
گزارشات
یہ بلا اختلاف تسلیم شدہ اصول ہے کہ کوئی فرد یا کوئی قوم اس وقت تک کسی عزت کی مستحق نہیں ہوتی۔ جب تک کہ وہ خود اپنی عزت آپ نہیں کرتی۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ انسان مغرور اور خود پسند بن کر اپنے منہ سے اپنی تعریف و توصیف کرنے لگے۔ اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرنے پر تل جائے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس کے روزمرہ کے افعال و اقوال میں متانت اور سنجیدگی پائی جائے اور اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو کہ جو تضحیک کا موجب ہو سکے کوئی اس کے اطوار و افعال پر طعن و تشنیع نہ کر سکے اور اسے ہر شخص وقعت کی نگاہوں سے دیکھنے پر مجبور ہو۔ اس کو اپنی عزت کرنا یا تکریم نفس کہتے ہیں ۔ جو شخص اپنی حرکات کی نگہداشت نہیں کرتا۔ اور لا ابالی طور پر زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ قابل عزت نہیں سمجھنا چاہئے ۔ گذشته واقعات پر نظر ڈالنے سے بھی میں متحقق ہوتا ہے کہ جن افراد یا قوم نے خود احترامی کے اصول کی قدر کی ان کی عام طور پر تحریم و توقیر کی جاتی رہی۔ اور جن کو اس عالمگیر حقیقت سے انحراف رہا وہ ہمیشہ ذلت و ادبار کے گڑھے میں پڑے رہے۔
ایسے لوگ جو اپنا احترام قائم کرنے کے لئے خود کوشش نہیں کرتے۔ وہ دنیا میں ذلیل و خوار حیثیت
رکھتے ہیں۔ یا صرف نہیں کہ وہ اپنے ہم چشموں کی نظروں سے گر جاتے ہیں ۔ بلکہ خدا کے نزدیک بھی ان کی نا مبارک ہستی نا قابل التفات

ٹھرتی ہے ۔
ہمت بلند دار اگر نزد خدا و خلق
شد بقدر ہمت تو اقتدار تو
اس میں کچھ شک نہیں کہ انفرادی عظمت وقار کے حاصل کرنے کے لئے انفرادی . کو شٹر کارگر ہو سکتی ہے۔ مگر اجتماعی عزت وجاہت کا حصول اس وقت تک ہرگز ممکن نہیں ہوتا۔ جب تک کہ سب مل کر اتحادی طور پر سعی نہ کریں۔ ہم دیکھتے ہیں.