اتحاد علماء میوات پاکستان کا جوڑ

0 comment 2 views
اتحاد علماء میوات پاکستان کا جوڑ
اتحاد علماء میوات پاکستان کا جوڑ

اتحاد علماء میوات پاکستان کا جوڑ
اور مذہبی لوگوں میں پریشانی کی لہر
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
میو قوم تاریخی طورپر ایک مذہبی قوم شمار کی جاتی ہے۔اور مذہبی اقتدار کو برقرار رکھنا میو قوم اپنا فخر سمجھتی ہے۔میو قوم کے تمام طبقات حتی الوسع خدمات کے میدان میں اتر چکے ہیں کچھ نیک نیتی کے ساتھ تو کچھ لوگ اپنی چوہدر کی خاطر۔کچھ بھی ہو لیکن میو قوم میں ہل جل دیکھنے کو مل رہی ہے۔
میو قوم میں بہت سی تنظیمات نے جنم لیا کچھ وقت کے دھارے میں بہہ گئیں کچھ دوسروں کے آشرم میں آکر دم توڑ گئیں ۔کچھ گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئیں۔
اس میں شک نہیں کہ میو قوم میں حفاظ قراء علماء کی جتنی بڑی تعداد موجود ہے شاہد ہی کسی قوم میں ہو۔ لیکن اتنی بڑی تعداد دوسری جماعتوں میں طفیلی انداز میں چمٹنے کو عافیت سمجھتی ہے۔ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے ساتھ منسلک ہوجائوں۔کچھ دال دلیہ ہوجائے اور کچھ نام کمالوں ۔اس انسلاک کو بہادری سمجھا جاتا ہے۔۔
میواتی تنظیمات میں علماء کی نمائیدگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں دوہی راستے رہ جاتے ہیں کہ نوجوان اور ہونہار علماء میوات یا تو چلی روش کے مطابق اپنی توانائیاں دوسروں کے کھاتوں میں دال دیں ۔

Advertisements


یا پھر خود سے ہمت کریں اور خدمات اور اپنے افکار قوم کے سامنے پیش کریں۔
اس وقت میواتی علماء کی کارکردگی کوئی قابل رشک بات نہیں ہے۔یہ اپنے اوچھے پن عدم برداشت اور دوسروں کے حقہ چلم بھرنے میں اتنے مگن ہوچکے ہیں کہ انہیں کوئی بھی میو قوم میں ابھرتا ہوا اچھا نہیں لگتا۔جو بھی ابھرنے لگتا ہے فرض اولین سمجھتے ہیں کہ اس کی ٹانگیں ثواب

کی نیت سے کھینچی جائیں۔

جب سے شوسل میڈیا آیا ہے لوگوں میں روابط بڑھنے لگے ہیں ۔کیمیونٹیز بڑھ رہی ہیں۔گروپس تشکیل دئے جارہے ہیں۔ہر چیز کے دو رُخ ہوتے ہیں خیر و شر میں سے اختیار ہے جسے چاہے اختیار کریں۔
علماء کرام نے بھی کئی گروپس تشکیل دئے۔کچھ لوگوں نے ان گروپس کو مسجد بنا دیا کہ ان کی مرضی کے بغیر نہ آزان ہوسکتی ہے نہ امامت۔
کچھ لوگوں نے علماء کے نام پر گروپس بنائے لیکن انہیں چلا نہ سکے۔مجھے بھی کئی گروپس میںایڈ کرلیا گیا ہے۔لیکن لکھائی پڑھائی تصنیف و تالیفات سے اتنا وقت نہیں ملتا کہ ان کا ساتھ نبھا سکوں۔
کچھ عرصہ پہلے صوفی عرفان انجم صاحب نے ایک گروپ۔
۔” اتحاد علماء میوات”۔۔
۔ نامی تشکیل دیا۔اس جوان نے انتھک کوشش کی اور دن رات ایک کرکے علماء سے روابط استور کئے ۔اس گروپ میں کئی صد علماء شامل ہوگئے۔
صوفی صاحب کے ساتھ دیگر نوجوان میواتی علماء نے بھرپور کوششیں کیں۔روابط بڑھائے۔اور اتحاد علماء میوات۔وٹس ایپ گروپ سے نکل کر میدان عمل میں آگیا۔مختلف علاقوں میں جوڑ کے عنوان سے اجتماعات کئے۔ سب سے بڑ ا اجتماع جامعہ عثمانیہ کاہنہ لاہور میں ہوا ۔مولانا محمد احمد قادری مدظلہ نے میزبانی قبول فرمائی۔
اس اجتماع میں دو صد علماء میوات نے شرکت فرمائی،مجھے خود امید نہیں تھی کہ نامور علماء کرام یوں چلے آئیں گے۔میو قوم کے نامور لوگوں نے شرکت کی ۔ مزے داری کی بات یہ تھی کہ اس اجتماع میں ہر انداز فکر کے نمائیندے شامل ہوئے،ایک صوفی باصفاء مفتی مسعود الرحمن سے لیکر اہل سنت والجماعت کے مولانا طاہر قصوری صاحب تک۔
تبلیغی جماعت سے لیکر جمیعت علماء اسلام کے نمائیندوں تک۔عام علماء کی کثرت شرکت نے عجوبہ کردکھایا۔
پہلے کرامات کا سنا کرتے تھے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لی۔یقین ہوگیا کہ اب بھی کرامات کا ظہور ممکن ہےشرکاء میں متدین علماء کرام۔ محترم اساتذہ ۔آئمہ ۔مدارس کے ذمہ داران۔اداروں کے منتظمین۔اجتماع کیا ایک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ابر کرم تھا۔جو میو قوم پر موسلادھار برس رہا تھا۔
۔ اجلاس اس لئے کرامات سے بھرا ہوا تھا کہ اس میں میو تھے اوپر سے علماء۔ان کا یکجا ہونا۔زندہ مینڈکوں کا ترازو میں تولنا تھا۔
یہ سحر انگیز محفل دو گھنٹوں سے زائد چلتی رہی۔علماء کرام نے تعارف باہمی کرانے کے ساتھ اساطین اساتذہ نے اپنی کنہ مشق رائے عنائت کیں۔
صوفی عرفان انجم نے ایک ورق پر مشتمل ایک پُر فارما دیا تھا ۔تاکہ جملہ شرکاء اپنی آراء لکھ دیںکہ اس گلشن کی تحفیظ کے لئے کونسی ضروریات و لوازمات درکار ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔
لیکن دوسو کے قریب علماء میں سے چوتھائی تعداد نے اس فارم کو پُر کرنے کی زحمت فرمائی۔ستر ،اسی، لوگوں نے اپنی تجاویز و آراء لکھیں۔ اتفاق سے مجھے چند ایک کے مطالعہ کا موقع ملا۔ایسا لگا کہ یہ تحریریں علماء کی نہیں بلکہ پرائمری کے طلباء نے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔
اس اجتماع میں مختلف کنہ مشق علماء نے اپنے جذبات کا اظہار کیامثلاء علماء میوات میں دیوبندیوں کے ساتھ علماء بریلوی۔علماء اہل حدیث بھی شامل کئے جائیں ۔اسی قسم کے اجتماعات مختلف علاقوں اور اضلاع میں ہونے چاہیئں ۔کچھ جوشیلے جوانوں نے تو اسے چاروں صوبوں تک پھیلا دیا۔جس تحمل و بردباری اور یکسانیت کے ساتھ یہ مجلس ہورہی تھی میری زندگی میں انوکھا کارنامہ تھا۔
راقم الحروف صوفی عرفان انجم صاحب کے والد محترم جناب صوفی روز دار مرحوم سے بھی یاد اللہ ہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب واہگہ چوکی مسجد میں مولانا ابو المظفر الظفر مرحوم حضرت احمد علی لاہوری کی نیابت فرماتے ہوئے فیضان تصوف سے دلوں کی آبیاری فرماتے تھے۔بھلے لوگ تھے۔میں بہت چھوٹا ہوا کرتا تھا۔ہمارے استاد محترم حاجی عبدالشکورعلیہ الرحمہ جوکہ ہماری مسجد کے امام تھے مجھے حکم دیتے ہم لوگ بائیسائیکل پر بھسین گائوں کھارا کھوہ سے واہگہ چوکی آتے۔یہیں پر صوفی روزدار صاحب کو مولانا کی خدمت کی حاضر دیکھتے۔
اس وقت ادب ہی ادب تھا سمجھ بوجھ کچھ نہ تھی۔البتہ میو ہونا کے ناطے ساری گفتگو میواتی زبان میں ہوا کرتی تھی۔ بھلے وقت اور بھلے لوگ تھے۔کیا معلوم تھا یہ لوگ ہم سے پہلے راہی جنت ہونگے۔ہمیں ان کی لگائی ہوئی فصل کی آبیاری کرنی پڑؑے گی۔
صوفی عرفان انجم اسی گلشن کا مہکتا پھول ہیں ۔ویسے بھی صاحب علم فارغ التحصیل ہیں ۔سب سے اہم بات یہ کہ خانقاہ کے ساتھ مکتب و مدرسہ بھی چلاتے ہیں ۔اتحاد علماء میوات۔ کے وجود کا سبب عرفان انجم ضرور ہے۔لیکن یہ وہی فکر گم کشتہ ہے ۔جس کی فکر خانقاہ ابو المظفر علیہ الرحمہ میں ہوا کرتی تھی ۔وہ لوگ جب گفتگو کرتے تھے تو مختلف موضوعات پر بات کرتے تھے۔مقامی علماء کے اتحاد پر بھی بات ہوا کرتی تھی۔ماضی کے دھندلکے جھٹنے لگے ہیں ۔شاید انہیں کا فیضان فکر ہے جس کا ظہور صوفی عرفان انجم کے توسط سے ہوا ہے۔
عمومی طورپر میں کشف و کرامات۔بزرگی اور تکشف کا قائل کم ہی ہوں۔لیکن جب ایک چالیس کے بعد فکر مجسم ہوکر سامنے آجائے تو کسی دلیل کی ضروعت کہاں باقی رہتی ہے؟۔
اس اجتماع میں مفتی مسعود الرحمن کی نمائیندگی شاید اسی کا شاخانہ ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ سب لوگ رائیونڈ کے اجتماع میں جو کہ اس وقت ایک ہی ہوا کرتاتھا میں پہلے سے پہنچ جایا کرتے تھے یوں لگتا ان سے بڑا تبلیغی کوئی نہیں ہے۔لیکن ان کا انداز فکر اپنا تھا۔تبلیغی جماعت والوں کو چھ نمبری کہا کرتے تھے۔یعنی وہ لوگ جو فنا فی التبلیغ ہوجاتے ہیں ۔حالانکہ بھسین گائوں میں حاجی عبد الشکور۔واہگہ چوکی میں مولانا ظفر۔سہانکے گائوں میں میانجی روز دار تبلیغی جماعتوں کے میزبان ہوا کرتے تھے۔اس ساری وابسطگی کے باوجود تبلیغی لوگوں کے نزدیک یہ بزرگ کبھی ان معنوں میں تبلیغی نہ بن سکے۔جو انہیں مطلوب ہیں۔
اس کے علاوہ سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے متوالے تھے۔کوئی جلسہ یا اجتماع ایسا نہ ہوتا تھا جس میں یہ لوگ شریک نہ ہوتے ہوں یوں محسوس ہوتا جمیعت کا جیالا ان سے بڑھ کر کوئی نہیں۔قدمے سخنے درمے۔جہاں تک ہوسکتا یہ لوگ ساتھ چلتے۔کچھ ایسا ماحول تھا کہ جو بھی مذہبی اجتماع ہوتا ۔اسی کے ہورہتے۔خانقاہ جمیلیہ مولانا جمیل احمد دہلویؒ رائیونڈ کی مجالس ہوں۔یا حضرت درخواستی اور مفتی محمود صاحب کی سیاسی مجالس، جلوس۔یا پھر تبلیغی اجتماعات۔ایسا لگتا یہ سارے کام ان کے اپنے ہیں۔
وہ دور گیا آج ان کے جانشین لوگ ہیں، صوفی عرفان انجم کو شاید انہی کی توجہ و التفات نصیب ہوا ۔اور اتحاد علماء میوات کے عنوان سے اہل علم کو یکجا کرنے کی ٹھانی۔اور علمی جامہ پہنایا۔۔اللھم زد فزد۔
بقیہ اگلی قسط میں۔۔

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme