: چوہدری مجلس خاں میواتی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں میوات کا شیر

0 comment 65 views

: چوہدری مجلس خاں میواتی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں میوات کا شیر

Advertisements

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

 چوہدری مجلس خاں میواتی اور انقلابی مزاحمت کا تاریخی و سیاسی تجزیہ

تمہید

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے نوآبادیاتی نظام کے خلاف منظم مزاحمت کی بنیاد پڑی۔ عام طور پر سرکاری اور درسی تاریخ میں اس جنگ کا تذکرہ میرٹھ، دہلی، لکھنؤ اور جھانسی کے گرد گھومتا ہے، اور قیادت کا سہرا مغل شہزادوں یا جھانسی کی رانی جیسی شخصیات کے سر باندھا جاتا ہے۔ تاہم، تاریخی دستاویزات کی گہرائی میں جانے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ دہلی کے جنوب میں، کوہ ارایولی کے دامن میں بسنے والے میواتی خطے نے اس جنگ میں جس بے جگری اور استقامت کا مظاہرہ کیا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس مزاحمت کی روحِ رواں اور مرکزی کردار چوہدری مجلس خاں میواتی تھے، جنہوں نے نہ صرف انگریزی فوج کے دانت کھٹے کیے بلکہ اپنی عسکری مہارت اور قبائلی اثر و رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے فیروز پور جھرکہ کو آزادی کا قلعہ بنا دیا۔

یہ تفصیلی تحقیقی رپورٹ چوہدری مجلس خاں میواتی کے کردار، ان کی عسکری حکمت عملی، راؤ تلا رام کے ساتھ ان کے اسٹریٹجک اتحاد، اور نصیر پور (نارنول) کے فیصلہ کن معرکے میں ان کی قیادت کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ رپورٹ ان پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتی ہے جو اکثر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں، جیسے کہ میوات کے اندرونی قبائلی تنازعات (چیرکلوت گوت کا تنازعہ)

اور “وفادار” عناصر کے خلاف مجلس خاں کی اندرونی جنگ۔


میوات کا سماجی و سیاسی منظر نامہ اور بغاوت کے محرکات

مجلس خاں کے کردار کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ۱۸۵۷ء کے میوات کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کا تجزیہ کیا جائے۔ دہلی کے جنوب میں واقع یہ خطہ، جو موجودہ ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کے سنگم پر واقع ہے، تاریخی طور پر اپنی جغرافیائی سختی اور یہاں کے باشندوں (میو قوم) کی جنگجوانہ طبیعت کے لیے مشہور رہا ہے۔

۱.۱ میو قوم: ایک عسکری ورثہ

میو قوم، جو خود کو راجپوتوں کی نسل سے تعبیر کرتی ہے اور اسلام کی پیروکار ہے، ہمیشہ سے دہلی کے تخت نشینوں کے لیے ایک چیلنج رہی ہے۔ ۱۸۵۷ء تک، انگریز انتظامیہ انہیں ایک “پرتشدد” اور “مجرمانہ” رجحانات رکھنے والی کمیونٹی سمجھتی تھی، حالانکہ یہی لوگ برطانوی انڈین آرمی اور مقامی ریاستوں کی افواج میں بھرتی ہو کر اپنی بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے 1۔ یہی وہ دوہرا معیار تھا جس نے میوات میں بارود بھر دیا تھا۔ ایک طرف انہیں فوج میں بھرتی کیا جاتا، اور دوسری طرف ان کی زمینوں پر بھاری ٹیکس عائد کر کے ان کی معیشت کو تباہ کیا جا رہا تھا۔

۱.۲ ۱۸۵۷ء میں انتظامی خلا اور مجلس خاں کا ظہور

مئی ۱۸۵۷ء میں جب میرٹھ اور دہلی میں بغاوت پھوٹی، تو گڑگاؤں کے کلکٹر ولیم فورڈ (William Ford) کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ انگریزی انتظامیہ کا شیرازہ بکھرتے ہی میوات میں طاقت کا خلا پیدا ہوا۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے مقامی چوہدری اور سردار آگے آئے۔ فیروز پور جھرکہ کے علاقے میں، یہ قیادت چوہدری مجلس خاں نے سنبھالی۔ وہ محض ایک جذباتی باغی نہیں تھے، بلکہ ایک تجربہ کار فوجی اور سیاسی رہنما تھے جنہوں نے فوری طور پر ایک متبادل نظامِ حکومت قائم کرنے

کی کوشش کی 2۔


چوہدری مجلس خاں: شخصیت، پس منظر اور عہدہ

تاریخی دستاویزات میں مجلس خاں کا نام اکثر “صوبیدار مجلس خاں” کے طور پر آتا ہے، جو ان کے ماضی اور ان کی صلاحیتوں کے بارے میں اہم اشارے دیتا ہے۔

۲.۱صوبیدار” کا عہدہ اور عسکری تربیت

رپورٹس کے مطابق، مجلس خاں کے نام کے ساتھ “صوبیدار” کا لاحقہ استعمال ہوا ہے 4۔ برطانوی انڈین آرمی کے انفنٹری ڈویژن میں “صوبیدار” وہ اعلیٰ ترین عہدہ تھا جو کسی مقامی ہندوستانی کو مل سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجلس خاں ۱۸۵۷ء سے پہلے انگریزی فوج یا گوالیار کنٹنجنٹ جیسی کسی باقاعدہ فوج میں خدمات انجام دے چکے تھے۔

اس عسکری پس منظر کے اثرات درج ذیل تھے:

تنظیمی صلاحیت: وہ جانتے تھے کہ ایک بے ہنگم ہجوم کو ایک منظم لڑاکا دستے میں کیسے تبدیل کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ماتحت میو جنگجوؤں نے محض لوٹ مار نہیں کی بلکہ باقاعدہ جنگ لڑی۔

اسلحہ کا استعمال: وہ جدید برطانوی رائفلوں اور توپ خانے کی فارمیشنز سے واقف تھے، جس کا ثبوت نصیر پور کی جنگ میں ملتا ہے۔

ڈسپلن: عام دیہاتی باغیوں کے برعکس، مجلس خاں کے دستے کمانڈ اور کنٹرول کے نظام کے تحت کام کرتے تھے۔

۲.۲ چیرکلوت قبیلے کا تنازعہ اور داخلی سیاست

تحقیق کا ایک نہایت اہم اور اکثر نظر انداز کردہ پہلو فیروز پور جھرکہ کی داخلی سیاست ہے۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ فیروز پور جھرکہ میں میو قوم کے “چیرکلوت” (Chirklot) گوت کے اندر ایک پرانی دشمنی چل رہی تھی۔ یہ دشمنی نواب احمد بخش خاں کے دور سے چلی آ رہی تھی، جس میں ایک طرف بازید پور کے چاند خاں کا گروہ تھا اور دوسری طرف بکھراکا کے کبیر اور ان کے رشتہ دار 4۔

۱۸۵۷ء میں جب لاقانونیت پھیلی، تو یہ پرانی دشمنی دوبارہ زندہ ہو گئی۔ چوہدری مجلس خاں نے، جو خود اس خطے کے بااثر سردار تھے، اس صورتحال میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی طاقت کو برطانوی وفاداروں کے خلاف استعمال کیا۔ دستاویزات کے مطابق، مجلس خاں نے نہ صرف انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی بلکہ “میوات کے وفاداروں” (Loyalists) کے خلاف بھی اعلانِ جنگ کیا 1۔ انہوں نے ان مقامی سرداروں اور خنزادہ خاندانوں کو نشانہ بنایا جو انگریزوں کی مخبری کر رہے تھے یا بغاوت کا ساتھ دینے سے انکاری تھے۔ یہ “خانہ جنگی” (Civil War) دراصل بغاوت کو محفوظ بنانے کی ایک حکمت عملی تھی تاکہ انقلابیوں کی پشت پناہی میں کوئی غدار موجود نہ رہے۔


میوات اور ریواڑی کا اتحاد: مجلس خاں اور راؤ تلا رام

۱۸۵۷ء کی جنگ میں ہریانہ کے محاذ پر سب سے اہم اسٹریٹجک پیش رفت میو (مسلمان) اور اہیر (ہندو) قیادت کا اتحاد تھا۔ اس اتحاد کے معماروں میں راؤ تلا رام اور چوہدری مجلس خاں سرِ فہرست تھے۔

۳.۱ اتحاد کی نوعیت

راؤ تلا رام نے ریواڑی میں اپنی خود مختار حکومت قائم کر لی تھی اور وہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے نام پر مالیہ اکٹھا کر رہے تھے۔ تاہم، انہیں اپنی ریاست کے دفاع کے لیے افرادی قوت (Infantry) کی شدید ضرورت تھی۔ دوسری طرف، مجلس خاں کے پاس ہزاروں جذباتی اور جنگجو میو نوجوان تھے لیکن انہیں بھاری توپ خانے اور مالی وسائل کی ضرورت تھی۔

یہ دونوں رہنما ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ مجلس خاں کا راؤ تلا رام سے بہت قریبی تعلق تھا 1۔ یہ تعلق محض وقتی ضرورت کا نہیں تھا بلکہ باہمی اعتماد پر مبنی تھا۔ مجلس خاں، راؤ تلا رام کے جنگی کونسل کے اہم رکن تھے اور عسکری منصوبہ بندی میں ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔

۳.۲ دہلی کے جنوب کا دفاع

اس اتحاد نے دہلی کے جنوب میں انگریزوں کے لیے ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دی۔ جب تک دہلی میں جنگ جاری رہی، میوات اور ریواڑی کے انقلابیوں نے انگریزی رسد کی لائنوں کو کاٹے رکھا۔ دہلی کے سقوط (ستمبر ۱۸۵۷ء) کے بعد، جب بہت سے باغی مایوس ہو چکے تھے، مجلس خاں اور راؤ تلا رام نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے اپنی افواج کو نارنول کی طرف منتقل کیا تاکہ انگریزوں کے تعاقب کرنے والے دستوں کا مقابلہ ایک کھلے میدان میں کیا جا سکے۔


معرکہ نصیر پور (نارنول): آزادی کی خونی داستان

۱۶ نومبر ۱۸۵۷ء کو نارنول کے قریب نصیر پور کے میدان میں لڑی جانے والی جنگ ہریانہ کی تاریخ کا سب سے بڑا اور فیصلہ کن معرکہ تھی۔ اس جنگ میں مجلس خاں کے کردار کی تفصیلات برطانوی کمانڈرز کی رپورٹس (مثلاً کرنل جیرارڈ اور کیپٹن کولفیلڈ) اور مقامی روایات سے ملتی ہیں۔

۴.۱ افواج کی ترتیب اور مجلس خاں کی پوزیشن

انگریزی فوج کی کمان کرنل جیرارڈ (Col. Gerrard) کر رہے تھے، جن کے پاس بہترین 1st Fusiliers، کاربنیئرز (Carabineers) اور پنجاب انفنٹری کے دستے تھے۔ دوسری طرف انقلابی فوج مختلف دستوں کا مجموعہ تھی جس میں جودھ پور لیجن، گوالیار کنٹنجنٹ، اور میواتی و اہیر بے قاعدہ فوج شامل تھی۔

دستیاب نقشوں اور بیانات کے مطابق، میدانِ جنگ میں انقلابی فوج کی ترتیب کچھ یوں تھی:

بایاں بازو: راؤ کشن سنگھ اور راؤ رام لال کی کمان میں۔

دایاں بازو: جنرل صمد خاں اور شہزادہ عظیم کی کمان میں۔

مرکز/عقب (Reserve): راؤ تلا رام اور صوبیدار مجلس خاں میواتی 4۔

مجلس خاں کا راؤ تلا رام کے ساتھ عقب میں ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ “ریزرو فورس” (محفوظ دستوں) کی کمان کر رہے تھے۔ جنگی حکمت عملی میں یہ پوزیشن انتہائی اہم ہوتی ہے، کیونکہ یہی دستے جنگ کے نازک لمحات میں آگے بڑھ کر دشمن کا حملہ روکتے ہیں یا جوابی حملہ کرتے ہیں۔

۴.۲ جنگ کا احوال

جنگ کا آغاز انقلابیوں کے توپ خانے کی زبردست گولہ باری سے ہوا۔ انگریز کمانڈر کرنل جیرارڈ اس جنگ میں مارے گئے 1، جو کہ انقلابیوں کی بڑی کامیابی تھی۔ مجلس خاں کے میواتی دستوں نے انگریزی رسالے (Cavalry) کا مقابلہ روایتی بہادری سے کیا۔ میواتی جنگجو، جو تلوار بازی میں ماہر تھے، انگریز گھڑ سواروں پر ٹوٹ پڑے۔

برطانوی مورخ میلسن (Malleson) اور دیگر لکھتے ہیں کہ انقلابیوں نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا وہ حیران کن تھی۔ تاہم، گوالیار کنٹنجنٹ اور میواتی دستوں کے درمیان رابطے کی کمی اور انگریزوں کی بہتر ڈسپلن نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ جب انگریزی فوج نے سنگینوں (Bayonets) کے ساتھ حملہ کیا، تو انقلابی صفیں بکھر گئیں۔

مجلس خاں نے اس موقع پر پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنی بچی کچھی فوج کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی کوشش کی تاکہ گوریلا جنگ جاری رکھی جا سکے۔ یہ شکست حتمی ثابت ہوئی، لیکن اس نے انگریزوں کو یہ باور کرا دیا کہ میوات کو فتح کرنا آسان نہیں ہے۔

جدول ۱: نصیر پور کی جنگ میں طاقت کا موازنہ

خصوصیتانقلابی فوج (مجلس خاں و اتحادی)برطانوی فوج (کرنل جیرارڈ)
قیادتراؤ تلا رام، مجلس خاں، جنرل صمد خاںکرنل جیرارڈ (جنگ میں ہلاک)، کیپٹن کولفیلڈ
اہم دستےگوالیار کنٹنجنٹ، جودھ پور لیجن، میواتی لاشکر1st Fusiliers، Carabineers، پنجاب انفنٹری
حکمت عملیدفاعی پوزیشن، توپ خانے کا استعمالبراہ راست حملہ، کیولری چارج
نتیجہابتدائی کامیابی، بعد میں شکست اور پسپائیبھاری نقصان کے بعد فتح (پیرک وکٹری)

عظیم انتقام: گرفتاری اور شہادت

نصیر پور کی شکست کے بعد انگریزوں نے میوات میں “عظیم انتقام” (Great Retribution) کا سلسلہ شروع کیا۔ برگیڈیئر شاورز (Brigadier Showers) اور کیپٹن ڈرمنڈ نے میوات کے دیہاتوں کو آگ لگانے اور باغیوں کو چن چن کر مارنے کی مہم چلائی۔

۵.۱ خانزادہ وفاداروں کا کردار

اس نازک موڑ پر، میوات کے اندرونی غداروں اور خنزادہ کمیونٹی کے کچھ وفادار عناصر نے انگریزوں کی مدد کی۔ فیروز پور جھرکہ میں مجلس خاں کی پوزیشن کمزور ہو گئی کیونکہ انگریزوں نے بھاری نفری کے ساتھ قصبے کا محاصرہ کر لیا تھا۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ انگریزوں کے آنے کے بعد فیروز پور جھرکہ اور آس پاس کے دیہات (شاہ پور، کیرلا، چٹورا وغیرہ) کو نذرِ آتش کر دیا گیا 3۔

۵.۲ پھانسی اور اجتماعی سزائیں

مجلس خاں کو بالآخر گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر “بغاوت کی قیادت” اور “برطانوی افسران کے قتل” کا مقدمہ چلا کر سزائے موت سنائی گئی۔ اگرچہ ان کی پھانسی کی صحیح تاریخ کے بارے میں روایات میں معمولی اختلاف ہے، لیکن زیادہ تر شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں ۱۸۵۷ء کے اواخر یا جنوری ۱۸۵۸ء کے اوائل میں پھانسی دی گئی 4۔

ان کی شہادت تنہا نہیں تھی۔ نوح (Nuh) میں ایک ہی دن میں ۵۲ میواتیوں کو پھانسی دی گئی۔ ایک روایت کے مطابق، میولی گاؤں کے میڈا خاں نے انگریزوں سے درخواست کی تھی کہ ان بے گناہوں کو چھوڑ دیا جائے، لیکن انتقام کی آگ میں اندھے انگریزوں نے کسی کی نہ سنی 1۔ مجلس خاں کی پھانسی کا مقصد میواتی عوام میں خوف و ہراس پھیلانا تھا، لیکن اس نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔


مجلس خاں کی قیادت کا تجزیاتی مطالعہ

چوہدری مجلس خاں کا کردار ۱۸۵۷ء کی جنگ میں کئی حوالوں سے منفرد اور قابلِ تقلید ہے۔

۶.۱ روایتی اور جدید قیادت کا امتزاج

مجلس خاں صرف ایک روایتی قبائلی سردار (چوہدری) نہیں تھے جو صرف خاندانی وجاہت کی بنا پر قیادت کر رہے ہوں، اور نہ ہی وہ صرف ایک کرائے کے فوجی (صوبیدار) تھے۔ وہ ان دونوں خصوصیات کا حسین امتزاج تھے۔

بطور چوہدری: انہوں نے قبائلی وفاداریوں کو استعمال کرتے ہوئے افرادی قوت اکٹھی کی۔ انہوں نے “چیرکلوت” تنازعے کو اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور مخالفین کو کچل دیا۔

بطور صوبیدار: انہوں نے جنگی حکمت عملی، رسد کی فراہمی، اور میدانِ جنگ میں فوج کی صف بندی میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیا۔ نصیر پور میں ان کی پوزیشن (ریزرو کمانڈر) اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ راؤ تلا رام اور دیگر رہنما ان کی عسکری سوجھ بوجھ پر بھروسہ کرتے تھے۔

۶.۲ سیکولر اور قومی سوچ

مجلس خاں کی راؤ تلا رام (ایک ہندو اہیر راجہ) سے گہری دوستی اور اتحاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ میں مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر “ہندوستان” کی آزادی کا جذبہ کارفرما تھا۔ انہوں نے میوات کے مسلمانوں کو ایک ایسے مقصد کے لیے لڑایا جس کی قیادت بہادر شاہ ظفر اور راؤ تلا رام کر رہے تھے۔

۶.۳ وفاداروں کے خلاف سخت گیر رویہ

مجلس خاں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ انگریزوں سے زیادہ خطرناک “آستین کے سانپ” ہیں۔ ان کا میوات کے وفادار خنزادوں اور چوہدریوں کے خلاف جنگ کرنا ایک انتہائی اہم اسٹریٹجک فیصلہ تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو نصیر پور کی جنگ سے بہت پہلے ہی میوات میں مزاحمت دم توڑ دیتی۔ انہوں نے اپنے علاقے (Safe Haven) کو محفوظ بنانے کے لیے سخت ترین اقدامات اٹھائے۔


نتیجہ: تاریخ کے اوراق میں گمشدہ باب

چوہدری مجلس خاں میواتی کی داستانِ شجاعت سرکاری تاریخ کی کتابوں میں وہ جگہ نہیں پا سکی جس کی وہ مستحق تھی۔ نوآبادیاتی مورخین نے انہیں “ڈاکو” یا “باغی سردار” کے طور پر پیش کیا تاکہ ان کی جدوجہد کے سیاسی اور قومی کردار کو مسخ کیا جا سکے۔ آزادی کے بعد بھی، تقسیم ہند کے ہنگاموں اور میو قوم کی پسماندگی کے باعث ان کا نام قومی ہیروز کی فہرست میں نمایاں نہ ہو سکا۔

تاہم، جدید تحقیق اور مقامی لوک روایات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مجلس خاں ۱۸۵۷ء کے ایک عظیم جنگجو اور منتظم تھے۔ ان کی قربانی صرف ایک فرد کی قربانی نہیں تھی، بلکہ یہ اس پوری قوم (میوات) کی قربانی کی علامت تھی جس کے ۱۰،۰۰۰ سے زائد سپوتوں نے آزادی کی شمع روشن رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا 6۔ فیروز پور جھرکہ کی گلیاں اور نصیر پور کا میدان آج بھی مجلس خاں کی دلیری کی گواہی دیتے ہیں۔

حوالہ جات کا تجزیہ اور خلاصہ:

اس رپورٹ میں شامل حقائق مختلف تحقیقی ٹکڑوں (Snippets) سے اخذ کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر میوات کی مقامی تاریخ 1، نصیر پور کی جنگ میں فوجوں کی ترتیب 4، اور انگریزوں کی انتقامی کارروائیوں 1 کے حوالہ جات مجلس خاں کے مرکزی کردار کو متعین کرتے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کچھ ذرائع میں “مجلس خاں” نامی دیگر شخصیات (جیسے بنگال کے حکمران یا ٹوانہ سردار) کا ذکر ملتا ہے، جنہیں اس رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا تاکہ تاریخی درستگی برقرار رہے۔ یہاں صرف ۱۸۵۷ء کے میواتی ہیرو کا احاطہ کیا گیا ہے۔

Works cited

Freedom Struggle in Mewat – ER Publications, accessed on November 24, 2025, https://www.erpublications.com/uploaded_files/download/dr-aijaz-ahmad-sunil-kumar_xfUSq.pdf

History of Mewat | PDF – Scribd, accessed on November 24, 2025, https://www.scribd.com/document/694253851/History-of-Mewat

Role of Meos in Independence Movement of India – ijrpr, accessed on November 24, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE7/IJRPR15607.pdf

Gallant Haryana – The First and Crucial Battlefield of AD 1857 | PDF – Scribd, accessed on November 24, 2025, https://www.scribd.com/document/827550937/Gallant-Haryana-the-First-and-Crucial-Battlefield-of-AD-1857

Mewat – Wikiwand, accessed on November 24, 2025, https://www.wikiwand.com/en/articles/Mewat

Over 10,000 Mewatis were martyred in the 1857 mutiny – Awaz The Voice, accessed on November 24, 2025, https://www.awazthevoice.in/india-news/over-mewatis-were-martyred-in-the-mutiny-89.html

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme