
عزیمت کو بقاء ہے۔کچھ کرو اور امر ہوجائو۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
میو قوم میں ان گنت مخلص لوگ موجود ہاں۔بساط بھر اپنا ملک و برادری کے مارے کام میں مصروف ہاں ۔کوئی کہا کہوے ہے اُنن نے یابات کی پروا نہ ہے۔
موئے جناب سکندر سپراب صاحب کی ایک بات جو شاید ان کی زندگی کو نچوڑ ہے۔کہ کام کرن کو تو بتہیرا لوگ مل جانگا۔لیکن کام کونسو کرو جائے ؟ اور کہاں سو شروع کرو جائے؟ یا بات کو تعین کرنو ہر کائی کو کام نہ ہے ۔ ۔ ۔ قافلان کی رہبری اور سمت کو تعین راستان کی سمجھ بوجھ کائی کائی کو کام رہوے ہے۔

یامیں شک نہ ہے کہ ہر کائی اے مرنو ہے۔کوئی کتنو بھی نیک یا بد ہوئے اپنی سانس پوری کرکے اگلی دنیا میں چلو جانو ہے۔پھر کہا وجہ ہے کہ ایک کا جانا سو لوگ غمگین ہووا ہاں۔روواں جھینکا ہاں۔سوگ مناواہاں ۔جب کہ دوسرا کا مرا سو اُن پے کوئی اثر ای نہ ہووے ہے۔
کچھ لوگن کا آنا سو محفل جگمگا اٹھے ہے ۔لوگ ان کا منتظر رہوا ہاں۔لیکن دوسری گھاں کو کچھ لوگ ایسا بھی رہوا ہاں کہ ان کا آناا سو محفل کی رونق ختم سی ہوجاوے ہے۔ان کا جینا مرنا سو

لوگن کی زندگی میں کوئی فرق نہ آوے ہے۔
دراصل لوگ کائی کے مارے روواہاں نہ ہنسا ہاں۔نہ لوگن نے کائی کے ساتھ ہمدردی رہوے ہے۔اگر کائی کا جانا سو لوگ غمگین ہووا ہاں تو وے اپنی ضرورت اپنا مطلب یا وا شخصیت سو وابسطہ امیدن نے ٹونا کی وجہ سو روواہاں۔جاسو کائی اے امید ای نہ ہوئے واکو جینو مرنو برابر ہے۔نوں سمجھو کہ

لوگ کائی کے مارے نہ بلکہ اپنا دکھ سکھ کے مارے روواہاں۔
کئی بار دوست احباب کی محفل میں پوچھوں ہو کہ جتنا بھی یا جگہ موجود ہو۔مرنو سبن نے ہے۔ہمارا مرن سو پیچھے ہم نے لوگ اپنی دعان میں کیوں یاد راکھاہاں؟یا ہمارے مارے دعا کیوں کراں ؟۔یاکو جواب بہت کم لوگ دیواہاں۔البتہ سوچ ساچ کے کہواہاں کہ اگر ہم کوئی نیک کام کراہونگا۔جاسو دوسرا لوگ بوساواں ۔ یہی ایک وجہ ہوسکے ہے کہ لوگ وا چیز سو فائدہ اٹھاواں اور دعا دیواں۔جو تم نے لوگن کے مارے وقف کری ہی ۔اپنی زندگی میں قربانی دی ہی۔
تم کہا سمجھو ہو کہ لوگن کی قیادت کرن والا یا قوم کے مارے قربانی دین والا ظاہری زندگی میں ایسے لگے ہے وےکائی کاز و مشن کے مارے اپنی جان دیوا ہاں ،کوئی یاکوشش سو بیوقوفی کہوےہے ۔کوئی پاگل پن ۔لیکن ان کی قربانی انن نے زندہ راکھے ہے۔تم کہا سمجھو ہو کہ تاریخ میں لکھی جان والی شخصیات نےکہا گھر میں بیٹھان کو ای مقام مل گئیو ہو؟۔۔ایسی بات نہ ہے انن نے قربانی دی ہی۔
تاریخ کا بہت سا پناں اب بھی کورا کاغذ ہاں۔بہت سی جگہ باقی ہے کہ لوگ اپنو اپنو نام لکھوا سکاہاں۔نوں تو لوگن کو ہجوم ہے ہر کائی کو نام تھوڑو لکھو جاوے ہے۔نام لکھوانا کے مارے بتانو پڑے ہے تاریخ میں ان کو نام کیوں لکھو جائے ۔۔؟
تہارا مال و دولت عہدہ۔اور معاشرتی مقام کی بنیاد پے نام نہ لکھوایو جاسکے ہے،تم کچھ کرو ،تاریخ تم نے خود بخود محفوظ کرلئے گی۔میو قوم بہت بڑی اور بہادر دلیر قوم ہے ۔یا کی خدمت کا بہت سا شعبہ موجود ہاں۔ خدمت کرو اور ان میں نام لکھوالیو۔۔
جو میو کائی عہدہ پے ہاں ۔یا ان کے پئے چار پیسہ آچکا ہاں وے پھولا نہ سماواہاں۔کائی سو سیدھا منہ بات کرنو بھی گوارا نہ کراہاں۔جیسے وے لوگن کو اہمیت و عزت نہ دیواہاں۔لوگ بھی ان کو عزت نہ دیواہاں۔پھر ایسا لوگ کام کرن کے بجائے رکاوٹ بناہاں ۔پھر لوگ ان کو گالی سہالی سب کچھ دیواہاں۔ایک وقت ایسو آوے ہے کہ لوگ ان سو نفرت کرنو شروع کردیواہاں۔
آخر میں پھر سکندر سہراب صاحب کی بات دُہرائونگو۔کہ کام کونسو کرنو ہے اور کہا سو شروع کرنو ہے۔یا بات کو فیصلہ کرنو ہر کائی کا بس کو کام نہ ہے۔۔۔الامر للہ ۔۔۔ولبقاء للہ