
میوات کی مزاحمت۔ محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک
(یہ اقتباس ہماری کتاب “میوات کی مزاحمت محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک” سے ایک اقتباس ہے۔اہل میوات کی تاریخ یوں تو ہزاروں سے پر محیط ہے،لیکن دیگر اقوام کی طرح ماخذات کا فقدان ہے،مسلمانوں کی ہندستان آمد کے بعد کی تواریخ میں میو قوم کا کردار بہت واضح اور اُجلا ہے۔میو قوم کی تاریخوں ۔اوراق متفرقہ مین منتشر حالت میں موجود ہے۔لیکن میو قوم کی بے توجہی نے کسی کو اس طرف راغب نہیں کیا کہ تاریخ میوات کو اس انداز مین مرتب و منظم کیا جائے،یہ کتاب سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز کی طرف سے تالیف کی گئی ہے۔حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
“اعتراف “
میو قوم کی تاریخ پر کام تو برسوں سے جاری ہے لیکن اسے منظم و مرطوبط انداز میں لکھنے کی ہمت (1) حضرت مولانا محمد احمد قادری صاحب میو(2)جناب ناواب ناظم میو۔ نے دی ،یوں تو میو قوم مین بہت جذبہ ہے اور ہر اچھے کام کی طرف معاونت کرتے ہیں ۔ادارہ ہذا ان تمام احباب کا شکر گزار ہے جو میواتی تاریخ کی ترتیب میں اخلاقی و علمی معاونت کررہے ہیں۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔منتظم اعلی:۔سعد طبیہ کالج //سعد ورچوئل سکلز پاکستان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میو قوم اور شاہی اقتدار کے مابین تصادم کا ایک تاریخی تجزیہ
مقدمہ: میوات اور میو قوم – ایک تعارف
برصغیر پاک و ہند کی ہزار سالہ تاریخ مرکزی اقتدار اور علاقائی طاقتوں کے مابین کشمکش، مفاہمت اور مزاحمت کی ایک طویل داستان ہے۔ اس داستان کے مرکز میں دہلی اور آگرہ کے شاہی تخت کے قریب واقع ایک ایسا خطہ بھی ہے جس نے اپنی آزادی اور شناخت کے لیے صدیوں تک جدوجہد کی—یہ خطہ میوات ہے، اور اس کے باسی میو قوم ہیں۔ محمد بن قاسم کی آمد سے لے کر بہادر شاہ ظفر کے دور تک، میو قوم اور ہندوستان پر حکومت کرنے والے بادشاہوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت انتہائی پیچیدہ اور کثیرالجہتی رہی ہے۔ یہ محض بغاوت اور جنگ کی تاریخ نہیں، بلکہ خود مختاری کے لیے ایک مسلسل جدوجہد، ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت، تزویراتی اتحاد اور بالآخر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف وسیع تر جدوجہد میں انضمام کا ایک تاریخی سفر ہے۔
میو قوم کی شناخت اور اصلیت
میو قوم، جو میو، میو راجپوت یا میواتی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، اپنی ایک منفرد سماجی و ثقافتی شناخت رکھتی ہے۔ تاریخی شواہد اور نسلی روایات کے مطابق، ان کا شجرہ نسب ہندو راجپوتوں کی معزز گوتوں سے جا ملتا ہے، جن میں چندرونشی، سوریاونشی اور اگنی ونشی شامل ہیں 1۔ ان کی مشہور گوتوں میں تومر، جادوبنسی، چوہان، راٹھور اور بڈھ گجر وغیرہ شامل ہیں، جو ان کے چھتری پس منظر کی نشاندہی کرتی ہیں 1۔ میو قوم کا اسلام قبول کرنے کا عمل کسی ایک واقعے کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک طویل تاریخی عمل تھا جو گیارہویں صدی سے لے کر سترہویں صدی میں اورنگزیب کے دور تک پھیلا ہوا ہے 2۔ یہ تبدیلی زیادہ تر صوفیائے کرام، بالخصوص محمود غزنوی کے بھانجے غازی سید سالار مسعود، کے اثر و رسوخ کا نتیجہ تھی 4۔
اسلام قبول کرنے کے باوجود، میو قوم نے اپنی بہت سی قدیم روایات اور ثقافتی خصوصیات کو برقرار رکھا، جس سے ایک ملی جلی تہذیب نے جنم لیا۔ وہ خود کو رام اور کرشن کی اولاد بھی مانتے تھے اور کلمہ توحید پر بھی یقین رکھتے تھے 7۔ ان کی شادی بیاہ کی رسومات اور خاندانی نظام میں آج بھی ہندو روایات کی جھلک ملتی ہے 9۔ یہ منفرد شناخت، جہاں ایک طرف ان کی ثقافتی مضبوطی کی علامت تھی، وہیں دوسری طرف انہیں روایتی ہندو اور مسلم سماجوں میں ایک الگ مقام پر کھڑا کرتی تھی، جس کی وجہ سے انہیں تاریخی طور پر دونوں اطراف سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا 9۔
میوات کا جغرافیائی اور تزویراتی محل وقوع
میوات کا خطہ، جسے ‘میوؤں کی سرزمین’ بھی کہا جاتا ہے، جغرافیائی طور پر دہلی، آگرہ اور جے پور کے تزویراتی مثلث کے درمیان واقع ہے 11۔ یہ علاقہ موجودہ ہریانہ کے اضلاع نوح (میوات)، پلوال، فرید آباد، راجستھان کے الور، بھرت پور اور اتر پردیش کے متھرا کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے 8۔ اس خطے کی سب سے بڑی خصوصیت کوہِ اراولی کے پہاڑی سلسلے، گھنے جنگلات اور ناہموار زمین ہے 13۔
اس جغرافیے نے میوات کی تاریخ اور میو قوم کے کردار کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک طرف، یہ ناہموار علاقہ مرکزی حکومتوں کے لیے ایک انتظامی چیلنج تھا، تو دوسری طرف یہ میوؤں کے لیے ایک قدرتی قلعہ اور پناہ گاہ فراہم کرتا تھا۔ دہلی کے شاہی تخت سے اس کی قربت نے اسے ہمیشہ اقتدار کی نظروں میں رکھا۔ دہلی سے گجرات اور مالوہ جانے والے اہم تجارتی راستے اسی علاقے سے گزرتے تھے، جس کی وجہ سے اس خطے پر کنٹرول حاصل کرنا ہر حکمران کے لیے ناگزیر تھا 15۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دہلی میں مرکزی حکومت کمزور پڑتی، میو اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیتے، اور جب کوئی مضبوط بادشاہ تخت پر بیٹھتا، تو اس کی پہلی ترجیحات میں میوات کو زیر کرنا شامل ہوتا۔
مرکزی مقالہ کا بیان
یہ رپورٹ اس مرکزی مقالے پر مبنی ہے کہ میو قوم اور ہندوستان کے حکمرانوں کے مابین تعلقات محض بغاوت اور اطاعت کی سادہ کہانی نہیں ہیں۔ یہ ایک متحرک اور ارتقائی عمل تھا جو چار بڑے مراحل سے گزرا:
- شدید مزاحمت اور بے رحمانہ جبر کا دور (دہلی سلطنت): جہاں میوؤں نے اپنی آزادی کے لیے گوریلا جنگ لڑی اور سلطنت نے انہیں کچلنے کے لیے انتہائی سفاکانہ طاقت کا استعمال کیا۔
- فیصلہ کن تصادم اور انضمام کا آغاز (ابتدائی مغل دور): جہاں حسن خان میواتی کی قیادت میں آخری بڑی جنگ لڑی گئی اور اس کی شکست کے بعد میوات کو مغلیہ سلطنت میں ضم کر دیا گیا۔
- تزویراتی مفاہمت اور انتظامی انضمام (دورِ اکبری تا اورنگزیب): جہاں مغلوں نے جبر کی پالیسی ترک کر کے میوؤں کو ریاستی ڈھانچے میں شامل کر کے ان کی توانائیوں کو سلطنت کے مفاد میں استعمال کیا۔
- حتمی اتحاد اور قومی جدوجہد (جنگِ آزادی 1857ء): جہاں صدیوں کی دشمنی ایک مشترکہ بیرونی دشمن (انگریز) کے خلاف اتحاد میں بدل گئی اور میوؤں نے بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں ہندوستان کی آزادی کے لیے جنگ لڑی۔
یہ تجزیہ ان مراحل کا تفصیلی جائزہ لے گا اور یہ واضح کرے گا کہ کس طرح جغرافیائی، ثقافتی اور سیاسی عوامل نے میو قوم کی تاریخ کو şekil دی اور انہیں برصغیر کی تاریخ میں ایک منفرد اور اہم مقام عطا کیا۔
حصہ اول: دہلی سلطنت کا دور – بغاوت، جبر اور خود مختاری کا چکر (1206ء – 1526ء)
فصل 1: ابتدائی تصادم اور میوات کی سرکشی (دورِ غلاماں)
سلطنتِ دہلی کا قیام اور میو مزاحمت کا آغاز
تیرہویں صدی کے آغاز میں جب قطب الدین ایبک نے دہلی میں سلطنتِ غلاماں کی بنیاد رکھی، تو یہ واقعہ میوات کے لیے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ میوؤں نے دہلی میں اس نئی ترک طاقت کے قیام کو اپنی زمینوں اور خود مختاری پر براہِ راست حملہ تصور کیا 17۔ اس دور کی فارسی تواریخ، جیسے منہاج سراج کی ‘طبقاتِ ناصری’، میوؤں کو “قانون شکن ڈاکو اور لٹیرے” کے طور پر پیش کرتی ہیں جو دہلی کے گرد و نواح میں تجارت اور سفر کے لیے ایک مستقل خطرہ بنے ہوئے تھے 16۔ تاہم، اس تصویر کو ایک گہرے تجزیے کی ضرورت ہے۔ میوؤں کی یہ “لوٹ مار” دراصل ایک نوزائیدہ مرکزی طاقت کے خلاف اپنی علاقائی خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لیے گوریلا جنگ کی ایک شکل تھی۔ وہ سلطنت کے وسائل پر حملہ آور ہو کر اور اس کے اقتدار کو چیلنج کر کے اپنی آزادی کا اظہار کر رہے تھے۔

التمش اور اس کے جانشینوں کے دور میں کشیدگی
شمس الدین التمش (1211-1236ء) نے سلطنت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی، لیکن میوات کا مسئلہ بدستور موجود رہا۔ التمش کے دور میں میوؤں پر متعدد حملوں کا ذکر ملتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشیدگی مسلسل برقرار رہی 18۔ تاہم، التمش کی وفات کے بعد اس کے کمزور جانشینوں (رکن الدین فیروز، رضیہ سلطانہ، معز الدین بہرام شاہ، اور علاؤالدین مسعود شاہ) کے دور میں دہلی کی مرکزی حکومت کا کنٹرول ڈھیلا پڑ گیا۔ اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میوؤں نے اپنی طاقت کو بے پناہ بڑھا لیا۔ ان کی کارروائیاں اب محض تجارتی قافلوں کو لوٹنے تک محدود نہیں رہیں، بلکہ وہ دہلی شہر کی فصیلوں تک پہنچ کر حملے کرنے لگے 15۔ مؤرخ منہاج سراج نے 1259ء میں لکھا کہ میوؤں کی دہشت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ “وہ شیطان کے لیے بھی ایک خوف بن چکے تھے” 17۔ ان کی جرات کا یہ عالم تھا کہ وہ دن دیہاڑے شہر کے باہر پانی بھرنے والی عورتوں اور سقوں پر حملہ کرتے، انہیں برہنہ کر دیتے اور ان کے کپڑے چھین کر لے جاتے 15۔ اس صورتحال نے دہلی کے شہریوں میں شدید خوف و ہراس پیدا کر دیا اور میوات کو سلطنت کے لیے ایک فوری اور سنگین خطرہ بنا دیا۔
ناصر الدین محمود کا دور اور الغ خان (بلبن) کی ابتدائی مہمات
سلطان ناصر الدین محمود (1246-1266ء) کے دور میں، اس کے نائب اور سلطنت کے حقیقی طاقتور شخص، الغ خان (جو بعد میں سلطان غیاث الدین بلبن بنا)، نے میو خطرے سے نمٹنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ اس وقت تک میوؤں کی قیادت کا کورانا بالوت نامی سردار کر رہا تھا 18۔ 1249ء میں الغ خان کو میوؤں کے خلاف ایک مہم کی قیادت کرنے کا حکم دیا گیا 17۔ یہ مہمات ابتدائی نوعیت کی تھیں اور ان کا مقصد میوؤں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا تھا۔ 1260ء میں بلبن نے میوات پر ایک اور بڑا حملہ کیا تاکہ “میواتی” لٹیروں اور قاتلوں کو سزا دی جا سکے 11۔ یہ ابتدائی مہمات اس بے رحمانہ پالیسی کا پیش خیمہ تھیں جو بلبن نے بعد میں سلطان بننے کے بعد میوات کے خلاف اپنائی۔ ان حملوں سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ میوات کا مسئلہ محض قانون و انتظام کا نہیں، بلکہ سلطنت کی بقا اور اس کے دارالحکومت کے تحفظ کا مسئلہ بن چکا تھا۔
فصل 2: غیاث الدین بلبن کا آہنی ہاتھ اور میوات کی تباہی (1266ء – 1287ء)
جب غیاث الدین بلبن 1266ء میں تختِ دہلی پر بیٹھا تو اسے ورثے میں ایک ایسی سلطنت ملی جس کا وقار اور اختیار اندرونی سازشوں اور بیرونی خطرات کی وجہ سے بری طرح مجروح ہو چکا تھا۔ بلبن، جو خود ترک غلاموں کے طاقتور گروہ ‘چہلگانی’ کا حصہ رہ چکا تھا، بادشاہت کے رعب و دبدبے کو بحال کرنے اور کسی بھی قسم کی بغاوت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا پختہ عزم رکھتا تھا 19۔ اس کے نزدیک سب سے فوری اور سنگین خطرہ میوات سے اٹھ رہا تھا، جو دہلی کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔
دہلی کے لیے میو خطرے کی سنگینی
بلبن کے دور کے مؤرخ ضیاء الدین برنی نے اپنی کتاب ‘تاریخ فیروز شاہی’ میں میو خطرے کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ انتہائی ہولناک ہے۔ اس کے مطابق، میوؤں کی سرکشی اور طاقت دہلی کے نواح میں اس قدر بڑھ چکی تھی کہ شہر کے مغربی دروازے سہ پہر کی نماز کے بعد بند کر دیے جاتے تھے، اور اس وقت کے بعد کسی کو اس سمت میں شہر سے باہر جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، چاہے وہ حاجی ہو یا کوئی شاہی اہلکار 15۔ رات کے وقت میو شہر میں گھس آتے، لوگوں کا آرام حرام کرتے اور شہر کے آس پاس کے دیہاتوں کو لوٹ لیتے 15۔ ان کی جرات اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ وہ ‘سر حوض’ (شاہی تالاب) پر آ کر پانی بھرنے والوں پر حملہ کرتے اور ان کے کپڑے تک چھین کر لے جاتے 15۔ یہ صورتحال محض لوٹ مار نہیں تھی، بلکہ یہ دہلی سلطنت کے اختیار کی کھلی تذلیل تھی۔ میوؤں نے دہلی کے گرد گھنے جنگلات کو اپنی پناہ گاہ بنا رکھا تھا، جہاں سے وہ منظم حملے کرتے اور پھر غائب ہو جاتے 15۔
بلبن کی بے رحمانہ حکمتِ عملی
اس کھلے چیلنج کے جواب میں، بلبن نے ایک ایسی بے رحمانہ اور منظم مہم کا آغاز کیا جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی تھی۔ یہ مہم محض ایک فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ اس کا مقصد میو قوم کی مزاحمت کی کمر ہمیشہ کے لیے توڑ دینا تھا۔ بلبن نے ذاتی طور پر اس مہم کی قیادت کی اور تقریباً ایک سال تک میوات کے مسئلے پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھی 19۔
اس کی حکمت عملی کثیر جہتی تھی:
- ماحولیاتی جنگ: بلبن کی حکمت عملی کا پہلا اور سب سے اہم پہلو میوات کے جغرافیائی ماحول کو نشانہ بنانا تھا۔ اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ میوؤں کی اصل طاقت ان کے گھنے جنگلات ہیں جو انہیں پناہ اور گوریلا جنگ کا فائدہ فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا، اس نے دہلی کے ارد گرد ایک سو میل کے دائرے میں جنگلات کو مکمل طور پر صاف کرنے کا حکم دیا 15۔ ہزاروں مزدوروں کو اس کام پر لگایا گیا اور درختوں کو کاٹ کر زمین کو ہموار کر دیا گیا۔ یہ ایک طرح کی ‘ماحولیاتی جنگ’ تھی جس کا مقصد مزاحمت کی جڑوں اور پناہ گاہوں کو ہی ختم کر دینا تھا۔
- بڑے پیمانے پر قتل عام: جنگلات کی صفائی کے بعد، بلبن نے اپنی افغان افواج کو میوؤں کے قتل عام کا حکم دیا۔ تاریخی روایات کے مطابق، اس مہم میں تقریباً ایک لاکھ میوؤں کو بے دردی سے قتل کیا گیا 21۔ یہ کارروائی صرف باغی جنگجوؤں تک محدود نہیں تھی، بلکہ اس میں عام آبادی کو بھی نشانہ بنایا گیا تاکہ پوری قوم کے دل میں دہشت بٹھا دی جائے۔ بلبن کی یہ پالیسی محض سزا نہیں تھی، بلکہ یہ ایک ‘دہشت کی حکمت عملی’ (policy of terror) تھی جس کا مقصد میوؤں کی نسل کو اس حد تک کمزور کر دینا تھا کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔
- فوجی اور انتظامی کنٹرول: قتل عام اور جنگلات کی صفائی کے بعد، بلبن نے خطے پر مستقل کنٹرول قائم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔ اس نے گوپالگیر میں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کروایا اور اہم راستوں پر سینکڑوں پولیس چوکیاں (تھانے) قائم کیں 16۔ ان چوکیوں پر افغان فوجیوں کو تعینات کیا گیا اور ان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے انہیں ٹیکس سے پاک زمینیں دی گئیں تاکہ وہ مستقل طور پر وہاں آباد ہو جائیں اور علاقے کی نگرانی کریں 19۔
دیرپا اثرات کا تجزیہ
بلبن کی اس مہم کے میوات پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے میو قوم کی فوجی طاقت کو کئی نسلوں کے لیے مفلوج کر دیا۔ بڑے پیمانے پر قتل عام نے ان کی آبادی کو شدید نقصان پہنچایا اور جنگلات کی کٹائی نے ان کے روایتی طرز زندگی اور معیشت کو تباہ کر دیا۔ یہ مہم سلطنت کے نقطہ نظر سے انتہائی کامیاب رہی، کیونکہ اس نے دہلی کو ایک فوری خطرے سے نجات دلا دی اور مرکزی حکومت کے رعب و دبدبے کو بحال کر دیا۔
تاہم، اس بے رحمانہ جبر نے میو قوم کے اجتماعی حافظے میں ایک گہرا زخم چھوڑ دیا۔ بلبن کا نام میوات کی تاریخ میں تباہی اور بربادی کی علامت بن گیا 23۔ اگرچہ اس مہم نے کھلی بغاوت کو ختم کر دیا، لیکن اس نے مزاحمت کے جذبے کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا۔ میوؤں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور کھلے تصادم کی بجائے چھوٹی موٹی کارروائیوں اور بقا کی جدوجہد پر توجہ مرکوز کی۔ بلبن کی سفاکی نے یہ ثابت کر دیا کہ دہلی سلطنت اپنی بقا کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، اور میوؤں نے یہ سبق سیکھا کہ مرکزی طاقت سے براہ راست تصادم کا نتیجہ صرف تباہی ہے۔
فصل 3: خلجی اور تغلق ادوار – جبر سے باجگزاری تک کا سفر (1290ء – 1413ء)
بلبن کی تباہ کن مہم کے بعد میوات میں ایک طویل عرصے تک خاموشی چھائی رہی۔ میو قوم اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف تھی اور دہلی سلطنت کو براہ راست چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ سلطنت کی پالیسیوں میں بھی تبدیلی آئی، اور جبر کی جگہ بتدریج مفاہمت اور بالواسطہ کنٹرول نے لے لی۔
علاء الدین خلجی کی پالیسیاں
سلطان علاء الدین خلجی (1296-1316ء) نے بلبن کی سخت گیر پالیسی کو جاری رکھا، لیکن اس کا

انداز مختلف تھا۔ علاء الدین ایک عملیت پسند حکمران تھا اور اس کی پالیسیوں کا محور معاشی اور فوجی استحکام تھا۔ اس کے لیے دہلی اور گجرات کے درمیان تجارتی راستے کی حفاظت انتہائی اہم تھی، کیونکہ گجرات کی بندرگاہیں بین الاقوامی تجارت اور سلطنت کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھیں 16۔ یہ راستہ میوات کے قلب سے گزرتا تھا، اور میوؤں کی سرگرمیاں اس تجارت کے لیے ایک مستقل خطرہ تھیں۔
لہٰذا، علاء الدین نے میوؤں کو “مکمل طور پر زیر” کرنے کی پالیسی اپنائی تاکہ تجارتی قافلے محفوظ رہیں 16۔ تاریخی ذرائع میں علاء الدین کے دور میں کسی بڑی جنگ یا بلبن جیسی قتل و غارت کا ذکر نہیں ملتا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا طریقہ کار وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کی بجائے ایک مضبوط فوجی موجودگی قائم کرنا اور کلیدی راستوں پر سخت نگرانی رکھنا تھا۔ اس نے میوؤں کی سرکشی کو فوجی طاقت کے ذریعے دبا کر رکھا تاکہ سلطنت کے معاشی مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس کی پالیسی کا مقصد میوؤں کا خاتمہ نہیں، بلکہ ان پر موثر کنٹرول قائم کرنا تھا۔
تغلق دور اور پالیسی میں تبدیلی
تغلق خاندان کے دور، بالخصوص فیروز شاہ تغلق (1351-1388ء) کے عہد میں، میوات کے حوالے سے دہلی سلطنت کی پالیسی میں ایک بنیادی اور انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔ فیروز شاہ تغلق نے یہ محسوس کیا کہ مسلسل فوجی جبر ایک مہنگا اور غیر پائیدار حل ہے۔ اس نے جبر کی بجائے مفاہمت اور سیاسی انضمام کی ایک نئی حکمت عملی اپنائی۔
اس پالیسی کا نقطہ عروج 1372ء میں اس وقت آیا جب فیروز شاہ تغلق نے کوٹلہ کے ایک بااثر جاٹون راجپوت سردار، سونپر پال، کو میوات کی حکمرانی عطا کی 8۔ ایک روایت کے مطابق، سونپر پال نے ایک شیر سے سلطان کی جان بچائی تھی، جس پر خوش ہو کر سلطان نے اسے ‘بہادر ناہر’ کا خطاب دیا 27۔ سونپر پال نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا اسلامی نام ناہر خان رکھا گیا 11۔ فیروز شاہ نے اسے ‘والیِ میوات’ کا لقب دے کر خطے کا باضابطہ حکمران تسلیم کر لیا 8۔
خانزادہ خاندان کا قیام
اس اقدام نے میوات میں خانزادہ خاندان کی بنیاد رکھی، جو مسلم راجپوت حکمرانوں کا ایک سلسلہ تھا 12۔ ناہر خان اور اس کی اولاد نے 1527ء تک تقریباً ڈیڑھ سو سال میوات پر ایک نیم خود مختار باجگزار ریاست کے طور پر حکومت کی 12۔ خانزادہ حکمرانوں نے میوات میں اسلامی طرزِ حکومت متعارف کرایا۔ انہوں نے قلعے تعمیر کیے، زمین کے محصولات جمع کرنے کا ایک انتظامی ڈھانچہ قائم کیا، اور اسلامی قوانین (شریعت) کے نفاذ کے لیے قاضی مقرر کیے 16۔
یہ پالیسی دہلی سلطنت کے لیے ایک شاندار تزویراتی کامیابی تھی۔ اس نے میوات کو ایک بیرونی خطرے سے ایک اندرونی انتظامی اکائی میں تبدیل کر دیا۔ اب میوات میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری براہ راست دہلی پر نہیں، بلکہ خانزادہ حکمرانوں پر عائد ہوتی تھی، جن کا اپنا اقتدار سلطان کی حمایت پر منحصر تھا۔ اس طرح، سلطنت نے بغیر کسی بڑی فوجی مداخلت کے میوات پر اپنا بالواسطہ کنٹرول قائم کر لیا۔ اس پالیسی نے میوؤں کو براہ راست سلطنت سے لڑنے کی بجائے اپنے ہی خطے کے حکمرانوں کے تابع کر دیا۔
اس تبدیلی نے میوات کے سماجی ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ خانزادہ، ایک حکمران اشرافیہ کے طور پر، عام میو آبادی سے ممتاز ہو گئے 29۔ فارسی تواریخ میں حکمران طبقے کے لیے ‘میواتی’ اور عام لوگوں کے لیے ‘میو’ کی اصطلاح کا استعمال اس فرق کی نشاندہی کرتا ہے 29۔ اس اندرونی سماجی اور سیاسی تقسیم نے میوؤں کی اس متحدہ مزاحمت کو کمزور کر دیا جس نے بلبن جیسے طاقتور سلطان کو بھی چیلنج کیا تھا۔ اب مزاحمت کا رخ دہلی کی بجائے اکثر مقامی خانزادہ حکمرانوں کی طرف مڑ جاتا، جو بالآخر سلطنت کے مفاد میں تھا۔
حصہ دوم: مغلیہ سلطنت کا دور – تصادم، انضمام اور حتمی بغاوت (1526ء – 1857ء)
فصل 4: فیصلہ کن معرکہ – حسن خان میواتی بمقابلہ ظہیر الدین بابر (1526ء – 1527ء)
سولہویں صدی کے اوائل میں وسطی ایشیا سے ظہیر الدین بابر کی آمد نے ہندوستان کے سیاسی منظر نامے کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ لودھی سلطنت کے خاتمے اور مغلیہ سلطنت کے آغاز کے اس عبوری دور میں، میوات ایک بار پھر تاریخ کے مرکز میں آ گیا، لیکن اس بار ایک فیصلہ کن اور آخری معرکے کے لیے۔ اس معرکے کا مرکزی کردار میوات کا آخری خود مختار حکمران، راجہ حسن خان میواتی تھا 12۔
جنگِ پانی پت اور ابتدائی صف بندی
1526ء میں جب بابر اور ابراہیم لودھی کی افواج پانی پت کے میدان میں آمنے سامنے ہوئیں، تو حسن خان میواتی نے لودھی سلطان کا ساتھ دیا 27۔ یہ فیصلہ میوات کی روایتی سیاست کے عین مطابق تھا، یعنی دہلی کے موجودہ حکمران کی حمایت کرنا تاکہ کسی نئے اور بیرونی حملہ آور کو روکا جا سکے۔ پانی پت کی پہلی جنگ میں لودھی کی شکست اور موت نے صورتحال کو یکسر بدل دیا۔ بابر نے دہلی اور آگرہ پر قبضہ کر لیا اور حسن خان کے بیٹے، طاہر خان، کو جنگی قیدی بنا لیا 27۔
اتحاد کی وجوہات کا تجزیہ
پانی پت کی فتح کے بعد، بابر نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ہندوستان کی مقامی طاقتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اس نے حسن خان میواتی کو بھی اپنی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے ان کے مشترکہ اسلامی عقیدے کا واسطہ دیا۔ بابر نے حسن خان کو پیغام بھیجا کہ وہ دونوں ‘کلمہ گو بھائی’ ہیں، لہٰذا انہیں مل کر کام کرنا چاہیے 27۔
تاہم، حسن خان میواتی کا جواب ان کی سیاسی سوچ اور میواتی شناخت کی گہری عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے بابر کی مذہبی اپیل کو مسترد کر دیا۔ ایک مؤرخ، صدیق احمد میو کے مطابق، حسن خان نے جواب دیا کہ اگرچہ وہ بابر کے کلمہ گو بھائی ہیں، لیکن وہ ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے اپنے وعدے سے پھر نہیں سکتے 27۔ ان کا اشارہ میواڑ کے راجپوت حکمران رانا سانگا کے ساتھ اپنے اتحاد کی طرف تھا۔ حسن خان اور دیگر ہندوستانی سردار بابر کو ایک “غاصب” اور بیرونی حملہ آور سمجھتے تھے، جسے ہندوستان سے نکالنا ضروری تھا 32۔ ان کا خیال تھا کہ بابر بھی اپنے جدِ امجد تیمور کی طرح لوٹ مار کر کے واپس چلا جائے گا، لیکن جب اس نے مستقل قیام کا ارادہ ظاہر کیا تو مقامی حکمرانوں نے اسے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھا 32۔
حسن خان کا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اس دور میں سیاسی وفاداریاں مذہبی شناخت پر نہیں، بلکہ علاقائی خودمختاری، ذاتی وقار اور تزویراتی مفادات پر مبنی تھیں۔ اس کے لیے میوات کی آزادی اور اپنے وطن کا دفاع ایک بیرونی مسلم حملہ آور کے خلاف ایک ہندو راجپوت حکمران کے ساتھ اتحاد سے زیادہ اہم تھا۔ اس نے اپنی 12,000 گھڑ سواروں کی طاقتور فوج کے ساتھ رانا سانگا کی قیادت میں بننے والے راجپوت اتحاد میں شمولیت اختیار کی 27۔
جنگِ کنواہ (1527ء) اور حسن خان کی شہادت
16 مارچ 1527ء کو کنواہ کے میدان میں (موجودہ راجستھان میں بھرت پور کے قریب) بابر کی مغل فوج اور رانا سانگا کے متحدہ لشکر کے درمیان فیصلہ کن جنگ لڑی گئی 33۔ یہ جنگ ہندوستان کی تاریخ کے اہم ترین معرکوں میں سے ایک تھی۔ رانا سانگا کی فوج تعداد میں بابر کی فوج سے کہیں زیادہ تھی، لیکن بابر کے پاس ایک نیا اور تباہ کن ہتھیار تھا: توپ خانہ اور بارود 34۔
جنگ کے دوران حسن خان میواتی نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا۔ جب ایک تیر لگنے سے رانا سانگا شدید زخمی ہو کر میدانِ جنگ سے باہر لے جایا گیا، تو کچھ روایات کے مطابق حسن خان میواتی نے سپہ سالار کا جھنڈا سنبھالا اور فوج کی قیادت جاری رکھی 27۔ وہ اپنی فوج کے ساتھ مغلوں کی صفوں پر حملہ آور ہوئے اور ابتدائی طور پر انہیں پیچھے دھکیلنے میں کامیاب بھی ہوئے 31۔ تاہم، جنگ کا پانسہ بابر کی جدید ٹیکنالوجی نے پلٹ دیا۔ حسن خان میواتی بابر کی فوج کی طرف سے داغے گئے ایک توپ کے گولے کا نشانہ بنے جو براہ راست ان کے سینے پر لگا، اور وہ میدانِ جنگ میں ہی شہید ہو گئے 23۔
میوات کی آزاد ریاست کا خاتمہ
حسن خان میواتی کی شہادت کے ساتھ ہی میوات کی تقریباً دو سو سالہ نیم خود مختار ریاست کا خاتمہ ہو گیا 12۔ جنگِ کنواہ میں فتح نے شمالی ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیادوں کو مستحکم کر دیا 34۔ میوات کو براہِ راست مغلیہ سلطنت میں ضم کر لیا گیا اور خانزادہ خاندان کی حیثیت خود مختار حکمرانوں سے گھٹ کر مغل دربار کے ماتحت زمینداروں اور جاگیرداروں کی رہ گئی 12۔ حسن خان میواتی کی شکست صرف ایک فرد یا خاندان کی شکست نہیں تھی، بلکہ یہ روایتی ہندوستانی جنگی طریقوں کی جدید بارودی ٹیکنالوجی کے سامنے شکست تھی۔ اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ اب ہندوستان میں وہی حکومت کرے گا جس کے پاس بہتر توپ خانہ اور جدید عسکری حکمت عملی ہوگی۔
فصل 5: سوری دورِ حکومت اور اکبر کی انضمامی پالیسی (1540ء – 1605ء)
جنگِ کنواہ کے بعد میوات اپنی سیاسی خود مختاری کھو چکا تھا اور اب وہ دہلی کے تخت پر قابض طاقت کے رحم و کرم پر تھا۔ بابر کے بعد اس کے بیٹے ہمایوں کے دور میں مغلیہ سلطنت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اور بالآخر ایک افغان سردار، شیر شاہ سوری، نے اسے ہندوستان سے بے دخل کر دیا۔
سوری دورِ حکومت میں میوات
شیر شاہ سوری (1540-1545ء) اور اس کے جانشینوں کے دورِ حکومت (1540-1555ء) میں میوات کی صورتحال کے بارے میں تاریخی ذرائع میں بہت کم مخصوص معلومات ملتی ہیں 9۔ یہ تاریخی خاموشی بذات خود معنی خیز ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حسن خان میواتی کی شکست اور خطے کے براہِ راست انضمام کے بعد، میوات میں کوئی بڑی بغاوت یا قابلِ ذکر سیاسی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اسے سوری سلطنت کے ایک عام انتظامی حصے کے طور پر چلایا جاتا رہا۔ ہمایوں کے ابتدائی دور میں اس کے بھائی ہندال مرزا کے پاس الور اور میوات کا کنٹرول تھا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ علاقہ مغل انتظامی ڈھانچے کا حصہ بن چکا تھا 36۔ شیر شاہ، جو خود ایک بہترین منتظم تھا، نے یقینی طور پر اس اہم علاقے کو اپنے سخت انتظامی کنٹرول میں رکھا ہوگا تاکہ دہلی-آگرہ کے علاقے میں امن و امان قائم رہے۔
اکبر کی مصالحتی اور انضمامی حکمتِ عملی
1555ء میں ہمایوں کی واپسی اور پھر 1556ء میں اکبر کی تخت نشینی کے بعد میوات کے ساتھ شاہی تعلقات میں ایک نئی اور دور رس تبدیلی آئی۔ اکبر، جو اپنی سیاسی بصیرت اور مفاہمتی پالیسیوں کی وجہ سے مشہور ہے، نے یہ سمجھ لیا تھا کہ میو قوم جیسی جنگجو اور خود سر کمیونٹی پر صرف فوجی طاقت سے حکومت کرنا پائیدار حل نہیں ہے۔ اس نے جبر اور subjugation کی بجائے انضمام اور assimilation کی ایک دانشمندانہ حکمت عملی اپنائی۔
اکبر نے میوؤں کی روایتی شہرت، جو “چوری اور رہزنی” کے لیے تھی، کو نظر انداز نہیں کیا، بلکہ اس نے ان کی جسمانی صلاحیتوں اور اپنے علاقے کے جغرافیے پر ان کی مہارت کو سلطنت کے لیے ایک کارآمد وسیلہ بنانے کا فیصلہ کیا 16۔ اس نے بڑی تعداد میں نوجوان اور مضبوط جسم کے میو لڑکوں کو شاہی ملازمت میں بھرتی کرنا شروع کیا۔ انہیں دو اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں:
- ڈاک میوڑہ (Dak Meoras): یعنی شاہی ڈاک کے ہرکارے۔ یہ ایک انتہائی اہم اور ذمہ دارانہ کام تھا، جس کے لیے تیز رفتاری، برداشت اور وفاداری کی ضرورت تھی۔ میو نوجوان، جو اراولی کے ناہموار علاقوں میں چلنے اور دوڑنے کے عادی تھے، اس کام کے لیے بہترین انتخاب تھے 16۔
- خدمتیہ (Khidmatiyyas): یعنی شاہی محل کے محافظ اور جاسوس۔ یہ بھی اعتماد کا ایک اہم منصب تھا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اکبر میوؤں پر بھروسہ کرنے کو تیار تھا۔
مزاحمت سے وفاداری تک
اکبر کی اس پالیسی کے نتائج شاندار رہے۔ اس کے درباری مؤرخ ابوالفضل نے ‘آئین اکبری’ میں لکھا ہے کہ اکبر نے میوؤں کو، جو کبھی “بدنام زمانہ چور اور رہزن تھے اور جن پر پچھلے حکمران قابو نہیں پا سکے تھے”، کامیابی کے ساتھ “وفادار اور فرمانبردار خادموں” میں تبدیل کر دیا 16۔
یہ پالیسی محض چند نوکریاں دینے سے کہیں بڑھ کر تھی۔ یہ ایک طرح کی ‘سماجی انجینئرنگ’ تھی۔ اکبر نے میوؤں کو ریاستی ڈھانچے کا حصہ بنا کر ان کی وفاداری خرید لی۔ اب ان کی بقا اور ترقی کا انحصار سلطنت کی خدمت پر تھا۔ اس نے ان کی توانائیوں کو بغاوت سے ہٹا کر شاہی خدمت کی طرف موڑ دیا۔ اس نے نہ صرف میوات کے علاقے کو پرامن بنایا بلکہ سلطنت کے مواصلاتی اور انٹیلی جنس نظام کو بھی مضبوط کیا۔ یہ حکمت عملی بلبن کی تلوار اور بابر کی توپ سے کہیں زیادہ کارگر ثابت ہوئی۔ اس نے میو قوم اور مغل سلطنت کے درمیان ایک نیا رشتہ قائم کیا جو جبر پر نہیں، بلکہ باہمی انحصار پر مبنی تھا۔ اس پالیسی کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اکبر کے بعد جہانگیر اور شاہجہاں کے ادوار میں میوات سے کسی بڑی بغاوت کی خبر نہیں ملتی، اور یہ خطہ مغلیہ سلطنت کا ایک پرامن حصہ بنا رہا۔
فصل 6: اورنگزیب کا عہد – خاموش مزاحمت؟ (1658ء – 1707ء)
شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا پچاس سالہ دورِ حکومت (1658-1707ء) مغلیہ سلطنت کے لیے فوجی توسیع، انتظامی مرکزیت اور ساتھ ہی ساتھ شدید اندرونی بغاوتوں کا دور تھا۔ اس کے عہد میں جاٹوں، ستنامیوں، سکھوں، راجپوتوں اور مرہٹوں نے سلطنت کے خلاف بڑی اور طویل جنگیں لڑیں 37۔ ان بغاوتوں کی وجوہات میں زرعی پالیسیاں، مذہبی کشیدگی اور علاقائی خودمختاری کی خواہشات شامل تھیں۔ اس پس منظر میں، میوات کی صورتحال خاص طور پر دلچسپ اور قابلِ غور ہے۔
بڑی بغاوتوں کی عدم موجودگی
حیرت انگیز طور پر، دستیاب تاریخی ذرائع میں اورنگزیب کے دورِ حکومت میں میو قوم کی طرف سے کسی بڑی، منظم اور وسیع پیمانے پر بغاوت کا کوئی ذکر نہیں ملتا 4۔ یہ خاموشی اس لیے بھی اہم ہے کہ میوات دہلی کے بالکل قریب واقع تھا اور میوؤں کی بغاوت کی ایک طویل تاریخ تھی۔ جہاں متھرا کے جاٹ، نارنول کے ستنامی اور پنجاب کے سکھ سلطنت کے لیے دردِ سر بنے ہوئے تھے، وہیں میوات نسبتاً پرامن نظر آتا ہے۔
مزاحمت کی نوعیت کا تجزیہ
تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میوات میں ہر طرح کی مزاحمت ختم ہو گئی تھی۔ مزاحمت کی نوعیت بدل گئی تھی۔ کھلی جنگ کی بجائے، یہ اب زیادہ تر مقامی اور زرعی مسائل پر مبنی تھی۔ ایک ذریعے کے مطابق، مغلوں کے ظلم و ستم نے “مغل حکومت کے خلاف ان کی مزاحمت کو تقویت بخشی” 4، لیکن یہ مزاحمت غالباً غیر فعال یا نچلی سطح پر تھی۔ مغل دور میں کسانوں اور ریاست کے درمیان زمین کے محصول (لگان) کے معاملے پر کبھی کبھار تنازعات ہوتے رہتے تھے، اور یہ تنازعات اورنگزیب کی وفات (1707ء) کے بعد شدت اختیار کر گئے 16۔
اس دور میں چھوٹی موٹی جھڑپوں کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک ذریعے سے پتا چلتا ہے کہ اورنگزیب کے دورِ حکومت کے ابتدائی حصے میں، امبر (جے پور) کے راجہ جے سنگھ اول نے امبر کے شمال میں “میو ڈاکو قبائل” کو شکست دی تھی 40۔ یہ واقعہ کسی بڑی بغاوت کی بجائے مقامی سطح پر لوٹ مار یا قانون شکنی کی کارروائیوں کی نشاندہی کرتا ہے، جو میوات کے سماجی ڈھانچے کا حصہ رہی تھیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ میوؤں نے سلطنت کے خلاف کوئی بڑی جنگ نہیں چھیڑی، لیکن مقامی سطح پر وہ اپنی خودمختاری اور روایتی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
خاموشی کی ممکنہ وجوہات
اورنگزیب کے دور میں کسی بڑی میو بغاوت کی عدم موجودگی کی کئی ممکنہ وجوہات کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے:
- اکبر کی انضمامی پالیسی کی کامیابی: سب سے اہم وجہ اکبر کی دور رس پالیسی کی دیرپا کامیابی تھی۔ میوؤں کو ‘ڈاک میوڑہ’ اور ‘خدمتیہ’ کے طور پر شاہی نظام میں ضم کرنے سے ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا تھا جس کے مفادات سلطنت کے استحکام سے وابستہ تھے۔ یہ ادارہ جاتی وفاداری اتنی مضبوط ثابت ہوئی کہ اورنگزیب کی سخت گیر پالیسیوں سے پیدا ہونے والی بے چینی بھی اسے توڑ نہ سکی۔
- خانزادہ زمینداروں کا کردار: حسن خان میواتی کے بعد، خانزادہ خاندان نے اگرچہ اپنی خود مختار حیثیت کھو دی تھی، لیکن وہ میوات میں بااثر زمینداروں اور مغل منصب داروں کے طور پر موجود رہے۔ یہ مقامی اشرافیہ مغل حکومت اور عام میو آبادی کے درمیان ایک بفر کا کام کرتی تھی اور علاقے میں شاہی کنٹرول کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی تھی۔
- ماضی کے جبر کی یاد: بلبن کی تباہی اور بابر کے ہاتھوں کنواہ میں شکست کی یادیں میوؤں کے اجتماعی حافظے میں زندہ تھیں۔ وہ یہ جان چکے تھے کہ مغل سلطنت جیسی عظیم طاقت سے براہ راست ٹکرانے کا نتیجہ صرف تباہی ہے۔
- مزاحمت کی شکل میں تبدیلی: میوؤں نے شاید یہ سمجھ لیا تھا کہ فوجی مزاحمت اب کارگر نہیں رہی۔ لہٰذا، ان کی مزاحمت کی شکل زرعی حقوق کے لیے جدوجہد، محصول کی ادائیگی میں تاخیر یا انکار، اور مقامی سطح پر اپنی روایتی پنچایتوں کے ذریعے اپنے معاملات کو حل کرنے کی کوششوں میں بدل گئی۔
خلاصہ یہ کہ اورنگزیب کے دور میں میوات کی خاموشی دراصل ایک طویل تاریخی عمل کا نتیجہ تھی۔ یہ اکبر کی مفاہمت، بلبن کی دہشت اور بابر کی فتح کا مشترکہ اثر تھا جس نے میو-ریاست تعلقات کو ایک نئے، اگرچہ غیر مساوی، استحکام پر پہنچا دیا تھا۔ مزاحمت ختم نہیں ہوئی تھی، لیکن اس نے اپنا لباس بدل لیا تھا۔
فصل 7: آخری معرکہ – جنگِ آزادی 1857ء اور بہادر شاہ ظفر
1857ء کی جنگِ آزادی برصغیر کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب صدیوں سے चली आ रही کشمکش نے ایک نئی شکل اختیار کی۔ میو قوم کے لیے بھی یہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔ اس جنگ نے میوؤں اور دہلی کے تخت کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو یکسر بدل دیا۔ صدیوں تک دہلی کے سلطانوں اور بادشاہوں سے لڑنے والی یہ قوم اب اسی دہلی کے آخری بادشاہ، بہادر شاہ ظفر، کے پرچم تلے ایک بیرونی طاقت کے خلاف متحد ہو کر لڑ رہی تھی۔
بہادر شاہ ظفر کے ساتھ تصادم نہیں، ان کی حمایت میں جنگ
اس دور کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ میوؤں کا بہادر شاہ ظفر کے ساتھ کوئی تصادم نہیں ہوا 41۔ اس کے برعکس، جب میرٹھ سے سپاہیوں نے بغاوت کا آغاز کیا اور دہلی پہنچ کر بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کا شہنشاہ تسلیم کیا، تو میوات کا پورا خطہ انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو اپنا جائز حکمران تسلیم کر لیا 42۔ یہ بغاوت کسی ایک طبقے تک محدود نہیں تھی، بلکہ یہ ایک عوامی اور کسان بغاوت تھی جس میں میو قوم نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا 44۔
میو قوم کا کردار اور قائدین
میوات 1857ء کی جنگ کے اہم مراکز میں سے ایک تھا، خاص طور پر راسینہ، سوہنہ، تاؤڑو اور نوح کے علاقے 24۔ میوؤں نے انگریزوں کو اس خطے میں شدید نقصان پہنچایا۔ ان کی مزاحمت اتنی شدید تھی کہ انہوں نے میوات کے علاقے سے برطانوی انتظامیہ کا تقریباً خاتمہ کر دیا تھا 46۔
اس جنگ میں کئی میو رہنماؤں نے لازوال شہرت حاصل کی:
- جنرل بخت خان: اگرچہ ان کی نسلی شناخت پر اختلاف ہے، لیکن کئی میو روایات اور بعض مؤرخین انہیں میوات کا سپوت قرار دیتے ہیں۔ وہ دہلی میں باغی افواج کے کمانڈر انچیف تھے اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف دہلی کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا 24۔
- صدرالدین میواتی: پننگواں کے سالار صدرالدین نے دہلی کے سقوط کے بعد بھی تقریباً تین ماہ تک انگریزوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی، یہاں تک کہ وہ اپنے بیٹے سمیت شہید ہو گئے 24۔
- سعادت خان میواتی: اندور میں بغاوت کی قیادت کرنے والے سعادت خان کا تعلق بھی میو قوم سے تھا 24۔
- علی حسن خان میواتی: انہوں نے نوح اور گھاسیڑا کے علاقوں میں انقلابیوں کو منظم کیا اور انگریزوں کے وفادار خانزادوں اور پولیس کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں میوات سے برطانوی انتظامیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا 46۔
ان کے علاوہ بھی لاتعداد میو جنگجوؤں نے اس جنگ میں حصہ لیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
بغاوت کی وجوہات
میوؤں کی بغاوت کے پیچھے ٹھوس معاشی اور سیاسی وجوہات تھیں۔ انگریزوں کی نصف صدی کی حکومت (1803-1857ء) نے میوات کے لوگوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی تھی 45۔ اہم وجوہات درج ذیل تھیں:
- زرعی مسائل: انگریزوں کی طرف سے عائد کردہ بھاری ٹیکس، سخت محصولات کی وصولی، اور قحط سالی نے میو کسانوں کی کمر توڑ دی تھی 45۔ ان کی معاشی بدحالی بغاوت کا سب سے بڑا محرک تھی۔
- سیاسی بے دخلی: انگریزوں نے مقامی حکمرانوں اور سرداروں کے اختیارات چھین لیے تھے۔ فیروز پور جھرکہ کے نواب شمس الدین خان کی پھانسی جیسے واقعات نے میوؤں کے دل میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دی تھی 45۔
- آزادی کا جذبہ: میو قوم اپنی جنگجو فطرت اور آزادی سے محبت کے لیے مشہور تھی۔ انہوں نے انگریزوں کی حکومت کو ایک غیر ملکی اور ظالمانہ تسلط کے طور پر دیکھا اور اسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے 44۔
انگریزوں کا انتقام
جب انگریزوں نے 1858ء تک بغاوت کو مکمل طور پر کچل دیا، تو انہوں نے ان علاقوں اور قوموں سے شدید انتقام لیا جنہوں نے ان کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔ میو قوم کو ان کی وسیع پیمانے پر شرکت کی وجہ سے خاص طور پر وحشیانہ سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی جدی پشتی زمینیں اور جاگیریں بحق سرکار ضبط کر لی گئیں 24۔ ہزاروں میوؤں کو قتل کیا گیا اور ان کے گاؤں جلا دیے گئے۔
سب سے بڑا اور دیرپا انتقامی اقدام 1871ء میں اٹھایا گیا، جب برطانوی حکومت نے “کرمنل ٹرائبز ایکٹ” (Criminal Tribes Act) کے تحت پوری میو قوم کو اجتماعی طور پر ایک “مجرم قبیلہ” قرار دے دیا 47۔ یہ ایک جدید، نوآبادیاتی دور کا اجتماعی سزا کا طریقہ تھا، جس نے میوؤں کو قانونی طور پر دوسرے درجے کا شہری بنا دیا اور ان پر کئی دہائیوں تک پولیس کی سخت نگرانی اور سماجی و معاشی پابندیاں مسلط رکھیں۔ یہ اقدام بلبن کی قرون وسطیٰ کی پالیسیوں کا تسلسل تھا، جس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ مرکزی طاقتیں میوؤں کی اجتماعی مزاحمت کا جواب ہمیشہ اجتماعی سزا سے دیتی ہیں۔
1857ء کی جنگ میو تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ یہ ان کی مزاحمت کا آخری بڑا باب تھا۔ اس جنگ نے ان کی لڑائی کو میوات کی علاقائی خودمختاری سے اٹھا کر ہندوستان کی آزادی کی ایک وسیع تر، قبل از وقت قوم پرستانہ جدوجہد کا حصہ بنا دیا۔ بہادر شاہ ظفر کی کمزور اور علامتی شخصیت کی حمایت کر کے، انہوں نے ایک بیرونی اور ناجائز طاقت کے مقابلے میں ایک روایتی اور مقامی حاکمیت کی علامت کو منتخب کیا، اور اس انتخاب کی بھاری قیمت چکائی۔
اختتامیہ: میو مزاحمت کا تاریخی تجزیہ
محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے لے کر بہادر شاہ ظفر کے رنگون میں جلاوطنی تک، برصغیر کی تاریخ کے تقریباً گیارہ سو سالوں پر محیط اس طویل سفر میں میو قوم اور مرکزی شاہی طاقتوں کے مابین تعلقات ایک مستقل کشمکش اور ارتقاء کا مظہر ہیں۔ یہ تجزیہ واضح کرتا ہے کہ یہ تعلقات کبھی بھی سادہ یا یک جہتی نہیں رہے، بلکہ یہ جبر، مزاحمت، مفاہمت اور اتحاد کے مختلف مراحل سے گزرے۔
نتائج کا خلاصہ
اس رپورٹ کے کلیدی نتائج کو مندرجہ ذیل نکات میں سمیٹا جا سکتا ہے:
- ابتدائی مزاحمت اور جبر (دورِ غلاماں): دہلی سلطنت کے قیام کے ساتھ ہی میوؤں نے اسے اپنی خودمختاری پر حملہ تصور کیا اور گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے جواب میں، سلطان غیاث الدین بلبن نے بے مثال سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میوات کو تباہ و برباد کر دیا، جس کا مقصد میو طاقت کو ہمیشہ کے لیے کچلنا تھا۔
- بالواسطہ کنٹرول کی پالیسی (خلجی و تغلق دور): علاء الدین خلجی نے فوجی دباؤ کے ذریعے تجارتی راستوں کو محفوظ بنایا، جبکہ فیروز شاہ تغلق نے ایک انقلابی پالیسی اپناتے ہوئے مقامی سرداروں کو اسلام میں داخل کر کے ‘خانزادہ’ کے نام سے ایک باجگزار ریاست قائم کی۔ اس نے میوات کے مسئلے کو براہِ راست تصادم سے بالواسطہ انتظامی کنٹرول میں تبدیل کر دیا۔
- فیصلہ کن جنگ اور خاتمہ (ابتدائی مغل دور): ظہیر الدین بابر کی آمد پر، میوات کے آخری خود مختار حکمران حسن خان میواتی نے مذہبی وابستگی پر علاقائی سالمیت کو ترجیح دیتے ہوئے رانا سانگا کا ساتھ دیا، لیکن جنگِ کنواہ میں توپ خانے کی جدید ٹیکنالوجی کے سامنے شکست کھائی، جس کے ساتھ ہی میوات کی آزاد حیثیت کا خاتمہ ہو گیا۔
- انضمام اور مفاہمت (دورِ اکبری): شہنشاہ اکبر نے جبر کی پالیسی کو ترک کر کے میوؤں کو شاہی ڈاک اور انٹیلی جنس کے نظام میں شامل کر کے ان کی توانائیوں کو سلطنت کے لیے کارآمد بنایا۔ یہ پالیسی اتنی کامیاب رہی کہ اورنگزیب کے پرآشوب دور میں بھی میوات میں کوئی بڑی بغاوت نہیں ہوئی۔
- حتمی اتحاد (جنگِ آزادی 1857ء): صدیوں کی دشمنی کے بعد، میو قوم نے انگریزوں کی بیرونی طاقت کے خلاف آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت کو تسلیم کیا اور جنگِ آزادی میں بے مثال قربانیاں دیں۔ اس کی سزا انہیں اجتماعی طور پر “مجرم قبیلہ” قرار دے کر دی گئی۔
میو-ریاست تعلقات کے ارتقاء کا جامع تجزیہ
میو مزاحمت کی تاریخ دراصل ان کے جغرافیے، ثقافت اور سیاسی شعور کی تاریخ ہے۔ اراولی کے پہاڑوں اور گھنے جنگلات نے انہیں ہمیشہ ایک قدرتی دفاع فراہم کیا، جس کی وجہ سے وہ اپنی آزادی پر کبھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔ ان کی ملی جلی ثقافت نے انہیں ایک منفرد شناخت دی، جس کی وجہ سے وہ مذہبی بنیادوں پر بنائے گئے اتحادوں سے بالاتر ہو کر اپنے علاقائی مفادات کے لیے فیصلے کرتے تھے، جس کی بہترین مثال حسن خان میواتی کا بابر کے خلاف رانا سانگا کا ساتھ دینا ہے۔
دوسری طرف، دہلی میں قائم مرکزی ریاستوں کا ردِعمل بھی وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوا۔ بلبن کی وحشیانہ طاقت کی پالیسی نے وقتی طور پر تو مسئلہ حل کر دیا، لیکن یہ ایک پائیدار حل نہیں تھا۔ فیروز شاہ تغلق اور اکبر جیسے دانشمند حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا کہ ایک جنگجو قوم پر صرف تلوار سے حکومت نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے مفاہمت اور انضمام کے ذریعے وہ نتائج حاصل کیے جو فوجی مہمات سے ممکن نہیں تھے۔ ان کی پالیسیوں نے میوؤں کو سلطنت کے ڈھانچے کا حصہ بنا دیا، جس سے ایک طویل عرصے تک امن قائم رہا۔
1857ء کی جنگ اس ارتقاء کا آخری اور سب سے اہم مرحلہ تھا۔ اس جنگ نے میوؤں کی مزاحمت کو میوات کی حدود سے نکال کر ہندوستان کی سطح پر پہنچا دیا۔ ان کی لڑائی اب صرف اپنی ‘پال’ یا ‘گوت’ کے لیے نہیں تھی، بلکہ ایک مشترکہ وطن کے لیے تھی۔ یہ ان کے سیاسی شعور کی پختگی کا ثبوت تھا، جس نے انہیں علاقائی باغیوں سے اٹھا کر آزادی کے مجاہدوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔
میزانیہ: میو قوم اور حکمرانوں کے مابین تعامل کا خلاصہ
ذیل میں دیا گیا جدول محمد بن قاسم کے بعد سے بہادر شاہ ظفر تک میو قوم اور ہندوستان پر حکومت کرنے والے اہم خاندانوں اور بادشاہوں کے درمیان تعلقات کا ایک جامع خلاصہ پیش کرتا ہے۔
دور/خاندان | اہم حکمران | تصادم/تعامل کی نوعیت | اہم میو شخصیات | نتیجہ/میوات پر اثرات |
دورِ غلاماں (1206-1290ء) | التمش کے جانشین، غیاث الدین بلبن | شدید سرکشی، گوریلا جنگ، اور بے رحمانہ فوجی مہم 15 | کا کورانا بالوت 18 | بڑے پیمانے پر قتل عام، جنگلات کی صفائی، اور فوجی چوکیوں کا قیام؛ میو طاقت کا عارضی خاتمہ 21 |
خلجی خاندان (1290-1320ء) | علاء الدین خلجی | تجارتی راستوں کی حفاظت کے لیے فوجی دباؤ اور جبر 16 | دستیاب نہیں | میوات پر سخت کنٹرول اور تجارتی راستوں کا تحفظ |
تغلق خاندان (1320-1414ء) | فیروز شاہ تغلق | مفاہمت اور بالواسطہ کنٹرول؛ باجگزار ریاست کا قیام 8 | راجہ ناہر خان (سابقہ سونپر پال) 12 | خانزادہ خاندان کی حکومت کا آغاز؛ میوات کا نیم خود مختار باجگزار ریاست بننا 12 |
ابتدائی مغل دور (1526-1527ء) | ظہیر الدین بابر | ہندوستان کی حاکمیت کے لیے فیصلہ کن جنگ اور انضمام 32 | راجہ حسن خان میواتی 48 | جنگِ کنواہ میں شکست؛ حسن خان کی شہادت؛ میوات کی آزاد ریاست کا خاتمہ اور مغلیہ سلطنت میں انضمام 12 |
سوری دور (1540-1555ء) | شیر شاہ سوری | کوئی بڑا تصادم ریکارڈ پر نہیں؛ انتظامی کنٹرول کا تسلسل 15 | دستیاب نہیں | سوری سلطنت کے ایک انتظامی حصے کے طور پر شامل رہا |
دورِ اکبری (1556-1605ء) | جلال الدین محمد اکبر | مفاہمت اور انتظامی انضمام؛ شاہی ملازمتوں میں بھرتی 16 | دستیاب نہیں | میوؤں کی ‘ڈاک میوڑہ’ اور ‘خدمتیہ’ کے طور پر بھرتی؛ مزاحمت کا وفاداری میں تبدیل ہونا 16 |
دورِ اورنگزیب (1658-1707ء) | اورنگزیب عالمگیر | بڑی بغاوت کی عدم موجودگی؛ مقامی سطح پر زرعی تنازعات 4 | دستیاب نہیں | نسبتاً پرامن دور؛ اکبر کی پالیسیوں کا تسلسل |
جنگِ آزادی (1857ء) | بہادر شاہ ظفر (بطور رہنما) | انگریزوں کے خلاف اتحاد اور وسیع پیمانے پر بغاوت 24 | جنرل بخت خان، صدرالدین میواتی، سعادت خان میواتی 24 | انگریزوں کے خلاف شدید مزاحمت؛ بغاوت کی ناکامی کے بعد زمینوں کی ضبطی اور پوری قوم کو “مجرم قبیلہ” قرار دیا جانا 47 |
Works cited
- زمرہ:میو راجپوت – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 18, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B2%D9%85%D8%B1%DB%81:%D9%85%DB%8C%D9%88_%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%BE%D9%88%D8%AA
- Meo People – Jatland Wiki, accessed July 18, 2025, https://www.jatland.com/home/Meo_People
- میو – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 18, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88
- Meo (ethnic group) – Wikipedia, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Meo_(ethnic_group)
- An Empirical Study of Socio-Economic Status of Meo Muslims in Mewat Region – International Journal of Advances in Social Sciences, accessed July 18, 2025, https://www.ijassonline.in/HTML_Papers/International%20Journal%20of%20Advances%20in%20Social%20Sciences__PID__2018-6-1-9.html
- THE ORIGIN AND DEVELOPMENT OF THE MEO COMMUNITY: A SOCIO-POLITICAL PERSPECTIVE, accessed July 18, 2025, https://www.ijim.in/files/2023/October/Vol%208%20Issue%20V%2026-30%20%20Paper%205%20The%20Origin%20and%20Development%20of%20the%20Meo%20Community%20ASocio-pol%20Perspective.pdf?_t=1700054911
- ہمّتا میو ، جنہوں نے میوات کے مسلمانوں کو پاکستان جانے سے بچایا – Qaumi Awaz, accessed July 18, 2025, https://www.qaumiawaz.com/social/himmata-meo-and-its-works-about-mewati-muslims-at-the-time-of-partition
- میوات – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 18, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA
- Meo Muslim, Mev, Mewati Muslim – UBC Library Open Collections, accessed July 18, 2025, https://open.library.ubc.ca/cIRcle/collections/ubccommunityandpartnerspublicati/52387/items/1.0394975
- The Unique History of the Meo Tribes of Mewat – JSTOR Daily, accessed July 18, 2025, https://daily.jstor.org/the-unique-history-of-the-meo-tribes-of-mewat/
- Shahabuddin Khan Meo – Punjab University, accessed July 18, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/salauddin.pdf
- میوات کے خانزادہ – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 18, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA_%DA%A9%DB%92_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81
- Socio-Political Perspective on the Origin and Evolution of the Meo Community – ijrpr, accessed July 18, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE8/IJRPR16431.pdf
- The Meos of Mewat : A Historical Perspective – ijrpr, accessed July 18, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE6/IJRPR14628.pdf
- Balban – Wikipedia, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Balban
- The Making of a Region in Medieval India: Mewat from 13 th to 18 th …, accessed July 18, 2025, https://rjhssonline.com/HTML_Papers/Research%20Journal%20of%20Humanities%20and%20Social%20Sciences__PID__2017-8-2-4.html
- MEWATIS UNDER THE MAMLUK DYNASTY Pankaj Dhanger Assistant Professor, Department of History,Culture and Archaeology Chaudhary Ran – Aarhat, accessed July 18, 2025, https://www.aarhat.com/download-article/533/
- صارف:Hakeem qari M younas shahid – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 18, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D8%A7%D8%B1%D9%81:Hakeem_qari_M_younas_shahid
- The rise of Ghiyasuddin Balban In Delhi Sultanate – historywithahmad.com, accessed July 18, 2025, https://historywithahmad.com/the-rise-of-ghiyasuddin-balban/
- Top 6 Achievements of Balban | Delhi Sultanate – History Discussion, accessed July 18, 2025, https://www.historydiscussion.net/history-of-india/delhi-sultanate/top-6-achievements-of-balban-delhi-sultanate-history/6567
- All you Wanted to Know About the Tablighi Jamaat: The Beginning – The Dharma Dispatch, accessed July 18, 2025, https://www.dharmadispatch.in/history/all-you-wanted-to-know-about-the-tablighi-jamaat-the-beginning
- Ghiyasuddin Balban | PDF – Scribd, accessed July 18, 2025, https://www.scribd.com/document/827077565/Ghiyasuddin-Balban
- جامعہ ملیہ میں ‘یوم میوات’ کا انعقاد، سنہری تاریخ کی یادیں تازہ – Qaumi Awaz, accessed July 18, 2025, https://www.qaumiawaz.com/national/mewat-day-celebrated-at-jmi-delhi-reminiscent-of-golden-history
- جنگ آزادی مئی ۱۸۵۷ء اور میوقوم | Weekly Lahore International London, accessed July 18, 2025, https://www.lahoreinternational.com/2021/04/%D8%AC%D9%86%DA%AF-%D8%A7%D9%93%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%85%D8%A6%DB%8C-%DB%B1%DB%B8%DB%B5%DB%B7%D8%A1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D9%88%D9%82%D9%88%D9%85/
- Alauddin Khalji’s conquest of Gujarat – Wikipedia, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Alauddin_Khalji%27s_conquest_of_Gujarat
- Mewat – Wikipedia, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mewat
- Hasan Khan Mewati, ruler praised by BJP who fought against Babur alongside Rana Sanga, accessed July 18, 2025, https://theprint.in/politics/hasan-khan-mewati-ruler-praised-by-bjp-who-fought-against-babur-alongside-rana-sanga/1996193/
- What is the history and culture of Mewat like? Where is it located on the map? Which district does it come under? – Quora, accessed July 18, 2025, https://www.quora.com/What-is-the-history-and-culture-of-Mewat-like-Where-is-it-located-on-the-map-Which-district-does-it-come-under
- Khanzadas of Mewat: An Ethno-Historical Overview – Ignited Minds Journals, accessed July 18, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/9328/18457/46111
- حسن خاں میواتی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 18, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D8%B3%D9%86_%D8%AE%D8%A7%DA%BA_%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C
- Hasan Khan Mewati – Wikipedia, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Hasan_Khan_Mewati
- ”ہندوستان جتنے شہر اور ملک کسی اور ولایت میں نہیں” – ایکسپریس اردو – Express.pk, accessed July 18, 2025, https://www.express.pk/story/2249553/hndwstan-jtne-shhr-awr-mlk-ksy-awr-wlayt-myn-nhyn-2249553
- Battle of Khanwa – Wikipedia, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Khanwa
- Battle of Khanwa: Overview & Significance | Vaia, accessed July 18, 2025, https://www.vaia.com/en-us/explanations/history/the-mughal-empire/battle-of-khanwa/
- Battle of Khanwa: When Rajput swords met cannons for the first time – India Today, accessed July 18, 2025, https://www.indiatoday.in/education-today/gk-current-affairs/story/rajputs-mughals-and-afghans-khanwa-1527-changed-indian-warfare-2695158-2025-03-18
- The Mughal Empire (c. 1526 – 1857 CE) – BYJU’S, accessed July 18, 2025, https://byjus.com/free-ias-prep/mughal-empire-upsc-medieval-history-notes/
- Revolts against Aurangzeb. – SELF STUDY HISTORY, accessed July 18, 2025, https://selfstudyhistory.com/2022/01/23/revolts-against-aurangzeb/
- Agrarian Revolts During The Reign of Aurangzeb – ASHA: Blast From The Past, accessed July 18, 2025, https://rezavisblastfromthepast.co.in/2020/03/16/agrarian-revolts-during-the-reign-of-aurangzeb/
- Aurangzeb – Wikipedia, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Aurangzeb
- Jai Singh I – Wikipedia, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Jai_Singh_I
- Bahadur Shah Zafar – Wikipedia, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Bahadur_Shah_Zafar
- Bahadur Shah II | Biography, Involvement in Indian Rebellion of 1857, Exile, & Facts, accessed July 18, 2025, https://www.britannica.com/biography/Bahadur-Shah-II
- COLONIAL DEMOLITION OF BAHADUR SHAH ZAFAR’S GOVERNMENT SOME BITTER FACTS AND LITERARY REACTIONS – PalArch’s Journals, accessed July 18, 2025, https://archives.palarch.nl/index.php/jae/article/download/11107/9966/21944
- Mewati Rebellion of 1857 | Exotic India Art, accessed July 18, 2025, https://www.exoticindiaart.com/book/details/mewati-rebellion-of-1857-haj293/
- Causes Of Mewati Revolt Of 1857 : Free Download, Borrow, and …, accessed July 18, 2025, https://archive.org/details/causes-of-mewati-revolt-of-1857
- Role of Meos in Independence Movement of India – ijrpr, accessed July 18, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE7/IJRPR15607.pdf
- Meo Muslims – Chronicle India, accessed July 18, 2025, https://www.chronicleindia.in/online-magazine/archive-csce-october-2023/meo-muslims
- en.wikipedia.org, accessed July 18, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Hasan_Khan_Mewati#:~:text=The%20Battle%20of%20Khanwa%20occurred,Rana%20Sanga%20in%20this%20battle.