5جوارش املی کے سحری خواص جوارش املی کے فوائد جوارش املی گھریلو نسخہ ہے جوارش املی ہر عمر کے لئے مفید ہے قے۔میں مفید ہے ہیضہ کی پیاس بجھاتی ہے خوشذاٸقہ چٹنی فیٹی لیور پیٹ کا اپھارہ یورک ایسڈ بھوک کا ختم ھوجانا معدے میں تیزابیت کا بڑھ جانا صعف معدہ جگر کو دور کرتی ہے کھٹی ڈکاریں آنے کو درست کرتی ھے … جولوگ بھوک کی کمی کا شکار ہوں۔یا معدہ تنا رہتا ہو۔اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جوارش املی بہترین گھریلو نسخہ ہے۔ہر عمر کے لوگوں کے لئے بہترین نتائج رکھتا ہے۔عرصہ تک خراب نہیں ہوتا جوارش املی ایک مشہور ترین نسخہ جسے اب تک لاکھوں لوگ استعمال کرچکے ہیں۔الٹی۔قے مفرط۔ جی متلانا۔حاملہ کی قے۔ہیضہ۔پیٹ کی گڑ گڑاہٹ۔اور دستوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے ناقل حکیم قاری محمد یونس شاہد میو 1۔املی ۔اڈھائی گرام، 2۔آلو بخارا۔ اڈھائی گرام، 3۔پودینہ دیسی اڈھائی گرام۔ 4۔ زنجبیل ۵۰ گرام 5۔انار دانہ سو گرام 6زرشک سو گرام 7۔ منقی سو گرام 8۔ آملہ خشک پچاس گرام، 9۔ست لیموں پچاس گرام، 10،۔چینی دو کلو [ترکیب تیاری] املی آلو بخارا کو پانی میں بھگودیں ،دوسرے دن ہاتھ سے خوب مل کے چھان لیں ،اس کے بعد، دوسری ادویات کا سفوف تیار کر کے رکھدیں، پھر چینی اوراملی والے زلال سے گاڑھا قوام کرتیارکے، زرشک و منقی وغیرہ ملا دیں ،اور سفوف شدہ اشیاء ملا دیں، پس تیار ہے [خوراک] ایک تا ۵گرام دن میں تین بار چٹائیں [عضلاتی مقوی ہے ]
چہرے پرجھائیاں
چہرے پرجھائیاں چہرے پرجھائیاں حکیم قاری محمد یونس شاہد میو جھائیں اگر پرانی وسیاہ ہوتو اس میں تیز طلائوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جسے تخم جرجیر،تراب، زنبق (سوسن سفید سے حاصل شدہ مادہ)، سیاہ مرچ، بورہ ارمنی وغیرہ اور اگر اس سے فائدہ نہ ہوتو ہڑتال سرخ تخم مازیون لگائیں۔ جونک لگائیں۔ اگر جھائیں غیر مزمن اورہلکی سیاہ ہو تو قیفال کی فصد کھولیں اور جوشاندہ افیون پلائیں نیز چہرہ میں خون روکنے والی ساری تدابیر ترک کروا دیں۔ اس کے بعدتخم مولی مغز بادام شیریں مقشرپیس کر لگا ئیں۔ اس کے علاوہ با قلے کا آٹا اورتخم خرپزہ پیس کر لگائیں۔ یہ مرض فاسدخون اور معدے کے بخارات سے پیدا ہوتا ہے جس کی مثال حاملہ عورت میں اس مرض کی پیدائش ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اگر حمل کو کوئی نقصان نہ ہو اور مریضہ کی طاقت اجازت دے توحب شبیار سے استفراغ کریں۔ یایہ نسخہ دیں۔ نسخہ: ا فتیمون ۲۵ گرام کوٹ کر ۷۰ گرام سکنجبین ہموزن پانی میں ملالیں اور اسے مریض کو پلادیں معدے کی تقویت کے لیے اطریفل صغیر استعمال کرائیں جس کانسخہ درج ذیل ہے۔ ہلیلہ، سیاہ دوحصے، زنجبیل نصف حصہ اور شکر سب کے برابر سفوف بنالیں اور اس میں سے 14گرام کےبقدر استعمال کرائیں تا کہ معدے میں برے فضلات کا انصباب نہ ہو۔ طلاء جات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔23۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ریوند چینی سرکے میں ملاکر کھائیں یا مصری کرم کلہ کے تخم پیس کر آب ترمس کے ساتھ شامل کر کے طلاء کریں خرگوش کا گرم خون لگائیں۔
ہوالشافی!
ہوالشافی! ہوالشافی! حکیم قاری محمد یونس شاہد میو دیسی معالجین کے لیٹر پیڈ یا اشتہاری پمفلٹوں پر تو ۔ہوالشافی۔لکھا ہوا ملتا ہے۔بلکہ دیسی ادویات کی پرچی پر جب تک ہوالشافی نہ لکھا ہو ،اس وقت تک لکھے ہوئے اجزاء نسخہ شمار نہیں کئے جاتے۔جب شروع میں ہوالشافی لکھا ہوا ملتا تو پڑھنے والا سمجھ جاتا ہے کہ یہ کسی صاحب فن نے نسخہ لکھا ہے۔ دیسی لوگ تو اپنے نسخہ کی ابتداء ہوالشافی سے کرتے ہیں۔لیکن بہت سے ڈاکٹروں اور انگریزی معالجین کے لیٹر ہیڈ پر بھی ہوالشافی لکھا ہوا ملتا ہے۔لبارٹڑی ٹیسٹوں کی رپورٹوں پر بھی ہوالشافی دیکھنے کو ملتا ہے۔۔مطلب کہ ہم اپنا کام کرتے ہیں شفاء دینا کسی اور ہستی کا کام ہے۔ہمیں اپنے فرایض کی انجام دہی میں پر خلوص ہونا چاہئے۔شفاء کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ قران کریم نے اس بات کو واضح انداز میں بیان کردیا ۔واذامرضت فھو یشفین۔۔۔جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو وہی(اللہ)اسے شفاء دیتا ہے۔ادویات کا استعمال درجہ اسباب میں ہوتا ہے۔لیکن جب تجربات اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں چیز فلاں ضرورت کو پورا کرسکتی ہے تو وہ ایک ضابطہ کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں علاج و معالجہ کے سلسلہ میں جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں مریض و معالج دونوں کے لئے میانہ روی کے ساتھ کچھ قواعد و ضوابط مہیا کئے ہیں۔اگر معالج کوشش کرتا ہے تو مریض کی ذمہ داری ہے کہ وہ معالج کے ساتھ تعاون کرے۔اس کی ہدایات پر عمل کرے۔اس کی تجویز کردہ غذا کھائے۔پرہیز کا خیال رکھے۔بوقت ضرورت اپنے معالج سے مشاورت کرے۔معالج پر مکمل بھروسہ رکھے ۔تاکہ معالج کی توجہ سمیٹ سکے۔ ہوالشافی۔۔بامعنی جملہ ہے۔اس میں معالج و مریض دونوں کے لئے ایک پیغام ہے۔کہ معالج اور مریض دونوں مروجہ و معلوم شدہ طریق علاج کا اہتمام کریں،ساتھ میں دعا بھی کریں کہ شافی مطلق دونوں کی محنت کو بار آور کرے۔اور دعا ،صدقہ خیرات کی طرف توجہ کرے۔ ہوالشافی۔ایک ایک جملہ ہے جہاں آکر ساری تحقیقات اور زندگیوں کا نچوڑ جمع کرنے کے باوجود اعتراف و التجاء ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔اب دعا ہے کہ قادر مطلق اس عمل کو شفا میں تبدیل فرمادے۔ ہوالشافی۔۔۔اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم ایک پہلو دیکھ سکے،اس کے مطابق معالج و مریض نے دفیعہ مرض کے لئے بساط بھر کوشش کی ۔اگر اس مرض کا کوئی ایسا پہلو بھی موجود ہے جو معالج ومریض دونوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے ۔ایسی صورت میں مالک شفاء سے التجاء ہے کہ جو رخ ہم نہیں دیکھ سکے تو اس میں بھی ہماری مدد فرما۔ ہوالشافی۔۔۔اللہ تعالیٰ کی وحدانیت۔اور شفائے مطلق کی مالک ذات پر بھروسہ کا اظہار ہوتا ہے۔ہمارا علم و تجربہ اور مجربات کا ذخیرہ،عمر بھر کی کاوش سب ٹھیک لیکن پھر بھی اپنی درماندگی اور عجز کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں شفاء کی دولت سے مالا مال کردے۔ ہوالشافی۔۔۔کیا دیکھتے نہیں کہ کبھی ہٹیلے و مزمن امراض ایک چٹکی راکھ سے دور ہوجاتے ہیں ۔کبھی معمولی سمجھے جانے والے امراض بھی مہلک ثابت ہوتے ہیں۔۔کیونکہ۔ہوالشافی۔۔۔ہماری ان کاوشوں کا محتاج نہیں ہے۔ ہوالشافی۔۔۔کوئی کچھ بھی کہے،کتنا ہی بڑا دعویٰ کرے ،حقیقت یہ ہے کہ جب شفاء ملتی ہے تو اس کا راستہ اپنا ہوتا ہے۔ضروری نہیں کہ جو دائرہ مریض و معالج نے کھینچا ہے اس کے مطابق ہی شفاءکے فیصلے ہوں۔جب دینے پر آئے تو موت کے منہ سے نکال کر پھر سے زندگی بخش دے ۔جب چھننے پر آئے تو سارے سامان و کاوشیں دھری کی دھری رہ جائیں۔۔۔۔
سونے اور چاندی کے ورق
سونے اور چاندی کے ورق سونے اور چاندی کے ورق شبلی بی کام 64 سال پہلے۔ مشیر الاطباء،اپریل1958میں شائع ہونے والا مضمون حکیم قاری محمد یونس شاہد میو قیمتی سے قیمتی اور نایا ب سےنایاب اشیا کو جزو بدن بنانے کی خواہش انسان کے اندرہمیشہ کروٹیں لیتی رہی ہے۔ اسی خواہش کے مطابق یونان وروما کے قیاصرنے اپنے کھانوں پر موتی چور، بلور کو کھا یا ۔ قلو پطرہ اور فراعنہ نے اپنے مشروبات میں ہیرے کی کنی کا اضافہ کیا۔ مغل شہنشاہوں نے بادام.ا نڈ ے اد رک کے حلوئوں پر پستے کی ہوائی چھڑکنے کے علاوہ سونے اور چاندی کے اوراق بھی ملیدہ کر کے نوش جان کئے ، اور اسی خواہش کے زیر اثر یونانی اطباء نے مریضوں کےلئے بعض ایسے مرکبات تجویزکئے جن کو نقرئی اور طلائی اوراق پیچیدہ میں آمیختہ کر لیا جانا تھا۔ ورق کس نے ایجاد کیا ؟ … سو نے اور چاندی کے پتروں کو کوٹ کر ورق بنانے کافن کس نے ایجاد کیا؟ تاریخ عالم پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فراعنہ مصر کے عہد میں تارکشی کا فن توکافی ترقی کرچکا تھا ۔حتیٰ کہ ملکہ قلوپطرہ جب دربار میں آتی تو اپنے چہرے کی دجاہت میں اتنااضافہ کرنے کےلئےتھوڑی پر سونے کے بال ایسے مہیں تاروں کی د اڑھی چپکا لیتی ۔ لیکن سونے اور چاندی کے پتروں کو کوٹ کر ٹ کر ورق بنانے کی ایجاد کا سہرا حکیم لقمان کے سر ہے۔ جن کی حکمت و دانش کا تذکرہ قرآن مجید نے بھی کیا ہے(سورہ لقمان) حکیمصاحب نے اپنے استنباط سے معلوم کیا کہ انسان کا بدن مختلف معدنیات سے مرکب ہے۔ اور دہ صحت مند اسی صورت میں رہ سکتا ہے کہ تمام معدنی اجزاکا مناسب بر قرارر ہے۔ معدنی اجزاء یوں تو سبزی ، فواکہات. گوشت. دودھ ۔انڈوں سے بھی فراہم ہوسکتے ہیں ۔ اگر انہیں براہ راست جسم میں داخل کیا جائے تو کیسا رہے؟ اس سوال کے پیش نظر سونے اور چاند کی فولادد کے کشتے تیار کئے گئے ۔ اور اسی ضمن میں حکیم ساحب نے سونے اورچاندی کے پتروں کو کوٹ کوٹ اوراق بنائے ۔ جن میں خمیرے ادرمعجون لپیٹ کر مریضوں کو کھلائے جاتے تھے۔ مطلاو مذہب تحریریں۔ سونے اور چاندی کے اوراق صرف کھانے کے کام نہیں آتے۔ بلکہ ان کوگھول کر ان سے کتب مقدسہ کومطلاء و مذہب کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ چنانچہ مغلیہ اور اس سے پہلے کے ادوار میں قرآن مجید کے جو نسخے آب زر سے لکھے گئے وہ آج ہمارے ثقافتی سرمایہ کاقیمتی جزو ہیں۔ آج کل پوری پوری کتابیں تو سونے کے پانی سے شاذ و نادر ہی لکھی جاتی ہیں۔ البتہ سونےکےور قوں سے ان کی چر می جلدوں پر نام چھاپنے کا رواج برابر پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کھیلوں کے سامان اور چوتوںوغیرہ پر جو سنہری مہر ثبت کی جاتی ہیں۔ ان میں بھی سونے کے اوراق استعمال ہوتے ہیں۔لوگ مسجدوں۔ مندروں اورخا نقاہوں کے گنبدوں یا کلیسوں پر بھی سونے کے اوراق جڑ کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ چنانچہ لاہور میں سنہری مسجد ،اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی اور امرتسرمیں سکھوں کے دربارصاحب کے گنبدوں پراسی کی نیاز مندی کا کرشمہ دکھائی دیتا ہے۔ ابھی زیادہ مدت نہیں گزری پاکپتن کی خانقاہ کے گنبد پر بھی چارپانچ سونے کے اوراق جڑے گئے تھے جو پاکستانی ورق سازوں کی ہنرمندی کا ثبوت ہے۔ . ایک سربستہ راز۔ بر صغیر ہند و پاکستان میں ورق سازی نے مغل شہنا ہوں کے دور میں ایک گھریلو صنعت کا درجہ اختیار کر لی انگریزی عہد میں اسکے مراکز زیادہ تر شمالی ہند میں پھیلے ہوئےتھے جن میں سے آگرہ ۔بنارس . دہلی اور امرت سر کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ قیام پاکستان کے بعد امرت سر(مہلانوالہ) کے کاریگر جن کی تعداد پانچ ہزار سے کم نہیں ہے،ہجرت کر کے پاکستان آگئے ۔ اور عام مہاجروںکی طرح جہاں سنگ سمائے وہاں بیٹھ گئے ۔ لیکن ان کی بیشتر تعداد گوجر انوالہ ۔ ننکانہ۔ لائل پور(فیصل آباد)۔ لا ہور۔ ملتان حیدر آباد سندھ اور کراچی میں نظر آتی ہے۔ سونے اور چاندی کے ورق تیار کرنے کے لیے جس سامان کی ضرورت ہے اس میں جھلی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس جھلی کی ,دفتریاں بناکر ان میں سونے یا چاندی کے ننھے ننھے پتر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ پھر ان کو گھنٹہ دو گھنٹہ تک ہتھوڑے سے برابر کوٹا جاتا ہے۔اگر جھلی کی بجائے کوئی اورغلاف ہو تووہ ہتھوڑے کی ضربوں سے پھٹ جائے۔ لیکن یہ جھلی چھ ماہ تک بخوبی کا م دے سکتی ہے۔بدقسمتی سے یہ جھلی آگرہ کے سوا برصغیر ہند و پاکستان میں کسی اور جگہ نہیں بنتی ۔ کیونکہ اسے تیار کرنے کا راز صرف صرف ایک قبیلہ کو معلوم ہے جو آگرہ میں چمڑے کی رنگائی کا کام کرتا ہے۔ اورکھٹیک کے نام سے مشہور ہے۔ جھلی بکرےکی کھال کے اُس حصےپر مشتمل ہوتی ہے۔ جو کھال اور اون کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے اتارنا ایک خاص فن ہے جو صدیوں سے کھٹیک قبیلہ کے سینوں میں مدفون چلا آرہا ہے ۔ وہ کسی قیمت پر بھی اسےفاش کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے اس خام جھلی کو تیارکرنے کے لئے اسے گرم مصالحوں میں پکایا جاتا ہے۔ اس فن سے پاکستان میں صرف چند افراد آکاہ ہیں۔ اگر خام جھلی کوگرم مصالحوں نہ پکایا جائےتو شاید چاندی کے پترے بھی ان کی گرمی سے نرم ہوکر ور ق کی صورت اختیار نہ کریں ۔چاندی کا پترابنانے کے لئے چاندی تیزابی کو خوب صاف کرکے اسے رولنگ مشین میں بار بار کھینچا جاتا ہے اس کی دس گز کمبی اور 4/1 انچ چوڑی کناری کی صورت میںڈھال لیا جات ہے یہ فن بھی پاکستان میں کسی کسی کو آتا ہے۔۔۔مشیر الاطباء لاہور اپریل 1958۔
کیسٹر آئل کے فوائد: واقعی اس میںموجود ہیں؟
کیسٹر آئل کے فوائد: واقعی اس میںموجود ہیں؟ کیسٹر آئل کے فوائد: واقعی اس میںموجود ہیں؟ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو جواب یہ ہے: کلیوپیٹرا کی آنکھوں کا نسخہ: ایک پرانا نسخہ جسے آپ کو آزمانا نہیں چاہئے۔آنکھ کے لیے ارنڈ کے تیل کا استعمال کوئی حالیہ عمل نہیں ہے، کیونکہ فرعونوں کے زمانے سے متعلق تاریخی متون موجود ہیں جو خاص طور پر قدیم مصر میں اس قسم کے رواج کو اپنانے کا حوالہ دیتے ہیں۔جہاں کلیوپیٹرا ارنڈی کا تیل آنکھوں کے قطروں کے طور پر استعمال کرتی تھی، کیونکہ قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ ارنڈی کا تیل آنکھوں کی سفیدی کو برقرار رکھ سکتا ہے، لیکن اس قسم کی مشق کی سفارش نہیں کی جاتی ہے کیونکہ کیسٹر کا تیل آنکھوں کے لیے مفید ہو سکتا ہے، لیکن اس کے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ اسے دوسرے طریقوں سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ آنکھوں کے لیے ارنڈ کے تیل کے استعمال پر مطالعے کی رائےارنڈی کا تیل درحقیقت آنکھوں کے لیے فائدے رکھتا ہے۔ دستیاب سائنسی شواہد کا خلاصہ یہ ہے: ایک تحقیق کے مطابق؛ ارنڈی کا تیل آنکھوں کی کچھ بیماریوں سے لڑنے میں مدد کر سکتا ہے، جیسے: بلیفیرائٹس۔ ایک سائنسی جائزے کے مطابق، ارنڈ پر مشتمل آنکھوں کے قطرے میبومین غدود کی خرابی سے لڑنے میں مدد کر سکتے ہیں، یہ حالت خشک آنکھوں سے وابستہ ہے۔ ایک تیسری تحقیق کے مطابق اس کی ساخت میں کیسٹر آئل پر مشتمل قطروں کا استعمال موتیا کے مرض میں مبتلا افراد کی بینائی کو مضبوط اور بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کیسٹر آئل آنکھوں کے لیے کیوں اچھا ہو سکتا ہے؟کیسٹر آئل صحت مند آنکھوں کو برقرار رکھنے میں مدد کر سکتا ہے کیونکہ اس میں ایسے مادے ہوتے ہیں جو مدد کر سکتے ہیں: سوزش اور سوجن کے خلاف مزاحمت کریں۔ کیسٹر آئل میں موجود ricinoleic ایسڈ کا مواد اور کچھ دیگر قدرتی اینٹی انفلامیٹریز آنکھوں کی کچھ سوزش والی بیماریوں سے لڑنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ کچھ قسم کے بیکٹیریا کے خلاف مزاحمت، کیونکہ کیسٹر آئل کچھ بیکٹیریل تناؤ سے لڑ سکتا ہے جو آنکھوں کی کھال جیسے مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ آنکھوں کو ہائیڈریٹ رکھیں۔ کیسٹر آئل آنکھوں کی سطح کے رطوبتوں کو آسانی سے بخارات بننے سے روکنے میں مدد کر سکتا ہے، اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ کیسٹر آئل بہت سے قسم کے موئسچرائزنگ آئی ڈراپس میں شامل ہوتا ہے۔ میبومین غدود کی آنکھ میں اپنے افعال کو عام طریقے سے انجام دینے کی صلاحیت کو بڑھانا۔ آنکھوں میں خون کے بہاؤ کو فروغ دیں۔ آنکھوں کے مسائل جن کا ارنڈی کا تیل مقابلہ کر سکتا ہے۔یہاں سب سے زیادہ قابل ذکر کی فہرست ہے:1. آنکھوں کی کچھ بیماریاںاس کی سوزش اور دیگر مفید خصوصیات کی وجہ سے، کیسٹر آئل کا استعمال آنکھوں کے درج ذیل مسائل کی علامات کو دور کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ خشک آنکھیں، چاہے عام خشکی ہو یا خشکی بعض حالات جیسے الرجی سے وابستہ ہو۔ آئی چلازین، جیسا کہ کیسٹر آئل کو باہر سے سوجی ہوئی پلکوں پر لگایا جا سکتا ہے، جو چلازین کی سوجن کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ دیگر مسائل اور بیماریاں، جیسے: ایرس، بلیفرائٹس، اور موتیابند۔ ۔2۔. کچھ جمالیاتی آنکھوں کے مسائل کیسٹر آئل کے استعمال سے آنکھوں کے اردگرد کی جلد پر بہت سے فائدے ہوسکتے ہیں، کیونکہ کیسٹر آئل کی ترکیب درج ذیل چیزوں میں مدد کر سکتی ہے۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں، تھیلوں اور سوجن کی شدت کو کم کرکے، آنکھوں کے نیچے والے حصے کی ظاہری شکل کو بہتر بنانا۔ پلکوں اور ابرو کی کثافت کو بڑھانا۔آنکھوں کے لیے کیسٹر آئل کے فوائد کیسے حاصل کیے جائیں۔یہاں ایک سے زیادہ طریقے ہیں۔ :1۔. آنکھوں کی بیماریوں سے متعلق کیسٹر آئل کے فوائد حاصل کرنے کے طریقےکچھ لوگ ارنڈی کا تیل براہ راست آنکھوں میں ٹپکانے کا مشورہ دے سکتے ہیں، لیکن اس قسم کا نسخہ خطرناک ہے اور اس سے بچنے کی سفارش کی جاتی ہے، لہٰذا کیسٹر سے فائدہ اٹھانے کا واحد محفوظ طریقہ یہ ہے کہ آنکھوں کے طبی قطرے استعمال کیے جائیں جن میں کیسٹر کا تیل ہوتا ہے، اور یہ دستیاب ہیں۔ کئی اقسام میں.لیکن ارنڈ کے تیل پر مشتمل آنکھوں کے قطرے استعمال کرنے سے پہلے، درج ذیل کی سفارش کی جاتی ہے۔ پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کریں، کیونکہ یہ قطرے ہر کسی کے لیے موزوں نہیں ہو سکتے۔ قطرے کے استعمال کی پوری مدت کے دوران ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں۔ ہاتھوں کو اچھی طرح صاف کریں، اور جراثیم سے پاک ڈرپ ٹول کا استعمال یقینی بنائیں۔ آنکھوں کو میک اپ سے صاف کریں – اگر کوئی ہے – اور انہیں خشک کریں۔ ۔2. جمالیاتی مسائل سے متعلق ارنڈ کے تیل کے فوائد حاصل کرنے کے طریقےیہاں ایک سے زیادہ طریقے ہیں: سیاہ حلقوں کی شدت کو کم کرنے کے لیے: سیاہ حلقوں کی جگہ پر رات کو تھوڑے سے کیسٹر آئل سے جلد کی مالش کریں اور صبح نیم گرم پانی سے دھو لیں۔ پلکوں اور بھنوؤں کو تیز کرنے کے لیے: کیسٹر آئل کے قطرے روئی کے جھاڑو پر رکھے جاتے ہیں، پھر ابرو اور پلکوں کو روئی سے صاف کیا جاتا ہے۔ کیسٹر آئل کے مضر اثراتاگرچہ آنکھوں کے لیے کیسٹر آئل کے فوائد موجود ہو سکتے ہیں، لیکن اس تیل کے بنیادی استعمال کے ممکنہ نقصانات ہیں، جیسے: آنکھوں کے مسائل، جیسے: دھندلا پن، آنکھوں میں جلن اور سرخ آنکھیں۔ آنکھ کے ارد گرد جلد پر چھالوں کی ظاہری شکل. الرجک علامات کا ظہور، جیسا کہ کیسٹر آئل کچھ لوگوں میں الرجک رد عمل کو بھڑکا سکتا ہے، اور اس کی علامات ہیں: جلد کی خارش، سوجن اور چھپاکی۔ دیگر پیچیدگیاں، جیسے: متلی، چکر آنا، اور سانس لینے میں دشواری۔کیسٹر آئل سے آنکھوں کو ہونے والے ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے، صرف دواؤں کے کیسٹر آئل کے قطرے استعمال کرنا بہتر ہے، اور آنکھوں پر قدرتی کیسٹر آئل کے استعمال سے گریز کرنا بہتر ہے، اور یہ بہتر ہے کہ کسی بھی تشویشناک علامات کے ساتھ ہی کیسٹر آئل کے قطروں کا استعمال بند کر دیا جائے۔ ظاہر
بالوں کے امراض
بالوں کے امراض کتاب الفاخر فی الطب ابوبکر محمد بن زکریا رازی۔ ناقل:::حکیم قاری محمد یونس شاہد میو پہلا باب بالوں کے امراض داء الثعلب وداء الحیہ (تمرط الشعر-بال جھڑ نا) محمد بن زکریا کا قول ہے کہ یہ مرض بلغم محترق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ مریض کا رنگ سفید، بدن ڈھیلا، جلد پر بال کم اور وہ نرم ہوتی ہے یہ مرض عام طور سے ان لوگوں کو لاحق ہوتا ہے جو کثرت سرد و تر اورنمکین غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ بال اڑنے کے ساتھ جلد کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ایارج روفس سے اسہال لایا جائے جس کی مقدار خوراک 10 گرام ہے۔ یاشحم حنظل ایک گرام، ایلو 4گرام ، تربد4 گرام مقل ۵۰۰ ملی گرام اور مصطگی ۵۰۰لی گرام کے ذریعہ کئی بار اسہال کرائیں نیز غذا میں مولی ، رائی، چقندر اور نمکین مچھلی شکم سیر ہوکر کھانے کے بعد سکنجین اور گرم پانی یا مولی کے نچوڑے ہوئے گرم پانی سے کرائیں یا ایک مٹھی سویا کے یہ لے کر ۱۲۰۰ ملی لیٹر پانی میں اس قدر جوش دیں کہ وہ گل کر پھٹ جائیں اور پانی سرخ ہو جائے اب اسے چھان لیں پھر ہر۲۰۰ ملی لیٹر پانی میں ۳۵ گرام شہد ملا کر ۲۰۰ ملی لیٹر کی مقدار میں گرم گرم پلائیں۔ اگر اس سے قے نہ آئے تو دوبارہ۲۰۰ ملی لیٹر پلائیں اور اگر اس کے بعد بھی قے میں تحریک نہ ہو تو حرشف کا گوند 4گرام اور بورہ ۱۰ گرام لے کر ۲۰۰ ملی لیٹر پانی میں گرم کر کے4 گرام نمک سیاہ شامل کر کے پلائیں۔ (زکریا رازی) بلغمی علامات کبھی اس کا سبب خون میں صفراء کی زیادتی ہوتی ہے اس کی علامت رنگ کی زردی اور بدن کی لاغری نیز مریض کے گرم غذاؤں کا عادی ہونا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا علاج سردغذاؤں کا استعمال اور حمام میں زیادہ دیر تک رکے بغیر شیریں و نیم گرم پانی سے غسل کرنا ہے۔ ماء الجبن کا استعمال اور ایک کٹورے میں وہی کے پانی میں سقمونیا ایک گرام حل کر کے پلانا بھی مفید ہوتا ہے۔ سوداوی علامات۔ کبھی اس کا سبب مرہ سودا ہوتا ہے جس کی علامت بدن کی سیاہی ، لاغری اورخشکی ہے نیز مریض سودا پیدا کرنے والی غذائیں مثلا مسور، کرم کلہ، سوکھا و نمکین گوشت کھانے اور سخت محنت کا عادی ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بار بارا فتیمون کا جوشاندہ پلائیں یا مندرجہ ذیل حب کا استعمال کرائیں۔ افتیون ۳۵ گرام، بسفائج ۳۵ گرام، غاریقون اگرام،شحم حنظل ۵ گرام نمک نبطی4 گرام ،لونگ4 گرام کوٹ چھان کر گولیاں بنالیں اور9گرام کی مقدار میں استعمال کرائیں۔ بعد کی دونوں انواع میں رنگ سے استدلال کرنا ضعیف ہے۔ خاص طور سے صفراوی میں کیونکہ اس سے پہلے یرقان لاحق ہو چکا ہوتا ہے۔ داء الثعلب کی تمام اقسام میں استفراغ اور مرض پیدا کرنے والی خلط کے مخالف مزاج والی غذا کے ذریہ تعدیل و اصلاح کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی علاج بھی کیا جاتا ہے جس کی دوقسمیں ہیں۔ چنانچہ نازک اندام افراد مثلابچے اور ہجڑے اور جن کی جلد کی رنگت سفید ہو اور بال کم ہوں، ان میں مقام مرض کی کھردرے کپڑے سے مالش کر کے اسے سرخ کردیں اس کے بعد پیاز خوردنی بانرگسی پیاز سے مالش کریں اور ریٹھے کے چھکے کی راکھ اور بادام تلخ کو گرم توے پرسے جلا کر دونوں کو پیس کر روغن زیتون میں شامل کر کے طلاء کریں۔ سوداوی سخت جلد اور مضبوط بالوں والے افراد میں اس نسخہ میں ایک چوتھائی گندھک اور ایک تہائی ثافسیا ملا کر لگا ئیں مرض کی دونوں اقسام میں جب جلد متقرح ہو جائے یا اس کا اندیشہ ہو تو مرہم سفید لگائیں تا کہ تکلیف میں سکون میسر ہو ۔پھر وہی عمل دہرائیں۔ انتشار شعر(بال گرنا) اس کا سبب غذا کی کمی ہوتی ہے جس کی مثال بھی بیماری کے بعد بال گرنا ہے یا مسامات کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کشادگی اس کا سبب ہوتی ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ مریض کا بدن خشک و لاغر ہوتا ہے۔ اس کا علاج غذا میں زیادتی ،نیند دحمام میں اضافہ اور سرخ وغليظ شراب کا استعمال ہے۔ کبھی اس کا سبب جلد کی کثافت ہوتی ہے۔ جس کی علامت یہ ہے کہ بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اورکھنچنے پرفوراََ بال نہیں نکلتے ۔ بال موٹے ، شدید سیاہ اورگھنگر بالے ہوتے ہیں ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مستقل حمام کیا جائے ، روغن بابونہ کی مالش کی جائے اور داء الثعلب کی دوائیں مثلا بادام تلخ، و درمنہ، ، سمندر جھاگ کے ساتھ جلا کر روغن زیتون میں شامل کر کے سر پر طلاء کی جائیں۔ کبھی اس کا سبب سر کی جلد کی گانٹھیں ہوتی ہیں۔ جس کی علامت بالوں کا باریک ہونا اور تیزی سے جھڑنا ہے اور اس کا علاج روغن آس کی مالش ہے۔ خشک حب الا س کو نیم کوب کرنے کے بعد اسقدر شراب میں کہ وہ ڈوب سکیں، چند ایام بھگودیں پھر ان کو پکا کر گلالیں بعد ازاں اس میں ایک تہائی مقدار میں روغن سرکہ شامل کر کے دوبارہ اس قدر جوش دیں کہ شراب اڑ جائے اور روغن باقی رہ جائے ،اس سے قوی نسخہ یہ ہے۔ دس گرام اقاقیا اور دس گرام لاذن کو18 گرام شراب قابض میں گرم کیا جائے، پھر اس میں ۱۸ گرام روغن آس مخلوط کر کے نیم گرم سر پر لیپ کریں۔ روغن آس ولا ذن غذا کی کمی کے سبب سے بال گرنے میں بھی نفع بخش ثابت ہوتے ہیں ۔ ( ثابت بن قرہ) انتشار شعر اور صلع (بال گرنا اور چند یا صاف ہونا ) میں ہلیلہ سیاہ، آب ترمس آب چقندر چنے کا بیسن، بورہ، آب اندرائن اور گائے کے پتے سے تیار کردہ غسول کا استعمال بھی مفید ثابت ہوتا ہے نیز اس سے بال زیادہ اور مضبوط ہوتے ہیں۔ یا ایلوا پیس کر آب آس میں بھگو دیں اس کے بعد اے حل کر کےحمام میں سر پرلگا کر کچھ دیر بعد دھولیں ۔ ( ثابت بن
اطریفل ۔ یونانی ادویہ کا مشہور مرکب
اطریفل ۔ یونانی ادویہ کا مشہور مرکب اطریفل ۔ یونانی ادویہ کا مشہور مرکب حکیم قاری محمد یونس شاہد میو اطریفل اطریفل یونانی زبان کے لفظ اطریفال اور طریفلن سے معرب کیا گیا ہے ۔ چونکہ اِس مرکب مںر ہلیلہ، بلیلہ اور آملہ جز و لازم کے طور پر شامل ہںف ۔ لہٰذا اِس کو اطریفل کا نام دیا گیا۔ بعض اطِبَّاء کی رائے ہے کہ اطریفل ہندی زبان کے لفظ ترپھلہ کا معرّب ہے جس سے تین پھل ہلیلہ، بلیلہ اور آملہ مراد ہںا چنانچہ داؤد ضریر انطاکی کے یہاں اِس کی وضاحت بھی ملتی ہے ۔ اُس نے اِس کو ’’اطریفال‘‘ لکھا ہے۔ ہندی کا لفظ تری اور لاطینی و یونانی زبان کا لفظ طری (Tri ) بھی تین کے ہی مفہوم کے حامل ہں‘ ۔ غالباً اِسی مناسبت سے اِس کو اطریفل کہا گیا ہے۔ اطریفلات کی تیاری کے سلسلہ مںک اُنہی اصول و ضوابط پر کاربند رہنا ضروری ہے جو معجون کے سلسلہ مںر پیشِ نظر رہتے ہںن ۔ علاوہ ازیں اِس بات کا خاص طور پر دھیان رکھا جائے کہ ترپھلہ کا سفوف تیار کرنے کے بعد اُس کو روغنِ بادام یا روغنِ کنجد یا روغنِ زرد مںِ الگ سے چرب کر کے رکھ لںئ پھر دیگر اجزاء کا سفوف بنائں ۔ بعد ازاں مرکب کا قوام تیار کر کے جملہ ادویہ اُس مںن شامل کریں ۔ سفوف کے چرب کرنے کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ مرکب مںت نرمی قائم رہے اور اِس کی افادیت بڑھ جائے اور چونکہ ترپھلہ کم و بیش آنتوں مںت مروڑ پیدا کرتا ہے لہذا چرب کرنے سے اس کے مضر و منفی اثرات بھی زائل ہو جاتے ہںی ۔ اطریفل کا موجِد اطریفل کا موجِد اندروما خس نامی یونانی طبیب ہے۔ غالباً یہ اندروماخس ثانی ہے اور اِس کوہی اسقلبیوس ثانی (Asculpius II )کہتے ہں ۔ دیگر مرکبات کی طرح اطریفل کے بھی کئی نسخے ہںک جن کا ذکراِس کتاب مں آئے گا۔ اطریفلات کی قوتِ تاثیر دو سال تک باقی رہتی ہے البتہ اطریفلات کی مدت استعمال دو ماہ سے زیادہ نہںل ہے۔ نیز اطریفلات کو متواتر نہ کھا کر روک روک کر استعمال مں لانا چاہیے جس سے ضعف معدہ کا اندیشہ باقی نہںث رہتا ہے کیونکہ اطریفلات کا کثرتِ استعمال مُضعِفِ معدہ ہوتا ہے۔ اطریفل اُسطوخودوس وجہ تسمیہ اِس اطریفل کا نام اِس کے جزءِ خاص کی طرف منسوب ہے۔ افعال و خواص اور محل استعمال دماغی امراض خصوصاً دردِ سر اور جملہ امراضِ بلغمی و سوداوی مںک مفید ہے۔ دماغ کے تنقیہ کے لئے طِب یونانی کے مخصوص مرکبات مںس شمار کی جاتی ہے۔ اِس کا متواتر استعمال بالوں کو سیاہ رکھتا ہے۔ جزءِ خاص ترپھلا اور اسطوخودوس اِس کا جزءِ خاص ہے۔ دیگر اجزاء مع طریقۂ تیاری پوست ہلیلہ زرد و پوست ہلیلہ کابلی، پوست ہلیلہ سیاہ، پوست بلیلہ آملہ مقشر، اسطوخودوس، برگ سناء مکی، تربد سفید ، بسفائج فُُستقی ،مصطگی، افیتمون کِشمِش، مویز منقّٰی (بعض نسخوں مںس گلِ سُرخ کو) ہم وزن لے کر باریک کر لںق اور ہلیلہ جات کو روغنِ بادام شیریں مںہ چرب کر کے سہ چند شہدِ خالص کے قوام مںخ ملائںن ۔ مقدار خوراک ۵گرام تک ہمراہ عرقِ گاؤزباں ۱۲۵ ملی لیٹر یا ہمراہ آبِ سادہ۔ اطریفل زمانی وجہ تسمیہ اِس کے موجِد حکیم میر محمد مومن حسینی ولد میر محمد زمان عہدِ محمد بن تغلق شاہ (۱۳۳۴ء تا ۱۳۵۴ء )کے طبیب ہں ،اُنہوں نے اِسے اپنے والد میر محمد زمان کے نام منسوب کیا ہے۔اِس سے مراد میر محمد مومنؔ شاعر نہںب ہں جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہں ۔ افعال و خواص اور محل استعمال مالیخولیا، دردِ سر، خفقان اورقولنج مں مفید ہے۔ مسلسل استعمال دائمی نزلہ کو فائدہ دیتا ہے۔ مالیخو لیاء مراقی کی یہ مخصوص دواء ہے۔ دیگر اجزاء مع طریقۂ تیاری پوست ہلیلہ زرد ،پوست ہلیلہ کابلی ، ہلیلہ سیاہ ، گل بنفشہ سقمونیابریاں ہر ایک ۴۰ گرام تربد مجوف ،کشنیز خشک ہر ایک ۸۰ گرام پوست بلیلہ آملہ مقشر گُلِ سُرخ، گل نیلوفر، طباشیر ہر ایک ۲۰ گرام صندل، سفید کتیرا ہر ایک ۱۰ گرام روغنِ بادامِ شیریں ، ٤٠٠ ملی لیٹر۔سب دواؤں کو کوٹ چھان کر روغنِ بادام مںر چرب کر کے علیحدہ رکھںا اور عنّاب ١٠٠ عدد، سپستاں ١٠٠ عدد، گل بنفشہ ۳۰ گرام ،کو پانی میں جوش دے کر صاف کریں اور مربیٰ ہلیلہ کا شیرہ ڈیڑھ گنا اور شہد سب دواؤں کے ہم وزن لے کر جوشاندہ میں ملا کر اِتنا پکائیں کہ قوام ایک ہو جائے پھر درجِ بالامسفوف ادویہ اس میں شامل کر کے مرکب تیار کریں ۔ مقدار خوراک ۵ گرام تا ۱۰ گرام ۔ اسہال لانے کے لئے ۲۵ گرام تک دے سکتے ہیں ۔
تعارف۔مجربات سعد فارمیسی
تعارف۔مجربات سعد فارمیسی بسمہ تعالیٰ اے جذبہ دل گر تو چاہے۔ زندگی میں کوئی بھی چیز آسان نہیں ہوتی۔اپنی نوعیت و اہمیت کے اعتبار سے اپنی قیمت ضرور وصول کرتی ہے،اس کی کوئی بھی شکل و صورت ہوسکتی ہے،مال،جان ،وقت،وغیرہ۔علوم و فنون میں نکھار تجربات کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے،اور تجربات اسی وقت ہوتے ہیں جب متعلقہ علم و ہنر میں سوجھ بوجھ ہو۔معمولی سا کام بھی نکھار کے لئے قیمت وصول کرتا ہے۔عمل پیہم۔لگن کوشش۔وقت کی ناہمواری ، احباب کا تمسخر کونسی تکلیف ہے جو کسی میدان میں پختگی حاصل کرنے کے لئے درکار نہیں ہوتی۔ میری زندگی کا سنہرا دور جسے لڑکپن و جوانی کہا جاتا ہے،طب و عمللیات کے میدانوں میں خاک چھانتے ہوئے گزری ہے۔قدرت کا بھی عجیب نظام زندگی ہے،جب کسی سے کوئی کام لینا ہوتا ہے تو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے زمانہ سے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے۔،فرد و بشر اس فیصلہ پر بہت ہاتھ پائوں مارتا ہے ،اسے کراہت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ہاتھ پائوں مارتا ہے کہ کسی طرح اس طبعی گھٹن والے ایام سے باہر نکل جائے۔لیکن اس کا تعین قدرت کرتی ہے کہ کسی کو کس حال میں کتنی دیر رکھنا ہے۔ بندہ راقم کی بھی زندگی کچھ ایسے ہی فریم ورک سے آراستہ ہے۔ایک وقت تھا کہ جب زندگی کے ایام بہت گھٹن سے گرز رہے تھے۔دنیا سے رابطہ منقطع تھا،کتاب سے بڑھ کر کوئی مونس و غم غوار نہ تھا،،ایک رات کا بخیر گرزنا۔ایک وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نصیب ہونا بہت بڑی نعمت خداوندی تھی۔یہ قیامت خیز گھڑیاں تھیں ۔ جس سے جتنی زیادہ سناشائی ہوتی تھی اس سے انتی ہی وحشت و خوف آتا تھا ۔ لوگ اپنوں کو تلاش کرتے ہیں،میں انہی لوگوں سے چھپتا پھرتا تھا۔وہ تلخ ایام جنہیں میں ناپسند کرتاتھا ،آج میرے لئے شناخت کا ذریعہ ہیں۔یہ وہی تحریرات ہیں جنہیں میں اہپنی وحشت دور کرنے اور کچھ دیر من بہلاوے کے لئے لکھا کرتا تھا ،آج میری شناخت بن چکی ہیں۔۔۔ یہ انہیں ایام کی داستان ہے ،میں دور دراز علاقوں میں نکل جاتا تھا۔ایک بیگ میرے کاندھے پر ہوتا تھا،کسی گائوں میں جاکر بیٹھ جاتا،للہ فی اللہ نبض دیکھتا اور مفت دوا دیتا۔میری کوشش ہوتی کہ میں دس روپے کی پرچی پر مریض کو ایک ہفتہ کی دوا دیدوں۔اس سے میرا خرچہ بھی نکل آئےگا۔اور مریض بھی دوا کھالے گا۔تنگ دستی عروج پر تھی ،سو پچاس روپے بھی معنی رکھتے تھے۔خودداری اتنی کہ بھوکا رہنا۔منظور تھا لیکن کسی سے دس روپے ادھار لینا گوارا نہ تھا۔ یہ اوراق انہیں ایام کی داستان ہیں۔ان نسخوں سے میں نے بہت سافائدہ اٹھایا ،بے شمار لوگوں کے دکھوں کا مداوا ان سے کیا۔یہ وہ ڈائری میں لکھے ہوئے نسخہ جاتا ہے،جنہیں میں افادیت و ضرورت کے تحت لکھ لیا کرتاتھا۔مجھے توقع نہ تھی کہ یہ اوراق کبھی افادہ عام کے لئے شائع بھی ہوسکیں گے،میں انہیں بھول چکا تھا۔ 2009،….2010 میں لکھی ہوئی بہت سی کتب ضآئع ہوچکی تھی۔آج میں پرانی CDs دیکھ رہا تھا کیونکہ یہ ان ریڈ ابیل ہوچکی تھیں۔پھر سی ڈی روم۔ وغیرہ بھی میسر نہیں،لیکن ایک لیب ٹاپ میں ڈی،وی ڈی روم موجود تھا۔کوشش کی تو چار پانچ کتابوں کا ڈیٹا ریکور ہوا (1)جادو کی تاریخ(2) قران کریم کےالفاظ معانی میوا تی زبان(3)شنیوا کے پہاڑ(4)سعد طبیہ کالج کے مجربات()وغیرہ مناسب سمجھتا ہوں کی یہ قیمتی نسخہ جات،سعد طبیہ کالج کے طلباء اور عوام الناس،اطباء و حکماء کے لئے ڈیجیٹل کاپی اپ لوڈ کررہاہوں۔امید ہے یہ کاوش میرے لئے صدقہ جاریہ بنے گی۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
سعد فارمیسی کےمجربات از حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
سعد فارمیسی کے مجربات اے جذبہ دل گر تو چاہے۔ زندگی میں کوئی بھی چیز آسان نہیں ہوتی۔اپنی نوعیت و اہمیت کے اعتبار سے اپنی قیمت ضرور وصول کرتی ہے،اس کی کوئی بھی شکل و صورت ہوسکتی ہے،مال،جان ،وقت،وغیرہ۔علوم و فنون میں نکھار تجربات کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے،اور تجربات اسی وقت ہوتے ہیں جب متعلقہ علم و ہنر میں سوجھ بوجھ ہو۔معمولی سا کام بھی نکھار کے لئے قیمت وصول کرتا ہے۔عمل پیہم۔لگن کوشش۔وقت کی ناہمواری ، احباب کا تمسخر کونسی تکلیف ہے جو کسی میدان مین پختگی حاصل کرنے کے لئے درکار نہیں ہوتی۔ نیچے دیے گئے ٹیبل سےسعد فارمیسی کےمجربات از حکیم قاری محمد یونس شاہد میوکی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات سعد فارمیسی کےمجربات :کتاب کا نام حکیم قاری محمد یونس شاہد میو :لکھاری / مصنف اردو :زبان (ُPdf)پی ڈی ایف :فارمیٹ 2.62 MB :سائز 67 :صفحات >> Please Like Our Facebook Page for More Beautiful Books and Novels << ہماری دوسری کتابیں ان کا بھی مطالعہ کریں مدارس کے طلباء اور علماء کے لئے طب سیکھنا کیوں ضروری ہے؟ روغن اَرنڈ (بیدانجیر۔کسٹرائیل) کے100 طبی-فوائد مہیری سو پہلے۔یائے بانچ لئیو دروس العملیات جادو کی تاریخ۔ اونٹ کے طبی فوائد طب نبویﷺ کی روشنی میں میرے عملیاتی مجربات
رزق کا معاملہ کیا ہے
رزق کا معاملہ کیا ہے رزق کا معاملہ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو یہ معاملہ بہت حساس ہے حالانکہ اس کا ذمہ خود خالق کائینات نے اپنے سر لے رکھا ہے ،کائینات کا نظام کچھ اس انداز میں گردش کررہا ہے کہ رزق کا کوئی خاص راستہ نہیں ہے جہاں سمجھا جاسکے کہ اس رہ سے چل کر ضرور رزق مل جائیگا ،ایک حدیث ہے کہ رزق انسان کو اس طرح تلاش کرتا ہے جیسے موت انسان کو ڈھونڈتی پھرتی ہے ،ایک اور جگہ ہے کہ انسان اس وقت تک ہرگز نہیں مر سکتا جب تک وہ اپنے حصہ کا رزق مکمل نہ کرلے رزق کس طرح اور کس انداز میں لکھا ہے اور اس کے ملنے کی کیا صورت ہے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہر ایک بساط بھر کوشش میں لگا ہوا ہے اللہ نے اس کی روزی کے اسباب وہیں سے مہیا کردئے ہیں جہاں وہ مصروف عمل ہے مثلاََ ایک تاجرتجارت سے بے شمار دولت جمع کرلیتا ہے مگر دوسرا اسی راستہ میں اپنا تمام اثاثہ برباد کرکے محروم و مایوس ہوکر باہر نکلتا ہے ایک نوکری میں بہت خوش ہے تو دوسرا کسی کی ماتحتی کو سیوہان روح مانتا ہے ایک مزدور زور بازو سے رزق مہیا کرتا ہے تو ایک ٹھگ بھی پوری زندگی مصروف عمل رہتا ہے ایک سنار زرگری سے دولت پیدا کرتا ہے تو دوسرا مٹی کے برتن بناکر اپنا پیٹ پالتا ہے کوئی بھی ایک اندازہ سے زیادہ رزق نہیں کما سکتا جہاں اس کا رزق بکھیر دیا گیا وہیں اس کی ضروریات بھی بنادی گئی ہیں رزق تو سمندر کے کنارے پٹی ہوئی گیلی ریت کی طرح ہے جہاں ہاتھ مارو گے پانی چِگ چگانے لگ جایئگا اسی طرح جس ہنر میں بھی ہاتھ ڈالوگے اسی سے رزق کے سوتے پھوٹنا شروع ہوجایئںگے پھر پیدا کرنے والے نے ہر انسان کی تخلیق ایک مخصو ص طرز پر کی ہے ہر ایک کے دل میں اس کے کام کے بارے محبت ڈال دی گئی ہے مگر انسان جلد باز ہے حسد کا عنصر اس میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے، جب اپنے شعبہ میں کسی نئے آنے والے کو دیکھتا ہے تو جل بھن جاتا ہے لیکن کشادہ دلی ہی زندگی گزار نے کا بہترین طریقہ ہے عاقل و سمجھدار ان چکروں میں نہیں پڑتا،اگر کوئی غلطی کی وجہ سے غلط شعبے میں چلا جائے تو جلد یا بدیر وہ وہاں سے الگ ہوجاتا ہے اور اپنے پسندیدہ کام کی طرف لپکنے لگتا ہے …