میوات کے ناقابلِ تسخیر مجاہدین: 1857 کی بغاوت کے قائدین

0 comment 65 views

میوات کے ناقابلِ تسخیر مجاہدین: 1857 کی بغاوت کے قائدین

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

حصہ اول: بغاوت کی بھٹی: 1857 کے موقع پر میوات کا منظر نامہ

Advertisements

1857 کی بغاوتِ ہند میں میوات کا کردار کوئی اچانک بھڑکنے والا واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ اس خطے کی صدیوں پر محیط مزاحمت کی تاریخ اور برطانوی راج کے تحت بڑھتی ہوئی شکایات کا ایک منطقی اور پرتشدد نتیجہ تھا۔ اس بغاوت کے قائدین اور اس میں حصہ لینے والے عوام کی امنگوں کو سمجھنے کے لیے، اس سرزمین کے تاریخی اور سماجی و اقتصادی پس منظر کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔

دائمی مزاحمت کی سرزمین

میوات، جو دہلی، آگرہ اور جے پور کے درمیان پھیلا ہوا ایک جغرافیائی اور ثقافتی خطہ ہے، تاریخی طور پر میو قوم کا وطن رہا ہے۔ میو ایک جنگجو اور آزادی پسند قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں، جن کی شناخت اراولی کے ناہموار پہاڑی سلسلوں اور مشکل زرعی ماحول سے جڑی ہے، جس نے ان کے اندر ایک سخت جان اور خود انحصار کردار کو جنم دیا ہے 1۔ ان کی تاریخ بیرونی طاقتوں کے خلاف مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ دہلی کے تخت پر بیٹھنے والے ترک، پٹھان اور مغل حکمرانوں کے لیے میوات ہمیشہ ایک چیلنج بنا رہا 1۔ اس مزاحمتی شناخت کی سب سے بڑی علامت سولہویں صدی کے راجہ حسن خان میواتی ہیں، جنہوں نے مغل سلطنت کے بانی بابر کے خلاف جنگِ کنواہ میں رانا سانگا کا ساتھ دیا اور اپنی جان قربان کر دی 1۔ یہ تاریخی ورثہ میواتیوں کے اجتماعی شعور کا حصہ تھا اور 1857 میں برطانوی استعمار کے خلاف ان کی جدوجہد کے لیے ایک نظریاتی بنیاد فراہم کرتا تھا۔

یہاں کے سماجی تانے بانے میں دو بڑی مسلم برادریاں نمایاں تھیں: میو اور خانزادہ۔ میو اکثریت میں تھے اور ان کا پیشہ زراعت اور گلہ بانی تھا۔ دوسری طرف، خانزادہ اس خطے کے سابق حکمران خاندان کی اولاد تھے 6۔ 1857 تک، خانزادوں کی طاقت کافی حد تک کم ہو چکی تھی اور وہ زمینداروں کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ ان میں سے بہت سے برطانوی حکومت کے وفادار بن گئے، جس نے بغاوت کے دوران ایک اندرونی خلفشار پیدا کیا اور باغیوں کو ایک ساتھ کئی محاذوں پر لڑنے پر مجبور کیا 3۔

اس تاریخی تناظر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 1857 کی بغاوت میواتی تاریخ میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھی۔ یہ صدیوں سے جاری خود مختاری کی جدوجہد کا تسلسل تھی۔ انگریز محض وہ نئی مرکزی طاقت تھے جس نے میوات کی آزادی کو چیلنج کیا، اور میواتیوں نے اسی طرح جواب دیا جس طرح وہ پہلے کے سلطانوں اور مغلوں کو دیتے آئے تھے۔ اس زاویے سے دیکھنے پر میوات کی بغاوت محض “سپاہیوں کی بغاوت” کا ایک حصہ نہیں، بلکہ ایک گہری جڑوں والی علاقائی سیاسی ثقافت کا اظہار نظر آتی ہے۔

کمپنی کا سایہ: بغاوت کے اسباب

1803 سے 1857 کے درمیان ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کو میوات میں “طاقت، سراسر استحصال اور مظالم” پر مبنی دور کے طور پر بیان کیا گیا ہے 3۔ بغاوت کے بنیادی اسباب اسی استحصالی نظام میں پنہاں تھے۔

معاشی استحصال: انگریزوں کی زمینی محصولات کی پالیسی انتہائی جابرانہ تھی۔ پیداوار کا 50 فیصد سے زائد حصہ بطور لگان وصول کیا جاتا تھا 3۔ خاص طور پر “اجارہ داری” کا نظام تباہ کن ثابت ہوا، جس کے تحت محصول وصول کرنے کے ٹھیکے سب سے زیادہ بولی دینے والوں کو دیے جاتے تھے، جو اکثر شہری بنیا ہوتے تھے جن کا زمین یا کسانوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا اور وہ انتہائی سختی سے محصول وصول کرتے تھے 3۔ اس نظام نے گاؤں کی روایتی معیشت کو تباہ کر دیا اور کسانوں کو غربت کی دلدل میں دھکیل دیا۔

مقامی طاقت کا خاتمہ:

انگریزوں نے منظم طریقے سے چھوٹی مقامی ریاستوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا، جن میں فیروز پور جھرکہ (1836)، ٹاورو (1826)، اور ہتھین (1823) شامل تھیں 3۔ اس پالیسی نے مقامی سرداروں کو بے دخل کر دیا اور ان میں شدید بے چینی پیدا کی۔ فیروز پور جھرکہ کے نواب شمس الدین خان کی پھانسی کو بغاوت کا ایک بڑا محرک سمجھا جاتا ہے۔ نواب شمس الدین کی والدہ ایک میواتی خاتون تھیں (“بیگم مدی میواتن”)، جس کی وجہ سے میو قوم کو ان سے ایک خاص جذباتی لگاؤ تھا اور ان کی پھانسی کو پورے خطے کی توہین سمجھا گیا 3۔

سماجی و ثقافتی شکایات: انگریزوں کی مقامی زندگی میں مداخلت بھی شدید ناراضی کا باعث تھی۔ ان کے شکار کے شوق کو مقامی آبادی ناپسند کرتی تھی، جس کا عکس مقامی لوک گیتوں میں بھی ملتا ہے 3۔ اس کے علاوہ، عیسائی مشنریوں کا جارحانہ رویہ، جو ہندو مت اور اسلام دونوں کی تضحیک کرتے تھے، نے بھی عوام کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا 13۔

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بغاوت دراصل دو مختلف لیکن باہم مربوط شکایات کا نتیجہ تھی۔ ایک طرف کسان طبقہ استحصالی معاشی پالیسیوں کے بوجھ تلے دب رہا تھا 3، تو دوسری طرف روایتی مقامی قیادت کو ریاستوں کی ضبطی کے ذریعے ختم کیا جا رہا تھا 3۔ نواب شمس الدین کی پھانسی نے ان دونوں گروہوں کو ایک مشترکہ دشمن کے خلاف متحد کر دیا۔ یہ واقعہ مقامی اشرافیہ کی حیثیت پر حملہ بھی تھا اور میو کسانوں کی علاقائی غیرت کا مسئلہ بھی۔ اس نے ایک ایسے طاقتور برطانوی مخالف اتحاد کو جنم دیا جس میں عوام نے طاقت فراہم کی اور باقی ماندہ ناراض مقامی رہنماؤں نے تنظیم اور جواز فراہم کیا، یوں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بے چینی ایک

منظم بغاوت میں تبدیل ہو گئی۔

س: چنگاری بھڑک اٹھی

10 مئی 1857 کو میرٹھ سے بغاوت کی خبر پھیلتے ہی 11 مئی کو گڑگاؤں پہنچ گئی 3۔ دہلی سے آئے ہوئے تقریباً 300 سپاہیوں کا مقامی کسانوں، کاریگروں اور حتیٰ کہ نواب احمد مرزا خان جیسے ناراض جاگیرداروں نے بھرپور ساتھ دیا 3۔ برطانوی اتھارٹی کا خاتمہ بہت تیزی سے ہوا۔ گڑگاؤں کا کلکٹر-مجسٹریٹ، ڈبلیو فورڈ، اپنی فوج کی شکست کے بعد بھاگ کھڑا ہوا، اور باغیوں نے سرکاری خزانے پر قبضہ کر کے قیدیوں کو رہا کر دیا، جس سے میوات میں عملی طور پر آزادی کا اعلان ہو گیا 3۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ میوات کی آبادی بغاوت کے لیے پہلے سے ہی تیار تھی۔

حصہ دوم: بغاوت کے چہرے: قائدین کے پروفائلز

یہ حصہ رپورٹ کا مرکزی جزو ہے، جس میں بغاوت کے اہم قائدین کی تفصیلی سوانح، ان کی شناخت کی وضاحت، اور ان کے کردار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

تاریخی شخصیات کی اہم وضاحت

علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ تاریخ میں عام طور پر الجھائی جانے والی شخصیات کے مابین واضح فرق قائم کیا جائے۔

حسن خان میواتی (16ویں صدی) بمقابلہ علی حسن خان میواتی (1857): راجہ حسن خان میواتی، جنہوں نے 1527 میں جنگِ کنواہ میں بابر سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا، 1857 کی بغاوت سے 300 سال سے بھی پہلے کی ایک تاریخی شخصیت ہیں 4۔ اس کے برعکس، علی حسن خان میواتی ایک الگ فرد تھے اور نوح و گھاسیڑہ کے علاقوں میں 1857 کی بغاوت کے ایک اہم رہنما تھے 8۔ یہ فرق انتہائی اہم ہے کیونکہ بعض اوقات جدید سیاسی شخصیات ان دونوں کو ملا دیتی ہیں 15۔

مہراب خان آف قلات (وفات 1839) بمقابلہ مولانا مہراب خان (1857): میر مہراب خان آف قلات (موجودہ بلوچستان، پاکستان) کو انگریزوں نے 1839 میں قتل کیا تھا 16۔ وہ 1857 کی بغاوت کے مولانا مہراب خان میواتی سے بالکل مختلف ہیں، جو ایک عالم دین تھے اور جنہوں نے سوہنا اور ٹاورو میں عوام کو متحرک کیا تھا 8۔

صدرالدین نامی شخصیات: اس نام کی کئی شخصیات کا ذکر ملتا ہے، جن میں فرق کرنا ضروری ہے:

صدرالدین میو: 1857 کی بغاوت کے مقامی میو رہنما، جو پنہواں میں سرگرم تھے اور روپڑاکا کی خونی جنگ میں کمانڈر تھے 9۔

مفتی صدرالدین خان آزردہ دہلوی: دہلی کے صدر الصدور (گرانڈ مفتی)، ایک اعلیٰ پائے کے عالم اور شاعر جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کے فتوے پر دستخط کیے اور دہلی میں بغاوت کے علمی و قانونی حلقوں میں کلیدی کردار ادا کیا 17۔

دیگر شخصیات جیسے پیر صدرالدین (قرون وسطیٰ کے اسماعیلی مبلغ) اور صدرالدین نورانی (جدید دور کے فرد) کا 1857 کے تناظر سے کوئی تعلق نہیں ہے 18۔

سادات خان میواتی (1857) بمقابلہ سادات خان آف اندور: سادات خان میواتی، جو فیروز پور جھرکہ میں سرگرم تھے 8، اندور میں بغاوت کی قیادت کرنے والے زیادہ مشہور سادات خان سے ایک الگ شخصیت ہیں۔ ذرائع خود اس اہم فرق کی نشاندہی کرتے ہیں 8۔

منصوبہ ساز اور متحرک کرنے والے

شرف الدین میواتی:

پس منظر: ان کا تعلق ماہوں کا چوپڑا گاؤں سے تھا 8۔

کردار: انہیں “سب سے تجربہ کار انقلابی” اور “خطہ میوات میں بغاوت کا متفقہ طور پر قبول شدہ رہنما” سمجھا جاتا ہے 8۔ ان کی قیادت تزویراتی نوعیت کی تھی، جس کا مقصد برطانوی انتظامی ڈھانچے کے باقیات کو ختم کرنا اور انگریزوں کے وفادار راجپوتوں اور خانزادوں کا مقابلہ کرنا تھا جو بغاوت کی راہ میں رکاوٹ تھے 8۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکزی علاقہ پنانگواں اور اس کے گرد و نواح تھے 8۔

انجام: میوات پر انگریزوں کے دوبارہ قبضے کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا اور جنوری 1858 میں پھانسی دے دی گئی 8۔

مولانا مہراب خان:

پس منظر: ان کا تعلق علماء کے طبقے سے تھا، جو اس بغاوت کی مذہبی جہت کو اجاگر کرتا ہے 8۔

کردار: وہ ایک کلیدی متحرک رہنما تھے، جو “گاؤں گاؤں جا کر میواتیوں کو اپنے مذہب اور قوم کی خاطر انگریزوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دیتے تھے” 8۔ انہوں نے جنگجوؤں میں تعویذ تقسیم کر کے اور انہیں فتح کی یقین دہانی کرا کر روحانی اور اخلاقی حوصلہ افزائی کی 8۔ وہ ایک میدانی کمانڈر بھی تھے اور انہوں نے جون 1857 میں سوہنا اور ٹاورو میں میجر ڈبلیو ایف ایڈن کی افواج کے خلاف سادات خان کے شانہ بشانہ جنگ لڑی 8۔

انجام: اگرچہ مقامی روایات میں انہیں ایک شہید کے طور پر یاد کیا جاتا ہے 2، لیکن دستیاب ذرائع میں ان کی موت یا گرفتاری کی مخصوص تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

میدانی کمانڈرز

علی حسن خان میواتی:

پس منظر: انہیں “1857 کی میواتی بغاوت کا ہیرو” قرار دیا گیا ہے 8۔ ان کی سرگرمیوں کے اہم مراکز نوح، گھاسیڑہ اور آس پاس کے دیہات تھے 8۔ کچھ ذرائع ان کا تعلق رائسینا گاؤں سے بھی بتاتے ہیں 20۔

کردار: وہ خطے سے برطانوی راج کا تختہ الٹنے میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے نوح میں انقلابیوں کو منظم کیا اور مقامی پولیس اور انگریزوں کے وفادار خانزادوں کو کامیابی سے شکست دی، جنہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا 8۔ نوح میں ان کی فتح کے نتیجے میں “میوات سے برطانوی انتظامیہ کا مکمل انخلاء” ہوا 8۔ انہوں نے گھاسیڑہ کی جنگ میں میواتی افواج کی قیادت کی، جہاں انہوں نے ولیم فورڈ کے ماتحت برطانوی افواج کو مکمل طور پر شکست دی، جو متھرا کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوا 8۔

انجام: ذرائع ان کے بہادرانہ کردار کی تصدیق کرتے ہیں لیکن ان کے حتمی انجام کے بارے میں خاموش ہیں۔ مولانا مہراب خان کی طرح، انہیں بھی مقامی روایت میں ایک شہید کے طور پر یاد کیا جاتا ہے 2، لیکن ان کی موت کے حالات فراہم کردہ مواد میں درج نہیں ہیں۔

صدرالدین میو:

پس منظر: پنہواں گاؤں کے ایک میو رہنما 9۔

کردار: وہ نوح، ماہوں، ٹائیگاؤں، پنانگواں اور روپڑاکا کے آس پاس سرگرم ایک سرکردہ انقلابی تھے۔ وہ 19 نومبر 1857 کو روپڑاکا کے دفاع کی قیادت کرنے کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہیں، جہاں انہوں نے کیپٹن ڈرمنڈ کے حملے کے خلاف تقریباً 3500 میو انقلابیوں کی ایک فوج کی کمان کی 9۔ بہادرانہ مزاحمت کے باوجود، میواتی برطانوی توپ خانے کی برتری کے سامنے مغلوب ہو گئے، جس کے نتیجے میں ایک قتل عام ہوا 9۔ بعد ازاں اسی مہینے انہوں نے پنانگواں پر بھی حملہ کیا 9۔

انجام: ان کے مخصوص انجام کا ذکر نہیں ہے، لیکن روپڑاکا میں ہونے والے قتل عام کو دیکھتے ہوئے، یہ امکان ہے کہ وہ شہداء میں شامل تھے۔

سادات خان میواتی:

پس منظر: ایک مقامی رہنما، جن کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ اندور کے سادات خان سے مختلف تھے 8۔

کردار: انہوں نے فیروز پور جھرکہ، دوحہ اور رولی کے علاقوں میں انقلابیوں کی قیادت کی 8۔ انہوں نے مولانا مہراب خان کے ساتھ مل کر “جے پور کے پولیٹیکل ایجنٹ میجر ڈبلیو ایف ایڈن کو سوہنا اور ٹاورو میں سخت مزاحمت” دی 8۔ ان کی افواج، جنہیں “سخت جان میو” کہا گیا ہے، نے ہر قدم پر بہادری سے جنگ لڑی 8۔

انجام: وہ دوحہ میں ایک جنگ کے دوران اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو گئے 9۔

کمانڈ کا وسیع تر نیٹ ورک

یہ بغاوت کسی ایک رہنما کے گرد نہیں گھومتی تھی، بلکہ اس کی قیادت وکندریقرت اور عوامی تھی۔

چوہدری فیروز شاہ میواتی: ایک سرکردہ انقلابی جنہوں نے سوہنا، ٹاورو اور رائسینا کے علاقوں میں افواج کو منظم کیا۔ انہوں نے بریگیڈیئر جنرل شاورز سے جنگ کی اور اس جنگ میں موجود تھے جہاں بدنام زمانہ برطانوی افسر وگرام کلفورڈ مارا گیا 9۔

انور خان: نوح کے رہائشی جنہوں نے “عظیم بغاوت میں نمایاں کردار” ادا کیا اور برطانوی مظالم کے خلاف مزاحمت کی۔ آخر کار انہیں گرفتار کر کے بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا 22۔

مجلس خان: فیروز پور جھرکہ کے ایک انقلابی جنہوں نے انگریزوں اور مقامی وفاداروں دونوں سے جنگ کی۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے ریواڑی کے مشہور رہنما راؤ تلا رام سے بھی روابط تھے، جو بین العلاقائی ہم آہنگی کی نشاندہی کرتا ہے 9۔

یہاں ایک کثیر سطحی اور تکمیلی قیادت کا ڈھانچہ نظر آتا ہے۔ شرف الدین بظاہر سب سے بڑے منصوبہ ساز تھے 8۔

مولانا مہراب خان نظریاتی اور روحانی متحرک کرنے والے تھے 8۔

علی حسن خان، صدرالدین، اور سادات خان اپنے اپنے علاقوں میں کلیدی حکمت عملی کے میدانی کمانڈر تھے 8۔ اور

مجلس خان جیسی شخصیات دیگر علاقائی بغاوتوں کے ساتھ رابطے کا کام کرتی تھیں 9۔ یہ وکندریقرت لیکن مربوط ڈھانچہ ہی تھا جس نے میواتی بغاوت کو بیک وقت تین محاذوں (انگریزوں، وفادار ریاستوں اور مقامی وفاداروں کے خلاف) پر لڑنے کے قابل بنایا 3۔ یہی پیچیدہ قیادت تھی، نہ کہ کوئی ایک کرشماتی شخصیت، جس نے میواتی بغاوت کو اتنا مضبوط بنایا۔

حصہ سوم: میوات کی جنگ: مہمات، تصادم اور نتائج

یہ حصہ بغاوت کی فوجی تاریخ کو بیان کرتا ہے، ابتدائی فتوحات سے لے کر حتمی اور سفاکانہ دباؤ تک۔

 تین محاذوں پر جنگ

میواتی باغیوں کو ایک منفرد چیلنج کا سامنا تھا: انہیں بیک وقت تین محاذوں پر جنگ لڑنی پڑی 3۔

محاذ اول: انگریز: کمپنی کی افواج اور ولیم فورڈ، میجر ایڈن، کیپٹن ڈرمنڈ، اور بریگیڈیئر جنرل شاورز جیسے افسران کے ساتھ براہ راست تصادم 8۔

محاذ دوم: وفادار شاہی ریاستیں: باغیوں کو الور، بھرت پور اور جے پور کی فوجوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑا، جو انگریزوں کی اتحادی تھیں 3۔

محاذ سوم: مقامی وفادار: سب سے مشکل محاذ مقامی ساتھیوں کے خلاف تھا، جن میں نوح کے خانزادے، ہتھین کے راجپوت، اور ہوڈل کے جاٹ شامل تھے 3۔ یہ میوات کے اندر تنازعے کی خانہ جنگی کی جہت کو اجاگر کرتا ہے۔

: اہم جنگوں کا تجزیہ

گھاسیڑہ کی فتح: یہ جنگ میواتی بغاوت کا ایک روشن باب ہے۔ یہاں علی حسن خان میواتی کی قیادت میں انقلابیوں نے ولیم فورڈ کی برطانوی افواج کو فیصلہ کن شکست دی، اور اسے بدحواسی کے عالم میں متھرا کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا 8۔ اس فتح نے باغیوں کے حوصلے بلند کیے اور میواتی قیادت کی تاثیر کو ثابت کیا۔

روپڑاکا کا قتل عام: 19 نومبر 1857 کو صدرالدین میو کی قیادت میں تقریباً 3500 میوؤں کی ایک بڑی فوج کو کیپٹن ڈرمنڈ کی افواج نے آن گھیرا 9۔ انگریزوں نے اپنے اعلیٰ توپ خانے کا استعمال کرتے ہوئے میواتی صفوں کو توڑ دیا، جس کے نتیجے میں گلی گلی بہادرانہ لیکن ناکام جنگ ہوئی اور ایک ہی دن میں تقریباً 400 سے 425 میو شہید ہو گئے 9۔

جدول 1: میواتی بغاوت کی اہم جھڑپیں (1857)

تاریخ (1857)مقاممیواتی رہنمابرطانوی/وفادار کمانڈراہم واقعات اور نتیجہماخذ
11-12 مئیگڑگاؤںمقامی آبادی/باغی سپاہیڈبلیو فورڈباغیوں نے گڑگاؤں پر قبضہ کیا، خزانہ لوٹا، فورڈ فرار ہو گیا۔ برطانوی حکومت کا خاتمہ۔3
جون کا آغازسوہنا اور ٹاورومولانا مہراب خان، سادات خان میواتیمیجر ڈبلیو ایف ایڈنمیواتیوں نے سخت مزاحمت کی، میجر ایڈن کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔8
تاریخ غیر واضحگھاسیڑہعلی حسن خان میواتیولیم فورڈمیواتیوں نے برطانوی افواج کو مکمل شکست دی، فورڈ متھرا کی طرف بھاگ گیا۔8
31 اکتوبررائسیناچوہدری فیروز شاہ میواتیبریگیڈیئر جنرل شاورز، وگرام کلفورڈشدید جنگ، برطانوی افسر کلفورڈ مارا گیا۔9
19 نومبرروپڑاکاصدرالدین میوکیپٹن ڈرمنڈبرطانوی توپ خانے نے میواتی فوج کو شکست دی، 400 سے زائد میو شہید ہوئے۔9
27 نومبرپنانگواںصدرالدین میوبرطانوی فوجی دستےصدرالدین کی قیادت میں میواتیوں نے پنانگواں قصبے پر حملہ کیا۔9

: برطانوی انتقام (نومبر 1857 – دسمبر 1858)

ستمبر 1857 میں دہلی پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد، انگریزوں نے میوات سے وحشیانہ انتقام لینے کی مہم شروع کی 23۔ دہلی سے قربت کی وجہ سے انگریز میوات کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے 23۔ اس مہم کی قیادت ساورج، ہڈسن اور کیپٹن رمسے جیسے بدنام زمانہ ظالم افسران نے کی۔ انہوں نے منظم طریقے سے گاؤں کے گاؤں تباہ کیے، 36 سے زائد دیہات کو نذرِ آتش کیا، اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور پھانسیوں کا بازار گرم کیا 22۔

جدول 2: میوات میں برطانوی انتقامی کارروائیاں (نومبر 1857 – دسمبر 1858)

تاریخگاؤں/مقامظلم کی تفصیلاتتخمینہ شدہ ہلاکتیں/شہداءماخذ
8 نومبر 1857گھاسیڑہگاؤں پر حملہ اور قتل عام۔157 رہائشی شہید۔23
19 نومبر 1857روپڑاکاکیپٹن ڈرمنڈ کا حملہ اور قتل عام۔425 میواتی شہید۔23
1 جنوری 1858ہوڈل گڑھیقتل عام۔85 افراد شہید۔23
2 جنوری 1858حسن پورقتل عام۔حسن خان اور رحیم خان شہید۔23
تاریخ غیر واضحماہوں ٹائیگاؤںقتل عام۔73 افراد شہید۔23
9 فروری 1858مقام غیر واضحلوگوں کو درختوں سے لٹکا کر پھانسی دی گئی۔52 افراد شہید، بشمول دھن سنگھ میو۔23
16 فروری 1858مقام غیر واضحملوکا نمبردار اور ان کے خاندان کا قتل۔11 افراد شہید۔23

یہ جدول ظاہر کرتا ہے کہ یہ واقعات الگ تھلگ نہیں تھے، بلکہ دہشت پھیلانے کی ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ تھے جس کا مقصد میوات کی مزاحمتی روح کو ہمیشہ کے لیے کچلنا تھا۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ اس عرصے میں 10,000 سے زائد میواتی شہید ہوئے 23۔

حصہ چہارم: یادداشت اور پتھر میں میراث

یہ آخری حصہ بغاوت کے بعد کے حالات کا جائزہ لیتا ہے، اس بات پر توجہ مرکوز کرتا ہے کہ اسے کیسے یاد رکھا گیا اور کیسے بھلا دیا گیا، اور میواتی قائدین کی اہمیت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اَن لکھی تاریخ: زبانی روایات، لوک داستانیں اور یادداشت

میوات کی تاریخ، خاص طور پر بغاوت کی تاریخ، سرکاری دستاویزات کے بجائے زبانی روایات میں زیادہ محفوظ ہے 2۔ “میراثی” (گویا/موسیقار) اور “جگا” صدیوں سے اس تاریخ کے روایتی محافظ رہے ہیں 8۔ اگرچہ فراہم کردہ مواد میں مخصوص گیتوں کے بول کم ہیں، لیکن 1857 کی بغاوت سے متعلق لوک گیتوں کا وجود مصدقہ ہے 26۔ یہ گیت، “رتوائی” (رومانوی گیت) اور “چیتاونی” (اخلاقی گیت) جیسی اصناف کے ساتھ مل کر، مقامی یادداشت کا ایک بھرپور ورثہ تشکیل دیتے ہیں 27۔ یہ زبانی روایات سرکاری برطانوی بیانیے اور مرکزی دھارے کی ہندوستانی تاریخ نویسی کی خاموشی کے مقابلے میں ایک متوازی بیانیہ پیش کرتی ہیں۔

یہ میراث آج بھی زندہ ہے۔ میو قوم میں آج بھی اپنے بچوں کے نام بغاوت کے ہیروز—صدرالدین، علی حسن خان، سادات خان، مہراب خان—کے نام پر رکھنے کا رواج ہے، جو ان کی اجتماعی یادداشت میں ان کی لازوال موجودگی کا ثبوت ہے 2۔ بغاوت کی کہانیاں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، اور خاندان آج بھی یاد کرتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کو کیسے پھانسی دی گئی یا قتل کیا گیا 14۔

یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میواتی بغاوت کی میراث “عوام کی تاریخ” ہے، جسے سرکاری تحریری بیانیوں سے مٹائے جانے کے باوجود زبانی طور پر فعال طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔ یہ محض ماضی کی ایک غیر فعال یاد نہیں، بلکہ خود کمیونٹی کی طرف سے ثقافتی تحفظ کا ایک فعال اور جاری عمل ہے، جو نوآبادیاتی اور بعد از نوآبادیاتی ریاستوں کی طرف سے مسلط کردہ فراموشی کے خلاف مزاحمت کی ایک شکل ہے۔

خستہ حال یادگاریں

بغاوت کی भौतिक یادگاروں کا جائزہ ایک افسوسناک تصویر پیش کرتا ہے۔ 2007 میں، میوات ڈیولپمنٹ ایجنسی نے کم از کم 12 دیہات میں “شہید مینار” تعمیر کرنے کا کام شروع کیا، جن میں روپڑاکا، نگینہ، نوح اور ماہوں شامل ہیں 23۔ تاہم، اب یہ یادگاریں خستہ حالی اور نظراندازی کا شکار ہیں، اور ان پر کندہ شہداء کے نام مٹ رہے ہیں 14۔ یہ भौतिक زوال میوات کی قربانیوں کو قومی سطح پر فراموش کیے جانے کا ایک طاقتور استعارہ ہے۔

مقامی باشندوں کا یہ مطالبہ کہ شہداء کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے، ان کی کہانیاں نصابی کتب میں شامل کی جائیں، اور سڑکوں کے نام ان کے نام پر رکھے جائیں، تاریخی انصاف کے لیے ایک جاری جدوجہد کا حصہ ہے 14۔

 نتیجہ: ایک عوامی جنگ کے گمنام رہنما

یہ رپورٹ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ میوات میں 1857 کی بغاوت ایک حقیقی عوامی جنگ تھی، جس کی قیادت مقامی رہنماؤں کے ایک متنوع اور مؤثر گروہ نے کی۔ اس قیادت کی خصوصیات میں تزویراتی (شرف الدین)، نظریاتی (مولانا مہراب خان)، اور حکمت عملی (علی حسن خان، صدرالدین، سادات خان) پہلو شامل تھے، جس نے انہیں ایک زبردست کثیر محاذی جنگ لڑنے کے قابل بنایا۔

میواتی بغاوت کے قائدین، اپنی بے پناہ قربانیوں اور جنگِ آزادی میں اہم کردار کے باوجود، بڑی حد تک گمنام ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ ان کی کہانی، جو بنیادی طور پر ان کے اپنے لوگوں کی یادداشت میں محفوظ ہے، مزاحمت کا ایک اہم باب ہے جو 1857 کے اشرافیہ پر مبنی اور جغرافیائی طور پر محدود بیانیوں کو چیلنج کرتی ہے۔ ان رہنماؤں کو ہندوستانی تاریخ میں ان کا جائز مقام دلانے کے لیے مزید آرکائیول تحقیق (خاص طور پر مقدمات کے ریکارڈ اور مقامی اکاؤنٹس پر) اور ورثے کے فوری تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme