شاہترہ (پت پاپڑہ)کے حیرت انگیز فوائد شاہترہ (پت پاپڑہ)کے حیرت انگیز فوائد حکیم قاری محمد یونس شاہد میو شاہترہ کا قہوہ۔۔صحت کا خزانہ۔۔۔۔۔ قدرت نے انسان کو بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔بے شمار نعمتوں کی ناقدری انسان کا شیوہ ہے،جس سر زمین میں انسان زندگی گزارتا ہے اس کے لئے جس طرح غذا و خوراک کا بندوبست اسی سر زمین میں ہوتا ہے ،اس کے علاج و معالجہ کا بندوبست بھی انہیں کھیتوں یا ویرانوں میں موجود ہوتا ہے گھاس پھونس پیروں میں روندے جانے والی اور بے قیمت سمجھی جانے والی جڑی بوٹیاں طبی لحاظ سے فوائد کا خزانہ ہیں ہم لوگ اتنے ناسمجھ بنتے ہیں کہ گندم کے کھیتوں میں اگنے والی اس بیش قیمت بوٹی کو سپرے کی مدد سے تلف کرتے ہیں۔۔آئے اس بیش قیمت اورفائد سے بھرپور جڑی بوٹی کے بارہ میں گفتگو کرتے ہیں۔ شاہترہ۔۔۔ شاہترہ ایک خودرو جڑی بوٹی ہے۔ آبائی طور پر اس کا تعلق یورپ، ایشیا اور افریقہ سے ہے لیکن یہ تقریباً دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہے۔اسے اردو اور فارسی میں شاہترہ اور ہندی میں پاپڑا،عربی میں شاہترج اورآیورویدک پرپٹ یاپت پاپڑاکہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے (fineleaf fumitory) کہتے ہیں۔ اس کا نباتاتی نام (Fumaria parviflora) ہے۔یہ زیادہ تر امراض فساد خون مثلاً خارش‘ آتشک‘ داد‘چنبل‘پھوڑاپھنسی وغیرہ میں جو شاندہ کی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔ شاہتراہ کا پودا چھ انچ سے ڈیڑھ فٹ تک اونچا،نازک، سفیدی مائل سبز اور زردی لئے ہوتا ہے۔ پتے دھنیہ یا گاجر کی طرح کٹے پھٹے، آدھ انچ سے ڈھائی انچ تک لمبے اور آدھ انچ کے قریب چوڑے ہوتے ہیں۔پھول سفید یا گلابی رنگ کے چھوٹے چھوٹے جن کا اگلا حصہ بیگنی رنگ کا ہوتاہے۔ یہ گلابی پھول والا زیادہ مفید ہوتا ہے۔ پھول گول چھوٹے چمک دار چکنے خشک ہونے پر نیلے یا بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ شاہترہ کا پودا تقریباً تمام ممالک میں گیہوں اور جو کے کھیتوں میں موسم سرما میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ گرمیوں میں خشک ہوجاتا ہے مگر موسم برسات میں اس کی جڑپھر سبز ہو جاتی ہے۔ اس کو عام لوگ پہچان لیتے ہیں۔ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ شاہترہ میں پائے جانے کیمیائی اجزا: جدید تحقیق کے مطابق شاہترہ میں بنیادی کیمیائی جز فیورک ایسڈ ”فیومیرین“ پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی دیگر مرکبات پائے جاتے ہیں۔خون صاف کرنے والی جتنی ادویات بنتی ہیں، ان میں خصوصاً شاہترہ اور چرائتہ استعمال کی جاتی ہیں۔ شاہترہ کے طبی فوائد: فاسد مادوں کا اخراج: شاہترہ میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بلغم اور دیگر فاسد مادوں کو جسم سے براہ راست نکالتا ہے۔ زبردست مصفیٰ خون: شاہترہ میں دوسری سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ زبردست مصفیٰ خون ہے۔خون صاف کرنے والی اکثر ادویات میں شاہترہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ خون سے زہریلے مادے کو بالکل ختم کردیتا ہے۔اور جلد کو صاف شفاف بنا دیتا ہے۔ پھوڑے پھنسیوں کا علاج: مصفیٰ خون ہونے کی وجہ سے شاہترہ خارش خشک اور تر،داد، چنبل، پھوڑے،پھنسی اور فساد خون کیلئے انتہائی موثر دوا ہے۔ اس کے پتوں کا بنا ماؤتھ واش سے غرارے کرنے سے تالو اور زبان کے زخم ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ دوائے ملیریا: شاہترہ کے پتے سایہ میں خشک کرکے باریک پیس لیں۔3رتی صبح اور 3 رتی شام پانی سے استعمال کریں۔ملیریا بخارکے لئے نہایت فائدہ مند ہے۔ پھوڑے پھنسیوں کا شربت: پھوڑے پھنسیوں کیلئے شاہترہ کا بنا ہوا شربت بازار سے ملتا ہے۔ تاہم گھر پر بنانے کیلئے درج ذیل طریقہ ہے۔ شاہترا(پاپڑا)صندل لال،ہرڑ کالی،مُنڈی،چرائتہ،عشبہ،برہم ڈنڈی، شیشم کا برادہ ہر ایک 25 گرام،عناب 40 عدد۔ تمام دواؤں کو چھ گنا پانی میں ملا کر رات کو پڑا رہنے دیں۔دن کو جوش دیں۔ جب آدھا رہ جائے تو مل چھان کر ڈیڑھ گناکھانڈ ملا کر قاعدہ کے مطابق شربت تیار کریں۔یہ 20 گرام شربت، 50 گرام عشبہ ملا کر پئیں۔ یہ پھوڑے، پھنسیاں، خارش اور عام جلدی امراض کے لئے مفید ہے۔ خون صاف کرنے کا شربت: یہ بھی بازار سے ملتا ہے، لیکن گھر پر بنانے کا طریقہ درج ذیل ہے۔ شاہترہ 50گرام،سرپھوکہ 50گرام،برادہ لکڑی شیشم50 گرام،مُنڈی 50 گرام، مہندی کے پتے 50 گرام،بسفائج 50 گرام، کالی ہرڑ، 50 گرام، چرائتہ 20گرام، گاؤزبان، عشبہ مغربی 20 گرام، پرسیاؤشاں 20 گرام، کاسنی 100 گرام، مکوخشک 100گرام، عناب 50 گرام۔ سب کو 16 کلو پانی میں رات کو تر کریں، صبح جوش دیکر8 کلو عرق نکالیں۔ خوراک 30گرام ہمراہ شربت عناب 20 گرام استعمال کرائیں۔ بغیر شربت کے بھی استعمال کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ شاہترہ کا جوشاندہ کئی بیماریوں کا بہترین علاج ہے ۔۔ جانیئے شاہترہ کا جوشاندہ بنانے کا طریقہ اور اس کے حیرت انگیز فوائد شاہترہ ایک پودا ہے جو موسمِ بہار میں کھیتوں باغات اور سڑکوں کے کنارے اُگتا ہے ۔گاؤں وغیرہ میں رہنے والے افراد اس پودے کو بخوبی پہچانتے ہیں اور اس کے فوائد سے بھی واقف ہوتے ہیں، شاترہ کے پھول پتے اور شاخیں سب ہی طبی فوائد سے بھرپور ہوتی ہیں۔ شاترہ کے بےشمار فوائد میں خون صاف کرنا اور بخار اُتارنا شامل ہے، یہ جگر کے لئے بھی مفید ہے اس کا جوشاندہ بنا کر استعمال کیا جاتا ہے جو کئی قسم کی بیماریوں سے دور رکھنے کے لئے بہترین ہوتا ہے شاترہ کے دیگر فوائد درج ذیل ہیں۔ • شاہترہ کے حیرت انگیز فوائد • بخار میں مفید ۔اگر بخار نہ اُتر رہا ہو تو ایسے میں شاترہ کا استعمال مفید ہے بخار کے مریض کو اگر شاترہ کا جوشاندہ بنا کر دیا جائے تو اس سے فوری پسینہ آنے لگے گا اور جسم کا درجہ حرارت کم ہو کر بخار اُتر جائے گا۔ • خون صاف کرنے کے لئے مفید شاہترہ کا ذائقہ تلخ ہوتا ہے یہ جسم میں فلٹر کا کام کرتے ہوئے خون کو فلٹر کرتا ہے اور خون سے فاسد مادوں، زیریلے مادوں اور گندگی کو صاف کر کے خون کو صاف کرتا ہے، شاترہ کا جوشاندہ باقاعدگی سے استعمال کرنے سے کچھ ہی دنوں میں خون صاف ہونے لگا اور یوں نہ صرف صحت بہتر ہوگی بلکہ جلد میں بھی نکھار آئے گا۔ • جگر کے امراض میں مفید شاہترہ جگر کے امراض سے نجات دلانے کے لئے بھی جانا جاتا ہے، یہ جگر کے افعال
16جڑی بوٹیوں کی چائے کے پیس قیمت فوائد1
16جڑی بوٹیوں کی چائے کے پیس قیمت فوائد1 16جڑی بوٹیوں کی چائے کے پیس قیمت فوائد1 حکیم قاری محمد یونس شاہد میو مختلف جڑی بوٹیاں مختلف خواص کی حامل ہوتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں کی ان خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج مشرق اور مغرب علاج کےضمن میں ان دوائی پوروں سے یکساں فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ جڑی بوٹیوں سے چائے بنانے کا تصور جد ید اور بہت دلکش محسوس ہوتا ہے، لیکن قدیم طب میں جوشاندے کا تصور بہت پرانا ہے۔ جڑی بوٹیوں سے چائے بنانے کا انداز مغرب نے اپنایا ہے۔ وہ اسے جوشاندے کا نام نہیں د یتے بلکہ چاے (ٹی) کہنے پر اصرار کرتے ہیں۔ اس لئے ہم بھی اسے چائے ہی کہیں گے ۔ ویسے بھی جوشاندے کے مقابلے میں چائے زیادونی اچھی محسوس ہوتی ہے۔ جڑی بوٹیوں سے تیار ہونے والی چائے میں بعض پودوں کے صرف پتے بعض پودوں کے صرف پھول یا ان کی چھال یان یا جڑ استعمال ہوتی ہے۔ اس چائے کو پینے کے انداز بھی مختلف ہیں ۔ آپ چاہیں تو سردیوں میں اسے گرم حالت میں پئیں اور چاہیں توگرمیوں میں اس چائے کو بنا کر یخ کرلیں اور پھرپیئیں ۔ چائے پینے کے یہ نئے انداز بھی مغرب کی ایجاد ہیں۔یہ چائے ابتدا میں بعض لوگوں کو زیادہ ذائقے دارمحسوس نہیں ہوتی ۔ بعض جڑی بوٹوں کی چائے اتنی خوش ذائقہ ہوتی ہے کہ بار بار پینے کو دل چاہتا ہے۔ بہرحال یہ چائے جسم میں مرضی کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہے اور قوت مدافعت کو طاقت دور کر کے بیماری کو بھاگنے پر مجبور کردیتی ہے۔ چائے بنانے کے لئے اگر آپ پودے کے تازہ اجزا لے رہے ہیں تو آپ کو خشک اجزا کے مقابلے میں تازہ اجزاد گئے وزن میں لینے ہوں گے۔ اگر آپ کسی پودے کی جڑ کی چائے بنانا چاہتے ہیں تو پہلے جز کو پیس کر سفوف بنالیں۔ بیجوں کی چائے بنانے سے قبل بیجوں کو پیس لیں۔ چائے بنانے کے لئے پودے کے اجزاکو ابلتے ہوئے پانی میں ڈال لیں اور پھر آگ پر تین منٹ تک جوش دیں۔ اس کے بعداس چائے کو پیالی یا کپ میںنکال لیں۔ اگر پودے کے اجزاتازہ ہوں تو ابالنے میں دوگنا وقت لگائیں۔ اگر کسی پھول سے چائے تیار کر رہے ہیں تو ایک چھوٹے فرائی پین (ایویلیم کا نہ ہو) میں پانی گرم کریں۔ اب اس میں پھول ڈال دیں اور دھیمی آنچ پر ایک منٹ تک پکنے دیں۔ اس کے بعد اسے کپ میں انڈیل لیں۔اس چائے میں دودھ نہیں ڈالا جاتا۔ البتہ آپ چاہیں تو اسے خوش ذائقہ بنانے کے لئے اس میں شہد یا تھوڑا سا لیموں کا رس یا عرق گلاب ڈال سکتے ہیں۔ اگر کسی پھل کا تازہ نکالا ہوارس اس چائے میں ملا دیں تو اس کے ذائقے اور خوشبو میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ اب باتیں ختم کرتے ہیں اور چائے بنانا شروع کرتے ہیں۔ (1)انیسون (Aniseed) انیسون کے بیج بازار میں عام دستیاب ہوتے ہیں۔ ان میں سونف جیسی خوشبو ہوتی ہے۔ یونانی طب میں اس کا استعمال بہت قدیم دور سے ہورہا ہے۔ آج سے تقریبا دو ہزار برس قیل کی کتابوں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے بیج بدہضمی اورگیس کی شکایت میں مفید ہیں۔ اس کے استعمال سے آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوتا ہے۔ منہ کی بدبو دور کرنے کیلئے بھی مفید ہے۔ چھوٹے بچوں کے نظام ہضم کو درست کرنے کےلئے ان بیجوں کو پیس کر کھانے میں ملا دیا جاتا ہے۔ بچوں کی بے چینی اور گھبراہٹ کی کیفیت دور کرنے کے لئے گرم دودھ میں شہد ملا کر ایک چمچ انیسون کا سفوف بھی عمل کر کے دینا بھی مفید ہے۔ انیسون کے بیجوں کی چائے بنا کر ٹھنڈی کرلیں۔ اس میں روئی بھگو کر چہرے کی جلد پر ہلکے ہلکے ہاتھوں سے لگانے سے جلد کی چمک بڑھ جاتی ہے۔
مریض پر حاضرجنات قید کرنے کاعمل
مریض پر حاضرجنات قید کرنے کاعمل مریض پر حاضرجنات قید کرنے کاعمل حکیم قاری محمد یونس شاہد میو سرمہ دانی میں جن قید کرنے کے لئے تم ذیل کے کلمات پڑھو یعرف المجرمون بسیماھم فیوخذ بالنواصی والاقدام،اذالاغلال فی اعناقھم والسلاسل یسحبون،خذہ فغلوہ ثم الجحیم صلوہ ثم فی سلسلۃ ذرعھا سبعون ذراعافاسلکوہ انہ کان لا یومن با للہ العظیم اجب یاصبوربحق الذی اشرق برق صواعق نور وجھہ بجبل طور سیناء فانھض وانفرد واجر جریاََکما یجری الماء جریاََ وتعظیما للہ تعالی الذی قال للسمٰوٰت والارض سے طائعین تک للہ رب العالمین رب النار والنوروالبحر الاسود،والبرھان وکفۃ المیزان، یاشمخ شماج من کل براخ یا شطنح طیخہ واھیا شرا ھیااذونای اصباء وث وآل شدای الوھیجا اجب یا نکیل ویا خمدوش ویا نھش ویا قلیش ویا شنفع المتالی ادخلوا علی المعاصی با لسجن،جب یہ کلمات پڑھ چکو تو جن قید ہوجائیگا،پھر باقی جنوں کو حکم دو کہ اس کا کھانا پینا قید خانہ میں لاکر رکھدیں،جب وہ یہ کرچکیںتو انکو حکم دو کہ قید کادروازہ قفل کرکے کنجی کہیں پھینکدیں یہ جن ہمیشہ قید رہیگا[کتاب الرحمہ فی الطب والحکمہ ص۱۷۵] اس عمل میں کوئی شک نہیں لیکن عامل کو ایسے معاملات میں احتیاط کا پہلو تھامنا چاہئے،یہ فطری بات ہے کہ کوئی بھی قید ہونا پسند نہیں کرتا آزادی ہزار نعمت ہوتی ہے آپ خود پر قیاس کرلیں،یہ عملیات ناگزیر حالات میں کئے جانے چاہئیں،جب تمام راستے بند ہوجایئں اور یہی راستہ باقی ہوتو اس میں مضائقہ نہیں ہے [بندہ راقم محمد یونس شاہدجمعرات۱۴؍دسمبر۲۰۰۶8:13:00
اورنگ عالمگیر کلا طرز حکومت رواداری کا عظیم باب
اورنگ عالمگیر کلا طرز حکومت رواداری کا عظیم باب ( 24/اکتوبر 1618ء مطابق 15/ ذی قعدہ،1027ھ ۔۔۔۔۔( 1658ء تا 1707) اورنگ عالمگیر کلا طرز حکومت رواداری کا عظیم باب۔2 حکیم قاری محمد یونس شاہد میو جنوبی ہند آج بھی بڑے بڑے مندروں کے لئے مشہور ہے آخر وہ آج تک کیسے قائم ہے اگر اورنگ زیب مندروں کے خلاف تھا تو جنوبی ہند کے موجودہ منادر کس طرح اس سے محفوظ رہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اورنگ زیب اسلامی شریعت کے مطابق مذہبی و معاشرتی کاموں کو کرنے والا تھا تو کیا مندر کو گرا کر اس پر مسجد تعمیر کرنے کی اجازت شریعت دیتی ہے؟ شریعت میں اس کی قطعی اجازت نہیں کہ دوسروں کی زمین چھین کر یا اس پر قبضہ کر کے اس پر مسجد تعمیر کرلی جائے۔ پھر اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مغل حکمرانوں کے پاس زمینوں کی کمی تھی جس کی وجہ سے مندر کو توڑ نا ضروری سمجھا؟ اور حقیقت یہ ہے کہ عمارت بنانے کا شوق اورنگ زیب کو نہیں تھا۔ خواہ وہ محلات ہوں یا مساجد۔ اسکے زمانے میں زیادہ تر مساجد کی مرمت ہی کی گئی ہے۔ “بنارس فرمان” نام سے مشہور ایک فرمان میں ذکر ہے کہ بنارس کے محلہ گوری میں سکونت پذیر ایک برہمن خاندان کو یہ فرمان جاری کیا گیا تھا جس کی مکمل تفصیل پہلی بار1911ء میں جرنل آف دی رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگا میں شائع ہوئی تھی۔10مارچ1659ء کو اورنگ زیب کے ذریعہ دئیے گئے اس فرمان کے مطابق ایک مسلمان ہندو مندر کو توڑ کر عام لوگوں کے لئے جگہ بنانا چاہتا تھا لیکن اورنگ زیب نے اس پر پابندی لگا دی۔ (بحوالہ بی۔ا ین پانڈے) شراوک فرقہ کے ستی داس جوہری کو اورنگ زیب نے 1660ء میں نثار اور آبو جی کے پہاڑیوں (اونچائی پر موجود زمین) کو بطور عطیہ دیا اور اپنے عہدے داروں کو حکم بھی دیا کہ ان پہاڑیوں میں سے کوئی ٹیکس نہ وصول کیا جائے اور اگر کوئی بھی دشمن راجہ ان پہاڑیوں پر قبضہ کرنا چاہے تو اس کی حفاظت کی جائے گی۔ اپنے عہد حکومت کے آخری 27سال اورنگ زیب نے جنوبی ہند میں گزارے لیکن اس درمیان کوئی ہندو مندر نہیں توڑا۔ (بحوالہ مندر کا مغلیہ رشتہ، انڈیا ٹو ڈے،[ہندی] مدیر ارون پوری شمارہ 21،15،1۔ستمبر 1987ء۔شری رام شرما مغل شاسکوں کی دھارمک نیتی صفحہ 162) گیا جو صوبہ بہار کا ایک تاریخی و مذہبی شہر ہے وہاں کے ایک مندر کو اس نے زمین عطیہ کی۔(بحوالہ تاریخ، کشمیر، صفحہ 165، اور اورنگ زیب ایک نئی درشتی، ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد۔صفحہ 23) سچائی یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں بغیر کسی تفریق کے ہندو اور مسلمان دونوں اورنگ زیب کا ساتھ دیتے تھے مثال کے طور پر ایک علاقائی زمیندار “گوکلا” کی رہنمائی میں متھرا کے بیس ہزار جاٹوں نے بغاوت کر دی۔ یہ واقعہ 1669ء کا ہے۔ اس بغاوت کو دبانے کے لئے اورنگ زیب خود گیا اور گوکلا کو سزائے موت ملی۔ اسی طرح 1672ء میں نارنول کے نزدیک کسان اور مغل افسران کے درمیان ایک جنگ جس کا قائد “باغی ستنامی نام” کی ایک مذہبی تنظیم کا صدر تھا۔ شروع میں ان کی لڑائی علاقہ کے افسر سے ہوئی بعد میں یہ بڑی شکل اختیار کر گئی اس لڑائی کو بھی ختم کرنے اورنگ زیب خود گیا۔ اس بغاوت کو کچلنے میں اہم بات یہ تھی کہ علاقہ کے ہندو زمینداروں نے مغلوں کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے یہ بغاوت کچل دی گئی۔ اورنگ زیب ایک حوصلہ مند اور بہادر شخص تھا۔ کسی بھی کام کو بڑی سنجیدگی اور ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر کرنے کی قدرت صلاحیت اس میں تھی۔ ایک طرف جہاں اس نے پندرہ برس کی عمر میں تنہا ایک پاگل ہاتھی کا سامنا کیا وہیں دوسری طرف 87 برس کی عمر میں واگن کھیڑا کا گھیرا(محاصرہ) ڈالنے والوں میں مورچوں کی کھائیوں میں بے خوف کھڑے ہوکر اپنی دلیری و جوانمردی کی مثال پیش کی۔ نزدیک آئے خطرات کے وقت بھی حوصلہ افزا باتیں کرنا اس کی ہمت کا ثبوت ہے۔ دوسرے شاہزادوں کے رہن سہن کے بر خلاف اورنگ زیب بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا۔ کافی باریکی سے سوچنے کی عادت اور سنجیدگی پسند اورنگ زیب فارسی ، ترکی اور ہندی بہت اچھی طرح بولتا تھا۔ اسی کی وجہ سے اسلامی قانون کا ایک بڑا ذخیرہ “فتاوی عالمگیری” ہندوستان میں تیار ہوا۔ اورنگ زیب کے اخلاق اتنے اچھے تھے اسی کے سبب جب وہ شہزادہ تھا اس نے اپنے والد کے شاہی دربار میں موجود اعلی ترین عہدیداروں و منصب داروں کو اپنا دوست بنالیا تھا۔ اپنی اس فطرت وخصلت کو بادشاہ بننے کے بعد اورزیادہ بہتر بنایا۔ رعایا نے اسے “شاہی پوشاک میں ایک درویش” کا لقب دیا۔ سادہ اور با اصول زندگی گزارنے والا اورنگ زیب عیش و عشرت سے ہمیشہ دور رہا۔ اس کی چار بیویاں تھیں۔ (1) دل رس بانو (2) نواب بائی (3)اورنگ آبادی بیگم (4) ادئے پوری۔ زندگی کے آخری لمحے تک ادے پوری ہی اس کے ساتھ رہی جس سے اس نے 1660ء میں شادی کی تھی۔ انتظامی امور کو دیکھنے کے لیے وہ سخت محنت کرتا تھا۔ کام کا بوجھ جب زیادہ رہتا تو ایک دن میں دوبار دربار لگاتا۔ شاہی دربار کے اطالوی (اٹلی کے) ڈاکٹر گیمیگی نے خود نوشت میں لکھا ہے: ” اورنگ زیب کا قد ٹھگنا، ناک لمبی ، جسم دبلا پتلا اور بڑھاپے کی وجہ سے جھکا ہوا تھا۔ اسکار رنگ گندمی اور چہرہ گول جس پر سفید داڑھی تھی۔ مختلف کام کاج کے متعلق پیش کی گئی عرضداشت پر وہ خود اپ نے ہاتھ سے حکم لکھتے ہوئے میں نے دیکھا ہے جس کے باعث میرے دل میں اس کے لئے مزید احترام و عزت بڑھ جاتی تھی۔ زیادہ عمر ہونے کے باوجود لکھنے پڑھنے کا کام کرتے وقت چشمہ نہیں لگاتا تھا۔ اس کے شگفتہ چہرے کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ اسے اپنے کام سے بہت دلچسپی ہے۔” 90/ سال کی عمر میں بھی اس کی چستی پھرتی میں کوئی کمی نہیں تھی اس کی یادداشت بہت تیز تھی اگر کسی کو بھی اس نے دیکھ لیا یا
ادویہ کی حفاظت مختلف قواموں کی تیاری
ادویہ کی حفاظت مختلف قواموں کی تیاری ادویہ کی حفاظت مختلف قواموں کی تیاری حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو# بسم اللہ الرحمن الرحیم طب قدیم سے ادویہ سازی ہیں ہیں ۔ایک اہم شعبے کے طور پر معروف رہا ہے پرانے لوگوں نے بہت ساری کتب اس بارے میں لکھی ہے اور ادبیات کے باریک سے باریک نکات بیان کیے ہیں معالج کی ذمہ داری صرف مریض کو چیک کرکے خالی ہاتھ واپس بھیج دینا نہیں ہوتی بلکہ اس کی ضرورت کے مطابق دوا ہےعذا اور پرہیز مقرر کرنا اور مریض کے لئے مناسب ہدایات دینا بھی مہارت کی ذمہ داری میں شامل ہے مریض جس وقت معالج کے پاس پہنچتا ہے ہے اس وقت اس کی دیکھ بھال کرنا اس کا دکھ درد کا مداوا کرنا یا اس سے مناسب انداز میں راحت پہنچانا معالج کی ذمہ داری بنتی ہے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے معالج پہلے سے اپنے دواخانے میں کچھ دوائیں تیار رکھتا ہے اس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں کچھ جڑی بوٹیوں کو قدرتی حالت میں اکھاڑ کر لاتا ہے اور انہیں محفوظ کرلیتا ہے معالج انہیں براہ راست استعمال نہیں کراسکتا بلکہ انہیں مختلف مراحل سے گزار کر بنانا پڑتا ہے ادویہ سازی کی کھٹالی سے گزارنا پڑتا ہے تاکہ وہ اس قابل ہو سکے کہ مریض استعمال کروائی جا سکیںیہ معالج کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے مریض کو دوا کس حالت میں کھلانی ہے، اسے بنانا ہے اس کی گولیاں بنانی ہے اس کا شربت بنانا ہے وغیرہ وغیرہ مریض کو وہ جس حالت میں بھی چاہے راحت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے مریضوں سے حق الخدمت ادا کرتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ معالج اس کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرے اور بہتر سے بہتر تدبیر اختیار کرے دکھ اور تکلیف سے جلد از جلد باہر آس کے ادویہ سازی کی بہت بڑی دنیا ہے ہے اس میں شربت سازی ہے معجون بنائے جاتے ہیں اور مرکبات تیار کیے جاتے ہیں۔سفوف بنائے جاتے ہیں، گولیاں بنائیں جاتی ہیں ۔ انہیں محفوظ بنانے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جاتی ہیں جب کوئی دوا دی جاتی ہے ،قدرتی حالت سے اس سے باہر نکال دیا جاتا ہے تو جو قدرت کی حفاظت کا خول دوا کے اوپر موجود ہوتا ہے وہ ٹوٹ جاتا ہے،اب وہ کی حالت میں گولی کی حالت میں ہو، شربت کی حالت میں ہو۔ اس کے استعمال کی خاص مدت ہوتی ہے ۔اس کے اثرات کی ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد وہ دوائی اثرات برقرار نہیں رہ سکتے۔ اس سے زیادہ مدت کے لئے موثر انداز میں محفوظ بناتے ہیں ان کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ یہ معجون ہے، شربت ہے، رب ہے وغیرہ وغیرہ ان کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ ہر چیز ہر وقت موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک خاص موسم میں ہوتی ہے اس کے بعد وہ ختم ہو جاتی ہے لیکن معالج و مریض کی ضرورت ہر وقت برقرار رہتی ہے اب اس چیز کو کام میں لانے کے لیے اس کا موجودہونا ضروری ہے لیکن اس کا موسم نہیں ہوتا اس لیے اس قسم کی ادویاتی اجزاء کو محفوظ بنایا جاتا ہے تاکہ اس کو فوری طور پر مریض کو استعمال کراکے راحت کا سامان مہیا کیا جا سکے معجون۔شربت، رب۔خمیرہ جات۔بنانے اور انہیں دیر تک محفوظ رکھنے کے لئے ایک معیار مقرر ہےاگر اس طرف توجہ نہ دی جائے تو ان محلولات اور اور مرطوب چیزوں میں اٹلی لگنے اور انہیں خراب ہونے سے نہیں بچایا جا سکتا ۔ماہرین نے کچھ معیارات مقرر کیے ہیں ادویات اجزاء کو دیر تک محفوظ رکھا جا سکے دستور المرکبات نامی کتاب میں اس بارہ میں لکھا ہے۔ (۱) شہد کا قوام شہد کا قوام بنانا ہو تو اُسے چھان لںb تاکہ وہ مکھیوں ، تنکوں اور دیگر آلائشوں سے پاک ہو جائے ۔ اس کے بعد عمل ارغاء کے ذریعہ اِس کا تصفیہ کر لں یعنی کسی قلعی دار برتن مںم ڈال کر آگ پر جوش دیں جب میلے کف (جھاگ) آنے لگںک تو کف گرفتہ کر لںن یعنی جھاگ کو کسی کرچھے کی مدد سے علاحدہ کر لںی اور اُس کے بعد آگ سے اُتار کر دیگر ادویہ شامل کر یں ۔ (۲) قند سیاہ (گڑ) کا قوام گڑ کے ٹکڑے کر کے بقدر ضرورت پانی مںم ڈال کر آگ پر رکھںع جب وہ اچھی طرح حل ہو جائے تو اُس کو آگ سے اُتار کر چھان لں اور کچھ دیر کے لئے رکھ چھوڑیں ۔ بعد ازاں اُس کو نتھار لںے ۔ یہاں تک کہ وہ خوب صاف ہو جائے ۔ اگر قند سیاہ کو مزید صاف کرنا مقصود ہو تو اثنائے جوش ، دودھ کا چھینٹا دیتے رہںش ۔ اِس کے بعد اِس کا قوام تیار کریں ۔ (۳) شکر سُرخ کا قوام شکر سُرخ کا قوام بھی قندسیاہ کی طرح تیار کیا جاتا ہے۔ (۴) قند سفید کا قوام/شکر یا چینی کا قوام اگر دانہ دار شکر کا قوام بنانا ہو تو اُس کو بقدرِ ضرورت لے کر پانی کے ہمراہ آگ پر رکھںr اور قوام تیار کریں ۔ قند سفید کو چھاننے کی ضرورت نہںے ۔ اِلّا ماشا اللّٰہ ۔ (۵) مصری (نبات سفید) کا قوام نبات سفید کو پانی مں حل کر لںض ، اُس کو بھی چھاننے کی ضرورت نہں ، پھر کسی قلعی دار برتن مںد پکائںس جو جھاگ نمودار ہوتا جائے اُس کو کف گرفتہ کرتے رہں، ۔ اگر شربت کا قوام ہے تو کسی قدر رقیق رکھںں اور اگر معجون کا ہے تو نسبتاً غلیظ کر لںت ۔ (۶) کھانڈ کا قوام کھانڈ سے مراد دیسی شکر ہے جو زیادہ صاف اور دانہ دار نہںں ہوتی، اِس کی رنگت سُرخ زردی مائل ہوتی ہے ، اُس کو پانی مںد خوب اچھی طرح حل کر لںہ تاکہ تنکوں وغیرہ سے اچھی طرح صاف ہو جائے ، پھر چند منٹ کے لئے اس محلول کو چھوڑ دیں تاکہ اُس کی اندرونی کثافتںک یعنی مِٹی و ریت وغیرہ تہہ نشین ہو جائںم ۔ اِس کے بعد اوپر سے نتھار کر کسی قلعی دار دیگچی مںا پکائں ، اُس مںٹ سے اُٹھنے والے جھاگ کو کف گیر
اورنگ عالمگیر کلا طرز حکومت رواداری کا عظیم باب۔1
اورنگ عالمگیر کلا طرز حکومت رواداری کا عظیم باب۔1 اورنگ عالمگیر کلا طرز حکومت رواداری کا عظیم باب ( 24/اکتوبر 1618ء مطابق 15/ ذی قعدہ،1027ھ ۔۔۔۔۔( 1658ء تا 1707) شاہ جہاں اور ممتاز محل کی ساتویں اولاد حاکم کی شکل میں دس سال تک اور حکمراں کے طور پر پچاس سال تک حکومت کرنے والا ابوالمظفر محمد محی الدین اورنگ زیب بہادر عالمگیر بادشاہ غازی کی پیدائش گجرات کے شہر دہد میں بعض تاریخ کے مطابق اجین کے نزدیک دہد میں( 24/اکتوبر 1618ء مطابق 15/ ذی قعدہ،1027ھ )کو ہوئی۔ اورنگ زیب کا دور اقتدار تقریباً پچاس سال رہا۔ 1658ء تا 1707ء۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی نقطہ نظر سے وہ ایک پکا مسلمان تھا۔ لیکن اس کے ساتھ وہ ایک حکمراں بھی تھا۔ اورنگ زیب ایک دور اندیش بادشاہ تھا۔ وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ملک کا اکثریتی طبقہ اپنے مذہب کا سختی سے عامل ہے۔تلوار کے زور سے ان کو اسلام کا پیروکار نہیں بنایاجاسکتا۔ اگر وہ اکثریتی طبقہ کو نقصان پہنچاتا تو ایک وسیع سلطنت کا مالک نہ بنتا۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ دہلی سلطنت سے لے کر مغل حکمرانوں تک میں اورنگ زیب واحد بادشاہ تھا جس کی سرحد برما سے لے کر بدخشاں تک اور کشمیر سے لے کر دکن کی آخری سرحد تک قائم تھی اور ایک مرکز کے تحت قائم تھی۔ اگر وہ سخت گیر بادشاہ ہوتا تو اتنی بڑی سلطنت قائم ہوتی؟ 1659ء میں اورنگ زیب نے سکوں پر کلمہ کندہ کرانا بند کر دیا۔ اس کے خیال میں سکے دونوں فرقوں کے ذریعہ استعمال ہوتے ہیں ایسی صورت میں سکے کی شکل سادہ ہونی چاہئے۔(بحوالہ شری رام شرما: مغل شاسکوں کی دھار مک نیتی صفحہ 120)۔ اورنگ زیب نے نشیلی اشیا شراب وغیرہ پر پابندی لگانے کے لئے ایک نیا محکمہ قائم کیا۔ شراب بیچنے یا پیتے ہوئے پکڑے جانے پر شراب فروخت کرنے والے کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ شراب نوشی کے الزام میں ایک منصب دار کو سزا کے طور پر اس کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔ صرف یورپ کے لوگوں کو شراب پینے کی اجازت تھی وہ بھی شہر سے بیس تا پچیس میل دور”بھانگ کی کھیتی” اس کا فروخت کرنا اور کھلے طور پر استعمال کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ (بحوالہ ممات احمد صفحہ 282، جلد اول) محرم غم اور اداسی کے ماحول سے متعلق تھا، خاص کر نبی کریم ﷺ کے نواسے حضرت سید حسین ان کے اہل خانہ پر کربلا کے میدان میں مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹا تھا۔حضرت سید حسین ؓ و دیگر اہل خانہ شہید کردئے گئے تھے۔ لیکن لوگ اس ماہ کو ایک تہوار کی طرح منانے لگے تھے۔ لہذا 1664ء میں محرم کی تقریب پر روک لگا دی گئی۔ تخت نشینی کے گیارہ سال بعد اورنگ زیب نے دربار میں ناچ گانے کو منع کردیا جب کہ اورنگ زیب سرود بجانے میں خود ماہر تھا۔ (بحوالہ مورخ ستیش چندر) رواداری: ہندوستانی زبان سیکھنے اور سکھانے میں اورنگ زیب کو اتنی دلچسپی تھی کہ اس نے ایک ڈکشنری تیارکرائی جس کے ذریعے فارسی جاننے والا آسانی سے ہندی سیکھ سکے۔ ہندی نظموں و غزلوں کے متعلق قواعد و اصولوں کو رائج کرنے کے لئے اس نے ایک خاص کتاب ترتیب دی۔ اس کے مخطوطے خدا بخش لائبریری ، پٹنہ میں موجودہیں۔ شہنشاہ اکبر نے اپنے زمانے میں یوم پیدائش منانے کا رواج قائم کیا لیکن اورنگ زیب نے اس رواج کو ختم کر دیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی مسجدوں کی تعمیر نہیں کرائی بلکہ قدیم مساجد کو رنگ و روغن کرا کر چلایا۔ اس میں ملازم، امام، موذن و خطیب کو سرکاری خزانے سے تنخواہ دی جاتی تھی۔ (بحوالہ جدو ناتھ سرکار اورنگ زیب، صفحہ 102)۔ اورنگ زیب نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ غلطی کے لیے مسلمانوں اور غیر مسلمان کو یکساں سزا ملے۔ مراٹھوں پر فتح پانے کے بعد ایک سردار محرم خان نے غیر مسلموں کو دشمن اور دغا باز بتاتے ہوئے انہیں اعلیٰ عہدوں سے معزول کرنے کے اورنگ زیب کو خط لکھا جس کے جواب میں اورنگ زیب نے کہا: دنیاوی معاملوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اگر تمہارے ذریعہ دئیے گئے مشورے پر عمل کیا جائے تو میرا یہ فرض بن جائے گا کہ تمام غیر مسلم راجاؤں اور ان کے ہمنواؤں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکوں جو میں نہیں کر سکتا۔ باصلاحیت اور لائق افسران کو عہدے سے ہٹانے کی حمایت عقل مند آدمی کبھی نہیں کرتے۔ (بحوالہ سرکار جدوناتھ صفحہ 75،74) اسی طرح دکن میں موجود برہم پوری میں رہنے والے ایک افسر میر ح سن نے اورنگ زیب کو اس کے برہم پوری پہنچنے سے قبل لکھا: “اسلام پوری کا قلعہ کمزور ہے اور آپ بہت جلد یہاں پہنچنے والے ہیں۔ قلعہ مرمت چاہتا ہے اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟” اورنگ زیب نے جواب دیا: ” اسلام پوری لفظ لکھ کر تم نے اچھا نہیں کیا اسکا نام برہم پوری ہے تمہیں اسی نام کا استعمال کرنا چاہئے تھا۔ جسم کا قلعہ تو اس سے بھی زیادہ کمزور ہے اس کا کیا علاج ہے؟” (بحوالہ جدوناتھ سرکار اورنگ زیب کا اپاکیان صفحہ 91) اپنی حکومت سنبھالتے ہوئے اورنگ زیب نے اصول بنایا کہ کوئی قدیم مندر منہدم نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں مرمت کرانے کی اجازت دی گئی اور عطیہ بھی۔ مذہبی مقامات کے تقدس اور پر امن ماحول بنائے رکھنے کے لئے اورنگ زیب نے مندروں کی طرح مسجدوں پر کڑی نگرانی رکھی کیونکہ اکثر حکومت مخالف طاقتیں مندروں و مسجدوں میں جمع ہوکر حکومت یا بادشاہ کے خلاف سازشیں کرتی تھیں۔ معروف مورخ بی این پانڈے نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب مندروں اور مٹھوں کو عطیات دیا کرتا تھا۔ (بحوالہ بی این پانڈے، خدا بخش میموریل انویل لکچرس، پٹنہ، 1986ء) اس کے علاوہ الہ آباد میں سومیشور ناتھ مہادیو کا مندر ، بنارس میں کاشی، وشواناتھ کا مندر، چیتر کوٹ میں بالاجی کا مندر، گوہاٹی میں اورمانند کا مندر، اور شمالی ہندوستان میں موجود بے شمار منادر اور گرودواروں کو اورنگ زیب نے جاگیریں عطا کیں، و عطیات دئیے۔ (بحوالہ بی این پانڈے، لیکچر پٹنہ1986ء) اورنگ زیب کی حکومت تقریباً پورے ہندوستان
قدیم اطباء صرع (مرگی)کا علاج کیسے کرتے تھے:
قدیم اطباء صرع (مرگی)کا علاج کیسے کرتے تھے: (کتاب الفاخر فی الطب۔۔ابوبکر محمد بن زکریا رازی۔سے ماخوذ) ناقل:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو اگر مریض بچہ ہوتو اسے دودھ پلائیں اور کوئی دوا نہ دیں۔ کیونکہ وقت گزرنے اور حرارت قوی ہوجانے سے دماغ کی رطوبت تحلیل ہو جاتی ہے اور مریض خود بخود ختم ہو جاتا ہے اس کی شہادت کتاب الفصول کے مقالہ دوم میں مذکور بقراط کے اس قول سے ملتی ہے کہ بچوں کو لاحق ہونے والی صرع عمرو موسم شہر اور تدابیر کی تبدیلی سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔ اس کتاب کے پانچویں مقالے میں وہ مزید لکھتا ہے کہ موئے زیر ناف اگنے سے پہلے جب مرگی کا مرض لاحق ہوتا ہے تو وہ ٹھیک ہو جاتا ہے اور اگر پچیس سال کی عمر کے بعد لاحق ہوتا ہے تو وہ ٹھیک نہیں ہوتا بلکہ مریض اس مرض کے ساتھ ہلاک ہوتا ہے۔ لہذا بچے کے علاج میں بہت زیادہ محنت نہ کریں بلکہ دودھ پلانے والی عورت پر دھیان دیں چنانچہ اگر اس کا دودھ لطیف ہو تو اسے گاڑھا اور معتدل بنائیں۔ کیونکہ بعض اوقات لطیف دودہ غذائیت نہیں دے پایا اور اگر وہ غلط ہو تو اسے لطیف بنائیں کیونکہ غلیظ دودھ تشنج اور اعصاب میں کسی پیدا کرتا ہے۔ عورت کو مباشرت سے پرہیز کرائیں کیونکہ اس سے دودھ لطیف اور بدبودار ہوجاتا ہے۔ اگر عورت حاملہ ہو جائے تو اس کا دودھ مہلک ہو جا تا ہے۔ عورت کو غذاسے پہلے ورزش کرائیں اس کے بعد عمدہ خلط پیدا کرنے والی غذائیں دیں۔ پیاس کے وقت اس کی شراب پانی ملا کر پلائیں جو نہ بہت زیادہ نئی ہو اور نہ پرانی۔ اس میں جنگلی پیاز کا سرکہ بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ سبزیوں اور خصوصا کرفس سے پرہیز کرائیں۔ کیونکہ یہ مرگی کے مریض کے لیے مضر ثابت ہوتی ہے۔ شلیشا نامی معجون، آب مرزنجوش اور آب شابا نک(اشان سب میں ایک بوٹی جو بغداد میں کھائی جاتی ہے) میں حل کر کے بچے کی ناک میں ڈالیں۔ اگر بچہ حرکت کی عمر کو پہنچ گیا ہوتو غذا سے قبل ہلکی ورزش کرائیں۔ اس کے بعد اچھی طرح آٹا گوندھ کر تنور میں روٹی پکا کر دیں کیونکہ اس روٹی میں فضلات کم ہوتے ہیں۔ اگر مریض کا مزاج حار ہو تو روٹی کشنیز کے ساتھ دیں کیونکہ یہ دماغ کی جانب بخارات کے صعود کو روکتی ہے۔ اگر مریض سبزیاں کھانے کی خواہش کرے تو اسے کاسنی، خس شاہترہ اور چقندر استعمال کرائیں۔ اس کے علاوہ تیتر، مرغی کے چوزوں، چکور اور گوریا کا گوشت استعمال کرائیں۔ بچے کو تمام چوپایوں خصوصا خنزیر کے گوشت سے پرہیز کرائیں۔ اگر اس کی ضرورت درپیش ہو تو بہت تھوڑی مقدار میں دیں۔ اگر بچے کو بد ہضمی اورنفخ کی شکایت ہو تو کھانا پکاتے وقت اس میں سیاہ مرچ، انیسون اور دار چینی شامل کردیں۔ رائی اگر بلغم ختم کرتی ہے لیکن چونکہ وہ بخارات پیدا کرتی ہے اس لیے اس سے پرہیز کرائیں۔ اگر مریض مچھلی کھانے کی خواہش کرے تو پہاڑی ندی کی چھوٹی چھوٹی تازہ مچھلیاں تھوڑی مقدار میں دیں ۔ لیکن پابندی سے استعمال نہ کرائیں جب تک مرض قائم رہے، تمام پھلوں سے پرہیز کرائیں۔ اگر پھل کھانے کی مریض کو شدید خواہش ہو تو کھانے کے وسط میں تھوڑا سا پھل دیں۔ خشک پھلوں خصوصا اخروٹ سے بھی پرہیز کرائیں البتہ تھوڑا سا پتہ مفت نہیں ہے۔ ہر قسم کی شراب سے پر ہیز کرائیں کیونکہ یہ کثرت بخارات پیدا کرتی ہے۔ البتہ تھوڑی مقدار میں ہضم میں مدد کرتی اور معدے کو تقویت بخشتی ہے۔ حمام سے بھی پر ہیز کرائیں خصوصا کھانا کھانے کے بعد کھانے کے بعد کوئی بھی مشروب یا پانی بالخصوص خالص شراب ہرگز نہ دیں۔ حمام سے نکلنے کے بعد جنگلی پیاز کی سکنجبین دیں۔ اگر اس کی فراہمی مشکل ہوتو شربت افسنتین دیں کیونکہ یہ معدے کے لیے نہایت مفید ہے اور اس میں جمع فضلات خارج کرتی ہے۔ مرض کی ابتداء میں دورے کے وقت روغن سوسن میں ایک پر یا کسی روغن میں اون تر کر کے حلق میں داخل کر کے قے کوتحر یک دیں اور قے کرا کے معدے میں موجودبلغم کو خارج کریں۔ اگر اس سے قے نہ آئے تو سویا، پودینہ ،نمک، جوز القی کنکر ز داورتخم مولی کا جوشاندہ پلائیں اور جب دورہ ختم ہوجائے تو مریض کا جائزہ لیں اگر بدن میں حرارت کے ساتھ شدید قسم کا امتلا ہو تو فصد کریں اور اگر مشکل ہو تو پنڈلیوں پر پچھنہ لگائیں۔ اس کے بعد ملطف دوائیں لگائیں۔ موسم سرما ہو تو ز وفا خشک کا جوشاندہ مریض کو پلائیں، میں نے بہت سے مریضوں کو اس سے مکمل طور پر صحتیاب ہوتے دیکھا ہے کیونکہ لیسدار رطو بات اکھاڑتا اور معدہ کو فصلات سے پاک کرتا اور باقیماندہ فضلات کو بول و براز کے راستے سے خارج کرتا ہے۔ اسے تنہا اورکبھی جنگلی پیاز کی سکنجبین کے ہمراہ بھی استعمال کرایا جاتا ہے۔ اگر گرمی کا موسم ہوتو جنگلی پیاز کی سکنجبین کے ہمراہ افسنتین کا جوشاندہ ہیں۔ اس کے بعد اگر سودا کا غلبہ ہو تو افتیمون ، غاریقون، ہلیلہ سیاہ ، ہلیلہ کابلی ، شاہترہ، سفائج اور ایارنج و تر بد کا جوشاندہ دیں کیونکہ یہ جوشاندہ عجیب طرح سے سودا کا تتقیہ کرتا ہے اسے بار بار استعمال کرائیں خصوصا اس وقت جب مریض کا مزاج حار ہو اور اگربلغم کا غلبہ حب اصطخیون اور جالینوس کی حب تو قايا استعمال کرائیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری قسط مندرجہ ذیل حب بھی صرع میں نہایت مفید ہے۔ نسخہ۔ شحم حنظل، اسطوخودوس، جند بیدستر ہر ایک ۴ گرام، غاریقون 7گرام تر بد سفید ۲۳ گرام کوٹ چھان کر گولیاں بنائیں اور اس میں سے ۔7تا10گرام تک مریض کی طاقت، موسم اور عمر کے اعتبار سے دیں۔ اگر مریض جوانی کی آخری منزل پر اور طاقتور ہو تو اسے تبادریطوس میں ایک ایک گرام افتیمون اورشحم حنظل شامل کر کے استعمال کرائیں کیونکہ یہ معجون تمام فضلات سے بدن کو پاک کر دیتا ہے میں نے بہت سے لوگوں کو صرف اسی معجون کے استعمال سے صحت یاب ہوتے دیکھا ہے۔ معجون تبادریطوس،بلغم اور سودا
مالیخولیا کا علاج
مالیخولیا کا علاج مالیخولیا کا علاج امام رازی کی کتاب کتاب الفاخر فی الطب سے ماخوذ ناقل حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو مالیخولیا کا سبب تمام بدن کا سوءمزاج سوداوی ہوتا ہے اور اس کا ضرر باالخصوص دماغ کو پہونچتا ہے۔ اس قسم میں سودا کی علامات تمام بدن میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی ایک دوسری قسم بھی ہے جس میں پورے بدن میں سودا کی کثرت کے ساتھ ساتھ ورم طحال، ریاح کی کثرت اور پیٹ پھولنے جیسی علامات بھی پائی جاتی ہیں ۔ دونوں اقسام کے اعراض کے طور پر ابتداء میں خراب و خیالات، بزدلی ، بد گمانی اور نا امیدی ظاہر ہوتی ہے۔ علاج : جالینوس نے اس کا علاج یہ بتایا ہے کہ تیزمسہل دوائیں استعمال کریں۔ پہلی قسم کے مالیخولیا میں قيفال نامی رگ کی فصد کھولیں اگر سیاہ خون خارج ہو تو طاقت و قوت کے لحاظ سے اسے خارج کریں۔ کیونکہ یہ مرض کے پورے بدن میں پھیل جانے اور دماغ پر غلبہ پا جانے کی دلیل ہے اور اگر سرخ خون خارج ہوتو اسے بند کر دیں کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خراب کیموں صرف دماغ کی رگوں میں ہے اور ابھی پورے بدن میں نہیں پھیلا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ پیشانی کی رگوں سے خون خارج کر یں۔ اس کے بعد ساری ضروری تدابیر اختیار کریں۔ چنانچہ اگر دوسری قسم کا مالخوليا یعنی کے ورم طحال کے ساتھ ہو تو ورید اسلیم سے برداشت کی حد تک خون خارج کریں چنانچہ اگر خون سیاہ ہو تو اسے زرد ہونے تک خارج کرتے رہیں۔ اس کے بعد ہضم کی تقویت اور بدہضمی سے بچانے پر توجہ مرکوز کریں۔ پانی کم پلائیں اور طحال کے علاج کے لیے مسہلات سودا اور طحال کے ضمادات استعمال کریں تا کہ اس کا مزاج تبدیل ہو جائے ۔ بدن کی ترطبیب پر بطور خاص پہلے قسم میں خاص دھیان دیں۔ یہ مرض بکثرت تنقیہ اور علاج میں صبر کا تقاضہ کرتا ہے۔ کیونکہ یہ مرض نیز تمام سوداوی امراض علاج بہت مشکل سے قبول کرتے ہیں۔ بہرحال اس کے لیے بہترین دوامعجون نجاح ہے جس کا نسخہ درج ذیل ہے۔ ہلیلہ، بلیلہ، آملہ ہر ایک ۳۵ گرام، بسفایج ، افتیمون، اسطوخودوس، تر بد ہر ایک ۱۸ گرام، سب دوا میں کوٹ چھان کر شہد میں معجون بنائیں اور مریض کی قوت کے مطابق استعمال کرائیں۔ اگر اس میں اسہال کی صفت پیدا کرنا چاہیں تو اس میں غاریقون ، خربق سیاہ اور سقمونیا کا اضافہ کر کے پہلے حب شبیارکھلا کر پھر اسے استعمال کرائیں۔ اسے دیگر سوداوی امراض مثلا پرانی غلیظ خارش، جذام اور سیاہ چھیپ میں بھی استعمال کرایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی پڑھئے – معجون نجاح (Majoon Najah) ذہنی انتشار نسخہ جوشاندہ افتیمون: ہلیلہ سیاہ ۷۰ گرام، بسفائج نیم کوب ۱۴ گرام تر بد ۵ گرام، مویز منقی ۵۲ گرام، تمام دوا ئیں پانی 1600ملی لیٹر میں اتنا جوش دیں کہ صرف400 ملی لیٹر پانی رہ جائے۔ پھر اس میں ۲۴ گرام تازہ افتیمون شامل کر کے دوبارہ جوش دے کرمل چھان لیں اور پہلے غاریقون ۳ گرام ،شحم حنظل 10گرام نقطی نمک گرام شہد میں معجون بنا کر کھانے سے تین گھنٹہ پہلے کھلا کر مندرجہ بالا جوشاندہ پلائیں اور وحشت پیدا ہوجانے کے بعد ۲۴ گرام افتیون باریک کر کے سکنجبن میں ملاکر پلائیں کیونکہ یہ تیز مسہل سودا ہے اور ہلیلہ، مویز منقی اور افیون سے تیارشدہ معجون برابر استعمال کراتے رہیں۔ جوشاندہ دیگر۔ ہلیلہ زردوسیاہ ہر ایک ۳۵ گرام، شاہترہ ۸اگرام سنامکی 10گرام،افسنتین ، بسفائج وتر بد، غافث، برگ تلسی تخم بادرنجو یہ ، رام تلسی ، گاؤ زباں ، منڈی،ککروندہ ہر ایک کے گرام، سنگ لا جور د نیم کوب 2گرام، مویز منقی70 گرام۔ تمام دوا ئیں 1600 ملی لیٹر پانی میں ڈال کر ہلکی آنچ پر پکا کر جب پانی چوتھائی حصہ رہ جائے تو اتار لیں۔ پھر اس میں ۱۴ گرام بار یک افتیمون شامل کر کے مل کر چھان لیں اور اس میں سے ۲۸۰ گرام پلائیں اور ۔اگر اس سے قے آجائے تو باقی جوشاندہ بھی پلا دیں لیکن اس سے قبل رات کی ابتداء میں بھی معجون دیں۔ نسخہ: ایارج فیقر4 گرام، غاریقون ۲ گرام نفطی نمک۳ گرام،سقمونیا250 ملی گرام – تمام دوائیں شہد میں ملا کر استعمال کرائیں۔ یا جوشاندہ ہلیلہ استعمال کرائیں ،یا بوڑھا مرغ خوب نمکین پانی میں پکا کر استعمال کرائیں۔ یا بسفائج کا جوشاندہ دیں کیونکہ یہ تمام دوائیں بکثرت سودا کا اخراج کرتی ہیں۔ راحت کے ایام میں دوام کے ساتھ معجون نجاح استعمال کرائیں، نمکسود،نمکین اشیاء، بینگن،لہسن، کرم کلہ ، دال مسور، باقلا، پہاڑی جانوروں اور پرندوں کا گوشت، پرانی شراب اور تمام نمکین، چر پری، ترش وکسیلی اشیاء سے پرہیز کرائیں۔ غذا میں چکنائی والے ، شیر ہیں اور لذیذ کھانے مثلا روغن بادام اور شکر سے تیار شدہ پتلا و پختہ فالودہ ، بکری کے بچے اور موٹی مرغی کا گوشت اور خوب پانی ملائی ہوئی شراب دیں ۔ مخلوط شراب سے بہتر ترطيب بدن کے لیے کوئی چیز نہیں بالخصوص جب اس میں گاوزباں بھی بھگو کر استعمال کیا جائے ۔ اس کے علاوہ بدن میں تروتازگی پیدا کرنے کے لیے جب غذا ہضم ہونے لگے اس وقت مریض کو گرم پانی میں بٹھا دیں۔ اس کے بعد مریض کو سلادیں۔ معجون مفرح: گاوزباں ، زرنبار ہر ایک ایک حصہ کوٹ چھان لیں اور ۴ گرام مخلوط شراب کے ہمراہ دیں یا گاو زبان ، شراب میں بھگو کر چھان کر وہ شراب پلائیں۔ معجو ن براے ایام راحت اسپند، تلسی ، کنوچہ سفید، افتیمون، اسطوخودوس ہر ایک ۳۵ گرام لے کر تمام دواؤں کے تین گنا پانی میں تین دنوں تک بھگوکر ہلکی آنچ پر دو تین جوش دیں۔ پھر پانی نچوڑ کر چھان لیں۔ اس کے بعد اس پانی کے ہموزن زرد آلو لیں اور انہیں کوٹتے ہوئے یہ پانی اس پر ڈالتے جائیں یہاں تک کہ دونوں مل جائیں پھر انہیں ہلکی آنچ پر جوش دیں اور ہر400 ملی لیٹر میں لونگ ، با درنجبو یہ،مصطگی، رام تلسی ، زعفران بجورا کا خشک چھلکا ہر ایک 10گرام باریک کر کے شامل کردیں۔ یکجان کرنے کے بعد استعمال کرائیں۔ علم و
Happy Defence Day Pakistan in 2022
Happy Defence Day Pakistan in 2022 Happy Defence Day Pakistan in 2022
تریاق ،قبض ۔بواسیر اورٹی بی
تریاق ،قبض ۔بواسیر اورٹی بی تریاق ،قبض ۔بواسیر اورٹی بی حکیم قاری محمد یونس شاہد میو انسانی جسم میں سودا کی زیادتی،یا پھر یوں کہہ سکتے ہیں کہ خون میں تیزابیت کا بڑھ جانا،جس سے عمومی طورپر جسم میں اکڑائو،قبض،جوڑوں میں کر کڑاہٹ،پیٹ میں گیس وغیرہ علامات دیکھنے کو ملتی ہیں۔بہت سارے،نسخہ جات،ٹوٹکے اور تجربات موجود ہیں۔لیکن حتمی طورپر کچھ کہنا بہت مشکل تھا۔یہ نسخہ کم خرچ بالا نشین،سہل الحصول ہے۔جو لاکھوں لوگوں نے استعمال کیا اور کرایا۔ ہوالشافی ،شیر مدار ایک تولہ،ہلدی پندرہ تولہ ،شیر مدار میں تھوڑی تھوڑی ہلدی ملا کر کھرل کرتے جائیں،جب سب اجزاء مکمل طور پر مل جا یئں تو شیشی میں ڈال کر محفوظ کرلیں [خوراک ایک تا دو گولیاں پانی کے ساتھ، جب مریض کو قے آنے لگے تو سمجھیں کہ مقدار زیادہ ہے ، صرف ابکائی آنی چاہئے،مسلسل کے استعمال سے انشا اللہ ٹی بی شکایت ختم ہو جائے گی،یہ پھھپڑوں کی بلغم کو صاف کردیتا ہے، زخم مندمل ہونا شروع ہوجاتے ہیں،بھوک بڑھ جاتی ہے کھانسی،سینہ کی دکھن، اور جسم کے کسی بھی حصے سے خون کی آمد رک جاتی ہے، دایئمی قبض،پیچس [خونی]ترشی معدہ،ڈکار،نیا پرانا سوزاک،زخم معدہ،سل دق کے لئے دعوی کی دوا ہے، محرک دماغ ہونے کی حیثیت کے سبب بے پناہ رطوبات پیدا ہوتی ہیں [عضلاتی اعصابی ہے]یہ نسخہ حکیم صابر ملتانی محرحوم کے صدقہ جایہ میں سے ایک ہے ۔