علم کیمیاء اور جواہرات سازی پرایک جامع مستند کتاب
کاشف رموز کیمیاء
علم کیمیا کی تعریف
علم کیمیا کسے کہتے ہیں علم کیا نے انگریزی میں کیمسٹری اور الکمی بھی کہتے ہیں وہ علم ہے جس کے ذریعے اشیا کے اجزاء اور ان کے خواص معلوم ہوں اور مفرد کو مرکب اور مرکب کو مفرد کرنے کا طریق اور ایک جوہر کو دوسرے جو ہر میں تبدیل کرنے کا ڈھنگ اورکرے۔
الکیمی اور کیمسٹری میں فرق:
انگریزی کے دو لفظ جدا جدا اس علم کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک کیمسٹری اور دوسرا الکیمی۔ کیمسٹری اس علم کوکہتے ہیں جس کے ذریعے کائنات کی کل مادی اشیاء کے ذرات اور انکے مدارج جن سے اشیاء مرکب ہیں معلوم ہوتے ہیں۔ یہ وہ علم دو قسم کا ہے ایک تھیوا پٹیل، دوسرا اپلائیڈ – علمی حصہ اور عملی حصہ کو اپلائیڈ بولتے ہیں۔
یہ تو لفظ کیمسٹری کی مختصر تشریح ہے۔ اب رہا ا لکمی سو یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ ادنی درجہ کی دھاتوں کو اعلیٰ درجہ کی طرف منتقل کر سکتے ہیں اور کم قیمت معدنیات کو چاندی سونا بنا سکتے ہیں اور اس جگہ اس علم سے مراد ہے۔
علم کیمیا کے اقسام :
الغرض الکیمیا یا علم کیمیا جس کو ہندو رسائن بدیا کہتے ؟ ہیں بلحاظ طریق عمل دو طرح کا ہے۔ ایک مشرقی دوسرا مغربی۔ مشرقی تو جڑی بوٹیوں کے ذریعے کیا جاتا ہے اس لئے سریع العمل ہوتا ہے یعنی بنانے میں کچھ دیر اور محنت نہیں لگتی صرف بوٹی کا مل جانا شرط ہے۔ لیکن مغربی معدنیات حیوانات اور تیزابوں کے ذریعے بنایا جاتا ہے۔ اس لئے طویل العمل ہوتا ہے۔ بوٹی والا عمل اس لئے خراب ہے کہ بوٹی ہر جگہ اور ہر وقت نہیں ملتی۔ اس لئے اس کی تلاش میں خراب اور سرگرداں ہونا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے یہ مثل مشہور چلی آتی ہے کہ ” بوٹی کا یار سدا خوار مگر مغربی عمل ہر جگہ اور ہر وقت بنایا جاسکتا ہے، لیکن اس میں دقت یہ ہے کہ عمل طویل ہوتا ہے۔ ایک ایک نسخہ چھ چھ ماہ سال سال بھر بلکہ بعض نسخہ جات اس سے بھی زیادہ عرصے میں ختم ہوتے ہیں۔
مشرقی اور مغربی کیمیا گروں کے خیالات : ہند کے جوگی کہتے ہیں کہ کیمیائے بناتاتی باتا بہتر ہے کیونکہ بوٹیوں کا مزاج معتدل تر اورتأثیر قومی اثر ہوتی ہے اور سریع اثر دکھاتی ہے لیکن اہل مغرب کی رائے ہے کہ کیمیائے جمادی بہتر ہے کیونکہ سونا چاندی خود جمادات ہیں۔ لیکن بہت سے حکماء اس بات پر متفق ہیں کہ کیمیائے حیوانی سب سے اعلیٰ ہے کیونکہ حیوانات نباتات اور جمادات دونوں سے قوی ہے اور دونوں کو استعمال کرتا ہے۔
کیمیا کا تاریخی حال : اہل ا اسلام کے عقائد کے مطابق بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پروردگار نے حضرت جبرئیل کی معرف معرفت یہ علم مبارک حضرت آدم کو سکھایا اور ان سے ان کی اولاد میں چلتا رہا۔ حتی کہ نبیوں اور پیغمبروں میں سینہ ، سینہ پہنچتے پہنچتے آخر کارپیغمبر آخر الزمان حضرت رسول میں ہم کو ورثہ میں پہنچا۔ آپ سے امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ترکہ میں ملا۔ پھر آپ سے ہوتے ہوئے حضرت امام جعفر صادق کو پہنچا اور ان سے صابر جہاں اور شیخیان ثوری کو تلقین ہوا اور پھر اوروں کو ملتا گیا اور پھیلتا گیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ خداوند تعالیٰ نے قارون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ فن سکھایا تھا تا کہ ان کی دل آزاری نہ ہو کیونکہ قارون بہت دولتمند تھا اور دولت کی شیخی مارا کرتا تھا لیکن یہ روایت ضعیف معلوم ہوتی ہے کیونکہ افلاطون حکیم بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھا جو کیمیائے مغربی میں بڑا ماہر اور عالم متبحر گزرا ہے۔ اس سے معلوم ہوں۔ ہے کہ یہ یہ علم قدیمی ہے اور پہلے سے چلا آتا ہے۔ ہندوؤں کے اعتقاد کے مطابق سب سے پہلے مہادیو نے اس علم کو ایجاد کیا اور اس سے آگے رفتہ رفتہ جوگیوں اور سنیاسیوں میں پھیل گیا۔ چنانچہ گورو گورکھ ناتھ جوگی اس فن میں بڑا باکمال گذرا ہے۔ نیز باداشام گر سنیاسی بڑا بھاری کیمیاگر ہوا ہے۔
انگریزوں کی تحقیق کے مطابق اس کی ابتداء اس طرح پر ہے کہ چوتھی صدی عیسوی میں ایک شخص نے پہلے پہل اس علم پر ایک رسالہ لکھا جو اب تک زور کے کتب خانہ میں موجود ہے لیکن یہ شخص صرف عالم تھا اور علم کی حد تک ہی اپنا علم چھوڑ گیا۔ مگر پہلا عملی مهوس عرب کا حکیم غبر آٹھویں صدی عیسوی میں گذرا ہے جس کے تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فن کی تکمیل اس وقت تک ہو چکی تھی۔ اس وقت سے لے کر سولہویں صدی تک اس علم کے خیالات کی اشاعت مغرب میں ہوتی رہی اور جرمنی اس کا مرکز قرار پایا جہاں اس فن کے راز انقلاب فرانس تک ظاہر ہوتے رہے جو فلسفی اس علم کے اصولوں اور قواعد سے واقف ہوتے تھے وہ شرطیہ اس میں کامیاب ہوتے تھے اور اس کو بچوں کا کھیل سمجھتے تھے لیکن باقی مهوس باوجود سرتوڑ کوششوں کے خراب اور ناکامیاب رہتے۔ اگرچہ شروع ہی سے دو گروہ رہے۔ ایک مقر یعنی ماننے والا اور دوسرا منکر یعنی نہ ماننے والا لیکن نہ ماننے والوں میں سے فیلگوٹر اور منگن کا مشہور عالم ڈاکٹر کوالیٹی فرگرٹیز نے اس فن کو آخر کار تسلیم کر لیا۔ متقدمین سے بیرن سوڈی اور پیرا کس بڑے ماہر گزرے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ یورپ میں یہ علم تین ذرائع سے پہنچا۔ اول عربوں سے کہ زمانہ تارک میں علوم قدیمہ کے مالک یہی تھے۔ دوم علمائے یہود سے جن کو کلدانیہ و باتل کا مشہور علم ظلم معلوم تھا۔ سوم مصر کے حکیموں ہے۔
پرانے زمانے کے قلمی رسالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جدید علم طبعی جو مادی اشیا کی ساخت کی علم تحقیقات کرتا ہے وہ قدیم علم کیمیاری کے سلسلہ میں ہے۔ لفظ کیمیا کا سب سے قدیم استعمال ایک منجم جولیس فرمیکس میٹرنس کی تصنیفات میں ملتا ہے جو قسطنطین قیصر روم کے زمانے میں گذرا ہے۔ یہ لکھتا ہے کہ جو شخص قمرو زحل کے وقت پیدا ہو وہ علم کیمیا کا بڑا ماہر ہوگا۔ پیرس کے شاہی کتب خانہ میں کیمیا کے متعلق ایک نہایت پرانی کتاب موجود ہے جس کا نام سونا ہے اور جو ۴۰۰ء صدی کی تالیف ہے جس میں چاندی بنانے کا ذکر ہے۔ زمانہ متوسط کے مصنفین کیمیا کو فن ہر مٹی کے لقب سے موسوم کرتے ہیں۔ ہرمٹ انگریزی میں جوگی کو کہتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک یہ علم جو گیوں کے سینہ کا علم ہے۔
چنانچہ اس کی ابتداء وہ مصر کے ہر میز راس میگش سے قرار دیتے ہیں جو نصف دیوتا اور صاحب الهام مانا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نے کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام زمرد کی سختی ہے۔ اس میں اس نے سارا کیمیا بھر دیا ہے عیسائیوں کے ابتدائی زمانہ میں اسکندریہ میں ہر قسم کے علوم کی خوب ترقی ہوئی۔ کیونکہ سلطنت کی طرف سے ہر ایک عالم کی سرپرستی کی جاتی تھی لیکن رومیوں کے غلبہ پر بہت بڑا انقلاب ہو گیا اور علم کیمیا کا نام و نشان مٹانے کی کوشش ہوئی کیونکہ شہنشاہ روم کی طرف سے حکم ہو گیا کہ علم کیمیا بالکل نابود کر دیا جائے اس کی دو وجوہ تھیں ایک تو حسد اور دوسرا یہ خوف کہ مصری لوگ پھر غلبہ پاکر خود مختار ہو جائیں گے۔ ہم کو تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ شہنشاہ کلیشین نے حکم جاری کر دیا تھا کہ مصر کے کل قدیمی علوم و فنون کی کتابیں جمع کر کے برباد کردی جائیں۔ اس زمانے سے علوم و فنون نے عربوں میں جاکر پناہ لی۔ جہاں کے حکماء نے صدیوں تک اس کی قدر کی اور وہاں سے چین میں اور پھر جرمنی میں پہنچا۔ جہاں علم کیمیا کو مذہبی گروہ نے اختیار کر لیا۔ بخلاف زمانہ سابق کے کہ جب یہ گروہ حکماء میں رہا کرتا تھا۔ لنگٹ ڈو فرزهای جس نے اس علم کی نسبت گہری تحقیقات کی ہے وہ لکھتا ہے کہ من مسیحی سے قبل اسے ۱۰ مشہور استادوں کا پتہ چلا ہے۔ برتھ لوٹ نے ان قدیم نسخوں سے ایک مفید انتخاب پیرس میں چھپوایا تھا۔ لنگلٹ نے حضرت مسیح کے بعد کے ایک ہزار برس میں ۲۱ مصنفین کیمیا دریافت کئے ہیں حتی کہ سترھویں صدی میں ۶۷ کا پتہ چلا تھا۔
انگلستان میں ۱۴۰۴ء میں ایک قانون بنایا گیا تھا جس کی رو سے دھاتوں کی تبدیل صورت جرم سنگین قرار دی گئی تھی۔ ۱۷۸۹ء میں اسے منسوخ کر دیا گیا۔ یورپ کے کیمیاگر خاص کر اعلیٰ درجہ کے مذہبی پیشوا ہوا کرتے تھے۔ ذیل کی فہرست چند مشہور انگریزی کیمیا گروں کی ہے۔
غبر عرب کا ایک حکیم تھا ۷۳۰ء میں۔
رہیزی عرب کا ایک طبیب تھا ۹۴۰ء میں۔
انعارا عرب کا ایک عطار تھا ۹۵۴ء میں۔
پوپ جان بائیسواں پوپ روم ۱۳۱۶ء میں۔
جان ڈی ایک بڑا پادری تھا ۱۶۱۸ء میں۔
کالڈ مصر کا ایک بادشاہ تھا اااء میں۔
ایلیس اشمول محقق قدیمیات ۱۹۴۸ء میں۔
ٹامس ایکو نیس عالم دینیات ۱۲۶۰ء میں۔
اڈور ڈکیلی ایک مذہبی خادم ۱۵۹۵ء میں۔
ڑائی ہمیں اپ نیم خانقاہ کا سردار ۱۵۱۶ء میں۔
رمنڈی علی امین کا ایک مجتہد تھا ۱۰۱۴ء میں۔
بیزل ولینائن ایک خانقاہ کا سردار تھا ۱۴۹۰ء میں۔
رابرٹ فلڈ عام دینیات و علوم مخفیہ کا ماہر ۱۶۳۸ء میں۔
رابرٹ بوائل عطار تھا ۱۶۱۸ء میں۔
البرٹ گیس ری شبرن کالیشپ تھا ۱۳۸۹ء میں۔
پیدا کلس مدرس و طبیب تھا ۱۵۱۴ء میں۔
ر ڈولف گلار بر ایک طبیب تھا ۱۶۵۰ء میں۔
جین کریسٹونی کنسٹ جرمنی کا ایک مدرس
۱۳۱۷ء میں۔
آج کل بھی لندن فرانس اور جرمنی میں اس علم کی بڑی بڑی کمیٹیاں قائم ہیں