محمد یاسر سلطان میو، پاکستان کا گمنام جیولن ہیرو

0 comment 75 views

محمد یاسر سلطان  میو ، پاکستان کا گمنام جیولن ہیرو

Advertisements

ایک ایتھلیٹ کی تشکیل: محمد یاسر سلطان کی ابتدائی زندگی اور عروج

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

محمد یاسر سلطان کی کہانی عزم، محنت اور مشکلات پر قابو پانے کی ایک کلاسیکی داستان ہے۔ یکم مئی 1998 کو پیدا ہونے والے یاسر کا تعلق ایک انتہائی متوسط طبقے کے گھرانے سے ہے ۔ ان کے والد، محمد سلطان، پیشے کے لحاظ سے ایک ڈرائیور ہیں جن کی آمدنی محدود ہے ۔ ان کے والد کا یہ بیان، “میں ڈرائیور ہوں”، ان کے خاندان کی معاشی جدوجہد اور قربانیوں کی عکاسی کرتا ہے اور اس پس منظر کو سمجھنا یاسر کے کیریئر میں آنے والی مالی مشکلات کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔  

اس محدود وسائل والے پس منظر کے باوجود، یاسر نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اپنے کوچ فیاض حسین بخاری کی رہنمائی میں، انہوں نے خود کو پاکستان کے دوسرے نمبر کے جیولن تھروور اور دو بار کے قومی چیمپئن کے طور پر منوایا ۔ یہ کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کی صلاحیت عارضی نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔  

ان کا عروج ایک ایسے دور میں ہوا جب پاکستان کے ایک اور جیولن اسٹار، ارشد ندیم، عالمی سطح پر اپنی شناخت بنا رہے تھے۔ یاسر کا ارشد ندیم کے ساتھ ہی ابھرنا ایک ایسی دلچسپ حرکیات کو جنم دیتا ہے جس کا تجزیہ اس رپورٹ کے اگلے حصوں میں کیا جائے گا، جہاں دو ساتھی کھلاڑیوں کی کامیابیوں اور انہیں ملنے والی سہولیات میں فرق واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ یاسر کی کہانی اس بات کی مثال ہے کہ کس طرح کچی صلاحیتیں نامساعد حالات میں بھی پنپ سکتی ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ اس سوال کو بھی جنم دیتی ہے کہ اگر انہیں مناسب وسائل اور حمایت میسر آتی تو وہ کن بلندیوں کو چھو سکتے تھے۔  

بین الاقوامی میدان میں کارکردگی: کیریئر کا ایک تجزیاتی جائزہ

محمد یاسر سلطان محض ایک قومی چیمپئن نہیں ہیں، بلکہ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے طور پر ایک عالمی معیار کے ایتھلیٹ ہیں۔ ان کی کامیابیاں انہیں پاکستان کے بہترین ایتھلیٹس کی صف میں کھڑا کرتی ہیں۔

ان کے کیریئر کا ایک اہم موڑ 2023 میں بنکاک، تھائی لینڈ میں منعقدہ ایشین ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں آیا۔ اس ایونٹ میں انہوں نے 79.93 میٹر کی شاندار تھرو کے ساتھ کانسی کا تمغہ جیتا ۔ یہ کامیابی نہ صرف ان کے کیریئر کا ایک اہم سنگ میل تھی بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک بڑا اعزاز تھی۔ اس تمغے نے انہیں بین الاقوامی سطح پر ایک قابل ذکر ایتھلیٹ کے طور پر متعارف کرایا۔  

اس کے بعد، 2025 میں گومی، جنوبی کوریا میں ہونے والی ایشین ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں ان کی شرکت نے اعلیٰ سطح پر ان کی مستقل موجودگی کو مزید مستحکم کیا۔ انہوں نے 76.07 میٹر کی تھرو کے ساتھ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا ۔ فائنل میں، اگرچہ وہ تمغہ حاصل نہ کر سکے، لیکن انہوں نے 75.50 میٹر کی بہترین تھرو کے ساتھ آٹھویں پوزیشن حاصل کی ۔ ایک بڑے کانٹی نینٹل مقابلے کے فائنل میں جگہ بنانا بذات خود ایک اہم کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ایران میں ہونے والی ایک چیمپئن شپ میں بھی فتح حاصل کی، جس سے ایک تجربہ کار بین الاقوامی ایتھلیٹ کے طور پر ان کی ساکھ مزید مضبوط ہوئی ۔  

ان کی کارکردگی کا خلاصہ درج ذیل جدول میں پیش کیا گیا ہے تاکہ ان کی ایتھلیٹک قابلیت کو ٹھوس اعداد و شمار کی بنیاد پر پرکھا جا سکے۔

سالمقابلہمقامکارکردگی (بہترین تھرو)نتیجہ/درجہماخذ
2023ایشین ایتھلیٹکس چیمپئن شپبنکاک، تھائی لینڈ79.93 میٹرکانسی کا تمغہ 
2025ایشین ایتھلیٹکس چیمپئن شپگومی، جنوبی کوریا76.70 میٹر (کوالیفائنگ) / 75.50 میٹر (فائنل)آٹھویں پوزیشن 
غیر متعینایران میں چیمپئن شپایرانغیر دستیابچیمپئن 

یہ اعداد و شمار اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ یاسر سلطان ایک معمولی ایتھلیٹ نہیں ہیں۔ ان کی کامیابیاں انہیں اس قابل بناتی ہیں کہ انہیں قومی سطح پر مکمل حمایت اور وسائل فراہم کیے جائیں۔ تاہم، جیسا کہ اگلے حصے میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا، ان کی کہانی کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہی ہے کہ ان کی ان کامیابیوں کو وہ پذیرائی اور حمایت نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے۔

ارشد ندیم فیکٹر: شان میں شراکت، حقیقت میں تفاوت

محمد یاسر سلطان اور ارشد ندیم کی کہانی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں پاکستان کے جیولن تھرو کے ستارے ہیں، جو اکثر ایک ساتھ بین الاقوامی مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ ارشد ندیم بلاشبہ ایک قومی آئیکون ہیں؛ وہ اولمپک اور عالمی چیمپئن ہیں، اور ان کی تاریخی کامیابیوں نے انہیں وہ عزت اور مقام دیا ہے جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں ۔ انہیں ملنے والے انعامات اور حکومتی سرپرستی ان کی محنت کا صلہ ہے ۔  

تاہم، ارشد کی کامیابی کا سورج جتنا روشن ہے، وہ نادانستہ طور پر یاسر سلطان پر ایک گہرا سایہ بھی ڈالتا ہے۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک ہی ایونٹ میں ملک کی نمائندگی کرنے والے دو کھلاڑیوں کے ساتھ سلوک میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جہاں ارشد کو ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے، وہیں یاسر، جو خود ایک ایشین میڈلسٹ ہیں، نظراندازی اور جدوجہد کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ یہ تفاوت اس وقت مزید واضح ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی نظام جو ایک چیمپئن کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے، وہ دوسرے اعلیٰ درجے کے ایتھلیٹ کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بھی ناکام رہتا ہے۔

اس صورتحال کا تجزیہ کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا کھیلوں کا نظام پروگرام پر مبنی نہیں بلکہ “ہیرو-پرستی” پر مبنی ہے۔ یہ نظام پائیدار ٹیلنٹ پائپ لائن بنانے کے بجائے ثابت شدہ گولڈ میڈلسٹ میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ یہ ایک ردِ عملی ماڈل ہے جو کامیابی کے بعد انعامات دیتا ہے، لیکن کامیابی تک پہنچنے کے لیے درکار راستے کو ہموار نہیں کرتا۔ یاسر سلطان اس ناقص ماڈل کا براہِ راست شکار ہیں۔ ان کی جدوجہد ذاتی ناکامی نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی ناکامی ہے جو ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ اعلیٰ ایتھلیٹس کو سپورٹ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے ساتھی کی تاریخی کامیابی نے اس نظامی خامی کو مزید بے نقاب کر دیا ہے۔ اگر نظام کا محور فرد کے بجائے پروگرام کی تعمیر ہوتا، تو ارشد کی کامیابی یاسر جیسے دیگر ایتھلیٹس کے لیے بھی نئے دروازے کھولتی، نہ کہ ان کے راستے میں رکاوٹ بنتی۔

“جیولن کے بغیر ٹریننگ”: نظامی رکاوٹیں اور ذاتی قربانیاں

محمد یاسر سلطان کے کیریئر کو درپیش مشکلات محض وسائل کی کمی تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو نظامی بے حسی اور بیوروکریٹک ناکامی کی انتہا کو چھوتی ہے۔ ان کی جدوجہد کی سب سے چونکا دینے والی مثالیں ان کے عزم اور نظام کی بے رحمی، دونوں کو بے نقاب کرتی ہیں۔

سب سے سنگین مسئلہ 2023 میں ایشین چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ جیتنے پر وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کردہ 50 لاکھ روپے کے انعام کی عدم ادائیگی ہے ۔ ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود، یہ انعام ان تک نہیں پہنچا ہے۔ ان کے اور ان کے والد کے بقول، وہ اس معاملے میں “چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں” اور انہیں کوئی جواب نہیں ملتا ۔ یہ صورتحال اس وقت مزید تکلیف دہ ہو جاتی ہے جب ان کے والد، جو پیشے کے لحاظ سے ایک ڈرائیور ہیں، اپنی محدود آمدنی سے اپنے بیٹے کے خوابوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔  

اس سے بھی زیادہ ناقابلِ یقین حقیقت یہ ہے کہ یاسر سلطان کو اولمپکس جیسے اہم ایونٹ کی تیاری اپنے ذاتی جیولن کے بغیر کرنی پڑی۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق، وہ محض ویڈیوز دیکھ کر اور بنیادی جسمانی ورزش کر کے ٹریننگ کرتے رہے ۔ یہ تفصیل اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اس پر یقین کرنا مشکل ہے، لیکن یہ اس نظام کی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے جس میں ایک ایشین

میڈلسٹ کو اپنے کھیل کے بنیادی سامان تک رسائی حاصل نہیں۔  

ان کے والد، محمد سلطان، کی آواز اس کہانی میں ایک طاقتور انسانی پہلو شامل کرتی ہے۔ ان کے الفاظ میں ایک باپ کی بے بسی اور قربانی کی جھلک ملتی ہے: “میں ڈرائیور ہوں… میں نے اپنی اولاد کے لیے جو کچھ کر سکتا تھا، کیا ہے” ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا بیٹا ایشیا کا کانسی اور چاندی کا تمغہ جیتنے والا ہے، اسے عزت دی جانی چاہیے ۔ ان کی یہ اپیل کہ ان کے گاؤں تک، جو کہ وزیر اعظم کے اپنے حلقے میں آتا ہے، ایک پکی سڑک تک نہیں بنائی گئی، اس وسیع تر نظراندازی کی عکاسی کرتی ہے جس کا سامنا اس خاندان کو ہے ۔ جب انہوں نے ایتھلیٹکس فیڈریشن سے رابطہ کیا تو ان سے رسمی درخواست طلب کی گئی، جو بیوروکریسی کے ایک ایسے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز تھا جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ یہ تمام واقعات مل کر ایک ایسی تصویر بناتے ہیں جہاں ایک باصلاحیت ایتھلیٹ صرف اپنے مخالفین سے نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے نظام سے بھی لڑ رہا ہے۔  

نظراندازی کی ایک کیس اسٹڈی: یاسر سلطان اور پاکستانی ایتھلیٹکس کی حالت

محمد یاسر سلطان کی کہانی صرف ایک فرد کی جدوجہد نہیں ہے، بلکہ یہ پاکستان کے پورے کھیلوں کے ماحولیاتی نظام پر ایک تنقیدی تبصرہ ہے۔ ان کا معاملہ ایک ایسی کیس اسٹڈی ہے جو اس نظام کی گہری خامیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ جیسا کہ ایک قومی اخبار کے کالم میں بجا طور پر کہا گیا: “یہ صورتِ حال صرف جیولن تھرو کی نہیں ہے… ہر شعبے کا لگ بھگ یہی عالم ہے۔ ہم ‘جیولن’ کے بغیر ہی اقوامِ عالم سے مقابلے کی تیاری کر رہے ہیں” ۔  

اس کہانی سے جو نظامی ناکامیاں سامنے آتی ہیں وہ کثیر جہتی ہیں:

  1. ناکافی فنڈنگ: نظام صرف چوٹی کے ایک یا دو کھلاڑیوں کو سپورٹ کرتا ہے، جبکہ دیگر اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ایتھلیٹس کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
  2. بیوروکریٹک نااہلی: وزیر اعظم کی طرف سے اعلان کردہ انعامی رقم کی عدم ادائیگی اس کی واضح مثال ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی وعدے انتظامی حقیقت میں تبدیل ہونے میں ناکام رہتے ہیں ۔  
  3. بنیادی ڈھانچے کا فقدان: “جیولن کے بغیر ٹریننگ” کا معاملہ اور ان کے والد کی گاؤں تک سڑک کی اپیل اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نچلی سطح پر بنیادی سہولیات کا کتنا فقدان ہے ۔  
  4. عدم مساوات: ارشد ندیم اور یاسر سلطان کے ساتھ ہونے والے سلوک میں واضح فرق ایک ایسے نظام کی عکاسی کرتا ہے جو میرٹ کی بنیاد پر مساوی مواقع فراہم نہیں کرتا ۔  

اس صورتحال کا ایک گہرا سماجی و معاشی پہلو بھی ہے۔ یاسر کا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا پس منظر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ موجودہ نظام ان باصلاحیت افراد کو فعال طور پر فلٹر کرتا ہے جن کے پاس ذاتی وسائل نہیں ہوتے۔ اس سے ملک کا ممکنہ ٹیلنٹ پول سکڑ جاتا ہے اور کھیل صرف امیروں کا مشغلہ بن کر رہ جاتا ہے۔

سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے کی جانے والی سرپرستی اکثر حقیقی حمایت کے بجائے ایک دکھاوا ہوتی ہے۔ اعلیٰ ترین دفتر سے انعام کا عوامی اعلان مثبت تشہیر تو دیتا ہے، لیکن اس پر عملدرآمد، جس کے لیے ایک فعال بیوروکریسی کی ضرورت ہوتی ہے، غائب ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حکام کے لیے ایتھلیٹ کی فلاح و بہبود سے زیادہ اہم سرپرستی کا عوامی مظاہرہ ہے۔ ارشد ندیم جیسی انفرادی کامیابیاں اس گہری بوسیدگی پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔ جب تک نظام میں بنیادی اصلاحات نہیں کی جاتیں، پاکستان یاسر سلطان جیسے ہیروز کو ضائع کرتا رہے گا اور پائیدار نظام کے بجائے نایاب انفرادی معجزوں پر انحصار کرتا رہے گا۔

مستقبل کا منظرنامہ اور لازوال میراث

تمام تر رکاوٹوں اور نظامی بے حسی کے باوجود، محمد یاسر سلطان کا عزم غیر متزلزل ہے۔ وہ آج بھی اعلیٰ سطح پر مقابلہ کر رہے ہیں، اور ان کا اولمپکس اور دیگر عالمی مقابلوں کے لیے

کوالیفائی کرنے کا خواب اب بھی زندہ ہے ۔ ان کی مسلسل جدوجہد ان کی غیر معمولی ذہنی

مضبوطی اور اپنے کھیل سے محبت کا ثبوت ہے۔  

یاسر سلطان کی میراث دوہری نوعیت کی ہو سکتی ہے۔ میدان میں، وہ ایک ایشین میڈلسٹ اور ایک مستقل بین الاقوامی ایتھلیٹ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ لیکن میدان سے باہر، ان کی میراث شاید اس سے بھی زیادہ اہم ہو۔ انہوں نے اور ان کے والد نے عوامی سطح پر اپنی جدوجہد کو بیان کر کے اس نظام کی ناانصافیوں پر ایک ایسی روشنی ڈالی ہے جسے اب نظرانداز کرنا مشکل ہے۔

ان کی کہانی محض ایتھلیٹک کارکردگی کی داستان سے آگے بڑھ کر وکالت اور مزاحمت کی کہانی بن چکی ہے۔ انہوں نے صرف جیولن نہیں اٹھایا، بلکہ ان گنت دیگر نظرانداز کیے گئے کھلاڑیوں کے لیے آواز بھی اٹھائی ہے۔ ان کا یہ اقدام انہیں ایک ایسے ایتھلیٹ میں تبدیل کر دیتا ہے جو نظام کا

محض ایک غیر فعال شکار نہیں، بلکہ تبدیلی کا ایک فعال محرک ہے۔

آنے والا وقت بتائے گا کہ کیا ان کی جدوجہد کسی بامعنی تبدیلی کا پیش خیمہ بنتی ہے یا نہیں۔ لیکن ایک بات یقینی ہے: محمد یاسر سلطان کی لازوال میراث صرف ان کے تمغوں میں نہیں، بلکہ اس جرات میں بھی ہوگی جو انہوں نے ایتھلیٹکس کے میدان میں اور عوامی رائے کی عدالت میں دکھائی۔ ان کی کہانی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ایک ایتھلیٹ کی حقیقی قدر صرف اس کی جیت سے نہیں، بلکہ اس کے کردار کی مضبوطی سے بھی ہوتی ہے

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme