔ لوگن نے یا بات سو کوئی سروکار نہ ہے کہ تم کیسا دیکھو ہو۔ملوک ہو بُرا ہو۔مالدار ہو غریب ہو۔لمبا تڑانگ ہو۔یا ناٹا کھوٹا ہو۔لوگ تو یا بات اے جانا ہاں کہ اُن کے مارے تم نے کہا کرو ہے؟تم اپنے مارے کہا کچھ کرو ۔کائی یاکی کوئی پروا نہ ہے۔ البتہ تم دوسران کے مارے کہا کرو ای معنی راکھے ہے۔کائی نہ کائی کارنامہ کی وجہ سو ہم پہلان نے جاناہاں ۔ ان کو نام تاریخ میں یامارے لکھو گئیو ہے کہ اُنن نے قوم کے مارے اپنو سر دھڑ سو الگ کروائیو ہو۔ وے بظاہر تو یا دنیا میںسو چلا گیا ۔ لیکن ہمارا ہردان میں ابھی تک زندہ ہاں۔ کائی ان کو حلیہ یاد نہ ہے۔نہ ای پتو ہے کہ ان کا گھرن میں کھان کو دانہ بھی ہا کہ نہ۔ لیکن انن نے جو کام قوم کے مارے کرا۔قوم نے ان کی شاباشی میں ان کو نام گگن پے لکھ دئیو۔ ایک حدیث سُن لئیو۔حدیث تو لمبی ہے جو بات ہمارے مارے ہے وائے سن لئیو۔ ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه(التخريج : أخرجه أبو داود (3643)، والدارمي (344)، وابن حبان (84) ۔جو کام میں پیچھے رہو ۔وائے باپ دادا کو نام آگے نہ لے جاسکے ہے۔ جاکو سیدھو سو مطلب ای ہے کہ تم جو رول مچاتا پھرو ہو کہ ہمارا باپ دادا نوں ہا۔ ہمارو خاندان نوں ہو۔یہ بات سنن کی حد تک ٹھیک ہاں ۔لیکن عملی دنیا میں بے معنی سی بات ہاں ۔ جو بات حدیث میں بتادی جاوے ہے اُو کدی بھی بدلے نہ ہے۔نبی ﷺ کو کہو پھتر پے لکیر رہوے ہے۔ جو بھی یا بارہ میں اینک چیکن نے نکالا ہاں،کہ وانے نوں کہو ۔وانے نوں کرو۔اُو ایسو ہے ۔واکو کنبہ خاندان ایسو ہے۔یہ بات سٹیٹی فضول و ناکارہ ہیں ۔یا دنیا میں ان کی کوئی گنجائش نہ ہے۔ ضروری تو نہ ہے تم حسن خان میواتی کی طرح گھوڑا پے بیٹھ کے دشمنن نے کاٹتا پھرو۔ یا گھڑ چڑی میوخان کی طرح۔بندوق اٹھا کے حکومت کے خلاف کھڑا ہوجائو۔ وا وقت ایسا کرادارن کی ضرورت ہی۔تو اچھا لگے ہا۔آج کو ماحول الگ ہے۔ ضرورت الگ ہاں۔آج بھی قوم کی خدمت کری جاسکے ہے بلکہ اچھا طریقہ سو کری جاسکے ہے۔ اللہ نے اب تو بہت بڑا میدان دیدیا ہاں۔اگر ہمت سو کام لیو تو آج بھی حسن خان اور گھڑ چھڑی میوخان کی طرح قوم کی خدمت کری جاسکے ہے۔ تم کہا سمجھو ہو کہ وا وقت آپس کان نے اُن کی ٹانگ نہ کھینچی ہونگی۔ ان کا مخالف نہ ہونگا؟ایسی بات نہ ہے۔اُن کا مکالف تو اتنا گھنا ہاں،ہم تو سوچ بھی نہ سکاہاں ۔ان کی تو بغلن میں غدارن کی اور جاسوسن کی لین لگی رہوے ہے۔ ہم نے تو آپ اسیو کوئی خطرہ نہ ہے۔کہیں ایسو تو نہ ہے کہ ہم سوچ سوچ اے تھک گیا ہاں ۔ہم نے فرضی قسم کا دشمن کھڑ لیا ہاں ۔کہ یہ ہم نے کام نہ کرن دینگا۔ فلاں تو ہم نے دیکھ کے سہیاوے ای نہ ہے۔۔اُ سو کدی پوچھی ہے کہ ہمارا جو خدشات ہاں ۔ یہ سچا ہاں یا پھر ان کو کوئی وجود بھی ہے؟۔۔۔نوں ای سوچ سوچ کے تھکا پڑا ہو؟۔۔۔ جاری ہے
داستان زوال
داستان زوال۔ یہود کا زوال۔ تالمود اور عہد عتیق کے نگاہ میں کتاب یہاں سے حاصل کریں
مہیری سو پہلے۔یائے بانچ لئیو
مہیری سو پہلے۔یائے بانچ لئیو مہیری سو پہلے۔یائے بانچ لئیو حکیم المیوات۔۔قاری محمد یونس شاہد میو میواتی قوم اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب راکھے ہے ،جیسے دوسری قومن کا طور طریقہ رہن سہن اور رسومات زندگی رہوا ہاں میو قوم کائی سو کم نہ ہے۔ ہر قوم کا پکوانن (کھانان) میں کچھ پکوان ایسا رہوا ہاں جو قوم کی شناخت بن جاواہاں، جب بھی وا پکوان کو نام لیئو جائے گو تو ترتت وا قوم کا خیال دماغ میں گھوم جائے گو ۔ وے کھانا چاہے پوری دنیا میں کھایا جاواں لیکن ان کی نسبت ایک خاص قوم کا مہیں کری جاوے ہے جیسے تلبینہ کونام لیتے ای عربن کو خیال آوے ہے۔سجی کو نام سنتے ای بلوچ قوم سامنے آوے ہے۔ کابلی پلائو سامنے آتے ای افغان لوگن کو موہکڑو دکھائی دیوے ہے۔ ایسے ای جب مہیری کو نام لئیو جائے گو تو میو قوم کو مہکڑو آگے آجائے گو۔ جب قدرت کائی قوم یا آبادی سو کام لینو چاہوے ہے تو واکی عادات واکا خصائل اور واکا کھان پین اے ایسا انداز میں ان کا ذہنن میں پکو کرکے بٹھا دیوے ہے وے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی یاسو پونچڑو نہ چھڑا سکا ہاں۔۔ ای بات نہ ہے کہ مہیری صرف میواتی لوگن کی خوراک ہی ۔بلکہ حقیقت ای ہے کہ میوات کا طول و عرض میں جتنا لوگ ،دوسری قومن کا رہوے ہا ،سب یائے اپنی خوارک کو حصو مانے ہا۔ممکن ہے مہیری اور میو میں کوئی خاص تعلق ہوئے ۔محقق لوگن نے یا بارہ میں ضرور کھوج کرنی چاہے۔بہت سا راز کھل کے سامنے آنگا۔ سوچن کی بات ای ہے کہ:جو: ساری دنیا میں کھائی جان والی جنس ہے۔ کوئی قوم ایسی نہ ہے جانے جو نہ کھایا ہوواں،لیکن مہیری کو فن اللہ تعالیٰ نے صرف میون کو دئیو ہو ۔ عرب لوگ یائی جو کا دلیہ سو تلبینہ کہوے ہا۔تلبینہ کوئی ایسی چیز نہ ہے جا کا موجد مسلمان ای ہوواں۔ ای تو ہزاروں سال پرانی پرم پرا، ہی جو طلوع آفتاب اسلام تک باقی رہی، جو عرب مسلمان ہویا نبیﷺ کی یاری دوستی میں ایمان لایا،ای تلبینہ ان کی بھی خوراک بنو،یاکو ذکر حدیثن میں آئیوہے یا مارے ہمارا سر ماتھا پے۔ تلبینہ کو اپنو طریقہ ہے۔لیکن طبی لحاظ سو جو فوائد مہیری کا ہاں، اُن کی بات ای الگ ہے کیونکہ یاکو طریقہ ساخت تلبینہ سو بہت الگ اور جدا گانہ ہے۔ ہم نے یا بات کی پکی نہ ہے کہ مہیری سب سو پہلے میون نے خود بنائی ہی یا کہیں سو سیکھ کے آیا ہا؟ لیکن مہیری اور میو الگ الگ نہ ہوسکاہاں۔ مہیری اور میو کی جوم۔ تاریخ کا پنا میون کی دلیری اور جنگن سو اٹا پرا ہاں۔کوئی بھی لکھاری ایسو نہ ہے جانے میون کی بہادری کو ذکر نہ کرو ہوئے۔ ۔لڑائی بھرائی۔بڑا بانکان کے سامنے لٹھ ٹھونک کے کھڑو ہوجانو معمولی سی بات ہی۔ جب سو میون کا ذکر تاریخ میں ملے ہے جنگجو طبیعت کامالک ہونا کی سبن نے تعریف کری ہے۔یاکی بہادری کا گن گایا ہاں ۔”ای بات ہم کائی اور جگہ کے مارے اٹھالیرا ہاں۔جب بھی یاپے لکھو جائے گو تو پڑھن والان نے سواد آجائے گو۔” لکھن والان نے اپنا مہیں سو،سیکڑوں عیب لکھا ہووا ں،ڈھونڈ ڈھونڈ کے عیب نکالا ہوواں ۔ یائے بھی پڑھو محافظ اراؤلی لیکن الحمد اللہ میں آج بھی یا بات اے فخر سو کہہ سکوں کہ میری میوقوم میں کوئی غدار پیدا نہ ہویو ۔ باقی عیب ثواب زندگی کا حصہ ہاں۔میو وعدہ کو پکو زبان کو سچو ۔کام کو کھرو ۔ اور قوت بازو کا بل بوتا پے زمین کی چھاتی میں اناج نکال کے پیٹ بھرنو،یاکی چمکتی اور نرالی صفات ہی۔ یا جفاکشی نے لوگ غلام ہون سو بچایا۔رکھی سوکھی کھاکے اپنی نسل باقی راکھی۔دشمنن سو ایسا بھڑا کہ ان کا دانٹ کھٹا کردیا۔ جب کائی چیز اے حق سمجھ لیوے ہا تو واپے جان دینو معمو لی کام سمجھے ہا۔ یائے بھی پڑھو بانٹوگا تو بڑھو گا اگر کوئی درباری نمک حلالی کا چکر میں میون سو ابے تبے کرے اور کھسیانان کی طرح ان سو ناذیبا الفاظ کہے تو۔ ہم وائے معذور سمجھاہاں کیونکہ ایک درباری لکھاری کہا جانے آزاد قومن نے شان کہا رہوے ہے۔ دستور ہے جاکو کھائے واکو گائے۔اگر ایک آدھ فرشتہ جیسا جو نمک حلالی کا چکر میں قوم کا اصلی جوہر مرادنگی اے بھول کے کچھ کا کچھ لکھ گیا۔ لیکن ایک بات تو ہے کہ میو قوم یا قابل تو ہی کہ یاکو ذکر تاریخن میں کرو جائے۔ بات ہوری ہی مہیری اور میو کی جوم کی۔تو یاکو سبب جہاں فطری انداز میں زندگی گزارنو ہو وائی تھاں جوکو بطور غذا استعمال بھی ہو۔ ابھی تک بڑا بوڑھا ہم نے ایسا دیکھا ہاں کہ بڑا سو بڑا دکھ اور تکلیف اے ویسے ای گام جاوے ہا۔رونو ،دھونو۔واویلا کرنو میو مردن کی شان کے خلاف ہو۔ حالانکہ دکھ تو دکھ رہوے ہے۔کچھ دکھ تو ایسا بھی رہوا ہاں جو کلیجہ اے تار تار کردیواہاں۔ لیکن یاکے باوجود میو بزرگن کو انداز ایسو ہو کہ غم کا گھونٹ اے ایسے پیوے ہا کہ کائی نوں ای پتو نہ چلے ہو کہ یاکو کوئی غم اور دکھ بھی پہنچو ہے۔ ای حقیقت ہے یا میرو مشاہدہ۔یائے تو پڑھن والا بڑا لوگ ای بتانگا کہ میرو مشاہدہ کہاں تک ٹھیک ہے۔ اصل بات کا مہیں آواں۔جب میں نے میو قوم کی بہادری اور مرکھنا پن کی تاریخ پڑھی تو بہت ملوک لگو دلسو الحمد اللہ نکلو۔ لیکن یائی پے بس نہ کرو میں نے کھوج کُرید کرو میو قوم اتنی بہادر کائی کو ہی؟ جب میں نے انکی اور عربن کی خوراک کو خوراک کو موازنہ کرو تو ایک بات دونوں کی سانجھی ہی کہ دونوں خوراک “جو”کو استعمال ہو،جو بھی قوم جو کھائے گی وامیں بہادری کا جراثیم پیدا ہون لگ جانگا۔ بہتر تو یہی ہے کہ ہم یا بات اے قران و حدیث سو ثابت کراں نہیں تو میو آج کال پڑھ لکھ گیا ہاں۔ جوتان سمیت چڑھ دوڑنگا۔یاجگہ دو باتن کو ذکر مناسب ہے،۔ (1)بہادری۔ جب تک میو مہیری کھاتا رہا ان کا لٹھ موڑھان پے رہا۔جب سو انن نے مہیری چھوڑی ہے ۔لٹھ تو رہو ایک
کس جانور کا گوشت کس قسم کے مریض کے لئے مناسب ہے صٖفائی سے متعلق کچھ احتیاطی تدابیر۔
کس جانور کا گوشت کس قسم کے مریض کے لئے مناسب ہے صٖفائی سے متعلق کچھ احتیاطی تدابیر۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو عبد قربان کے موقع پر اہل اسلام حسب توفیق جانور وں کی قربانیاں کررہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے گھر میں پالے ہوئے جانور ذبح کرنے ہیں کچھ مول لیکر اس سنت کو ادا کریں گے۔اہل سلام جانوروں کا گوشت بڑی رغبت و شوق سے کھائیں گے۔لیکن کھانے والوں میں کچھ لوگ مختلف امراض میں مبتلا ہونگے۔کچھ مزاجی لحاظ سے کسی نہ کسی گوشت سے الرجک ہونگے۔اس جگہ ہم کچھ اشارات دے رہے ہیں تاکہ مزاج کی مناسبت سے گوشت کا استعمال کیا جاسکے۔ یہ بھی پڑھیں ہم قربانی کے ثمرات سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ اورہم قربانی کیوں کرتے ہیں جولوگ سوداوی امراض جیسے قبض بواسیر۔جوڑوں کا درد ،یورک ایسڈ اور پٹھوں کے کھچائو میں مبتلاء ہیں انہیں گائے۔کٹے وچھے کا گوشت استعمال نہیں کرنا چاہئے،بالخصوص جس سالن مین مرچ مصاکحہ زیادہ ڈالا گیا ہو۔اس کا کھانا تکلیف میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔اس لئے بڑا گوشت سوداوی امراض،یا سوادوی مزاج والوں کو نہیں کھانا چاہئے۔اگر کھائےیں تو سبزی وغیرہ میں ڈال کر شوربہ والی ہانڈی بنا کر کھائیں۔ادرک۔لہسن۔کالی مرچ۔اور زیرہ سفید کا زیادہ استعمال کریں۔ جن لوگوں کو اعصابی علامات ہیں۔انہیں بکرے کا گوشت کھانے سے احتیاط کرنے چاہئے۔اگر استعمال کرنا بھی ہوتو۔لونگ۔ دار چینی ادرک،سرخ مرچ ڈال کر سالن بنائیں۔ جن لوگوں کے جسم میں اکڑائو ہے وہ بکرے چھترے کی یغنی بنا کر پی لیا کریں۔ یہ بھی پڑیں عید ٹپس۔۔کونسا گوشت کس کے لئے مفید ہے جن لوگوں کو گوشت ہضم نہیں ہوتا۔یا انہیں قبض۔دست۔لوز موشن کی شکایت کا خطرہ ہوتو اسیے لوگ سوپ یا پھر یخنی بنا کر فوائد حاصل کرسکتے ہیں ۔ تیز مرچ مصالحے بالخصوص بازاری فیلور کا استعمال نہ کریں۔گوشت میں شوربہ رکھیں۔اور مناسب وقفے سے کھائیں۔ سلاد کھیرے۔ٹماٹر۔بند گوبھی۔لیموں وغیرہ ساتھ میں استعمال کریں جب تک پپیٹ میں گنجائش نہ ہوجائے دوبارہ مت کھائیں ۔بچے رہے تو پھر مل جائے گا ۔ہسپتال چلے گئے تو ڈرپوں پر گزارا کرنا پڑے گا۔ گوشت بنانے میںصفائی کا خاص خیال رکھئے۔ذبح ہونے کے بعد جانور کو ٹھنڈا ہونے دیجئے۔اس سے لذت و صحت میں اضافہ ہوجائے گا۔ گوشت تازہ حالت میں استعمال کیجئے۔ اگر صفائی تسلی بخش ہوئی ہے تو گوشت کو زیادہ دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ گوشت کو جتنا زیادہ دھویا جائے گا انتی دیر میں گلے گا۔ اچھی طرح پکائیں کہ بوٹیاں انگلیوں کے دبیانے سے کھلنے لگیں۔ میری طرف سے 2022 کی عید ممبارک ہو گندگی مت پھیلائے۔فضلات کو مناسب مقامات پر ڈالئے۔۔سرکاری اہلکاروں سے تعاون کیجئے۔ گندگی سے تعفن بڑھے گا۔موسم بھی برسات کا ہے۔ایسے میں فضلات فضاء متعفن کوکرکے امراض کا سبب بن سکتے ہیں کس جانور کا گوشت کس قسم کے مریض کے لئے مناسب ہے صٖفائی سے متعلق کچھ احتیاطی تدابیر۔
عید ٹپس۔۔کونسا گوشت کس کے لئے مفید ہے
عید ٹپس۔۔کونسا گوشت کس کے لئے مفید ہے ان ہدایات پر عمل کرکے عید کے لطف کو دوبالا کریں حکیم قاری محمد یونس شاہد میو اللہ تعالیٰ سب کو صحت و تندرستی دے۔اگر کوئی صاحب گوشت کی بوٹیاں کھانے سے تکلیف میں مبتلاء ہوجاتے ہوں تو یخنی بنا کرپی لیا کریں ۔یہ زود ہضم اور جسم میں جذب ہونے والی۔اور خفیہ طاقتوں کو بیدار کرنے والی اور جسم کی ناطاقتی کو زائل کرنے والی ہوتی ہے۔ کمزور لوگ یخنی کا استعمال کریں۔بوٹیاں پلائو کے لئے محفوظ کرلیں۔زیرہ سفید۔کالی مرچ۔ادرک وغیرہ مناسب مقداع میں شامل کرلیں۔کوشش کریں کہ گوشت میں سرخ مرچ کم استعمال کریں. گوشت شوربے والا پکائیں یہ طریقہ زیادہ فائدے مند ہے (1) ہار مونز سے متاثر خواتین ،جن کے نلوں میں درد رہتا ہو۔ماہواری میں بے قاعدگی ہو۔سانس چڑھتا ہو۔ہاتھ پائوں بے جان رہتے ہوں انہیں گوشت میں ( ادرک+ لہسن+ہلدی+کالی مرچ دھنیا + پودینہ کا استعمال زیادہ کریں ،سرخ مرچ اور دیگر مصالحہ جات کا استعمال برائے نام کریں۔ (2) گوشت کھانے سے اگر بلڈ پریشر بڑھے تو ( سونف + زیرہ سفید+ الائچی سبز) کا قہوہ پی لیا جائے۔بالخصؤص ایسی ترکیب جس میں پانی کم استعمال ہو اور چٹخارہ زیادہ ۔کیونکہ بھنا ہوا گوشت گردوں کے لئے آفت ہوتا ہے۔ ایسےبلڈ پریشرکے مریض جن کا پیشاب جل کر۔قطروں کی صورت میں بار بار آتا ہو (3) گوشت کھانے سے جسم پر دھپڑ نکل جائیں تو فورا ( گلاب کی پتی + زیرہ سفید+ الائچی سبز + سونف + ثابت دھنیا) کا قہوہ لیں۔یہ الرجی کی وجہ سے ہوتا ہے۔جس میں صفرا زیادہ مقدار میں جمع ہوجاتا ہے۔جب وہ جسم کے نرم حصوں میں پہنچتا ہے تو ہلکی سی خارش ہوتی ہے اور جسم پر سرخ درپھڑ نمودار ہوجاتے ہیں۔اس لئے وہ اشیاء کھانی چاہیئں جو صفرا کو خارج کرکے جسم میں اعتدال پیدا کردیں۔مذکورہ بالا اشیاء میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ جسم سے فالتو صفرا کو خارج کرکے خون میں اعتدال پیدا کرتی ہیں۔ (4) گوشت کھا کر اگر بدہضمی پیٹ دردہو تو ( اجوائن دیسی + پودینہ+ تیز پات) قہوہ لیں۔گوشت کی تیاری کے وقت اگر لہسن کا زیادہ استعمال کرلیا جائے، زیرہ سفید،کالی مرچ مناسب مقدار میں شامل کرلی جائیں تو کھانا زود ہضم بن جاتا ہے۔ (5) گوشت کھا کر اگر لوز موشن متلی ہونےلگے تو ( لونگ + دار چینی + لیمن چند قطرے) کا قہوہ پی لیں۔اسہال یا دست اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب طبیعت مدبرہ جسم سے فالتو چیز کو خارج کرتی ہے۔یاد رکھئے۔دست اور پیچس میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔دست بغیر بتلائے کپڑے خراب کردیتے ہیں جب کہ پیچس میںمواد کم نکلتا ہے لیکن مروڑ زیاہ محسوس ہوتے ہیں۔جسے پنجابی میں وٹ پھرنا کہتے ہیں۔یہ والا نسخہ اسہال/دستوں میں مفید ہوتا ہے پیچس میں اس کے اس طرح کے فوائد نہیں ملتے۔ (6) گوشت کھا کر اگر پیچش ہو تو ( ہلدی + ملٹھی + سونف) یا ( سونف + زیرہ سفید + ہلدی۔دھنیا خشک) پوڈر کرکے کھا لیں۔میں جو نسخہ برسوں سے استعمال کررہا ہوں اس کے اجزائے ترکیبی میں۔سونف۔ہلدی۔ملٹھی۔دھنیا خشک۔ہیں۔یہ صفراوی امراض میں کمال کی چیز ہے۔جس موشن میں مروڑ ہوں۔بھوک بند ہونا۔اپھار کی صورت پیدا ہوجانا وغیرہ میں کام کی چیز ہے۔جس گوشت کی تیاری میں چٹخارہ کا خصوصی خیال کیا جائے ۔اس کے استعمال سے جب تک طیعت برداشت کرے ۔کچھ نہیں جیسے ہی طبیعت مدبرہ عاجز آتی ہے۔اورگردے خون کی صفائی سے عاجز آجاتے ہیں تو طبیعت فالتو مواد کو خارج کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ (7) گوشت کھا کر اگر پائلز(بواسیر) خونی شروع ہو جائے تو ( زیرہ سفید + سونف + گلاب کی پتی + ) کا قہوہ 2 چٹکی ہلدی پھانک کر قہوہ پی لیں۔دنبہ بکرا چھترا ۔اونٹ کے گوشت سے بواسیر کا خون نہیں آتا بلکہ یہ گوشت تو بواسیر کے لئے نافع ہیں،بالخصوص اونٹ کا گوشت تو بواسیر کو ختم کردیتا ہے۔کٹے کا گوشت اور گائے کا گوشت کھانے سے بواسیری لہوجاری ہوسکتا ہے۔ایسی عورتیں جنہیں تازہ حمل ہوا ہو، وہ بھی کٹے وچھے کا گوشت بقدر ضرورت ہی کھائیں۔انہیں اسقاط حمل کی شکایت ہوسکتی ہے،کیونکہ یہ دونوں گوشت جسم میں سوداویت یعنی خشکی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ جسم میں خشکی جب حد اعتدال سے بڑھ جائے تو اجرائے حیض کا سبب بن سکتے ہیں۔ (8) گوشت کھا کر اگر ( ادرک + پودینہ+ اجوائن دیسی)کا قہوہ معمول سے لیا جائے تو بدہضمی ،بری ڈکاریں،معدہ کا درد ،اپھارہ، لوز موشن وغیرہ سے محفوظ رکھے گا۔اگر اس میں سونف کا بھی اضافہ کرلیا جائے تو نتائج بہتر ہوسکتے ہیں۔ضروری نہیں کہ قہوہ بناکر ہی پیا جائے آپ ان اجزاء کو باریک پیس کر پھکی بھی تیار کرسکتے ہیں۔ (9) گوشت کھا کر اگر مسوڑھوں پر ورم آجائے دانت درد کریں تو ( نمک + سونٹھ + سرسوں کے تیل سے لیپ) تیار کر کے دانتوں مسوڑوں پر ملا جائے تو سکون حاصل ہوتاہے (10) گوشت کھا کر اگر قبض ہو تو ( منقیٰ 8/10دانے) آدھے کپ پانی میں ابال کر منقیٰ کھالیں اور پانی پی لیں انشاءاللہ قبض رفع ہو جائے گا۔(11) چھوٹے بچوں کو گوشت کے ساتھ صرف( پودینہ + زیرہ سفید + سونف + بڑی الائچی کا قہوہ دیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گوشت کے فوائد و خواص MEAT ماہرین تغذیہ نے گوشت کو بطور غذا و دوا مفید قرار دیا ہے۔ اس کی تاثیر گرم تر ہے۔ یہ جسم انسانی میں خون اور گوشت بڑھاتا ہے۔ بادی دور کرتا اور طاقت بخشتا ہے۔ بدن کو موٹا اور جسم میں چربی پیدا کرتا ہے۔ البتہ اس کا کثرت سے استعمال دماغ کو کند کر دیتا ہے۔ جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گوشت کے اجزائے ملحمہ یعنی گوشت و خون پیدا کرنے والے اجزا چربی، نمک اور پانی پر مشتمل ہیں ۔ چربی میں وٹامن ’’اے‘‘ پایا جاتا ہے جس سے ہڈیوں کو غذا پہنچتی ہے۔ اجزائے ملحمہ کی مقدار زیادہ ہونے کے باعث یہ غذائیت بخش ہے۔ تاہم گوشت زیادہ کھانے سے گردوں میں یورک ایسڈ کی جو زیادتی ہو جاتی ہے، گردے اسے بآسانی خارج نہیں کر سکتے۔ گوشت بدن میں صفرا زیادہ کرتا ہے۔ ازحد گوشت خوری سے مثانے اور گردے کے امراض