میو قوم کے بارے میں علمائے دیوبند اور علمائے ندوۃ العلماء کیتحریریں اور خدمات

0 comment 137 views
میو قوم کے بارے میں علمائے دیوبند اور علمائے ندوۃ العلماء کی تحریریں اور خدمات
میو قوم کے بارے میں علمائے دیوبند اور علمائے ندوۃ العلماء کی تحریریں اور خدمات

میو قوم کے بارے میں علمائے دیوبند اور علمائے ندوۃ العلماء کی
تحریریں اور خدمات

Advertisements


از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو


ابتدایہ
یہ تحریر میو قوم کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے علماء کی تحریروں اور عملی خدمات کا ایک جامع جائزہ پیش کرتی ہے۔ ر تحریر کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا میو قوم سے تعلق زیادہ براہ راست اور عملی نوعیت کا رہا ہے، جس کا سب سے نمایاں اظہار تبلیغی جماعت کے میوات میں بنیادی کام کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، ندوۃ العلماء کا اثر و رسوخ زیادہ بالواسطہ، اس کی وسیع تر فکری، تعلیمی، اور اتحاد پر مبنی اصلاحی کوششوں سے پیدا ہوتا ہے۔ ر تحریر میں دونوں مکاتبِ فکر کے درمیان کچھ لطیف لیکن اہم روابط بھی سامنے آئے ہیں، جیسے کہ ندوہ کی علمی بحثوں میں ایک میو فرد کا ذکر اور ایک ممتاز ندوی عالم کا تبلیغی تحریک کے ساتھ فکری تعلق۔ یہ ر تحریر دونوں مکاتبِ فکر کے میو قوم کی مذہبی اور سماجی ترقی میں متضاد لیکن تکمیلی کردار کو واضح کرتی ہے، جس میں “تحریریں” صرف رسمی متون تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات اور فکری مباحث کو بھی شامل کرتی ہیں۔

  1. تعارف: میو قوم اور ہندوستان میں بڑی اسلامی تحریکیں

2.1. میو قوم: تاریخی اور سماجی-مذہبی پس منظر
میو قوم ایک قدیم آبادی ہے جو راجپوت نومسلموں پر مشتمل ہے اور دہلی کے جنوب میں واقع میوات کے علاقے میں آباد ہے ۔ ان کی تاریخی شناخت آریائی چھتری راجپوت نسل سے تعلق رکھتی ہے، اور وہ تومر، یادوبنسی، کنواہہ، چوہان، بڈگوجر، راٹھور اور پنواری جیسے مشترکہ رسم و رواج اور گوتوں کے حامل ہیں ۔ یہ ان کے مضبوط قبل از اسلام ثقافتی اور سماجی ورثے کی نشاندہی کرتا ہے۔
تاریخی طور پر، میو اپنی شجاعت اور بہادری کے لیے مشہور تھے ۔ تاہم، مسلم حکمرانی کے ابتدائی ادوار میں، عرب مورخین اور مسٹر ایلیٹ جیسے برطانوی مصنفین نے انہیں “خونخوار” اور سندھ و راجپوتانہ میں مسلم حکمرانوں کے ساتھ تنازعات میں ملوث ہونے کا ذکر کیا ہے ۔ یہ تاریخی پس منظر قائم شدہ حکام کے ساتھ ان کے پیچیدہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔

جدید اصلاحی تحریکوں سے قبل

، میو قوم میں نمایاں ہم آہنگی کی رسمیں پائی جاتی تھیں، جنہیں “ایمان اور کفر کے درمیان زندگی گزارنے” سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ وہ عیدین، محرم، شب برات جیسے مسلم تہواروں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم تہوار بھی اسی جوش و خروش سے مناتے تھے۔ ان کی شادی کی رسومات میں اکثر برہمن (تاریخ مقرر کرنے کے لیے) اور قاضی دونوں شامل ہوتے تھے، جو ہندو اور اسلامی رواجوں کے امتزاج کی نشاندہی کرتا ہے۔ مزید برآں، دھوتی مردوں کا عام لباس تھا، اور مساجد خال خال تھیں اور اکثر نمازیوں سے خالی رہتی تھیں، جو بنیادی اسلامی طریقوں پر عمل پیرا ہونے میں کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ۔ میو قوم کی ہم آہنگی پر مبنی رسومات اور ان کی “برائے نام مسلمان” حیثیت کی یہ تفصیلی وضاحت اس بات کا ایک اہم پس منظر فراہم کرتی ہے کہ تبلیغی جماعت جیسی مذہبی اصلاحی تحریکوں کو میوات میں کیوں سازگار ماحول اور ان کے کام کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ محض حقائق بیان کرنے سے آگے بڑھ کر ان بنیادی حالات کی وضاحت کرتا ہے جنہوں نے اس مداخلت کو ضروری بنایا۔

2.2. دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء: مختصر تعارف

دارالعلوم دیوبند:
یہ ادارہ 1867 میں قائم ہوا اور ایک قدامت پسند، روایتی ادارہ کے طور پر ابھرا جس کا بنیادی مقصد دینی تعلیم تھا، جس میں روایتی اسلامی علوم اور فقہ حنفی پر زور دیا گیا ۔ اس کی بنیاد برطانوی نوآبادیاتی دور میں مسلم طاقت کے زوال اور روایتی اسلامی تعلیمات کو لاحق خطرات کے جواب میں رکھی گئی تھی۔ یہ برصغیر پاک و ہند میں اسلامی علم کے تحفظ اور فروغ کا ایک بڑا مرکز بن گیا، جس نے قرآن و سنت کی کلاسیکی تعبیرات پر عمل پیرا ہونے کی وکالت کی ۔
ندوۃ العلماء: یہ کونسل 1892 میں کانپور میں تشکیل دی گئی ، اور بعد میں اس کا مشہور دارالعلوم 1898 میں لکھنؤ میں قائم ہوا ۔ اس کا بنیادی مقصد روایتی دارالعلوم دیوبند اور جدیدیت پسند علی گڑھ تحریک کے درمیان نظریاتی خلیج کو پر کرنا تھا، جس کا مقصد ایک زیادہ متوازن نقطہ نظر اختیار کرنا تھا جو جدید علوم کو روایتی اسلامی تعلیمات کے ساتھ مربوط کرے ۔ ندوہ کے مقاصد کثیر الجہتی تھے، جن میں نصاب کی اصلاح (نصاب اصلاحی)، باہمی فرقہ وارانہ تنازعات کا حل (رفع نزاع باہمی)، اور غیر مسلموں میں اسلام کا تعارف (غیر مسلموں میں اسلام کا تعارف) شامل تھے ۔ اس کا مقصد “اخلاقی تجدید” اور عالمی سطح پر “اسلام کی تبلیغ” بھی تھا ۔
دیوبند (روایتی، قدامت پسند، مذہبی پاکیزگی کے تحفظ پر توجہ مرکوز) اور ندوہ (اصلاح پسند، روایتی اور جدید کو جوڑنے والی، فکری اتحاد اور وسیع تر سماجی ترقی پر توجہ مرکوز) کے الگ الگ بنیادی فلسفوں کو سمجھنا میو قوم کے ساتھ ان کی متعلقہ سرگرمیوں کی تشریح کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ بنیادی فرق تقابلی تجزیے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے، جس میں وسیع تر مسلم سماجی چیلنجوں کے لیے ان کے مختلف نقطہ نظر اور اس کے نتیجے میں میو قوم کے لیے ان کی مخصوص خدمات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

  1. دارالعلوم دیوبند کا میو قوم سے تعلق

3.1. میوات میں تبلیغی جماعت کی ابتداء: ایک دیوبندی سے منسلک تحریک
دیوبندی علماء کا میو قوم کے ساتھ سب سے اہم اور براہ راست تعلق تبلیغی جماعت کے ذریعے ہے، جو کہ ایک عالمی اسلامی اصلاحی تحریک ہے جسے مولانا محمد الیاس کاندھلوی (وفات 1944) نے 1926 میں قائم کیا تھا ۔ یہ تحریک بنیادی طور پر فقہ حنفی کے دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے ، جو دیوبندی اصولوں کی ایک عملی، عوامی سطح پر توسیع کی نمائندگی کرتی ہے۔

ابتدائی کوششیں اور چیلنجز:

میوات میں اس تحریک کی بنیاد مولانا الیاس سے بھی پہلے ان کے والد مولانا محمد اسماعیل نے رکھی تھی، جنہوں نے نظام الدین، دہلی (جو میوات کی سرحد پر تھا) میں ایک مکتب قائم کیا تاکہ میو بچوں کو دینی تعلیم کے لیے لایا جا سکے۔ اس اقدام نے میوؤں میں باہمی تعلق اور تعلق کا احساس پیدا کرنا شروع کیا ۔ ان کے بڑے بیٹے مولانا محمد نے اس مشن کو جاری رکھا ۔ مولانا الیاس، جو ابتدا میں مظاہر علوم سہارنپور میں ایک کامیاب اور مقبول مدرس تھے، میوؤں میں پھیلی ہوئی جہالت اور ہم آہنگی سے شدید پریشان تھے، جنہیں “برائے نام مسلمان” اور “کلمہ اور نماز جیسے بنیادی ارکان سے ناواقف” قرار دیا گیا تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ روایتی مکاتب اکیلے “جہالت اور بددینی کے طوفان” کو روکنے میں ناکافی تھے ۔ ایک اہم لمحہ اس وقت آیا جب ایک مکتب کے حافظ (قرآن حفظ کرنے والے) کو داڑھی منڈی ہوئی اور غیر اسلامی وضع قطع کے ساتھ پیش کیا گیا، جس نے قوم کی روحانی حالت کے بارے میں ان کی تشویش کو مزید بڑھا دیا ۔

تبلیغی گشت اور طریقہ کار کی پیدائش

: 1925 (1344 ہجری) میں اپنے دوسرے حج کے بعد، مولانا الیاس نے ایک گہرا روحانی تجربہ کیا، انہیں ایک خواب میں الہامی ہدایت ملی کہ وہ ہندوستان واپس جائیں اور یہ کام شروع کریں ۔ اس کے بعد انہوں نے “تبلیغی گشت” (تبلیغی دورے) شروع کیے، لوگوں کو، خاص طور پر دکانداروں کو، مسجد میں بنیادی اسلامی تعلیمات جیسے کلمہ اور نماز سیکھنے کی دعوت دی ۔ تحریک کا طریقہ کار، جو ابتدا میں وسیع تھا، چھ بنیادی اصولوں میں سمو دیا گیا: ایمان، نماز، علم و ذکر، اکرام مسلم، اخلاص نیت، اور دعوت و تبلیغ ۔ یہ اصول مسلمانوں کے تمام طبقات میں ان کی عالمگیر قبولیت کے لیے منتخب کیے گئے تھے، اور فرقہ وارانہ تنازعات سے جان بوجھ کر گریز کیا گیا تاکہ وسیع تر اپیل اور افادیت کو یقینی بنایا جا سکے ۔

میو قوم پر اثرات:

تبلیغی جماعت کے کام نے میوؤں میں ایک اہم مذہبی بیداری پیدا کی، انہیں “برائے نام مسلمانوں” سے زیادہ عملی پیروکاروں میں تبدیل کیا ۔ 1922 میں نوح میں ایک بڑے مدرسے، مدرسہ معین الاسلام، کا قیام، جس کے تاریخی دستاویزات آج بھی وہاں محفوظ ہیں، میوات میں دینی تعلیم کے لیے طویل المدتی ادارہ جاتی عزم کی نشاندہی کرتا ہے ۔ میو قوم کا تبلیغی جماعت کے ساتھ مضبوط تعلق عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے، جو نوح کی تحریک کے لیے اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ تبلیغی جماعت کے طریقہ کار کا ابتدائی وسیع کوششوں سے مختصر “چھ اصولوں” میں ارتقاء ، ایک نیم خواندہ، ہم آہنگی پر مبنی قوم میں بڑے پیمانے پر مذہبی تعلیم کے مخصوص چیلنجوں کے لیے دیوبندی قیادت کے عملی اور موافقت پذیر نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے۔ بنیادی طور پر قبول شدہ اہم اصولوں پر توجہ مرکوز کرنے والی یہ حکمت عملی، میوات میں اس کی کامیابی اور اس کے بعد عالمی سطح پر اس کے پھیلاؤ کی کلید تھی، جو مذہبی احیاء کے لیے ایک لچکدار لیکن اصولی نقطہ نظر کو نمایاں کرتی ہے۔ تبلیغی جماعت اور میوات کے درمیان گہرا تعلق، جس میں نوح میں مدرسہ معین الاسلام جیسے تعلیمی اداروں کا قیام بھی شامل ہے ، دیوبندی مکتب فکر کے عوامی سطح پر اصلاح کے عزم اور ہندوستان میں ایک مخصوص، تاریخی طور پر پسماندہ مسلم قوم کی مذہبی شناخت اور طریقوں کو تشکیل دینے میں اس کے اہم، تبدیلی لانے والے کردار کو واضح کرتا ہے۔

3.2. دیوبندی علمی خدمات اور میو قوم سے متعلق فتاویٰ

اشاعتیں اور تحقیقی کوششیں: اگرچہ بنیادی توجہ عملی اصلاح پر تھی، لیکن دیوبند سے منسلک حلقوں کی طرف سے میو قوم میں علمی دلچسپی کے شواہد موجود ہیں۔ ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی (دہلی) اور شبیر احمد خان میواتی (لاہور) جیسے محققین اور صحافیوں نے میو قوم اور میوات کے علاقے پر نایاب کتابوں، کتابچوں اور مضامین کو پی ڈی ایف فارمیٹ میں محفوظ اور شائع کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔ اس اقدام میں توصیف الحسن میواتی الہندی کی “تاریخِ میو اور داستانِ میوات” کا مکمل ایڈیشن شامل ہے ، جو میو قوم کی ایک اہم تاریخی دستاویز ہے۔ ایک اور متعلقہ تاریخی کام، حکیم عبدالشکور کی “تاریخِ میو چھتری”، جو 1974 میں شائع ہوئی، میو نسب اور اہم شخصیات پر روشنی ڈالتی ہے، جو میو تاریخ کے ساتھ علمی تعلق کو مزید ظاہر کرتی ہے ۔

فتاویٰ (مذہبی احکام):

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند نے میو کے طور پر اپنی شناخت بتانے والے افراد کے سوالات کے جواب میں مخصوص فتاویٰ جاری کیے ہیں۔
ایک قابل ذکر مثال اپنے ذاتی نام کے ساتھ اپنی ذات یا “قوم” کا نام، جیسے “میو” لکھنے کی اجازت سے متعلق ہے۔ 1 ستمبر 2020 کو جاری کردہ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ اس عمل میں شرعی طور پر کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ ذات کے ناموں کے استعمال سے متعلق فتویٰ اس لیے اہم ہے کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دیوبند، ایک عالمگیر اسلامی شناخت کو فروغ دینے اور ہم آہنگی پر مبنی طریقوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ، میو جیسی قوموں کے موجودہ سماجی ڈھانچے کو بھی تسلیم کرتا اور ان کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتا تھا، جب تک کہ وہ بنیادی اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہوں۔ شناخت کے حوالے سے یہ عملی نقطہ نظر مذہبی رہنمائی کے دائرے میں سماجی حقائق کی ایک باریک بینی سے سمجھ کو ظاہر کرتا ہے۔

  1. ندوۃ العلماء کا مسلم قوموں (میوؤں سے متعلق) کے لیے نقطہ نظر اور خدمات

4.1. ندوہ کا بنیادی فلسفہ اور مقاصد

ندوۃ العلماء 1892 میں اس بنیادی مقصد کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ روایتی دارالعلوم دیوبند اور جدیدیت پسند علی گڑھ تحریک کے متضاد نقطہ نظر کو ہم آہنگ کیا جا سکے ۔ اس کا مقصد 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانی مسلم قوم کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حنفی، اہل حدیث، اور شیعہ سمیت مختلف مکاتب فکر کے مسلم علماء کے لیے ایک متحد پلیٹ فارم بنانا تھا ۔
اس کے بنیادی مقاصد کثیر الجہتی تھے، جن میں اسلامی نصاب کی اصلاح (نصاب اصلاحی)، باہمی فرقہ وارانہ تنازعات کا حل (رفع نزاع باہمی)، اور غیر مسلموں میں اسلام کا تعارف (غیر مسلموں میں اسلام کا تعارف) شامل تھے ۔ ندوہ کا مقصد “اخلاقی تجدید” اور عالمی سطح پر اسلام کی تبلیغ” بھی تھا ۔

ندوہ نے علماء (مذہبی علماء) کو مذہبی اور جدید دونوں علوم سے آراستہ کرکے مسلم معاشرے میں ان کی عزت اور اہمیت کو بحال کرنے کی کوشش کی ۔ یہ خطے کے چند ایسے اداروں میں سے ایک بن گیا جس نے مکمل طور پر عربی زبان میں اعلیٰ اسلامی علوم کی تعلیم دی، جس نے عالمی سطح پر طلباء کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ ندوہ کا تقسیم کو ختم کرنے اور فکری اصلاح کو فروغ دینے کا بنیادی مقصد میوؤں سمیت مسلم قوموں کو فکری قیادت اور ایک متحد علمی محاذ کے ذریعے متاثر کرنے کی حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے، بجائے اس کے کہ براہ راست بڑے پیمانے پر متحرک کیا جائے۔ یہ ایک بالائی، فکری اور نظامی نقطہ نظر کو نمایاں کرتا ہے، جو دیوبند کے عوامی ماڈل سے مختلف ہے، جس کا ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی منظر نامے پر ایک وسیع تر، بالواسطہ اثر پڑے گا۔

4.2. ممتاز ندوی علماء اور ان کا وسیع تر اثر (میوؤں سے بالواسطہ تعلق کے ساتھ)

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (علی میاں)
: ایک انتہائی بااثر ندوی عالم، مفکر، مبلغ، اور کثیر التصانیف مصنف، جنہوں نے متعدد زبانوں میں 500 سے زائد کتابیں لکھی ہیں ۔ ان کی وسیع تصانیف، جیسے “تاریخِ دعوت و عزیمت” اور “علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں” ، نے اسلامی تاریخ، احیاء، اور جدید دور میں مذہبی قیادت کی اہم ذمہ داریوں پر گہری بصیرت فراہم کی۔
بھائی چارے اور انسانی اقدار پر زور: مولانا علی ندوی نے تمام لوگوں کے درمیان محبت، الفت اور بھائی چارے کی اہمیت پر مسلسل زور دیا، دوسروں کی مشکلات کو بانٹنے کو ایک اعلیٰ انسانی خوبی قرار دیا۔ ان کی تحریک “پیامِ انسانیت” کا مقصد ان عالمگیر اقدار کو انفرادی، مقامی، اور قومی سطح پر فروغ دینا تھا، جس سے بین الکمیونٹی ہم آہنگی کو فروغ ملا ۔

تاریخی اور سماجی تجزیہ

: ندوی کی تحریروں میں ہندوستانی مسلم قوموں کو درپیش تاریخی بیانیوں اور چیلنجوں کا بھی تنقیدی تجزیہ کیا گیا ہے، جیسا کہ ان کی کتاب ہندوستانی مسلمان ایک نظر میں” میں دیکھا جا سکتا ہے، جو متنوع ہندوستانی قوموں (ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں) کے مشترکہ ثقافتی ورثے پر بحث کرتی ہے۔ انہوں نے تاریخی غلط بیانیوں کو درست کرنے کی بھی کوشش کی، جو تاریخی تحقیق میں حقائق کی درستگی اور غیر جانبداری کے عزم کو ظاہر کرتا ہے ۔

تبلیغی جماعت کے ساتھ فکری تعلق

: اہم بات یہ ہے کہ مولانا علی ندوی نے “مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ۔ یہ کام، جو ایک ممتاز ندوی عالم کی طرف سے ہے، تبلیغی جماعت کا براہ راست تجزیہ اور دستاویز بندی کرتا ہے، ایک ایسی تحریک جو میو قوم کی مذہبی اصلاح کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ دیگر اسلامی تحریکوں کی عملی کوششوں میں علمی دلچسپی اور ان کی شناخت کو ظاہر کرتا ہے۔ مولانا علی ندوی کا تبلیغی جماعت کے ساتھ فکری تعلق، باوجود اس کے کہ یہ ایک دیوبندی سے منسلک تحریک تھی، اسلامی احیاء کی اہم کوششوں کے فکری مشاہدے اور تجزیے کے لیے ایک وسیع تر ندوی نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے، قطع نظر ان کے ادارہ جاتی اصل کے۔ یہ ہندوستان میں اسلامی اصلاح کے وسیع تر منظر نامے کو سمجھنے اور دستاویز بندی کرنے کے لیے ندوہ کے عزم کو ظاہر کرتا ہے، جو بالواسطہ طور پر میو قوم کی تبدیلی کو سمجھنے میں معاون ہے، کیونکہ یہ اس تحریک پر ایک علمی نقطہ نظر فراہم کرتا ہے جس نے اسے تشکیل دیا۔
لطیف براہ راست ربط: ندوۃ العلماء سے متعلق بحثوں میں “ابو المکارم میوی” کا ذکر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ میو قوم کے افراد ندوہ کے فکری یا علمی حلقوں میں موجود تھے، یا کم از کم ان کی بحثوں میں تسلیم کیے گئے تھے۔ یہ ایک لطیف لیکن براہ راست تعلق فراہم کرتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ندوہ کا اثر و رسوخ صرف نظریاتی نہیں تھا بلکہ اس نے مخصوص قوموں، بشمول میوؤں، کے افراد کو اپنے تعلیمی اور فکری دائرے میں بھی شامل کیا۔

4.3. ندوہ کے تعلیمی اور تحقیقی اقدامات (عام اثرات)

دارالعلوم ندوۃ العلماء اسلامی تعلیم کا ایک اہم مرکز ہے، جو عالمی سطح پر طلباء کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور مختلف سنی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، اہل سنت والجماعت) کے علماء تیار کرتا ہے ۔ اس کے نصاب میں جدید علوم، ریاضی، اور پیشہ ورانہ تربیت کو روایتی اسلامی علوم کے ساتھ شامل کرنے کے لیے اصلاح کی گئی، جس کا مقصد ایسے مکمل افراد تیار کرنا تھا جو عصری چیلنجوں سے نمٹ سکیں ۔
ندوہ اپنے مختلف شعبوں اور تحقیقی اقدامات کے ذریعے “نئی نسل کی ایمانی و فکری تربیت” اور “مسلمانوں میں اعتماد بحال کرنے” میں سرگرم عمل ہے ۔ یہ مسلمانوں کو درپیش عصری مسائل، جیسے مساجد میں خواتین کی آمد، عوامی مقامات پر نماز، اور زکوٰۃ کے معیارات پر تحقیق اور بحث و مباحثہ کرتا ہے، جو جدید زندگی کے لیے فقہی رہنمائی فراہم کرنے کے اس کے عزم کو ظاہر کرتا ہے ۔

اس کے ادارہ جاتی پہنچ کی ایک مثال وسطی ہند میں دارالعلوم تاج المساجد ہے، جو ندوۃ العلماء کی ایک معروف شاخ کے طور پر کام کرتا ہے، اور 1949 سے تعلیم، تبلیغ، اور سماجی کاموں کی خدمات پیش کر رہا ہے ۔ اگرچہ اس کا مخصوص مقام میوات نہیں ہے، لیکن یہ ندوہ کے تعلیمی مراکز کا ایک نیٹ ورک قائم کرنے کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے جو مختلف مسلم قوموں کی خدمت کر سکتا ہے، بشمول ان کو جنہیں دینی تعلیم اور سماجی ترقی کی ضرورت ہے۔ ندوہ کا جامع تعلیمی اصلاح اور فکری ترقی پر گہرا زور مسلم قوموں، بشمول میوؤں، کی مجموعی حالت کو بہتر بنانے کی حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے، جس میں ایک پڑھے لکھے اور پراعتماد قیادت اور عوام کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یہ اصلاح کے لیے ایک طویل المدتی، نظامی نقطہ نظر ہے، جو اگرچہ براہ راست میوؤں کو ہدف نہیں بناتا، لیکن ان کے لیے دستیاب فکری اور روحانی وسائل میں اضافہ کرتا

ہے۔

  1. تقابلی تجزیہ میو اصلاح کے تناظر میں دیوبند بمقابلہ ندوہ

5.1. منفرد طریقہ کار اور توجہ کے شعبے
خصوصیت/پہلو دارالعلوم دیوبند (نقطہ نظر/توجہ) ندوۃ العلماء (نقطہ نظر/توجہ)
بنیادی فلسفہ قدامت پسند، روایتی اسلامی تعلیم؛ اسلامی ورثے کا تحفظ۔ روایتی اور جدید تعلیم کو جوڑنا؛ فکری اصلاح؛ مسلم فرقوں میں اتحاد۔
تعلق کا بنیادی طریقہ (میو تناظر) عوامی، بڑے پیمانے پر متحرک کرنا (تبلیغی جماعت)؛ براہ راست دعوت۔ فکری قیادت؛ تعلیمی اصلاحات؛ علمی مباحث اور اشاعت۔
ہدف (میو تناظر) عام لوگ، ناخواندہ عوام، ہم آہنگی پر مبنی طریقوں والے۔ علماء، دانشور، اعلیٰ اسلامی تعلیم کے طلباء؛ وسیع تر مسلم معاشرہ۔
اہم شخصیات (میو تناظر) مولانا محمد الیاس کاندھلوی (تبلیغی جماعت کے بانی)۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (اصلاحی تحریکوں کا فکری تجزیہ، مسلم معاشرے پر وسیع تر تحریریں)۔
مخصوص نتائج (میو تناظر) تبلیغی جماعت کا کام (مذہبی بیداری، مدرسہ کا قیام)، میو شناخت پر فتاویٰ، میو تاریخ کی کتابوں کو محفوظ کرنے کی کوششیں۔ تبلیغی جماعت پر تحریریں، بحثوں میں میو افراد کی شمولیت/تسلیم، نصاب کی اصلاح اور علمی پیداوار کے ذریعے عمومی تعلیمی ترقی۔

دیوبند کا نقطہ نظر (تبلیغی جماعت کے ذریعے)

: یہ عوامی، بڑے پیمانے پر متحرک کرنے، اور براہ راست دعوت کے نقطہ نظر سے نمایاں ہے۔ میوات میں اس کی بنیادی توجہ بنیادی مذہبی اصلاح پر تھی: بنیادی اسلامی تعلیمات (کلمہ، نماز) کو راسخ کرنا، ہم آہنگی کا مقابلہ کرنا، اور عوامی سطح پر اخلاقی تجدید کو فروغ دینا ۔ یہ میوؤں میں وسیع پیمانے پر مذہبی ناخواندگی اور ثقافتی انضمام کا ایک انتہائی عملی اور موثر جواب تھا، جس

میں فوری روحانی بیداری کو ترجیح دی گئی۔

ندوہ کا نقطہ نظر

یہ زیادہ علمی، فکری، اور اتحاد پر مبنی ہے۔ اس کی کوششوں کا مقصد اسلامی تعلیمی نظام میں اصلاح، روایتی اور جدید علم کو جوڑنا، اور مختلف مسلم مکاتب فکر میں اتحاد کو فروغ دینا تھا ۔ اگرچہ اس نے ایسے علماء اور لٹریچر تیار کیے جو عمومی طور پر مسلم معاشرے کو ترقی دیں گے، لیکن میوؤں جیسی مخصوص قوموں میں اس کی براہ راست، بڑے پیمانے پر مداخلت دیوبند کے مقابلے میں اتنی واضح طور پر دستاویزی نہیں ہے، جو تعلق کے مختلف پیمانے اور طریق کار کی نشاندہی کرتی ہے۔

5.2. تکمیلی کردار اور مشترکہ مقاصد

اپنے مختلف طریقہ کار کے باوجود، دونوں تحریکیں 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے زوال کے بارے میں ایک مشترکہ تشویش سے ابھریں ۔ ان کا حتمی مقصد ہندوستان میں مسلم قوم کی مذہبی اور سماجی ترقی تھا، اگرچہ مختلف ذرائع سے۔ ان کے نقطہ نظر کی منفرد لیکن تکمیلی نوعیت ہندوستانی اسلامی اصلاح کے اندر کام کی ایک فعال تقسیم کو نمایاں کرتی ہے۔ دیوبند نے، تبلیغی جماعت کے ذریعے، بنیادی اسلامی تعلیمات اور اخلاقی تبدیلی پر توجہ مرکوز کرکے عوام (جیسے میوؤں) کی فوری، بنیادی مذہبی ضروریات کو پورا کیا۔ دوسری طرف، ندوہ نے فکری اور ادارہ جاتی اصلاح پر توجہ مرکوز کی، جس کا مقصد ایک متحد علمی محاذ اور ایک اصلاح شدہ تعلیمی نظام کے ذریعے طویل المدتی سماجی طاقت حاصل کرنا تھا۔ یہ ہندوستانی مسلم علماء کی طرف سے اپنے وقت کے کثیر الجہتی چیلنجوں کا ایک وسیع تر اسٹریٹجک جواب تجویز کرتا ہے، جہاں مختلف اداروں نے ایک ہی بڑے مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو

حل کیا۔

5.3. فکری باہمی اثر و رسوخ اور باہمی آگاہی

یہ حقیقت کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، ایک ممتاز ندوی عالم، نے تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس پر ایک کتاب لکھی ، دونوں مکاتب فکر کے درمیان اہم اصلاحی کوششوں کے حوالے سے باہمی آگاہی اور فکری تعلق کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تبلیغی جماعت کا میوات میں کیا گیا کام ندوی کی ممتاز شخصیات نے تسلیم کیا اور اسے علمی توجہ کے لائق سمجھا۔

ندوہ سے متعلق بحثوں میں “ابو المکارم میوی” کا لطیف ذکر مزید یہ ظاہر کرتا ہے کہ میو قوم کے افراد ندوہ کے وسیع تر فکری مباحث کا حصہ تھے، چاہے یہ قوم ندوہ کی طرف سے کسی مخصوص عوامی تحریک کا بنیادی ہدف نہ ہو۔ فکری شناخت اور ندوہ کے دائرے میں میو افراد کی یہ لطیف موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ اپنے مختلف نقطہ نظر کے باوجود، دیوبند اور ندوہ دونوں کے اہم شخصیات میوؤں جیسی قوموں سے متعلق ایک دوسرے کی کوششوں سے واقف تھے اور بعض صورتوں میں فکری طور پر ان سے منسلک تھے۔ یہ مکمل نظریاتی علیحدگی کے ایک سادہ نقطہ نظر کو چیلنج کرتا ہے اور ایک زیادہ پیچیدہ، باہم مربوط فکری منظر نامے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں مختلف اداروں نے مسلم ترقی کے وسیع تر ہدف میں اپنا حصہ ڈالا۔

  1. نتیجہ بحث

میو قوم کی مذہبی اور سماجی ترقی میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء دونوں نے الگ الگ لیکن اہم کردار ادا کیا ہے۔ دیوبند کا اثر بنیادی طور پر تبلیغی جماعت کی براہ راست، عوامی سطح پر اصلاح کے ذریعے ہوا، جس نے میوؤں کے مذہبی طریقوں اور شناخت کو بنیادی طور پر تبدیل کیا، جس میں ذات کی شناخت پر مخصوص فتاویٰ اور میو تاریخ کی علمی دستاویز بندی بھی شامل تھی۔
ندوۃ العلماء کا اثر و رسوخ، اگرچہ میوات میں بڑے پیمانے پر متحرک کرنے کے لحاظ سے کم براہ راست تھا، لیکن اس کی وسیع تر فکری قیادت، تعلیمی اصلاحات، اور مسلمانوں میں اتحاد کو فروغ دینے کی کوششوں سے پیدا ہوا۔ اس نے بالواسطہ طور پر میوؤں جیسی قوموں کو پڑھے لکھے افراد کی پیداوار، ایک مربوط فکری ڈھانچے، اور انہیں متاثر کرنے والی اہم اصلاحی تحریکوں کی علمی شناخت کے ذریعے فائدہ پہنچایا۔ ممتاز ندوی علماء کا تبلیغی تحریک کے ساتھ فکری تعلق اور ندوہ کے فکری حلقوں میں میو افراد کی موجودگی ایک باریک بینی سے، اگرچہ بالواسطہ، تعلق کو نمایاں کرتی ہے۔

ان تحریکوں کی پائیدار وراثت جدید ہندوستان میں میو قوم کی مذہبی بیداری اور سماجی و ثقافتی ترقی میں ان کے اہم اور تکمیلی کردار کو واضح کرتی ہے، ہر ایک نے اسلامی اصلاح کی پیچیدہ تصویر میں منفرد طور پر اپنا حصہ ڈالا ہے۔

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme