عید کا دنن میں میوات کا دو بڑان نے میرے ذمہ کام لگایا ہا۔ان مین سو ایک ۔پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحق صاحب ہاں،جنن نے گوت پال کا بارہ مین لکھن کی ذمہ داری لگائی ہی۔۔۔دوسرا بابائے میوات۔جناب عاصد رمضان میو ،ہاں جنن نے میواتی زبان میں ،کچھ لکھن کو حکم کرو ہو،
ای لکھائی ععاصد رمضان والا مضمون میں سو ہے۔ای کتاب تو مکمل ہوگئی۔۔پروفیسر صاحب کو حکم بھی ایک آدھ دن میں پورو ہوجائے گو
ہم کیسے آگے بڑھ سکاہاں؟
(میواتی زبان میں،پہلی قسط)
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
اللہ کو لاکھ لاکھ شکر ہے جانے ہم آزاد پیدا کرا۔اورسوسچن سمجھن کی تمییز دی اچھا بُرا پرکھن کو شعور دئیو۔جب تک قوم میں کائی بات کو جذبہ پیدا نہ ہووے ہے وا وقت تک آگے بڑھنو مشکل رہوے ہے۔
بہت سی قوم یا مارے تباہ و برباد ہوگئی کہ اُنن نے پہلان سو کچھ سبق لیئو نہ خود کوئی ڈھنگ کو کام کرو۔جب کوئی قوم نفع سو خالی ہوجاوے ہے تودنیا میں واکی کوئی جگہ باقی نہ بچے ہے۔وائے مٹے ای سرے ہے۔
قدرت کو نظام ایسو ہے یا میںحالات کے مطابق ڈھلتا جائوگا تو بچا رہوگا۔دنیا تم نے وا وقت تک یاد راکھے گی جب تک تم ان کی بھلائی کے مارے سوچتا رہوگا۔ہلکا پھلکا کامن میں لگا رہوگا۔
لوگن نے یا بات سو کوئی سروکار نہ ہے کہ تم کیسا دیکھو ہو۔ملوک ہو بُرا ہو۔مالدار ہو غریب ہو۔لمبا تڑانگ ہو۔یا ناٹا کھوٹا ہو۔لوگ تو یا بات اے جانا ہاں کہ اُن کے مارے تم نے کہا کرو ہے؟تم اپنے مارے کہا کچھ کرو ۔کائی یاکی کوئی پروا نہ ہے۔
البتہ تم دوسران کے مارے کہا کرو ای معنی راکھے ہے۔کائی نہ کائی کارنامہ کی وجہ سو ہم پہلان نے جاناہاں ۔
ان کو نام تاریخ میں یامارے لکھو گئیو ہے کہ اُنن نے قوم کے مارے اپنو سر دھڑ سو الگ کروائیو ہو۔
وے بظاہر تو یا دنیا میںسو چلا گیا ۔ لیکن ہمارا ہردان میں ابھی تک زندہ ہاں۔
کائی ان کو حلیہ یاد نہ ہے۔نہ ای پتو ہے کہ ان کا گھرن میں کھان کو دانہ بھی ہا کہ نہ۔
لیکن انن نے جو کام قوم کے مارے کرا۔قوم نے ان کی شاباشی میں ان کو نام گگن پے لکھ دئیو۔
ایک حدیث سُن لئیو۔حدیث تو لمبی ہے جو بات ہمارے مارے ہے وائے سن لئیو۔
ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه(التخريج : أخرجه أبو داود (3643)، والدارمي (344)، وابن حبان (84)
۔جو کام میں پیچھے رہو ۔وائے باپ دادا کو نام آگے نہ لے جاسکے ہے۔
جاکو سیدھو سو مطلب ای ہے کہ تم جو رول مچاتا پھرو ہو کہ ہمارا باپ دادا نوں ہا۔
ہمارو خاندان نوں ہو۔یہ بات سنن کی حد تک ٹھیک ہاں ۔لیکن عملی دنیا میں بے معنی سی بات ہاں
۔ جو بات حدیث میں بتادی جاوے ہے اُو کدی بھی بدلے نہ ہے۔نبی ﷺ کو کہو پھتر پے لکیر رہوے ہے۔
جو بھی یا بارہ میں اینک چیکن نے نکالا ہاں،کہ وانے نوں کہو ۔وانے نوں کرو۔اُو ایسو ہے
۔واکو کنبہ خاندان ایسو ہے۔یہ بات سٹیٹی فضول و ناکارہ ہیں ۔یا دنیا میں ان کی کوئی گنجائش نہ ہے۔
ضروری تو نہ ہے تم حسن خان میواتی کی طرح گھوڑا پے بیٹھ کے دشمنن نے کاٹتا پھرو۔
یا گھڑ چڑی میوخان کی طرح۔بندوق اٹھا کے حکومت کے خلاف کھڑا ہوجائو۔
وا وقت ایسا کرادارن کی ضرورت ہی۔تو اچھا لگے ہا۔آج کو ماحول الگ ہے۔
ضرورت الگ ہاں۔آج بھی قوم کی خدمت کری جاسکے ہے بلکہ اچھا طریقہ سو کری جاسکے ہے۔
اللہ نے اب تو بہت بڑا میدان دیدیا ہاں۔اگر ہمت سو کام لیو تو آج بھی حسن خان
اور گھڑ چھڑی میوخان کی طرح قوم کی خدمت کری جاسکے ہے۔
تم کہا سمجھو ہو کہ وا وقت آپس کان نے اُن کی ٹانگ نہ کھینچی ہونگی۔
ان کا مخالف نہ ہونگا؟ایسی بات نہ ہے۔اُن کا مکالف تو اتنا گھنا ہاں،ہم تو سوچ بھی نہ سکاہاں
۔ان کی تو بغلن میں غدارن کی اور جاسوسن کی لین لگی رہوے ہے۔
ہم نے تو آپ اسیو کوئی خطرہ نہ ہے۔کہیں ایسو تو نہ ہے کہ ہم سوچ سوچ اے تھک گیا ہاں
۔ہم نے فرضی قسم کا دشمن کھڑ لیا ہاں ۔کہ یہ ہم نے کام نہ کرن دینگا۔
فلاں تو ہم نے دیکھ کے سہیاوے ای نہ ہے۔۔اُ سو کدی پوچھی ہے کہ ہمارا جو خدشات ہاں ۔
یہ سچا ہاں یا پھر ان کو کوئی وجود بھی ہے؟۔۔۔نوں ای سوچ سوچ کے تھکا پڑا ہو؟۔۔۔
جاری ہے
1 comment
[…] ہندستان کی جنگوں میں میوات کا کردار […]