
تاریخ ہندستان میں میوات کی اہمیت
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
میوات کو علاقہ دہلی سو جُڑو ہوئیو ہے، یا پورا علاقہ میں غالب اکثریت میو قوم کی ہے۔
دہلی سو قربت کی وجہ سویا علاقہ کی ہمیشہ خاص اہمیت رہی ہے۔
سیاسی، سماجی اور مذہبی اعتبار سو یاعلاقہ کو اثر ہمیشہ پورا ملک پےرہوہے۔
دہلی کا حکمرانن نے یا علاقہ اے اپنے ماتحت راکھن کی بڑی جدوجہد کری
اوریا علاقہ اے اپنا قابو میں راکھن کےمارے دہلی دربار سو وابستہ امراء و حکام نےیاتھاں اپنی بستی بسائی اور علما، فضلا، صوفیہ اور دانشورن نے ای علاقہ اپنے مارے جائے عافیت بنایو۔
میوات سو میوات یامارے کہو جاوے ہے

کیوں کہ ہیں کی غالب اکثریت میو قوم پے مشتمل ہے۔
میو ایک بہادر، حوصلہ مند اور دانشور قوم رہی ہے۔
دہلی شہر بھی یائی قوم نے آبادکرو۔
دہلی کا قائم کرن والو مہاراجا اننگ پال کی اولاد کو ایک حصہ میوات میں ہی آباد ہے۔
ہندوستان میں مسلم حکومت کا قائم ہو جانا کے بعد شروع میں اہل میوات کا شاہان دہلی کے ساتھ

کئی معرکہ ہویا۔
جن کی تفصیل تاریخ کی کتابن میں درج ہے۔
یائی کے ساتھ دہلی کا بعض حکمرانن سو اہل میوات کا اچھا روابط بھی رہا۔
دہلی کا حکمرانن کی ہمیشہ ای خواہش رہی کہ وے میوات اے اپنا قبضہ میں راکھاں
اور اہل میوات نےاپنی آزادی کی حفاظت کے ساتھ کدی ان کے ساتھ ٹکرایا اورکدی صلح کری۔
یامارے دہلی کی تاریخ پے میوات کا گہرا اثرات ہاں۔
دہلی کی کوئی بھی تاریخ میوات کا ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔
اہل میوات ایک طرف بادشاہان سو ٹکراتا رہا۔
دوسری طرف دہلی کی تاریخی اور تہذیبی شناخت پے بھی اہل میوات کا گہرا اثرات ثبت ہویا۔
عہد سلطنت میں ایک دور ایسو بھی آیو جب میوات کی اتنی اہمیت ہی
کہ دہلی کو بادشاہ وہی بنے ہوجا کو اہل میوات کی حمایت حاصل رہوےہی۔
خاص طور پے تغلق عہد میں تو اہل میوات بادشاہ گر کہلاوے ہا۔
اور یا دور،یا کے بعد کا کئی حکمراں ایسا بھی گزراہاں
جو بادشاہ بنن سو پہلے میوات کے اندر ہی رہوےہا۔
جیسے امیر تیمور نے سید خضر خاں میوات سو ہی بلا کے بادشاہ بنایو ہو۔
عہد مغلیہ میں میوات کو مغل حکمرانن سو ٹکراؤ بڑھ گیو۔
بابر نے راجہ حسن خاں میواتی شہید کر کے میوون کی پوری حکومت ہی تباہ کردی
اور اکبر نے میوات میں ایسی پالیسی بنائی کہ ای قوم صدین تک کے مارے بے دست و پا ہو کے رہ گئی،
جب تک مغل حکومت مضبوط رہی میوون کو ابھرن کو موقع نہ ملو۔
شاہ عالم کا دور میں مغل حکومت کا کمزور ہونا کے بعد ہی میوون کو دوبارہ کچھ ترقی کرن کو موقع ملو
لیکن پھر جلد ہی انگریز آگیا اور اُنن نے بھی ای قوم دبائی اور کمزور کرن کی پوری کوشش کری۔
میوات کی تہذیبی و ثقافتی جمعیت منتشر کرن کےمارے یاکا جغرافیائی و سیاسی شیرازہ منتشر کر دیو
اور میوات کئی الگ الگ ریاستن میں تقسیم کر دیو۔
میوات کی تاریخ اگرچہ بہت روشن ہے، لیکن یا موضوع پے تحریری سرمایہ کم ہے۔
مؤرخین ہر زمانہ میں بادشاہان کا اشارہ اَبروکا فرمان بردار، رہا۔ان کا اشاران پے ناچتا رہا۔
ایسا میں بھلا اِن لٹا پٹا اور اجڑا ہویا میواتین کی تاریخ کون لکھتو؟
یا وقت میو قوم اور میوات۔میواتی تہذیب پے لکھن کے مارے بہت بڑو میدان موجود ہے
سب سو اہم بات ای ہے کہ میو اپنی تاریخ پڑھنو چاہواہاں۔
جو لوگ بھی میو قوم کی تاریخ پے کام کرنگا وے تاریخ کو حصہ بن جانگا ۔
ہم نے میواتی لکھاری ،میواتی شعرا۔میواتی فنکار۔میواتی کتابن کا مصنف کمزور حالت میں دیکھا ہاں۔
میو قوم میں کتاب اور تعلیم کے مارے خرچ کرن کو رجحان کم پائیو جاوے ہے۔
میو قوم میں ایسو ادارہ ہونو چاہے جائے لوگ اپنو سمجھاں۔
ہر طرح کی گروہ بندی سیاسی وابسطگی۔ طبقاتی کشکمش سو مبرا ہوئے۔
سعد ورچوئل سکلز پاکستان
اَیسو اِی ادارہ ہے۔ بغیر لالچ۔بغیر سیاسی وابسطگی،بغیرکائی دبائو کے میو قوم کی تاریخ۔
میو قوم کی ثقافت۔میو قوم کی عادات و اطوار۔میو قوم میں پھلی ہوئی غیر ضروری۔لایعنی رسومات پے کام کررو ہے۔
اب تک کئی کتاب لکھی جاچکی ہاں۔
1۔مہیری۔
2۔میو قوم کا ہیرو۔
3۔میواتی کھانا۔
4۔میو قوم کو شاندار ماضی اور جنگ 1857
5۔ماخذات تاریخ میوات۔
6۔میو سو ملاقات۔
7۔گچوڑ اور کچود۔
8۔میوات پے بادشاہان کی یلغار۔
دینی کتابن میں۔
9۔ترجمہ قران کریم ۔ میواتی زبان۔
10۔مسند شہاب (حدیث)کو میواتی ترجمہ۔
11۔صحیفہ ہمام بن منبہ (حدیث)،میواتی ترجمہ۔
یہ تو ٹھوس میواتی زبان میں لکھی گئی ہاں۔
کچھ کتاب ایسی بھی ہاں جو اردو زبان میں لکھی ہاں۔ان کی تعداد دیکھی جائے تو مجموعی طورپے ڈیڑھ سو زیادہ ہے۔
رہی ای بات کہ یہ کیسے چھپی ہاں۔وسائل کہاں سو آیا ہاں ؟
سچی بات تو ای ہے کہ میری ٹیم ( عاصد رمضان میو۔چوہدری آفتاب اخترمیو۔مشتاق میو امبرالیا۔شکر اللہ میو۔عمران بلا۔چوہدری طاہر خاں نمبردار) اور میرا مشیر یاکام میں فیول کو کام کرراہاں۔ان کی ہمت اور حوصلہ افزائی تسلسل برقراراکھن میں اہم کردار ،راکھے ہے۔میو قوم میں بہترین قسم کا مخیر۔دیالو۔سخی۔ معاونین کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ان کو سہارو بھی حوصلہ دیوے ہے
