میو قوم کی تاریخ تین ادوار کے آئینے میں

0 comment 60 views

ایک متنازعہ سرزمین، ایک لچکدار قوم

Advertisements

 میواڑ اور میو قوم کی تاریخ تین ادوار کے آئینے میں

تعارف

یہ تحریر راجپوت ریاست میواڑ اور میو نسلی-مذہبی برادری کی باہم مربوط اور اکثر متنازعہ تاریخ کا تین فیصلہ کن ادوار—سلطنت، مغلیہ اور نوآبادیاتی—کے تناظر میں جائزہ لیتی ہے۔ اس رپورٹ کا مرکزی استدلال یہ ہے کہ میو شناخت، جو ایک منفرد ثقافتی امتزاج اور خود مختاری کی شدید خواہش سے عبارت ہے، پے در پے آنے والی سامراجی طاقتوں کے خلاف مزاحمت اور مفاہمت کے امتزاج سے تشکیل پائی۔ یہ ایک ایسی حرکیات تھی جو میواڑ کی اپنی نافرمانی کی میراث سے گہری مماثلت رکھتی تھی اور کبھی کبھار اس سے منسلک بھی ہو جاتی تھی۔ 1947ء کی تقسیمِ ہند اس طویل تاریخی سفر کا اختتام نہیں، بلکہ ایک المناک شکست و ریخت کی علامت ہے، جس کے ہندوستان اور پاکستان دونوں میں اس قوم کی شناخت اور سماجی و سیاسی حیثیت پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

اس تجزیے میں علمی تاریخ، آن لائن انسائیکلوپیڈیا، ثقافتی رپورٹس اور کمیونٹی کے مصنفین کی تحریروں سمیت وسیع پیمانے پر موجود مآخذ کو یکجا کیا گیا ہے ، اور تاریخی ریکارڈ میں موجود پیچیدگیوں اور بعض اوقات متضاد نقطہ ہائے نظر کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ جغرافیائی طور پر یہ رپورٹ دو خطوں پر مرکوز ہے: میوات، جو دہلی، آگرہ اور جے پور کے تزویراتی تکون پر واقع ایک ثقافتی خطہ ہے نہ کہ کوئی متعین انتظامی اکائی، اور راجپوتانہ کی ریاست میواڑ (جدید اودے پور)، جو راجپوت خودمختاری کی علامت تھی۔  

اس تحریر کے پیچیدہ تاریخی منظرنامے کو سمجھنے میں آسانی کے لیے، مندرجہ ذیل جدول اہم حکمرانوں اور ادوار کا ایک زمانی جائزہ پیش کرتا ہے، جو میوات اور میواڑ کی تاریخ سے متعلق اہم واقعات کے لیے ایک حوالہ جاتی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

جدول 1: کلیدی حکمرانوں اور ادوار کا زمانی جائزہ

دورکلیدی خاندان/حکمرانتخمینی تاریخیںمیوات/میواڑ کے ساتھ اہم تعاملات
دہلی سلطنتخاندانِ غلاماں (غیاث الدین بلبن)1266-1287ءبلبن کی میواتیوں کے خلاف وحشیانہ مہمات
خلجی خاندان1290-1320ءمیواڑ کے خلاف مہمات، چتوڑ کا محاصرہ
تغلق خاندان (فیروز شاہ تغلق)1351-1388ءبہادر ناہر خان کو والیٔ میوات تسلیم کیا گیا  
راجپوت ریاستیںرانا سانگا (میواڑ)1508-1528ءبابر کے خلاف حسن خان میواتی کے ساتھ اتحاد
مہارانا پرتاپ (میواڑ)1572-1597ءمغلوں کے خلاف مسلسل مزاحمت، دیویر کی جنگ
مغلیہ سلطنتظہیر الدین بابر1526-1530ءخانوا کی جنگ (1527ء)، میوات ریاست کا خاتمہ
جلال الدین محمد اکبر1556-1605ءمیواڑ سے جنگیں، میو سرداروں کی شمولیت اور چوہدریوں کا قیام  
اورنگزیب عالمگیر1658-1707ءمیو سرداروں کو رام کرنے کی پالیسی، راجپوتوں سے اتحاد  
برطانوی راجایسٹ انڈیا کمپنی/ملکہ وکٹوریہ1857-1947ء1857ء کی جنگِ آزادی میں میوؤں کا کردار اور ان پر مظالم  
تقسیمِ ہند1947ءالور اور بھرت پور میں میوؤں کا قتلِ عام اور پاکستان کی طرف ہجرت  

حصہ اول: سلطنتوں اور راجپوت ریاستوں کا دور (تقریباً 12ویں تا 16ویں صدی)

سیکشن 1: شناخت اور طاقت کی بنیادیں

1.1 میوات اور میواڑ کا جغرافیائی اور ثقافتی منظرنامہ

میوات کی تعریف ایک تاریخی-ثقافتی خطے کے طور پر کی جاتی ہے، نہ کہ ایک متعین انتظامی اکائی کے طور پر، جو جدید ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کے کچھ حصوں پر محیط ہے ۔ اس خطے کی ایک اہم خصوصیت اراولی کے پہاڑی سلسلے ہیں، جنہوں نے صدیوں تک میو قوم کے لیے قدرتی قلعوں اور پناہ گاہوں کا کام دیا۔ یہ پہاڑ نہ صرف تزویراتی دفاع فراہم کرتے تھے بلکہ میو قوم کی گوریلا جنگی حکمت عملیوں کا مرکز بھی تھے، جس کی وجہ سے بڑی سے بڑی مرکزی طاقتوں کے لیے انہیں مکمل طور پر زیر کرنا ہمیشہ ایک چیلنج رہا۔  

اس کے برعکس، میواڑ جنوبی-وسطی راجستھان میں واقع ایک راجپوت سلطنت تھی، جس کا دارالحکومت پہلے چتوڑ گڑھ اور بعد میں اودے پور رہا۔ میواڑ کو راجپوت خودمختاری، ثقافت اور دہلی سلطنت و مغلیہ سلطنت کے خلاف طویل مزاحمت کی ایک طاقتور علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جہاں میوات کی طاقت اس کی غیر مرکزی اور قبائلی ساخت میں پنہاں تھی، وہیں میواڑ کی طاقت ایک منظم بادشاہت، قلعوں اور ایک واضح راجپوت جنگی روایات پر مبنی تھی۔

1.2 میو قوم کی ابتدا اور سماجی ڈھانچہ

میو قوم کی ابتدا کے بارے میں متعدد اور بعض اوقات متضاد نظریات پائے جاتے ہیں، جو ان کی پیچیدہ نسلی تشکیل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک غالب نظریہ انہیں ہندو راجپوتوں یا کشتریوں کی اولاد قرار دیتا ہے جنہوں نے وقت کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ دوسرا نظریہ یہ پیش کرتا ہے کہ وہ مینا، اہیر اور گجر جیسی مختلف زرعی اور جنگجو ذاتوں کا ایک امتزاج ہیں، جنہوں نے بعد میں ایک مشترکہ میو شناخت اختیار کر لی۔ ایک تیسرا نظریہ انہیں وسطی ایشیا یا فارس سے ہجرت کرنے والے قدیم “میڈ” قبائل سے جوڑتا ہے جو سندھ کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ ان مختلف نظریات کو ایک دوسرے کی ضد سمجھنے کے بجائے، یہ ایک طویل اور پیچیدہ نسلی تشکیل کے عمل کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں مختلف گروہ وقت کے ساتھ ایک واحد، مضبوط کمیونٹی میں ڈھل گئے۔

میو قوم کا سماجی ڈھانچہ ان کی سیاسی اور عسکری طاقت کا بنیادی ستون تھا۔ یہ نظام بارہ “پالوں” (بڑی گوتیں یا قبیلے) اور باون “گوتوں” (ذیلی گوتیں) پر مشتمل تھا۔ یہ ڈھانچہ، جو ہندو ذات پات اور گوترا کے نظام سے گہری مماثلت رکھتا ہے، نہ صرف شادی بیاہ کے اصولوں اور سماجی حیثیت کا تعین کرتا تھا بلکہ سیاسی اور عسکری سطح پر بھی کام کرتا تھا۔ ہر پال کا اپنا ایک چوہدری یا سردار ہوتا تھا جو مقامی سطح پر خود مختار ہوتا تھا۔ یہ غیر مرکزی ساخت میو قوم کی اصل طاقت تھی۔ جب بھی کسی بیرونی طاقت سے خطرہ ہوتا، یہ پالیں فوری طور پر متحد ہو کر ایک بڑی جنگجو قوت تشکیل دے سکتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی، کسی ایک سردار یا مرکز کی عدم موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ دشمن کسی ایک فیصلہ کن جنگ کے ذریعے انہیں شکست نہیں دے سکتا تھا۔ ایک مرکزی طاقت کے لیے، جو بادشاہوں کو شکست دینے اور دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کی عادی ہو، میوات کو فتح کرنا ایک مستقل چیلنج تھا کیونکہ انہیں درجنوں خود مختار اکائیوں کو ایک ایک کرکے زیر کرنا پڑتا تھا، جو اراولی کے دشوار گزار پہاڑوں میں پناہ لے کر گوریلا جنگ لڑنے میں ماہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دہلی کے حکمرانوں کے لیے ہمیشہ ایک “کانٹا” بنے رہے۔

میو قوم کی ابتدائی ثقافتی روایات ایک گہرے امتزاج کی عکاس ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے باوجود، انہوں نے اپنی بہت سی ہندو ثقافتی رسومات، سماجی اصول اور روایات کو برقرار رکھا۔ وہ ہندوؤں کے تہوار مناتے تھے، ان کے گاؤں میں دیوتاؤں کے استھان ہوتے تھے، اور ان کا سماجی ڈھانچہ مکمل طور پر ہندوستانی تھا۔ اس نے ایک ایسی منفرد شناخت کو جنم دیا جو نہ تو مکمل طور پر “ہندو” تھی اور نہ ہی روایتی معنوں میں “مسلم”۔ یہ ثقافتی امتزاج ان کی بقا اور خود مختاری کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ تھا۔

1.3 میواڑ میں گوہیلا اور سسودیا خاندانوں کا عروج

اسی دوران، میوات کے جنوب میں، میواڑ کی ریاست ایک بڑی علاقائی طاقت کے طور پر ابھر رہی تھی۔ گوہیلا اور بعد میں ان کی شاخ سسودیا خاندان کی حکومت میں، میواڑ نے دہلی سلطنت کی توسیع پسندی کے خلاف شدید مزاحمت کی۔ چتوڑ گڑھ کا قلعہ راجپوت غیرت اور قربانی کی علامت بن گیا۔ میواڑ کا عروج اس خطے میں ایک طاقتور راجپوت مرکز کے قیام کی نشاندہی کرتا ہے، جو آنے والی صدیوں میں نہ صرف دہلی بلکہ بعد میں مغلیہ سلطنت کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا۔

سیکشن 2: دہلی سلطنت کے ساتھ تعلقات

2.1 ابتدائی میو مزاحمت: سلطنت کے پہلو میں ایک کانٹا

دہلی سلطنت کے قیام کے ساتھ ہی میو قوم اور مرکزی حکومت کے درمیان ایک طویل اور خونریز کشمکش کا آغاز ہوا۔ میو اپنی جنگجویانہ فطرت اور خود مختاری کی وجہ سے مشہور تھے اور وہ اکثر دہلی کے گرد و نواح کے علاقوں پر حملے کرتے، قافلوں کو لوٹتے اور سلطنت کے لیے ایک مستقل سیکورٹی خطرہ بنے رہتے تھے ۔ سلطنت کے حکمران انہیں باغی اور ڈاکو سمجھتے تھے جن کی سرکوبی ضروری تھی۔  

اس کشمکش کی شدت کا اندازہ سلطان غیاث الدین بلبن (1266-1287ء) کی طرف سے کی گئی کارروائیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ بلبن نے 1260ء میں “میواتیوں” کو سزا دینے کے لیے ایک بڑی مہم شروع کی۔ تاریخی حوالوں کے مطابق، یہ مہم انتہائی وحشیانہ تھی جس میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا اور ہزاروں میوؤں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ بلبن کا مقصد صرف بغاوت کو کچلنا نہیں تھا، بلکہ میو قوم کی طاقت کو اس طرح توڑنا تھا کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔ تاہم، اس بے رحمانہ کارروائی کے باوجود، میو مزاحمت مکمل طور پر ختم نہ ہوسکی اور وہ وقفے وقفے سے سلطنت کے لیے درد سر بنے رہے۔

2.2 میوات میں اسلامائزیشن کا عمل

میو قوم کا قبولِ اسلام کوئی ایک واحد واقعہ نہیں بلکہ ایک طویل اور بتدریج عمل تھا جو کئی صدیوں پر محیط رہا (تقریباً 11ویں سے 17ویں صدی تک)۔ یہ تبدیلی تلوار کے زور پر کم اور صوفیائے کرام کی تبلیغ اور پرامن دعوت کے ذریعے زیادہ ہوئی۔ غازی سید سالار مسعود (جو محمود غزنوی کے بھانجے تھے)، خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت نظام الدین اولیاء جیسے عظیم صوفیاء کے اثرات نے میوؤں کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔  

اس پرامن اور امتزاجی اسلامائزیشن کے عمل کی وجہ سے میوؤں نے اپنی بہت سی قدیم ثقافتی اور سماجی روایات کو ترک نہیں کیا۔ انہوں نے اسلام کے بنیادی عقائد (توحید، رسالت) کو قبول کیا لیکن اپنی راجپوت شناخت، گوت پال کا نظام، شادی بیاہ کی رسومات اور یہاں تک کہ کچھ مقامی مذہبی عقائد کو بھی برقرار رکھا۔ اس کے نتیجے میں ایک منفرد “میو اسلام” وجود میں آیا جو خطے کی دیگر مسلم برادریوں سے نمایاں طور پر مختلف تھا۔ یہ دوہری شناخت ایک پیچیدہ سیاسی اور سماجی حکمت عملی کا نتیجہ تھی۔ اسلام قبول کرنے سے انہیں دہلی کی غالب مسلم طاقت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور سیاسی قانونی حیثیت حاصل کرنے کا ایک موقع ملا۔ دوسری طرف، اپنی راجپوت سماجی ساخت کو برقرار رکھ کر انہوں نے اپنی داخلی یکجہتی، جنگی تنظیم اور منفرد شناخت کو محفوظ رکھا، جس نے انہیں ہندو راجپوتوں اور سلطنت کی ترک-افغان اشرافیہ دونوں سے ممتاز کیا۔ یہ ثقافتی امتزاج محض ایک حادثہ نہیں تھا، بلکہ قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے غیر مستحکم سیاسی منظر نامے میں بقا اور خود مختاری کو برقرار رکھنے کا ایک شعوری یا لاشعوری ذریعہ تھا۔

2.3 میوات کے خانزادے: مقامی سرداروں سے حکمرانوں تک

چودہویں صدی کے اواخر میں میو-سلطنت تعلقات میں ایک اہم موڑ آیا۔ سلطان فیروز شاہ تغلق (1372ء کے قریب) نے میو سردار بہادر ناہر خان (جو قبول اسلام سے قبل ایک ہندو راجپوت تھے) کو میوات کے علاقے کا حکمران یا ‘والیٔ میوات’ تسلیم کر لیا ۔ یہ ایک بڑی پیشرفت تھی کیونکہ اس نے میوات کو ایک نیم خود مختار ریاست کا درجہ دے دیا۔ بہادر ناہر خان کے جانشین، جو “خانزادہ راجپوت” کہلائے، نے 1527ء تک دہلی سلطنت کے باجگزار کے طور پر میوات پر حکومت کی ۔ یہ دور میوات کی سیاسی خود مختاری کا عروج تھا، جب وہ محض باغی قبائل نہیں بلکہ ایک تسلیم شدہ سیاسی اکائی کے حکمران تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میو قوم نے مزاحمت اور مفاہمت کے امتزاج سے اپنے لیے ایک منفرد سیاسی مقام حاصل کر لیا تھا۔  

حصہ دوم: مغلیہ سلطنت: تصادم، مفاہمت اور بغاوت (1526ء تا 1857ء)

سیکشن 3: مغلوں کی آمد اور ہندوستان کی جنگ

3.1 راجپوت-میو اتحاد: رانا سانگا اور حسن خان میواتی کی سیاست

1526ء میں پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کی شکست اور بابر کے ہاتھوں دہلی پر مغل قبضے نے شمالی ہندوستان کے سیاسی منظر نامے کو یکسر تبدیل کر دیا۔ لودھی سلطنت کے خاتمے کے بعد، خطے کی دو سب سے بڑی مقامی طاقتیں ابھر کر سامنے آئیں: میواڑ کے راجپوت حکمران رانا سانگا اور میوات کے خانزادہ حکمران راجہ حسن خان میواتی۔ شکست خوردہ افغان سردار محمود لودھی نے ان دونوں طاقتور حکمرانوں سے مدد طلب کی تاکہ مغلوں کو ہندوستان سے نکالا جا سکے ۔  

اس موقع پر بابر نے حسن خان میواتی کو ایک مشترکہ اسلامی عقیدے کی بنیاد پر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، لیکن حسن خان نے اس مذہبی اپیل کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے ایک غیر ملکی حملہ آور کے خلاف اپنے وطن اور خطے کے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ہندو راجپوت حکمران رانا سانگا کے ساتھ اتحاد کیا۔ یہ فیصلہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس دور میں علاقائی طاقت کی سیاست، نسلی یکجہتی اور مشترکہ مفادات مذہبی شناخت پر حاوی تھے۔ حسن خان میواتی کا فیصلہ ایک آزاد حکمران کا فیصلہ تھا جو اپنے خطے کے مستقبل کا تعین خود کرنا چاہتا تھا۔

3.2 خانوا کی جنگ (1527ء): ایک فیصلہ کن لمحہ

مارچ 1527ء میں بیانہ کے قریب خانوا کے میدان میں بابر کی مغل افواج اور رانا سانگا کی قیادت میں راجپوت-افغان-میو اتحاد کے درمیان فیصلہ کن جنگ لڑی گئی۔ یہ جنگ محض ایک معرکہ نہیں تھی، بلکہ ہندوستان کے مستقبل کا تعین کرنے والی ایک تاریخی کشمکش تھی۔ بابر کی فوج تعداد میں کم تھی لیکن اس کے پاس جدید توپ خانہ اور جنگی حکمت عملی کا فائدہ تھا۔

اس جنگ کا نتیجہ اتحاد کی افواج کے لیے ایک تباہ کن شکست کی صورت میں نکلا۔ رانا سانگا شدید زخمی ہوئے اور بعد میں وفات پا گئے، لیکن میو قوم کو اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کے عظیم رہنما، راجہ حسن خان میواتی، اپنے ہزاروں سپاہیوں سمیت میدان جنگ میں بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔ بابر نے اپنی خود نوشت “تزکِ بابری” میں حسن خان اور میوؤں کا ذکر انتہائی تضحیک آمیز الفاظ میں کیا ہے، جو فاتح کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔  

خانوا کی جنگ کے نتائج میو قوم کے لیے دور رس اور تباہ کن ثابت ہوئے۔ یہ صرف ایک فوجی شکست نہیں تھی، بلکہ ان کی سیاسی موت تھی۔ اس جنگ نے ان کی خود مختار ریاست کا خاتمہ کر دیا، ان کی قیادت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، اور انہیں ایک غالب سامراجی طاقت کے ساتھ ایک نئے، ماتحت رشتے میں دھکیل دیا۔ بابر نے میوات کی سیاسی اکائی کو ختم کر کے اس کے علاقے کو اپنے سرداروں میں تقسیم کر دیا۔ 1527ء سے پہلے میو ایک ریاست کے حکمران تھے؛ 1527ء کے بعد وہ ایک ایسی قوم بن گئے جس کی کوئی ریاست نہیں تھی، اور ان کی تاریخ ایک ایسی جدوجہد کی داستان بن گئی جس میں وہ ایک وسیع سلطنت کے اندر اپنی مقامی خود مختاری کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ تھا، ایک ایسا زخم جس سے وہ کبھی مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو سکے۔

3.3 میواڑ کی نافرمانی: مہارانا پرتاپ کی داستان

جہاں خانوا کی جنگ کے بعد میوات کو زیر کر لیا گیا، وہیں میواڑ کی ریاست نے مغلوں کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی۔ یہ مزاحمت مہارانا پرتاپ (1572-1597ء) کے دور میں اپنے عروج پر پہنچی۔ ہلدی گھاٹی کی مشہور جنگ کے بعد، پرتاپ نے گوریلا جنگ کی حکمت عملی اپنائی اور مغلوں کو مسلسل پریشان رکھا۔ 1582ء میں دیویر (یا دیوار) کی جنگ میں ان کی فیصلہ کن فتح نے میواڑ کے بڑے حصے پر ان کا کنٹرول بحال کر دیا۔ مہارانا پرتاپ کی جدوجہد راجپوت غیرت اور سامراجی طاقت کے خلاف مزاحمت کی ایک لازوال علامت بن گئی۔ یہ میوات کی قسمت کے بالکل برعکس تھا، جو اب براہ راست مغل انتظامیہ کے تحت آ چکا تھا اور اپنی خود مختار حیثیت کھو چکا تھا۔

سیکشن 4: سلطنت میں مقام کی تلاش: میو-مغل تعلقات

4.1 اکبر کی دوہری حکمت عملی: شمولیت اور دباؤ

شہنشاہ اکبر، جو اپنی سیاسی بصیرت کے لیے مشہور تھا، نے میوؤں کی جنگجو فطرت اور ان کی غیر مرکزی طاقت کو پہچانتے ہوئے ایک دوہری حکمت عملی اپنائی۔ اس نے محض طاقت کے استعمال کے بجائے مفاہمت اور شمولیت کا راستہ بھی اختیار کیا۔ اس نے میو سرداروں کو مغل انتظامیہ اور فوج میں اعلیٰ عہدے اور منصب عطا کیے، جس سے انہیں سامراجی نظام میں ایک مقام ملا ۔  

اکبر کا سب سے اہم قدم میوؤں کے روایتی سماجی ڈھانچے کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا تھا۔ اس نے بارہ پالوں اور باون گوتوں کی “چوہدراہٹیں” (سرداری) قائم کیں، جس سے ان کے مقامی سرداروں کو قانونی حیثیت مل گئی ۔ میوات کا پہلا باقاعدہ زمینی بندوبست بھی اکبر کے دور میں ہی ہوا ۔ یہ پالیسی انتہائی ذہانت پر مبنی تھی۔ مقامی طاقت کے ڈھانچے کو تسلیم کر کے، اکبر نے میو سرداروں کو مغل نظام کا حصہ بنا لیا۔ وہ اب محض باغی نہیں تھے، بلکہ حکومت کے تسلیم شدہ نمائندے تھے جو اپنے علاقوں سے محصولات جمع کرنے اور فوجی بھرتی کے ذمہ دار تھے۔  

تاہم، اس مفاہمتی پالیسی کا ایک غیر ارادی نتیجہ بھی نکلا۔ میوؤں کو سامراجی نظام میں شامل کرنے کے لیے، اکبر نے ان کے اسی سماجی ڈھانچے (پال-گوت) کو مضبوط کیا جو ان کی الگ شناخت اور اجتماعی کارروائی کی صلاحیت کی بنیاد تھا۔ اس نے نادانستہ طور پر میو قوم کی منفرد ثقافتی اور سماجی شناخت کو محفوظ کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر کی شمولیت کی پالیسی کے باوجود، میو بغاوتیں مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں۔ پاہٹ پال کے سرداروں کی طرف سے کہے گئے متکبرانہ اشعار، جن میں وہ خود کو شہنشاہ کے برابر سمجھتے تھے، اس بات کی علامت ہیں کہ خود مختاری کی روح اب بھی زندہ تھی ۔  

4.2 میو خود مختاری اور شورش (جہانگیر تا اورنگزیب)

اکبر کے بعد، جہانگیر کے دور میں، میوؤں کی “خود سری” میں اضافہ ہوا۔ پاہٹ پال جیسے طاقتور قبیلے کھلم کھلا باغی ہو گئے اور انہوں نے آگرہ سے دہلی جانے والے شاہی خزانے کو لوٹ لیا، جس کے نتیجے میں “پانچ پہاڑوں کی جنگ” جیسی بڑی جھڑپیں ہوئیں ۔ یہ “نوک جھونک” اور کشمکش کا سلسلہ شاہ جہاں کے دور میں بھی جاری رہا ۔  

اورنگزیب عالمگیر نے میوات کے معاملے میں اکبر کی پالیسی کی طرف واپسی کی۔ اس نے میو سرداروں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا، ان کی خوشامد کی اور انہیں مراعات دے کر رام کرنے کی کوشش کی ۔ اس کی پالیسی کافی حد تک کامیاب رہی اور بہت سے میو سردار مغل حکومت کے وفادار بن گئے۔ تاہم، اورنگزیب کے دور میں بھی میوؤں کا ایک حصہ باغی اور مخالف رہا۔ اسی دوران، اورنگزیب نے میواڑ کے رانا راج سنگھ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور 1669ء میں اسے ایک شاہی فرمان بھیجا جس میں مذہبی رواداری کی یقین دہانی کرائی گئی، جو اس کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔  

4.3 مغل دور میں میوؤں کی سماجی و سیاسی حیثیت

مغل دور میں میوؤں کی حیثیت ایک مستقل تضاد کا شکار رہی۔ وہ نہ تو مکمل طور پر سلطنت کے وفادار رعایا تھے اور نہ ہی مکمل طور پر آزاد باغی۔ وہ ایک طرف مغل فوج کے لیے افرادی قوت کا ایک اہم ذریعہ تھے (بطور منصب دار)، تو دوسری طرف سلطنت کے دارالحکومت کے دروازے پر عدم استحکام کا ایک مستقل سبب بھی تھے ۔ مغل سلطنت اپنی تمام تر طاقت کے باوجود میو قوم کی خود مختاری کی روح کو کبھی مکمل طور پر ختم نہ کر سکی۔ اس کی بنیادی وجہ ان کا غیر مرکزی سماجی ڈھانچہ اور میوات کا دشوار گزار پہاڑی علاقہ تھا، جس نے انہیں ہمیشہ مزاحمت کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کی۔ وہ سلطنت کے اندر ایک نیم خود مختار اکائی کے طور پر موجود رہے، جو کبھی مفاہمت اور کبھی مزاحمت کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے تھے۔  

حصہ سوم: نوآبادیاتی دور اور تقسیم کا صدمہ (تقریباً 1857ء تا 1947ء)

سیکشن 5: برطانوی راج اور میوات کی نئی تشکیل

5.1 1857ء کی جنگِ آزادی میں میوؤں کا کردار

1857ء کی جنگِ آزادی میں میو قوم نے انگریزوں کے خلاف ایک غیر معمولی اور بہادرانہ کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد میوؤں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ انہوں نے گڑگاؤں (موجودہ گروگرام) کے علاقے سے برطانوی افواج کو نکال باہر کیا اور کچھ عرصے کے لیے اس خطے پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ ان کی مزاحمت اتنی شدید تھی کہ انگریزوں کو انہیں دبانے کے لیے بڑی فوجی کارروائی کرنی پڑی۔  

انگریزوں نے اس بغاوت کا بدلہ انتہائی بے رحمی سے لیا۔ گھسیڑا جیسے کئی دیہات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا اور ہزاروں میوؤں کو سرعام پھانسی دی گئی یا گولی مار دی گئی ۔ اس بغاوت میں حصہ لینے کی سزا کے طور پر، برطانوی حکومت نے 1871ء کے “کرمنل ٹرائبز ایکٹ” (Criminal Tribes Act) کے تحت پوری میو قوم کو “جرائم پیشہ قبیلہ” قرار دے دیا۔ یہ ایک ایسا قانون تھا جس نے انہیں مستقل طور پر ریاست کی نگرانی میں رکھا اور ان کی سماجی و معاشی پسماندگی کو ادارہ جاتی شکل دے دی۔  

5.2 نوآبادیاتی حکومت: تقسیم اور استحصال

انگریزوں نے میو قوم کی اجتماعی طاقت کو توڑنے کے لیے ایک سوچی سمجھی پالیسی اپنائی۔ انہوں نے میوات کے متحد ثقافتی خطے کو جان بوجھ کر ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ اس علاقے کو الور اور بھرت پور کی راجپوت ریاستوں اور برطانوی صوبہ پنجاب کے درمیان بانٹ دیا گیا تاکہ ان کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جا سکے اور مستقبل میں کسی بھی متحدہ بغاوت کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔

یہ بھی مطالعہ کریں

سیاسی تقسیم کے ساتھ ساتھ، انگریزوں نے ایسے زمینی اور معاشی نظام متعارف کرائے جنہوں نے میو کسانوں کی کمر توڑ دی۔ برطانوی دور سے پہلے، مغلوں کے تحت، میو بڑے پیمانے پر زمینوں کے مالک (زمیندار) تھے اور مقامی سماجی درجہ بندی میں ایک غالب حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن انگریزوں نے زمینی ملکیت کے نئے قوانین اور محصولات کا ایک ایسا نظام نافذ کیا جو خالصتاً استحصال پر مبنی تھا۔ نقد لگان کی ادائیگی، پیداوار کے 50 فیصد سے زائد شرح پر ٹیکس، اور “اجاراداری” (ٹھیکیداری) نظام نے کسانوں کو قرض کے جال میں جکڑ دیا۔ اس کے نتیجے میں، میو کسانوں کی زمینیں بڑے پیمانے پر بنیا ساہوکاروں کے پاس گروی رکھی جانے لگیں اور وہ اپنی ہی زمینوں پر مزارع بن کر رہ گئے۔

یہ تبدیلی میو قوم کے لیے ایک تاریخی المیہ تھا۔ مغل دور میں ان کی مزاحمت سیاسی خود مختاری کے لیے تھی۔ برطانوی دور میں، ان کی جدوجہد معاشی بقا کے لیے ہو گئی۔ انگریزوں نے میوؤں کی طاقت کو صرف بندوقوں سے نہیں، بلکہ اپنے قوانین اور معاشی پالیسیوں سے توڑا۔ انہوں نے میوؤں کو ایک جنگجو اور خود مختار قوم سے ایک غریب اور مقروض کسان برادری میں تبدیل کر دیا۔ ان کی قرون وسطیٰ کی “ہنگامہ خیزی” جدید دور کی “پسماندگی” میں بدل گئی۔ یہ معاشی تباہی برطانوی راج کی سب سے گہری اور دیرپا میراث تھی۔

5.3 الور تحریک (1932-33ء): کسانوں کی مزاحمت

بیسویں صدی کے اوائل میں میو قوم کی مزاحمتی روح ایک بار پھر بیدار ہوئی۔ 1932-33ء میں ریاست الور کے میو کسانوں نے مہاراجہ کی طرف سے لگائے گئے بھاری ٹیکسوں، جبری مشقت اور دیگر ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف ایک بڑی تحریک شروع کی ۔ چوہدری محمد یاسین خان جیسے رہنماؤں کی قیادت میں، یہ تحریک بنیادی طور پر ایک معاشی جدوجہد تھی، لیکن جب ہندو مہاراجہ نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر دبانے کی کوشش کی تو اس میں مذہبی اور ثقافتی پہلو بھی شامل ہو گئے ۔ یہ تحریک اس بات کا ثبوت تھی کہ معاشی استحصال اور سیاسی جبر کے باوجود، میو قوم اپنی اجتماعی کارروائی اور مزاحمت کی صلاحیت کو برقرار رکھے ہوئے تھی۔

یہ بھی پڑھئے

میوات اور میو قوم تعارف وتاریخ کے جھروکوں سے
 

سیکشن 6: عظیم تقسیم: بٹوارہ اور میو المیہ

6.1 1947ء کا فرقہ وارانہ تشدد

تقسیمِ ہند کا اعلان میو قوم کے لیے ایک قیامت بن کر ٹوٹا۔ اگرچہ ان کی تاریخ صدیوں پر محیط مذہبی ہم آہنگی اور ثقافتی امتزاج کی گواہ تھی، لیکن 1947ء کے جنون میں انہیں صرف اور صرف ان کے مسلمان ہونے کی بنا پر نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر الور اور بھرت پور کی راجپوت ریاستوں میں ان کے خلاف منظم اور وحشیانہ تشدد کیا گیا ۔ ان ریاستوں کی افواج نے ہندو بلوائیوں کے ساتھ مل کر میو دیہات پر حملے کیے۔ ہزاروں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا گیا، گاؤں کے

گاؤں جلا دیے گئے، اور خواتین کو اغوا کیا گیا۔  

اس تشدد کی سب سے ہولناک مثال “کالا پہاڑ” کا قتل عام ہے، جہاں پناہ کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے ہزاروں میوؤں کو گھیر کر بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ یہ واقعات میو قوم کے اجتماعی حافظے میں ایک ایسے گہرے زخم کے طور پر محفوظ ہیں جو آج بھی تازہ ہے۔  

6.2 بڑے پیمانے پر ہجرت اور بے گھری

اس بے مثال تشدد نے میوؤں کو اپنی بقا کے لیے اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ لاکھوں کی تعداد میں میو پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ میو پاکستان ہجرت کر گئے، جبکہ بیس لاکھ کے قریب میوات میں ہی رہ گئے (یہ اعداد و شمار ممکنہ طور پر ایک وسیع علاقائی گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں، میوؤں کی اصل تعداد کم ہوسکتی ہے لیکن پھر بھی بہت زیادہ تھی)۔ پاکستان ہجرت کرنے والے میو بنیادی طور پر پنجاب کے اضلاع لاہور، سیالکوٹ، قصور، نارووال اور شیخوپورہ میں آباد ہوئے۔

اس دوران، مہاتما گاندھی جیسے رہنماؤں نے میوؤں کو ہندوستان میں رہنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے دسمبر 1947ء میں میوات کے گاؤں گھسیڑا کا دورہ کیا اور انہیں تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ ہمتا میو جیسے مقامی رہنماؤں نے بھی اپنی قوم کو ہندوستان نہ چھوڑنے پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کوششوں کے باوجود، تشدد کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ہجرت کا سلسلہ روکا نہ جا سکا۔

6.3 نتائج: ایک بٹی ہوئی شناخت

1947ء کی تقسیم نے میو قوم کو جسمانی، سیاسی اور ثقافتی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس نے ان کی صدیوں پرانی، مربوط اور علاقائی شناخت کو توڑ کر اسے دو نئے ملکوں کی متضاد حقیقتوں میں بانٹ دیا۔

ہندوستان میں: جو میو ہندوستان میں رہ گئے، انہیں ایک نئے چیلنج کا سامنا تھا۔ انہیں ایک مسلم اقلیت کے طور پر اپنی جگہ بنانی تھی اور اپنی حب الوطنی کو بار بار ثابت کرنا پڑتا تھا، حالانکہ ان کی تاریخ اپنے وطن کے لیے قربانیوں سے بھری پڑی تھی۔ ان کی منفرد امتزاجی ثقافت کو ہندو اور مسلم دونوں طرف کی شدت پسند اور اصلاحی تحریکوں سے خطرہ لاحق ہوا، جس نے انہیں اپنی روایتی شناخت کو از سر نو متعین کرنے پر مجبور کیا۔

پاکستان میں: پاکستان ہجرت کرنے والے میوؤں کو ایک مختلف قسم کے شناختی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ایک مسلم ملک میں مسلمان تو تھے، لیکن وہ اپنی منفرد ثقافتی، لسانی اور علاقائی شناخت کھو بیٹھے تھے۔ وہ اب “میوات” کے باسی نہیں تھے۔ ان کی جدوجہد اپنی زبان اور ثقافت کو غالب پنجابی اور اردو ثقافتوں میں ضم ہونے سے بچانے کی بن گئی۔ حالیہ دہائیوں میں، پاکستانی میوؤں میں اپنی شناخت کو محفوظ رکھنے کی ایک شعوری تحریک نے جنم لیا ہے، جس کا مرکز میواتی زبان کا فروغ ہے۔ اس تحریک کے تحت کتابیں لکھی گئیں، گرامر تیار کی گئی، اور قومی مردم شماری اور شناختی کارڈ میں میواتی کو ایک الگ زبان کے طور پر تسلیم کروانے میں کامیابی حاصل کی گئی ۔ یہ کوششیں اس وجودی بحران کا براہ راست جواب ہیں جو تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔  

تقسیم نے میو قوم کی نامیاتی، علاقائی شناخت پر ایک بیرونی، قومی ریاست پر مبنی شناخت مسلط کر دی۔ تشدد نے انہیں ایک ایسے تنازعے میں فریق بننے پر مجبور کیا جو مذہبی قوم پرستی پر مبنی تھا، ایک ایسا تصور جو ان کی تاریخی ہم آہنگی کی روایت سے بالکل مختلف تھا۔ اس کا نتیجہ 1947ء کے بعد دو متوازی تاریخوں کی صورت میں نکلا: ایک ہندوستان میں ایک مذہبی اقلیت کی تاریخ، اور دوسری پاکستان میں ایک لسانی و ثقافتی اقلیت کی تاریخ، اور دونوں ہی اس صدمے سے نبرد آزما ہیں کہ انہیں اس سرزمین سے اکھاڑ دیا گیا جس نے انہیں ان کا نام دیا تھا۔

نتیجہ: تالیف اور پائیدار میراث

میواڑ اور میو قوم کی تاریخ مزاحمت، خود مختاری اور ایک منفرد امتزاجی شناخت کی تشکیل کی ایک طویل اور پیچیدہ داستان ہے۔ میو قوم نے دہلی سلطنت، مغلیہ سلطنت اور برطانوی راج جیسی طاقتور حکومتوں کے سامنے اپنی الگ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے صدیوں تک جدوجہد کی۔ ان کی تاریخ سامراجی مراکز اور خود مختار علاقوں کے درمیان وسیع تر جنوبی ایشیائی کشمکش کی ایک بہترین مثال ہے۔ ریاست میواڑ اس مزاحمت میں کبھی ان کی اتحادی رہی تو کبھی ایک متوازی طاقت کے طور پر موجود رہی، لیکن دونوں کی تاریخ نافرمانی اور اپنی شناخت پر فخر کرنے کی میراث سے عبارت ہے۔

1947ء کی تقسیم اس طویل تاریخی سفر میں ایک المناک موڑ ثابت ہوئی، جس نے اس قوم کو جغرافیائی اور ثقافتی طور پر تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم کے اثرات آج بھی دونوں ممالک میں میو برادری کی سماجی و سیاسی حقیقتوں پر گہرے ہیں۔ ہندوستان میں، وہ غربت، تعلیم کی کمی اور پسماندگی جیسے مسائل سے دوچار ہیں، جبکہ پاکستان میں ان کی بنیادی جدوجہد اپنی منفرد لسانی اور ثقافتی میراث کو محفوظ رکھنے پر مرکوز ہے ۔  

میو قوم کی تاریخ ایک ایسی کمیونٹی کی لچک اور بقا کی طاقتور گواہی ہے جس نے صدیوں تک انضمام اور محکومیت کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ اراولی کے پہاڑوں سے لے کر پنجاب کے میدانوں تک، ان کی کہانی مذہبی اور ثقافتی شناخت کی پیچیدہ نوعیت، اور نوآبادیاتی نقشہ سازی کے گہرے اور پائیدار صدمے کی عکاسی کرتی ہے۔

ذیل کا جدول مختلف تاریخی ادوار میں میو قوم کی حیثیت کا ایک تقابلی تجزیہ پیش کرتا ہے، جو اس رپورٹ کے مرکزی دلائل کا خلاصہ ہے۔

جدول 2: تاریخی ادوار میں میو قوم کی حیثیت کا تقابلی تجزیہ

پہلوسلطنت/راجپوت دور (تقریباً 1200-1526ء)مغلیہ دور (1526-تقریباً 1857ء)برطانوی دور (تقریباً 1857-1947ء)
سیاسی حیثیتنیم خود مختار ریاست (خانزادہ)، باغی قبائل۔محکوم لیکن تسلیم شدہ مقامی قیادت (چوہدری)، بطور منصب دار شمولیت، مسلسل شورش۔سیاسی طور پر منقسم، “جرائم پیشہ قبیلہ” قرار دیا گیا، کسانوں کی قیادت میں مزاحمت۔
معاشی بنیادزمیندار زرعی اور گلہ بان، غالب ذات۔بڑے پیمانے پر زمیندار، لیکن مغل محصولاتی نظام کے تابع۔نئے زمینی قوانین کے ذریعے منظم طریقے سے غریب کیا گیا، وسیع پیمانے پر قرض اور زمین سے بے دخلی۔
مرکز سے تعلقمخالفانہ لیکن تسلیم شدہ باجگزار کے طور پر بھی۔شمولیت، مفاہمت اور بغاوت

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme