میو قوم کی بارات دیر سو پہنچنو۔
میو قوم کی بارات دیر سو پہنچنو۔
حکیم املیوات قاری محمد یونس شاہد میو
میو قوم پتو نہ ہے کائیں کو بری باتن نے جلدی پکڑے اور بُری باتن نے بطور مثال پیش کرے ہے۔اور اچھی باتن سو منہ موڑے بلکہ نوں کہوں تو بےجا نہ ہوئے گو اچھی بات اِنن نے بُری لگاہاں۔
جب رسومات اور بیاہ بدو کی باری آوے ہے تو خود بھی ذلیل ہووا ہاں دوسران نے بھی کراہاں۔
مثلاََ سگائی میں چھورا والا۔جب چھوری
دیکھن جاواہاں تو ایسے لگے ہے کہ بارات جاری ہے۔گاڑی بھر بھر کے چھوڑا والا پے
چڑھائی کراہاں۔حالانکہ چھوری جن کو دکھائی جاری ہے اُنن نے چھوری یا پھر یا کا رشتہ سو کوئی لینو دینو نہ ہے۔مثلاََ ماما۔پھوپھی۔تایا/چچا۔مائونسی۔تائو کی بڑی بہو۔ نہ جانے کہاں کہاں سکیر کے لوگن نے چھوری والا کے گھرے لاپٹکا ہاں۔۔ای واردات ایک بار نہ ہووے ہے بلکہ بار بار اب کے ہمارو بڑو اسنائو آرو ہے /اب کے ہماری چھوٹی بیٹی آری ہے۔
حالانکہ چھورا کا ماں باپ یا بہن ۔بڑی بہو۔وغیرہ ایک دو کافی ہا دیکھن کے مارے۔لیکن اپنی ذات جو دکھائی ہے کہ ہماری عزت تو پہلے ای نہ ہے بیٹی والا کی عزت اے بھی خاک میں ملا دیو۔
کھا نگل کے جب دیکھو کہ بیٹی والا سو گھنی امید نہ ہے تو کائی نہ کائی اے آگے کرکے رشتہ سو ناٹ جاواہاں ۔کہواہاں ہم نے تو رشتہ پسند ہے پر ہماری پھوپھی نہ مان ری ہے؟
لاحول والاقوۃ۔
رشتہ تم نے کرنو ہے یا پھوپھی اے۔۔چھوری والا کا گھر گھریرو کردئیو۔جہاں میون میں اتنی ساری بُری رسم ہاں ہو ن ایک ای بھی ہونی چاہے کہ چھورا والان نے کتنو خرچہ کروائیو ہے ۔سب وصول کرکے بیٹی والا کو واپس کرو جائے؟جاسو پتو چلے کہ کائی بہن بیٹی اے داغی کرن کو کہا نتیجہ رہوے ہے۔
بارات میں دیری۔
اللہ اللہ کرکے جب رشتہ ہوجاوے ہے تو بارات کی باری آوے ہے۔بیٹی والا نے جو وقت دئیو ہے واپے کوئی بارات نہ پہنچے ہے ۔بلکہ جب بارات چلن کو وقت آوے ہے تو نوسا اے پارلر میں جابٹھا واہاں ۔کہ چھورو تیار ہورو ہے؟۔اللہ کا بندائو ۔جب خدا نے ای اچھی شکل والا نہ بنائیو ہے تو پارلر والو کہا کرے گو۔پھر پارلر کو لمبو چوڑو خرچہ کرکے واپس آوے ہے تو منہ بندر کا پچھواڑا کی طرح دیکھے ہے۔
اگر بیٹی والا نے دن دو بچے کو وقت دئیو ہے تو میون کی بارات رات چھ بجے پہنچے ہے۔
بیٹی والا ن نے جو کھانو پکائیو ہے گئی کئ بار گرم کرو جاوے ہے۔ایک تو دیرسو بارا پہنچت ہے ۔جب پہنچے ہے تو میو ایسے نانچا ہاں جیسے ان کو تعلق کائی نچنیا کا خاندان سو ہوئے۔
واسو پیچھے دس دس کا نوٹن نے ایسے پھینکا ہاں کہ گھڑمس مچ جاوے ہے۔ایک تو پہلے اے دیر سو پہنچا ۔اوپر سو ناچنا گانا میں اور بگی دیر کردی۔
جب جیب خالی ہو جاواہاں۔ناچ ناچ کے پائوں بھر جاواہاں ۔پھر رول مچے ہے
مولبی (مولی) صاب کہان ہے جلدی جلدی نکاح پڑھوائو۔۔۔
نکاح کے دوران کوئی موبائل دیکھ رو ہے کوئی غیبت کررو ہے ۔کوئی پروا نہ ہے کہ نکاح کی اہمیت کہا ہے۔؟
پھر نکاح سو پیچھے رول مچے ہے دعا مانگ لئیو ۔دعا مانگ لیئو۔
اگلی باری حق مہر کی باری آوے ہے تو بڑا بڑا بگڑ باندھی میو کہواہا حق مہر فاطمی باندھ دیو ہم نے تو جتنا بالکن کی شادی کری ہے سبن میں حق مہر فاطمی باندھو ہو؟
بے تہاشہ پیسہ اُڑا کے ۔مہر فاطمی ہوئے۔۔۔ناچ گانا۔ڈھول ڈھمکا سو پیچے نکاح میں برکت ہوئے۔اور دلہا دلہن کا بیچ میں محمد ی و عائشہ پیدا ہونا کی دعا کری جاوے ہے۔
تھوڑی بہت حیاء ہوئے تو ان سو کوئی پوچھے تم نے کونسو ایسو کام کرو ہے جاسو نکاح میں برکت ہوئے۔
فضول خرچی تم نے کری۔ڈھول باجا تم نے بجایا۔ناچا گایا ت،م ۔چھوری والا سو وعدہ کرکے وقت سو تم لیٹ ہویا ۔رشتہ کی بے عزتی کروان کے مارے بارات میں اَن تُکا لوگن نے لیکے تم پہنچا۔
جب مہر اور مولوبی کی فیس کی باری آوے ہے تو تم نے شریعت یاد آجاوے ہے۔
میون کا ٹھونڈا لوگ۔
جہیز کے خلاف بڑی بڑی تقریرن نے کراہاں ۔بارات کی مخلافت کراہاں ۔لیکن ان سب باتن میں خود آگے آگے رہواہاں۔۔۔
کہا کہو جاسکے ہے جن باتن نے میو قوم فخر سمجھ ری ہے۔حقیقت ای ہے کہ سب زوال کی نشانی ہاں۔
زوال کا کہیں میو قوم پُر خلوص طریقہ سے گِرتی چلی جاری ہے۔