
طبقات ناصری میں میو قوم پر بہتان بازی کی حقیقت
منہاج السراج کے بیانیے کا ایک تفصیلی اور تجزیاتی مطالعہ
حصہ اول: تمہید – مؤرخ اور تاریخ کا پس منظر
تعارف
اس مقالے کا مقصد قاضی منہاج السراج جوزجانی کی شہرہ آفاق تصنیف “طبقات ناصری” میں میو قوم سے متعلق فراہم کردہ معلومات کا ایک جامع اور تنقیدی جائزہ پیش کرنا ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں لکھی گئی یہ تاریخ دہلی سلطنت کے ابتدائی دور کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ جائزہ نہ صرف منہاج کے بیانات کا خلاصہ پیش کرے گا بلکہ ان کے تاریخی پس منظر، مؤرخ کے اپنے نقطہ نظر، اور ان بیانات کے وسیع تر مضمرات کا بھی گہرائی سے احاطہ کرے گا۔ اس تجزیے کے ذریعے یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ طبقات ناصری میں میو

قوم کی تصویر کشی کس طرح سلطنت کے سیاسی اور نظریاتی مقاصد کی عکاس تھی۔
قاضی منہاج السراج جوزجانی کا تعارف
قاضی ابو عمرو منہاج الدین عثمان بن سراج الدین محمد جوزجانی، جو عموماً منہاج السراج کے نام سے مشہور ہیں، 589ھ (1193ء) میں غور کے علاقے میں پیدا ہوئے 1۔ ان کا خاندان غور اور غزنی کی سلطنتوں کے علمی اور انتظامی حلقوں سے گہرا تعلق رکھتا تھا، جس نے ان کے ابتدائی فکری رجحانات اور عالمی نقطہ نظر پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ چنگیز خان کی قیادت میں منگولوں کے حملوں اور وسطی ایشیا میں مچنے والی تباہی کے باعث منہاج السراج نے ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور 624ھ (1227ء) میں پہلے اُچ اور پھر دہلی پہنچے 1۔
دہلی سلطنت میں ان کی علمی قابلیت اور خاندانی پس منظر نے انہیں جلد ہی شاہی دربار میں ایک ممتاز مقام دلا دیا۔ وہ سلطنت کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہے، جن میں قاضی، خطیب، اور صدرِ جہاں جیسے کلیدی مناصب شامل تھے 1۔ ان عہدوں کی بدولت انہیں سلطنت کے اندرونی معاملات، سیاسی سازشوں اور فوجی مہمات تک براہ راست رسائی حاصل تھی، جو ان کی تاریخ نویسی کو ایک معاصر اور اندرونی شاہد کی حیثیت عطا کرتی ہے۔ وہ خاص طور پر سلطان ناصر الدین محمود (عہدِ حکومت: 1246-1266ء) کے دور میں ایک انتہائی بااثر درباری اور مؤرخ تھے، اور انہوں نے اپنی عظیم تصنیف “طبقات ناصری” اسی سلطان کے نام منسوب کی 1۔
طبقات ناصری کی نوعیت اور اہمیت
طبقات ناصری 658ھ (1260ء) میں مکمل ہوئی 3۔ یہ ایک عمومی تاریخ ہے جس میں منہاج نے تخلیق آدم سے لے کر اپنے زمانے تک کے واقعات کو قلمبند کیا ہے۔ کتاب کا اسلوب سادہ، بیانیہ اور براہ راست ہے، جس میں واقعات کو زمانی ترتیب سے پیش کرنے پر زور دیا گیا ہے 2۔ اس کتاب کی تاریخی اہمیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ دہلی سلطنت کے ابتدائی پچاس سالہ دور، خصوصاً بنگال میں مسلم حکومت کے قیام، کے لیے واحد مستند اور معاصر ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے 1۔ منہاج نے اپنی کتاب میں نہ صرف دستاویزی حقائق شامل کیے بلکہ ان روایات کو بھی جگہ دی جو انہوں نے سنی سنائی باتوں یا اپنے ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر جمع کی تھیں 7۔
منہاج کا نقطہ نظر اور ممکنہ تعصبات
طبقات ناصری کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ منہاج السراج ایک غیر جانبدار مؤرخ نہیں تھے، بلکہ وہ سلطنت کے ایک اعلیٰ عہدیدار اور وفادار ملازم تھے۔ ایک درباری مؤرخ ہونے کی حیثیت سے ان کا بیانیہ لامحالہ شاہی نقطہ نظر کا عکاس ہے اور ان کی وفاداری مکمل طور پر سلطان اور سلطنت کے ساتھ تھی 10۔ ان کا بنیادی مقصد اپنے مربیوں، خصوصاً سلطان ناصر الدین محمود اور ان کے نائب (اور سلطنت کی اصل طاقت) الغ خان، جو بعد میں سلطان غیاث

الدین بلبن کے نام سے مشہور ہوئے، کی فتوحات اور کارناموں کو عظمت بخشنا تھا۔
اس پس منظر میں یہ بات منطقی ہے کہ سلطنت کے مخالفین، جیسے کہ میو قوم، کی تصویر کشی منفی اور یک طرفہ ہوگی۔ منہاج کی تحریر کا مقصد صرف واقعات قلمبند کرنا نہیں تھا، بلکہ سلطنت کے اقدامات، خاص طور پر غیر مسلم اور سرکش سمجھے جانے والے قبائل کے خلاف پرتشدد کارروائیوں، کو مذہبی اور سیاسی جواز فراہم کرنا بھی تھا۔ ان کا قاضی اور صدرِ جہاں ہونا 1 اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ریاستی قانون اور شریعت کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ لہٰذا، ان کی تاریخ نویسی کو ایک غیر جانبدارانہ علمی مشق کے بجائے ایک “ریاستی منصوبے” (state project) کے طور پر دیکھنا زیادہ مناسب ہے، جس کا مقصد حکمران طبقے کے اختیار کو مضبوط کرنا اور اس کے مخالفین کو بدنام کرنا تھا۔ جدید مؤرخین اسی لیے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کی تاریخ کو دیگر معاصر ذرائع اور تنقیدی نقطہ نظر سے پڑھنا چاہیے 10۔
حصہ دوم: دہلی کے نواح میں ایک چیلنج – میوات اور میو قوم
میوات کا جغرافیائی اور تزویراتی محل وقوع
تیرہویں صدی میں میوات کا علاقہ دہلی سلطنت کے لیے ایک مستقل چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ خطہ دہلی، آگرہ اور جے پور کے درمیان ایک مثلث پر مشتمل تھا اور دہلی کے جنوب مغرب میں واقع تھا 11۔ اس کی جغرافیائی ساخت اسے سلطنت کے لیے ایک سنگین مسئلہ بناتی تھی۔ یہ علاقہ اراولی کے ناہموار پہاڑی سلسلوں، گھنے جنگلات اور دشوار گزار گھاٹیوں پر مشتمل تھا، جو اسے باغیوں اور مرکزی حکومت سے فرار اختیار کرنے والے عناصر کے لیے ایک قدرتی پناہ گاہ فراہم کرتا تھا 12۔
اس کی دہلی سے قربت کا مطلب یہ تھا کہ یہاں ہونے والی کوئی بھی شورش براہ راست دارالحکومت کی سلامتی، استحکام اور وقار کے لیے ایک فوری خطرہ بن سکتی تھی 14۔ مزید برآں، یہ خطہ گجرات اور گنگا کے دوآبے کے درمیان اہم تجارتی راستوں پر واقع تھا، جس کی وجہ سے اس پر کنٹرول سلطنت کی معاشی سلامتی کے لیے بھی ناگزیر تھا 14۔
طبقات ناصری میں میو قوم کی تصویر کشی
منہاج السراج کی تحریریں میو قوم کا ذکر کرنے والے ابتدائی فارسی تاریخی ماخذات میں شمار ہوتی ہیں 15۔ وہ میوؤں کو مسلسل منفی انداز میں پیش کرتے ہیں اور انہیں “چور، ڈاکو، اور رہزن” (thieves, robbers, and highwaymen) کے طور پر بیان کرتے ہیں جو دہلی کے نواح میں لوٹ مار کرتے تھے 11۔ منہاج کے مطابق، سلطان شمس الدین التتمش کے کمزور اور نااہل جانشینوں کے دور میں میوؤں کی جرات اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ وہ نہ صرف دیہی علاقوں میں مسافروں کو لوٹتے تھے بلکہ رات کے وقت دارالحکومت کے اندر گھس کر بھی لوٹ مار کرتے، جس سے دہلی کے شہری ایک مستقل خوف میں مبتلا رہتے تھے 13۔ ان کی سرگرمیوں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی کے مغربی دروازے عصر کی نماز کے بعد بند کر دیے جاتے تھے تاکہ شہریوں کو ان کے حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے 13۔
کشمکش کے اسباب کا تجزیہ
سلطنت اور میوؤں کے درمیان اس تصادم کی وجوہات کو دونوں فریقوں کے نقطہ نظر سے سمجھنا ضروری ہے۔
سلطنت کا نقطہ نظر: دہلی سلطنت، جو ابھی اپنے قیام اور استحکام کے ابتدائی مراحل میں تھی، اپنے دارالحکومت کے اتنے قریب ایک خود مختار اور “سرکش” گروہ کا وجود برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ میوؤں کی سرگرمیاں سلطنت کے اختیار اور اس کی رٹ کو براہ راست چیلنج کرتی تھیں، جس سے مرکزی حکومت کی کمزوری کا تاثر پیدا ہوتا تھا۔
میوؤں کا نقطہ نظر (جدید تحقیق کی روشنی میں): جدید مؤرخین کا خیال ہے کہ میوؤں کی کارروائیوں کو محض لوٹ مار اور رہزنی قرار دینا ایک یک طرفہ اور سادہ تصویر کشی ہے۔ ان کے مطابق، میوؤں نے سلطنت کے دارالحکومت کے قیام کو اپنی آبائی زمین پر ایک بیرونی قبضے کے طور پر دیکھا 14۔ لہٰذا، ان کی “لوٹ مار” دراصل اپنی کھوئی ہوئی خود مختاری، وسائل اور زمینوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی ایک کوشش اور نئی قائم شدہ مرکزی طاقت کے خلاف مزاحمت کی ایک شکل تھی۔ یہ تصادم مرکز (سلطنت) اور periphery (مقامی قبائل) کے درمیان طاقت کی کشمکش کی ایک کلاسیکی مثال تھی۔
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ میوؤں کے خلاف مہمات صرف امن و امان کا مسئلہ نہیں تھیں، بلکہ یہ دہلی سلطنت کے “ریاست سازی” (state-building) کے وسیع تر عمل کا ایک لازمی حصہ تھیں۔ ایک غیر منظم اور خود مختار قبائلی علاقے کو ایک قابلِ انتظام اور قابلِ محصول (taxable) علاقے میں تبدیل کرنا سلطنت کے طویل مدتی مفاد میں تھا۔ بلبن کی کارروائیوں میں صرف قتل و غارت ہی شامل نہیں تھی، بلکہ جنگلات کا صفایا کرنا، قلعے تعمیر کرنا، تھانے (فوجی چوکیاں) قائم کرنا اور ان میں افغان فوجیوں کو آباد کرنا بھی شامل تھا 13۔ یہ تمام اقدامات علاقے کی جغرافیائی اور آبادیاتی ساخت کو مستقل طور پر تبدیل کرنے کی ایک شعوری کوشش تھی، جس کا حتمی مقصد قبائلی مزاحمت کی بنیاد کو ختم کرکے انہیں ایک بے اختیار کسان طبقے میں تبدیل کرنا تھا، جیسا کہ بعد کے ادوار کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے 15۔
حصہ سوم: الغ خان (بلبن) کی میواتی مہمات – طبقات ناصری کا خلاصہ
ابتدائی کارروائیاں (1247ء)
سلطان ناصر الدین محمود کے دورِ حکومت کے اوائل میں، جب اصل طاقت اس کے وزیر اور نائب الغ خان (بلبن) کے ہاتھ میں تھی، میوات کے خلاف پہلی بڑی منظم کارروائی کی گئی 12۔ اس مہم کا بنیادی مقصد میوات کے سرکش باشندوں کو سزا دینا اور سلطنت کی بالادستی قائم کرنا تھا۔ تاہم، منہاج اس کا صرف سرسری ذکر کرتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مہم محدود پیمانے پر تھی اور اس کے کوئی دیرپا نتائج برآمد نہیں ہوئے 14۔
658ھ / 1260ء کی فیصلہ کن مہم کا تفصیلی بیان (منہاج کی زبانی)
طبقات ناصری میں میوؤں کے خلاف سب سے تفصیلی بیان 658ھ (1260ء) کی مہم کا ملتا ہے، جسے منہاج نے اپنی آنکھوں دیکھی یا معتبر ذرائع سے سنی ہوئی تفصیلات کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔
فوری وجہ: منہاج کے مطابق، اس مہم کی فوری وجہ یہ بنی کہ 655ھ (1257ء) میں میوؤں نے، اپنے ایک سردار ملکا (Malka) کی قیادت میں، ہانسی کے علاقے سے الغ خان کے سرکاری اونٹوں کا ایک قافلہ لوٹ لیا۔ یہ اقدام سلطنت کے اختیار کو ایک کھلا چیلنج تھا، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا 14۔
فوجی تیاری اور حکمت عملی: جنوری 1260ء میں، جب سلطنت منگولوں کے خطرے سے وقتی طور پر فارغ ہوئی، الغ خان نے ایک بڑی فوج، جس کی تعداد تقریباً 10,000 بتائی جاتی ہے، کے ساتھ میوات پر اچانک حملہ کیا۔ یہ ایک طویل اور منصوبہ بند آپریشن تھا جو بیس دن تک جاری رہا 11۔
منہاج کے بیان کردہ مظالم: منہاج اس مہم کی سفاکی کو بغیر کسی معذرت کے، بلکہ ایک کارنامے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
الغ خان نے اعلان کیا کہ ہر میواتی کے کٹے ہوئے سر کے بدلے ایک چاندی کا ٹنکہ اور ہر زندہ پکڑے جانے والے کے بدلے دو ٹنکے انعام دیا جائے گا 11۔ اس اعلان نے سپاہیوں کو بڑے پیمانے پر قتل عام کی ترغیب دی۔
فوج نے میوات کے پہاڑوں اور جنگلوں میں گھس کر “چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں” کو بے دردی سے قتل کیا۔ منہاج فخر سے بتاتے ہیں کہ افغان سپاہی خاص طور پر اس قتل عام میں پیش پیش تھے اور ان میں سے ہر ایک کم از کم سو ہندو قیدی گرفتار کر کے لایا 14۔
میواتی سرداروں کا انجام:
اس مہم کے دوران میواتی سردار ملکا اور اس کے خاندان سمیت 250 دیگر اہم سرداروں کو گرفتار کر لیا گیا 11۔
انہیں زنجیروں میں جکڑ کر دہلی لایا گیا اور فتح کے جشن کے بعد، بدایوں دروازے کے سامنے “حوضِ رانی” کے مقام پر عوام کے سامنے عبرتناک طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا 12۔
منہاج ان سزاؤں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کچھ قیدیوں کو طاقتور ہاتھیوں کے پیروں تلے کچلوایا گیا، کچھ کے “سفاک ترک سپاہیوں” نے تلواروں سے ٹکڑے کر دیے، اور سینکڑوں کی زندہ کھالیں کھینچ کر ان میں بھس بھر دیا گیا اور انہیں شہر کے دروازوں پر لٹکا دیا گیا تاکہ دیکھنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنیں 12۔ منہاج کے بقول، دہلی کے لوگوں نے اس سے پہلے کبھی ایسی ہولناک سزا نہیں دیکھی تھی۔
مہم کے نتائج (منہاج کے مطابق): منہاج السراج اپنی تاریخ کا اختتام 1260ء کے واقعات پر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ مہم میوؤں کی طاقت کو مستقل طور پر کچلنے میں کامیاب رہی اور اس کے بعد علاقے میں مکمل امن قائم ہو گیا 14۔
ذیل میں ایک جدول پیش کیا جا رہا ہے جو میوات میں سلطنت کی اہم مہمات کا خلاصہ بیان کرتا ہے تاکہ قارئین کو واقعات کے تسلسل اور شدت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
| سال (عیسوی/ہجری) | کمانڈر/سلطان | اہم واقعات (مؤرخ کے بیان کے مطابق) | نتیجہ | ماخذ |
| 1247ء / 645ھ | الغ خان (بطور وزیر) | میوات کے سرکش باشندوں کو سزا دینے کے لیے ایک ابتدائی مہم۔ | محدود اور عارضی کامیابی۔ | طبقات ناصری / فرشتہ |
| 1260ء / 658ھ | الغ خان (بطور وزیر) | ملکا کی قیادت میں میوؤں کے خلاف 20 روزہ سفاکانہ مہم۔ بڑے پیمانے پر قتل عام، 250 سرداروں کی گرفتاری اور دہلی میں عبرتناک سزائے موت۔ | منہاج کے مطابق میوؤں کا مکمل خاتمہ اور مستقل امن کا قیام۔ | طبقات ناصری |
| 1266ء / 664ھ | سلطان غیاث الدین بلبن | تخت نشینی کے بعد میوؤں کے خلاف ایک اور بڑی مہم۔ دہلی کے گرد جنگلات کا صفایا، گوپال گڑھ میں قلعے کی تعمیر اور افغان چوکیوں کا قیام۔ | میوؤں کی طاقت کو طویل عرصے کے لیے کچل دیا گیا اور علاقے پر سلطنت کا کنٹرول مضبوط ہوا۔ | تاریخ فیروز شاہی |
حصہ چہارم: بیانیے کا تجزیہ – الفاظ، مقاصد اور اثرات
منہاج کی زبان کا مطالعہ
طبقات ناصری میں میو قوم کے لیے استعمال کی گئی زبان غیر جانبدارانہ اور معروضی نہیں ہے، بلکہ یہ واضح طور پر مؤرخ کے تعصبات اور مقاصد کی عکاسی کرتی ہے۔ منہاج میوؤں کو مسلسل ایسے القابات سے یاد کرتے ہیں جو انہیں انسانیت کے دائرے سے خارج کرکے ان کے خلاف تشدد کو جائز قرار دیتے ہیں:
مفسد (mufsid): یہ عربی اصطلاح فساد پھیلانے والوں اور امن کے دشمنوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کا استعمال میوؤں کو ایک ایسے گروہ کے طور پر پیش کرتا ہے جو معاشرتی نظام کے لیے خطرہ ہے 14۔
سرکش (Sarkash) اور نافرمان (nafarman): یہ الفاظ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ میو وہ لوگ ہیں جو ریاست کے جائز اختیار کو تسلیم نہیں کرتے اور باغی ہیں 14۔
گبری (gabri): یہ اصطلاح “کافر” کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ میوؤں کو ان کے غیر مسلم ہونے کی بنا پر “گبری” کہہ کر ان کے خلاف مہم کو ایک مذہبی جنگ کا رنگ دیا گیا، جس سے مسلمانوں کے لیے اس میں حصہ لینا ایک مذہبی فریضہ بن جاتا تھا 14۔
دیو صفت ہندہ (devsati hindah): یعنی “شیطان جیسے ہندو”۔ یہ اصطلاح میوؤں کو غیر انسانی اور شیطانی مخلوق کے طور پر پیش کرتی ہے، جس سے ان کا قتل کرنا نہ صرف جائز بلکہ ایک نیک عمل قرار پاتا ہے 14۔
بیانیے کا مقصد
منہاج کے بیانیے کا مقصد محض واقعات کا اندراج نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے گہرے سیاسی اور نظریاتی مقاصد کارفرما تھے:
تشدد کو جواز فراہم کرنا: مذکورہ بالا اصطلاحات کا استعمال میوؤں کو ایک جائز سیاسی مخالف کے بجائے ایک اخلاقی اور مذہبی برائی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اگر دشمن “شیطان” اور “مفسد” ہے، تو اس کے خلاف انتہائی سفاکی پر مبنی کارروائی بھی ایک ضروری اور قابلِ تعریف اقدام بن جاتی ہے۔
الغ خان کی شخصیت سازی: منہاج کا دوسرا بڑا مقصد اپنے مربی الغ خان (بلبن) کو ایک طاقتور، انصاف پسند (شاہی نقطہ نظر سے) اور اسلام کے محافظ کے طور پر پیش کرنا تھا۔ میوؤں کی “شیطانیت” پر جتنا زیادہ زور دیا جائے گا، ان پر قابو پانے والے ہیرو کی عظمت اتنی ہی زیادہ نمایاں ہوگی۔
ایک انتباہی پیغام: یہ بیانیہ سلطنت کے دیگر ممکنہ مخالفین کے لیے بھی ایک واضح انتباہ کا کام کرتا تھا۔ دہلی میں سرعام دی جانے والی عبرتناک سزائیں صرف میوؤں کے لیے نہیں تھیں، بلکہ سلطنت کے دیگر امراء اور رعایا کے لیے بھی یہ پیغام تھا کہ مرکز سے بغاوت کا انجام کیا ہوگا۔
منہاج کے بیان کردہ تشدد کی تفصیلات میں ایک گہرا تضاد بھی پوشیدہ ہے۔ ایک طرف وہ اسے الغ خان کی بے مثال طاقت اور انصاف کے مظہر کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف، ان مظالم کی غیر معمولی شدت خود اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ میوؤں کی مزاحمت کتنی شدید اور سلطنت کے لیے کتنی بڑی হুমকি تھی۔ ریاستیں عام طور پر کمزور دشمنوں کے خلاف اس قدر علامتی اور سفاکانہ تشدد کا استعمال نہیں کرتیں۔ زندہ کھال اتارنا، ہاتھیوں سے کچلوانا، اور سروں پر انعام مقرر کرنا 12، یہ سب ایک غیر معمولی ردعمل کی علامات ہیں۔ یہ ردعمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سلطنت میوؤں کو ایک معمولی خطرے کے بجائے ایک وجودی خطرہ (existential threat) کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ لہٰذا، منہاج کی تحریر، جو بظاہر سلطنت کی طاقت کا قصیدہ ہے، نادانستہ طور پر میوؤں کی طاقت اور ان کی مزاحمت کی شدت کو بھی آشکار کر دیتی ہے۔
حصہ پنجم: تاریخی تناظر میں جدید مؤرخین کی آراء
منہاج کے بعد کا منظرنامہ: ضیاء الدین برنی
منہاج السراج کا بیانیہ 1260ء میں ختم ہو جاتا ہے، لیکن میوؤں کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ بعد کے دور کے مؤرخ ضیاء الدین برنی اپنی تصنیف “تاریخ فیروز شاہی” میں بتاتے ہیں کہ الغ خان کو سلطان غیاث الدین بلبن کے طور پر تخت نشین ہونے کے فوراً بعد 1266ء میں میوؤں کے خلاف ایک اور بڑی مہم چلانی پڑی 13۔ برنی کے مطابق، بلبن نے دہلی کے گرد جنگلات کو صاف کرنے میں پورا ایک سال صرف کیا، گوپال گڑھ میں ایک نیا قلعہ تعمیر کروایا، اور علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے افغان فوجیوں پر مشتمل متعدد چوکیاں (تھانے) قائم کیں 12۔
برنی کا یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ منہاج کا یہ دعویٰ کہ 1260ء کی مہم نے میوؤں کی طاقت کو مستقل طور پر کچل دیا تھا، قبل از وقت اور مبالغہ آمیز تھا۔ میوؤں کی مزاحمت اس قدر شدید تھی کہ بلبن کو بادشاہ بننے کے بعد اپنی پہلی بڑی فوجی کارروائی انہی کے خلاف کرنی پڑی۔
جدید مؤرخین کا تجزیہ
جدید مؤرخین منہاج اور برنی کے بیانات کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں ریاستی نقطہ نظر سے لکھی گئی تاریخ قرار دیتے ہیں۔
بیانیے کی تشکیل: جدید محققین، جیسے شیل مایارام، کا کہنا ہے کہ ان درباری مؤرخین نے “میو بطور ڈاکو” کا ایک ایسا پائیدار دقیانوسی تصور (stereotype) قائم کیا جو بعد میں نوآبادیاتی دور کے برطانوی حکام کے بیانیے میں بھی جاری رہا 11۔
معاشی اور سماجی تبدیلی: ان مؤرخین کا استدلال ہے کہ بلبن کی سفاکانہ پالیسیوں کا طویل مدتی مقصد صرف امن قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ میوؤں کو ایک خود مختار، جنگجو قبیلے سے ایک محکوم، زراعت پیشہ کسان طبقے میں تبدیل کرنا تھا تاکہ ان سے باقاعدگی سے محصول (tax) وصول کیا جا سکے 15۔ جنگلات کا صفایا اور نئی آبادیوں کا قیام اسی گہری سماجی اور معاشی تبدیلی کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔
مزاحمت کی تاریخ: جدید مؤرخین سلطنت کے بیانیے کے برعکس، میوؤں کی تاریخ کو ظلم کے خلاف مزاحمت اور اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے کی ایک طویل جدوجہد کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بلبن کی مہمات اس جدوجہد کا ایک خونی باب تھیں، لیکن یہ اس کا خاتمہ نہیں تھیں۔
مذہبی پہلو: مؤرخین اس بات کو بھی نوٹ کرتے ہیں کہ منہاج اور برنی کے دور میں میو غیر مسلم تھے، اور ان کے خلاف مہمات کو اکثر مذہبی رنگ دیا جاتا تھا۔ تاہم، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مؤرخین نے کہیں بھی جبری تبدیلی مذہب کا ذکر نہیں کیا 17۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ میوؤں نے بعد میں چودھویں صدی میں سلطان فیروز شاہ تغلق کے دور میں اسلام قبول کیا، جو ایک طویل ثقافتی عمل کا نتیجہ تھا 11۔
درحقیقت، دہلی سلطنت اور میوؤں کے درمیان تعلقات کو صرف “تصادم” کے طور پر دیکھنا ایک نامکمل تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل تھا جس میں تشدد، گفت و شنید، اور بالآخر ثقافتی انضمام (acculturation) کے مراحل شامل تھے۔ منہاج السراج صرف اس عمل کے ابتدائی اور سب سے پرتشدد مرحلے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا بیانیہ ایک وسیع تر تاریخی عمل کا صرف ایک حصہ ہے، اور اسے حتمی یا مکمل تصویر کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ اس طویل داستان کا ایک ابتدائی نقطہ ہے، اختتام نہیں۔
حصہ ششم: حاصلِ کلام
قاضی منہاج السراج جوزجانی کی طبقات ناصری تیرہویں صدی میں میو قوم کے بارے میں ابتدائی دہلی سلطنت کے سرکاری نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے ایک ناگزیر اور بنیادی ماخذ ہے۔ یہ کتاب میوؤں کو دہلی کے لیے ایک سنگین خطرہ اور ایک “مفسد” گروہ کے طور پر پیش کرتی ہے اور الغ خان (بلبن) کی 1260ء کی سفاکانہ مہم کو اس خطرے کے خاتمے کے لیے ایک فیصلہ کن، ضروری اور جائز اقدام کے طور پر بیان کرتی ہے۔
تاہم، منہاج کا بیانیہ غیر جانبدار نہیں ہے۔ یہ ایک درباری مؤرخ کی تحریر ہے جس کا اولین مقصد اپنے مربی کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور سلطنت کی پرتشدد پالیسیوں کو قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرنا ہے۔ ان کی زبان کا انتخاب، القابات کا استعمال اور واقعات کی تشریح اسی مقصد کی تکمیل کرتی ہے۔
ان واضح تعصبات کے باوجود، طبقات ناصری تاریخی اعتبار سے انمول ہے۔ یہ نہ صرف ہمیں تیرہویں صدی میں میوؤں کی موجودگی، ان کی طاقت اور سلطنت کے ساتھ ان کے پیچیدہ تعلقات کے بارے میں اولین معلومات فراہم کرتی ہے، بلکہ یہ ہمیں خود سلطنت کی ذہنیت، اس کے خوف، اور ریاست سازی (state-building) کے لیے استعمال کیے جانے والے سفاکانہ طریقوں کے بارے میں بھی بتاتی ہے۔ جب اس کتاب کو بعد کے مؤرخین جیسے ضیاء الدین برنی اور جدید مؤرخین کے تجزیے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو منہاج کا بیانیہ میوات اور جنوبی ایشیا کی تاریخ کے ایک اہم موڑ کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ تاریخ اکثر فاتح کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی ہے، لیکن ایک تنقیدی مطالعہ اسی متن کے اندر سے محکوم کی مزاحمت کی کہانی بھی دریافت کر سکتا ہے۔
Works cited
Tabaqat-i-Nasiri – Banglapedia, accessed September 17, 2025, https://en.banglapedia.org/index.php/Tabaqat-i-Nasiri
PERSIAN Topic- Tabaqat-i-Nasiri Online Class Materials Dr. Sk Md Hafijur – L.S.College, Muzaffarpur, accessed September 17, 2025, http://www.lscollege.ac.in/sites/default/files/e-content/E%20-%20Content%20of%20Persian%20M.A.-IVth%20Sem.%20Tabqat-i-Nasiri.pdf
Minhaj-i Siraj Juzjani – Wikipedia, accessed September 17, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Minhaj-i_Siraj_Juzjani
منہاج سراج جوزجانی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed September 17, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%86%DB%81%D8%A7%D8%AC_%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%AC_%D8%AC%D9%88%D8%B2%D8%AC%D8%A7%D9%86%DB%8C
Tabaqat-i-Nasiri Ziauddin Barani – NAS College, Meerut, accessed September 17, 2025, https://www.nascollege.org/econtent/ecotent-10-4-20/DR%20SMITA%20SHARMA/Tabaqat%2011-4.pdf
RBSI – Digital Rare Book: TABAQAT-I-NASIRI By Minhaj-i-Siraj of Juzjani Edited by W.Nassau Lees Printed at College Press, calcutta – 1864 Read Book Online: http://bit.ly/18fvsLU Download pdf Book: http:/, accessed September 17, 2025, https://www.rarebooksocietyofindia.org/postDetail.php?id=196174216674_10151613788306675
طبقات ناصری – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed September 17, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D8%A8%D9%82%D8%A7%D8%AA_%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1%DB%8C
Tabaqat-i-Nasiri-Volume-1.pdf – Cristo Raul.org, accessed September 17, 2025, https://www.cristoraul.org/ENGLISH/readinghall/Doors-of-Wisdom/Biographies/BABAR/pdf/Tabaqat-i-Nasiri-Volume-1.pdf
RBSI – Digital Rare Book: TABAQAT-I-NASIRI By Minhaj-i-Siraj of Juzjani Edited by W.Nassau Lees Printed at College Press, Calcutta – 1864 Read Book Online: http://bit.ly/18fvsLU Download pdf Book: http:/, accessed September 17, 2025, https://www.rarebooksocietyofindia.org/postDetail.php?id=196174216674_10152537509241675
Tabaqat-i-Nasiri: Structure, Content, Influence, And Philosophy!, accessed September 17, 2025, https://testbook.com/ias-preparation/tabaqat-i-nasiri
Shahabuddin Khan Meo – Punjab University, accessed September 17, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/salauddin.pdf
The Role of Balban in the Subjugation and Administration of … – ijrpr, accessed September 17, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE12/IJRPR20333.pdf
Balban – Wikipedia, accessed September 17, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Balban
MEWATIS UNDER THE MAMLUK DYNASTY Pankaj Dhanger …, accessed September 17, 2025, https://www.aarhat.com/download-article/533/
The Making of a Region in Medieval India: Mewat from 13 th to 18 th …, accessed September 17, 2025, https://rjhssonline.com/HTML_Papers/Research%20Journal%20of%20Humanities%20and%20Social%20Sciences__PID__2017-8-2-4.html
en.wikipedia.org, accessed September 17, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Balban#:~:text=Balban%20took%20upon%20himself%20the,forests%20and%20ensured%20safe%20roads.
The Advent of Islam and the Making of Muslim Identity in Mewat, 13th to 19th Century, accessed September 17, 2025, https://anvpublication.org/Journals/HTMLPaper.aspx?Journal=International%20Journal%20of%20Reviews%20and%20Research%20in%20Social%20Sciences;PID=2019-7-2-10
