میوات کی برطانوی تسخیر، نومبر 1857 – دسمبر 1858

0 comment 6 views

میوات کی برطانوی تسخیر، نومبر 1857 – دسمبر 1858

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

حصہ 1: تعارف – میوات میں جاری بغاوت کا پس منظر

Advertisements

ستمبر 1857 میں دہلی پر برطانوی افواج کا دوبارہ قبضہ جنگِ آزادی کا ایک اہم موڑ تھا، لیکن یہ ہرگز اس جدوجہد کا خاتمہ نہیں تھا۔ دہلی، جو بغاوت کا علامتی مرکز تھی، اس کے سقوط کے بعد بھی اردگرد کے علاقوں میں مزاحمت کی آگ بھڑکتی رہی 1۔ ان علاقوں میں ضلع گڑگاؤں، اور خاص طور پر میوات کا خطہ، ایک ایسی عوامی بغاوت کا مرکز بن گیا جس کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ یہ بغاوت دہلی میں نئے سرے سے قائم ہونے والے برطانوی اقتدار کے لیے ایک براہ راست اور مستقل خطرہ تھی 3۔

میواتی مزاحمت کوئی বিক্ষিপ্ত یا الگ تھلگ واقعہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک وسیع عوامی جنگ کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ میواتیوں کو بیک وقت تین محاذوں پر لڑنا پڑ رہا تھا: اول، برطانوی فوج کے خلاف؛ دوم، مقامی برطانوی وفاداروں، جیسے نوح کے خانزادے اور ہاتھن کے راجپوتوں کے خلاف؛ اور سوم، اتحادی شاہی ریاستوں کی افواج کے خلاف 4۔ یہ صورتحال اس بغاوت کی جامع اور عوامی نوعیت کو ظاہر کرتی ہے، جس کی قیادت صدرالدین میو آف پنہگواں جیسے کسان رہنما کر رہے تھے 6۔ انگریز خود بھی اس حقیقت سے واقف تھے۔ بریگیڈیئر جنرل شاورز نے اپنے تجربات کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا: “جس وقت سے میں نے ضلع گڑگاؤں میں قدم رکھا، میں دشمن کے ملک

میں تھا” 3۔

اس تناظر میں، انگریزوں کے لیے میوات کی “تسخیر” محض ایک فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ ایک تزویراتی ضرورت تھی۔ دہلی کے اتنے قریب ایک غیر مفتوح میوات برطانوی سامراجی وقار کے لیے ایک مستقل فوجی خطرہ اور علامتی چیلنج تھا۔ لہٰذا، برطانوی مقصد صرف باغیوں کو شکست دینا نہیں تھا، بلکہ انہیں “سزا” دینا اور عبرت کا نشان بنانا تھا تاکہ دارالحکومت کا طویل مدتی تحفظ یقینی بنایا جا سکے 1۔ یہ مہم بنیادی طور پر دہشت اور انتقام کے اصولوں پر ترتیب دی گئی تھی۔ دہلی کے سقوط کے بعد شروع ہونے والی یہ کارروائیاں جنگِ آزادی کے ایک ایسے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہیں جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ روایتی جنگ کے بجائے ایک آبادی کے خلاف انسدادی کارروائی تھی، جس میں اجتماعی سزا کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ انگریز صرف مسلح جنگجوؤں کو نہیں، بلکہ پوری میواتی آبادی کو اپنا دشمن

سمجھتے تھے۔

جدول 1: میوات میں کلیدی برطانوی فوجی آپریشنز کا خلاصہ (اکتوبر – نومبر 1857)

تاریخ (Date)مقام (Location)اہم برطانوی افسران (Key British Officers)قابل ذکر برطانوی یونٹس (Notable British Units)خلاصہ کارروائی اور نتیجہ (Summary of Action & Outcome)
31 اکتوبر 1857رائسینا، علی پوربریگیڈیئر جنرل شاورز، وگرام کلفورڈموویبل کالمشدید لڑائی؛ برطانوی افسر وگرام کلفورڈ ہلاک۔ شاورز نے انتقاماً رائسینا اور آس پاس کے دیہات جلا دیے۔
8 نومبر 1857گھاسیڑہ، برکالیفٹیننٹ ایچ گرانٹ، لیفٹیننٹ رونگٹننیا فوجی کالمگھاسیڑہ پر دو طرفہ برطانوی حملہ۔ ابتدائی مزاحمت کے بعد گاؤں پر بمباری کی گئی اور قبضہ کر لیا گیا۔ اندازاً 150 میواتی شہید ہوئے۔
19 نومبر 1857روپراکا اور آس پاس کے دیہاتکیپٹن ڈرمنڈہڈسن ہارس، کماؤں بٹالین، پہلی پنجاب انفنٹریروپراکا جاتے ہوئے راستے میں دیہات کو منظم طریقے سے جلایا گیا۔ تقریباً 3500 میواتیوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ؛ برطانوی توپ خانے کی برتری نے فتح دلائی۔ اندازاً 400 میواتی شہید ہوئے۔
29-30 نومبر 1857پنہگواں، ماہونکیپٹن ریمزے، مسٹر میکفرسنگورکھا رجمنٹبرطانوی فوج نے باغیوں کا ماہون تک تعاقب کیا۔ گاؤں پر بمباری کرکے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا، جس میں درجنوں میواتی مارے گئے۔

حصہ 2: بریگیڈیئر جنرل شاورز کا تعزیری کالم (اکتوبر – نومبر 1857)

مقصد اور تشکیل

دہلی پر دوبارہ قبضے کے فوراً بعد، اکتوبر 1857 کے اوائل میں، برطانوی حکام نے ایک “موویبل کالم” تشکیل دیا جس کی کمان بریگیڈیئر جنرل شاورز کو سونپی گئی۔ اس کالم کا بنیادی مقصد گڑگاؤں، ریواڑی اور خاص طور پر میوات کی باغی آبادیوں پر برطانوی اختیار بحال کرنا اور انہیں سزا دینا تھا 1۔ یہ کالم محض ایک فوجی دستہ نہیں تھا، بلکہ سامراجی طاقت کے انتقام کا ایک متحرک اوزار تھا، جسے بغاوت کی جڑیں کاٹنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

رائسینا کی جنگ (31 اکتوبر 1857)

شاورز کے کالم کی سب سے اہم اور فیصلہ کن جھڑپ رائسینا کے گاؤں میں ہوئی۔ 31 اکتوبر 1857 کو فیروز شاہ میواتی کی قیادت میں میواتی جنگجوؤں نے برطانوی افواج کا سامنا کیا اور ایک شدید لڑائی ہوئی جو چار گھنٹے تک جاری رہی 6۔ اس جنگ کا سب سے اہم واقعہ وگرام کلفورڈ، جو ایک برطانوی سیاسی افسر تھا، کی ہلاکت تھی۔ کلفورڈ جب ایک پہاڑی پر موجود باغیوں کی پوزیشن پر حملے کی قیادت کر رہا تھا تو ایک گولی اس کے سر میں لگی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا 6۔ یہ

واقعہ اس مہم کا نقطۂ عروج ثابت ہوا۔

انتقام کی مہم: ‘آتش و شمشیر’

ایک برطانوی سویلین اہلکار کی ہلاکت نے انگریزوں کے غصے کو بھڑکا دیا اور اسے پوری میواتی آبادی کے خلاف غیر متناسب اور اندھا دھند انتقامی کارروائی کا جواز بنا لیا گیا۔ اس واقعہ سے نوآبادیاتی سوچ کا وہ حساب کتاب عیاں ہوتا ہے جہاں ایک انگریز کی جان کی قیمت سینکڑوں ہندوستانیوں کی جانوں اور ان کے ذریعہ معاش سے کہیں زیادہ تھی۔ کلفورڈ کی موت نے اجتماعی سزا کی پالیسی کے لیے اخلاقی جواز فراہم کیا۔ شاورز نے اس نقصان کا بدلہ لینے کے لیے “دور دور تک آگ اور تلوار کا استعمال کیا” 3۔ یہ محض ایک محاورہ نہیں تھا، بلکہ اس کی افواج نے منظم طریقے سے “رائسینا اور اس سے ملحقہ دیہاتوں کو تباہ کیا اور جلا دیا” 6۔ اس مہم کی تعزیری نوعیت کو مزید پختہ کرنے کے لیے میواتیوں کی زرعی زمینیں بڑے پیمانے پر ضبط کر لی گئیں اور انہیں وفادار برادریوں میں تقسیم کر دیا گیا، جس سے مقامی طاقت کا توازن مستقل طور پر بدل دیا گیا 6۔ یہ عمل محض ایک فوجی حکمت عملی نہیں تھا، بلکہ ایک آبادی کو دہشت زدہ کرکے سر تسلیم خم کرانے کی ایک سوچی سمجھی انتقامی کارروائی تھی۔

حصہ 3: کیپٹن ڈرمنڈ اور میواتیوں کی منظم سرکوبی (نومبر 1857)

موبائل کالم کی تشکیل

بریگیڈیئر جنرل شاورز کی ابتدائی تعزیری مہم کے بعد، انگریزوں نے میواتیوں کی مکمل “سرکوبی” کے لیے ایک زیادہ منظم اور متحرک کالم تشکیل دیا، جس کی کمان کیپٹن ڈرمنڈ کو سونپی گئی 6۔ یہ فورس رفتار اور دہشت پھیلانے کے لیے بنائی گئی تھی، جس میں “ہڈسن ہارس” اور “توہانہ ہارس” جیسے اعلیٰ گھڑسوار دستے، اور کماؤں بٹالین اور پہلی پنجاب انفنٹری جیسی پیادہ فوج شامل تھی 6۔ شاورز کی کارروائی اگرچہ سفاکانہ تھی، لیکن اسے کلفورڈ کی موت پر ایک ردعمل کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کے برعکس، ڈرمنڈ کا مشن زیادہ منظم اور بے رحم تھا۔ اس کی حکمت عملی محض انتقام نہیں، بلکہ مزاحمت کی مکمل بیخ کنی تھی۔

روپراکا کی طرف دہشت کا مارچ

کیپٹن ڈرمنڈ کی حکمت عملی پیشگی دہشت گردی پر مبنی تھی۔ میواتی جنگجوؤں کی مرکزی قوت سے ٹکرانے سے پہلے، اس کے کالم نے میوات کے قلب سے گزرتے ہوئے منظم طریقے سے دیہاتوں کو جلاتے ہوئے ایک راستہ بنایا۔ تباہ شدہ دیہات کی فہرست طویل ہے، جن میں پچنکا، گوہپور، مالپوری، چلی، اوٹاوڑ، کوٹ، اور مغل پورہ شامل ہیں 6۔ یہ کارروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ انگریز مزاحمت کی عوامی حمایت کو ختم کرنے کے لیے ایک سوچی سمجھی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ یہ ایک طرح کی نفسیاتی جنگ تھی جس کا مقصد آبادی کو demoralize کرنا اور جنگجوؤں کی رسد اور پناہ گاہوں کو تباہ کرنا تھا، جو کہ انسدادی جنگ کی ایک سرد اور حسابی حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔

روپراکا کی جنگ (19 نومبر 1857)

یہ اس مہم کی فیصلہ کن جنگ تھی۔ 19 نومبر 1857 کو روپراکا کے مقام پر کیپٹن ڈرمنڈ کے کالم کا سامنا صدرالدین کی قیادت میں تقریباً 3500 میواتی جنگجوؤں کے ایک بڑے اجتماع سے ہوا 6۔ میواتیوں نے بہادری سے مقابلہ کیا، لیکن جنگ کا نتیجہ “برطانوی افواج کے اعلیٰ توپ خانے” نے طے کیا 6۔ توپوں کی گولہ باری نے میواتیوں کی صفوں کو توڑ دیا، جس کے بعد گلیوں میں لڑائی شروع ہوئی، لیکن آخرکار میواتی مزاحمت دم توڑ گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس ایک جھڑپ میں 400 کے قریب میواتی شہید ہوئے 6۔ یہ جنگ ٹیکنالوجی کی برتری کے ذریعے جیتی گئی، لیکن اس کی بنیاد اس دہشت پر رکھی گئی تھی جو عام شہریوں کے خلاف روا رکھی گئی تھی۔

حصہ 4: آخری مزاحمت کا خاتمہ اور برطانوی تسلط کا استحکام (نومبر 1857 – 1858)

گھاسیڑہ اور ماہون کی جھڑپیں

روپراکا میں فیصلہ کن شکست کے باوجود، مزاحمت کی چنگاریاں اب بھی باقی تھیں۔ انگریزوں نے ان آخری شعلوں کو بجھانے کے لیے چھوٹے چھوٹے فوجی دستے روانہ کیے۔ ان کارروائیوں کا مقصد محض قبضہ یا منتشر کرنا نہیں تھا، بلکہ باقی ماندہ مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔

  • گھاسیڑہ (8 نومبر 1857): لیفٹیننٹ ایچ گرانٹ کی قیادت میں ایک کالم نے گھاسیڑہ گاؤں پر حملہ کیا۔ علی حسن خان میواتی کی قیادت میں تقریباً 500 جنگجوؤں کی ابتدائی مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد، انگریزوں نے توپ خانہ استعمال کیا، گاؤں پر بمباری کی، اور بالآخر محافظوں کو شکست دے دی۔ اس کارروائی میں تقریباً 150 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد گاؤں کو لوٹ کر جلا دیا گیا 6۔
  • ماہون (29-30 نومبر 1857): کیپٹن ریمزے کی قیادت میں ایک فورس نے صدرالدین کے باقی ماندہ ساتھیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ماہون گاؤں کا محاصرہ کیا۔ اگرچہ میواتیوں کی تعداد صرف 70 تھی، لیکن انہوں نے سخت مزاحمت کی۔ برطانوی ردعمل انتہائی شدید تھا: تین گورکھا رجمنٹوں نے گاؤں پر تین اطراف سے بمباری کی اور “گاؤں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا”۔ اس کارروائی میں 28 باغی گاؤں کے اندر اور مزید 42 ملحقہ علاقوں میں مارے گئے 6۔

ان جھڑپوں میں معمولی خطرات کے خلاف بے پناہ طاقت کا استعمال، بشمول توپ خانے سے بمباری، یہ ظاہر کرتا ہے کہ برطانوی حکمت عملی اب محض سرکوبی سے بدل کر مکمل تباہی کے ذریعے مثال قائم کرنے کی بن چکی تھی، تاکہ مستقبل میں مزاحمت کا کوئی تصور بھی نہ کر سکے۔

ظلم و ستم کا دور

فوجی فتوحات کے بعد برطانوی تسلط کو مستحکم کرنے کے لیے ایک وحشیانہ دور کا آغاز ہوا جو 1858 تک جاری رہا۔ اس میں بڑے پیمانے پر پھانسیاں شامل تھیں (نوح میں ایک وفادار خانزادے کی نشاندہی پر 52 میواتیوں کو پھانسی دی گئی)، بھاری جرمانے عائد کیے گئے، اور بغاوت کی باقی ماندہ روح کو کچلنے کے لیے دہشت کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا 6۔

حصہ 5: فاتحین کی داستان – معاصر برطانوی کتب اور سرکاری ریکارڈز

میوات میں ہونے والے ان واقعات کو سمجھنے کے لیے ان برطانوی ذرائع کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے جنہوں نے اس تاریخ کو قلمبند کیا۔ یہ بیانیے فاتح کے نقطہ نظر سے لکھے گئے ہیں اور ان کا مقصد برطانوی اقدامات کو جائز ٹھہرانا تھا۔

گھڑسوار کا نقطہ نظر: W.S.R. Hodson کی ‘Twelve Years of a Soldier’s Life in India’

میجر ولیم ہڈسن کے خطوط پر مبنی یہ کتاب ایک اہم بنیادی ماخذ ہے 12۔ چونکہ اس کا مشہور گھڑسوار دستہ “ہڈسن ہارس” کیپٹن ڈرمنڈ کے سفاک کالم کا ایک کلیدی حصہ تھا، اس لیے اس کے خطوط اس مہم کا ایک چشم دید، اگرچہ انتہائی متعصبانہ، احوال پیش کرتے ہیں 6۔ ہڈسن کی تحریروں میں برطانوی بہادری اور فوجی قابلیت پر زور دیا جاتا ہے، جبکہ شہریوں کے خلاف شدید تشدد کو یا تو کم کرکے پیش کیا جاتا ہے یا اسے جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی تحریریں ذاتی بہادری کے قصوں پر مرکوز ہیں، جبکہ سرکاری رپورٹس بیوروکریٹک زبان استعمال کرکے بربریت کو چھپاتی ہیں۔

سرکاری کھاتہ: نوآبادیاتی گزٹیئرز اور غدر رپورٹس

  • ‘Gazetteer of the Gurgaon District (1883-84)’: واقعات کے کئی دہائیوں بعد شائع ہونے والا یہ سرکاری دستاویز تاریخ کا ایک صاف ستھرا اور انتظامی ورژن پیش کرتا ہے 14۔ اس میں استعمال ہونے والی زبان کا تجزیہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ دیہاتوں کو جلانے اور اجتماعی قتل عام جیسے واقعات کو نرم الفاظ میں بیان کیا گیا ہے تاکہ ایک مستحکم اور بہتر طور پر منظم ضلع کی تصویر پیش کی جا سکے، جبکہ اس استحکام کی پرتشدد بنیادوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
  • ‘Punjab Government Records, Mutiny Reports, Vol. VIII’: 1858 میں مرتب کی گئی یہ رپورٹس سب سے فوری سرکاری ریکارڈ ہیں 16۔ ان میں کمشنروں اور ضلعی افسران کی طرف سے بھیجی گئی رپورٹیں شامل ہیں۔ ان دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میوات کے واقعات کو کمانڈ کے سلسلے میں کیسے رپورٹ کیا گیا اور آر. منٹگمری اور جان لارنس کی مرتب کردہ مجموعی “پنجاب میوٹنی رپورٹ” میں انہیں کس طرح پیش کیا گیا۔ یہ رپورٹیں اندرونی سرکاری استعمال کے لیے تھیں اور ان میں نسبتاً زیادہ صاف گوئی ہو سکتی ہے، لیکن ان کا مقصد بھی کیے گئے اقدامات کو جائز ٹھہرانا ہی تھا۔

خاموش آوازیں: شاورز اور ڈرمنڈ کی یادداشتوں کی عدم موجودگی

ایک اہم تاریخی حقیقت یہ ہے کہ میوات مہم کے دو مرکزی کمانڈروں، بریگیڈیئر جنرل شاورز اور کیپٹن ڈرمنڈ، کی طرف سے کوئی ذاتی یادداشتیں یا کتابیں موجود نہیں ہیں 18۔ یہ خاموشی معنی خیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کی کارروائیاں اتنی سفاکانہ تھیں کہ انہیں عوامی سامعین کے لیے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا، یا شاید وہ لکھنے والے نہیں تھے۔ اس خلا کی وجہ سے مورخین کو ان کی مہمات کو دوسروں کی رپورٹوں اور ان کی تباہی کے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر دوبارہ تعمیر کرنا پڑتا ہے۔ یہ خاموشی خود ایک تاریخی ثبوت ہے، جو شاید اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کچھ کارروائیاں اتنی شدید تھیں کہ انہیں فتح کے دور میں بھی فخریہ طور پر یاد نہیں کیا جا سکتا تھا۔

وسیع تر تناظر: Charles John Griffiths کی ‘A Narrative of the Siege of Delhi’

اگرچہ یہ کتاب براہ راست میوات سے متعلق نہیں ہے، لیکن یہ اس وقت دہلی کے ارد گرد کام کرنے والی برطانوی افواج کے فوجی اور نفسیاتی پس منظر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے 20۔ اس سے اس ذہنیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جس کے تحت میوات میں کارروائیاں کی گئیں۔

ان مختلف ذرائع کا مجموعی تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ میوات مہم کا برطانوی بیانیہ جان بوجھ کر بکھرا ہوا ہے، جو اجتماعی طور پر دہشت کی منظم نوعیت کو چھپانے کا کام کرتا ہے۔

حصہ 6: نتیجہ – مزاحمت اور انتقام کی میراث

یہ رپورٹ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ نومبر 1857 سے دسمبر 1858 کے دوران میوات میں برطانوی فوجی مہم محض ایک فوجی فتح نہیں تھی، بلکہ ایک مضبوط عوامی بغاوت کے خلاف اجتماعی سزا کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ اس مہم کو کئی مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: بریگیڈیئر جنرل شاورز کی ابتدائی تعزیری کارروائیوں سے لے کر، جو وگرام کلفورڈ کی موت کے انتقام کے طور پر شروع ہوئیں، کیپٹن ڈرمنڈ کی منظم دہشت گردی تک، جس میں دیہاتوں کو جلا کر مزاحمت کی عوامی حمایت کو ختم کیا گیا، اور آخر کار باقی ماندہ مزاحمت کی مکمل تباہی تک۔

برطانوی بنیادی ذرائع—ہڈسن کے خطوط، سرکاری گزٹیئرز، اور غدر کی رپورٹس—کا تنقیدی جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ یہ ذرائع اکثر اس سفاکانہ حقیقت کو چھپاتے ہیں جو ان کے بیانیوں کے پیچھے پوشیدہ ہے۔ ان تحریروں میں بہادری، فرض شناسی اور سامراجی استحکام جیسے موضوعات کو اجاگر کیا جاتا ہے، جبکہ اجتماعی قتل، دیہاتوں کی تباہی اور دہشت کی منظم مہم کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اسے “ضروری” اقدامات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

میوات کی 1857 کی تاریخ دوہری میراث کی حامل ہے: ایک طرف، یہ برطانوی حکومت کے خلاف عوامی مزاحمت کی گہرائی اور شدت کی ایک زبردست مثال ہے؛ دوسری طرف، یہ اس غیر معمولی تشدد کی عکاسی کرتی ہے جسے برطانوی سامراج اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرنے پر تیار تھا۔ میوات کے لوگوں کی قربانیاں اور انگریزوں کے انتقامی اقدامات، دونوں ہی اس خطے کی تاریخ کا ایک انمٹ حصہ ہیں۔

Works cited

  1. Issues and Analysis on Haryana under British Rule for State General Knowledge (GK) Preparation – Abhipedia, accessed on October 12, 2025, https://abhipedia.abhimanu.com/Article/State/NDg3MAEEQQVVEEQQVV/Haryana-under-British-Rule-Haryana
  2. Indian Rebellion of 1857 – Wikipedia, accessed on October 12, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Indian_Rebellion_of_1857
  3. GURGAON, Haryana – India info, accessed on October 12, 2025, http://indialite.blogspot.com/2016/09/gurgaon-haryana.html
  4. Participation of Mewati People in the Revolt of 1857 – Ignited Minds Journals, accessed on October 12, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/3850/7494/18734
  5. A Study of the Revolt of 1857 and its Onward in Mewat – Ignited Minds Journals, accessed on October 12, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/4232/8260/20645
  6. Freedom Struggle in Mewat – ER Publications, accessed on October 12, 2025, https://www.erpublications.com/uploaded_files/download/dr-aijaz-ahmad-sunil-kumar_xfUSq.pdf
  7. 1857 uprising sparked at Ambala, engulfed entire state – The Tribune, accessed on October 12, 2025, https://www.tribuneindia.com/news/archive/haryana-tribune/1857-uprising-sparked-at-ambala-engulfed-entire-state-587901/
  8. Revolt of 1857 in Haryana, accessed on October 12, 2025, https://haryana.pscnotes.com/haryana-history/revolt-of-1857-in-haryana/
  9. Full text of “Revolt Of 1857 In Haryana” – Internet Archive, accessed on October 12, 2025, https://archive.org/stream/in.ernet.dli.2015.56643/2015.56643.Revolt-Of-1857-In-Haryana_djvu.txt
  10. The Meos of Mewat : A Historical Perspective – ijrpr, accessed on October 12, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE6/IJRPR14628.pdf
  11. Over 10,000 Mewatis were martyred in the 1857 mutiny – Awaz The Voice, accessed on October 12, 2025, https://www.awazthevoice.in/india-news/over-mewatis-were-martyred-in-the-mutiny-89.html
  12. Twelve Years of a Soldier’s Life in India by W. S. R. Hodson | Project Gutenberg, accessed on October 12, 2025, http://www.gutenberg.org/ebooks/39448
  13. Twelve years of a soldier’s life in India : being extracts from the letters of the late Major W.S.R. Hodson – Wellcome Collection, accessed on October 12, 2025, https://wellcomecollection.org/works/hc898mfd
  14. Gazetteer of the Gurgaon District: 1883/84 (1884) – Google Books, accessed on October 12, 2025, https://books.google.com/books/about/Gazetteer_of_the_Gurgaon_District.html?id=CnE-nUzCT3QC
  15. Gazetteer of the Gurgaon District: 1883 – Google Livres, accessed on October 12, 2025, https://books.google.bj/books?id=YacIAAAAQAAJ
  16. PUNJAB’S ROLE IN THE WAR OF INDEPENDENCE 1857-58: AN ANALYSIS, accessed on October 12, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/HistoryPStudies/PDF-FILES/Turrab%20ul%20Hassan_v28No1jun2015.pdf
  17. Government Records: Mutiny records. Correspondence and reports – Punjab (India), accessed on October 12, 2025, https://books.google.co.in/books?id=EiQeAQAAIAAJ&source=gbs_book_other_versions_r&cad=4
  18. Memiors, My Service in WWI 1917 – The George C. Marshall Foundation, accessed on October 12, 2025, https://www.marshallfoundation.org/wp-content/uploads/2014/04/GCM_Memoirs_WWI.pdf
  19. Origins of the Indian Mutiny [15min] – History News Network, accessed on October 12, 2025, https://www.historynewsnetwork.org/article/origins-of-the-indian-mutiny-15min
  20. A Narrative of the Siege of Delhi by Charles John Griffiths | Project Gutenberg, accessed on October 12, 2025, http://www.gutenberg.org/ebooks/10856
  21. A Narrative Of The Siege Of Delhi – Charles John Griffiths – Google Books, accessed on October 12, 2025, https://books.google.com/books/about/A_Narrative_Of_The_Siege_Of_Delhi.html?id=gvF50QEACAAJ

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme