(کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات10
(کچلہ نظام ہضم اور نظام اخراج میں بہترین فوائد کا حامل ہے۔جن کی توند تنی رہتی ہے۔منہ سے گیس کے بھبکارے نکلتے ہیں،پٹھوں میں درد،جسم بے جان رہتا ہے ان کے لئے کچلہ بہترین ٹانک ہے۔پیٹ درد۔گردوں کی تکلیف۔سدے۔اکڑائو میں کچلہ تریاقی صفات رکھتا ہے ۔سردیوں میں گھی دودھ بکثرت ہضم کرتاہے۔کھایا پیا انگ لگتا ے
(حکیم المیوات محمد یونس شاہد میو)
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔10ویں قسطتحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی۔کاہنہ نولاہور پاکستانکچلہ کے ساتھ گھی دودھ اور دیگر غذا و خوراک کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے۔یہ ایک اہم سوال ہے۔ہاضم تو اور بھی بہت سی چیزیں ہیں،پھر کچلہ کے ساتھ ہی کیوں گھی دودھ بکثرت استعمال کی ہدیات دی جاتی ہے؟،ایک نکتہ سمجھ لیں،عام طورپر ہاضم اشیاء اس لئے استعمال کی جاتی ہیں کہ معدہ میں ان کے ہضم کرنے کی استعداد بڑھ جائے۔کھائی ہوئی خوراک معدہ سے بہتر انداز میں ہضم ہوکر آگے جاسکے۔ایک وقت آتا ہے کہ یہ دوائیں بھی کام کرنا چھوڑ جاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہضم تو ہوجاتا ہے لیکن جسم کا نظام اخراج کمزور ہونے کی وجہ سے نئی خوراک کے لئے جگہ باقی نہیں رہتی۔جیسے ایک پائپ میں پانی رک جائے۔جب تک پہلا پانی آگے نہیں جائے ایک سر ے سے داخل ہو کر دوسرے سرے باہر نہ نکلے گا،اس وقت تک نیا پانی داخل نہیں ہوسکتا۔یہی حالت خوراک کی بھی ہے کہ اچھی سے اچھی غذا جب تک ہضم ہوکر خارج از جسم نہیں ہوجاتی نئی خوراک کے لئے گنجائش نہیں نکلتی۔ہاضم طعام ادویہ ہاضمہ تو تیز کردیتی ہین لیکن نظام اخراج پر ان کا اتنا اثر نہیں ہوپاتا جتنی جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہترین چورن اور پھکیاں بھی خاص مدت کے بعد اپنا کام چھوڑ جاتی ہیں۔کچلہ عضلاتی غدی مزاج کا حامل ہے۔اس میں خشکی گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے ایک حد سے زیادہ استعمال کرنے پر غیر طبعی کیفیا ت رونما ہونے لگتی ہیں۔گھی غدی اعصابی اور دودھ اعصابی مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔اس لئے کچلہ کی طاقت کے لئے جسم میں بہترین ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔اس کی کڑواہٹ۔جسم میں نچوڑ کی کیفیت پیدا کرتی ہے،جس سے جسم میں رُکے ہوئے غیر ضروری فضلات جسم سے باہر نکل جاتے ہیں۔یوں کچلہ ہاضم ہونے کے لئے ساتھ نظام اخراجیہ اور نظام بولیہ کی کارکردگی بہتر بنا نے میں اعلی کردار رکھتا ہے۔گھی دودھ کی کثرت اس کے غیر طبعی افعال کا تریاق ہیں۔اگر کوئی کچلہ کو مقررہ مقدار سے زیادہ کھالے تو اس کا تریاق گھی دودھ ہی تجویز کیا جاتا ہے۔ویسے تو اعصابی و غدی مزاج کی حامل غذائی ۔دوائیں اس کاتریاق ہیں،لیکن گھی دودھ پورے جسم میں ترو تازگی بڑھانے اور مریل و سوکھے سڑے جسموں مین نوید حیات نو پھونکنے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔جو لوگ سوکھے سڑے جسم والے ہوتے ہیں یا اعصابیت کا شکار ہوکر بیمار ہوجاتے ہیں،کچلہ ان کے بہت زیادہ فائدہ مند رہتا ہے۔اعصابیت والے دودھ استعمال نہیں کرسکتے۔اسی طرح غدی اعصابی مریض گھی استعمال نہیں کرسکتے انہیں بلڈ پریشر کی شکایت لاحق ہوسکتی ہے۔کچلہ کے ساتھ یہ دونوں گھی دودھ کا استعمال کرسکتے ہیں۔کچلہ معدہ کے بوجھ۔ہاتھ پائوں کی رات کے وقت بےچینی۔پیٹ کی گڑ گڑاہٹ۔لیسدار آئوںآ میز پاخانوں ،اور گردہ کے ریحی درد کے لئے اعلی درجہ کے فوائد رکھتا ہے۔۔اس کے استعمال سے آنتوں کا بوجھ ،درد،سدہ وغیرہ زائل ہوکر آنتیں طاقتور ہوجاتی ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ کہ ان میں رکے ہوئے فضلات بروقت خارج ہوجاتے ہیں،جب فضلات خارج ہوجائیں تو جسم میں غذا و خوراک کی طلب بڑھتی ہے اسکا اظہار بھوک کی صورت میں ہوتا ہے۔۔کچلہ پیٹ میں گیس پیدا ہونے کے مانع ہے۔یہ تنے ہوئے پیٹ۔نکلی ہوئی توند۔اور منہ میں بھبکارہ مارتی ہوئی بدبو کا ازالہ کچلہ استعمال کرکے کیا جاسکتا ہے.جب تک انسانی جسم کے دو نظام قائم رہیں اور کام کرتے ر
ہیں۔بیماری ددکھ نہیں دے تی۔ایک نظام ہضم دوسرا نطام اخراج۔ان میں سے ایک بھی کام نہ کرے تو انسانی طبیعت بوجھل ہوکر سستی و کاہلی پیدا ہوجاتی ہے۔جسمانی دردیں بھی اسی وجہ سے ہوتی ہیں کہ غیر ضروری مواد یا تو کم ہوجاتا ہے یا ضرورت سے زیادہ جمع ہوجاتا ہے۔جہاں جس چیز کی ضرورت ہے وہاں وہ دیدو اور جہاں کمی ہے وہاں مناسب انداز میں پیدا کردو۔غیر طبعی علامات ختم ہوجائیں گی۔ کچلہ عضلاتی غدی ہے، بھوک لگاتا ہے۔ہاضمہ کرتا ہے بھوک عضلاتی تحریک میں ہی لگتی ہے۔نظام اخراج میں اس لئے کار آمد ہے کہ گوشت میں نچوڑ پیدا کرتا ہے۔یوں جسم صحت کے لحاظ سے کندن بن جاتا ہے۔۔۔جاری ہے
…..آٹھویں قسط