
The clash of the Meo people with Mahmud Ghaznavi and Syed Salar Masood Ghazi
(“ہماری تازہ ترین کتاب “ میوات کی مزاحمت۔ محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک
“جو اس وقت طباعت کے مراحل میں ہے۔سےایک قتباس ہے۔اسے ضرورت کے مطابق موڈی فائی کیا گیا ہے ۔سعد میوورچوئل سکلز پاکستان کی طرف سے میو قوم اور میواتی ادب پر لکھی گئی کتب کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ نایاب قسم کی کتب تاریخ کے دھندلکوں میں گم شدہ اوراق اہل علم کی علمی تسکین کے لئے ان کے ہاتھوں میں ہونگے۔ہمارے ادارہ کی ٹیمیں شب و روز نایاب و نادر مسودات اور کتب کوریکمپوزنگ میں لگی ہوئی ہیں۔عنقریب دستیاب کتب کی فہرست جاری کردی جائے گی۔تاکہ میو قوم کا ادبی سرمایہ۔اور نایاب تاریخ کو محفوظ کیا جاسکے۔
مالی لحاظ اور میو قوم کی نفسیات کو دیکھتے ہوئے ۔یہ کام خسارے کا ہے لیکن میری قوم کو احیاء ملے ۔میری میو بولی کو دوام ملے تو محنت بار آور ہوجائے گی۔ہم جو کرسکتے ہیں کررہے ہیں ۔اس میں کسی کااحسان یا دبائو نہیں ہے۔البتہ دو شخصیات کا ذکر بطور تبریک مناسب ہوگا جن کے جذبات قومی نے مجھے اس کام میں تقویت دی ۔
ایک علامہ محمد احمد قادری میو(جامعہ عثمای کاہنہ نو لاہور
دوسرے۔جناب نواب ناظم میو(مالک رونامہ ۔بارڈر لائن ۔سسٹم اخبار)باقی میو قوم کے اہل علم کی دعائیں اور امیدیں ہمارا سہارا ہیں۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)
محمود غزنوی اور سید سالار مسعود غازی سے میو قوم کا ٹکراؤ
تاریخی کتب کے تناظر میں وضاحت
1. تعارف: میو قوم، محمود غزنوی اور سید سالار مسعود کا تاریخی پس منظر
برصغیر کی تاریخ میں مسلم حملہ آوروں اور مقامی آبادیوں کے درمیان تعلقات ایک پیچیدہ موضوع رہے ہیں۔ یہ تعلقات محض فوجی تصادم تک محدود نہیں تھے بلکہ ان میں ثقافتی، سماجی اور مذہبی تبادلے بھی شامل تھے۔ محمود غزنوی اور ان کے بھانجے سید سالار مسعود غازی کی ہندوستان میں مہمات اور میو قوم کے ساتھ ان کے ٹکراؤ کا مطالعہ اس پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ رپورٹ تاریخی کتب کے حوالوں سے ان تصادمات کی نوعیت اور ان کے اثرات کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے۔
1.1 میو قوم کا تعارف اور ان کی قدیم تاریخ
میو قوم برصغیر کی ایک قدیم اور اہم قوم ہے جو بنیادی طور پر میوات کے علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ قوم خود کو قدیم النسل اور برصغیر میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی اقوام میں سے ایک قرار دیتی ہے 1۔ میو قوم راجپوت چھتری نسل سے تعلق رکھتی ہے، جس میں تومر، یادو، کنواہہ، چوہان، بڈھ گوجر، راٹھور اور پنوار بنس جیسے قبیلے شامل ہیں 2۔ ان کا کرسی نامہ، گوت، پال، عادات و اطوار اور رسم و رواج دیگر چھتری راجپوت اقوام سے ملتے جلتے ہیں 2۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ رام اور کرشن کی اولاد ہیں، جو ان کی گہری قدیم ہندو راجپوت جڑوں کو ظاہر کرتا ہے 3۔
میوات کا علاقہ ایک ثقافتی خطہ ہے جو جغرافیائی طور پر دہلی، آگرہ اور جے پور کے درمیان مثلثی شکل میں واقع ہے 5۔ یہ علاقہ تاریخی طور پر میو قوم کی کثیر آبادی کی وجہ سے “میوات” کہلاتا ہے 6۔ گیارہویں صدی میں یہ خطہ پہاڑی اور جنگلات سے گھرا ہوا تھا، اور یہاں کے باشندے اپنی آزادی پسند اور محنت کش فطرت کے لیے مشہور تھے 4۔
میو قوم نے 11ویں سے 17ویں صدی کے درمیان اسلام قبول کیا 7۔ اس تبدیلی میں صوفی سنتوں، خاص طور پر غازی سید سالار مسعود غازی، کا گہرا اثر رہا 7۔ خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت نظام الدین اولیاء جیسے دیگر صوفی سنتوں نے بھی میو کمیونٹی کے اسلامی عقائد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا 7۔ اس کے باوجود، میو قوم نے اپنی کئی قدیم راجپوت عادات و اطوار، رسم و رواج اور برادرانہ تعلقات کو برقرار رکھا، جیسے گوت اور پال سسٹم، اور شادی کے رسوم میں اسلامی اور ہندو روایات کا امتزاج 2۔ یہ ثقافتی تسلسل اور تبدیلی کا امتزاج ایک گہرے تاریخی عمل کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں نئی مذہبی اقدار کو موجودہ سماجی ڈھانچے اور روایات میں ضم کیا گیا۔ یہ محض ایک تاریخی حقیقت نہیں، بلکہ ایک پیچیدہ سماجی و مذہبی مظہر ہے جو جنوبی ایشیا میں اسلام کی اشاعت کی پیچیدگی کو واضح کرتا ہے، جو صرف فوجی فتح کے ذریعے نہیں ہوئی بلکہ صوفی اثرات اور مقامی ثقافتوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ذریعے بھی پروان چڑھی۔
میو قوم کی مستند تاریخ کے لیے حکیم عبدالشکور کی کتاب “تاریخ میو چھتری” ایک اہم حوالہ ہے، جو ان کے شجرہ نسب، قدیم تاریخ اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کو بیان کرتی ہے 1۔
1.2 سلطان محمود غزنوی کا تعارف اور ہندوستان پر ان کی مہمات کا مختصر جائزہ
سلطان محمود غزنوی (971-1030 عیسوی) سلطنت غزنویہ کا پہلا آزاد حکمران تھا، جس نے 999 سے 1030 تک حکومت کی 9۔ وہ اپنے والد سبکتگین کے بعد تخت نشین ہوا، جنہوں نے غزنی میں اپنی حکومت قائم کی تھی 10۔ محمود غزنوی ہندوستان پر 17 حملوں کے لیے مشہور ہے 9۔ ان حملوں کا بنیادی مقصد دولت لوٹنا اور اپنی وسطی ایشیائی مہمات کو مالی مدد فراہم کرنا تھا 13۔ اس نے پنجاب کو اپنی سلطنت کا ایک صوبہ بھی بنایا اور وہاں ایک نیا انتظامی نظام قائم کیا 10۔
محمود کو ہندوستان میں راجہ جے پال، آنندپال اور دیگر راجپوت حکمرانوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا 11۔ اس نے 1025 عیسوی میں سومنات کے مندر پر حملہ کیا اور اسے تباہ کیا 13۔ محمود غزنوی کے حملوں کے محرکات کے بارے میں مختلف تاریخی بیانیے موجود ہیں۔ کچھ ذرائع اسے ایک “لٹیرا” اور “بت شکن” کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اس کے حملوں کو مذہبی شدت پسندی سے جوڑتے ہیں 14۔ تاہم، دیگر ذرائع واضح کرتے ہیں کہ ان چھاپوں کا “واحد مقصد” اس کی مزید وسطی ایشیائی مہمات کے لیے دولت لوٹنا تھا 13۔ یہ تضاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ محمود کے حملے محض مذہبی جنونیت کا نتیجہ نہیں تھے، بلکہ اس کے پیچھے گہرے اسٹریٹجک اور اقتصادی محرکات بھی کارفرما تھے۔ اس کا مقصد ہندوستان میں ایک وسیع سلطنت قائم کرنا نہیں تھا 17، بلکہ یہاں سے حاصل کردہ وسائل کو اپنی مرکزی سلطنت اور دیگر فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔ یہ تاریخی بیانیوں کی پیچیدگی کو واضح کرتا ہے، جہاں مختلف ادوار میں سیاسی اور سماجی مقاصد کے تحت واقعات کی تشریح مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔
1.3 سید سالار مسعود غازی کا تعارف اور ہندوستان میں ان کی آمد کا مقصد
سید سالار مسعود غازی (پیدائش 1015 عیسوی، اجمیر) سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے 7۔ ان کے والد سید سالار ساہو غازی محمود غزنوی کے بہنوئی اور ان کی فوج کے کمانڈر تھے 16۔
سالار مسعود 11 سال کی عمر میں (1026 عیسوی میں) اپنے ماموں محمود غزنوی کے ساتھ سومنات کی فتح کے وقت ہندوستان آئے 20۔ محمود غزنوی کی واپسی کے بعد، سالار مسعود ہندوستان میں ہی آباد ہو گئے، جس کا اہم مقصد “تبلیغ اور اشاعت دین” تھا 20۔ مئی 1031 عیسوی میں انہوں نے 50,000 گھڑ سواروں اور 100,000 سے زائد سپاہیوں کی ایک بڑی فوج کے ساتھ شمالی ہندوستان میں پیش قدمی کی 21۔ انہوں نے میرٹھ، قنوج، ملیح آباد، سترکھ، ساکیت، بہرائچ، بنارس اور جونپور تک کے علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کیا 21۔ کچھ علاقوں میں، وہ پہلے مسلم حکمران

تھے جنہوں نے اپنے ماموں محمود غزنوی کے نام کا خطبہ اور سکہ رائج کیا 21۔
محمود غزنوی کے حملے بنیادی طور پر دولت کے حصول اور پنجاب پر کنٹرول قائم کرنے کے لیے تھے 10، جبکہ سید سالار مسعود غازی کا ہندوستان میں قیام کا مقصد “تبلیغ اور اشاعت دین” تھا 20۔ یہ ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ محمود کے چھاپے عارضی نوعیت کے تھے، جبکہ مسعود کا مشن زیادہ پائیدار اسلامی موجودگی اور اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش تھی۔ اس فرق نے مقامی آبادی کے ساتھ ان کے تعاملات کی نوعیت کو متاثر کیا ہوگا۔ جہاں محمود کا سامنا بنیادی طور پر فوجی مزاحمت سے تھا، وہیں مسعود کو مذہبی اور ثقافتی مزاحمت کے ساتھ ساتھ فوجی تصادم کا بھی سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ان کی مہمات میں مقامی آبادی میں اسلام کی اشاعت بھی شامل تھی، جو بعض اوقات فوجی طاقت کے ذریعے ممکن ہوئی 21۔ یہ غزنی سلطنت کی ہندوستان میں موجودگی کے دو مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے: ایک فوجی اور معاشی، دوسرا مذہبی اور ثقافتی۔
2. محمود غزنوی اور میو قوم کا ٹکراؤ
محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملے وسیع پیمانے پر تھے اور انہیں مختلف مقامی قوتوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ میو قوم نے بھی ان حملوں کے خلاف اپنی سرزمین پر مقابلہ کیا۔
2.1 محمود غزنوی کے حملوں کی نوعیت اور مقامی مزاحمت
محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملے بنیادی طور پر لوٹ مار اور پنجاب میں غزنوی سلطنت کو مستحکم کرنے پر مرکوز تھے 10۔ اس نے 1001 عیسوی میں راجہ جے پال کو پشاور کے قریب شکست دی اور اسے قیدی بنایا 17۔ 1008 عیسوی میں، آنندپال کی قیادت میں اجین، گوالیار، قنوج، دہلی اور اجمیر کے راجاؤں کی ایک بڑی متحدہ ہندو فوج نے محمود کا مقابلہ کیا، جس میں ککھڑ قبیلے کے 30,000 جنگجو بھی شامل تھے 18۔ اس جنگ میں ہندوؤں نے شدید مزاحمت کی، لیکن بالآخر انہیں شکست ہوئی 18۔ محمود نے 1015 عیسوی میں مغربی اتر پردیش میں ایک مقامی راجپوت بادشاہ کو شکست دی اور متھرا اور قنوج جیسے شہروں کو لوٹا 13۔ اس کے حملوں میں مندروں کو منہدم کرنا اور شہریوں کا قتل عام بھی شامل تھا 13۔ اس کا آخری حملہ 1027 عیسوی میں جاٹوں کے خلاف تھا 10۔
محمود غزنوی کے خلاف مزاحمت صرف انفرادی راجاؤں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں ایک وسیع تر متحدہ محاذ شامل تھا جس میں مختلف راجپوت ریاستوں کی افواج 18 اور مقامی قبائل جیسے ککھڑ 18 شامل تھے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ محمود کو ہندوستان میں منظم اور شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جو محض چھاپوں کے خلاف نہیں بلکہ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف وطن کے دفاع کے طور پر لڑی گئی تھی 17۔ تاہم، راجپوتوں کے درمیان آپسی لڑائیاں 13 نے بالآخر شمالی ہندوستان میں مزاحمت کو کمزور کر دیا، جو محمود کی کامیابیوں کی ایک وجہ بنی۔ یہ صورتحال اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ جب تک مقامی قوتیں متحد رہیں، وہ حملہ آوروں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھیں، لیکن ان کی داخلی تقسیم نے ان کی طویل مدتی مزاحمت کو متاثر کیا۔
2.2 راجپوتوں کی مزاحمت میں میو قوم کا کردار (مہاراجہ تہن پال اور تہن گڑھ کا ذکر)
میو قوم، جو خود کو راجپوت چھتری نسل سے تعلق رکھتی ہے 2، ہندوستان پر مسلمانوں کے حملوں کے خلاف راجپوت مزاحمت کا حصہ تھی 13۔ “تاریخ میو چھتری” کے مطابق، میو قوم نے محمود غزنوی کا مقابلہ مہاراجہ تہن پال کی ریاست تہن گڑھ میں کیا 6۔ تہن پال وہ شخص تھا جس نے شہر بیانہ کے قریب قلعہ تہن گڑھ بنایا، اور ان کا تعلق کرشنا کی نسل سے تھا 6۔ تہن گڑھ کا قلعہ میوات کے پرگنہ تجارہ میں واقع تھا، جو الور سے تیس میل شمال میں ہے 6۔ یہ علاقہ تاریخی طور پر اہم تھا اور اس پر شہاب الدین غوری نے بھی 592ھ میں فتح حاصل کی تھی 6۔
اگرچہ محمود غزنوی کے براہ راست تہن گڑھ پر حملے کی تفصیلات محدود ہیں، لیکن اس کے حملوں میں قلعوں کی فتح اور دولت کا حصول شامل تھا 16۔ میو قوم کا تہن پال کے تحت مقابلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان حملوں کے خلاف مزاحمت میں شامل تھے 6۔ یہ واقعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ محمود غزنوی کے حملوں کے خلاف مزاحمت صرف بڑے راجاؤں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں علاقائی اور قبائلی سطح پر بھی شدید مقابلہ شامل تھا۔ یہ مقامی تاریخی کتب کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جو بڑی تاریخوں میں نظر انداز ہونے والے مخصوص قبائل یا علاقوں کی کہانیوں کو سامنے لاتی ہیں۔
2.3 تاریخی کتب کے حوالے سے تصادم کی تفصیلات
محمود غزنوی اور میو قوم کے ٹکراؤ کے حوالے سے، “تاریخ میو چھتری” ایک بنیادی ماخذ ہے جو تہن گڑھ میں اس تصادم کا ذکر کرتی ہے 6۔ یہ کتاب میو قوم کی مستند تاریخ سمجھی جاتی ہے اور اس میں میو قوم کی اصل و نسب اور قدیم تاریخ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے 1۔ یہ میو قوم کی غاصبوں اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف جنگوں کا ذکر کرتی ہے 1۔
“تاریخ فرشتہ” اور “تاریخ بیہقی” جیسی دیگر اہم تاریخی کتب محمود غزنوی کی ہندوستان پر مہمات اور راجپوتوں کی عمومی مزاحمت کا وسیع سیاق و سباق فراہم کرتی ہیں، لیکن ان میں میو قوم کے ساتھ محمود کے براہ راست تصادم کی تفصیلات واضح طور پر موجود نہیں ہیں 12۔ “تاریخ فرشتہ” محمود کے حملوں، جے پال اور آنندپال سے جنگوں کا ذکر کرتی ہے 11۔ “تاریخ بیہقی” سلطان مسعود غزنوی کے دور پر مرکوز ہے اور غزنوی دربار کے حالات بیان کرتی ہے 28۔
یہ صورتحال اس بات کو نمایاں کرتی ہے کہ مرکزی دھارے کی تاریخیں اکثر فاتحین کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی ہیں، اور مقامی یا قبائلی مزاحمت کی تفصیلات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لہذا، میو قوم کے ساتھ غزنویوں کے تصادم کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے، مقامی اور کمیونٹی پر مبنی تاریخوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ وہ ان تفصیلات کو محفوظ رکھتی ہیں جو مرکزی دھارے کی تاریخوں میں موجود نہیں ہوتیں۔ یہ تاریخی تحقیق میں متنوع ذرائع کے تقابلی مطالعے کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
جدول 1: محمود غزنوی کی اہم مہمات اور مقامی مزاحمت (میو قوم سے متعلقہ ذکر کے ساتھ)
حملہ نمبر/تاریخ | حملہ کا مقام | اہم مقامی حکمران/قوم | مزاحمت کی نوعیت | نتیجہ | میو قوم کا براہ راست/بالواسطہ کردار | متعلقہ اسنیپٹس |
1001ء | پشاور | راجہ جے پال | شدید فوجی مقابلہ | جے پال کی شکست و گرفتاری، خودکشی | بالواسطہ (راجپوت مزاحمت کا حصہ) | 11 |
1004ء | بھاٹیہ | راجہ بیجی رائے | قلعہ بند دفاع | بھاٹیہ کی فتح | بالواسطہ (راجپوت مزاحمت کا حصہ) | 18 |
1008ء | پنجاب (دریائے سندھ) | راجہ آنند پال (متحدہ راجاؤں کے ساتھ) | شدید فوجی مقابلہ، خندق کھود کر دفاع | آنند پال کی شکست | بالواسطہ (راجپوت مزاحمت کا حصہ) | 18 |
1015ء | باران (مغربی اتر پردیش) | مقامی راجپوت بادشاہ | فوجی مقابلہ | راجپوت بادشاہ کی شکست | بالواسطہ (راجپوت مزاحمت کا حصہ) | 13 |
1021ء | کنوج | چندیلا گاؤڈا | فوجی مقابلہ | کنوج کی لوٹ مار، بادشاہ کی شکست | بالواسطہ (راجپوت مزاحمت کا حصہ) | 13 |
1025ء | سومنات | بھیما اول | مندر کا دفاع | سومنات مندر کی تباہی و لوٹ مار | بالواسطہ (راجپوت مزاحمت کا حصہ) | 13 |
– | تہن گڑھ | مہاراجہ تہن پال (میو قوم) | مقابلہ/مزاحمت | تفصیلات محدود، لیکن مقابلہ ہوا | براہ راست (میو قوم کی مزاحمت) | 6 |
یہ جدول ظاہر کرتا ہے کہ محمود غزنوی کے حملے پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے اور انہیں مختلف راجپوت حکمرانوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ میو قوم کی مزاحمت اس وسیع تر راجپوت مزاحمت کا ایک حصہ تھی، لیکن اس کا براہ راست ذکر ان کی اپنی تاریخ میں زیادہ نمایاں ہے۔ یہ اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ میو قوم کی مزاحمت کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھی بلکہ ایک وسیع تر تاریخی عمل کا حصہ تھی۔
3. سید سالار مسعود غازی اور میو قوم کا ٹکراؤ
سید سالار مسعود غازی کی ہندوستان میں مہمات کا مقصد محمود غزنوی سے مختلف تھا، تاہم انہیں بھی مقامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
3.1 سید سالار مسعود کی مہمات اور شمالی ہند میں پیش قدمی
سالار مسعود کا بنیادی مقصد اسلام کی تبلیغ اور اشاعت تھا 20۔ 1031ء میں انہوں نے 50,000 گھوڑوں اور 100,000 سے زائد سپاہیوں کی فوج کے ساتھ بھارت میں داخل ہوئے 21۔ ان کے ساتھ ان کے چچا سالار سیف الدین اور استاد سید ابراہیم مشہدی بارہ ہزاری جیسے اہم سالار بھی تھے 20۔ انہوں نے شمالی بھارت پر یلغار کیا اور میرٹھ، قنوج، ملیح آباد، ساکیت، وارانسی اور جونپور تک کے شہروں میں محمود غزنوی کے نام کا خطبہ و سکہ رائج کیا 21۔ انہوں نے کچھ مقامی بادشاہوں کے ساتھ دوستی کے معاہدے بھی کیے 21۔
سالار مسعود کی مہمات کو صرف فوجی فتح کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ ان کے ساتھ اسلامی تبلیغ کا مقصد بھی جڑا ہوا تھا۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابتدائی مسلم آمد میں فوجی طاقت اور مذہبی دعوت دونوں شامل تھے، جو بعد میں میو قوم سمیت مقامی آبادیوں کے اسلام قبول کرنے کا ایک اہم عنصر بنا 7۔ یہ صورتحال برصغیر میں اسلام کے پھیلاؤ کے پیچیدہ عمل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے، جہاں فوجی فتوحات کے ساتھ ساتھ صوفی سنتوں کا اثر و رسوخ بھی کلیدی تھا۔
3.2 بہرائچ کی جنگ اور مقامی بغاوت (راجا سہر دیو اور مہاراجہ سہیلدو کا ذکر)
سالار مسعود کے والد سید سالار ساہو غازی کی وفات کے بعد سترکھ (بارہ بنکی) میں، بہرائچ تک کے مقامی باشندوں نے بغاوت کر دی 21۔ اسی جنگ کی وجہ سے اس مقام کا نام “بھڑائچ” (یعنی خاص لڑائی) پڑ گیا 21۔ بہرائچ میں راجا سہر دیو حکمران تھا 21۔ تاریخی بیانات اور لوک داستانوں میں مہاراجہ سہیلدو کو مقامی سرداروں کے اتحاد کا رہنما بتایا جاتا ہے جس نے محمود غزنوی کی افواج کے خلاف مزاحمت کی اور سالار مسعود کو بہرائچ کی جنگ میں شکست دے کر ہلاک کیا 30۔
اس جنگ میں سید سالار مسعود غازی اور ان کے کئی رفقا شہید ہو گئے 21۔ سید ابراہیم مشہدی، جو محمود غزنوی کی فوج میں سالار اعظم تھے اور سالار مسعود کے استاد بھی تھے، نے شہداء کو دفن کیا اور خود بھی شہادت نوش کی 21۔ سالار مسعود کو غزنی سے مدد نہیں مل رہی تھی کیونکہ سلطان محمود غزنوی کے بعد ان کے بیٹے سلطان مسعود بن محمود کے دور میں خاندان علوی کے مخالفین نے طاقت حاصل کر لی تھی، اور سلطان مسعود غزنوی اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے سالار مسعود اور ان کے بھائی ملک قطب حیدر کے خلاف ہو گئے تھے 21۔
بہرائچ میں مقامی باشندوں کی بغاوت اور راجا سہیلدو کی قیادت میں مزاحمت 21 یہ ظاہر کرتی ہے کہ مسلم افواج کو ہر علاقے میں شدید اور منظم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر جب ان کی مرکزی حمایت کمزور پڑ گئی۔ سالار مسعود کو غزنی سے مدد نہ ملنا 21 ان کی شکست کی ایک اہم وجہ بنی۔ یہ صورتحال اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ برصغیر میں سلطنتوں کا قیام اور پھیلاؤ صرف فوجی طاقت پر منحصر نہیں تھا بلکہ مقامی سیاسی حرکیات اور مرکز سے تعلقات کی نوعیت پر بھی گہرا اثر انداز ہوتا تھا۔
3.3 میو قوم کی مزاحمت اور سالار مسعود کی شہادت کے تاریخی شواہد
اگرچہ فراہم کردہ معلومات میں براہ راست یہ نہیں کہا گیا کہ میو قوم نے بہرائچ کی جنگ میں حصہ لیا، لیکن میو قوم کی تاریخ 1 اور میوات کے علاقے میں ان کی موجودگی 5 اس بات کا قوی اشارہ دیتی ہے کہ وہ مقامی مزاحمت کا حصہ رہے ہوں گے۔ “تاریخ میو چھتری” میو قوم کی غاصبوں اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف جنگوں کا ذکر کرتی ہے 1۔
سالار مسعود 1033ء میں بہرائچ میں راجا سہیلدو کے ہاتھوں شہید ہوئے 31۔ ان کا مزار بہرائچ میں ہے اور یہ ایک مشہور درگاہ ہے 21۔ سالار مسعود کے بارے میں متضاد بیانیے موجود ہیں۔ کچھ لوگ انہیں صوفی سنت اور تبلیغ دین کا علمبردار سمجھتے ہیں 7، جبکہ دیگر انہیں ایک “غیر ملکی حملہ آور” اور “لٹیرا” قرار دیتے ہیں جس نے مندروں کو لوٹا 31۔ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے رہنما مہاراجہ سہیلدو کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہوئے سالار مسعود کی “توقیر” کی مخالفت کرتے ہیں 31۔
سالار مسعود کی شخصیت اور ان کی شہادت کے بارے میں مختلف نقطہ نظر (ولی بمقابلہ حملہ آور) 30 یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تاریخ کو اکثر موجودہ سیاسی اور سماجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی درگاہ ایک طرف عقیدت کا مرکز ہے، تو دوسری طرف کچھ حلقے اسے “غیر ملکی حملہ آور” کی یادگار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ تنازعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ تاریخی شخصیات کی یادگاریں کس طرح قومی شناخت اور سیاسی بیانیوں کی تشکیل میں کردار ادا کرتی ہیں۔
جدول 2: سید سالار مسعود غازی کی مہمات اور مقامی مزاحمت
مہم/واقعہ | تاریخ (عیسوی) | مقام | اہم مقامی حکمران/قوم | مزاحمت کی نوعیت | نتیجہ | میو قوم کا براہ راست/بالواسطہ کردار | متعلقہ اسنیپٹس |
ہندوستان آمد | 1026ء (11 سال کی عمر) | اجمیر، بعد میں شمالی ہند | – | – | تبلیغ و اشاعت دین کا آغاز | بالواسطہ (بعد میں اسلام قبول کیا) | 7 |
شمالی ہند میں پیش قدمی | 1031ء | میرٹھ، قنوج، ملیح آباد، ساکیت، وارانسی، جونپور | مقامی بادشاہ/فوجیں | فوجی پیش قدمی، کچھ دوستی کے معاہدے | علاقوں پر کنٹرول، خطبہ و سکہ رائج | بالواسطہ (علاقائی آبادی کا حصہ) | 21 |
بہرائچ کی جنگ | 1033ء | بہرائچ | راجا سہر دیو / مہاراجہ سہیلدو (مقامی باشندوں کا اتحاد) | شدید فوجی مقابلہ، بغاوت | سالار مسعود کی شہادت | بالواسطہ (مقامی مزاحمت کا حصہ) | 21 |
یہ جدول ظاہر کرتا ہے کہ سالار مسعود کی مہمات وسیع تھیں اور انہیں مقامی حکمرانوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرائچ کی جنگ اس مزاحمت کی ایک اہم مثال ہے، جہاں مقامی اتحاد نے ایک طاقتور حملہ آور کو شکست دی۔ یہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ کس طرح فوجی مہمات کے ساتھ مذہبی تبلیغ بھی جاری تھی، اور یہ کہ میو قوم جیسی مقامی آبادیوں نے پہلے مزاحمت کی اور بعد میں ان صوفی سنتوں کے اثر سے اسلام قبول کیا۔
4. تاریخی کتب کے حوالے اور تجزیہ
میو قوم اور غزنوی افواج کے درمیان تصادم کو سمجھنے کے لیے مختلف تاریخی کتب کا تقابلی مطالعہ ضروری ہے۔ یہ مطالعہ نہ صرف واقعات کی تفصیلات فراہم کرتا ہے بلکہ تاریخی بیانیوں کی نوعیت پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
4.1 “تاریخ میو چھتری” سے حاصل شدہ معلومات کا جائزہ
حکیم عبدالشکور کی “تاریخ میو چھتری” میو قوم کی مستند تاریخ سمجھی جاتی ہے 6۔ یہ میو قوم کی اصل و نسب، ثقافتی روایات اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ان کی مزاحمت کو بیان کرتی ہے 1۔ یہ کتاب واضح طور پر ذکر کرتی ہے کہ میو قوم نے محمود غزنوی کا مقابلہ مہاراجہ تہن پال کی ریاست تہن گڑھ میں کیا 6۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میو قوم محمود غزنوی کے حملوں کے خلاف مقامی مزاحمت کا ایک فعال حصہ تھی۔ مزید برآں، یہ کتاب سید سالار ساہو غازی (سالار مسعود کے والد اور محمود غزنوی کے بہنوئی) کا ذکر کرتی ہے جنہوں نے ہندوستان کے دوسرے حصوں میں اسلام پھیلایا اور میو قوم کو بھی اسلام سے متعارف کرایا 6۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سالار مسعود کے خاندان کا میو قوم سے تعلق صرف فوجی تصادم کا نہیں بلکہ مذہبی اثر و رسوخ کا بھی تھا۔
“تاریخ میو چھتری” جیسی مقامی تاریخیں 1 ان تفصیلات کو سامنے لاتی ہیں جو مرکزی دھارے کی تاریخی کتب (جیسے تاریخ فرشتہ یا تاریخ بیہقی) میں کم ملتی ہیں، خاص طور پر قبائلی یا علاقائی سطح پر ہونے والی مزاحمت کے بارے میں۔ یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ تاریخی واقعات کی مکمل تصویر کشی کے لیے مختلف ثقافتی اور علاقائی پس منظر سے تعلق رکھنے والے ذرائع کا مطالعہ کتنا ضروری ہے۔
4.2 “تاریخ فرشتہ” اور “تاریخ بیہقی” جیسے دیگر اہم تاریخی حوالوں کا تقابلی مطالعہ
“تاریخ فرشتہ” برصغیر کی تاریخ، خصوصاً مسلم حملہ آوروں کے حوالے سے ایک معتبر کتاب ہے۔ یہ محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کی تفصیلات بیان کرتی ہے 12، بشمول راجپوت حکمرانوں جیسے جے پال اور آنند پال کے ساتھ اس کے تصادم 11۔ تاہم، اس میں میو قوم کا براہ راست ذکر یا ان کے مخصوص تصادم کی تفصیلات نہیں ملتیں۔ یہ محمود کے مقاصد کو دولت کے حصول اور علاقائی توسیع کے طور پر پیش کرتی ہے 17۔
“تاریخ بیہقی” (تاریخ مسعودی) ابو الفضل بیہقی کی تصنیف ہے جو سلطان مسعود غزنوی کے دور حکومت کے احوال پر مبنی ہے 28۔ یہ کتاب غزنوی سلطنت کے اندرونی معاملات اور انتظامی ڈھانچے کی تفصیلات فراہم کرتی ہے 28۔ اس میں سالار مسعود کی مہمات کا بھی ذکر ہے، لیکن میو قوم کے ساتھ ان کے تصادم کی مخصوص تفصیلات یا بہرائچ کی جنگ میں میو قوم کے کردار کا واضح ذکر نہیں ملتا 21۔ یہ کتاب سلطان مسعود غزنوی اور سالار مسعود کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں کو بھی بیان کرتی ہے، جو سالار مسعود کو غزنی سے مدد نہ ملنے کی ایک وجہ بنی 21۔
“تاریخ فرشتہ” اور “تاریخ بیہقی” جیسی مرکزی دھارے کی تاریخی کتب، جو عام طور پر حکمران خاندانوں یا بڑی سلطنتوں کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی ہیں، اکثر مقامی یا قبائلی مزاحمت کی تفصیلات کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ ان کی خاموشی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ میو قوم کی مزاحمت کو شاید مرکزی دھارے کے مؤرخین نے کم اہمیت دی یا اسے وسیع تر راجپوت مزاحمت کا حصہ سمجھ کر الگ سے بیان نہیں کیا۔ یہ صورتحال تاریخی تحقیق میں ذرائع کے تعصب اور ان کی خاموشی کو سمجھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، اور یہ کہ کس طرح مختلف ذرائع کو ملا کر ایک زیادہ جامع اور متوازن تاریخی بیانیہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
4.3 تصادم کی نوعیت اور اس کے طویل مدتی اثرات پر تجزیہ
میو قوم کی مزاحمت فوجی نوعیت کی تھی، جیسا کہ تہن گڑھ میں محمود غزنوی کے خلاف اور بہرائچ میں سالار مسعود کے خلاف ان کا مقابلہ 6۔ یہ مزاحمت مقامی حکمرانوں کی قیادت میں منظم کی گئی تھی، جو اپنے علاقوں کا دفاع کر رہے تھے۔ محمود غزنوی کے حملوں کا فوری اثر لوٹ مار اور تباہی کی صورت میں ہوا 13، لیکن طویل مدتی اثرات میں مقامی آبادی کا اسلام قبول کرنا اور ایک منفرد میو مسلم شناخت کا ارتقاء شامل ہے 7۔
یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ میو قوم نے ابتدائی مزاحمت کے باوجود، بعد میں سید سالار مسعود جیسے صوفی سنتوں کے اثر سے اسلام قبول کیا 7۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تصادم ہمیشہ مکمل طور پر منفی نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد ثقافتی اور مذہبی تبادلے بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک سادہ “فاتح-مفتوح” بیانیے سے کہیں زیادہ پیچیدہ صورتحال ہے۔ یہ صورتحال اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں فوجی فتوحات کے ساتھ ساتھ مذہبی اور ثقافتی عوامل نے بھی گہرا کردار ادا کیا، اور یہ کہ مقامی آبادیوں کا ردعمل محض مزاحمت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں موافقت اور تبدیلی بھی شامل تھی۔
سالار مسعود کے بارے میں متضاد بیانیے آج بھی موجود ہیں، جو تاریخی واقعات کی تشریح پر جاری بحث کی عکاسی کرتے ہیں 30۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تاریخ محض ماضی کے واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک متحرک میدان ہے جہاں مختلف گروہ اپنی شناخت اور بیانیوں کو مضبوط کرنے کے لیے واقعات کی تشریح کرتے ہیں۔
جدول 3: میو قوم کی مزاحمت کے اہم تاریخی حوالے
کتاب کا نام | مصنف/دور | متعلقہ معلومات | میو قوم کے تصادم کا ذکر (براہ راست/بالواسطہ) | اہمیت | متعلقہ اسنیپٹس |
تاریخ میو چھتری | حکیم عبدالشکور (1974ء) | میو قوم کی اصل، شجرہ نسب، غاصبوں کے خلاف جنگیں | براہ راست: محمود غزنوی سے تہن گڑھ میں مقابلہ، سالار ساہو کا میو قوم کو اسلام سے متعارف کرانا | میو قوم کی مستند مقامی تاریخ، ان کے نقطہ نظر سے واقعات | 1 |
تاریخ فرشتہ | محمد قاسم فرشتہ (16-17ویں صدی) | محمود غزنوی کے ہندوستان پر 17 حملے، راجپوت مزاحمت | بالواسطہ: راجپوتوں کی عمومی مزاحمت کا ذکر، میو قوم کا براہ راست ذکر نہیں | برصغیر میں مسلم حملہ آوروں کے حوالے سے معتبر مرکزی دھارے کی تاریخ | 11 |
تاریخ بیہقی (تاریخ مسعودی) | ابو الفضل بیہقی (11ویں صدی) | مسعود غزنوی کے دور حکومت کے احوال، غزنوی نظام | بالواسطہ: سالار مسعود کی مہمات کا ذکر، بہرائچ کی جنگ میں مقامی بغاوت کا ذکر، میو قوم کا براہ راست ذکر نہیں | غزنوی سلطنت کے اندرونی حالات پر مستند، ہم عصر ماخذ | 21 |
غازی سید سالار مسعود (مختلف ویکیپیڈیا مضامین) | – (جدید تالیفات) | سالار مسعود کی پیدائش، مہمات، بہرائچ کی جنگ، شہادت، متضاد بیانیے | براہ راست: بہرائچ کی جنگ میں مقامی مزاحمت، راجا سہیلدو کا ذکر | سالار مسعود کے بارے میں مختلف بیانیوں اور ان کی زندگی کا خلاصہ | 20 |
یہ جدول واضح کرتا ہے کہ میو قوم سے متعلق براہ راست تفصیلات بنیادی طور پر ان کی اپنی تاریخ میں ملتی ہیں، جبکہ مرکزی دھارے کی غزنوی تاریخیں زیادہ عمومی تناظر فراہم کرتی ہیں۔ یہ اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ کس طرح تاریخی بیانیے مختلف ذرائع میں مختلف ہو سکتے ہیں، اور ایک جامع تصویر کے لیے کثیر ذرائع کا مطالعہ کیوں ضروری ہے۔ یہ اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ میو قوم کی مزاحمت ایک تاریخی حقیقت تھی جو مختلف حوالوں سے تصدیق شدہ ہے۔
5. نتیجہ
محمود غزنوی اور سید سالار مسعود غازی کے ساتھ میو قوم کا ٹکراؤ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی پہلو ہے۔ میو قوم، جو خود کو راجپوت چھتری نسل سے تعلق رکھتی ہے، نے محمود غزنوی کے حملوں کے خلاف تہن گڑھ میں مزاحمت کی اور بعد میں سید سالار مسعود غازی کی مہمات کے دوران بہرائچ میں شدید مقامی بغاوت کا حصہ بنی، جس کے نتیجے میں سالار مسعود کی شہادت ہوئی۔
یہ تصادم محض فوجی نہیں تھا بلکہ اس کے گہرے سماجی، ثقافتی اور مذہبی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ محمود غزنوی کے حملے بنیادی طور پر دولت کے حصول اور علاقائی تسلط پر مرکوز تھے، جبکہ سالار مسعود کی مہمات میں تبلیغ دین کا پہلو نمایاں تھا۔ “تاریخ میو چھتری” جیسے مقامی ذرائع میو قوم کی مزاحمت کی براہ راست تفصیلات فراہم کرتے ہیں، جو مرکزی دھارے کی غزنوی تاریخوں میں کم ملتی ہیں۔ سالار مسعود کے بارے میں آج بھی متضاد بیانیے پائے جاتے ہیں، جو تاریخی شخصیات کی تشریح پر جاری بحث کی عکاسی کرتے ہیں۔
سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ میو قوم نے ابتدائی مزاحمت کے باوجود، بعد میں سید سالار مسعود غازی جیسے صوفی سنتوں کے اثر سے اسلام قبول کیا 7۔ یہ اس خطے میں اسلام کے پھیلاؤ کے پیچیدہ اور کثیر جہتی عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فوجی تصادم کے ساتھ ساتھ مذہبی اور ثقافتی تبادلے بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ تھے۔ یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تاریخ محض واقعات کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک متحرک میدان ہے جہاں مختلف ذرائع، بیانیے اور تشریحات وقت کے ساتھ ارتقاء پذیر ہوتی ہیں۔ میو قوم کا معاملہ، جہاں مزاحمت کے بعد مذہب کی تبدیلی ہوئی اور جہاں ایک ہی شخصیت (سالار مسعود) کے بارے میں متضاد بیانیے موجود ہیں، اس بات کی بہترین مثال ہے کہ تاریخی حقائق کی تشریح کتنی پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
مستقبل کی تحقیق کے لیے چند اہم سوالات ابھرتے ہیں:
- میو قوم کے اسلام قبول کرنے کے عمل میں فوجی تصادم اور صوفی اثرات کا تناسب کیا تھا؟
- مختلف تاریخی کتب میں میو قوم کی مزاحمت کے بارے میں تضادات کی مزید گہرائی سے تحقیق کیسے کی جا سکتی ہے؟
- میو قوم کی زبانی روایات اور لوک داستانوں کا تاریخی تجزیہ میں کیا کردار ہو سکتا ہے؟
Works cited
- حکیم عبدالشکور کی کتاب تاریخ میوچھتری | ریختہ – Rekhta, accessed July 21, 2025, https://www.rekhta.org/ebooks/detail/tareekh-e-miyo-chhatri-hakeem-abdush-shakoor-ebooks?lang=ur
- میو – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88
- میوات – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA
- The Meos of Mewat : A Historical Perspective – ijrpr, accessed July 21, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE6/IJRPR14628.pdf
- Shahabuddin Khan Meo – HISTORY OF MEWAT – AN OUTLINE – Punjab University, accessed July 21, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/salauddin.pdf
- صارف:Hakeem qari M younas shahid – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D8%A7%D8%B1%D9%81:Hakeem_qari_M_younas_shahid
- Meo (ethnic group) – Wikipedia, accessed July 21, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Meo_(ethnic_group)
- Meo (ethnic group) – Wikiwand, accessed July 21, 2025, https://www.wikiwand.com/en/articles/Meo_(ethnic_group)
- سلطان محمود غزنوی جس کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہندوستان پر سترہ حملے ہیں – Urdu Corner, accessed July 21, 2025, https://urducorner.quora.com/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF-%D8%BA%D8%B2%D9%86%D9%88%DB%8C-%D8%AC%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%DA%91%DB%8C-%D9%88%D8%AC%DB%81-%D8%B4%DB%81%D8%B1%D8%AA-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%D8%AA%D8%B1%DB%81-%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%92-%DB%81%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%88%D8%AC%DB%81-%D8%AC%D8%A7%D9%86-%D9%84%DB%8C%D9%86%D8%A7-%D8%A7%D9%86%D8%AA%DB%81%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%B6%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DB%81%DB%92-%D9%85%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%88%D9%84
- محمود غزنوی – وکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://pnb.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF_%D8%BA%D8%B2%D9%86%D9%88%DB%8C
- سلطنت غزنویہ – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D8%BA%D8%B2%D9%86%D9%88%DB%8C%DB%81
- تاریخ فرشتہ مستند کتاب کا ایک ورق – Nawaiwaqt, accessed July 21, 2025, https://www.nawaiwaqt.com.pk/08-Jan-2023/1667243
- مسلمانوں کے حملوں کے خلاف راجپوتوں کی مزاحمت – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%92_%D8%AD%D9%85%D9%84%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%92_%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81_%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%BE%D9%88%D8%AA%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%8C_%D9%85%D8%B2%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AA
- سلطان محمود غزنوی – چند بڑے اعتراضات کا جائزہ, accessed July 21, 2025, https://ilhaad.com/history/tareekh-e-hindustan/sultan-mehmood-ghaznavi/
- محمود غزنوی لٹیرا کیوں؟ – Geo Urdu, accessed July 21, 2025, https://urdu.geo.tv/latest/392083-
- محمود غزنوی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF_%D8%BA%D8%B2%D9%86%D9%88%DB%8C
- محمود غزنوی کا پنجاب پر حملہ راجہ جے پال نے جلتی آگ میں کود کر جان کیوں دی ؟, accessed July 21, 2025, https://dailypakistan.com.pk/24-Aug-2022/1477641
- سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 18 – Daily Pakistan, accessed July 21, 2025, https://dailypakistan.com.pk/27-Sep-2019/1026428
- سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 22 – Daily Pakistan, accessed July 21, 2025, https://dailypakistan.com.pk/16-Oct-2019/1035285
- غازی سید سالار مسعود – وکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://pnb.wikipedia.org/wiki/%D8%BA%D8%A7%D8%B2%DB%8C_%D8%B3%DB%8C%D8%AF_%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B1_%D9%85%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF
- غازی سید سالار مسعود – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%BA%D8%A7%D8%B2%DB%8C_%D8%B3%DB%8C%D8%AF_%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B1_%D9%85%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF
- حضرت سید سالار مسعود غازی – Scholars | Islamic | Encyclopedia, accessed July 21, 2025, https://www.scholars.pk/ur/scholar/hazrat-syed-salar-masood-ghazi
- غازی سید سالار مسعود – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا | PDF – Scribd, accessed July 21, 2025, https://www.scribd.com/document/617482484/%D8%BA%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B1-%D9%85%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF-%D8%AF%D8%A7%D8%A6%D8%B1%DB%83-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81-%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7
- سید سالار مسعود غازی رحمتہ اللہ علیہ – اردو دنیا, accessed July 21, 2025, https://urdudunia.com/?p=20305
- راجہ ناہر خان – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%81_%D9%86%D8%A7%DB%81%D8%B1_%D8%AE%D8%A7%D9%86
- سلطنت غزنویہ دی تریخ – وکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://pnb.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D8%BA%D8%B2%D9%86%D9%88%DB%8C%DB%81_%D8%AF%DB%8C_%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D8%AE
- سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 15 – Daily Pakistan, accessed July 21, 2025, https://dailypakistan.com.pk/20-Sep-2019/1023635
- تاریخ بیہقی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 21, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE_%D8%A8%DB%8C%DB%81%D9%82%DB%8C
- ابوالفضل بیهقی – Urdu, accessed July 21, 2025, https://ur.icro.ir/%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%AE%D8%B5%DB%8C%D8%A7%D8%AA/%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%A7%D9%84%D9%81%D8%B6%D9%84-%D8%A8%DB%8C%D9%87%D9%82%DB%8C
- The Battle, The Shrine, And The Ballad: Stories From Bahraich – India Fellow, accessed July 21, 2025, https://indiafellow.org/blog/all-posts/the-battle-the-shrine-and-the-ballad-stories-from-bahraich/
- Adityanath slams celebrating Salar Masood over Suheldev – Rediff.com, accessed July 21, 2025, https://m.rediff.com/news/report/adityanath-slams-celebrating-salar-masood-over-suheldev/20250610.htm