
شمالی ہند کی میو برادری میں بھائی بہن کے رشتے کی تشکیل نو تعارف
میٹاسبلنگ شپ’ کی مرکزیت
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
شمالی ہند کی میو برادری میں بھائی بہن کے رشتے کی تشکیل نو تعارف
میو قوم اور میوات کا سماجی و ثقافتی منظرنامہ شمالی ہندوستان کے سماجی و ثقافتی منظرنامے میں میو برادری ایک منفرد اور پیچیدہ شناخت کی حامل ہے۔ ان کی سماجی تنظیم، تاریخی ورثہ، اور مذہبی عقائد کا امتزاج انہیں ماہرینِ بشریات اور سماجیات کے لیے ایک دلچسپ مطالعے کا موضوع بناتا ہے۔ اسی سماجی تانے بانے کے مرکز میں بھائی بہن کا وہ رشتہ ہے جسے فرانسیسی ماہرِ بشریات ریمنڈ جاموس نے ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا نام دیا ہے، ایک ایسا تصور جو میو برادری کی رشتہ داری کے نظام کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تصور کی گہرائی میں جانے سے پہلے، میو برادری اور ان کے وطن میوات کے جغرافیائی، تاریخی اور ثقافتی پس منظر کو سمجھنا ناگزیر ہے۔
عوام اور سرزمین
ایک بشریاتی تعارف میو برادری، جو خود کو مسلمان راجپوت کے طور پر شناخت کرتی ہے، بنیادی طور پر میوات کے علاقے میں آباد ہے ۔ یہ خطہ جغرافیائی طور پر دہلی، آگرہ اور جے پور کے درمیان ایک مثلث بناتا ہے، جس میں موجودہ ہریانہ کا ضلع نوح، اور راجستھان کے الور اور بھرت پور اضلاع کے کچھ حصے شامل ہیں ۔ تاریخی طور پر، میو ایک جنگجو ذات کے طور پر جانے جاتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے زراعت کو اپنے بنیادی پیشے کے طور پر اپنا لیا ۔ میوات کا خطہ، اپنی بنجر اور کھاری مٹی اور اراولی پہاڑیوں کے سلسلے کے ساتھ، ایک مشکل جغرافیائی ماحول پیش کرتا ہے، جس نے میو عوام کے کردار میں محنت، جفاکشی اور لچک پیدا کی ہے ۔
1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد ایک قابلِ ذکر تعداد میں میو پاکستان ہجرت کر گئے، لیکن ہندوستان میں رہنے والی آبادی نے اپنی الگ ثقافتی شناخت کو مضبوطی سے برقرار رکھا ہے ۔ پاکستان میں مقیم میو برادری بڑی حد تک مقامی مسلم آبادی میں ضم ہو گئی ہے، جبکہ ہندوستان میں میواتی اپنی منفرد روایات پر قائم ہیں ۔ ان کی کل آبادی کا تخمینہ 1 سے 2 کروڑ کے

درمیان لگایا جاتا ہے، جو اس خطے میں ان کی سماجی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے ۔
ماہرِ بشریات ریمنڈ جاموس کا میو برادری کا مطالعہ اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ انہیں خود میو رشتہ داری کے نظام میں ایک بھائی (‘بھائی’) کے طور پر ضم کر لیا گیا تھا ۔ یہ حیثیت انہیں میو سماج کے اندرونی معاملات اور سماجی حرکیات کا براہِ راست مشاہدہ کرنے کا ایک نایاب موقع فراہم کرتی ہے، جس کے بغیر ‘میٹاسبلنگ شپ’ جیسے گہرے ساختی اصول کو سمجھنا شاید ممکن نہ ہوتا۔
ایک مخلوط شناخت
راجپوت ورثہ اور اسلامی عقیدہ میو شناخت کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا دہرا پن ہے: وہ بیک وقت اپنے راجپوت ورثے اور اسلامی عقیدے پر فخر کرتے ہیں ۔ ان کی روایات کے مطابق، وہ ہندو دیومالائی شخصیات جیسے رام اور کرشن کی نسل سے ہیں اور اپنی نسل کا سلسلہ سوریاونشی اور چندراونشی خاندانوں سے جوڑتے ہیں ۔ یہ دعویٰ ان کی سماجی حیثیت اور تاریخی جڑوں کو مضبوط کرتا ہے۔
گیارہویں صدی کے بعد صوفیائے کرام کے اثر و رسوخ کے تحت میو برادری نے بتدریج اسلام قبول کیا ۔ تاہم، یہ تبدیلی مذہب کسی اچانک انقلاب کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ ایک طویل عمل تھا جس کے دوران انہوں نے اپنی بہت سی پرانی ہندو روایات کو برقرار رکھا۔ اس کے نتیجے میں ایک منفرد مخلوط ثقافت نے جنم لیا، جہاں اسلامی عقائد اور ہندو رسم و رواج ایک دوسرے سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں ۔ اس کی واضح مثالیں ان کے تہواروں میں ملتی ہیں، جہاں وہ عید اور محرم کے ساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی بھی مناتے ہیں ۔ وہ اپنے ناموں میں ‘رام’ اور ‘سنگھ’ کے علاوہ دیگر ہندو ناموں کا استعمال بھی کرتے ہیں اور گاؤں کی دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا کی رسومات بھی ادا کرتے ہیں ۔
حالیہ دہائیوں میں، تبلیغی جماعت جیسی اسلامی اصلاحی تحریکوں نے میو برادری پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ تحریکیں انہیں ان “غیر اسلامی” اور مخلوط رسومات کو ترک کر کے “خالص” اسلام کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ اس سے میو سماج کے اندر ایک ثقافتی کشمکش پیدا ہوئی ہے، جہاں قدیم روایات اور جدید مذہبی تشریحات کے درمیان ایک خاموش

جدوجہد جاری ہے۔
سماجی تنظیم
‘پال’ اور ‘گوت’ کی بنیاد میو سماج کی ساخت کو سمجھنے کے لیے ان کے ‘پال’ اور ‘گوت’ کے نظام کو سمجھنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ نظام ان کے شادی بیاہ کے قوانین اور رشتہ داری کی بنیاد ہے۔ میو برادری تیرہ ‘پال’ (بڑی گوتیں یا نسب) اور باون ‘گوت’ یا ‘گوترا’ (ذیلی قبیلے) میں تقسیم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تقسیم تیرہویں صدی میں ایک میو حکمران، رانا کاکو بلوت میو، نے کی تھی ۔
یہ نظام مکمل طور پر پدری نسب پر مبنی ہے، یعنی نسل باپ سے بیٹے کی طرف چلتی ہے۔ اس کی سب سے اہم سماجی خصوصیت ‘گوترا’ سے باہر شادی (Exogamy) کا سخت اصول ہے۔ میو برادری میں اپنی گوت کے اندر شادی کرنا قطعاً ممنوع ہے ۔ یہ اصول انہیں شمالی ہندوستان کی دیگر مسلم برادریوں سے ممتاز کرتا ہے، جن میں سے اکثر اسلامی قانون کے تحت کزن میرج، خاص طور پر چچا زاد بہن بھائیوں کی شادی، کی اجازت دیتے ہیں یا اسے ترجیح دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس، میو شادی کے قوانین پڑوسی ہندو برادریوں جیسے جاٹوں، گجروں اور راجپوتوں سے گہری مماثلت رکھتے ہیں، جن کے ساتھ وہ کئی گوتوں کے نام بھی مشترک رکھتے ہیں ۔
یہ ساختی مماثلت محض ایک اتفاق نہیں ہے۔ میو برادری کا اپنی گوت سے باہر شادی کرنے کا اصول انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے نسب سے باہر اتحاد قائم کریں۔ اس سے ایک بنیادی ساختی سوال پیدا ہوتا ہے: ان بیرونی رشتوں کو نسل در نسل کیسے برقرار رکھا جائے اور انہیں سماجی قدر کیسے دی جائے تاکہ وہ کمزور یا مخاصمت پر مبنی نہ ہو جائیں؟ یہیں سے ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا تصور ایک کلیدی وضاحت کے طور پر ابھرتا ہے۔ یہ وہ ثقافتی منطق ہے جو ان کے اپنائے ہوئے ہندو طرز کے رشتہ داری کے ماڈل کو ان کے مسلم سماجی ڈھانچے کے اندر قابلِ عمل بناتی ہے۔ یہ ان کی مذہبی شناخت اور سماجی ساخت کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے۔ درحقیقت، کزن میرج کی ممانعت کوئی معمولی ثقافتی روایت نہیں، بلکہ یہ وہ بنیاد ہے جس پر میو رشتہ داری کی پوری عمارت، بشمول ‘میٹاسblنگ شپ’، قائم ہے۔
ریمنڈ جاموس کا نظریہ
‘میٹاسبلنگ شپ’ کا تصور سماجی بشریات کے میدان میں رشتہ داری کا مطالعہ عموماً دو بڑے نظریاتی محوروں کے گرد گھومتا رہا ہے: نسب (descent) اور اتحاد (alliance)۔ تاہم، فرانسیسی ماہرِ بشریات ریمنڈ جاموس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب Kinship and Rituals Among the Meo of Northern India میں ایک نیا اور انقلابی نظریہ پیش کیا، جو ان دونوں روایتی نقطہ ہائے نظر سے بالاتر ہے۔ انہوں نے میو برادری کے مطالعے کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ بھائی بہن کا رشتہ محض نسبی تعلق یا شادی کے تبادلے کا ایک ذریعہ نہیں، بلکہ یہ خود ایک بنیادی تنظیمی اصول کے طور پر کام
کرتا ہے، جسے انہوں نے ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا نام دیا ہے۔
بہن بھائی کے رشتے کی تلاش
کلاسیکی رشتہ داری کے نظریے پر ایک تنقید ریمنڈ جاموس اپنے تجزیے کا آغاز کلاسیکی بشریات پر ایک تنقیدی جائزے سے کرتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ سماجی بشریات نے تاریخی طور پر یا تو یک طرفہ نسبی گروہوں (unilineal descent groups) پر توجہ مرکوز کی ہے، جہاں سماجی شناخت اور وراثت باپ یا ماں کی نسل سے منتقل ہوتی ہے، یا پھر شادی کے اتحاد (marriage alliance) پر، جہاں دو خاندانوں کے درمیان رشتوں کے تبادلے کو سماجی تنظیم کی بنیاد سمجھا جاتا ہے ۔ ان دونوں نظریات میں بھائی بہن کے رشتے کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔ اسے یا تو محض ہم خون ہونے (consanguinity) کا ایک سادہ تعلق سمجھا گیا، یا پھر محرمات (incest prohibition) کے اصول کے تحت دیکھا گیا جو خاندان سے باہر شادی کے تبادلے کو ممکن بناتا ہے۔
جاموس کے مطابق، میو برادری کا معاملہ اس روایتی فہم کو چیلنج کرتا ہے۔ یہاں بھائی بہن کا رشتہ شادی کے بعد ختم یا کمزور نہیں ہوتا، بلکہ یہ خون کے رشتوں (consanguines) اور شادی سے بننے والے رشتوں (affines) کے درمیان کی تفریق کو عبور کر جاتا ہے اور سماجی زندگی کو شادی سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں میں منظم کرتا ہے ۔ یہ رشتہ محض ایک جذباتی تعلق نہیں، بلکہ ایک سماجی ڈھانچے کا مرکزی ستون ہے۔
‘میٹاسبلنگ شپ’ کی تعریف: ایک نیا تنظیمی اصول اس منفرد رشتے کی نوعیت کو بیان کرنے کے لیے، جاموس نے ‘میٹاسبلنگ شپ’ (metasiblingship) کی اصطلاح وضع کی۔ اس کی تکنیکی تعریف یہ ہے: “شادی کے ذریعے جڑے ہوئے بھائی بہن کے دو جوڑوں کا ایک سلسلہ” ۔
اس تعریف کو مزید کھول کر سمجھا جا سکتا ہے۔ جب ایک مرد ‘الف’ کی شادی ایک عورت ‘ب’ سے ہوتی ہے، تو یہ صرف ان دو افراد کا ملاپ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ مرد ‘الف’ اور اس کی بہن (یا بہنوں) کے ایک جوڑے کو عورت ‘ب’ اور اس کے بھائی (یا بھائیوں) کے دوسرے جوڑے سے جوڑ دیتا ہے۔ اس طرح ایک چار نکاتی ڈھانچہ (four-point structure) وجود میں آتا ہے جو نسل در نسل قائم رہتا ہے۔ یہ شادی دو افراد کے درمیان ایک تعلق سے بڑھ کر دو بھائی بہن کے گروہوں کے درمیان ایک پائیدار اتحاد بن جاتی ہے۔
یہ تصور شمالی ہندوستان کی رشتہ داری کے نظام پر ایک بالکل نئی روشنی ڈالتا ہے۔ یہ کلاڈ لیوی اسٹراس کے ‘اتحاد کے نظریے’ (alliance theory) اور برطانوی بشریات کے ‘نسب کے نظریے’ (descent theory) کے درمیان روایتی مخاصمت سے آگے نکل جاتا ہے ۔ یہ نہ صرف یہ بتاتا ہے کہ اتحاد کیسے بنتے ہیں (شادی کے ذریعے)، بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ یہ اتحاد نسلوں تک کیسے برقرار رہتے ہیں اور انہیں سماجی قدر کیسے عطا کی جاتی ہے (بھائی بہن کے رشتے کے ذریعے)۔
نظریاتی سلسلہ
لوئی ڈومونٹ کے ساتھ مکالمہ ریمنڈ جاموس کا کام ان کے استاد اور مشہور ماہرِ بشریات لوئی ڈومونٹ (Louis Dumont) کی فکری روایت کا تسلسل ہے ۔ ڈومونٹ نے خاص طور پر جنوبی ہندوستان کے حوالے سے “رشتہ داری بطور قدر” (affinity as a value) کا نظریہ پیش کیا تھا ۔ ان کا استدلال تھا کہ مغربی معاشروں کے برعکس، جہاں شادی سے بننے والے رشتے (affinity) عارضی ہوتے ہیں اور اگلی نسل میں خون کے رشتوں (consanguinity) میں ضم ہو جاتے ہیں (مثلاً، ایک شخص کا بہنوئی اس کے بچوں کے لیے ماموں بن جاتا ہے)، جنوبی ہندوستان میں شادی کے رشتے نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں اور انہیں خون کے رشتوں کے برابر سماجی قدر حاصل ہوتی ہے ۔
جاموس کا ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا تصور ڈومونٹ کی اسی سوچ کو شمالی ہندوستان کے تناظر میں مزید آگے بڑھاتا اور واضح کرتا ہے۔ یہ وہ مخصوص سماجی میکانزم فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے شادی کے رشتے کو میو سماج میں یہ پائیدار قدر حاصل ہوتی ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ وہ کون سا سماجی ڈھانچہ ہے جو اس قدر کو عملی شکل دیتا ہے اور اسے نسل در نسل دوبارہ پیدا کرتا ہے۔
‘میٹاسبلنگ شپ’ کا تصور محض رشتہ داری کے ڈھانچے کی ایک وضاحتی تصویر نہیں، بلکہ یہ بنیادی طور پر قدر (value) اور سماجی تولید (social reproduction) کا نظریہ ہے۔ یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ سماجی تعلقات کیسے بنائے جاتے ہیں، انہیں کیسے برقرار رکھا جاتا ہے، اور وقت کے ساتھ انہیں کیا معنی دیے جاتے ہیں۔ بہت سے پدری نسبی نظاموں میں، جب ایک عورت کی شادی ہوتی ہے، تو اس کے اپنے خاندان سے بنیادی تعلقات کمزور پڑ جاتے ہیں اور اس کا بھائی کے ساتھ رشتہ ایک بیوی کے طور پر اس کے نئے کردار کے تابع ہو جاتا ہے۔ اس طرح شادی کا رشتہ عارضی اور محدود ہو جاتا ہے ۔ میو نظام ‘میٹاسبلنگ شپ’ کے ذریعے اس علیحدگی کو مسترد کرتا ہے۔ شادی کے بعد بھی بھائی بہن کا رشتہ سماجی تنظیم کے ایک بنیادی محور کے طور پر برقرار رہتا ہے۔ اس تعلق کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل رسمی اور معاشی تقویت کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ رشتہ بہت زیادہ سماجی قدر کا حامل ہے۔ یہی قیمتی رشتہ وہ “زنجیر” بن جاتا ہے جو دو پدری نسبوں کو مستقل طور پر جوڑتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ شادی سے پیدا ہونے والا رشتہ اگلی نسل میں دشمنی یا لاتعلقی میں تحلیل نہ ہو، بلکہ دوبارہ پیدا ہو۔ یہ ایک وقتی لین دین (شادی) کو ایک دائمی تعلق میں بدل دیتا ہے۔
رسم و رواج میں ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا ظہور: زندگی کے مراحل کی تقریبات ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا تصور محض ایک نظریاتی خاکہ نہیں ہے، بلکہ یہ میو برادری کی روزمرہ زندگی اور خاص طور پر ان کی زندگی کے اہم مراحل کی رسومات میں ٹھوس شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ پیدائش، شادی اور دیگر تقریبات وہ مواقع ہیں جہاں اس اصول کو عملی طور پر نافذ کیا جاتا ہے اور اسے سماجی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان رسومات کا محور دو کلیدی کردار ہیں: باپ کی شادی شدہ بہن (پھوپھی) اور ماں کا بھائی (ماما)۔ ان دونوں کے تکمیلی کردار ‘میٹاسبلنگ شپ’ کے ڈھانچے کو زندہ رکھتے ہیں۔
رسمی محور
پھوپھی اور ماما کے تکمیلی کردار ریمنڈ جاموس کے تجزیے کے مطابق، میو سماج میں زندگی کے مراحل کی تمام اہم تقریبات کی قیادت باپ کی شادی شدہ بہن، یعنی پھوپھی، کرتی ہے ۔
پھوپھی، جو خود اس خاندان کی بیٹی ہے اور شادی کر کے دوسرے خاندان میں گئی ہے، دو خاندانوں کے درمیان کامیاب اتحاد کی زندہ علامت ہوتی ہے۔ تقریبات میں اس کی مرکزی حیثیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ خاندان سے باہر بنائے گئے یہ رشتے کس قدر اہم ہیں۔ وہ محض ایک مہمان نہیں، بلکہ ایک رسمی رہنما (ceremonial leader) ہوتی ہے جس کی موجودگی کے بغیر تقریب مکمل نہیں ہو سکتی۔ اس کا شوہر، پھوپھا، بھی ایک معزز مقام رکھتا ہے اور اس کی موجودگی بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔
دوسری طرف، ماں کا بھائی، یعنی ماما، “بنیادی تحائف” (principal prestations) کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ وہ بیوی دینے والے خاندان (wife-giving group) کی نمائندگی کرتا ہے۔ اپنی بہن کے بچوں کی زندگی کے ہر اہم موقع پر، خواہ وہ پیدائش ہو یا شادی، ماما کی طرف سے دیے جانے والے مہنگے اور قیمتی تحائف اس اتحاد کی مسلسل تصدیق کرتے ہیں۔ یہ کردار جنوبی ایشیا کے دیگر پدری اور مادری نسبی نظاموں میں بھی پایا جاتا ہے، جو ایک گہرے علاقائی ثقافتی نمونے کی نشاندہی کرتا ہے ۔
پھوپھی اور ماما کے کردار ایک دوسرے کے لیے تکمیلی (complementary) اور متضاد (oppositional) ہیں۔ پھوپھی، جو پدری نسب (patrilineage) سے تعلق رکھتی ہے، رسمی اختیار فراہم کرتی ہے، جبکہ ماما، جو شادی کے ذریعے بنے رشتے دار (affinal lineage) سے تعلق رکھتا ہے، مادی وسائل اور تحائف فراہم کرتا ہے۔ یہ توازن ‘میٹاسبلنگ شپ’ کے ڈھانچے کو عملی طور پر قائم رکھتا ہے۔
بھات کی رسم
بھائی کی دائمی ذمہ داری ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا سب سے واضح اور ڈرامائی اظہار بھات (جسے مائرہ بھی کہا جاتا ہے) کی رسم میں ہوتا ہے ۔ یہ رسم اس وقت ادا کی جاتی ہے جب ایک بہن کے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہوتی ہے۔ اس موقع پر بہن کا بھائی (یعنی شادی کرنے والے لڑکے یا لڑکی کا ماما) اپنے پورے خاندان کے ساتھ اپنی بہن کے گھر آتا ہے اور اس کے لیے اور اس کے پورے سسرالی خاندان کے لیے بیش قیمت تحائف لاتا ہے، جن میں نقدی، کپڑے، اور زیورات شامل ہوتے ہیں ۔
اس رسم کی علامتی اہمیت بہت گہری ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بھات دراصل بہن کا اس کے آبائی جائیداد میں وہ حصہ ہے جسے وہ پدری نسبی نظام میں شادی کے بعد چھوڑ دیتی ہے ۔ بھائی کی طرف سے دیا جانے والا یہ تحفہ کوئی خیرات یا احسان نہیں، بلکہ ایک لازمی اور دائمی ذمہ داری ہے جو بہن کے آبائی خاندان میں اس کے باقی ماندہ حقوق کو تسلیم کرتی ہے۔ یہ رسم دو خاندانوں کے درمیان اتحاد کو مزید مضبوط کرتی ہے۔ یہ بھائی کی اپنی بہن کے تئیں تاحیات ذمہ داری کا معاشی اظہار ہے۔
بھات کی رسم بھائی بہن کے رشتے کو ایک ٹھوس معاشی وزن عطا کرتی ہے جو بہن کی شادی کے بہت بعد تک قائم رہتا ہے۔ یہ ایک ہم خون حق (وراثت) کو ایک دائمی شادی کے رشتے کی ذمہ داری (تحفہ دینا) میں تبدیل کر دیتی ہے، جو اس بات کی بہترین مثال ہے کہ ‘میٹاسبلنگ شپ’ خون اور شادی کے رشتوں کی تفریق کو کیسے عبور کرتی ہے۔
میو زندگی کے مراحل کی تقریبات میں رسمی کردار اور تحائف اس پیچیدہ نظام کو مزید واضح کرنے کے لیے، مندرجہ ذیل جدول میں میو زندگی کے مختلف مراحل پر پھوپھی اور ماما کے کردار اور تحائف کے تبادلے کو منظم طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ جدول اس بات کو بصری طور پر ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ان دونوں کرداروں کا توازن ‘میٹاسبلنگ شپ’ کے تصور کو ٹھوس شکل دیتا ہے۔
زندگی کا مرحلہ
باپ کی بہن (پھوپھی) کا کردار
ماں کے بھائی (ماما) کا کردار
‘میٹاسبلنگ شپ’ میں اہمیت
پیدائش/ختنہ
رسمی سرگرمیوں کی قیادت کرتی ہے؛ کلیدی رسومات ادا کرتی ہے۔
بچے اور ماں کے لیے تحائف فراہم کرتا ہے؛ اہم اخراجات برداشت کرتا ہے۔
پھوپھی (پدری نسب سے) رسمی اختیار فراہم کرتی ہے۔ ماما (شادی کے نسب سے) مادی وسائل فراہم کرتا ہے۔
شادی (بیٹے کی)
دولہا کے خاندان کے لیے شادی سے پہلے کی رسومات کی قیادت کرتی ہے۔
اپنی بہن (دولہا کی ماں) کے لیے بھات (نقدی، کپڑے، زیورات کے بڑے تحائف) لے کر آتا ہے۔
ماما کا بھات بنیادی تحفہ ہے، جو اس کی بہن کے تئیں اس کی ذمہ داری کو پورا کرتا ہے اور نئے شادی کے اتحاد کے لیے خاندان کی حیثیت کو مضبوط کرتا ہے۔
شادی (بیٹی کی)
دلہن کے خاندان کے لیے شادی سے پہلے کی رسومات کی قیادت کرتی ہے۔
اپنی بہن (دلہن کی ماں) کے لیے بھات لے کر آتا ہے، جو جہیز اور شادی کے اخراجات میں نمایاں حصہ ڈالتا ہے۔
اپنی بھانجی کی شادی کے لیے ماما کا تعاون شادی کے رشتے میں زچہ خاندان کی طاقت اور حمایت کو ظاہر کرتا ہے۔
میو رسومات محض تقریبات نہیں ہیں؛ یہ وہ سماجی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے رشتہ داری کے ڈھانچے کو دوبارہ پیدا کیا جاتا ہے۔ ایک سماجی ڈھانچہ محض ایک تجریدی اصول کے طور پر زندہ نہیں رہ سکتا؛ اسے مسلسل دہرایا اور مضبوط کیا جانا چاہیے۔ زندگی کے مراحل کی یہ رسومات اس عمل کے لیے ایک اسٹیج فراہم کرتی ہیں ۔ اس اسٹیج کے کلیدی اداکار دو جڑے ہوئے بھائی بہن کے جوڑوں کے نمائندے ہیں:
پھوپھی اور ماما
۔ ان کے کردار ایک دوسرے کے لیے بالکل تکمیلی اور متضاد ہیں: ایک رسمی طور پر قیادت کرتا ہے، دوسرا مادی طور پر فراہم کرتا ہے۔ یہ توازن پچھلی نسل میں قائم ہونے والے اتحاد کو مسلسل نئی زندگی بخشتا ہے۔
تقابلی تجزیہ
میو رشتہ داری شمالی ہند کے تناظر میں ریمنڈ جاموس کا ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا نظریہ میو برادری کے رشتہ داری کے نظام کو نہ صرف اندرونی طور پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے، بلکہ اسے شمالی ہندوستان کے وسیع تر سماجی و ثقافتی تناظر میں رکھ کر اس کی منفرد حیثیت کو بھی واضح کرتا ہے۔ میو رشتہ داری کا نظام بیک وقت دیگر ہندوستانی مسلم برادریوں سے نمایاں طور پر مختلف اور پڑوسی ہندو برادریوں سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ یہ تقابلی تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ میو نظام کوئی بے ربط امتزاج نہیں، بلکہ ایک مربوط اور فعال علاقائی ماڈل ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان ایک غیر معمولی حیثیت میو برادری کا رشتہ داری کا نظام انہیں ہندوستان کی بیشتر مسلم برادریوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کزن میرج، یعنی چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بہن بھائیوں کے درمیان شادی پر سخت پابندی ہے ۔ بہت سی مسلم برادریوں میں، خاص طور پر پدری نسبی समाजों میں، خاندان کی جائیداد اور نسب کو متحد رکھنے کے لیے کزن میرج، بالخصوص چچا زاد بھائی بہن کی شادی (patrilineal parallel-cousin marriage)، کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ اسے اکثر ایک امتیازی مسلم رواج (diacritical Muslim kinship practice) سمجھا جاتا ہے۔
میو برادری اس رواج کو سختی سے مسترد کرتی ہے اور اسے محرمات (incest) کے زمرے میں شمار کرتی ہے ۔ ان کی طرف سے اس اصول کو توڑنے کی کسی بھی کوشش کی شدید مخالفت کی گئی ہے ۔ یہ ممانعت انہیں ساختی طور پر دیگر مسلم گروہوں سے الگ کرتی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے سماجی ڈھانچے کی منطق اسلامی فقہ سے زیادہ علاقائی روایات پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ، میو خواتین میں پردے کی روایت کا سختی سے رائج نہ ہونا بھی انہیں کئی دیگر مسلم برادریوں سے مختلف بناتا ہے ۔
ہندو رشتہ داری کے نظام سے گہری مماثلتیں جہاں میو رشتہ داری کا نظام دیگر مسلمانوں سے مختلف ہے، وہیں یہ پڑوسی ہندو برادریوں، خاص طور پر جاٹوں، راجپوتوں اور گجروں کے نظام سے حیران کن حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، میو رشتہ داری کا ڈھانچہ “جاٹ نظام کے زیادہ قریب ہے” ۔ یہ مماثلت کئی سطحوں پر ظاہر ہوتی ہے:
گوترا سے باہر شادی (Exogamy): جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، میو برادری میں اپنی گوت یا قبیلے سے باہر شادی کرنے کا اصول بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اصول شمالی ہندوستان کی ہندو ذاتوں میں بھی اسی طرح سختی سے رائج ہے، جہاں ‘گوترا’ کے اندر شادی ممنوع ہے ۔
مشترکہ سماجی اکائیاں
میو برادری انہی سماجی اکائیوں، یعنی ‘پال’ اور ‘گوترا’ میں منظم ہے جو ان کے ہندو پڑوسیوں میں پائی جاتی ہیں۔ بہت سے گوترا کے نام بھی جاٹوں، مینا اور راجپوتوں کے ساتھ مشترک ہیں ۔
بھات کی رسم: ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا مرکزی اظہار، یعنی بھات کی رسم، صرف میو برادری تک محدود نہیں۔ یہ راجستھان، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش کی ہندو برادریوں میں بھی ایک وسیع اور اہم روایت ہے ۔ ان برادریوں میں بھی یہ رسم بھائی کی طرف سے اپنی بہن کے بچوں کی شادی کے موقع پر دیے جانے والے تحائف کی صورت میں ادا کی جاتی ہے اور اس کا مقصد وہی ہے: بہن کے آبائی حقوق کو تسلیم کرنا اور شادی سے قائم ہونے والے اتحاد کو مضبوط کرنا۔
یہ مشترکہ رسومات اور سماجی ڈھانچے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ میو برادری ایک گہرے علاقائی ثقافتی نظام کا حصہ ہے جو مذہبی حدود سے بالاتر ہے۔
میو نظام
ایک شمالی ہندوستانی علاقائی قسم اس تقابلی تجزیے کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ میو رشتہ داری کے نظام کو محض مسلم رشتہ داری کی ایک “غیر خالص” یا “ہندو زدہ” شکل سمجھنا ایک سطحی تجزیہ ہوگا۔ اس کے بجائے، اسے شمالی ہندوستان کے ایک وسیع علاقائی رشتہ داری کے ماڈل کی ایک مضبوط اور مربوط قسم کے طور پر دیکھنا زیادہ درست ہے۔ ان کی سماجی ساخت، شادی کے قوانین، اور کلیدی رسومات سبھی مقامی ثقافتی منظرنامے میں گہرائی سے پیوست ہیں۔
اس تناظر میں، ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا تصور اس علاقائی ماڈل کو ایک مسلم شناخت رکھنے والی برادری کے اندر فعال اور قابلِ عمل بنانے والی مخصوص منطق کے طور پر ابھرتا ہے۔ یہ “میو جواب” ہے شمالی ہندوستانی رشتہ داری کے ساختی تقاضوں کا۔ یہ نظام ایک “ہائبرڈ” یا مخلوط نظام نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل طور پر مربوط نظام ہے جو اپنے اندرونی اصولوں کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ نظام نسبی گروہ کے اندر شادی (endogamy) پر باہر کے گروہوں کے ساتھ اتحاد (alliance) کو ترجیح دیتا ہے۔ ان کی مسلم شناخت اس گہری ساختی بنیاد کے اوپر ایک تہہ کے طور پر موجود ہے، نہ کہ اس کی تعریف کرنے والے عنصر کے طور پر۔ ‘میٹاسبلنگ شپ’ وہ کلید ہے جو اس پیچیدہ سماجی حقیقت کو سمجھنے کا دروازہ کھولتی ہے۔
نتیجہ
میو سماج میں بھائی بہن کے رشتے کی مرکزیت اس تفصیلی تجزیے کا اختتام اس نتیجے پر ہوتا ہے کہ شمالی ہندوستان کی میو برادری کے سماجی تانے بانے میں بھائی بہن کا رشتہ ایک غیر معمولی اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ محض ایک جذباتی یا خونی تعلق نہیں، بلکہ ایک باقاعدہ ادارہ ہے جو ان کے پورے رشتہ داری کے نظام کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ریمنڈ جاموس کا پیش کردہ ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا نظریہ اس رشتے کی ساختی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے، جو روایتی بشریاتی نظریات سے ایک قدم آگے ہے۔
دلیل کا خلاصہ
بہن بھائی کے بندھن کی طاقت یہ رپورٹ اس مرکزی دلیل پر قائم ہے کہ میو سماج میں بھائی بہن کا رشتہ، جسے ‘میٹاسبلنگ شپ’ کے طور پر ادارہ جاتی شکل دی گئی ہے، رشتہ داری کے نظام کے بنیادی تنظیمی اصول کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کی اہمیت کئی جہتوں میں ظاہر ہوتی ہے:
شادی کے اتحاد کی ساخت
یہ اصول گوت سے باہر شادی (exogamy) کے नियम کو نافذ کر کے شادی کے اتحاد کی سمت متعین کرتا ہے، جس سے خاندانوں کے درمیان وسیع تر سماجی نیٹ ورک قائم ہوتے ہیں۔
رسمی زندگی کی تنظیم: یہ اصول زندگی کے اہم مراحل کی رسومات کو منظم کرتا ہے، جہاں پھوپھی (باپ کی بہن) کا رسمی اختیار اور ماما (ماں کا بھائی) کی مادی ذمہ داریاں ایک دوسرے کے تکمیلی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ توازن نسل در نسل شادی کے ذریعے قائم ہونے والے اتحاد کو نئی توانائی بخشتا ہے۔
شادی کے رشتوں کو قدر عطا کرنا
یہ اصول شادی کے بعد بننے والے رشتوں (affinal ties) کو دائمی قدر عطا کرتا ہے۔ بھات جیسی رسومات کے ذریعے تحائف کے تبادلے کی مسلسل ذمہ داری اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ بہن کا اپنے آبائی خاندان سے تعلق شادی کے بعد بھی مضبوط اور فعال رہے۔ یہ ایک وقتی شادی کو دو خاندانوں کے درمیان ایک پائیدار اور نسل در نسل چلنے والے رشتے میں تبدیل کر دیتا ہے۔
مختصراً، ‘میٹاسبلنگ شپ’ وہ سماجی گلو ہے جو میو برادری کے نسبی گروہوں کو آپس میں جوڑتا ہے اور ان کے سماجی ڈھانچے کو استحکام بخشتا ہے۔
پائیدار ساخت، ابھرتی ہوئی شناخت: ‘میٹاسبلنگ شپ’ کا مستقبل میو برادری کا یہ منفرد رشتہ داری کا نظام انتہائی لچکدار ثابت ہوا ہے۔ اس نے میو عوام کو اپنی اعلیٰ حیثیت کے راجپوت ورثے پر فخر کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے، جبکہ وہ بیک وقت اپنی مسلم شناخت پر بھی قائم ہیں۔ یہ نظام ان کی دوہری شناخت کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے اور ان کے سماجی تشخص کو ایک منفرد شکل دیتا ہے۔
تاہم، آج اس پائیدار ڈھانچے کو نئی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ تبلیغی جماعت جیسی اصلاحی تحریکوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، جو “خالص” اسلامی طریقوں پر زور دیتی ہیں، ‘میٹاسبلنگ شپ’ کے بنیادی اصولوں کے لیے ایک چیلنج ہے ۔ مثال کے طور پر، اگر کزن میرج کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، تو یہ میو سماج کے گوت سے باہر شادی کے بنیادی اصول سے براہِ راست متصادم ہوگا۔ اس سے وہ پورا اتحاد پر مبنی ڈھانچہ کمزور پڑ سکتا ہے جس کی بنیاد ‘میٹاسبلنگ شپ’ پر رکھی گئی ہے۔
اس رپورٹ کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ میو سماج کا مستقبل اس بات پر منحصر ہوگا کہ وہ اپنی گہری جڑوں والی رشتہ داری کی ساخت اور مذہبی جدیدیت کے دباؤ کے درمیان کس طرح توازن قائم کرتے ہیں۔ بھائی بہن کا رشتہ، جیسا کہ ریمنڈ جاموس نے اس کا نظریہ پیش کیا، اس جاری ثقافتی مکالمے اور سماجی تبدیلی کے عمل کے عین مرکز میں واقع ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والی نسلیں اس قیمتی سماجی ورثے کو کس طرح اپناتی ہیں اور اسے بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔