دبیلہ معدہ(معدہ کی رسولی) دبیلہ معدہ(معدہ کی رسولی) حکیم قاری محمد یونس شاہد میو بعض اوقات معدہ میں ایک طرح کا ورم پیدا ہوتا ہے جسے عموماََد بیلہ کہتے ہیں، میں نے ایک شخص کواس مرض میں مبتلا دیکھا۔ اس وقت وہ پورا جوان تھا۔ اس کی قوت اوسط درجہ کی تھی۔ اور اس کا مزاج حاریا بس تھا۔ وہ بہت زیادہ کھاتا تھا اور مجامعت کا بہت زیادہ شائق تھا، جس کے نتیجے میں اس کے جسم میں اور اس کے گوشت میں اضمحلال پیدا ہوگیا۔ اس کے باوجود جتنا پہلے کھانا تھا کھا لیا کرتا تھا۔ پھر بھی وہ بخار میں مبتلا نہیں ہوتا تھا۔ اور اس کی غذاپورے طور پرہضم ہو جاتی تھی ۔ اپنی غذاؤں کے تحفظ اور انہضام کے سلسلے میں وہ اطباء کی بات نہیں مانتا تھا۔ بالآخروہ مرض میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا چلنا پھرنا بند ہو گیا۔ لوگوں نے اس کی مجھے اطلاع دی۔ میں اس سے پہلے سے ہی متعارف تھا۔ اس وجہ سے میں ایک زمانہ تک اس کا علاج کرتا رہا، جب تک وہ میرے مشورے پر چلتا رہا اس کی صحت بھی کسی قدر درست ہوگئی ۔ لیکن جوں ہی اس نے مجامعت شروع کی، اس کا حال خراب ہوگیا پھر اسے متواتر حرارت رہنے لگی ۔ جو ایک طرح کاحمی دق تھا۔ ایک زمانہ تک اس حمی کا دورہ باری باری رہنے لگا۔ اور بعض اوقات بغیر نوبت کے بھی بخار آ جانا تھا۔ اور جب وہ غذا لیتا تو دیر تک معدہ میں غذا باقی رہتی ۔ اور اس کی نبض میں صلابت بھی گئی ۔ اس کونہ جلد شفایابی ہوتی اورنہ بتدریج ہی شفا کے آثار نمایاں تھے۔ اس کے نتیجے میں اس کے اسفل معدہ میں ورم کا ابھار ظاہر ہونے لگا۔ یہ بھی پڑھیں وضو اور مسواک کے روحانی و طبی فوائد ۔ مجامعت شروع کرنے کے کچھ ہی دنوں بعد میں نے دیکھا کہ وہ ورم نمایاں طور پرسفرجل سے بھی بڑا معلوم ہوتا تھا۔ اسے دست آنے لگے ،کچھ ہی دنوں بعد و ہ ہچکیوں میں مبتلا ہو گیا۔ آخر کار شدید اعراض لاحق ہونے کی وجہ سے وہ موت کی آغوش میں جا پہنا۔ اس قسم کے حالات یعنی انحلال قوت اورمسلسل غشی کے باوجود بھی اس کا درم نہیں پھٹا۔ مجھے اس پر تعجب ہے کہ اس کا ورم کیونکر اس حد تک بڑھ گیا۔ اور وہ زندہ رہا۔ یقینا یہ بات محض اس وجہ سے تھی کہ وہ ورم سوداوی تھا۔ اور ایسا سوداوی جوبلغم کی انتہائی غلظت کی وجہ سے ظاہر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلط کے موجود ہونے کے با وجود ورم میں کوئی درد نہیں تھا۔ اورنہ اس میں کسی طرح کا تعفن تھا لیکن اس کی موت اس وجہ سے ہوئی تھی کہ استحالہ کی بعض ابتدائی خراب صورتیں شروع ہوگئی تھیں ۔ کیوں کہ کسی شے کے اثرات اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب اس کے اندر کسی طرح کی تحریک پیدا ہوتی ہے خواہ وہ نقل و حرکت کی ہویا کوئی دوسری صورت.
ورم اذن۔(کان کا ورم)
ورم اذن۔(کان کا ورم) ورم اذن۔(کان کا ورم) کتاب التیسیر فی المداوۃ التدبیر ابو مروان عبد الملک ابن زہر۔ (1092تا1162ء۔۔484۔557ھ) حکیم قاری محمد یونس شاہد میو کبھی کان میں بھی ورم لاحق ہو جاتا ہے ۔ ورم شروع ہونے کے فورا بعد فصد فیفال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لطیت غذائیں بھی دی جانی چاہئیں رو غن گل اورروغن ژبت دونوں کوملا وقفہ وقفہ سے اعتدال کے ساتھ کان میں ٹپکائیں ۔ ماء الشعیر یابھگوئی ہوئی روٹی تنہایاککڑی یا کھیرے کے گودہ یا انگور کے سرکہ کے ساتھ یا سکنجبین پانی میں ملاکر استعمال کرائیں ، یہاں تک کے اعراض دفع ہوجائیں۔ اگر ایسا نہ ہو اور ورم میں پیپ پڑ جائے تو اس سے صحت یاب ہونا آسان ہے لیکن اگر دردشدید ہوجائے اور اس درد کی شدت سے یاتشنجی دوروں سے مریض کے مر جانے کی توقع ہو تو یہ ضروری ہے کہ روغن بیضہ مرغ کان میں ٹپکائیں اس سے درد میں فوری سکون حاصل ہوگا اور جلد ہی پیپ خارج ہوجائے گی ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں جوان تھا اس وقت مجھے علی ابن یوسف غفرلہ نے قرطبہ میں بلایا تھا اس کے اندرون کان میں ورم تھا جب میں عصر کے وقت پہنچا تو اس در دمیںاس قدر ……………………..30…………… شدت پیدا ہوگئی تھی کہ شدت درد سے وہ موت کا متمنی تھا، خواہ اس کو قتل ہی کیوں نہ کیا جائے کیونکہ ورم کا مقام کان کے آخری حصے میں تھا جہاں عصب سامع (حس سماعت کا عصب کا اتصال ہوتا ہے اور اس کے ساتھ خفیف تشنج بھی شروع ہوگیا تھا۔ میں نے اس کے کان میں نیم گرم روغن بیضہ مرغ بھر دیا اور بہت دیر تک اسی حال میں چھوڑ دیا نتیجتادرد میں سکون ہوگیا اور دو تین گھنٹے کے بعد ورم پھٹ کر پیپ خارج ہوئی پھر میں نے تجویز کیا کہ ماء العسل سے اس زخم کو دھويا جائے، اور شہد میں پانی ملانے سے پہلے اس پانی میں جفت بلوط رقیق اور اذناب الخیل ڈال کر پکالیا جائے میں مریض کے کان کو مرغی کے پیر کے نرم سرے سے بتی بناکر دھویا کرتا تھا۔ اور کان میں جو بھی پیپ ہوتی دن میں ایک یا دو مرتبہ ا س کو صاف کر دیا کرتا تھا۔ اس طرح پیپ چار روز میں صاف ہوگئی ، اور صحت حاصل ہوگئی۔ یہ واقعہ میں نے بطور مثال قروح الاذن کے بیان میں لکھا ہے ۔ کان کے اورام جوہر اذنی کےسخت ہونے کی وجہ سے رقیق وحادخلط کے بغیر بہت کم پیدا ہوتے ہیں نیز اس کے اندر غلیظ الجوہر خلط کو قبول کرنے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے ۔ البتہ بعض اوقات رقیق بلغم مائی کو قبول کر لیتا ہے ۔ اس امر کی تشخیص کان کے درد کی شدت سے کی جاسکتی ہے۔ جو رفیق خلط صفراوی کے سبب سے ہوتا ہے۔ اگر خلط مائی رقت اس کا سبب ہوتوطنين ربھنبھناہٹ) پائی جائے گی۔ تقل سماعت ہر دو اسباب میں برابر ہے نیزمائیت کی صورت میںثقل سماعت واضح ہوتا ہے ۔ بعض اوقات در دگوش کا سبب غلط کے بجائے جوہرگوش میں مجتمع بخارات ہوتے ہیں ۔ لہذاشحم برک یاشحم مرغابی یا شحم میناجوعصقور الزیتون نام سے مشہور ہے ، یا روغن بابونہ با روغن شبت وغیرہ جو بھی میسر آجائے اس کے دو تین قطرے کان میں ٹپکائے جائیں تو یہ تکلیف رفع ہو جائے گی ۔ ان سب کا سہل علاج یہ ہے کہ مریض کو لطیت غذائیں دی جائیں اور گوشت سے پرہیز کرائیں خصوصیت سے طنین (کان کے اندر بھنبھناہٹ )کی صورت میں ان اشیاء سے پرہیز ضروری ہے جن میں رطوبت فضلیہ ہو اور ایسی اغذیہ بالخصوص استعمال کرائی جائیں جن کا جوسر لطیف ہو اور ان میں تجفیف کی خصوصیت زیادہ ہو۔
سیرت پر اختلافی پہلو
سیرت پر اختلافی پہلو سیرت پر اختلافی پہلو حکیم قاری محمد یونس شاہد میو پیدائش نبیﷺ کی پیدائش کے بارہ میں مورخین و محدثین کا ہمیشہ اختلاف رہا ہے ،اس کی تاریخی تعین میں اقوال مختلفہ نقل ہوتے آتے ہیں ،سیرت نگاروں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے مگر محقق کے لئے آج بھی اس میں بہت سے ایسے پہلو دکھائی دیتے ہیں جن پر تدبر کی گنجائش باقی ہے ،حضرت عبد اللہ اس جہان فانی سے اس وقت کوچ فرماتے ہیں جب آج شکم مادر بھی تھے[السیرۃ النبویہ ابن ہشام ص۲۹۴ج۱] ،اس وقت آپ کی عمر کیا تھی اس میں بھی اختلافی اقوال پائے جاتے ہیں ،کیونکہ جو کام [نبوت] بعد میں پیش آیا اس وقت کسی ذہن میں بھی نہ تھا البتہ بہت سے ارہاصات کتابوں میں لکھے ہوئے ملتے ہیں دلائل کی کتابیں اس سے بھر پور ہیں،محمد بن اسحق کہتے ہیں نبیﷺ کی ولادت مبارکہ پیر کے دن ہوئی جب کہ ربیع الاول کی بارہ راتیں گذر چکی تھیں ،آگے چل کر قیس بن مخرمہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺدونوں عام الفیل میں پیدا ہوئے ،آ پ ﷺ جس مکان میں پیدا ہوئے اسے دار یوسف کہا جاتا ہے ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مکان آپﷺنے عقیل بن ابی طالب کو ہبہ کیا تھا [السیرۃ النبویہ ابن ہشام ص۲۹۴ج۱] ؛اور مورخ طبری کہتے ہیں کہ حضرت آمنہ کہتی ہیں جب میں حاملہ ہوئی تو مجھے کہا جاتا تھا ،کہ آپ نے اس امت کے سردار کو اٹھایا ہوا ہے،اسے خدا کی پناہ میں دیدو ہر حاسد کے حسدسے اور اس کا نام محمد رکھنا ،اسی دوران مجھے ایک روشنی محسوس ہوئی جس میں نے بصرہ کے محلوںاور شام کی زمین کو دیکھا ،ایک عورت کہتی ہیں ولادت کے دن میں میں آمنہ کے پاس تھی میں نے محسوس کیا کہ ستارے اتنے قریب آئے ہیں گویا گراہی چاہتے ہیں [تاریخ طبری ص۴۵۴ج۱] پیر والی روایت کو صاحب مجمع الزوائد نے بھی ذکر کیا ہے [مجمع الزوائد ص ۰ ۲۲ج۸]اور باب التاریخ میں لکھتے ہیںحضرت ابن عباس کہتے ہیں نبی کریم ﷺ پیر کے دن پیدا ہوئے[مجمع الزوائد ص۱۹۶ج۱] اسی دن مکہ سے ہجرت فرمائی ،اسی دن مدینہ میں داخل ہوئے،طبرانی کبیر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ بدر کی فتح ،سورہ مائدہ کا نزول بھی پیر کے دن ہی ہوا[مجمع الزوائدص۱۸۷ج۱]طبرانی کبیر میں ہے ،ابن عباس کہتے ہیںنبیﷺ پیر دن پیدا ہوئے پیر کے دن ہی وحی نازل ہوئی اور پیر کے دن ہی آپﷺاس دنیا سے پردہ فرماگئے [،معجم کبیر طبرانی ص۸۵ج۱۱]ابن کثیر فصول السیرہ ص۹۷]پر لکھتے ہیں نبیﷺپیر کے دن جب کہ ربیع الاول کی دو راتیںاور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ راتیں،کچھ نے دس راتیں کسی نے بارہ راتیں کہا ہے کہ ربیع الاول کی گذر چکی تھیں،پیدا ہوئے اور زبیر بن بکار نے کہا ہے کہ آپﷺ رمضان میں پیدا ہوئے یہ شاذ قول ہے ،جیسے سہیلی نے روضہ میں نقل کیا ہے ،اسی طرح عام الفیل میں واقعہ سے پچاس دن یہ بھی کہا گیا ہے کہاسی دن کہا ہے،اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے دس سال بعد،کچھ تین سال بعد کی روایت کرتے ہیں اور کچھ چار سال کا کہتے ہیں اور اسی روایت کو صحیح کہا ہے[فصول السیرہ ] صفوۃ الصفوہ ص۵۲ج۱]میں ہے کہ ،یہ اتفاقی بات ہے کہ رسول اللہ ﷺپیر کے دن ربیع الاول کے مہینے عام الفیل میں پیدا ہوئے،ہاں اس بات میں اختلاف کہ ربیع الاول کے کتنے دن گذرے تھے ،اس بارہ میں چار قول ہیں دوراتیں/آٹھ راتیں/دس راتیں/بارہ راتیں گذری تھیں …صفوۃ الصفوہ ص۵۲ج۱از عبد الرحمن بن علی بن محمد ابو الفرج المتوفی۷ ۹ ۵ ھ]اسی طرح روایات میں آتاہے کہ جب نبیﷺسے پیر کے دن کے روزہ کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا اس دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی اتری[مسلم الصیام۱۹۷۸،ترمزی الصوم۶۹۸،نسائی الصیام۲۳۴۱،ابن ماجہ الصیام احمد]یعمر بن لیث سے پوچھا گیا تم بڑے ہو یا نبیﷺ؟تو کہنے لگے نبیﷺ مجھ سے بڑے ہیں لیکن پیدایش میں میں بڑا ہوں نبیﷺ عام الفیل میں پیدا ہوئے،مجھے میری ماں [لشکر کی جگہ] لیکر گئی میں نے پرندوں کے نشانات دیکھے[ترمزی المناقب،احمد الشامیین ]
مزاج اور بیماری کے اسباب
مزاج اور بیماری کے اسباب مزاج اور بیماری کے اسباب حکیم قاری محمد یونس شاہد میو قدیم یونانی طب کو عقلی، اخلاقی، اور شعوری مشاہدے، سیکھنے اور تجربے پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔ توہم پرستی اور مذہبی کٹر پرستی کو اکثر قدیم یونانی طب کی تفصیل سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ طب کے بارے میں یہ عقلی نقطہ نظر ہمیشہ قدیم یونانی طبی لفظ میں نہیں پایا جاتا تھا، اور نہ ہی یہ شفا یابی کا واحد عام طریقہ تھا۔ عقلی یونانی طب کے ساتھ ساتھ، اس بیماری کا بھی ایک مافوق الفطرت ماخذ سمجھا جاتا تھا، جس کا نتیجہ دیوتاؤں کے عدم اطمینان یا شیطانی قبضے سے ہوتا ہے۔ بدمعاش اور مذہبی شفا دینے والے ان “ڈاکٹروں” میں شامل تھے جنہیں بیمار ہونے پر ان کی مدد کی جاتی تھی۔ دیوتاؤں سے میل ملاپ کرنے اور مریض کی صحت بحال کرنے کے طریقوں کے طور پر قربانیوں، بھتہ خوری، ترانے اور دعاؤں کے نفاذ کو لیا گیا۔ 450 اور 350 قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں ہپوکریٹس کے دور تک یہ نہیں ہوا تھا کہ طب میں عقلیت، مشاہدہ اور مزاحیہ نظریہ بہت زیادہ اثر انداز ہونے لگا۔ مزاحیہ نظریہ یا “مزاحیہ نظریہ” نے وضاحت کی کہ انسانی جسم رطوبتوں (مزاحیہ) پر مشتمل ہے اور اسے چار مزاجوں میں عدم توازن کے نتیجے میں ایک بیماری سمجھا جاتا ہے: زرد پت، کالا پت، بلغم اور خون۔ ان مرکبات میں کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جیسے گرمی، سردی، نمی، خشکی وغیرہ، جن کا توازن بھی ہونا چاہیے۔ کچھ کھانوں سے اچھا رس پیدا ہوتا ہے اور کچھ خراب رس پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، کھانا آسانی سے ہضم ہوتا ہے (جسم کے ذریعے آسانی سے گزرتا ہے)، اور آسانی سے خارج ہوتا ہے، خواہ غذائیت سے بھرپور ہو یا نہ ہو۔ 347 لہذا، مناسب طریقے سے متوازن غذا کا استعمال اور مریض کا طرز زندگی قدیم یونان میں بیماری کی روک تھام اور علاج کے لیے بہت اہم تھا۔ یہ ہمیں اس راستے پر لاتا ہے جس میں موسمی خوراک نے قدیم بیماریوں کے علاج میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہپوکریٹس کے مصنف “ہوا، پانی اور مقامات” کے مطابق (ابھی بھی یہ بحث باقی ہے کہ آیا ہپوکریٹس نے “ہپوکریٹس” لکھا تھا)، طبیب کے لیے فلکیات سیکھنا ضروری ہے کیونکہ “موسموں کی تبدیلی سے بیماریوں میں تبدیلی آتی ہے”۔ اسی ہپوکریٹک متن میں، مصنف نے وضاحت کی ہے کہ شمال مشرق، جنوب مشرق اور مغرب کی ہواؤں کی زد میں آنے والے مشرقی دیہات صحت مند ہوتے ہیں، “اس صوبے کی آب و ہوا کا موسم بہار سے موازنہ کیا جا سکتا ہے کہ وہاں گرمی کی کوئی انتہا نہیں ہے اور سردی اس کے نتیجے میں، اس خطے میں بیماریاں کم ہیں اور سنگین نہیں۔” 151 تازگی کے توازن کو برقرار رکھنے اور بیماریوں سے بچاؤ میں موسمی خوراک کی اہمیت کی ایک مثال کے طور پر، ہپوکریٹس نے “آن ڈائیٹ” میں پیش کیا جب مصنفین کہتے ہیں کہ “سردیوں میں خشک اور گرم جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے، گندم کی روٹی، گرل شدہ گوشت اور کچھ سبزیاں کھانا بہتر ہے۔ جب کہ گرمیوں میں جو کی کیک، جو کا گوشت اور ناشتے کی چیزیں کھانا مناسب ہے” (ولکنز وغیرہ صفحہ 346 میں حوالہ دیا گیا ہے) ممتاز گیلن پرگیمم قدیم روم میں خوراک اور غذا مزاح نگاری، اناٹومی اور ایٹولوجی Galen of Pergamum (129 – 210 BC) رومن طب کے مرکز میں ہے اور مغربی فارماسولوجی کی ترقی کا نقطہ آغاز ہے۔ گیلن اپنی ذات کا ایک قابل مصنف تھا، اور جسے گیلن نے چار مزاح کے نظریہ پر مبنی صحت مند غذا کے لیے حتمی رہنما کے طور پر دیکھا۔ گیلن نے مزاحیہ نظریہ کو جامد احساس کے بجائے متحرک معنوں میں سمجھا کہ پت آگ کی طرح گرم اور خشک ہے۔ کالا زرد خشک اور زمین کی طرح سرد ہے۔ بلغم پانی کی طرح ٹھنڈا اور تر ہوتا ہے اور خون گیلا اور گرم ہوتا ہے۔ اس نے یہ بھی سمجھا کہ مزاح ہضم کے ذریعے کھانے سے پیدا ہوتا ہے اور یہ کہ ہاضمے اور سانس کے ساتھ، گیلن اناٹومی کے اپنے علم کو بروئے کار لا رہا تھا۔ گیلن کے مطابق اس خوراک کے لعاب کے ساتھ رابطے میں آنے کی وجہ سے منہ میں ہاضمہ شروع ہوتا ہے۔ چبایا ہوا کھانا پھر پیٹ میں کھینچا جاتا ہے جہاں پیٹ کی گرمی کھانے کو چائیلی بناتی ہے۔ اس کے بعد اسے جگر میں منتقل کیا جاتا ہے جہاں غذائی اجزاء خون میں منتقل ہوتے ہیں اور پورے جسم میں منتقل ہوتے ہیں۔ : 420-421 مزاح کی نوعیت کو متحرک سمجھنے اور گیلن کے اناٹومی کے علم کے ساتھ، گیلن بیماریوں کو گرم، ٹھنڈا، خشک یا گیلے کے طور پر درجہ بندی کرنے کے قابل تھا، اور ان بیماریوں کی وجوہات کو خاص قسم کے کھانے سے منسوب کرتا تھا۔ مثال کے طور پر، Galen’s On the Causes of Sickness میں، جیسا کہ مارک گرانٹ نے ذکر کیا ہے، گیلن گرم بیماریوں کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، “[زیادہ گرمی کی ایک وجہ] ایسی غذاؤں میں مضمر ہے جن میں گرم اور سخت قوتیں ہوتی ہیں، جیسے لہسن، لیکس، پیاز، اور اسی طرح. اور یہ کہ ان کھانوں کا ہلکا استعمال بعض اوقات بخار کا باعث بنتا ہے۔”:48 اس لیے، گیلن کے غذائیت سے متعلق مقالے “آن دی پاورز آف فوڈ” میں کھانوں کو نمکین، میٹھا، کھٹا، پانی دار، مشکل، ہضم کرنے میں آسان، مہنگا، ریشے سے بھرا، ریفریجریٹڈ، گرم وغیرہ کے طور پر بیان کرنے کے علاوہ اکثر ترکیبیں بیان کی جاتی ہیں۔ گیلن کا اصرار ہے کہ چار قسم کی مزاح کا توازن مثبت یا منفی طور پر ایک “خوراک” سے متاثر ہو سکتا ہے جس میں نہ صرف کھانا پینا، بلکہ جسمانی ورزش، غسل، مساج اور آب و ہوا بھی شامل ہے۔
تاریخ میو اور داستان میوات پہلی قسط
تاریخ میو اور داستان میوات پہلی قسط تاریخ میو اور داستان میوات Mewat (میوات) قسط اول۔۔۔۔ ناقل حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو تعارف ہمیں اس ضرورت کا بار بار احساس ہواکہ کہ ہم میئو ہونے کی حیثیت سے نہ صرف میو قوم بلکہ دوسروں کو بھی میو قوم کی تہذیب وتمدن اور تاریخ سے متعارف کرائیں اور یہ بتائیں کر میوکون ہیں؟ ۔ ان کی تہذیبی و تاریخی روایات کیا ہیں؟ اور ہندوستان کی تاریخ میں انہوں نے کیا کرداراداکیاہے؟۔ نیز یہ غلط فہمیاں ان کی تاریخ کے بارے میں پائی جاتی میں وہ قطعی طور پر دور کر دی جائیں۔ اگرچہ میوجیسی عظیم منفر دقوم کی تاریخ بیان کرنے کے لئے یہ کتابچہ بالکل ناکافی ہے۔لیکن میو قوم کی تاریخ اور حالات جاننے کے لئے جوتشنگی عام طور پر پائی جاتی ہے اس نے ہمیں مجبور کیا کہ تاریخ مئیو اور داستان میوات کی اشاعت کا انتظار کرنے کے بجائے اس کتاب کو شائع کر دیںجو موجودہ تشنگی کوبجھاسکے۔ لہذایہ مختصر وضاحتی مقالہ پیش خدمت ہے جس کو ہم نے بڑی محنت تحقیق اور جانفشانی کے ساتھ مرتب کیا ہے اور یہ تاریخ میو اور داستان میوات کا ایک حصہ ہے۔ اوراس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ جوچیز اس میں لکھی جائےوہ تاریخی طورپر صحیح ہو۔کتاچہ کی زیادہ معلومات میو قوم کی مستند تاریخ :تاریخ میو چھتری:سے لی گئیں ہیں، تاریخ میو چھتری” میو قوم کی مستند تاریخ ہے ۔ جسے محترم بزرگ حکیم عبدالشکور صاحب نے مرتب کیا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے علمی و تاریخی حلقے بڑی حد تک اس سلسلہ میں مطمین ہو جائیں گے اورایک ایسی قوم کی تاریخ سے روشنا ہو سکیں گے جس کے متعلق بیشتر تاریخیں ابھی تک خاموش ہیں۔
السعفہ(بالخورہ۔بالچر)
السعفہ(بالخورہ۔بالچر) بالوں کے مسائل صدیوں سے چلے آرہے ہیں،ایک ہزار سال پہلے لکھی جانے والی کتاب سے ایک اقتباس حاضر خدمت ہے ابن زہر لکھتے ہیں السعفہ(بالخورہ۔بالچر) بالوں کے مسائل صدیوں سے چلے آرہے ہیں،ایک ہزار سال پہلے لکھی جانے والی کتاب سے ایک اقتباس حاضر خدمت ہے السعفہ(بالخورہ۔بالچر) حکیم قاری محمد یونس شاہد میو سر کی جلدمیں بعض اوقات بالخورہ اس طرح پیدا ہوجاتا ہے جیساکہ چہرہ پریہ مرض غیرلطیف خلط صفراوی کے باعث ہوتا ہے کیونکہ اگر خلط صفراوی میں شدید لطافت ہوتی توچپکائو پیدا نہ ہوتا۔ اس کے علاج کے لیے پہلے بدن کا استفراغ عام کرناچاہیے۔ اگرجسم قوی ہوتو اولاََ فیقال کی فصد کھولیں ۔ پھر بدن سے خلط صفراوی کا استفراغ کریں، جو ادویہ صفراوی مسہل ہیں وہ آپ کو معلوم ہی ہیں۔ اس مرض میں سب سے افضل دواسقمونیا ہے۔ کیونکہ یہ اس پیداکرنے والی خلط کو بذریعہ اسہال نکال دیتا ہے۔ اس کو کھا کرچھاچھ کے چند گھونٹ پیئے جائیں جس کو حاصل کرنے کے لیے دودھ میں تخم قرطم اور اس کے دوگنا درخت انجیر کا دو دھ ملاکر جمایا گیا ہو. نیز چونکہ یہ بھی پڑھین کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات9 اس مرض کا سبب خلط صفراوی ہوتا ہے اس وجہ سے روغنیات سے اجتناب کریں اورسرپرمحلل اور رادع ادویہ لگائیں۔ ان میں بہتر تازہ گل سرخ کا استعمال ہے۔ اگر یہ نہ مل سکے تو گلاب کے خشک پھول کو چوتھائی گل نرگس کے ہمراہ پیس کر اس کے ہموزن آرد جو ملالیں۔ اور اگر آرد جو میسر نہ ہو توگل سرخ خشک70 گرام ، گل نرگس 5/7 گرام اور گل بابونہ75/8 گرام اتنے پانی اور سرکہ میں بھگوئیںکہ جملہ ادویہ مکمل طورپرڈوب جائیں۔ پھر اس کو جوش دے کر مل کر صاف کر لیں۔ اور بقدر70 ملی لٹر جوشاندہ لے کر 75 ملی لٹرعصارہ خیارزہ(ککڑی ) میں ملائیں بشرطیکہ وہ موجودہو،ورنہ 75/8 گرام عصارہ عوسج یا عصارہ بارتنگ یا عصارہ بامیثامیں اچھی طرح ملائیں اور اس کے اندر کپڑے کا تکڑا اچھی طرح ترکر کے مقام سعفہ پر رکھیں ۔ یہاں تک کہ کپڑا خشک ہوجائے تو پھر اس کو تر کر کے بار بار رکھتے رہیں۔ پیٹ خالی رکھو ،بیماریاں نہ پالو۔ مریض کوعمدہ اور نفیس غذائیں دی جائیں اورجملہ شیریںاشیاء مکمل طور پر پرہیز کرائیں۔خسک(کاہو) کا ساگ صرف سرکہ کے ہمراہ پکاکر دیں۔ اورخرفہ کاساگ بھی دیں۔ قسم کے دودھ سے خواہ وہ تازہ ہو یا باسی پر ہیز ضروری ہے۔ اس طرح میوہ جات میں سے ترش انار اورککڑی کے مغز سے پرہیز کریں۔ اور اگر ان کا استعمال کر بھی لیاجائے تو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ ککڑی کا مغز بذریعہ بول خارج ہوتے ہوئے اپنے ساتھ خراب خلط کو بھی خارج کر دے گا۔ نیز مریض کو روغنیات میں بھنی ہوئی اشیار اورہر قسم کی مچھلی اور انڈوں کے استعمال سے پرہیز کرائیں۔ یہ تمام چیزیںمختلف وجوہ کی بناپر اس مرض میں نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ بلکہ گل سرخ، گل ریحان اورگل نیلوفر جوبھی میسر ہو نگھاتے رہیں۔ نیز اس کا خیال رکھیں کہ مریض کے سر کو آفتاب کی شعاعوں کے سامنے نہ ہونے دیں۔ اس احتیاط کے ساتھ ہی جن امور کی پابندی کا ذکر علاج کے سلسلہ میں ،میں نے کیا ہے اس پر کاربند ہونے کی سعی کی گئی تو اس مرض کا ازالہ ہوجائے گا۔
انسانی ذہن قدرت کاکرشمہ
انسانی ذہن قدرت کاکرشمہ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو خالق کائنات نے انسانی ذہن کو اس انداز میں بنایا ہے کہ اس کی حقیقت تک رسائی آج تک ممکن نہ ہوسکی ،اس جکائنات میں آج تک جتنی مشینیں بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں ان کا کل انسان ہے ۔انسان کی ذات میں خدا نے نور عل،شعور اور وجدان وغیرہ الگ الگ رکھے ہوئے ہیں ۔اگر وجود انسانی تماسم مشینوں کا کل ُ ہے تو اس میں اتنی صلاحتیں ہیں کہ تمام مشینوں کا کام سرانجام دے سکے۔لیکن ہم اس سے تمام مشینوں کا کام لینے سے اس لئے قاصر ہوتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں اس وجودکا کنٹرول نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے مختلف Knobsکے بارے میں ہمیں ضروری علم حاصل ہوتا ہے ۔ْاگر ہمیں اس کا علم ہوجائے تو یہی انسان وجود ریڑیو کی طرح بولنے لگتا ہے ۔یہی وجود اس جگہ سے دوسری جگہ چشم زردن مین منتل ہوسکتا ہے۔اس سے ہم ایٹم بم سے زیادہ خطرناسک کام لیسکتے ہیں ۔لیکن ہمارے پاس اس کا کنٹرول پینل نہیں ہوتا اس لئے ہم اس کو کمتر سمجھتے ہیں ۔ہم اپنے آپ کو جتنا وسیع سمجھیں گے اتنا ہی وسع ہوگا جتنا محدود سمجھیں گے اتنا ہی محدود ہوگا ۔ انسا دماغ قدرت کی اعلی تریںاور پیچیدہ تریں تخلیقات میں سے ایک ہے ۔جو قدرت الہی کو سمجھنا چاہتے ہیں انہیں ذہن انسا اور دماغ انسانی کے بارہ کچھ معلومات ضرور ہونی چاہیئں۔انسان زمین پر اللہ کا نائب ہے جسے خلافت کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور انسانی روح کے اندر بے پناہ صلاحیت اور غیرمحدود طاقت ہے اس پر آگے چل کر بات ہوگی ،سر دست ہم ذہن انسانی اور دماغ انسانی پر لکھتے ہیں۔ آپ کے دماغ کی طاقت اتنی زیادہ ہے کوئی پچیس تیس سال پہلے سائنس دانوں نے اندازہ کیا گیا تھا کہ دماغ کے جتنے کردار(Function)ہیں اتنے کام کرنے کے لئے اگر مشینیں لگائی جایئں تو ایک شہر کی جگہ کے برابر جگہ درکار ہوگی اور اتنی ترقی اور نئے نئے کمپیوٹر ایجاد ہونے کے بعد انہوں اس سائز کو خاصہ کم کرلیا ہے 1995میں ان کو فٹ بال سٹیڈیم کے برابر جگہ درکار تھی ۔ ذہن کی توانائی کی ساہمیت اتنی زیادہ ہے کہ آپ جتنی خوراک کھاتے ہیں اس کا بیس فیصد دماغ استعمال کرتا ہے ،دراصل دماغ ہی ہمارے دل اور پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے ۔ اس وجود انسانی کی کلید اعظم تصور ہے روحانبی اعمال ہوں یا سائنسی ہنر مندی تصور کا کردار بنیادی ہے اس کے ساتھ وت ارادی بھی اہمیت کی حامل ہے لیکن تصور زیادہ اہم ہے قوت ارادی تصور یا قوت متخیلہ کا حصہ ہے ،وت متخیلہ کے بغیر قوت ارادی پیدا نہیں ہوسکتی۔تصور کی مدد سے سالک خدا کو پاسکتا ہے ۔لیکن وت ارادی سے خدا کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔قوت متخیلہ ہی وہ سواری ہے جو انسان کو اَن دیکھی اور اَن جانی منزلوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر انسان اپنے تصور کی باگیں تھام سکے اور اس کلید اعظم سے اپنے وجود کے مقفل دروازے کھولنے ک اہنر رکھتا ہوتو کرامتیں ظہور میں آتی ہیں ۔ اسی نکتے کو اگر ہم تخلیق کائنات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں تو بات مزید واضح ہوجاتی ہے ۔جب خالق کائنات نے کہا ’’کن‘‘ ہوجا ۔تو اس کے ساتھ ہی کائنات کی ہرچیز اپنی تکمیل کے ساتھ پیدا ہوگئی تھی ۔یہ جاری عمل ہے ۔لیکن ہر شئے کا فیکون اسکے اندر ہے ۔اگر کائنات کی تخلیق میںکن اور اس کے بعد فیکون کی کرشمہ سازی نہ ہوتی یتو یہ کائنات نامکمل ہوتی ۔ایک چھوٹے سے ذرے کے اندر بھئی اس کی تکمیل یا فیکون موجود ہے ۔ کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات ایک ایٹم کے اجزاء کو دیکھ لیں ۔اس کا ہر جز اپنی تکمیل کے ساتھ موجود ہے ۔اس ایٹم کی مدد سے چاہیں تو شہر تعمیر کردیں اور اگر چاہیں تو اس سے ہنستی بستی بستیاں تباہ و برباد کردیں ۔اسی طرح انسان کے اندر فیکون کار فرماہے اور تمام قوتوں کی تکمیل و تشکیل انسانی وجود کے اندر ہے انسان کا مسئلہ ہی ہے کہ وہ اپنے وجود کے بند تالے کو کھولنے والی چابی کو استعمال میں نہیں لاسکتا ۔جو لوگ اپنے وجود کی اس چابی کو استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ اپنی منفی قوتوں کو کلید اعظم کے زور کے زور پر مرتکز کرتے ہیں اور پھر ان منفی قوتوں کی کمک کے لئے شیطانی منتروں کا ورد یا چاپ کرتے جس سے وہ جو شیطانی کام چاہیں کرسکتے ہیں ۔یہی کالاجادو ہے ۔بعینہ اس طرح مثبت قوتوں کو اسی کلید اعظم کی مدد سے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔دونوں قوتوں کے استعمال کا نکتہ ایک ہے کیونکہ ان کا خالق بھی ایک ہے ۔ پیٹ خالی رکھو ،بیماریاں نہ پالو۔ دماغ کی تین قسمیں بیان جاتی ہیں ان میں سے ایک لاشعور بھی ہے اور لاشعور وہ طاقت ہے جسے کائنات کی ان لہروں سے منسلک کردیا گیا ہے جسے ماضی حال اور مستقبل کی سب چیزوں کے بارہ علم ہوتا ہے۔قران کریم کی تصریح کے مطابق انسان کی روح میں ہر علم سم کا علم سمودیا گیا ہے علم الاسماء جوکہ باوا انسانیت کو تلقین ہوئی تھی کا جائز طور پر وارث ہے اس میں خدا نے اپنی نیابت کے ساتھ ساتھ اپنی روح بھی پھونکی تھی[القران] تمام علوم انسان کے اندر روح میں موجود ہیں روح سے یہ علم لاشعور میں آتا ہے زہنی لاشعور کو اپنی کوششوں اور یقین کی مدد سے صحیح طریقے سے کام پر لگاسکتے ہیں اسی لاشعور کے گرد ساری روحانیت گھومتی ہے اس لئے اسے سمجھنا ضروری ہے ۔ ایک خبر اور اطلاع جو آپ کہیں سے سنتے یا حاصل کرتے ہیں لاشعور کو یاد تو ہوجاتی ہیں لیکن اسے ہر وقت اٹھائے نہیں پھر تا بلکہ اسے اپنے مال خانے میں جمع کردیتا ہے ۔دماغ میں کل18ارب خلئے(Cell)ہوتے ہیںاس لئے کسی چیز کو یاد (Retieve)کرنے میں سے مشکل نہیں ہوتی۔کیونکہ ایک خلیہ کی یاداشت کی گنجائش بہت سی ہوتی ہے ۔ انسانی ذہن کمپیوٹر سے ملتے جلتے طریے سے کام کرتا ہے ۔بلکہ ایسا کمپیوٹر جس کے
آنکھ کی پتلی کا پھیل جانا یا تنگ ہوجانا
آنکھ کی پتلی کا پھیل جانا یا تنگ ہوجانا آنکھ کی پتلی کا پھیل جانا یا تنگ ہوجانا حکیم قاری محمد یونس شاہد میو یہ مرض اکثر بچپن میں عارض ہوتا ہے ، جس میں بھی ،شبکہ عنبیہ پھیل جاتا ہے اورکبھی تنگ بھی ہو جاتا ہے۔د و کیفیتیں (پھیلنا یا تنگ ہونا ) کبھی طبعی بھی ہوتی ہیں، اگر تنگی طبعی ہوتو یہ صورت بہتر ہے کیونکہ اس میں روح باصرہ نہایت تیزی اور قوت کے ساتھ ثقبہ عینیہ میں نفوذ کرتی ہے ۔اتساع کا سبب صدمہ ، ضرب یا جسم سے خون کا بہت زیادہ اخراج بھی ہو سکتا ہے مثلا نفاس کی حالت میں۔اتساع طبعی میں مرض کی تلافی کے لئے طبیب کوشیافات اور سرمہ جات کا استعمال کرانا چاہئے ۔ بچوں اور عورتوں میں شیافات اور جوان اور کہول( بوڑھوں) کے علاج میں خشک کرنے والے سرمہ جات استعمال کرائے جائیں تو بہتر ہے۔ شیان جواس مرض کے لیے مفید ہے۔ عصارہ پوست انار شیریں ۳۵ ملی لٹریرسوت زرد14 گرام ، شگوفر بابونہ اور تخم کتاں ہر ایک5/10 گرام ، زعفران75/4گرام، بہدانہ شیریں 5/2گرام، اسپغول مسلم ایک گرام .جملہ ادو یہ کوکوٹ پیس کر کسی باریک کپڑے سے چھان لیں پھر عصارہ پوست انارکو۷۵ ملی لٹر اور عرق گلاب کے ہمرا دواؤں کے سفوف میں شامل کرلیں اور اس کوصاف کرلیں۔ بعد ازاں گل مامیثاپیس اور چھان کر ۲۵ گرام اس میں شامل کر لیں .پھرنرم آگ پر رکھ کر گاڑھاکرلیں ، جب قوام بستہ ہو جائے تو دانہ مسور کے برابر حبوب بنالیں اور سایہ میں خشک کر لیں۔ بوقت ضرورت ایک حب کو تازہ نتھارے ہوئے تھوڑے سے دودھ میں حل کر کے روزانہ آنکھوں میں قطورکریں۔ اگر آنکھوں میں ورم پا یا جائے تو ابتدا فصد اور اس کے بعد مسہلات سے تنقیہ کریں۔ اگرمریض قوی وتوانا ہو اور وقت بھی موافق توورنہ قیفال کی فصد کے ذریعہ استفراغ کرائیں۔ جوان، بوڑھے اور ادھیرعمر کے لوگوں کے لیے ایک مفید سرمہ اثمد (سنگ سرمہ) مغسول ، توتیا، زرورد ہرایک۳۵ گرام، رسوت زرد، لاجورد محلول اورشگوفہ انار شیریں ہر ایک5/17گرام۔ جملہ ادویہ الگ الگ سفوف کر کے باریک کپڑے سے چھان کر یکجا کرلیں ۔ پھر 56گرام گل آس اور بہیدانہ ، زعفرانن تخم خطی پر ایک14گرام میتھی اورگل بنفشہ پر ایک ۷ گرام، ان تمام ادویہ کو کوٹ کر ایک لٹر پانی میں ملاکرنرم آگ پر رکھیں یہاں تک کہ صحت پانی رہ جائے اس کے بعد دوسرے کپڑے سے چھان کرصاف کرلیں پھر اس جوشاندہ میں سفوف کی ہوئی ادویہ گوندھ لیں اور خشک کرلیں۔ یہ عمل دس بارکریں یعنی باہم ملاتے اور خشک کرتے رہیں پھر اس کو پیس کر موٹے کپڑے سے چھان کر مٹی یا شیشے کے ظروف میں محفوظ کرلیں اور روزانہ صبح وشام بطور سرمہ آنکھوں میں لگائیں ۔ یہ سرمہ دونوں ہی صورتوں میں نافع ہے خواہ مرض طبعی ہو یا بعد میں عارضی ہوا ہو ۔ اگر وہاں ور م بھی ہو تو پہلے فصد کے ذریعہ بدن کا تنقیہ کرلیں جس کا تذکرہ میں کر چکا ہوں ، پھرادویہ مسہلہ استعمال کرائی جائیں اور آنکھ پر تازہ گل سرخ کا ضماد لگائیں لیکن کوئی عذرہوتونیم گرم معطر گلاب میں نئی روئی کا پھایا بھگو کر تکمیدکریں جب ورم جاتا رہے تو اس کے بعد وہ مریض جن کے لیے میں نے شیاف کا تذکرہ کیا ہے وہ شیاف استعمال کریں اور جن اشخاص کے لیے سرمہ تجویز کیاگیا ہے وہ اس کا استعمال کریں ۔ یہاں تک کہ وہ صحت پاجائیں۔یہ مرض یعنی حدقہ کا کشادہ ہو جانا بالعموم انتشار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بہرحال جوں ہی یہ مرض پیدا ہو فوری طور پر علاج کی طرف توجہ کرنی چاہئے ورن اگر تاخیر کی گئی تو نزول الما( موتیا بند ) کی شکل پیدا ہو جائے گی۔ ا
عاشورہ محرم کی فضیلت اور شرعی حیثیت
عاشورہ محرم کی فضیلت اور شرعی حیثیت ناقل حکیم قاری محمد یونس شاہد میو یوم عاشوراء زمانہٴ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے، اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے؛ لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں(بخاری۱/۴۸۱) بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے؛ چنانچہ بخاری ومسلم میں سلمہ بن الاکوع اور ربیع بنت معوذ بن عفراء سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں، اور جنھوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں ؛ بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰) لیکن اس کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، جیساکہ حدیث آگے آرہی ہے (معارف الحدیث۴/۱۶۸) یومِ عاشورہ کی تاریخی اہمیت یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ: (۱) یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔ (۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔ (۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔ (۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔ (۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔ (۶) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ (۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔ (۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ (۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔ (۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔ (۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔ (۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔ (۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔ (۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔ (۱۵) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ (۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔ (۱۷) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔ (۱۸) اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔ (۱۹) اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔ (۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔ (۲۱) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸، معارف القرآن پ ۱۱ آیت ۹۸۔ معارف الحدیث ۴/۱۶۸) یومِ عاشورہ کی فضیلت مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں؛ چنانچہ: (۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ھذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وھذا الشھرَ یعنی شھرَ رَمَضَان (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰،۳۶۱) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔ (۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَھْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․ (رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب ۲,۱۱۵) روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل
جلاب کی ضرورت ،نفع و نقصان
جلاب کی ضرورت ،نفع و نقصان جلاب کی ضرورت ،نفع و نقصان طبی دنیا میں ملینات اور مسہلات کی طویل فہرست موجود ہے،آج بھی مسہلات مطب کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں،ایک معالج طبیب کے لئے جلاب کے بارہ میں بنیادی معلومات ہونا بہت ضروری ہیں۔جلاب ایک ایسی چیز ہے اگر بروت استعمال کرلیا جائے تو خراب مواد جو بعد میں بیماری کا سبب بنتا ہے،جسم سے نکال باہر کرتا ہے۔معالج و مریض علاج کی لمبی چوڑی مشقت اور اخراجات سے بچ جاتے ہیںاگر بروقت جلاب دیدیا جائے تو عرصہ کے بعد ہونے والے آپریشن سے محفوظ رہا جاسکتاہے(حکیم قاری محمد یونس شاہد میو) جلاب سے کیا فائدہ ہوتا ہے . -1 جلاب لینے سے اندریاں طاقتور ہوتی ہیں . -2 جلاب لینے سے طبیعت آسودہ ہوجاتی ہے . -3 معدہ کی آگ یعنی بھوک بھڑکتی ہے. -4 بڑهاپا جلدی نہیں آتا . *کن مریضوں کو جلاب دینا چاہیے.* -1 جن کو زہر دیا گیا ہو . -2 بخار والے کو -3 بلغم کی کثرت والے ک و -4 بواسیر اور بھگندر والے کو . -5 پیٹ میں گرانی والے کو اور بھوک کی کمی والےکو . -6 یرقان والے ک و -7 وجع المفاصل، گنٹھیا والے ک و -8 جریان اور مردانہ کمزوری والے کو. -9 دل کی بیماری والے کو . 10 . خرابی خون، سوز اک و آتشک، اور امراض خبیثیہ کو اور کوڑه والے کو . -11 ناک اورکان کی بیماریاں. -12 منہ اور دانت کی بیماریا ں -13 دماغی اور بلغمی امراض، مرگی والے کو . -14 قے، الٹی، ہیضہ، اپھارا والے کو . -15 امراض چشم کی بیماریا ں -16 سوزش و اورام والے ک و -17 دمہ، کھانسی والے ک و -18 پاگل پن،جنون اور مالیخولیا والے کو اگر ان میں سے کسی ایک میں بھی مبتلا ہو تو جلاب دیا جاسکتاہے. *کن کو جلاب نہیں دینا چاہیے* -1 نازک طبیعت والے کو . -2 جن کی جاۓ پاخانہ میں زخم ہو. -3 جن کو پاخانہ کے راستے کانچ نکلتی ہو . -4 بگڑے ہوۓ مریض کو . -5 فاقہ سے پژمردہ، کمزور بہت کم حرارت والے کو . -6 نئے بخار والے کو. -7 زخم کے درد سے نڈهال والے -8 بہت موٹے کو -9 بہت ہلکے، بچے، بوڑهے، پیاس سے گھبراۓ ہوۓ کو. -10 بھوک کے ستاۓ ہوۓ ک و -11 جماع والے، مطالعہ اور ورزش سے تھکے ہوۓ، فکرمندکو . -12 حاملہ عورت کو جلاب نہیں دینا چاہیے . اگر دینا ہی مقصود ہو تو بہت ہلکا جلاب دیا جاۓ جس سے دو تا تین پاخانے ہی آسکیں، اور زیادہ نہ آئیں . *جلاب دینے کا طریقہ * جس دینا جلاب دینا ہو اس سے پہلی رات کو نرم زود ہضم غذایعنی کھچڑی وغیرہ اور ترش پھلوں کی کھٹائ مریض کو کھلا کر اوپر سے پانی پلا دینا چاہیے.جب دوسرے دن دیکھیں کہ پیٹ پھول گیا ہے تب مریض کو معدہ کی طاقت کے مطابق جلاب دیں .*جلاب لینے کے بعد مریض کو کیا کرنا چاہیے *جلاب کی دوا کھانے والا دست کی حاجت ہونے پر اسے نہ روکے،ہوا سے بہت بچنا چاہیے .جہاں ہوا نہ آتی ہو ایسی جگہ میں سرہانہ کی طرف اونچا نہ کرے، کسرت یا محنت والے کام بند کردے اور جماع سے بھی دوررہے. *جلاب والے دستوں سے کیا نکلتا ہے* جس طرح قے می رال، دوا، بلغم وغیرہ سلسلہ وار نکلتے ہیں.اسی طرح جلاب میں بھی پاخانہ، پت )صفرا( دوا اور کف)بلغم( سلسلہ وار نکلتے ہیں. پاخانہ گرتے گرتے آخیر میں کف گرے، ایسے بیس دست آئیں تو وہ سخت جلاب سمجھنا چاہیے. سخت جلاب میں دو سو تولہ،درمیانہ جلاب میں ایک سو تولہ اور معمولی جلاب میں ساٹھ تولہ پاخانہ نکلتا ہے . ٹھیک طرح جلاب لگ جانے پر کف کے ساتھ تمام گندہ مادہ نکل جانے پر ناف کے چاروں طرف ہلکا پن اور دل میں مسرت وغیرہ علامتیں پائی جاتی ہیں. محسوس ہونے لگتا ہے کہ طبیعت کھل گئی ہے پیٹ صاف معلوم پڑنے لگتا ہے. جسم میں جلن، کھجلی، پاخانہ اور پیشاب کی رکاوٹ وغیرہ شکایتیں جاتی رہتی ہیں . اگر جلاب اچھی طرح نہ لگے تو ناف کے نیچے سختی سی محسوس ہوتی ہے.پسلیوں میں درد ہوتا ہے پاخانہ کے راستے ہوا پوری طرح خارج نہیں ہوتی، پ ٹ پ ٹ ی ا پ رر پ رِر آواز ہوتی ہے. نیچے سے خارج ہونے والی ہوا میں پاخانے کی سی تیز بدبو ہوتی ہے. کھجلی ہوتی ہے بدن پر چکتے سے ہوجاتے ہیں.بھاری پن، جلن، اپھارا، غشی اور قے کی شکایتیں پیدا ہوجاتی ہیں .