میو کی فطری زندگی
(ای مضمون:میو قوم کو شاندار ماضی اور جنگ آزادی 1857 کی پہلی سطرن پے مشتمل ہے۔ایک کتاب مکمل ہوچکی ہے۔میو قوم کا اہل علم حضرات کے پئے پیش لفظ۔مقدمہ۔اظہار رائے وغیرہ کے مارے بھیجو ہوئیو ہے۔جلد چھپ کے میو قوم کے آگے لادھری جائے گی۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)
لازم ہےنظام نو کے مارے نقاش نیا فنکار نیا
تقديریقینا بدلے گی جب ہاتھ بدلتا جاں گا
میو کی طبیعت میں اب تک فطری خصائل موجود ہاں،ان کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لئیو جب بھی کائی نے ان سو زبردستی کرن کی کوشش کری تو۔ہر طرح سو مقابلہ کرو، دشمن دکھیل کے باہر کردئیو تفصیل تو اپنی جگہ پے آئیگی لیکن مغلن کی حکومت اے دیکھ لئیو کہ جب وےشروع میں آیا تو اپنو آپ حلال کروالئیو لیکن اطاعت قبول نہ کری۔یہی میو قوم ہے جب مغلن پے مشکل وقت آئیو تو ان کی حفاظت کے مارے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔کیونکہ میو قو م ظالم و مظلوم کی شناخت بہتر انداز میں کرسکے ہے۔جب مغلن نے فاتح بن کے دہلی میں قدم دھرو تو میوون نے

مزاحمت کری۔لیکن جب مغلن نے اپنی سلطنت گنوادی ایک ٹمٹاتو دیوا بن کے رہ گیا اور تازہ دم انگریز آیا اور انن نے مغلن کے ساتھ دھکا کرو تو

میو مغلن کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہویا ۔ حکومت کرن کو واضح خیال میو قوم کا ذہن میں پہلے ہو نہ بعد میں ۔میو اپنی دنیا میں مگن ہو۔روکھی سوکھی کھاکے مزہ سو اپنا ڈھور ڈنگرن میں مگن ہوجاوے ہو ۔ لیکن جب ان کی سرزمین میں کوئی قدم دھرے ہو تو یہ برداشت نہ کرے ہا۔ اِی بات بھی شک سو بالا تر ہے کہ میو قوم مذہبی کہلاوے ہے لیکن اُنن نے اپنی سرزمین کی حفاظت میں کدی مذہب نہ آن دئیو۔خانوہ کی جنگ میں ایک گھاں کومسلمان فاتح ہو، جانے کلمہ کا نام پے جنگ میں ساتھ دینا کی خواہش کو اظہار کرو ہو۔دوسری گھاں کو ایک ہندو راجہ ہو۔ان دونون میں سو کائی نہ کائی کے ساتھ تو چلنو ہو تو میو سپوت نے دَھرتی کی نسبت سوُ رانا سانگھا کے ساتھ جانو مناسب سمجھو اور پوری دیانت داری سو شریک جنگ ہوئیو ۔ اپنی فوج کے ساتھ کٹ مرَو۔افسوس جاہندو راجہ کے ساتھ مادر وطن کی حفاظت میں تلوار اُٹھائی ہی اُو میدان میں نہ ٹک سکو۔لیکن میو سپوت اپنی فوج کے ساتھ آخری سانس تک لڑو اور جام شہادت نوش کرگیو۔
اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزدی میں میو جنگ میں یامارے کوُدا کہ انگریز اور ان کا ٹاوٹن نے میوون کی گردن دَبوچ لی ہی۔کوئی نہ کوئی سہارا اور بندھن ہونوچاہےیا لڑائی میں مغل سلطنت کوآخری ٹمٹماتو چراغ بہادر شاہ ظفر ہو۔میون نے واکا حق میں تلوار اٹھا لی۔جیسو آن والی سطرن میں لکھو گئیو ہے مغل بادشاہ خودبھی جانے ہو کہ انگریز سو ُماتھو لگانو۔تو واکا بس کی بات نہ ہے لیکن ایک بھرم ہوجو پورا ہندستان کا باشندان نے اپنا مہیں مائل کرسکے ہو۔
ہندوستان کی جنگِ آزادی 1857، جاسو نوآبادیاتی مورخین نے “غدر” اور قوم پرستن نے پہلی جنگِ آزادی” کو نام دیو، محض ایک فوجی بغاوت نہ ہی، بلکہ ِ اِی برطانوی سامراج کے خلاف ایک عوامی سیلاب ہو۔ روایتی تاریخ کا اوراق زیادہ تر دہلی، لکھنؤ، کانپور اور جھانسی کا مراکز اورہوں کا حکمران ہا، بہادر شاہ ظفر، نانا صاحب، اور رانی لکشمی بائی کے گرد گھوماںہاں۔ لیکن یا جنگ کو ایک اور بھیانک اور ولولہ انگیز محاذہو جو دیہی ہندوستان کا کھیت اور پہاڑن میں گرم ہویوہو، جو اکثر تاریخ کی کتابن میں حاشیہ پے گیر دئیو گئیو ہوتسلی کے مارے منہاج السراج کی طبقات ناصری۔اور تاریخ فرشتہ ، تاریخ فیروز شاہی دیکھ سکوہو۔ اِی محاذ “میوات” کو خطہ ہو، جہاں کسان، مزدور اور مقامی چوہدرین نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ایک ایسی مزاحمت کی بنیاد رَکھی جا کی مثال نہ ملے ہے۔
1857ءجنگ میں ہندستان کا طول و عرض میں بسَن نے والی ساری قومن نے بقدر جسہ حصہ لئیو۔لیکن میو دہلی کا پاڑوسی ہا۔دَستیاب تاریخی مواد میں بھی اُن کا بارہ میں کچھ اچھا الفاظ موجود نہ ہا۔انگریزن نے بجائے خود تحقیق و تدقیق کرن کے، طبقات ناصری۔تاریخ فیروز شاہی۔تاریخ فرشتہ۔ مغل شہنشاہ بابرکی تزک۔ تزک جہانگیر وغیرہ کتب میں جو کچھ لکھو گئیو ہو۔دل و جان سو تسلیم کرو،جانچ پڑتال کرن کے بجائے وہی دُھندلی تصویر جو سابقہ لوگن نے بنائی ہی دُوبارہ سو پورا خدو خال کے ساتھ بناکے اپنا ریکارڈ کو حصہ بنالی ۔وَائی کے مطابق اپنی پالیسیز(Policies) ترتیب دی۔
میو قوم نے جیسے پہلا آن والا فاتح تسلیم نہ کرا۔انگریزن کے ساتھ بھی ایسو اِی کچھ برتائو کرو۔یہی وجہ ہے کہ میو قوم کدَی بھی کائی حکومت کی منظور نظر نہ رہی۔نہ میو قوم کائی سو دَب سکی۔میو قوم کے ساتھ بہت سا اَلمیہ ہویا لیکن سب سوُ بڑو المیہ اِی ہوئیو کہ یانے اپنی تاریخ نہ لکھی۔دنیا میں لکھی ہوئی چیز کی اہمیت رَہوے ہے۔ایک کتاب لکھ دی اَب یا کتاب کی نقول(کاپی) دنیا بھر کی لائبریرین میں دَھری جانگی۔
جوبھی تاریخ کو طالب علم اِن کو مطالعہ کرےگو تو واکو فیصلہ لکھن والان سوُ کدی بھی الگ نہ ہوسکے گوکیونکہ فیصلہ تو وا مطالعہ کے مطابق ہوئے گو جو مواد وانے مطالعہ کرَو ہے۔
