زندگی میںکچھ نہ کچھ ضرور کرو کچھ نہ کچھ ضرور کرو حکینم قاری محمد یونس شاہد میو زندگی میں کچھ نہ کچھ تو ضرور کرنا چاہئے چینی کہاوت ہے کہ انسان کو تین کام ضرور کرنے چاہئیں،ایک درخت لگائے،ایک کتاب لکھے ایک بیٹا پیدا کرے،اپنی بقاء کے سلسلہ میں ہر کوئی ہاتھ پائوںمارتا ہے،راقم نے بھی مسجد کی امامت سے لیکر طب و حکمت عملیات ،نوکری اور نہ جانے کیا کچھ کیا،لیکن جب طب و عملیات میں قدم رکھاتو یہ کام جتنا آسان دکھائی دیتا تھااتناہی مشکل نکلاجس کے پاس بھی جاتا وہی خزانے کے اوپر سانپ کی طرح اس پر بیٹھا پھونکارتاہواملا،پہلی بات کہ اس موضوع پر بات کرنے کے لئے کوئی آمادہ نہ ہوتاتھا،اگر کسی نے ہمت کی بھی تو ایسے مرموز انداز میں گفتگو کی کہ مخاطب کچھ نہ سمجھ سکے کچھ بتایا بھی تو اجازت کی دُم ساتھ میں لگادی تاکہ ساری عمر دست نگری میں گزارے ،شاگرد میں خود اعتمادی پید کرنااسے اس میدان میں خود کفیل کر نا شجر ممنوعہ ہیں اگر کسی کو بے لوث استاد مل گیاتو وہ بہت خوش نصیب ہے اساتذہ کو ہر وقت یہ خوف لرزاں و ترساں رکھتاہے کہ کہیں شاگرد برابری کا دعویٰ نہ کردیں یا ہماری اجارہ داری کو گرہن نہ لگ جائے شاید یہی خوف تھا کہ بہت سے نایاب و قیمتی گوہر امساک کی چادر اوڑھے آسودہ خاک ہوگئے اگر ان کی بیاض میں کوئی بات ملی بھی تو اتنی ادھوری کہ نہ ملنا بہتر تھا کیونکہ اس کے ادھورے پن کی وجہ سے استفادہ مشکل ہی نہیںبلکہ ناممکن تھا ایک کتاب میں پڑھا کہ کسی علاقے میں ایک درزی اپنی ترپائی میں نفاست کی وجہ سے دور و نزدیک مشہور تھا بہت سو ں نے کوشش کی لیکن کسی کو راز بتاکر نہ دیا۔ مرنے لگا تو اپنے بیٹے کو بلاکر کہتاہے راز بتانے کو اب بھی جی نہیں کررہا لیکن تو میرا خون ہے تجھے بتاتا ہوںاچھی ترپائی کے لئے سوئی میںچھوٹا دھاگہ استعمال کرتے ہیں اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بخل و امساک کس خوفناک حد تک ذہنو ں میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں،یہ خرابی یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم نے فن و ہنر کو رزق کے زریعہ نہیں بلکہ عین رزق تصور کرلیا کہ اگر یہ دروازہ کسی کے قبضہ میں چلا گیاتو ہمارا کیا بنے گا؟لیکن پیدا کرنے والے جو وعدہ کیا ہوا ہے کہ میں تم کو رزق دونگا اور وہ آسمان میں ہے[وفی السماء رزقکم وما توعدون ]اس کا تم سے وعدہ ہے،بہت سے لوگوں کی کم نصیبی ہے کہ وہ اچھے انداز میںاسباب مہیاکرسکے نہ وہ اچھے موکل بن سکے انہوںنے اپنی غلطیوںاور کوتاہ اندیشیوں ،اور بے اعتدالیو ں کو بد قسمتی کا نام دیدیاکیونکہ روزی کے لئے بہر حال اسبا ب کرنا رَسم دنیا ہے اللہ تو اس بات پر قادر ہے کہ بغیر کئے روزی دیدے۔مگر اس کا قانون یہ کہ وہ اسباب اور زرائع سے روزی رسانی کیا کرتا ہے بے عملی نے ہمیں اللہ سے بھی دور کردی اور کاہلی نے ہمیں محنت و مشقت سے باز رکھا ہم خدا کے ہوسکے نہ ٹھیک انداز میں دنیا کے بن سکے اگر ہم اپنی بساط بھر محنت کریں اپنے کام سے انصاف برتیں تو کوئی وجہ نہیں کہ روزی کے در و ا ز ے ہم پر نہ کھولے جائیں … دنیا میں بہت سے شعبے ہیںاور زندگی میں ہر شعبے کے ساتھ کبھی نہ کبھی ضرورت پڑتی رہتی ہے ہرکام کی اپنی کشش ہوا کرتی ہے اور قدرتی طورپر انسان کسی نہ کسی شعبے کی طرف مائل ہوتا ہے جس میں وہ اعلی کارکردگی دکھاسکتاہے ،مثلاََ کچھ لوگ اعلی دماغ لیکر پیدا ہوتے ہیں ساری زندگی دوسروں سے کام لیتے ہیں اور اسی انداز میں زندگی گزار دیتے ہیں اورکچھ لوگ ماتحتی میں کام کرنا پسند کرتے ہیں ہر کوئی اپنے لئے ایسے ہی ذرائع استعما ل کرتا ہے جو اسکی مناسبت رکھتے ہیں لیکن بنیادی ضروریات ہر کے ساتھ لگی ہوئی ہیں خوشی غمی رنج و راحت نشیب و فراز انکی جتنی کوشش ہوتی ہے اللہ اسی کے مطابق ذرائع پیدا کردیتاہے ایک آدمی اگر ماہانہ ایک لاکھ روپے لے رہا ہے جبکہ اس کے مقابل ایک مزدور آدمی پانچ دس ہزار لے رہا ہے ،اب دونوں اپنی اپنی ضروریات کو احسن انداز میں پورا کر رہے ہیں ،رشتے ناطوں کے وہ تمام بکھیڑے جو لاکھ والے کے ساتھ منسلک ہیں وہی معاملات پانچ ہزار والے کو بھی پورے کرنے ہوتے ہیں ،فرق ہے تو صرف سوچ اور انداز فکر کا ہے ہر کوئی اپنی جگہ پر مطمئن ہے ایک وہ بھی ہے جس کا کوئی معقول ذریعہ آمدن نہیں مگر زندگی کے تمام وظائف وہ بھی پورے کررہاہے ہم میں سے ہر کوئی اپنے حصے کام کر رہا ہے ملتا اسے ضرورت کے مطابق ہی ہے اگر پیسوں میں روزی ہوتی تو معقول آمدن نہ رکھنے والے تو کب کے اس دنیا سے ناپید ہوچکے ہوتے ہر کوئی اپنی خواہشات کو اتنی ہی بڑھاتاہے جس قابل وہ اپنے آپ کو مستحق تصور کرتا ہے ایک آدمی معمولی تنخوہ میں گزارا نہیں کرسکتاتو کسی حالت میںاس کام کو جاری نہیںرکھ سکتااسے ترک کرکے ایسا کام کرن لگے گا جس میں اس کی تسکین ہوگی کیونکہ اسے اپنی آدمن کے مطابق اپنے گھر کا میزانیہ تیار کرناہے بہت سے لوگ ایک جگہ کام کرتے ہیں مگر روتے رہتے ہیںکسی وقت انکی شکایات کی پٹاری بند نہیں ہو تی اسکے باوجود وہ اس کام میں جُتے ہوئے ہیں،در حقیقت وہ قول و فعل کے تضاد کا شکار ہیں اگر وہ اپنی بات میں سنجیدہ ہوتے تو کب کے اس کام کو خیر آباد کہہ کر کسی طبعی مناسبت والے کام میں لگ چکے ہوتے لیکن اس سب کے باوجود انسان دیکھتا ہے کہ کچھ معاملات اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتے وہ چاہتاکچھ ہے اورہوتاکچھ ہے ،رزق کا معاملہ ہی ایسا ہے کہ کسی کے انداز فکر سے اس میں تغیرات بہت کم آتے ہیں ،جو اعلی سوچتا ہے اسے اعلی ملتا ہے جو ادنی سوچتا ہے اسے ادنی ملتا ہے سوچ سمجھ کر فیصلہ کر آپ کاکام ہے اگر یہ سب بحث سمجھ میں نہ
لطیف اور کثیف اغذیہ و ادویہ
لطیف اور کثیف اغذیہ و ادویہ لطیف اور کثیف اغذیہ و ادویہ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو مجد دالطب لکھتے ہیں:غذا میں لطافت اور کثافت کا انتخاب بھوک کی شدت کے تحت کرنا چاہئے۔اگر بھوک میں شدت ہو تو تحریک کے مطابق جیسی اغذیہ مریض یا تندرست شخص کو پسند ہو لے سکتے ہیں۔لیکن بھوک بند ہو یا مریض میں سوزش وورم،درد بخار وغیرہ ہوتو غذا اتنی لطیف ہوکہ مریض یا تندرست کی بھوک بھڑک اٹھے جیسے قہوہ،شہد کا نیم گرم شربت،لطیف و رقیق شوربہ،پھل یا پھلوں کے رس،چائے دودھ یاچائے مکھن والی،گھی والی،چنے کا شوربہ،سبزیوں کا شوربہ،گوشت کا شوربہ،انڈوں کا شوربہ،نیم گرم پانی،مچھلی کا شوربہ،سری پائے کا شوربہ۔دال کا شوربہ۔میوجات کے شیرہ جات۔حریرہ جات ،مربہ جات وغیرہ(کلیات صابر جلد دوم صفحہ688) جن چیزوںکے جزو موثرہ حاصل کرنے کے لئے قہوہ یا جوشاندہ بنایا جاتا ہے ایک طیب ہونے کی حیثیت سے اتنا کہہ سکتا ہوں کہ انہیں دوبارہ سے شامل نسخہ کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ قہوہ میں صرف ایک جزو یا ایک حصہ ہی شامل ہوا ہے،جب آپ کسی غذا یا دوا سے اپنی ضرورت کو کسی خاص حصہ سے پورا کیا،ضروری تو نہیں کہ اس کے دوسرے حصے یا اجزاء بے کار محض ہوگئے ہوں،قہوہ کی ترکیب ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی جزو کی ضرورت ہے تو آپ اسے کام میں لاسکتے ہیں،کسی دوا یا غذا کا کوئی بھی جزو یا حصہ بےکار نہیں ہوتا ،اپنی ناسمجھی کی وجہ سے جس حصے کو بےکار کہا جاتا ہے دراصل اس کی ہمیں ضرورت نہیں ہوتی یا پھرہم اس کے فوائد سے آشناء نہیں ہوتے،
ادویہ اور ان کے اجزاء کا استعمال
ادویہ اور ان کے اجزاء کا استعمال حکیم قاری محمد یونس شاہد میو مفردادویات تو جس صورت میں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں، یعنی سفوف محلول اور حبوب جس شکل میں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن مفرد دوا کے اجزاء کو جن صورتوں میں جدا کیا گیا ہے ان کو انہی صورتوں میں استعمال کرائیں ۔ ان کو اگر کسی اور صورت میں استعمال کیا تو ان کے افعال و اثر بدل جائیں گے۔ ان کے استعمال میں اس فرق کو بھی مد نظر رکھیں مفرد دوا میں اس کے کئی مؤثر جو ہراس کے دیگر عناصر اور مواد کے اس طرح جذب اور شامل ہوتے ہیں کہ ان کے افعال و اثرات میں تیزی پیدا نہیں ہوتی۔ اور نقصان کا خطرہ ہیں رہتا۔ کیونکہ ان کے اثرات بھی ساتھ ہی ہوتے ہیں ۔ لیکن مؤثرہ جز اور جو ہر ہر ایک اپنی جگہ تیز ہوتا ہے ان کے غلط استعمال سے نقصان ہو جانے کا خدشہ ہے۔ علاج بالمفردات کا قدیم طبوں میں یہ شعبہ بھی اپنے اندر کمالات فن رکھتا ہے۔ جس کا عشر عشیر بھی فرنگی طب میں نہیں پایا جاتا ہے۔ قدیم طبوں کی فوقیت ہے۔(کلیات صابر،فارما کوپیا ،از۔ مجدد الطب 2/40) موصوف نے ان کی جگہ عام دستیاب اور کم قیمت اشیاء کو رائج کردیا۔یہ اشیاء پہلے بھی طب میں بطور غذا و دوا موجود تھیں،آج بھی موجود ہیں۔لیکن جو اہمیت و افادیت حکیم صاحب نے اُجاگر کی وہ ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔مجھے معلوم نہیں ہے کہ نادر و نایاب اشیاء ہماری طب میں اتنی اہمیت کیوں اختیار کرگئیں؟یاتو ان کی دستیابی کوئی مسئلہ نہ تھی۔ان حصول ہر کہہ ومہہ کی دسترس میں تھا۔یا پھر اس راہ سے طب سے استفادہ کا راستہ بند کرنا تھا۔ جہاں حکیم صاحب کے انقلابی اقدامات نے دنیا ئے طب کو نئی جہت دی کہ امراض میں قہوہ جات کے استعمال کو عام کیا۔ایسا نہیں کہ حکیم مرحوم سے پہلے قہوہ جات کا استعمال موجود نہ تھا۔ہر گز ایسا نہیں ہے۔قدیم ترین کتب میں اس طریقہ کا ذکر موجود ہے۔مختلف قہوہ جات کا استعمال۔جوشاندہ خیساندہ،بھپارہ۔بدرقہ۔تکمید۔وغیرہ پر کتب موجود ہیں۔لیکن جس انداز میں حکیم صاحب نے قہوہ کو متعارف کرایا، شاید اس سے پہلے طب میں تاثر موجود نہ تھا۔
نیم میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا
نیم میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا نیم میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا: حکیم قاری محمد یونس شاہد میو قدرت کے بے بہا قیمتی تحائف میں سے نیم کا درخت ایک ایسا انمول تحفہ ہے جس کا ایک ایک ذرہ انوکھے فوائد کا حامل ہے۔ خواہ پھل ہو، پتے ہوں، ڈالیاں ہوں، ان میں بے شمار فوائد ہیں مگر نقصانات سے بالکل پاک ہے۔ نیم ایک اینٹی بیکٹیریل ہے۔اینٹی پیراسائٹک ہے، اینٹی فنگل ہے، اینٹی انفلامیٹری ہے،نیم میں موجود ”وٹامن سی“ جلدی امراض میں نہایت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ مانع وائرس ہے۔ جو سوزش، پیچش،دست اور بخار وغیرہ کے علاج میں فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ نیم جراثیم کش ہونے کے سبب اس کے تیل میں 135 کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں،جن میں شامل Quercetin اور Beta-Sitosterol جراثیم اور پھپوند کے علاج کے لئے مفید ہیں۔نیم کی چھال سے کشید کردہ محلول میں پرولین بھی پایا جاتا ہے، جو جوڑوں کے درد کے لئے اکسیر ہے۔ نیم کی 1250 ایم جی خوراک کھانے سے گلوکوز 15 فیصد،یوریا 13 فیصد،کریٹنین 23 فیصد اور چکنائی 15 فیصد کم ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ چکنائی، ٹرائی گلیسرائڈ اور کولیسٹرول کی مقدار میں کمی بلڈ پریشر،امراض قلب،فالج اور ذیابیطس،جب کہ یوریا اور کریٹنین کی کمی امراض گردہ میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ نیم کے بعض اجزاء جراثیم کے خلاف کام کرتے ہیں۔ ممکنہ طور پر نیم مختلف خامروں (Oxidative Enzymes) کو متحرک کرتا اور جراثیم کی خلیاتی دیوار توڑ دیتا ہے۔ واضح رہے کہ ضد حیوی ادویہ (Antibiotics) بھی جراثیم کی خلیاتی دیوار توڑ کر ان کے خاتمے کا باعث بنتی ہیں۔ کسی بھی فرد میں بیماری کا ایک ممکنہ سبب آزاد اصلیے (Free Radicals) بھی ہوتے ہیں۔ آزاد اصلیے اوکسیجن کے متحرک یا ایکٹیو عناصر کو کہتے ہیں۔
سرکنڈے کا قہوہ۔۔
سرکنڈے کا قہوہ۔۔ شوگر اور اس کا انتہائی کافی و شافی بالکل مفت کامیاب علاج سرکنڈے کا قہوہ۔۔ ۔۔گردوں کے امراج کے لئے بہترین چیز ہے۔۔۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو بیاض حکیم خدا بخش جنجوعہ میں حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ شوگر ایک تیزی سے پھیلنے والا مرض بن گیا ہے ۔ دور حاضر کے طبیبوں نے اس مرض پہ کافی ریسرچ کی ہے۔ سینکڑوں ادویات ترتیب دی گئیں ۔ ہر دوا کا اپنا اثر ہے جو چیز میری انتہائی مجرب ترین ہے جس کے سبھی استعمال کرنے والوں نے صحت پائی وہ انسانیت کے اپنا راز عام کرتا ہوں، اور درخواست کرتا ہوں جو شوگر کے مریض ہیں ، جن کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی بار بار چھوٹا پیشاب آتا ہے ،کمزوری اور ہاتھ و پنڈلیوں میں درد ہوتا ہے ، وہ کچھ دن یہ میرا کامیاب نسخہ استعمال کریں۔معمولی نہیں سمجھنا جو اک بار کر لے گا ان شاءاللہ تمام شوگر کے مریضوں کو بتاتا پھرے گا ۔ ھوالشافی : دریا کے کناروں پہ پانی میں جو سر کنڈے کے بوٹے ہوتے ہیں، جن کو کانے بھی کہا جاتا ہے ان کی جڑیں نکال کر پانی سے دھو کر صاف کر کے مٹکے میں ڈال دیں۔اور مٹکہ پانی سے بھر دیں جب بھی پیاس لگے، اس مٹکے والا پانی پیا کریں تین سے دس دن تک شوگر سے پیدا شدہ کمزوری ختم۔ بار بار چھوٹا پیشاب آنا ختم چالیس دن میں شوگر حتمی طور پہ نارمل ،ایک بار آزمائش شرط ہے۔اس سے بوڑھے آدمی کا پراسٹیٹ غدود بڑھنے کی وجہ سے پیشیاب کی بندش کے ورم دور کرنے میں مفید ہے۔ سرکنڈا کی جڑ یعنی کانے کی جڑ صاف کرکے ایک پاؤ لیکر ایک سیر پانی میں رات کو بھگو کر رکھیں اور صبح کو جڑ کو ڈنڈے کونڈے میں خوب کوٹ کر پانی میں برتن آگ پر رکھیں اور جوش دیں جب پانی تین پاؤ رہ جاے تو اتارکر صاف چھان کر تین پاؤ چینی کھانڈ ملاکر شربت تیار کریں۔مقدار خوراک ڈیڑھ تولہ شربت ہمراہ شربت بزوری 10 تولہ پانی ملا کر پلائیں صبح و شام ہمراہ چند دن استعمال سے ورم غدہ قدامیہ پراسٹیٹ بالکل درست ہو جائے گی۔اس کے استعمال سے آپریشن کی ضرورت نہیں رہتی مجرب ہے ازمائیں اور اپنی دعاوں میں یاد رکھیں (بیاض حکیم خدا بخش جنجوعہ مرحوم ) سرکنڈا کی سر کو جلاکر راکھ بنالیں اور حسب طریق پانی میں حل کرکے دوسرے دن چھان کر کڑاہی میں ڈال کر آگ پر جوش دیں جب پانی جل کر خشک ہو جائے اور نمک بنا لیں, مقدار خوراک دو رتی پتھری گردہ و مثانہ اور پتہ کے لیے مجرب ہے۔ عرق سرکنڈہ سرکنڈے کے پھول یا جڑ کا چھلکا دو تولے رات کو گلاس بھر پانی میں بھگو کر رکھیں، صبح جوش دے کر مل چھان کر حسب ذائقہ چینی ملا کر پلائیں۔ نوٹ:- اکیلا سرکنڈے کا عرق ورم غدہ قدامیہ (پروسٹیٹ غدود کی سوجن) کیلیے مفید و مجرب ہے۔ ورم دور ہو کر بند پیشاب جاری ہو جاتا ہے۔ پیشاب کھولنے کے لئے مفید ہے
پنیر ڈوڈی۔۔۔قہوہ۔بناکر استعمال کریں صحت پائیں
پنیر ڈوڈی۔۔۔قہوہ۔بناکر استعمال کریں صحت پائیں حکیم قاری محمد یونس شاہد میو پنیر بوٹی کو تخم حیات بھی کہتے ہیں، اسے فارسی میں پنیر بادا، پنجابی میں پنیر ڈوڈی ہندی میں اکری، پہاڑی میں خم زیرہ، سندھی میں پنیر بند اور انگریزی میں ویجی ٹیبل رینٹ کہتے ہیں۔ پنیر بوٹی کے طبی فوائد: پنیر بوٹی کے استعمال سے صحت پر حاصل ہونے والے اثرات کو سائنس بھی تسلیم کر چکی ہے، یہ جڑی بوٹی شوگر کے مریضوں کے لیے بے حد مددگار ثابت ہوتی ہے، یہ انسولین کی قدرتی افزائش میں کردار ادا کرتی ہے، معدے کو طاقت بخشتی ہے، اپھار میں کمی لاتی ہے، بد ہضمی، تیزابیت اور پیٹ کے درد کا خاتمہ کرتی ہے، جِلدی امراض یعنی کیل، مہاسے، جھائیاں دور کرتی ہے، ہیپاٹائٹس سے بچاؤ اور اس کے علاج کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے، بڑھے ہوئے بلڈ کولیسٹرول اور موٹاپے میں کمی لاتی ہے۔پنیر ڈوڈی ہاصمہ بھوک کی کمی۔بد پہضمی اور اعصابی شوگر کجے لئے اعلی فوائد کا حامل قہوہ ہے۔۔ معدہ کو طاقت دے: ایک دودانے پانی میں بھگو کر رس نکا ل کر شیرخورا بچوں کو پلانے سے بد ہضمی نفخ دردشکم دور ہوجاتے ہیں۔ چار پانچ دانے پوٹلی میں باندھ کرآدھ سیر ٹھنڈے دودھ میں بھگو دیں یا ان کو پانی یا دودھ میں رگڑ کر دودھ میں ڈال دیں تو آدھے گھنٹے کے بعد اعلیٰ قسم کا دہی تیا ر ہوجاتا ہے۔ پیٹ میں رہاحی درد ہو تو چند دانے ہمراہ نیم گرم پانی کھلانے سے فوراً تسکین ہوتی ہے۔ پنیر بوٹی استعمال کرنے کا طریقہ: ایک گلاس پانی میں 12 دانے پنیر بوٹی کے بھگو دیں اور رات بھر کے لیے گلاس کو ڈھانپ کر چھوڑ دیں۔پنیر بوٹی کے اس پانی کو نتھار کر صبح نہار منہ پی لیں۔بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے کم از کم 3 ماہ تک اس نسخے کو جاری رکھیں۔ جسم، جوڑوں کا درد: پنیر بوٹی شوگر، وزن میں کمی، رنگ صاف کرنے، پیٹ، جسم اور جوڑوں کے درد وغیرہ میں بے حد مفید ثابت ہوتی ہے۔ مردانہ علاج: پنیر ڈوڈی سے جمے ہوئے دہی میں چینی مکس کر کے کھانے سے جریان، احتلام اور سیلان الرحم کے مریضوں کے لے بے حد فائدہ مند ہے۔
عناب کے طبی فوائد اور استعمالات
عناب کے طبی فوائد اور استعمالات عناعناب کے طبی فوائد اور استعمالات حکیم قاری محمد یونس شاہد میو عناب کا شمار ان پھلوں میں ہوتا ہے جو مختلف طبی فوائد سے مالا مال ہیں۔ اس پھل کی شکل بیر سے ملتی جلتی ہے اس لیے اسے عناب کا بیر بھی کہا جاتا ہے۔ کچا ہونے کی صورت میں اس پھل کا رنگ ہرا ہوتا ہے اور پکنے کے بعد اس کا رنگ جامنی یا سرخ ہو جاتا ہے۔ اس پھل میں کیلوریز کم مقدار میں پائی جاتی ہیں اس لیے اسے لو کیلوری فروٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ذائقہ سیب سے ملتا جلتا ہے تاہم کچے اور پکے عناب کے ذائقے میں فرق ہو سکتا ہے۔عناب کا دوسرا نام چینی کھجور ہے کیوں کہ یہ سینکڑوں سالوں سے چین میں ہربل دوائیں بنانے میں استعمال ہو رہا ہے۔ عناب کےغذائی اجزاء اس میں وٹامن اے ،سی ،بی ،بی 12،سوڈیم ،زنک ،فاسفورس ،میگنیشیم ،کیلشیم ،کاربو ہائڈریٹس ، پروٹین ،کولیسٹرول ،فائبر اور نیاسن پایا جا تا ہے ۔یہ پھل کچا بھی کھایا جاتا ہے لیکن پکانےاورسکھانے سے اس کی افادیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ عناب کا استعمال اس کو بطور میوہ کھایاجاتا ہے۔ عناب کو بطور دوابھی مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پھل کا استعما ل نیا نہیں بلکہ یہ پھل 4000 سال سے ہربل دوائیں بنانے کے لئے چین میں کثرت سے استعمال ہو رہا ہے ۔ یہ پھل کچا بھی کھایا جاتا ہے لیکن پکانے اور سکھانے سے اس کی افادیت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔اس سے شربت عناب بنایا جاتا ہے ۔ عناب کے طبعی فوائد عناب ایک ایسی قدرتی خزانوں سے مالا مال جڑی بوٹی ہے جس کے لا تعداد فوائد ہیں ، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔ خون کی بیماریوں کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے اس کے رس میں خون کو صاف کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔یہ خون کی بیماریوں کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے حتیٰ کہ خون کے کینسرلیکیومیا میں بھی انتہائی مفید قرار دیا جاتا ہے ۔ دوچمچ عناب میں 50 ملی گرام نیاسن پایا جاتا ہے جو خون کے بہاؤ کو بہتربناتا ہے۔ عناب سرخ خلیات کی تعداد کو توازن میں رکھتا ہےاورخون بناتا ہے ،اینیمیا میں انتہائی مفید ہے ۔ فاسفورس اورآئرن کی کمی دور کرتا ہے ایسے افراد جو آئرن کی کمی کا شکار ہوتے ہیں اور آئرن کے سپلیمنٹ کھاتے ہیں یا خون کی کمی کے باعث تھکان ،ذہنی اور جسمانی کمزوری اور اعصابی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں انھیں اسکا استعمال کرنا چاہئے کیوں کہ اس میں فاسفورس اور آئرن وافر مقدار میں ہوتا ہے۔ جسم سےزہریلےمادوں کو خارج کرتا ہے عناب میں الکلائڈ پایا جاتا ہے جو ہمارے جسم کو ڈیٹویسیفائی یعنی غیر ضروری مادوں سے پاک کرتا ہے اور نقصان دہ ٹوکسنز, زہریلے مادوں کو خارج کرتا ہے ۔ بہترین اینٹی ایجنگ ایجنٹ یہ ایک بیوٹی ایڈ ہےیہ ایکنی اور ایکزما میں بہت مفید ہے۔ یہ بہترین اینٹی ایجنگ ایجنٹ ہے یعنی یہ آپ میں بڑھاپے کے اثرات کو کم کرتا ہے ، آپ کی جلدکو جوان اور ٹائٹ رکھتا ہے ، یہ ہی وجہ ہے کہ بیوٹی کریموں میں زیادہ تر عناب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جلد کو تازگی اور دلکشی دیتا ہے ۔ جلد پر ہونے والی خارش ،چنبل ،داد سن برن اور خشکی کو دور کرتا ہے۔ یہ جلد کی سوجن ، جلنے، خسرہ اور چیچک کے دانوں کے نشانات مٹاتا ہے۔ عمومی طورپرعناب کو کس طرح استعمال کرنا چاہیئے؟ عناب کو کچے پھل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اسے سکھا کر محفوظ بھی کر لیا جاتا ہے تا کہ سال بھر استعمال کیا جا سکے۔ عام طور پر اس کا شربت بنا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مزاج تمام موسموں میں یکساں طور پر معتدل رہتا ہے اس لیے اسے سال کے دوران کبھی بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا شربت بنانے کا طریقے یہ ہے کہ اس پھل کے کچھ دانے لے کر ان کو پانی میں بھگو دیا جاتا ہے اور صبح اٹھ کر اس کا شربت بنا لیا جاتا ہے۔ اس شربت کے باقاعدہ استعمال سے پھیپھڑوں سے بلغم دور ہوتی ہے اور کھانسی اور گلے کی خراش کی علامات میں بھی کمی آتی ہے۔ عناب کے طبی فوائد جِلد کی حفاظت اعصابی نظام کی مضبوطی ہاضمہ کے نظام میں بہتری قوتِ مدافعت میں بہتری خون کے امراض سے بچاؤ اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور موٹاپے میں کمی عناب کے طبی فوائد عناب میں بہت سارے غذائی اجزاء پاتے جاتے ہیں اس لیے اس سے کئی طبی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ عناب سے حاصل ہونے والے چند طبی فوائد مندرجہ ذیل ہیں۔ جِلد کی حفاظت اکثر لوگ جِلد کے مختلف امراض کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں، ان امراض میں ایکنی اور ایکزما سرِفہرست ہیں۔ ایسے لوگ جو ایکنی اور ایکزما کی وجہ سے پریشان ہیں ان کے لیے عناب ایک بہترین آپشن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پھل میں اینٹی ایجنگ خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں جو جِلد پر بڑھاپے کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔انہی خصوصیات کی وجہ سے عناب کا استعمال بہت سی بیوٹی کریموں میں بھی کیا جاتا ہے۔ اس پھل کے باقاعدہ استعمال سے جِلد ترو تازہ اور دلکش رہتی ہے اور جلد پر ہونے والی خارش اور خشکی دور ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پھل جلد کی سوزش اور سرخی کو بھی کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور خسرہ اور چیچک کے داغ بھی کم کر سکتا ہے۔عام طور پر لوگوں کی جِلد پر خون کی گرمی کی وجہ سے دانے نمودار ہو جاتے ہیں جس سے جلد کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے سب سے بہترین آپشن یہی ہے کہ وہ رات کو اس کے کچھ دانے پانی میں بھگو کر رکھ دیں اور صبح اٹھ کر نہار منہ یہ پانی استعمال کر لیں۔ کچھ دنوں کے استعمال کے بعد خون کی گرمی میں کمی آئے گی اور جِلد کے دانے بھی کم ہوں گے۔ اعصابی نظام کی مضبوطی یہ پھل اعصابی نظام کو قوت
Ulama e Hind ka Shandar Mazi By Maulana Muhammad Mian علماء ہند کا شاندار ماضی
Ulama e Hind ka Shandar Mazi By Maulana Muhammad Mian علماء ہند کا شاندار ماضی علماء ہند کا شاندار ماضی بھارتی دیوبندی عالم محمد میاں دیوبندی کی لکھی ہوئی علمائے ہند پر ایک کتاب۔ اس کتاب میں علمائے ہند کے کارناموں کو بیان کیا ہے، اس سے انگریزی حکومت کو غصہ آیا، کتاب ضبط کر لی گئی اور مصنف کو جیل میں ڈال دیا گیا، پھر چند دنوں کے بعد رہا ہوئے تو مزید حوصلہ بڑھا اور اگلی کتاب علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے کے نام سے دو جلدوں میں تصنیف فرمائی، عرض یہ ہے کہ مذکورہ بالا کتاب چار جلدوں میں مکمل ہوئی، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی سے بات شروع کی ہے اور ہندوستان کی آزادی پر لا کر ختم کی ہے، اس درمیان کے تقریباً سارے اہم ترین کارنامے اس میں شامل ہو گئے ہیں، ہندوستان کے تین مجد دین کے کارناموں کو تفصیل سے لکھا گیا ہے، پہلے مجددالف ثانی، پھر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی اوران کے معاصر مین کے علمی اور سیاسی کارناموں کو ان میں سمیٹا گیا ہے پہلی جلد[ترمیم] اس میں مجددالف ثانی اور ان کے معاصرین، خلفاء خلفاۓ خلفاء ، سلطنت مغلیہ کے چارتاج داروں ( اکبر، جہاں گیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب) کے حالات و واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے، اس درمیان کی سیاسی، معاشی ماحول میں علمائے امت کی مجاہدانہ اصلاحی سرگرمیوں اوران کے نتائج پرتفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ تصنیف کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”ایک ناکارہ دسر گرداں دیدہ ریزی اور دل سوزی سے ہزار ہا اوراق کو پلٹ کر ایک مجموعہ مرتب کیا ہے …. التجا ہے کہ ہم نے اپنے مقدس کا برکوز بد، تقف، پلی شی، شب بیداری سے خوانی، سعید وریزی کے چشمہ سے دیکھا تو بہت جلیل القدر اور عظیم الشان نظر آئے، آیئے اب مکہ کی مظلومیت، طائف کی مقہوریت، ہجرت وطن، ترک ا تقارب، غارثور کی روایشی، بدر کی نصرت، احد کی شہادت، فتح مکہ کی مسرت بختین وثقیف کی سطوت، تبوک کی شوکت وغیرہ وغیرہ سنن جہاد وسیاست کے چلمن سے نظر ڈالیں، کیسے نظر آتے ہیں؟ ہمارا حال ماضی کا ثمرہ اور مستقبل کا سنگ بنیاد ہے، آیئے تاریخ ماضی سے اپنے مستقبل کے لیے کچھ سبق حاصل کر میں“ ۔ مجدد الف ثانی کے اوصاف حمیدہ، حلیہ اتباع سنت اور اشاعت اسلام کے جذبات کو بڑے ہی اچھے انداز میں بیان فرمایا ہے، علمائے سوء اور صوفیاۓ خام کا بھی ذکر ہے جنھوں نے حضرت مجد دگو دربار میں سجدہ کر نے کا حکم صادر کروایا اور حکم عدولی کی سزا کے طور پر جیل کی راہ دکھائی، مگر حضرت نے جیل میں بھی اشاعت اسلام کا کام جاری رکھا، سارے بدمعاش نیک صفت ہو گئے، رہائی ملی تو بادشاہ نے فوج میں اپنے ساتھ رہنے کا حکم دیا، بادشاہ بھی متاثر ہوا اور حضرت سے معافی مانگی اور مکمل طور پر رہائی دے دی پھر حضرت نے دربار سے قریب لوگوں سے رابطہ کیا۔ بالآ خرا کبری فتنی ختم ہو گیا، ان کی ساری تفصیلات الفرقان مجد نمبر کے تنقیدی تجزیہ کے ضمن میں لکھی گئی ہیں ۔ ای جلد میں ’ ’ تحریک مہدویت ‘ ‘ کا بھی ذکر ہے، سید محمد جون پوری نے مہدی ہونے کا دعوی کیا ، اس کی ابتدائی حالت اچھی تھی ، انداز خطابت پر کشش تھا ، اس سے عبداللہ نیازی اور شیخ علائی بھی متاثر ہوئے ۔ مجددالف ثانی کا زمانہ ۱۰۰۰ ھ / ۱۵۹۱ ء سے شروع ہوا ، اس کے بعد میں سال تک جن اہل علم نے ان کے ساتھ رہ کر خدمات انجام دیں ، ان کی تعداد و وسو سے زائد ہے ، ان سب کے احوال ذکر نہیں کیے گئے ہیں ، جن کا تعلق ہندوستان کی سیاست سے رہا ، یا کم از کم درس و تدریس کے ذریعہ سے اشاعت علم اور اصلاح خلق کی کوشش کی ہے ۔ ان میں مشہور فقیہ ملا جیون بھی ہیں ، جنھوں نے عالم گیر اور ان کے صاحب زادے شاہ عالم کو پڑھایا ، ان کی کتاب نورالانوار دارالعلوم دیو بنداور دیگر مدارس کے نصاب میں داخل نصاب ہے ، مقالہ نگارکو بھی بارہا اس کے پڑھانے کا شرفع حاصل ہوا ہے ، آیات احکام کی تفسیر تفسیرات احمدیہ کے نام سے انھوں نے لکھی بھی بڑی مقبول ہوئی ۔ اس میں ’ ’ فتاوی عالم گیری ‘ ‘ کا بھی ذکر ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر نے ملک بھر کے بڑے بڑے فقہاۓ کرام کو جمع فرمایا تھا ، ان سب کا نگراں’’ملا نظام الدین ‘ ‘ کو بنایا ، دولا کھ روپے اس کی تدوین میں صرف ہوۓ ، خود بھی ایک دوصفحہ روزانہ دیکھتے تھے ، موصوف متقی و پرہیز گار تھے ، اپنے ہاتھ سے قرآن کریم کی کتابت فرماتے تھے ، ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن پاک کا چوبیسواں پارہ دارالعلوم دیو بند کے کتب خانے میں محفوظ ہے ۔ مقالہ نگار نے بارہا اس کا مشاہدہ کیا ہے ۔ پہلی جلد کے تیار کرنے میں موصوف نے بیالیس مآخذ سے استفادہ کیا ہے ، ان سب کی تفصیلات فہرست مضامین سے پہلے موجود ہے ، طوالت کے خوف سے ان کو قل نہیں کیا جا تا ہے ۔ دوسری جلد[ترمیم] دوسری جلد میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سیاسی اور اقتصادی نظریات ان کی تعلیم وتربیت کے مرکز ، حضرت شاہ عبدالعزیز کی سیاسی خدمات ان کے فتوئی اور اس کے قوی ترین اثرات کا ذکر ہے ، اسی طرح حضرت شاہ محمداسماعیل شہید اوران کے رفقائے کار کے مجاہدانہ کارنامے بیان کیے گیے ہیں ، اٹھار ہو میں اور انیسویں صدی کے نصف اول کا سیاسی ماحول ، شاہان اودھ ، حافظ رحمت خان شہید ، روہیلے اور مرہٹے ، مرہٹوں کی قلیل ترین حکومت کا بھی ذکر ہے۔اسی طرح لفظ وہابی ‘ ‘ کی تشریح بھی کی گئی ہے : ی لفظ ہندوستانی زبان کی ڈکشنری میں انیسویں صدی ہی میں داخل کیا گیا اور اس مذہبی لفظ سے وہ عظیم الشان سیاسی مقاصد حاصل کیے گیے جو لاکھوں انسانوں کی قربانی اور کروڑوں اربوں روپے کے خرچ کرنے سے بھی نہیں حاصل ہو سکتے تھے ۔ نجد کے
املتاس۔۔کا قہوہ۔
املتاس۔۔کا قہوہ۔ املتاس۔۔کا قہوہ۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو ایام حیض کے دردوں کے لئے نافع ہے۔اس کے علاوہ پیٹ میں مروڑ اور گڑ گڑاہٹ میں فایدہ مند ہے۔باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے بلڈ پریشر بھی نارمل رہتا ہے، اور بلڈ شوگر کا لیول بھی متوازن رہتا ہے۔ قبض کی علامات میں مفید اچھی صحت کے لیے بڑی آنت کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب آپ کا ہاضمہ کا نظام ٹھیک طریقے سے کام کرتا ہے تو آپ کی صحت میں بہتری آنا شروع ہوتی ہے۔ اگر آپ کا ہاضمہ کا نظام اچھے طریقے سے کام نہ کر رہا تو قبض کی علامات لاحق ہو سکتی ہیں۔ تاہم قبض سے نجات حاصل کرنے کے لیے املتاس مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ املتاس کو اپنی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کی بنیاد اور اس میں پائے جانے والے فائبر کی وجہ سے قبض کے خلاف مفید سمجھا جاتا ہے۔ پیٹ کی چربی کم کرنے کے لیے مفید اکثر لوگ موٹاپے اور بڑھے ہوئے پیٹ کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ پیٹ کی چربی سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس کی پکی ہوئی پھلی کا دو انچ کا ٹکڑا لے لیں۔ اس ٹکڑے سے گودا نکال کر اس ایک کپ پانی میں بھگو دیں اور اس میں ایک چمچ سونف بھی شامل کر دیں۔ رات بھر سونف اور املتاس کے گودے کو بھگونے کے بعد صبح چھان کر نہار منہ پانی لیں۔ کچھ دنوں تک اس نسخے پر عمل کرنے سے پیٹ کی چربی کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ معدے کی تیزابیت کا خاتمہ کھانے کو ہضم کرنے کے لیے معدے میں تیزاب بننے کا عمل بہت ضروری ہے، اگر تیزاب نہ بنے تو کھانا ہضم نہیں نہیں ہوتا۔ تاہم زیادہ مقدار میں ایسڈ بننے کی وجہ سے معدے کی جھلی متاثر ہو جاتی ہے۔ اگر آپ معدے کی تیزابت کا شکار ہیں تو املتاس آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ املتاس معدے پر اپنا اثر ظاہر کرتے ہوئے اس کی گرمی اور تیزابیت کو کم کرتا ہے۔ ماہواری کی بے قاعدگی کو ختم کرنے میں مفید اکثر خواتین کو ماہواری میں بے قاعدگی کی شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ شکایات شدت اختیار کر جاتی ہیں اور دو سے چار مار ماہ خواتین کو ماہواری نہیں آتی۔ ایسی خواتین کے لیے املتاس کی پھلیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ماہواری کی بے قاعدگی سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس کی پھلی کے چھوٹے سے ٹکڑے کو آدھے کپ پانی میں رات کو بھگو کر رکھ دیں۔ صبح پھلی کو چھان کر نہار منہ اس پانی کو پی لیں۔ کچھ دنوں تک یہ پانی استعمال کرنے سے ماہواری شروع ہو جائے گی۔ آرتھرائٹس کی علامات میں کمی آرتھرائٹس کی بیماری کی وجہ سے ہمیں گھٹنوں کی سوزش اور درد کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس سوزش اور درد سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ چوں کہ املتاس میں سوزش کو کم کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اس لیے یہ آرتھرائٹس کی علامات میں کمی لاتا ہے۔ جوڑوں کے درد اور سوزش سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس ایک بہترین آپشن ہے۔ زخم جلدی بھرنے میں مددگار املتاس میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ٹشوز کو دوبارہ بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ املتاس کو اگر چوٹ لگنے کی صورت میں استعمال کیا جائے تو آسانی کے ساتھ کم وقت میں زخم بھر سکتے ہیں۔ مدافعتی نظام کی مضبوطی میں اضافہ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے مدافعتی نظام کو مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ املتاس میں ایسے اجزاء، اینٹی فنگل، اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پائی جاتی ہیں جو مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہیں، جس کی وجہ سے بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ بخار کی شدت میں کمی بخار کی شدت میں کمی لانے کے لیے بھی املتاس کو استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے آپ املتاس کا پانی استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک طبی تحقیق کے مطابق املتاس میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو بخار سے بچاؤ میں بھی مدد فراہم کر سکتی ہیں۔ اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور املتاس کے پتوں کا عرق بہت سے اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آپ کا جسم فری ریڈیکلز کے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے، اور آپ کی جلد پر بڑھاپے کے اثرات بھی ظاہر نہیں ہوتے۔ املتاس کے مزید فوائد کے متعلق معلومات کسی ماہرِ غذائیت سے حاصل کی جا سکتی ہیں، کسی بھی ماہرِ غذائیت کے ساتھ آسانی کے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے آپ ہیلتھ وائر کا پلیٹ فارم استعمال کر سکتے ہیں، کیوں کہ ہیلتھ وائر نے رابطوں کو بہت آسان بنا دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قہوہ مکو دانہ۔۔ مکو دانہ کے حیرت انگیز فوائد اور استعمال
قہوہ مکو دانہ۔۔ مکو دانہ کے حیرت انگیز فوائد اور استعمال قہوہ مکو دانہ۔۔ مکو دانہ کے حیرت انگیز فوائد اور استعمال حکیم قاری محمد یونس شاہد میو امراض جگر میں مفید ہے جگر کی خرابی کی وجہ سے اگر ہاتھ پائوں پر ورن ہوتا ہو ایسے مریضوں کے لئے۔مکو دانہ اور کانسی کے بیج نیم گرم پانی میں رات کو بھگو دیں صبح مل چھان کر پلا دیں ۔یا پھر قہوہ بنا کر استعمال کریں ،بہترین فوائد کا حامل قہوہ ہے۔ • مکو دانہ میں موجود غذائیت مکو دانہ زیادہ تر ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے ، اگر اسے کچا استعمال یا جائے تو ذائقہ تلخ جبکہ پکے ہوئے مکو کا ذائقہ شیریں ہوتا ہے، اس کی میں موجود غذائی اجزاء میں وٹامن اے، ای، اور سی کے علاوہ نمکیات، کیلشیم، فاسفورس، فولاد شامل ہوتے ہیں۔ • مکو دانہ کی تاثیر اس کا مزاج سرد اور خشک ہے، عام طور پر موسم برسات میں اُگتا ہے جبکہ گھریلو علاج میں اس کا پانی بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے حیرت انگیز فوائد سے لوگ موٹاپے اور دیگر کئی قسم کے مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہیں۔ • مکو دانہ کے فوائد خشک مکو دانہ کا پانی استعمال کرنے سے جسم میں کی اندرونی بیرونی ہر قسم کی سوجن سے نجات ملتی ہے، جگر کے ورم اور معدے کے ورم میں خشک مکو دانہ اور اس کے پتوں کا پانی اُبال کر انہیں چھان کر یہ پانی پلانا بہت حیرت انگیز نتائج دے سکتا ہے۔ • خواتین کے لئے مفید اس کے علاوہ یہ بوٹی پیشاب آور ہے جبکہ حرارت اور پیاس کو تسکین دیتی ہے مکو دانہ خؤاتین کے لئے بئی بہترین بوٹی ہے، اس کے استعمال عورت کی رحم میں موجود ورم بھی ختم کیا جا سکتا ہے اس کے لئے اس کے پتوں کے نیم گرم پانی میں کپڑا بھگو کر پیٹ کے نچلے حصے پر لگائیں۔ • وزن کم کرنے کے لئے مفید مکو دانہ کے پانی کی سب سے بہترین بات یہ ہے کہ یہ پانی پینے سے جہاں جسم کے اندرونی اور بیرونی اعضاء کا ورم اور سوجن اُترتی ہے وہیں وزن بھی کم ہوتا ہے، وزن میں کمی اور ورم دور کرنے کے لئے اس کا پانی باقاعدگی سے استعمال کریں،