ہندوستان کی تواریخ میں ایک زمانی جائزہ

میوات اور میو قوم

 ہندوستان کی تواریخ میں ایک زمانی جائزہ

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

حصہ اول: قدیم جڑیں اور تشکیلی دور (قدیم سے 13ویں صدی تک)

Advertisements

میو قوم اور ان کے آبائی وطن میوات کی تاریخ ہندوستان کے وسیع تاریخی منظرنامے میں گہرائی تک پیوست ہے۔ یہ ایک ایسی برادری کی داستان ہے جس کی شناخت مزاحمت، انضمام اور ایک منفرد ثقافتی ترکیب سے عبارت ہے۔ ان کی تاریخ کا سراغ قدیم ہندوستان کی داستانوں سے لے کر جدید دور کی ریاستوں کے قیام تک لگایا جا سکتا ہے، جو برصغیر کی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کا ایک آئینہ دار ہے۔

1.1 قدیم دور کی بازگشت: متسیہ سلطنت سے مہابھارت تک

میوات کا جغرافیائی علاقہ، جو آج ہریانہ اور راجستھان کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے، تقریباً وہی خطہ ہے جو قدیم متسیہ سلطنت کا مرکز تھا، جس کی بنیاد 5ویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی تھی 1۔ یہ تاریخی تعلق اس خطے کی قدامت اور تہذیبی تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے۔ میو برادری کی زبانی روایات اور نسلی تاریخیں ان کی جڑوں کو ہندو مت کی عظیم رزمیہ داستان، مہابھارت، کے کرداروں سے جوڑتی ہیں 2۔ وہ خود کو بھگوان کرشن (یدو ونشی راجپوت) اور ارجن (تنور راجپوت) کی اولاد بتاتے ہیں، جو ان کی نسل کے اعلیٰ مقام کا دعویٰ ہے 4۔

اس خطے کا قدیم ترین تاریخی ذکر مہابھارت میں ملتا ہے، جہاں ریواڑی-بھوانی کے علاقے میں بھدانک نامی قبیلے کا ذکر ہے، جن کا تعلق قدیم بھدروں سے تھا 2۔ اگرچہ یہ روابط قیاس آرائی پر مبنی ہیں، لیکن یہ اس خطے اور قدیم متون کے درمیان ایک ممکنہ تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

میو برادری کا اپنی شناخت کو ان عظیم داستانوں اور اعلیٰ راجپوت خاندانوں سے جوڑنا محض ایک نسلی دعویٰ نہیں ہے۔ یہ ان کی ماقبل اسلام، اعلیٰ نسبی اور مقامی شناخت پر ایک مضبوط اصرار ہے۔ ایک ایسی برادری کے طور پر جو بعد میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئی، ان کے لیے ایک ایسے سماجی و سیاسی ماحول میں اپنی حیثیت برقرار رکھنا ضروری تھا جہاں ہندو راجپوتوں کا غلبہ تھا۔ مہابھارت کے ہیروز سے اپنا سلسلہ نسب جوڑ کر انہوں نے نہ صرف داخلی طور پر اتحاد اور فخر کا احساس پیدا کیا بلکہ بیرونی طور پر خود کو دیگر راجپوت گروہوں کے برابر بھی پیش کیا۔ یہ بنیادی شناخت، یعنی اعلیٰ نسب راجپوت جو بعد میں مسلمان ہوئے، ان کی منفرد ثقافتی ترکیب اور مرکزی طاقت کے خلاف مزاحمت کی ایک اہم وجہ بنی، جسے بعد میں شیل مایارام جیسی اسکالر نے ان کی “حدّی شناخت” (liminal identity) قرار دیا 6۔

1.2 راجپوت سلسلہ نسب: سماجی ڈھانچہ اور قبائلی ابتدا

میو برادری کی شناخت ایک ممتاز مسلم راجپوت قبیلے کے طور پر کی جاتی ہے 7۔ ان کا شجرہ نسب چندرونشی، سوریاونشی اور اگنی ونشی راجپوتوں سے جا ملتا ہے 7۔ ان کا سماجی ڈھانچہ ایک “پال نظام” پر مبنی ہے، جس کی بنیاد پدری نسل پر ہے 4۔ ان کے مشہور قبیلوں (گوتوں یا بنس) میں جادو، تنور، اور کچھواہا شامل ہیں، جن کی مزید ذیلی شاخیں جیسے دولوت، ڈیروال، اور سینگال ہیں 4۔

جدید جینیاتی تحقیق، خاص طور پر ہیپلو گروپ R1a1 کے مطالعے، میو قبیلے کو ایک وسیع تر ہند-یورپی آبادی سے جوڑتی ہیں جس کی ابتدا 10,000 سے 15,000 سال قبل یوریشیائی گیاہستانوں (Eurasian steppes) سے ہوئی تھی 4۔ اگرچہ یہ ایک بہت وسیع جینیاتی نشان ہے، لیکن کمیونٹی کے مورخین اسے برصغیر میں اپنی قدیم اور وسیع موجودگی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

1.3 ترک حکمرانی کا آغاز اور مزاحمت کا طلوع

موریہ سلطنت کے زوال کے بعد، یہ خطہ گوجر-پرتیہار اور تومر راجپوتوں سمیت کئی طاقتوں کے زیر تسلط رہا، جنہوں نے 736 عیسوی میں دہلی کی بنیاد رکھی 2۔ 1206 میں دہلی سلطنت کے قیام اور اس کے دارالحکومت مہرولی کا میوات کے قریب ہونا، میوؤں کے لیے اپنی سرزمین پر ایک بیرونی قبضے کے مترادف تھا 8۔ اسی تصور نے ابتدا ہی سے میوؤں اور نئے حکمرانوں کے درمیان تعلقات کو معاندانہ بنا دیا۔

میوؤں کا ابتدائی ردعمل شدید مزاحمت کی صورت میں سامنے آیا۔ انہوں نے ہریانہ اور بیانہ کے علاقوں تک اپنی کارروائیاں شروع کر دیں اور ابتدائی سلطانوں کے لیے امن و امان کا ایک سنگین مسئلہ بن گئے 8۔

حصہ دوم: تنازعات اور استحکام کا دور (13ویں سے 16ویں صدی تک)

یہ دور دہلی سلطنت کے ساتھ میوؤں کے فیصلہ کن تصادم کی وجہ سے جانا جاتا ہے، جس نے مزاحمت کاروں کے طور پر ان کی تاریخی ساکھ کو مستحکم کیا۔ اسی دور میں انہوں نے غیر مرکزی مزاحمت سے ایک نیم خود مختار ریاست کے قیام کی طرف سیاسی تبدیلی کا مظاہرہ بھی کیا۔

2.1 سلطنت کی آہنی گرفت: غیاث الدین بلبن کی میوات میں مہمات

سلطان التمش کی وفات کے بعد، اس کے جانشین میوات کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہے، جس کے نتیجے میں میوؤں کی چھاپہ مار کارروائیاں دہلی کی دیواروں تک پہنچ گئیں 8۔ 1259 میں مؤرخ منہاج نے لکھا کہ وہ “شیطان کے لیے بھی ایک دہشت” بن چکے تھے 8۔

سلطان غیاث الدین بلبن (دورِ حکومت 1266-1287) نے “سرکش میواتیوں” کو اپنے دارالحکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور ان کے خلاف “آہن و خون” (Iron and Blood) کی پالیسی اپنائی 9۔ بلبن کی مہمات انتہائی سفاکی پر مبنی تھیں۔ اس نے دہلی کے ارد گرد کے جنگلات، جو میوؤں کی پناہ گاہیں تھے، کو صاف کرنے کا حکم دیا اور وہاں فوجی چوکیاں (تھانے) قائم کیں 8۔ 1260 میں اس کی مہمات میں ہزاروں میوؤں کا قتل عام کیا گیا، اور تاریخی حوالوں میں “لاتعداد ہندوؤں کی ہلاکت” اور ہریانہ میں 12,000 افراد کو تلوار کے گھاٹ اتارنے کا ذکر ملتا ہے 1۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ بلبن کی افواج نے میو مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا، اور ایک روایت کے مطابق 250 گرفتار رہنماؤں کو سرعام پھانسی دی گئی 1۔

بعض جدید تشریحات کے مطابق، میو محض ڈاکو نہیں تھے، بلکہ “غیر منظم، آزاد اور بلا معاوضہ فوجوں کے دستے” تھے جو دہلی کے حکمرانوں کے خلاف مسلسل بغاوت کی حالت میں رہتے تھے 9۔ یہ نظریہ ان کی کارروائیوں کو جرائم کے بجائے سیاسی مزاحمت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

بلبن کی شدید ترین کارروائیوں کا مقصد میوات کو مستقل طور پر کچلنا تھا، لیکن اس کا نتیجہ الٹا نکلا۔ اس ظلم و ستم نے میو برادری کے اندر مزاحمت اور مرکزی طاقت کے خلاف نفرت کی ایک ایسی شناخت کو جنم دیا جو صدیوں تک قائم رہی۔ یہ مشترکہ صدمہ اور قربانیاں ان کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن گئیں اور ان کی مزاحمتی داستانوں کی بنیاد رکھیں۔ بلبن کی “آہن و خون” کی پالیسی نے نادانستہ طور پر ایک ایسی قوم کو جنم دیا جس کی شناخت ہی مزاحمت بن گئی۔ یہی جذبہ بعد میں 1527 میں بابر کے خلاف، 1857 میں انگریزوں کے خلاف اور 1930 کی دہائی میں شاہی ریاستوں کے خلاف جدوجہد کی صورت میں ظاہر ہوا۔

2.2 خانزادوں کا عروج: ریاستِ میوات کا قیام

1372 میں، سلطان فیروز شاہ تغلق نے کوٹلہ کے ایک جادون راجپوت سردار راجہ سونپر پال کو میوات کی سرداری عطا کی۔ راجہ سونپر پال نے اسلام قبول کر کے ناہر خان کا نام اختیار کیا 2۔ ناہر خان خانزادہ راجپوتوں کے بانی بنے، جو ایک الگ حکمران خاندان تھا، اور انہوں نے میوات میں ایک موروثی ریاست کی بنیاد رکھی، جس کے ساتھ انہوں نے “والیِ میوات” کا لقب اختیار کیا 5۔ یہ واقعہ غیر مرکزی مزاحمت سے ایک باقاعدہ، نیم خود مختار ریاست کے قیام کی طرف ایک اہم سیاسی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جو دہلی سلطنت کو خراج ادا کرتی تھی 2۔

2.3 ڈیڑھ صدی کی خود مختاری: والیانِ میوات کا دور

ناہر خان کی اولاد نے 1372 سے 1527 تک تقریباً ڈیڑھ سو سال میوات پر حکومت کی 5۔ اس عرصے کے دوران، انہوں نے اپنی طاقت کو مستحکم کیا، بہادر پور اور فیروز پور جِھرکہ جیسے اہم شہروں کی بنیاد رکھی، اور کمزور ہوتی دہلی سلطنت سے وقتاً فوقتاً مکمل خود مختاری کا اعلان بھی کیا 2۔ خانزادہ حکمرانوں نے اسلام پر عمل پیرا رہتے ہوئے اپنے راجپوت نسب اور شناخت کو برقرار رکھا، جو اس خطے کی منفرد ثقافتی ترکیب کا مظہر تھا 11۔

میوات کے خانزادہ حکمران (1372–1527)
نمبر شمار
1
2
3
4
5
6
7
8
9

ماخذ: 11

حصہ سوم: مغلیہ سلطنت کے تحت انضمام اور شناخت (16ویں سے 19ویں صدی تک)

یہ حصہ اس فیصلہ کن موڑ کا جائزہ لیتا ہے جب میوات کی خود مختاری کا خاتمہ ہوا اور اس کی تقدیر عظیم مغلیہ سلطنت سے وابستہ ہو گئی۔ اس میں اس دور کی پیچیدہ شناختی سیاست پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جہاں مذہبی وابستگی ہمیشہ سیاسی وفاداری کا تعین نہیں کرتی تھی۔

3.1 آخری معرکہ: راجہ حسن خان میواتی اور جنگِ خانوا (1527)

راجہ حسن خان میواتی، میوات کے آخری خود مختار حکمران تھے 11۔ انہوں نے 1526 میں پانی پت کی پہلی جنگ میں مغل حملہ آور بابر کے خلاف سلطان ابراہیم لودھی کی حمایت کی 13۔

ایک مسلمان حکمران ہونے کے باوجود، حسن خان میواتی نے ایک اور مسلمان حکمران بابر کے خلاف میواڑ کے ہندو راجہ رانا سانگا کی قیادت میں راجپوت اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا 13۔ یہ اتحاد اس دور کی سیاست کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں علاقائی اور نسلی وفاداریاں اکثر مذہبی وابستگیوں پر غالب آجاتی تھیں۔ بابر نے اپنی خود نوشت “بابرنامہ” میں حسن خان کو اس اتحاد کا بنیادی “محرک” اور ایک ایسا “کلمہ گو کافر” قرار دیا ہے، جو اس تنازعے کی سیاسی نوعیت کو واضح کرتا ہے 15۔

حسن خان میواتی نے 12,000 گھڑ سواروں کے ساتھ بہادری سے جنگ لڑی اور 17 مارچ 1527 کو جنگِ خانوا میں شہید ہو گئے 13۔ ان کی شہادت کے ساتھ ہی میوات کی آزاد ریاست کا خاتمہ ہو گیا۔

حسن خان میواتی کا رانا سانگا کے ساتھ اتحاد محض ایک سیاسی چال نہیں تھی، بلکہ یہ ایک گہرا تاریخی پیغام تھا۔ ایک مسلم خانزادہ راجپوت نے ایک ہندو راجپوت اتحاد کے ساتھ مل کر اپنے وطن کا دفاع ایک بیرونی مسلم حملہ آور کے خلاف کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 16ویں صدی میں شناخت کی کئی پرتیں تھیں: حسن خان ایک مسلمان تھے، لیکن وہ ایک راجپوت اور سب سے بڑھ کر میوات کے حکمران بھی تھے۔ ان کی بنیادی وفاداری اپنے وطن اور سیاسی اتحاد سے تھی، نہ کہ کسی عالمگیر اسلامی شناخت سے۔ بابر شمالی ہندوستان کے قائم شدہ سیاسی نظام کے لیے ایک بیرونی خطرہ تھا، جس کا میوات اور میواڑ دونوں حصہ تھے۔ یہ تاریخی واقعہ جدید فرقہ وارانہ تاریخ نویسی کے برخلاف ایک مضبوط بیانیہ پیش کرتا ہے اور میو شناخت کا ایک اہم ستون بن گیا ہے، جسے 20ویں صدی میں بھی ہندوستانی سرزمین سے اپنی گہری وابستگی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا 16۔

3.2 مغل صوبے میں زندگی: میوات میں انتظامیہ، ثقافت اور معیشت

جنگِ خانوا کے بعد، میوات کو فتح کر کے مغلیہ سلطنت میں ضم کر دیا گیا 11۔ خانزادوں کو مغل اشرافیہ میں شامل کر لیا گیا، جس سے ان کی شاہی حیثیت تو ختم ہو گئی لیکن وہ زمینداروں کے طور پر بااثر رہے 11۔

مغل انتظامیہ نے حکومت، زمینی محصولات کے نظام اور تجارت میں تبدیلیاں کیں، جس سے میوات وسیع تر شاہی معیشت کا حصہ بن گیا 15۔ یہ خطہ اپنی نقد آور فصلوں جیسے نیل اور کپاس کی وجہ سے معاشی طور پر بہت اہم تھا 8۔ اس دور میں میوؤں کی منفرد ثقافت، جو ہندو اور اسلامی عناصر کا امتزاج تھی، جاری رہی، کیونکہ نسبتاً تکثیری مغل ریاست نے اسے مٹانے کی کوئی فعال کوشش نہیں کی 18۔

حصہ چہارم: برطانوی راج، بغاوت، اور سماجی تبدیلی (19ویں اور 20ویں صدی)

اس حصے میں ایک نئی سامراجی طاقت کے تحت میوؤں کے تجربات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح ان کی تاریخی مزاحمتی خصوصیت کو انگریزوں اور ان کی حامی شاہی ریاستوں کے خلاف استعمال کیا گیا، اور کس طرح ان کی منفرد شناخت ہندو اور مسلم اصلاحی تحریکوں کے درمیان ایک متنازعہ موضوع بن گئی۔

4.1 عظیم بغاوت: 1857 کی جنگِ آزادی میں میو برادری کا کردار

میو برادری نے 1857 میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت میں ایک اہم اور فعال کردار ادا کیا 16۔ اس جدوجہد میں ہزاروں میوؤں نے اپنی جانیں قربان کیں؛ اندازے کے مطابق یہ تعداد 6,000 سے 10,000 تک ہے 19۔ انہوں نے تین محاذوں پر جنگ لڑی: انگریزوں کے خلاف، انگریزوں کے وفاداروں (جن میں کچھ مقامی خانزادے اور راجپوت شامل تھے) کے خلاف، اور الور و بھرت پور کی شاہی ریاستوں کی فوجوں کے خلاف 20۔

انہوں نے ایک عرصے تک میوات کے ہریانہ والے حصے سے برطانوی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور گڑگاؤں کے اسسٹنٹ کلکٹر کلفورڈ جیسے برطانوی افسران کو ہلاک کیا 19۔ اس بغاوت کے نتیجے میں، انگریزوں نے 1857 کے بعد میوؤں کی زمینوں کے بڑے حصے ضبط کر لیے، کیونکہ وہ انہیں ایک باغی اور نظام مخالف قوت سمجھتے تھے 19۔

4.2 کسانوں کی بغاوتیں: الور اور بھرت پور کی شاہی ریاستوں سے تصادم

1930 کی دہائی کے اوائل میں، ریاست الور کے میوؤں نے مقامی مہاراجہ کی طرف سے زمینی محصولات اور دیگر ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف ایک بڑی بغاوت کی قیادت کی 17۔ یہ جدوجہد ابتدائی طور پر ایک معاشی تحریک تھی لیکن بعد میں اس میں ثقافتی اور مذہبی مسائل بھی شامل ہو گئے 17۔ یہ بغاوت اتنی شدید تھی کہ ریاستی فوجیں اسے دبانے میں ناکام رہیں، جس کی وجہ سے انہیں مراعات دینے پر مجبور ہونا پڑا۔

اس تحریک نے میو برادری کو ان کا پہلا جدید عوامی رہنما، چوہدری محمد یاسین خان، فراہم کیا 16۔ الور کے مہاراجہ نے اس تحریک کو ایک فرقہ وارانہ (مسلمان بمقابلہ ہندو ریاست) رنگ دینے کی کوشش کی، لیکن یہ کوشش ناکام رہی کیونکہ یہ بنیادی طور پر ایک زرعی مسئلہ تھا 19۔ تاہم، بعض برطانوی حکام پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے ہندو حکمرانوں کو کمزور کرنے کے لیے میوؤں کو اکسایا تھا 17۔

4.3 ایک متنازعہ شناخت: مشترکہ روایات، آریہ سماج، اور تبلیغی جماعت کا عروج

اپنی پوری تاریخ میں، میوؤں نے ایک “حدّی شناخت” برقرار رکھی، جس میں اسلامی عقائد کے ساتھ ہندو ثقافتی روایات کا گہرا امتزاج تھا 6۔ اس میں اپنے قبیلے سے باہر شادی کرنا (گوتر کے اندر شادی نہ کرنا)، ہندو ناموں کا استعمال، اور مقامی تہواروں میں شرکت شامل تھی 16۔ 1871 کی مردم شماری میں تو انہیں ہندو کے طور پر درج کیا گیا تھا 19۔

20ویں صدی کے اوائل میں، یہ مشترکہ شناخت دباؤ کا شکار ہو گئی۔ آریہ سماج، ایک ہندو اصلاحی تحریک، نے مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لیے “شُدھی” (پاکیزگی) اور “سنگٹھن” (استحکام) کی تحریکیں شروع کیں، اور انہیں میوؤں کے درمیان کافی کامیابی حاصل ہوئی 1۔

اسلامی عقائد کی تبلیغ اور مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی ترغیب دینے والی عالمی تحریک، تبلیغی جماعت، کی بنیاد 1927 میں میوات میں رکھی گئی 10۔ اس کا قیام اس مخصوص علاقے اور وقت میں کوئی اتفاق نہیں تھا۔ میو برادری کی اسلامی تعلیمات سے نسبتاً کم وابستگی اور ان کی مضبوط مشترکہ روایات نے انہیں آریہ سماج کی “شُدھی” تحریک کا ایک آسان ہدف بنا دیا تھا 1۔ اس نے برادری کی مسلم شناخت کے لیے ایک وجودی خطرہ پیدا کر دیا۔ مولانا الیاس کاندھلوی جیسے مسلم رہنماؤں نے “شُدھی” مہم کا مقابلہ کرنے اور میوؤں کی اندرونی اصلاح کے لیے ایک نچلی سطح کی اسلامی تعلیمی تحریک کی ضرورت محسوس کی 1۔ لہٰذا، تبلیغی جماعت کا قیام 20ویں صدی کے اوائل کی مسابقتی مذہبی سیاست کا براہ راست اور دفاعی ردعمل تھا۔ اس کا مقصد میو شناخت کے اسلامی جزو کو مضبوط بنانا تھا تاکہ وہ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ ایک اہم موڑ تھا، کیونکہ جس “حدّی” یا درمیانی جگہ پر میو صدیوں سے قائم تھے، وہ ایک تیزی سے منقسم ہوتے ہندوستان میں ناقابل عمل ہوتی جا رہی تھی۔

حصہ پنجم: تقسیم کا سانحہ اور اس کے بعد کے حالات (1947 سے آگے)

یہ آخری حصہ جدید میو تاریخ کے سب سے المناک واقعے کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں ان پر ہونے والے منظم تشدد، ان کی تقریباً ہجرت، اور اس اہم مداخلت کی تفصیلات ہیں جس نے انہیں ہندوستان میں رہنے کا موقع فراہم کیا، اگرچہ ایک بنیادی طور پر تبدیل شدہ حیثیت کے ساتھ۔

5.1 میوات کی “صفائی”: الور اور بھرت پور میں ریاستی سرپرستی میں تشدد

1947 میں تقسیمِ ہند کے دوران، الور اور بھرت پور کی شاہی ریاستوں میں میو برادری کو منظم اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جسے شیل مایارام اور ایان کوپلینڈ جیسے اسکالرز نے “نسلی صفائی” (ethnic cleansing) قرار دیا ہے 23۔

الور اور بھرت پور کے حکمران، جن کے ہندو قوم پرست تنظیموں سے روابط تھے، نے اپنی ریاستی فوجوں اور نجی ملیشیاؤں کو میو دیہاتوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا 23۔ اس کا بیان کردہ مقصد “ریاست کو مسلمانوں سے پاک کرنا” اور آنے والے ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کے لیے زمین خالی کروانا تھا 26۔ یہ تشدد انتہائی شدید تھا، جس میں بڑے پیمانے پر قتل عام (صرف بھرت پور میں 30,000 ہلاکتوں کا تخمینہ)، جبری تبدیلیِ مذہب (جہاں میوؤں کے سر منڈوا کر انہیں سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا)، خواتین کا اغوا، اور دیہاتوں کو نذرِ آتش کرنا شامل تھا 23۔

یہ کوئی اچانک بھڑکنے والے فسادات نہیں تھے، بلکہ ایک منصوبہ بند آپریشن تھا۔ الور کے ایک سابق فوجی افسر نے بتایا، “یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ریاست کو مسلمانوں سے پاک کیا جائے۔ احکامات سردار پٹیل کی طرف سے آئے تھے… نواکھلی اور پنجاب میں ہندوؤں کے قتل کا بدلہ لینا تھا۔” 26۔ یہ گواہی، اگرچہ متنازعہ ہے، اعلیٰ سطح پر سرکاری منظوری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

5.2 ایک تقدیر ساز فیصلہ: مہاتما گاندھی کی مداخلت اور ہندوستان میں رہنے کا انتخاب

اس تشدد کے نتیجے میں لاکھوں میو بے گھر ہو گئے۔ بہت سے پاکستان ہجرت کر گئے، جبکہ ایک بڑی تعداد گڑگاؤں کے پناہ گزین کیمپوں میں جمع ہو گئی، جن کا ارادہ بھی ہجرت کا تھا 27۔ میو رہنما چوہدری یاسین خان نے مہاتما گاندھی سے مدد کی اپیل کی 16۔

19 دسمبر 1947 کو، گاندھی جی میوات کے گاؤں گھیسرا تشریف لائے اور میو پناہ گزینوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے ان پر ہونے والے تشدد کی مذمت کی اور ان سے ہندوستان نہ چھوڑنے کی التجا کرتے ہوئے کہا، “ہندوستان آپ کا ہے اور آپ ہندوستان کے ہیں۔” 26۔ گاندھی جی کی ذاتی اپیل کامیاب رہی۔ میو برادری کے ایک بڑے حصے، جس کا تخمینہ نصف لگایا جاتا ہے، نے پاکستان ہجرت کرنے کے بجائے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا 16۔

5.3 تقسیم کے زخم: بے گھری، آبادکاری، اور ایک ‘اقلیت’ کی تشکیل

تقسیم نے میو برادری کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر گہرے زخم دیے۔ ایک بڑی تعداد پاکستان ہجرت کر گئی، جہاں وہ لاہور، قصور اور کراچی جیسے اضلاع میں آباد ہوئے، لیکن وہاں اکثر اپنی منفرد ثقافتی شناخت کھو کر وسیع تر مسلم آبادی میں ضم ہو گئے 7۔

جو لوگ ہندوستان میں رہ گئے، انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی زمینیں ضبط کر کے پناہ گزینوں کو الاٹ کر دی گئی تھیں 23۔ ان کی دوبارہ آبادکاری کا عمل بیوروکریٹک تعصب اور امتیازی سلوک سے بھرا ہوا تھا 24۔

1947 کے واقعات نے ریاست اور ہندوستانی معاشرے کے ساتھ میو برادری کے تعلقات کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ ان کی تاریخی “درمیانی” حیثیت اب قابل عمل نہیں رہی تھی۔ تقسیم کے تشدد نے انہیں خاص طور پر مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا۔ ان کا راجپوت ورثہ اور مشترکہ روایات انہیں کوئی تحفظ فراہم نہ کر سکیں۔ تقسیم کی دو ٹوک منطق میں، وہ صرف “دوسرے” تھے۔ گاندھی جی کی مداخلت نے، اگرچہ انہیں مکمل ہجرت سے بچا لیا، لیکن ان کی نئی حیثیت کو بھی رسمی بنا دیا۔ ان سے ایک ہندو اکثریتی ہندوستان میں مسلمان کے طور پر رہنے کی التجا کر کے، ریاست نے انہیں واضح طور پر ایک ‘اقلیتی’ برادری کے طور پر تسلیم کر لیا، جن کی حفاظت اور حقوق اب ریاستی تحفظ اور سیکولر خیر سگالی پر منحصر تھے، نہ کہ اس سرزمین کے مقامی باشندے ہونے کی وجہ سے ان کا فطری حق۔ یہ اس عمل کا اختتام تھا جو تبلیغی جماعت کے عروج سے شروع ہوا تھا۔ وہ اب ہندوستان کا حصہ تھے، لیکن ایک واضح طور پر متعین مسلم اقلیت کے طور پر، ایک ایسی حیثیت جو 20ویں صدی اور اس کے بعد ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی مستقبل کی تشکیل کرتی۔

نتیجہ: ورثہ، مزاحمت اور لچک

میو برادری کی تاریخی داستان لچک اور استقامت کی ایک طاقتور کہانی ہے۔ اپنے قدیم راجپوت ورثے سے لے کر دہلی سلطنت کے خلاف صدیوں کی جدوجہد، مغلوں کے سامنے ان کی مزاحمت، انگریزوں کے خلاف بغاوت، اور تقسیم کے دوران ہونے والے نسل کشی جیسے تشدد سے بچ نکلنے تک، انہوں نے ہمیشہ اپنی شرائط پر اپنے وجود کا حق منوایا ہے۔ ان کی تاریخ آزادی کے شدید جذبے اور ایک پیچیدہ، ارتقا پذیر شناخت سے عبارت ہے جس نے ہمیشہ آسان درجہ بندیوں کو مسترد کیا ہے۔ اس جائزے نے ان کے سفر کا زمانی احاطہ کیا ہے، اور یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح شدید تنازعات اور ظلم و ستم کے ادوار نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک منفرد اور لازوال ورثہ تخلیق کیا ہے۔

Works cited

  1. Mewat – Wikiquote, accessed on October 6, 2025, https://en.wikiquote.org/wiki/Mewat
  2. Mewat – Wikipedia, accessed on October 6, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mewat
  3. THE MEOS OF RAJASTHAN AND HARYANA – ISLAMICISED HINDUS OR HINDUISED MUSLIMS?, accessed on October 6, 2025, https://www.trad-culture.ru/en/article/meos-rajasthan-and-haryana-islamicised-hindus-or-hinduised-muslims
  4. Meo – Background – FamilyTreeDNA, accessed on October 6, 2025, https://www.familytreedna.com/groups/meo/about/background
  5. میوات – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed on October 6, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA
  6. Resisting Regimes – Wikipedia, accessed on October 6, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Resisting_Regimes
  7. زمرہ:میو راجپوت – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on October 6, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B2%D9%85%D8%B1%DB%81:%D9%85%DB%8C%D9%88_%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%BE%D9%88%D8%AA
  8. MEWATIS UNDER THE MAMLUK DYNASTY Pankaj … – Aarhat, accessed on October 6, 2025, https://www.aarhat.com/download-article/533/
  9. The Role of Balban in the Subjugation and Administration of Mewat: A Study of Power Dynamics and Governance in the Delhi Sultanate – ijrpr, accessed on October 6, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE12/IJRPR20333.pdf
  10. Mewat – A Region of Mixed Identities and Communal Tensions | Arjun Kumar, accessed on October 6, 2025, https://www.newageislam.com/interfaith-dialogue/arjun-kumar/mewat-region-mixed-identities-communal-tensions/d/132861
  11. میوات کے خانزادہ – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on October 6, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA_%DA%A9%DB%92_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81
  12. Khanzadas of Mewat – Wikipedia, accessed on October 6, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Khanzadas_of_Mewat
  13. en.wikipedia.org, accessed on October 6, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Hasan_Khan_Mewati
  14. Hasan Khan Mewati – Wikiwand, accessed on October 6, 2025, https://www.wikiwand.com/en/map/Hasan_Khan_Mewati
  15. A Study of Babur’s Account of Mewat Region in his Memoir … – ijrpr, accessed on October 6, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE12/IJRPR20334.pdf
  16. For centuries Meo Muslims were on good terms with the Hindus – CounterPoint, accessed on October 6, 2025, https://counterpoint.lk/centuries-meo-muslims-good-terms-hindus/
  17. The Unique History of the Meo Tribes of Mewat – JSTOR Daily, accessed on October 6, 2025, https://daily.jstor.org/the-unique-history-of-the-meo-tribes-of-mewat/
  18. مغلیہ دورمیں برصغیرکی ترقی-غیر مسلم مورخین کےبیانات کےروشنی میں, accessed on October 6, 2025, https://ilhaad.com/history/tareekh-e-hindustan/india-progress-in-muslim-period/
  19. What you should know about the Meo Muslims of Mewat, accessed on October 6, 2025, https://www.hindustantimes.com/static/Meo-Muslims-of-Mewat/
  20. ignited.in, accessed on October 6, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/3850/7494/18734#:~:text=The%20brave%20Mewatis%20fought%20and,under%20Alwar%20and%20Bharatpur%20States.
  21. میوات کے لوگوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگنے کا حق کس کو ہے؟ – Qaumi Awaz, accessed on October 6, 2025, https://www.qaumiawaz.com/national/independence-day-special-who-has-the-right-to-ask-for-the-certificate-of-nationalism-from-people-of-mewat
  22. Participation of Mewati People in the Revolt of 1857 – Ignited Minds Journals, accessed on October 6, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/3850/7494/18734
  23. In the shadow of Partition, state-sanctioned atrocities aimed to wipe out Meo Muslims in Mewat – Scroll.in, accessed on October 6, 2025, https://scroll.in/article/1059050/in-the-shadow-of-partition-state-sanctioned-atrocities-aimed-to-wipe-out-meo-muslims-in-mewat
  24. In the hands of a ‘secular state’: Meos in the aftermath of Partition, 1947–49 – ResearchGate, accessed on October 6, 2025, https://www.researchgate.net/publication/337169371_In_the_hands_of_a_’secular_state’_Meos_in_the_aftermath_of_Partition_1947-49
  25. In the hands of a ‘secular state’: Meos in the aftermath of Partition, 1947-49 – Loughborough University Research Repository, accessed on October 6, 2025, https://repository.lboro.ac.uk/ndownloader/files/16706471/1
  26. Muslims of Mewat: An untold history of Blood & Betrayal – Foej Media, accessed on October 6, 2025, https://foej.in/muslims-of-mewat-an-untold-history-of-blood-betrayal/
  27. In the hands of a ‘Secular State’: Meos in the aftermath of Partition, 1947-49 Rakesh Ankit Loughborough University Abstract – CORE, accessed on October 6, 2025, https://core.ac.uk/download/pdf/288352282.pdf
  28. صارف:Hakeem qari M younas shahid – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on October 6, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D8%A7%D8%B1%D9%81:Hakeem_qari_M_younas_shahid
  29. Bureaucracy, community, and land: The resettlement of Meos in Mewat, 1949-50 – Loughborough University Research Repository, accessed on October 6, 2025, https://repository.lboro.ac.uk/ndownloader/files/17091494/1
  30. With Mewat in Flames, Remembering Gandhiji’s Visit to the Region in 1947 – The Wire, accessed on October 6, 2025, https://m.thewire.in/article/communalism/mewat-flames-gandhijis-visit-1947
  31. Bureaucracy, community, and land: The resettlement of Meos in Mewat, 1949-50 – Amazon S3, accessed on October 6, 2025, https://s3-eu-west-1.amazonaws.com/pstorage-loughborough-53465/coversheet/17091494/1/Meos194950.pdf?X-Amz-Algorithm=AWS4-HMAC-SHA256&X-Amz-Credential=AKIAJGXP3DOPNGAZIK6Q/20251002/eu-west-1/s3/aws4_request&X-Amz-Date=20251002T041237Z&X-Amz-Expires=86400&X-Amz-SignedHeaders=host&X-Amz-Signature=d370b16093b67604b76e1d225e928b76ca84d6589886e0c257905e57dd400ae9

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme