۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں رائے سینا کا معرکہ اور میواتی خوانین کا انقلابی کردار

0 comment 97 views

۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں رائے سینا کا معرکہ اور میواتی خوانین کا انقلابی کردار
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تمہید: تاریخ کے اوراق میں گمشدہ آوازیں
ہندوستان کی تاریخِ آزادی، بالخصوص 1857 کی عظیم بغاوت، ان گنت داستانوں، قربانیوں اور معرکوں کا ایک ایسا سمندر ہے جس کی تہیں ابھی تک پوری طرح سے کھنگالی نہیں گئیں۔ عام طور پر جب 1857 کا ذکر آتا ہے تو ذہن میں دہلی کا لال قلعہ، لکھنؤ کی بیگم حضرت محل، جھانسی کی رانی لکشمی بائی یا کانپور کے نانا صاحب جیسے مرکزی کردار ابھرتے ہیں۔ لیکن اس عظیم جدوجہد کا ایک نہایت اہم، ولولہ انگیز اور خونچکاں باب وہ ہے جو دلی کے جنوب میں واقع میوات کے پہاڑوں میں لکھا گیا۔ یہ باب میوات کے بہادر میو راجپوتوں اور بالخصوص ان کی خواتین، جنہیں مقامی روایت میں “خوانین” (Khanin) یا “میواتنی” کہا جاتا ہے، کی عظیم قربانیوں پر

Advertisements

مشتمل ہے۔
یہ تحقیقی رپورٹ ایک کوشش ہے کہ تاریخ کے اس فراموش کردہ گوشے کو روشن کیا جائے۔ اس کا مقصد نہ صرف رائے سینا (Raisina) کے معرکے کی عسکری اور تزویراتی (Strategic) تفصیلات بیان کرنا ہے، بلکہ اس “تاریخی حقیقت” تک پہنچنا ہے جو برطانوی آرکائیوز کی تعصب زدہ تحریروں اور نوآبادیاتی بیانیے کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں ہم دیکھیں گے کہ کس طرح میوات کی خواتین نے، جو روایتی طور پر پردہ نشین اور گھریلو ذمہ داریوں تک محدود تھیں، وقت پڑنے پر حریت کی شمعیں روشن کیں اور برطانوی سامراج کی جدید ترین فوج کا مقابلہ پتھروں، تلواروں اور اپنے آہنی عزم سے کیا۔ ہم وگرم کلفورڈ (Wigram Clifford) اور بریگیڈیئر شاورز (Brigadier Showers) جیسے برطانوی افسران کے وحشیانہ انتقام کا بھی جائزہ لیں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ رائے سینا کی جنگ محض ایک مقامی جھڑپ نہیں تھی بلکہ یہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا جس نے برطانوی راج کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔

باب اول: میوات کا جغرافیائی اور سیاسی پس منظر (1857 سے قبل)
1.1 میوات: جغرافیہ اور شناخت
میوات کا خطہ، جو موجودہ دور میں ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کے سنگم پر واقع ہے، تاریخی طور پر دہلی کے تخت کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے۔ یہ علاقہ سلسلہ کوہِ ارولی (Aravali Range) کے دامن میں بسا ہوا ہے، جو اپنی دشوار گزار گھاٹیوں اور پہاڑی دروں کی وجہ سے ایک قدرتی قلعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1857 میں، یہ علاقہ برطانوی انتظامی تقسیم کے تحت ضلع گڑگاؤں اور ریاست الور و بھرت پور کے درمیان تقسیم تھا 1۔


یہاں کے بسنے والے “میو” (Meo) کہلاتے ہیں، جو اپنی اصل میں راجپوت ہیں لیکن صدیوں پہلے اسلام قبول کر چکے تھے۔ ان کا سماجی ڈھانچہ ایک منفرد “مشترکہ تہذیب” (Syncretic Culture) کا عکاس تھا۔ اگرچہ وہ مذہب کے لحاظ سے مسلمان تھے، لیکن ان کی سماجی روایات، گوت (Gotras) کا نظام اور جنگی اصول راجپوتانہ روایات سے گہرے جڑے ہوئے تھے 1۔ ان کی یہ دوہری شناخت—مسلم عقیدہ اور راجپوت خون—انہیں ایک ایسی جنگجو قوم بناتی تھی جو اپنی “آن، بان اور شان” (Izzat) کے لیے جان دینے کو تیار رہتی تھی۔ برطانوی افسران اپنی رپورٹس میں انہیں اکثر “لٹیرے” یا “ڈاکو” لکھتے تھے، جو کہ نوآبادیاتی ذہنیت کا عکاس تھا جو ہر اس قوم کو مجرم قرار دیتی تھی جو ان کی اطاعت قبول نہ کرے 2۔
1.2 برطانوی استبداد اور عوامی بے چینی
1857 سے قبل، ایسٹ انڈیا کمپنی کا راج میوات کے عوام کے لیے ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ کمپنی کی مالیاتی پالیسیاں کسانوں کا خون نچوڑ رہی تھیں۔ بھاری لگان، زمینوں کی ضبطی اور مقامی روایات میں مداخلت نے میوات کے کسانوں اور زمینداروں (خان زادوں) کے اندر لاوا بھر دیا تھا 3۔ عدالتی نظام میں مقامی لوگوں کی کوئی شنوائی نہیں تھی اور برطانوی کلکٹروں کا رویہ انتہائی تحقیر آمیز تھا۔
خاص طور پر ضلع گڑگاؤں کے ڈپٹی کمشنر ولیم فورڈ (William Ford) اور اس کے ماتحت عملے کی سختیاں مشہور تھیں۔ میواتی لوگ، جو اپنی آزادی اور خودمختاری کے عادی تھے، اس غیر ملکی تسلط کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے اندر یہ احساس جڑ پکڑ چکا تھا کہ انگریز نہ صرف ان کی زمینوں پر قابض ہیں بلکہ ان کے دین اور دھرم کو بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں 3۔ یہ وہ بارود تھا جس میں میرٹھ کی چنگاری نے آگ لگا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب دوم: بغاوت کا آغاز اور میوات کی “عوامی جنگ”
2.1 مئی 1857: آزادی کا بگل
10 مئی 1857 کو جب میرٹھ میں سپاہیوں نے بغاوت کی اور دہلی کا رخ کیا، تو اس کی گونج سب سے پہلے میوات میں سنی گئی۔ دہلی سے میوات کا قرب (تقریباً 40-50 میل) اس علاقے کو تزویراتی اعتبار سے انتہائی اہم بناتا تھا۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ “بادشاہ سلامت” (بہادر شاہ ظفر) نے قیادت سنبھال لی ہے، میوات کا ہر گاؤں ایک جنگی کیمپ میں تبدیل ہو گیا 3۔
میوات کی بغاوت کی خاص بات یہ تھی کہ یہ صرف فوجیوں کی بغاوت نہیں تھی، بلکہ یہ ایک “عوامی جنگ” (People’s War) تھی۔ کسانوں نے اپنے ہل چھوڑ کر تلواریں اٹھا لیں۔ میو پنچایتوں (Panchayats) نے فوری طور پر انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ مقامی تھانوں، تحصیلوں اور سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا اور وہ تمام علامات جو برطانوی راج کی نمائندگی کرتی تھیں، مٹا دی گئیں 2۔
2.2 گڑگاؤں سے برطانوی انخلاء
میواتیوں کا حملہ اتنا شدید اور اچانک تھا کہ ضلع گڑگاؤں کی برطانوی انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ گئی۔ ڈپٹی کمشنر ولیم فورڈ کو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ میواتیوں نے نہ صرف گڑگاؤں پر قبضہ کیا بلکہ دہلی جانے والے رسد کے راستوں کو بھی کاٹ دیا۔ یہ برطانوی فوج کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا، کیونکہ دہلی کا محاصرہ کرنے والی برطانوی فوج کو رسد کی اشد ضرورت تھی اور میوات ان کی سپلائی لائن کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکا تھا 1۔
اس مرحلے پر میوات کی قیادت مقامی سرداروں اور چودھریوں نے سنبھالی، جن میں صدرالدین میو (Sadruddin Meo) اور فیروز شاہ میواتی (Firoz Shah Mewati) جیسے نام سرِفہرست تھے۔ انہوں نے گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو منظم کیا اور انگریزوں کے خلاف “جہاد” کا اعلان کیا 1۔

باب سوم: رائے سینا کا محاذ اور خواتین کی صف بندی
3.1 رائے سینا: ایک قدرتی قلعہ
رائے سینا (جسے برطانوی ریکارڈ میں اکثر Raiseena یا Alipur لکھا گیا ہے) گڑگاؤں کے قریب پہاڑی سلسلے میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، لیکن اس کی اہمیت اس کے جغرافیائی محل وقوع میں تھی۔ یہ گاؤں پہاڑی کی بلندی پر واقع تھا اور یہاں سے آس پاس کے میدانی علاقوں پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ 1857 کے اواخر میں، جب برطانوی فوج دہلی پر دوبارہ قابض ہو چکی تھی اور اب مضافات کو “صاف” کرنے کی مہم چلا رہی تھی، رائے سینا باغیوں کا ایک اہم مرکز بن گیا تھا 1۔
یہاں پر فیروز شاہ میواتی کی قیادت میں سینکڑوں میواتی مجاہدین جمع ہو چکے تھے۔ ان میں نہ صرف مقامی کسان شامل تھے بلکہ وہ باغی سپاہی بھی تھے جو دہلی کے سقوط کے بعد وہاں سے فرار ہو کر میوات کی پناہ میں آئے تھے۔ ان سپاہیوں کے پاس جدید ہتھیار (Enfield Rifles) اور فوجی تربیت تھی، جو میواتیوں کے روایتی جوش و جذبے کے ساتھ مل کر ایک خطرناک قوت بن گئی تھی 1۔
3.2 “خوانین” کا کردار: پردے سے میدانِ جنگ تک
یہاں ہمیں اس رپورٹ کے سب سے اہم پہلو کی طرف آنا چاہیے: میواتی خواتین یا “خوانین” کا کردار۔ برطانوی مورخین اور انٹیلی جنس رپورٹس اکثر خواتین کے کردار کو نظر انداز کرتی رہی ہیں، لیکن اگر ہم باریک بینی سے جائزہ لیں تو ہمیں ان کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔
میواتی معاشرے میں خواتین، اگرچہ سخت پردے کی پابند تھیں اور گھر کی چار دیواری میں رہتی تھیں، لیکن وہ کسی بھی طرح اپنے مردوں سے کم نہیں تھیں۔ جب رائے سینا میں جنگ کی تیاری ہو رہی تھی، تو یہ خواتین ہی تھیں جنہوں نے لاجسٹکس (Logistics) کا محاذ سنبھالا۔
1۔رسد اور بارود: خواتین نے مردوں کے لیے کھانا، پانی اور بارود کی ترسیل کا ذمہ لیا۔ پہاڑی مورچوں پر بیٹھے مجاہدین تک رسد پہنچانا خواتین کا کام تھا، جو اکثر اپنی جان پر کھیل کر یہ فریضہ انجام دیتی تھیں۔

  1. حوصلہ افزائی اور غیرت: مقامی لوک داستانوں (Dhadis) میں ذکر آتا ہے کہ میواتی خواتین نے اپنے مردوں کو غیرت دلائی۔ جب کچھ لوگ برطانوی توپ خانے کے خوف سے پیچھے ہٹنے لگے تو ان خواتین نے انہیں طعنے دیے اور چوڑیاں پیش کیں، جس نے مردوں کو دوبارہ لڑنے پر مجبور کر دیا 5۔
    2۔براہِ راست تصادم: رائے سینا کی جنگ کے دوران ایسے شواہد ملتے ہیں کہ جب برطانوی فوج گاؤں میں داخل ہوئی تو خواتین نے چھتوں سے پتھر برسائے اور یہاں تک کہ تلواریں لے کر انگریز سپاہیوں پر ٹوٹ پڑیں۔ اس رپورٹ کے اگلے حصوں میں ہم وگرم کلفورڈ کے قتل اور اس کے بعد ہونے والے قتلِ عام میں خواتین کے براہِ راست کردار کا تفصیلی ذکر کریں گے۔
    باب چہارم: برطانوی جوابی کارروائی – شاورز اور کلفورڈ کی آمد
    4,1 بریگیڈیئر جنرل شاورز کا مشن
    دہلی پر قبضے کے بعد، برطانوی کمانڈر ان چیف نے بریگیڈیئر جنرل شاورز (Brigadier General Showers) کو ایک بھاری بھرکم فوج (Mobile Column) کے ساتھ میوات روانہ کیا۔ اس فوج کا مقصد واضح تھا: “باغیوں کا قلع قمع کرنا اور میوات کو سبق سکھانا” 6۔ شاورز کے پاس توپ خانہ، گھڑ سوار دستے اور گورکھا رجمنٹ کے سپاہی تھے، جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھے۔
    4.2 وگرم کلفورڈ: انتقام کی آگ
    شاورز کے ساتھ اس مہم کا ایک اور اہم کردار اسسٹنٹ کلکٹر وگرم کلفورڈ (Wigram Clifford) تھا۔ کلفورڈ محض اپنی ڈیوٹی نہیں کر رہا تھا، بلکہ وہ ایک ذاتی انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ دہلی میں بغاوت کے ابتدائی دنوں میں باغیوں نے اس کی بہن کو قتل کر دیا تھا 6۔ اس سانحے نے کلفورڈ کو جنونی بنا دیا تھا۔ وہ میواتیوں کو صرف باغی نہیں سمجھتا تھا بلکہ اپنی بہن کے قاتل سمجھتا تھا۔
    تاریخی ریکارڈ بتاتا ہے کہ کلفورڈ نے اس مہم کے دوران ظلم و بربریت کی انتہا کر دی تھی۔ اس نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی میواتی کو زندہ نہیں چھوڑے گا، خواہ وہ مرد ہو، عورت ہو یا بچہ 1۔ رائے سینا کی جنگ میں اس کا یہ ذاتی انتقام برطانوی فوج کی حکمت عملی پر حاوی رہا۔

باب پنجم: معرکہ رائے سینا (31 اکتوبر 1857) – ایک خونی داستان
5.1 جنگ کا آغاز
31 اکتوبر 1857 کی صبح، برطانوی فوج نے رائے سینا گاؤں کا محاصرہ کر لیا۔ فیروز شاہ میواتی کی قیادت میں مجاہدین نے پہاڑیوں پر مورچے سنبھال رکھے تھے۔ جیسے ہی برطانوی فوج آگے بڑھی، پہاڑیوں سے گولیوں اور پتھروں کی بارش شروع ہو گئی۔ میواتیوں کے پاس اگرچہ انگریزوں جیسے جدید ہتھیار کم تھے، لیکن ان کے پاس اپنی زمین کا علم اور جذبہ شہادت تھا 1۔
یہ جنگ روایتی میدانِ جنگ کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ایک گوریلا جنگ (Guerrilla Warfare) تھی۔ ہر گھر ایک قلعہ تھا اور ہر گلی ایک میدانِ جنگ۔ برطانوی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ چار گھنٹے تک خونریز لڑائی جاری رہی جس میں دونوں طرف بھاری جانی نقصان ہوا 1۔
5.2 وگرم کلفورڈ کا قتل: جنگ کا اہم موڑ
لڑائی کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ وگرم کلفورڈ، جو شاید اپنے انتقام کے جوش میں ہوش کھو بیٹھا تھا، اپنے دستے سے کچھ آگے نکل گیا۔ اسی لمحے ایک میواتی مجاہد (یا باغی سپاہی) نے پہاڑی کی اوٹ سے نشانہ باندھا اور گولی چلا دی۔ گولی سیدھی کلفورڈ کے سر میں لگی اور وہ گھوڑے سے گر کر ہلاک ہو گیا 1۔
کلفورڈ کا مارا جانا میواتیوں کے لیے ایک بہت بڑی نفسیاتی فتح تھی، لیکن برطانوی فوج کے لیے یہ ایک ایسا صدمہ تھا جس نے انہیں درندوں میں تبدیل کر دیا۔ ایک اعلیٰ برطانوی افسر کا قتل ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ برطانوی فوج نے، جو پہلے ہی غصے میں تھی، اب تمام جنگی اصول بالائے طاق رکھ دیے۔

باب ششم: برطانوی انتقام – زمین، آگ اور خون
6.1 اسکورچڈ ارتھ” (Scorched Earth) پالیسی
کلفورڈ کی موت کے بعد، بریگیڈیئر شاورز نے حکم دیا کہ رائے سینا اور اس کے آس پاس کے تمام دیہاتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ یہ محض فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک “نسل کشی” (Massacre) کی مہم تھی۔ برطانوی فوج نے دیہاتوں کا محاصرہ کیا اور انہیں آگ لگا دی 1۔
6.2 خواتین اور بچوں کا قتلِ عام
یہاں پر ہمیں “میواتی خوانین” کے تاریخی کردار کی سب سے المناک تصویر نظر آتی ہے۔ برطانوی ریکارڈ خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ کلفورڈ (اور اس کے بعد اس کے ساتھیوں) نے “عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا” 1۔ جب گاؤں جل رہے تھے، تو خواتین نے گھروں سے نکل کر بھاگنے کی بجائے وہیں لڑنے یا جل کر مر جانے کو ترجیح دی۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ بہت سی خواتین، جنہوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے کنوؤں میں چھلانگ لگا دی یا جلتے ہوئے گھروں میں اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر راکھ ہو گئیں۔ یہ وہ “جوہر” (Jauhar) کی روایت تھی جو ان کے راجپوت خون میں شامل تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ، بہت سی خواتین نے آخری سانس تک مزاحمت کی۔ انہوں نے برطانوی سپاہیوں پر جلتی ہوئی لکڑیاں پھینکیں، پتھر برسائے اور انہیں آگے بڑھنے سے روکا۔
6.3 زمینوں کی ضبطی: معاشی تباہی
جسمانی قتلِ عام کے ساتھ ساتھ، انگریزوں نے میواتیوں کی کمر توڑنے کے لیے معاشی وار بھی کیا۔ رائے سینا، محمد پور، سانپ کی ناگلی اور دیگر دیہاتوں کی زمینیں ضبط کر لی گئیں۔ یہ زرخیز زمینیں ان لوگوں سے چھین لی گئیں جنہوں نے آزادی کے لیے جنگ لڑی تھی، اور ان “غداروں” (Loyalists) کو انعام میں دے دی گئیں جنہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا، جیسے بھونڈسی کے راجپوت اور سوہنا کے کائستھ 1۔ اس اقدام نے میوات کے سماجی اور معاشی ڈھانچے کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔

باب ہفتم: میواتی خواتین (خوانین) کا تاریخی تجزیہ
7.1 تاریخ کی خاموشی اور حقیقت
رائے سینا کی جنگ میں خواتین کے کردار پر برطانوی مورخین کی خاموشی معنی خیز ہے۔ وہ خواتین کو یا تو “متاثرین” (Victims) کے طور پر دکھاتے ہیں یا پھر سرے سے غائب کر دیتے ہیں۔ لیکن “سبالٹرن ہسٹری” (Subaltern History) اور مقامی روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔
1۔سبز برقعہ والی مجاہدہ: اگرچہ “سبز برقعہ والی” (Green Burqa Clad) خاتون کا ذکر زیادہ تر دہلی اور انبالہ کے تناظر میں آتا ہے جو تلوار اور بندوق لے کر لڑتی تھی 8، لیکن یہ کردار اس پورے خطے کی مسلم خواتین کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ میوات میں بھی ایسی کئی گمنام ہیروئنیں تھیں جنہوں نے برقعے اور چادر کو رکاوٹ نہیں بننے دیا بلکہ اسے اپنا کفن بنا لیا۔
2۔اصغری بیگم کی مثال: اسی دور میں مظفر نگر (شاملی) کے علاقے میں اصغری بیگم نامی خاتون کو انگریزوں نے زندہ جلا دیا تھا کیونکہ وہ خواتین کا ایک دستہ بنا کر لڑ رہی تھیں 9۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ 1857 میں برطانوی فوج خواتین کو بھی باقاعدہ “جنگجو” (Combatants) سمجھتی تھی اور ان کے ساتھ وہی سلوک کرتی تھی جو باغی مردوں کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ رائے سینا میں خواتین کا قتلِ عام اسی پالیسی کا حصہ تھا۔
7.2 مزاحمت کی نفسیات
میواتی خواتین کی مزاحمت صرف جسمانی نہیں تھی بلکہ نفسیاتی بھی تھی۔ انہوں نے برطانوی فوج کے اس بیانیے کو مسترد کر دیا کہ “عورت کمزور ہے۔” جب کلفورڈ جیسے افسر خواتین کو نشانہ بنا رہے تھے، تو وہ دراصل اس خوف کا شکار تھے کہ یہ “ماں، بہن، بیٹی” کا روپ دھارے ہوئے خواتین سامراج کے لیے اتنا ہی بڑا خطرہ ہیں جتنا کہ ان کے مرد۔

باب ہشتم: روپڑکا کا معرکہ اور شہادتوں کا تسلسل
رائے سینا کی تباہی کے بعد، بغاوت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی بلکہ مزید بھڑک اٹھی۔ 19 نومبر 1857 کو روپڑکا (Rupraka) کے مقام پر ایک اور بڑا معرکہ ہوا۔
8.1 صدرالدین میو کی قیادت
روپڑکا میں صدرالدین میو کی قیادت میں تقریباً 3500 مجاہدین جمع ہوئے۔ یہاں بھی ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں برطانوی توپ خانے کا مقابلہ میواتی تلواروں سے ہوا۔ اس جنگ میں 400 سے زائد میواتی شہید ہوئے 11۔
8.2 اجتماعی پھانسیاں
روپڑکا اور آس پاس کے دیہاتوں میں انگریزوں نے ظلم کی نئی داستانیں رقم کیں۔ سینکڑوں لوگوں کو پکڑ کر درختوں سے لٹکا دیا گیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ “پھانسی دینے کے لیے درخت کم پڑ گئے تھے، اس لیے ایک ایک درخت پر کئی کئی لاشیں لٹکائی گئیں” 12۔ ان شہداء میں وہ خاندان بھی شامل تھے جن کی خواتین نے اپنے مردوں کو جنگ کے لیے تیار کر کے بھیجا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق، 1857 کی جنگ میں 10,000 سے زائد میواتی شہید ہوئے 11۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ شاید ہی میوات کا کوئی گھر ایسا بچا ہو جہاں سے کوئی جنازہ نہ اٹھا ہو یا جہاں کوئی “خوانین” بیوہ نہ ہوئی ہو۔

باب نہم: شماریاتی اور تقابلی جائزہ
رپورٹ کے حقائق کو مزید واضح کرنے کے لیے ذیل میں کچھ اہم اعدادوشمار اور تقابلی جائزے پیش کیے جا رہے ہیں:
جدول 1: رائے سینا اور ملحقہ معرکوں کا ڈیٹا
معرکہ / مقام تاریخ برطانوی کمانڈر انقلابی لیڈر اہم واقعات / نتائج
رائے سینا (Alipur) 31 اکتوبر 1857 برگیڈیئر شاورز، وگرم کلفورڈ فیروز شاہ میواتی کلفورڈ کا قتل، گاؤں کی تباہی، خواتین کا قتلِ عام
روپڑکا (Rupraka) 19 نومبر 1857 کیپٹن ڈرمنڈ صدرالدین میو 3500 انقلابیوں کی شرکت، 400+ شہداء
سوہنا اور تاؤڑو نومبر 1857 میجر ایڈن، ولیم فورڈ سعدت خان، محراب خان دیہاتوں کا نذرِ آتش ہونا، شدید مزاحمت
جدول 2: برطانوی انتقامی کارروائیاں (میوات ریجن)
کارروائی کی قسم تفصیلات اثرات
اسکورچڈ ارتھ (Scorched Earth) درجنوں دیہات (بشمول رائے سینا، محمد پور، باکی) کو مکمل جلا دیا گیا۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے، خواتین اور بچے زندہ جل گئے۔
زمینوں کی ضبطی باغی میواتیوں کی زرخیز زمینیں ضبط کر کے وفاداروں (راجپوت/کائستھ) کو دی گئیں۔ میواتی معاشی طور پر تباہ ہو گئے اور کئی نسلوں تک غربت کا شکار رہے۔
اجتماعی سزائیں بغیر مقدمہ چلائے سینکڑوں لوگوں کو پھانسی، درختوں پر لٹکانا۔ آبادی میں خوف و ہراس پھیلایا گیا تاکہ دوبارہ بغاوت نہ ہو سکے۔

باب دہم: نتیجہ اور تاریخی بصیرت
10,1 “تاریخی حقیقت” کیا ہے؟
صارف کے سوال میں “تاریخی حقیقت” کی تلاش ایک گہرا مفہوم رکھتی ہے۔ نوآبادیاتی تاریخ نے میواتیوں کو “باغی” اور “لٹیرے” قرار دیا، جبکہ ان کی خواتین کا ذکر ہی گول کر دیا۔ لیکن دستیاب شواہد، مقامی روایات اور برطانوی افسران کی اپنی ڈائریوں کے ٹکڑوں کو جوڑنے سے جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے:
1۔ میواتی مزاحمت منظم تھی: یہ کوئی ہنگامی فساد نہیں تھا، بلکہ ایک منظم گوریلا جنگ تھی جس کی قیادت فیروز شاہ اور صدرالدین جیسے تجربہ کار لیڈر کر رہے تھے۔
2۔ خواتین ریڑھ کی ہڈی تھیں: رائے سینا کی جنگ خواتین کی شرکت کے بغیر اتنی طویل اور شدید نہیں ہو سکتی تھی۔ انہوں نے نہ صرف لاجسٹکس سنبھالی بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے مزاحمت کی روح کو زندہ رکھا۔
3۔ برطانوی خوف: خواتین اور بچوں کا قتلِ عام برطانوی طاقت کا نہیں بلکہ ان کے خوف کا مظہر تھا۔ کلفورڈ کا انتقام دراصل اس جھنجھلاہٹ کا نتیجہ تھا کہ ایک “غیر مہذب” سمجھی جانے والی قوم دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو شکست دے رہی تھی۔
10.2 ورثہ اور یادداشت
آج رائے سینا، روپڑکا اور گھاسیڑا کے مقامات پر موجود “شہید مینار” ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں 11، لیکن میوات کے لوک گیتوں میں ان “خوانین” کی بہادری زندہ ہے۔ یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے زیورات کی جگہ بیڑیاں پہننا پسند کیا اور ریشمی لباس کی جگہ کفن اوڑھ لیا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نصابی کتب اور قومی تاریخ میں جھانسی کی رانی کے ساتھ ساتھ رائے سینا کی ان گمنام “میواتنیوں” کا بھی ذکر کیا جائے جنہوں نے 1857 میں آزادی کی قیمت اپنے خون سے چکائی۔ ان کا کردار محض ایک تاریخی حاشیہ نہیں، بلکہ ہندوستان کی جنگِ آزادی کا ایک روشن اور تابناک باب ہے۔
مآخذ کی نشاندہی: اس رپورٹ میں تمام تاریخی حقائق، اعدادوشمار اور واقعات کی تصدیق فراہم کردہ تحقیقی مواد 2 تا 13 سے کی گئی ہے۔ حوالہ جات متن کے اندر متعلقہ مقامات پر درج ہیں۔
Works cited
1۔ Role of Meos in Independence Movement of India – ijrpr, accessed on November 28, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE7/IJRPR15607.pdf
2۔ Participation of Mewati People in the Revolt of 1857 – Ignited Minds Journals, accessed on November 28, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/3850/7495/18735?inline=1
3۔ Indian Rebellion of 1857 – Wikipedia, accessed on November 28, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Indian_Rebellion_of_1857
4۔ Participation of Mewati People in the Revolt of 1857 – Ignited Minds Journals, accessed on November 28, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/3850/7494/18734
5۔ Veeranganas: The Unknown Women Warriors of the 1857 Uprising | Nandini Sengupta | PLF 2025 – YouTube, accessed on November 28, 2025, https://www.youtube.com/watch?v=1y7hmQRzf2k
6۔ Gallant Haryana – The First and Crucial Battlefield of AD 1857 | PDF – Scribd, accessed on November 28, 2025, https://www.scribd.com/document/827550937/Gallant-Haryana-the-First-and-Crucial-Battlefield-of-AD-1857
7۔ Freedom Struggle in Mewat – ER Publications, accessed on November 28, 2025, https://www.erpublications.com/uploaded_files/download/dr-aijaz-ahmad-sunil-kumar_xfUSq.pdf
8۔ Anonymous warrior of 1857 war in green burqa – Awaz The Voice, accessed on November 28, 2025, https://www.awazthevoice.in/heritage-news/anonymous-warrior-of-war-in-green-burqa-4505.html
9۔ Why was Asghuri Begum burnt alive by the British in 1857? – Awaz The Voice, accessed on November 28, 2025, https://www.awazthevoice.in/women-news/why-was-asghuri-begum-burnt-alive-by-the-british-in-12448.html
10۔ Asghari Begum, A Fearless Muslim Woman From Thana Bhawan: Unyielding Spirit Of The 1857 Rebellion | Afroz Khan, New Age Islam, accessed on November 28, 2025, https://www.newageislam.com/islamic-personalities/afroz-khan-new-age-islam/asghari-begum-fearless-muslim-woman-thana-bhawan-unyielding-spirit-1857-rebellion/d/136576
11۔ Over 10,000 Mewatis were martyred in the 1857 mutiny – Awaz The Voice, accessed on November 28, 2025, https://www.awazthevoice.in/india-news/over-mewatis-were-martyred-in-the-mutiny-89.html
12۔ Mewat residents seek recognition for martyrs of 1857 – The Tribune, accessed on November 28, 2025, https://www.tribuneindia.com/news/haryana/mewat-residents-seek-recognition-for-martyrs-of-1857-473813/
13۔ DebasishDas – Page 4 – My Heritage Walks, accessed on November 28, 2025, https://lighteddream.wordpress.com/author/debasish7777/page/4/

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme