دھن سنگھ میو ۔خوشی خاں میو، 1857 کی جنگِ آزادی میں

تمہید: 1857 کے تناظر میں میوات کی مزاحمت

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

Advertisements

( یہ اقتباس ہماری کتاب “میو قوم کوشاندار ماضی اور جنگِ آزادی “1857”سے لیاگیا ہے)

ہندوستان کی جنگِ آزادی 1857، جسے نوآبادیاتی مورخین نے “غدر” اور قوم پرستوں نے “پہلی جنگِ آزادی” کا نام دیا، محض ایک فوجی بغاوت نہیں تھی، بلکہ یہ برطانوی سامراج کے خلاف ایک عوامی سیلاب تھا۔ روایتی تاریخ کے اوراق زیادہ تر دہلی، لکھنؤ، کانپور اور جھانسی کے مراکز اور وہاں کے حکمرانوں—بہادر شاہ ظفر، نانا صاحب، اور رانی لکشمی بائی—کے گرد گھومتے ہیں۔ لیکن اس جنگ کا ایک اور بھیانک اور ولولہ انگیز محاذ تھا جو دیہی ہندوستان کے کھیتوں اور پہاڑوں میں گرم ہوا، جسے اکثر تاریخ کی کتابوں میں حاشیے پر ڈال دیا گیا۔ یہ محاذ “میوات” کا خطہ تھا، جہاں کسانوں، مزدوروں اور مقامی چوہدریوں نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ایک ایسی مزاحمت کی بنیاد رکھی جس کی مثال نہیں ملتی۔

یہ تفصیلی تحقیقی رپورٹ دو عظیم لیکن تاریخی طور پر نظر انداز کیے جانے والے کرداروں—دھن سنگھ میو (ولد دھنونتر میو، ساکن شاہ پور نانگلی) اور خوشی خان میو (ساکن بڈکا/سہسوالہ)—کی زندگی، جدوجہد اور شہادت کا احاطہ کرتی ہے۔ ان شخصیات کا مطالعہ محض انفرادی سوانح عمری نہیں ہے، بلکہ یہ پوری “میو” برادری کی اجتماعی نفسیات، ان کے قبائلی ڈھانچے (پال سسٹم) اور آزادی کے لیے ان کی تڑپ کا عکاس ہے۔ میوات کا خطہ، جو آج کے ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کے سنگم پر واقع ہے، دہلی کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود اپنی ایک الگ ثقافتی اور سیاسی شناخت رکھتا تھا۔ جب مئی 1857 میں میرٹھ اور دہلی میں بغاوت کی آگ بھڑکی، تو میوات کے لوگ تماشائی بن کر نہیں بیٹھے، بلکہ انہوں نے اپنے روایتی ہتھیار اٹھا کر برطانوی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

اس تحریرکا مقصد دستیاب تحقیقی مواد، نوآبادیاتی ریکارڈز، اور لوک روایات کی روشنی میں ان واقعات کی، اور خاص طور پر ان دو شخصیات کی، ازسرنو تشکیل کرنا ہے۔ ہم نہ صرف ان کی شہادت کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے بلکہ ان سماجی و سیاسی محرکات کا بھی تجزیہ کریں گے جنہوں نے ایک عام کسان کو ایک انقلابی کمانڈر میں تبدیل کر دیا۔


1857 سے قبل میوات کا سماجی و سیاسی منظرنامہ

دھن سنگھ میو اور خوشی خان میو کے کردار کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس زمین اور معاشرے کو سمجھیں جس نے ان کی پرورش کی۔ میوات کا جغرافیہ، جو کہ ارولی کے پہاڑی سلسلے

پر مشتمل ہے، ہمیشہ سے باغیانہ رہا ہے۔

میو برادری کی ساخت: ‘پال’ اور ‘گوتر’ کا کردار

میو برادری، جو کہ مسلمان ہے لیکن اپنی راجپوت نسل پر فخر کرتی ہے، ایک منفرد سماجی ڈھانچے کی حامل تھی۔ یہ برادری 12 ‘پالوں’ (بڑے قبیلوں) اور 52 ‘گوتروں’ (ذیلی شاخوں) میں تقسیم تھی۔ 1857 کی جنگ میں اس قبائلی ڈھانچے نے ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ 1

فوجی تنظیم کے طور پر سماجی ڈھانچہ: جب دہلی سے بغاوت کی خبریں آئیں، تو میوات میں کسی مرکزی فوج کی ضرورت نہیں پڑی۔ ہر ‘پال’ خود بخود ایک فوجی یونٹ میں تبدیل ہو گیا۔ دھن سنگھ میو اور خوشی خان جیسے رہنماؤں کی طاقت ان کی ذاتی جاگیر نہیں تھی، بلکہ ان کی طاقت ان کا ‘پال’ اور گاؤں کی برادری (بھائی چارہ) تھی۔ پنچایتوں نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا، اور پیغام رسانی کا کام خاندانی نیٹ ورکس کے ذریعے بجلی کی تیزی سے ہوا۔

مذہبی رواداری اور مزاحمت: میو اپنی مذہبی روایات میں صوفیانہ رنگ رکھتے تھے۔ وہ سید سالار مسعود غازی اور خواجہ معین الدین چشتیؒ سے عقیدت رکھتے تھے 2۔ لیکن سیاسی طور پر وہ کسی بیرونی طاقت کو تسلیم کرنے کے عادی نہیں تھے۔ مغلوں کے دور سے لے کر انگریزوں تک، میواتیوں نے ہمیشہ مرکزی ٹیکس نظام کی مزاحمت کی تھی۔

برطانوی پالیسیاں اور معاشی استحصال

1857 سے پہلے کے سالوں میں، انگریزوں نے میوات میں زمینی بندوبست (Land Settlement) کے سخت قوانین نافذ کیے تھے۔

بھاری ٹیکس: برطانوی کلکٹرز نے زمین کا لگان اتنا بڑھا دیا تھا کہ کسان اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو رہے تھے۔

قحط اور بے حسی: 1857 سے قبل کے قحطوں میں کمپنی بہادر کی بے حسی نے نفرت کی آگ کو ہوا دی۔

مجرمانہ قبائل کا لیبل: انگریز منتظمین میواتیوں کو “لٹیرا” اور “فسادی” سمجھتے تھے۔ یہ تعصب ان کی سرکاری رپورٹس میں عیاں تھا، جہاں ہر قسم کی مزاحمت کو “ڈکیتی” کا نام دیا جاتا تھا۔ 3

جب 10 مئی 1857 کو میرٹھ میں دھماکہ ہوا اور 11 مئی کو باغی دہلی میں داخل ہوئے، تو میوات میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ گڑگاؤں کے برطانوی کلکٹر ڈبلیو فورڈ (W. Ford) کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا، اور اس طرح میوات میں برطانوی راج کا عارضی خاتمہ ہو گیا۔ اس خلا میں دھن سنگھ اور خوشی خان جیسے مقامی لیڈر ابھر کر سامنے آئے۔


دھن سنگھ میو (نانگلی): شاہ پور کا انقلابی شیر

اس تحقیق کا پہلا مرکزی کردار دھن سنگھ میو ہے، جن کا تعلق شاہ پور نانگلی (جسے تاریخی ریکارڈ میں ‘نانگلی ادوار’ یا ‘نگلی’ بھی لکھا گیا ہے) سے تھا۔ اکثر انٹرنیٹ پر موجود مواد میں انہیں میرٹھ کے کوتوال دھن سنگھ گرجر کے ساتھ خلط ملط کر دیا جاتا ہے، لیکن یہ دونوں بالکل الگ شخصیات ہیں۔ دھن سنگھ میو ایک مقامی میواتی کسان رہنما تھے جنہوں نے نوح (Nuh) کے محاذ پر انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔

شناخت اور خاندانی پس منظر

تحقیقی شواہد کے مطابق:

نام: دھن سنگھ میو (بعض جگہوں پر ‘دھنا’ بھی کہا گیا)۔

والد کا نام: دھنونتر میو (Dhanwant Meo)۔ 5

سکونت: گاؤں شاہ پور نانگلی (نانگلی ادوار)، ضلع نوح (میوات)۔

شاہ پور نانگلی کا گاؤں نوح کے قصبے سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس زمانے میں یہ مزاحمت کا ایک اہم مرکز تھا۔ دھن سنگھ کوئی تربیت یافتہ فوجی نہیں تھے، بلکہ وہ اپنے گاؤں کے نمبردار یا سرکردہ بزرگ تھے، جن کی آواز پر سینکڑوں نوجوان سر پر کفن باندھ کر نکل کھڑے ہوئے۔

3.2

1857 میں کردار: نوح کی تسخیر

جب گڑگاؤں سے برطانوی انتظامیہ فرار ہوئی، تو نوح کا علاقہ مقامی وفاداروں (جیسے کچھ راجپوت اور خانزادہ خاندان جو انگریزوں کے حامی تھے) اور انقلابی میووں کے درمیان جنگ کا میدان بن گیا۔

نوح پر حملہ: دھن سنگھ میو پر انگریزی ریکارڈ میں جو سب سے بڑا الزام (Charge) لگایا گیا، وہ “نوح کے قصبے کو لوٹنا اور قتل میں اعانت” تھا۔ 5 نوآبادیاتی زبان میں جسے “لوٹ مار” کہا گیا، دراصل وہ انقلابی کارروائی تھی۔ دھن سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے نوح میں موجود سرکاری خزانے، پولیس تھانے اور ان لوگوں کی املاک کو نشانہ بنایا جو انگریزوں کے مخبر تھے۔

“دھار” کی قیادت: دھن سنگھ نے شاہ پور نانگلی، ریہنہ (Rehna) اور ٹپکن (Tapkan) کے دیہاتوں سے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ میواتی جنگی اصطلاح میں اسے “دھار” (Dhar) بنانا کہتے ہیں۔ یہ ایک رضاکار ملیشیا تھی جو روایتی ہتھیاروں (تلوار، بھالا، اور پرانی بندوقیں) سے لیس تھی۔

گرفتاری اور مقدمہ

ستمبر 1857 میں دہلی پر انگریزوں کے دوبارہ قبضے کے بعد، برگیڈیئر جنرل شاورز (Brigadier-General Showers) کی قیادت میں ایک بھاری فوج میوات کی طرف روانہ کی گئی۔ اس مہم کا مقصد “باغیوں” کا صفایا کرنا تھا۔

چھاپہ: برطانوی فوجوں نے گاؤں گاؤں تلاشی لی۔ شاہ پور نانگلی کو گھیرے میں لیا گیا اور دھن سنگھ کو گرفتار کیا گیا۔

مقدمہ کی نوعیت: یہ مقدمات محض دکھاوا تھے۔ ملٹری کمیشن کے سامنے پیشی ہوئی، جہاں گواہی اور صفائی کا کوئی موقع نہیں تھا۔ الزام صرف ایک تھا: سرکار کے خلاف بغاوت۔

تاریخِ شہادت: سرکاری ریکارڈ 5 کے مطابق، دھن سنگھ میو کو 9 فروری 1858 کو پھانسی دی گئی۔

اجتماعی شہادت کا سانحہ

دھن سنگھ اکیلے شہید نہیں ہوئے۔ انہیں نوح کے مقام پر ایک کھلے میدان میں پھانسی دی گئی تاکہ عام لوگوں میں دہشت پھیلائی جا سکے۔

ان کے ساتھ 44 دیگر میو مجاہدین کو بھی اسی روز پھانسی دی گئی۔ 6

مقامی روایات اور حالیہ یادگاروں کے مطابق، شاہ پور نانگلی، ریہنہ اور ٹپکن کے مجموعی طور پر 52 شہداء کی یاد منائی جاتی ہے۔ 7

یہ واقعہ میوات کی تاریخ میں “خونی فروری” کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزوں نے لاشوں کو درختوں پر لٹکا رہنے دیا تاکہ کوئی دوسرا سر اٹھانے کی جرات نہ کرے۔


خوشی خان میو (بڈکا/سہسوالہ): جنوری کے قتلِ عام کا استعارہ

دوسرا اہم کردار خوشی خان میو کا ہے۔ صارف کے سوال میں انہیں “سہسوالہ” (Sehswala) کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے، جبکہ تحقیقی ریکارڈ انہیں بڈکا (Badka) گاؤں کے شہداء کی فہرست میں نمایاں کرتا ہے۔ تاریخی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں دیہات ایک ہی جغرافیائی پٹی میں واقع ہیں اور غالباً ایک ہی برطانوی آپریشن کا نشانہ بنے۔

بڈکا اور سہسوالہ کا تعلق

نوآبادیاتی ریکارڈ اور شہداء کی فہرستیں 8 درج ذیل تفصیلات فراہم کرتی ہیں:

بڈکا کا قتلِ عام: جنوری 1858 میں برطانوی فوج نے بڈکا گاؤں پر حملہ کیا۔ یہاں 30 افراد شہید ہوئے، جن میں خوشی خان کا نام سرفہرست ہے۔

سہسوالہ (سہسولہ) کا قتلِ عام: اسی مہم کے دوران سہسوالہ میں بھی خون کی ہولی کھیلی گئی، جہاں فیروز خان میو سمیت 12 افراد شہید ہوئے۔

یہ ممکن ہے کہ خوشی خان کا تعلق خاندانی طور پر سہسوالہ سے ہو لیکن وہ بڈکا کے محاذ پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہوں، یا پھر عوامی حافظے نے ان دو قریبی دیہاتوں کے ہیروز کو ایک ساتھ یاد رکھا ہو۔ میواتی لوک گیتوں (پنڈون) میں اکثر ہیروز کے کارناموں کو جغرافیائی حدود سے بالا تر ہو کر بیان کیا جاتا ہے۔

لوک ورثہ اور تاریخی شواہد

ایک نایاب تحقیقی حوالے 9 میں میواتی لوک گیت کا ذکر ملتا ہے جو خوشی خان کی بہادری کی عکاسی کرتا ہے:

“خوشی خان کھلُوک میں تیرہ بجے جیت کا ڈھول…”

(خوشی خان نے کھلوک میں فتح کا ڈھول بجایا…)

اس گیت میں خوشی خان کا تعلق “ڈمروٹ” (Dimrot) پال سے جوڑا گیا ہے۔ اگر یہ وہی خوشی خان ہیں، تو یہ ایک اہم دریافت ہے کیونکہ ڈمروٹ میووں کا ایک بہت طاقتور قبیلہ ہے۔ یہ اشارہ کرتا ہے کہ خوشی خان محض ایک فرد نہیں تھے بلکہ ایک بڑے قبیلے کے سردار یا کمانڈر تھے جنہوں نے انگریزوں کے دانت کھٹے کیے۔ “تیرہ بجے جیت کا ڈھول” کا مصرعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے کسی ابتدائی جھڑپ میں انگریزوں کو شکست دی تھی، جس کا جشن لوک شاعری میں محفوظ ہو گیا۔

جنوری 1858 کی قیامت

خوشی خان کی شہادت اس وقت ہوئی جب انگریزوں نے “زمین کو جھلسانے” (Scorched Earth) کی پالیسی اپنائی۔ کیپٹن ڈرمنڈ (Captain Drummond) اور ڈپٹی کمشنر فورڈ نے فیصلہ کیا تھا کہ جن دیہاتوں سے مزاحمت ہوئی ہے، انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔

فوجی کارروائی: انگریز فوج توپ خانے کے ساتھ آئی۔ خوشی خان اور ان کے ساتھیوں کے پاس جدید ہتھیار نہیں تھے، لیکن انہوں نے گلیوں اور کھیتوں میں جنگ لڑی۔

شہادت: خوشی خان کو گرفتار کر کے پھانسی نہیں دی گئی، بلکہ وہ لڑتے ہوئے یا پھر گاؤں میں ہونے والے اجتماعی قتلِ عام (Massacre) میں شہید ہوئے۔ ان کے ساتھ 30 دیگر نامعلوم دیہاتی بھی شہید ہوئے جن کی قبریں آج بھی اجتماعی یادگاروں کی صورت میں موجود ہو سکتی ہیں۔


“گوری فوج” کا قہر: برطانوی انتقامی کارروائیاں

دھن سنگھ اور خوشی خان کی داستانیں اس پس منظر کے بغیر ادھوری ہیں کہ ان کے خلاف کس قسم کی طاقت استعمال کی گئی۔ مقامی لوگ برطانوی فوج کو “گوری فوج” کہتے تھے۔ 10

میوات کو مٹانے کا منصوبہ

نومبر 1857 سے فروری 1858 تک، میوات پر قیامت ٹوٹی۔ دہلی پر قبضے کے بعد انگریزوں کو سب سے زیادہ خطرہ میوات سے تھا کیونکہ یہ دہلی کے پہلو میں ایک آزاد ریاست کی طرح ابھر رہا تھا۔

روپڑاکا (Roopraka) کا سانحہ (19 نومبر 1857): یہ میوات کا “جلیانوالہ باغ” تھا۔ ایک ہی دن میں 425 میو شہید کیے گئے۔ درختوں کی کمی پڑ گئی تو ایک ایک درخت پر کئی کئی لاشیں لٹکائی گئیں۔ 8

دیہات نذرِ آتش: 36 سے زائد دیہات مکمل طور پر جلا کر خاک کر دیے گئے۔ مقصد صرف باغیوں کو مارنا نہیں تھا، بلکہ ان کی معیشت اور نسل کو ختم کرنا تھا۔

تقابلی جائزہ: برطانوی بمقابلہ انقلابی

خصوصیتبرطانوی افواج (گوری فوج)میواتی انقلابی (دھن سنگھ و خوشی خان)
قیادتبرگیڈیئر شاورز، کیپٹن ڈرمنڈ، ڈبلیو فورڈدھن سنگھ، صدرالدین میو، خوشی خان، پنچایتیں
ہتھیاراینفیلڈ رائفلز، جدید توپ خانہ، منظم رسالہتلواریں، نیزے، پرانی توڑہ دار بندوقیں، زرعی آلات
حکمت عملیگھیراؤ اور تباہی (Scorched Earth)، اجتماعی سزائیںگوریلا جنگ، اچانک حملے، رات کی چھاپہ مار کارروائیاں
مقصدسامراجی کنٹرول کی بحالی، خوف و ہراسآزادی، مذہب و ثقافت کا تحفظ، زمین کا دفاع

تاریخی تناظر اور اثرات: “مجرم” یا “مجاہد”؟

خاموشی کا دور

دھن سنگھ اور خوشی خان جیسے ہیروز کی تاریخ نوآبادیاتی ریکارڈ میں “مجرموں” کی فہرست میں کیوں ملتی ہے؟ اور ان کی اپنی نسلیں انہیں کیوں بھول گئیں؟

خوف: 1858 کے بعد انگریزوں کا خوف اتنا شدید تھا کہ لوگوں نے اپنے بزرگوں کے نام لینا چھوڑ دیے۔ یہ ایک “جبری فراموشی” (Forced Amnesia) تھی تاکہ نئی نسل کو انگریزوں کے غضب سے بچایا جا سکے۔ 5

ریکارڈ کی تباہی: میوات کے کئی دیہاتوں کا ریکارڈ جلا دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے آج خاندانی شجرے (Genealogy) جوڑنا مشکل ہے۔

کرمنل ٹرائب ایکٹ 1871 (Criminal Tribes Act)

دھن سنگھ اور خوشی خان کی مزاحمت کا خمیازہ پوری میو برادری کو بھگتنا پڑا۔ انگریزوں نے انہیں “باغی” ہونے کی سزا یہ دی کہ 1871 میں انہیں قانونی طور پر “جرائم پیشہ قبیلہ” (Criminal Tribe) قرار دے دیا۔ 3

اس قانون کا مقصد میووں کی نگرانی کرنا اور انہیں معاشی طور پر مفلوج کرنا تھا۔

ایک پوری قوم کو صرف اس لیے “پیدائشی مجرم” کہا گیا کیونکہ انہوں نے 1857 میں آزادی کے لیے جنگ لڑی تھی۔ یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی بدترین مثال تھی۔


خلاصہ کلام

دھن سنگھ میو (نانگلی) اور خوشی خان میو (بڈکا/سہسوالہ) ہندوستان کی تاریخ کے وہ گمشدہ اوراق ہیں جنہیں اب پلٹنے کی ضرورت ہے۔

دھن سنگھ میو نے نوح کے محاذ پر قیادت کی اور 9 فروری 1858 کو 44 ساتھیوں کے ساتھ پھانسی کے پھندے پر جھول کر ثابت کر دیا کہ آزادی کی قیمت جان سے بڑھ کر ہے۔ ان کا کردار ایک منتظم اور انقلابی لیڈر کا تھا۔

خوشی خان میو نے جنوری 1858 میں بڈکا کے میدان میں اپنے خون سے یہ تحریر لکھی کہ میواتی کسان جدید ترین فوج کے سامنے بھی سر نہیں جھکائیں گے۔ ان کا ذکر لوک گیتوں میں “جیت کے ڈھول” کے ساتھ زندہ ہے۔

ان دونوں شخصیات کا تعلق صرف اپنے دیہاتوں سے نہیں تھا، بلکہ یہ اس مزاحمتی لہر کا حصہ تھے جس نے برطانوی سلطنت کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔ آج شاہ پور نانگلی میں تعمیر ہونے والا “شہید مینار” 7 اور بڈکا کی مٹی اس بات کی گواہ ہے کہ 1857 کی جنگ صرف بادشاہوں کی جنگ نہیں تھی، بلکہ یہ دھن سنگھ اور خوشی خان جیسے عام انسانوں کی جنگ تھی جنہوں نے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ ان کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تاریخ اکثر فاتحین لکھتے ہیں، لیکن حقیقت شہداء کے خون میں محفوظ رہتی ہے۔


حوالہ جات:

.1

Works cited

Role of Meos in Independence Movement of India – ijrpr, accessed on November 21, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE7/IJRPR15607.pdf

Meo (ethnic group) – Wikipedia, accessed on November 21, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Meo_(ethnic_group)

FINDING, accessed on November 21, 2025, https://jmi.ac.in/upload/Research/ab_2023_history_altaf.pdf

Stereotyping ‘Criminal Image’ of Meos of Mewat inColonial Northern India: An Analysis of British Administrative cum-ethnogra, accessed on November 21, 2025, https://euroasiapub.org/wp-content/uploads/IJRESS210-Nov2020Tq.pdf

Gallant Haryana – The First and Crucial Battlefield of AD 1857 | PDF – Scribd, accessed on November 21, 2025, https://www.scribd.com/document/827550937/Gallant-Haryana-the-First-and-Crucial-Battlefield-of-AD-1857

Full text of “Revolt Of 1857 In Haryana” – Internet Archive, accessed on November 21, 2025, https://archive.org/stream/in.ernet.dli.2015.56643/2015.56643.Revolt-Of-1857-In-Haryana_djvu.txt

Gallant Haryana; The First and Crucial Battlefield of ad 1857, accessed on November 21, 2025, https://api.pageplace.de/preview/DT0400.9781000398298_A37869440/preview-9781000398298_A37869440.pdf

Over 10,000 Mewatis were martyred in the 1857 mutiny – Awaz The Voice, accessed on November 21, 2025, https://www.awazthevoice.in/india-news/over-mewatis-were-martyred-in-the-mutiny-89.html

‘The Saints Belong to Everyone’: Liminality, Belief and Practices in Rural North India – OPUS at UTS, accessed on November 21, 2025, https://opus.lib.uts.edu.au/bitstream/10453/134150/2/02whole.pdf

Mewat residents seek recognition for martyrs of 1857 – The Tribune, accessed on November 21, 2025, https://www.tribuneindia.com/news/haryana/mewat-residents-seek-recognition-for-martyrs-of-1857-473813/

Dhan Singh – Wikipedia, accessed on November 21, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Dhan_Singh

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme