Eastern and Western doctors should not be aware of each other’s investigations.
مشرقی و مغربی اطباء ایک دوسرے کی
تحقیقات سے بے خبر رہنا۔
Eastern and Western doctors should not be aware of each other’s investigations.
يجب ألا يكون الأطباء الشرقيون والغربيون على علم بتحقيقات بعضهم البعض.
مضمون نگار :حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔۔۔
اسلامی دنیا میں طبی تحقیقات کے حوالے سے بہت جانفشانی سے کام لیا گیا،،،تاریخی اوراق ہمیں بتاتے ہیں ابتدائی صدیوں کی تاریخ کے اورتاق پلٹے جاتے ہیں تو بغداد و اندلس کے الگ الگ سورج چمکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
بعد والے ان دونوں کو خلط ملط کردیتے ہیں۔۔۔
طبی تحقیقات میں جہاں مشرقی لوگوں میں ۔بوعلی سینا۔۔
جبریل۔ثابت بن قرہ فردوس الحکمت والے زکریا رازی دکھائی دیتے ہیں ان میں سے ہر ایک اپنا نظام شمشی کا مرکز تھا۔
یہ بھی پڑھئے
اطباء کی خصوصیات۔ ابن ربن طبری کی اطباء کے لئے سنہری ہدایات
جب کہ اندلسی اطباء میں ابن زہر۔۔۔وغیرہ وغیرہ دکھائی دیتے ہیں۔
دونوں طبقوں کی کتب طب کے مطا۔لعہ عیاں ہوتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی تحقیقات سے ناآشنا تھے۔
مشرقی اطبا اپنے خطے کے اطباء کی تحقیقات سے استفادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔دوسری طرف مغربی اطباء اہل مغرب سے خوشہ چین نظر آتے ہیں۔
البتہ یونانی کتب کتب کے حوالے دونوں کے ہاں ملتے ہیں یعنی یونانی طب سے استفادہ دونوں میں مشترک ہے۔۔شاید ان کتب کے تراجم مشرق سے مغرب میں پہنچے تھے۔کیوںکہ مامون کے زمانہ میں ایک معاہدہ کے تحت یونانی ذخیرہ کتب سلنطت اسلامیہ کے حوالےکیا گیا تھا۔لیکن مغرب سلطنت اسلامیہ میں شاید اس کی نظیر نہیں ملتی۔۔۔قرین قیاس یہی ہے کہ یونانی کتب کے تراجم بغداد سے اندلس انشبیلیہ پہنچے تھے۔
۔۔اس کے بعد رابطہ کی مربوط صورت نظر نہیں آتی۔۔
یہ بات مجھے اس وقت محسوس ہوئی۔جب میں نے کتاب التیسیر فی الطب۔۔۔
یہ بھی پڑھئے
مجربات ابن زہر اندلسی.
۔اور رازی کی کتاب الفاخر فی الطب کے اردو میں ترجمے کئے۔ان کے دستور الطب معالجات ادویہ سازی میں سقراط
و بقراط تو مشترک ہیں لیکن اگلی تحقیقات الگ الگ ہیں ان میں اشتراک کم کم دکھائی دیتا ہے۔
۔البتہ مشرقی و مغربی اطباء اپنے اپنے خطے کی تحقیقات کو بے دھڑک کام میں لاتے ہیں ۔مشرقی و مغربی لوگوں کی بودباش اور مزاج میں کافی تفاوت پایا جاتا ہے جس کی جھلک ان کی تحریرات میں نمایاں ہے