
میو قوم میں نکاح کی تاخیر ۔جہیز کی ڈیمانڈ۔شرح طلاق میں اضافہ۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
معاشرہ میں لوگ ایک دوسرا سو متاثر ہوواہاں۔ہر قوم و قبیلہ کی اپنی اپنی ضروریات ۔ترجیحات۔رسوم و رواج رہواہاں۔پیدائش سو لیکے مرَن تک بہت سا معاملات اور زندگی کا مسائل رہوا ہاں۔فطرت انسانی اپنی نسل کی بڑھوتری کے مارے جتن کرے ہے۔ معاشرہ میں زوال کا اسبابن میں سو ایک سبب غیر ضروری رسومات اور اپنے اُوپر لادھا گیا بوجھ رہوا ہاں۔جن کو فرد کو خود فائدہ رہوے، نہ واسو ُبرادری فائدہ اٹھا سکے ہے۔لیکن وسائل کو ضیاع رہوے ہے۔
میو قوم دوسری قومن سو بہت سا معاملات میں اپنی الگ شناخت راکھے ہی۔جب میو معاشرہ قائم ہو۔میوات میں میو اپنی مرضی سو زندگی جیوے ہو۔تویا قوم کا رشتہ ناطہ نائی، میراثی کرے ہا۔ان کو تجربہ اپنا کام میں جھلکے ہو ۔وے جب رشتہ کر کے آوے ہا، تو ان کی بات کو پانی دئیو جاوے

ہو۔ رشتہ ناطہ دِل سو قبول کرا جاوے ہا۔
میو قوم میں شرح طلاق نہ ہونا کے برابر ہی۔اگر کوئی طلاق دیوے ہو تو پوری برادری میں معیوب سمجھو جاوے ہو ۔ان کی اپنی رسومات ہی۔ان کے مطابق اپنی غمی خوشی کو بندو بست کرے ہا۔
بہت سا جذباتی لوگ، بڑا بوڑھان کا ہر کام کا بارہ میں کہواہاں کہ ای تو :”ہندوانہ رسومات میں سو ہی:” حالانکہ ایسی بات نہ ہے۔جب لفظ ہندو آوے ہے، تو ذہن میں مذہب ۔اور مسلک کو خیال آوے ہے۔ای بہت بڑی زیادتی ہے۔جب سوُ میں نے تاریخ پے کام شروع کرو ہے۔ایک بات سمجھ میں آئی ہے کہ۔لوگ گلہ گیل کہواہاں کہ ہمارا بڑا بوڑھا اَن پڑھ۔ہا۔اُنن نے پتو نہ ہو۔لیکن جب معلومات اورتاریخ کا مہیں دیکھوں تو پتو چلے ہے، وے لوگ ہم سو گھنا بُدھی مان۔اور دانا لوگ ہا۔ای موضوع بہت طویل ہے پھر کدی لکھونگو۔
میو قوم میں وسائل کا استعمال کو کوئی خاص ڈھنگ نہ ہو۔ان کی معیشت و معاشرت زمیندارہ۔محنت و مشقت سو وابسطہ ہی۔اتنا وسائل نہ ہا کہ ضروریات زندگی زیادہ مقدار میں مہیا کرسکتا۔بھانڈا ،ٹینڈا بھی بقدر ضرورت رہوے ہا۔
موئے اچھی طرح یاد ہے ہم اپنا گھر میں ایک ہی کٹوری میں باری باری کھاوے ہا۔پہلے بڑو کھاگو۔پھر چھوٹا کی باری آئی۔پورا گھر میں ایک ہی گلاس پانی پینا کے مارے رہوے ہو۔سوڑ، گودڑی اتنی رہوے ہی کہ ایک کھاٹ پے دو،دو تین ،تین سووے ہا۔لتا، کپڑان پے تھیکلا لگانو۔تہبند کاپلاجوڑنا عام سی بات ہی ۔ ۔ جاڑان میں کئی کئی قیمض اور شوار پہن کے سردی سو بچنو عام سی بات ہی یعنی وسائل کا استعمال کا مہیں رجحان کم ہو ۔وسائل ہا۔لیکن ان کو استعمال یا انداز میں نہ ہو۔
ایسا میں جب بیاہ بدو ہووے ہا تو میو اپنی بیٹی کو بساط بھر ضروریات زندگی کو سامان دیوے ہا۔غریب اپنی کو اپنی حیثیت کے مطابق ،امیر اپنی کو اپنے مطابق دیوے ہو۔میو دِینی مزاج کا ضرور ہا لیکن مفتی یا اتنا پڑھا لکھا نہ ہا کہ وے ان باریکین میں سوچتا۔جو کچھ کرے ہا۔ضرورت کے مطابق کرے ہا۔یہی وجہ ہے کہ میو قوم میں حیاء شرم اور زندگی جینا کو سلیقہ موجود ہو۔
طلاق ایک معیوب چیز ہی۔ایک نکاح سو پیچھے دوسرو نکاح جائز سمجھے ہا ۔لیکن دوسرا نکاح کو رواج کم ہو۔ لیکن طلاق کی شرح نہ ہونا کے برابر ہی۔جہیز کی ڈیمانڈ بھی نہ ہونا کے برابر ہی۔میو قوم میں چھوران کی تعداد چھورین سو گھنی رہوے ہی ۔
رشتہ ملنو کافی مشکل ہو۔بچولیا کئی کئی مہینان تک ہَل جُتواوے ہو۔جب کہیں جاکے رشتہ ہووے ہا۔ایسا میں طلاق کو سوچنو ۔پائوں پے پتھر گیرن والی بات ہی۔
آج کا میو گھنایا پڑھا ہاں ۔جہالت عروج پے ہے۔منہ سو جہیز ڈیمانڈ کرو جاوے ہے۔بیٹی والو بھی نوں جانے ہے کہ ٹانگ اُٹھا کے موتے۔۔فضول خرچی۔بے جا نمود و نمائش۔بارات کی بھر مار۔سب سو بڑی بات ای کہ سب گھونس کے باوجود طلاق کی شرح میں خوفناک اضافہ۔
یعنی جو چیز باپ دادان کے نزدیک معیوب ہی ۔اُو ہمارے مارے اچھی بن گئی۔اور جو دنیا کو گند ہم نے اپنے اوپر لادھ لئیو،پھر واپے فخر۔یعنی میو قوم کی عقل ماری گئی ہے۔اور اپنا آپ میں عقل بھر بنا پھراہاں۔
کل میں میو قوم کا ایک معزز شخص علامہ محمد احمد قادری سو ملو۔پریشان ہو۔پتو کرو ،تو واکا سمدانہ والا شادی کے چال سال بعد جہیز لینا پے مجبور کرراہا۔قادری صاحب بضد ہو کہ موکو اللہ نے سب کچھ دے راکھوہے۔موئے کِسائیں کی بھی لوڈ نہ ہے۔
سگائی میں بھیڑ بھاڑ جمع ہونو۔گاڑین نے بھر بھر کے چھوری والے گھر لے کے جانو۔شادی بیاہ پے غیر ضرور ری اخرجات کرنو۔اور ڈِھٹائی سوُ اپنا ہون والا رشتہ دارن سو کہنو کہ” موئے کنسائیں کی ضرورت نہ ہے۔بس میری بارات سنبھال لئیو”۔
عجیب قسم کی بے غیرتی ہے۔ گھنو عزت دار ہا توبارات اپنے گھر کھوا۔
بیٹی والو کی سفید پوشی اے کیوں تار تار کررو ہا؟۔
ولیمہ کر تو لاکھ آدمی بلا۔کون روکے ہے؟۔
بیحائی دیکھو کہ ہون والا رشتہ کی بے عزتی اپنا ہاتھن سو کروارو ہا۔
پھر ساری زندگی روتو ڈولا گو کہ بہو اچھی نہ ملی۔رشتہ دار اچھا نہ ہا؟۔
۔کدی اپنا منہ اے بھی شیشہ میں دیکھ لئیو۔اپنی تھوتری اور ہُڑک پے غور کرلیئو۔
سچی بات ای ہے جو لوگ بارات میں جاواہاں ۔
وے چور بن کے جاواہاں۔اور ڈاکو بن کے واپس آواہاں۔۔
عام لوگ تو رہا ایک گھاں کو۔
جنن نے جہیز و بارات کے خلاف تقریر کرکر کے کان پھوڑ راکھاہا ں۔
وے سبن سو گھنو جہیز لیوا دیواہاں۔
پھر ظلم پے ظلم ای کہ جو لوگ تبلیغ سو جُڑا ہویا بتاواہاں۔
وے اپنی بیٹی کو نکاح تو رائیونڈ یا مسجد ابراہیم جاکے دیواہاں۔
اپنا بیٹا کی بارات اے تاج محل میں بندوبست کی فرمائش کراہاں۔
یعنی یہ لوگ مکمل شرعی لباس میں غیر شرعی کام پُر خلوص طریقہ سو کراہاں۔
اور بارات میں سبن سو گھنی فضول خرچی کراہاں۔
میو قوم اے سادگی مہیں آنو پڑے گو۔
ناک خدا نے ضرورت کے مارے لگائی ہے ۔تم نے یامیں عزت ڈھونڈ نو شروع کردی۔۔۔
بہر حال میو قوم جہاں بہت سا شعبان میں آگے بڑھ ری ہے ۔
وائی جگہ بیاہ شادی،کی غیر ضروری رسومات کی دلدل میں پھنسی جاری ہے۔
خود باز آجائو،نہیں تو قدرت ایسو بندوبست کرے گی کہ تم کہیں کا بھی نہ رہوگا۔۔
