سرحدی باغیوں سے شاہی ہرکاروں تک

0 comment 2 views
سرحدی باغیوں سے شاہی ہرکاروں تک
سرحدی باغیوں سے شاہی ہرکاروں تک

سرحدی باغیوں سے شاہی ہرکاروں تک

ڈاک میوڑہ اور اکبر کی جامع حکمت عملی کا کمال

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

تعارف

Advertisements

صارف کی جانب سے پیش کردہ سوال، “اکبر کی شمولیت کی پالیسی: ڈاک میوڑہ”، مغل شہنشاہ اکبر کی جامع اور کثیر الجہتی ریاستی حکمت عملی کے ایک مخصوص اور لطیف پہلو کا گہرائی سے جائزہ لینے کا متقاضی ہے۔ یہ سوال اکبر کی مذہبی رواداری یا راجپوت اتحاد کی عمومی پالیسیوں کا سرسری جائزہ نہیں، بلکہ اس کی عملی تطبیق اور اسٹریٹجک گہرائی کو ایک مخصوص مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش ہے۔ اصطلاح “ڈاک میوڑہ” اس تجزیے کا مرکزی نکتہ ہے، جو تین کلیدی موضوعات کے سنگم کی نشاندہی کرتی ہے: اکبر کی شمولیت کی پالیسی، مغل سلطنت کا ڈاک کا نظام، اور ایک مخصوص برادری یعنی میوات کے علاقے کے میو، جنہیں ڈاک کے ہرکاروں کے طور پر ملازم رکھا گیا تھا 1۔

اس رپورٹ کا مرکزی مقالہ یہ ہے کہ اکبر کی جانب سے میوات کے میو قبیلے کو شاہی ڈاک اور انٹیلیجنس کے نظام میں بھرتی کرنے کی پالیسی سیاسی حقیقت پسندی اور سماجی انجینئرنگ کا ایک شاہکار تھی۔ یہ ایک ایسی پیچیدہ حکمت عملی تھی جس نے ایک تاریخی طور پر سرکش اور باغی برادری کو علاقائی خطرے سے ریاست کے ایک اہم اثاثے میں تبدیل کر دیا۔ یہ پالیسی شمولیت کی اس قسم کو ظاہر کرتی ہے جو محض اشرافیہ کی مراعات سے آگے بڑھ کر پسماندہ گروہوں کو سلطنت کے انتظامی ڈھانچے میں ضم کرتی ہے 2۔

اس تجزیے کے آغاز میں ہی دو اہم جغرافیائی اور سیاسی اکائیوں کے درمیان فرق واضح کرنا ضروری ہے: میوات، جو دہلی اور آگرہ کے درمیان اسٹریٹجک راہداری میں واقع میو برادری کا وطن ہے، اور میواڑ، جو جنوبی راجستھان کی طاقتور راجپوت ریاست تھی اور رانا پرتاپ کی قیادت میں اپنی مزاحمت کے لیے مشہور تھی 4۔ یہ فرق اکبر کی ریاستی حکمت عملی کی نزاکت اور لچک کو سمجھنے کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ رپورٹ اکبر کے دورِ حکومت کے وسیع فلسفیانہ پس منظر سے لے کر ڈاک میوڑہ پالیسی کے مخصوص طریقہ کار اور اس کے نتائج کا تفصیلی جائزہ پیش کرے گی، تاکہ اکبر کی انتظامی ذہانت کا ایک جامع اور گہرا تجزیہ سامنے آسکے۔

حصہ اول: طرزِ حکمرانی کا فلسفہ: اکبر کی کثرت پر مبنی سلطنت کا ڈھانچہ

شہنشاہ اکبر کے دورِ حکومت کی بنیاد ایک ایسے نظریاتی اور سیاسی ڈھانچے پر رکھی گئی تھی جس نے اس کی مخصوص پالیسیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ اس کی حکمرانی کا بنیادی مقصد ایک وسیع اور متنوع سلطنت کو متحد اور مستحکم کرنا تھا، جس کے لیے اس نے رواداری، مکالمے اور اسٹریٹجک اتحاد پر مبنی ایک جامع فنِ حکمرانی تشکیل دیا۔

صلحِ کل کا نظریہ (آفاقی امن)

اکبر کی حکمرانی کا بنیادی ستون “صلحِ کل” کا نظریہ تھا، جو محض مذہبی رواداری سے بڑھ کر تمام مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان فعال اور دوستانہ مفاہمت کا اصول تھا 3۔ یہ پالیسی نہ صرف ایک متنوع سلطنت کے انتظام کے لیے سیاسی ضرورت تھی بلکہ صوفی فکر سے متاثر ایک گہرا فلسفیانہ عقیدہ بھی تھی 7۔ اس کا مقصد ایک ایسا ہم آہنگ معاشرہ تشکیل دینا تھا جہاں سنی اور شیعہ، یا ترک اور فارسی جیسے گروہوں کے درمیان تنازعات کو غیر جانبداری سے حل کیا جا سکے 8۔ صلحِ کل نے ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جہاں وفاداری کا معیار مذہب یا نسل نہیں بلکہ اہلیت اور ریاست سے وابستگی تھا۔

امتیازی ٹیکسوں کا خاتمہ

اکبر نے اپنی غیر مسلم رعایا کی حمایت حاصل کرنے اور مذہبی مساوات کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم قدم 1563 میں ہندو یاتریوں پر عائد زیارتی ٹیکس اور 1564 میں غیر مسلموں پر عائد جزیہ کا خاتمہ تھا 9۔ یہ اقدامات صرف مالی اصلاحات نہیں تھے بلکہ گہرے سیاسی اعلانات تھے جنہوں نے مذہبی مساوات کی جانب ایک واضح تبدیلی کی علامت پیش کی۔ جزیہ کا خاتمہ، جو گزشتہ ادوار میں غیر مسلموں پر ایک امتیازی ٹیکس کے طور پر عائد کیا جاتا تھا، اس نے نہ صرف ان پر مالی بوجھ کم کیا بلکہ ریاست کی نظر میں تمام رعایا کی برابری کا پیغام بھی دیا 12۔ ان اقدامات نے اکبر کی غیر مسلم رعایا میں وفاداری کے جذبات کو فروغ دیا اور سلطنت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا 11۔

مکالمے اور تالیف کے لیے ادارہ جاتی اختراعات

اکبر کی فکری جستجو اور مختلف مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے کی خواہش نے اسے ادارہ جاتی اختراعات کی طرف راغب کیا۔ 1575 میں فتح پور سیکری میں عبادت خانہ کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جہاں اسلام، ہندو مت، جین مت، زرتشتیت اور عیسائیت کے علماء کو مذہبی اور فلسفیانہ مباحث کے لیے مدعو کیا جاتا تھا 7۔ ان مباحث کا مقصد فکری ہم آہنگی پیدا کرنا اور ایک مشترکہ اخلاقی ڈھانچہ تلاش کرنا تھا۔ اکبر خود ان مباحث میں حتمی ثالث کا کردار ادا کرتا تھا اور دلیل و منطق پر زور دیتا تھا 8۔

اس فکری سفر کا نقطہ عروج 1582 میں دینِ الٰہی کا نفاذ تھا، جسے اکثر ایک نئے مذہب کے طور پر غلط سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت، یہ اکبر کے قریبی درباریوں کے لیے ایک تالیفی فلسفیانہ نظام یا ضابطہ اخلاق تھا، جس میں مختلف مذاہب کے عناصر کو ملا کر آفاقی اقدار پر زور دیا گیا تھا 12۔ اگرچہ اسے وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل نہ ہوسکی، لیکن یہ مذہبی انضمام کے حوالے سے اکبر کے حتمی وژن کی علامت تھا 12۔

راجپوت اشرافیہ کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد

اکبر کی شمولیت کی پالیسی کا ایک اہم ستون اس کی راجپوت پالیسی تھی، جو سفارت کاری، ازدواجی تعلقات اور فوجی طاقت کے امتزاج پر مبنی تھی 16۔ اکبر نے راجپوت شہزادیوں سے شادی کرکے (بغیر ان کا مذہب تبدیل کروائے) اور راجپوت سرداروں کو اعلیٰ فوجی اور انتظامی عہدوں (منصب) پر فائز کرکے اس طاقتور ہندو جنگجو طبقے کی عسکری اور انتظامی صلاحیتوں کو مغل ریاستی ڈھانچے میں ضم کر لیا 13۔ اس پالیسی نے بیشتر راجپوت ریاستوں کی وفاداری کو یقینی بنایا، سلطنت کو مستحکم کیا اور مغلوں کو ہندوستان کے بہادر ترین جنگجو فراہم کیے 17۔

اکبر کی پالیسیاں جامد نہیں تھیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوئیں۔ 1563-64 میں ٹیکسوں کا خاتمہ رعایا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حقیقت پسندانہ اقدامات تھے۔ 1575 میں عبادت خانہ کا قیام اس کی اپنی روحانی جستجو اور قدامت پسند علماء سے مایوسی کے بعد فکری اور مذہبی تحقیق کی طرف ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ 1582 میں دینِ الٰہی کا نفاذ اس ذاتی سفر کے اختتام کی نمائندگی کرتا ہے، جو اس کے تالیفی وژن کو ادارہ جاتی شکل دینے کی ایک کوشش تھی۔ یہ ارتقا ظاہر کرتا ہے کہ اکبر کی “شمولیت” کئی سطحوں پر کام کرتی تھی: سیاسی، مالی اور فکری، اور اس کے بارے میں اس کی اپنی سمجھ اس کے پورے دورِ حکومت میں گہری ہوتی گئی۔

اسی طرح، صلحِ کل کا فلسفہ اگرچہ نظریاتی طور پر مضبوط تھا، لیکن اس کا اطلاق انتہائی عملی تھا۔ راجپوتوں کی شمولیت صرف رواداری کا مظہر نہیں تھی، بلکہ یہ سلطنت کی توسیع اور تورانی و ایرانی امراء کے اثر و رسوخ کو متوازن کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک ضرورت بھی تھی 16۔ یہ پالیسی ریاستی تعمیر کا ایک آلہ بھی تھی اور ذاتی عقیدے کا اظہار بھی، جو اکبر کی حکمرانی میں نظریہ اور عملی سیاست کے حسین امتزاج کو ظاہر کرتا ہے۔

حصہ دوم: بے چین سرحد: اکبر سے پہلے میوات اور میو

اکبر کی ڈاک میوڑہ پالیسی کو سمجھنے کے لیے اس مخصوص علاقے کے پس منظر کا جائزہ لینا ضروری ہے جس کے لیے یہ پالیسی وضع کی گئی تھی۔ میوات اور وہاں آباد میو برادری نے صدیوں سے دہلی کے حکمرانوں کے لیے ایک مستقل چیلنج کی حیثیت اختیار کر رکھی تھی، اور اکبر کا نقطہ نظر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک انقلابی قدم تھا۔

میوات کا جغرافیہ اور اسٹریٹجک اہمیت

میوات کوئی باقاعدہ انتظامی اکائی نہیں بلکہ ایک مخصوص ثقافتی اور تاریخی خطہ تھا، جو دہلی، آگرہ اور جے پور کے درمیان بننے والے اہم تکون میں واقع تھا 2۔ اس علاقے کا جغرافیہ اراولی کی پہاڑیوں پر مشتمل تھا، جو باغی گروہوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ کا کام دیتا تھا 4۔ اس کی اسٹریٹجک اہمیت اس حقیقت میں پوشیدہ تھی کہ میوات میں عدم استحکام براہ راست مغلوں کے مرکزی علاقوں کو خطرے میں ڈال سکتا تھا، اہم تجارتی راستوں میں خلل ڈال سکتا تھا اور شاہی دارالحکومتوں کو خوراک کی فراہمی کو متاثر کر سکتا تھا 2۔ اس لیے، اس خطے پر کنٹرول مغل سلطنت کے استحکام کے لیے ناگزیر تھا۔

میو برادری: شناخت اور شہرت

میوات کی غالب آبادی میو برادری پر مشتمل تھی، جو ایک مسلم نسلی گروہ ہے جس کی ثقافت انتہائی پیچیدہ اور مخلوط تھی۔ وہ راجپوت نسل کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ان کے رسم و رواج جاٹ اور گجر جیسی دیگر مقامی برادریوں سے بھی ملتے جلتے تھے 23۔ اسلام قبول کرنے کے صدیوں بعد بھی، انہوں نے بہت سی ہندو روایات کو برقرار رکھا، جیسے کہ اپنے ہی گوترا میں شادی نہ کرنا 23۔

دہلی سلطنت اور ابتدائی مغل دور کی تاریخی دستاویزات میں میو (یا میواتی) کو مسلسل ایک سرکش، جنگجو اور انتہائی آزاد پسند قوم کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو چھاپہ مار کارروائیوں، لوٹ مار اور شاہراہوں پر ڈکیتی کے لیے بدنام تھے 1۔ وہ صدیوں تک مرکزی حکومت کے لیے ایک مستقل سیکیورٹی چیلنج بنے رہے، اور سلطان غیاث الدین بلبن جیسے حکمرانوں نے انہیں دبانے کے لیے سفاکانہ مہمات بھی چلائیں 21۔

مرکزی اتھارٹی کے خلاف میو مزاحمت

میو مزاحمت کی تاریخ بہت طویل ہے، جس کا ایک اہم باب 1527 میں لڑی جانے والی خانوا کی جنگ ہے۔ اس فیصلہ کن جنگ میں میواتی سردار حسن خان میواتی نے بابر کے خلاف رانا سانگا کا ساتھ دیا 21۔ بابر نے اپنی یادداشتوں، بابرنامہ میں، حسن خان کو ایک “ناشکرا اور کافر مرتد” قرار دیا ہے، جو میواتیوں کے بارے میں مغلوں کے ابتدائی تاثرات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ناقابل اعتبار اور باغی ہیں 28۔ یہ تاریخی دشمنی اس پس منظر کو تشکیل دیتی ہے جس میں اکبر نے ایک یکسر مختلف اور جدید طرزِ عمل اپنایا۔

میوات محض ایک غیر قانونی سرحدی علاقہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی “منفی جگہ” تھی جس کی شناخت مرکزی اتھارٹی کی مخالفت سے قائم ہوئی تھی۔ اس کی شناخت ہی مزاحمت سے عبارت تھی۔ اکبر کے لیے، یہ صورتحال دوہری حقیقت پیش کرتی تھی: ایک طرف یہ ایک مستقل سیکیورٹی خطرہ تھا جو وسائل کو ضائع کرتا تھا، اور دوسری طرف، یہ جفاکش اور لچکدار لوگوں کا ایک ایسا گروہ تھا جن کی صلاحیتوں کو اگر صحیح سمت دی جائے تو وہ ریاست کے لیے انتہائی قیمتی ثابت ہو سکتے تھے۔ گزشتہ حکمرانوں نے میوات کو فوجی طاقت سے دبانے کی کوشش کی تھی، جو اس کے دشوار گزار جغرافیے کی وجہ سے مشکل اور مہنگا ثابت ہوا تھا 21۔ اکبر کی ذہانت اس “مسئلے” کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے میں تھی۔ یہ پوچھنے کے بجائے کہ “ہم میوؤں کو کیسے کچل سکتے ہیں؟”، اس نے پوچھا، “میو کس چیز میں ماہر ہیں، اور ریاست اسے کیسے استعمال کر سکتی ہے؟” جواب تھا ان کی جسمانی برداشت، رفتار اور دشوار گزار علاقے کا علم—وہی خوبیاں جو انہیں موثر حملہ آور بناتی تھیں 2۔ اس سوچ نے ایک اسٹریٹجک بوجھ کو ایک ممکنہ انتظامی اثاثے میں بدل دیا۔

حصہ سوم: سلطنت کے اعصاب: مغل ڈاک اور انٹیلیجنس نیٹ ورک

میو برادری کو جس انتظامی نظام میں ضم کیا گیا، وہ مغل سلطنت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ نظام، جسے عام طور پر ڈاک کہا جاتا ہے، محض خط و کتابت کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ شاہی طاقت اور کنٹرول کا ایک اہم آلہ تھا۔ اس کی کارکردگی پر سلطنت کا استحکام اور مرکزی حکومت کی گرفت منحصر تھی۔

مغل ڈاک کے نظام کا ڈھانچہ

مغل ڈاک کا نظام انتہائی منظم تھا اور یہ شاہی شاہراہوں پر باقاعدہ وقفوں سے قائم کی گئی چوکیوں (ڈاک چوکی) کے ایک نیٹ ورک پر مشتمل تھا 30۔ یہ چوکیاں چوبیس گھنٹے کام کرتی تھیں اور ان پر ہرکارے (پیدل قاصد)، گھوڑے اور بعض اوقات اونٹ بھی ہر وقت تیار رہتے تھے تاکہ ڈاک کی نقل و حرکت بلا تعطل اور تیزی سے جاری رہے 30۔

یہ نظام دہلی سلطنت اور شیر شاہ سوری کے قائم کردہ ماڈلز سے وراثت میں ملا تھا، جنہیں اکبر نے مزید بہتر اور وسیع کیا 34۔ اکبر کا کارنامہ اسے باقاعدہ بنانا اور اس کی توسیع کرنا تھا، جس سے یہ اس کی مرکزی انتظامیہ کا ایک بنیادی ستون بن گیا 32۔ یہ نظام ریلے سسٹم پر کام کرتا تھا، جہاں ایک ہرکارا ایک مخصوص فاصلہ (عموماً 8-10 میل) طے کرکے ڈاک اگلے ہرکارے کے حوالے کر دیتا تھا، جو اسے آگے لے جاتا تھا 38۔

ڈاک کے نظام کا عملہ

اس نظام کا انحصار مختلف قسم کے قاصدوں پر تھا۔ ان میں فوری پیغامات کے لیے گھڑ سوار قاصد (الاق) اور پیدل چلنے والے ہرکارے شامل تھے، جنہیں عام طور پر ہرکارہ یا ڈاکیا کہا جاتا تھا 31۔ تاریخی ذرائع میں پیدل ہرکاروں کے لیے ایک خاص اصطلاح میوڑہ بھی استعمال ہوئی ہے، جو اپنی رفتار اور برداشت کے لیے مشہور تھے 36۔ تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اکبر کے دور میں یہ کردار خاص طور پر میو برادری سے منسلک تھا، جس سے “ڈاک میوڑہ” کی اصطلاح وجود میں آئی 1۔

ڈاک اور انٹیلیجنس کا انضمام

مغل ڈاک کا نظام صرف ڈاک کی ترسیل تک محدود نہیں تھا، بلکہ یہ مغل انٹیلیجنس نیٹ ورک کی ریڑھ کی ہڈی بھی تھا 41۔ ایک وسیع سلطنت پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے معلومات کا تیز رفتار بہاؤ ناگزیر تھا 37۔ صوبوں میں سرکاری خبر نویسوں اور جاسوسوں کا ایک پورا نظام موجود تھا، جن میں واقعہ نویس (روزمرہ کے واقعات قلمبند کرنے والے)، سوانح نویس (خفیہ خبر رساں) اور خفیہ نویس (انتہائی خفیہ ایجنٹ) شامل تھے 37۔ ان کی رپورٹیں ڈاک چوکی کے نظام کے ذریعے مرکز کو بھیجی جاتی تھیں۔

خود ہرکارے اور میوڑے بھی نچلی سطح کے انٹیلیجنس جمع کرنے والوں کا کردار ادا کرتے تھے۔ وہ اپنے راستوں پر مقامی واقعات، افواہوں اور ممکنہ شورشوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرکے حکام کو رپورٹ کرتے تھے 38۔ اس طرح، وہ سلطنت کی آنکھ اور کان کا کام دیتے تھے، جو زمینی حقائق سے مرکز کو آگاہ رکھتے تھے۔

مغل ڈاک کا نظام شاہی طاقت اور مرکزیت کا براہ راست آلہ تھا۔ معلومات کا تیز اور قابل اعتماد بہاؤ شہنشاہ کو صوبائی گورنروں کی نگرانی کرنے، فوجی نقل و حرکت پر نظر رکھنے، محصولات کی رپورٹیں وصول کرنے اور بغاوتوں پر فوری ردعمل دینے کے قابل بناتا تھا۔ معلومات پر کنٹرول سلطنت پر کنٹرول کے مترادف تھا۔ اس لیے اس نظام میں خدمات انجام دینا انتہائی اعتماد کا عہدہ تھا۔ یہ نظام فاصلے کے چیلنج پر قابو پانے کا ایک تکنیکی اور تنظیمی حل تھا 31۔ معلومات (احکامات، انٹیلیجنس رپورٹس) کو ممکنہ بغاوتوں کے منظم ہونے سے زیادہ تیزی سے پہنچا کر، یہ نظام طاقتور علاقائی امراء اور گورنروں پر شہنشاہ کی مرکزی اتھارٹی کو مضبوط کرتا تھا 37۔ اس طرح، ڈاک کا نظام محض ایک انتظامی سہولت نہیں تھا بلکہ طاقت کے اظہار اور شاہی اتحاد کی ایک بنیادی ٹیکنالوجی تھی۔

حصہ چہارم: ڈاک میوڑہ کی تشکیل: اسٹریٹجک شمولیت کی ایک پالیسی

یہ سیکشن اس رپورٹ کا تجزیاتی مرکز ہے، جو پچھلے حصوں کے نتائج کو یکجا کرکے ڈاک میوڑہ پالیسی کی تفصیل سے وضاحت کرتا ہے۔ یہ پالیسی اکبر کی اس صلاحیت کا مظہر ہے کہ وہ کس طرح ایک دیرینہ مسئلے کو ایک موقع میں تبدیل کر سکتا تھا اور کس طرح انتظامی اقدامات کو سیاسی استحکام کے لیے استعمال کرتا تھا۔

اکبر کی جدت: ایک مسئلے میں صلاحیت کی پہچان

اپنے پیشروؤں کے برعکس، اکبر نے میوؤں کی جنگی توانائی اور جسمانی صلاحیت کو ایک ایسے مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا جسے کچلنے کی ضرورت ہو، بلکہ ایک ایسے وسیلے کے طور پر دیکھا جسے استعمال کیا جا سکتا ہے 2۔ اس نے یہ بھانپ لیا کہ وہی مہارتیں جو انہیں موثر حملہ آور بناتی تھیں—جیسے رفتار، برداشت اور مقامی علاقے کا گہرا علم—ایک بہترین ڈاک ہرکارے اور جاسوس کے لیے مثالی قابلیتیں تھیں 2۔ یہ سوچ روایتی فوجی حکمت عملی سے یکسر مختلف تھی، جو صرف جبر اور طاقت کے استعمال پر یقین رکھتی تھی۔ اکبر نے مسئلے کی نوعیت کو بدل دیا؛ اس نے میوؤں کی صلاحیتوں کو ریاست کے مفاد کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا راستہ تلاش کیا۔

بھرتی کی پالیسی

درباری مورخ ابوالفضل کے مطابق، اکبر نے بڑی تعداد میں نوجوان اور مضبوط جسم کے میو مردوں کو شاہی ملازمت میں بھرتی کرنے کی ایک مخصوص پالیسی نافذ کی 2۔ انہیں دو اہم کرداروں میں تعینات کیا گیا: ڈاک میوڑہ (ڈاک کے قاصد) اور خدمتیہ (ایک ایسی اصطلاح جس کا مطلب محل کے محافظ، جاسوس یا ذاتی خدمت گار ہو سکتا ہے) 1۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں نہ صرف مواصلاتی نیٹ ورک میں بلکہ اقتدار کے مراکز کے قریب سیکیورٹی کے نظام میں بھی ضم کیا گیا تھا۔ یہ محض ملازمت کی فراہمی نہیں تھی، بلکہ ریاست کے اہم ترین شعبوں میں ان کی شمولیت تھی۔

باغیوں سے وفادار خادموں تک: تبدیلی کا بیانیہ

ابوالفضل نے اس پالیسی کو ایک کامیاب تبدیلی کے طور پر واضح طور پر پیش کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میو، جو کبھی “چوری اور شاہراہوں پر ڈکیتی کے لیے بدنام تھے”، اکبر کی بدولت “وفادار اور فرمانبردار خادموں” میں تبدیل ہو گئے 2۔ یہ بیانیہ شہنشاہ کی دانشمندی اور مغل حکمرانی کے تہذیبی اثر و رسوخ کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مغل دربار اس پالیسی کو اپنی ایک بڑی کامیابی سمجھتا تھا، جس نے نہ صرف ایک علاقے کو پرامن بنایا بلکہ ایک “غیر مہذب” گروہ کو “مہذب” بھی بنایا۔

شمولیت کی اسٹریٹجک منطق

یہ پالیسی کئی پہلوؤں سے ایک اسٹریٹجک کامیابی تھی۔

  1. علاقے کو پرامن بنانا: اس پالیسی نے میو آبادی کے سب سے بے چین طبقے کو باعزت روزگار اور سماجی ترقی کا راستہ فراہم کیا، جس سے انہیں شاہی نظام میں ایک حصہ دار بنایا گیا اور بغاوت کی ترغیب کم ہوگئی 2۔
  2. کارکردگی میں اضافہ: اس نے آگرہ اور دہلی کے درمیان اور میوات کے مشکل علاقے سے گزرنے والے اہم ڈاک کے راستوں پر سب سے زیادہ اہل افراد کو تعینات کیا، جس سے شاہی مواصلات کی رفتار اور قابل اعتمادی میں اضافہ ہوا 2۔
  3. انٹیلیجنس کا حصول: اس نے بے مثال مقامی علم رکھنے والے افراد کو ریاست کے انٹیلیجنس جمع کرنے والے نیٹ ورک میں شامل کیا، جس سے ایک پہلے سے غیر شفاف علاقہ ریاست کے لیے قیمتی معلومات کا ذریعہ بن گیا 1۔

یہ پالیسی ریاستی حکمت عملی کے “شکاری سے رکھوالا” بنانے کے اصول کی ایک بہترین مثال ہے۔ اکبر نے نہ صرف ایک عام معافی کی پیشکش کی، بلکہ ایک ایسی مخصوص ملازمت دی جو میوؤں کی موجودہ مہارتوں کے لیے بالکل موزوں تھی۔ اس نے صرف ان کی وفاداری ہی نہیں، بلکہ ان کی صلاحیتوں کو بھی ریاست کے لیے استعمال کیا۔ یہ محض سرپرستی یا جبر سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور موثر حکمت عملی ہے۔ ریاست کو ڈاک کے نظام کے لیے ماہر ہرکاروں کی ضرورت تھی، اور میوؤں کے پاس یہ مہارتیں نسلوں سے دشوار گزار ماحول میں رہنے اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہنے کی وجہ سے موجود تھیں۔ انہیں بھرتی کرکے، اکبر نے ایک ہی پالیسی سے دو مسائل حل کیے: اس نے ایک اہم انتظامی ضرورت کو پورا کیا اور ساتھ ہی ایک سیکیورٹی خطرے کو بھی بے اثر کر دیا۔

اس طرح، ڈاک میوڑہ پالیسی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اکبر کے لیے “شمولیت” صرف ایک بلند و بانگ نظریہ نہیں تھا بلکہ حکمرانی کا ایک عملی آلہ تھا۔ یہ سرحدوں کو پرامن بنانے، انتظامی کارکردگی کو بہتر بنانے اور مرکزی کنٹرول کو مضبوط کرنے کی ایک ٹیکنالوجی تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انضمام کی “نرم طاقت” صرف فوجی طاقت کی “سخت طاقت” سے زیادہ موثر اور پائیدار ثابت ہوسکتی ہے۔

حصہ پنجم: باہمی انحصار کے اثرات: میو برادری اور مغل ریاست پر نتائج

ڈاک میوڑہ پالیسی کے طویل مدتی نتائج میو برادری اور مغل ریاست دونوں کے لیے گہرے اور باہم مربوط تھے۔ یہ پالیسی ایک سماجی اور سیاسی معاہدے کی حیثیت رکھتی تھی جس نے دونوں فریقین کے لیے فوائد پیدا کیے، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار ریاست کے استحکام پر تھا۔

میو برادری پر سماجی و اقتصادی اثرات

  • اقتصادی استحکام اور کسان سازی: ریاستی ملازمت نے میو برادری کو ایک مستقل اور جائز آمدنی کا ذریعہ فراہم کیا، جس سے لوٹ مار پر ان کا اقتصادی انحصار کم ہوا 25۔ یہ عمل، مغل انتظامی دباؤ کے ساتھ مل کر، انہیں نیم خانہ بدوش اور گلہ بانی کے طرزِ زندگی سے بتدریج ایک مستقل اور زراعت پیشہ برادری بننے کی طرف لے گیا، جسے “کسان سازی” (Peasantization) کہا جاتا ہے 46۔
  • سماجی انضمام اور شناختی تبدیلی: شاہی ملازمت میں انضمام نے میوؤں کو مغل ریاست کی وسیع تر ثقافت کے قریب لایا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی منفرد شناخت برقرار رکھی، لیکن ریاستی خادموں کے طور پر ان کے کردار نے مرکزی اتھارٹی کے ساتھ ان کے تعلقات کو دشمنی سے وفاداری اور خدمت میں بدل دیا 2۔ اس نے انہیں شاہی درجہ بندی میں ایک نیا اور زیادہ باعزت مقام دیا، اور انہیں “سرکش قبائل” کے زمرے سے نکال کر “ریاست کے خادم” بنا دیا۔
  • خدمت کی دو دھاری تلوار: جہاں اس ملازمت نے مواقع فراہم کیے، وہیں اس نے میوؤں کو ریاستی نگرانی کے آلے میں بھی تبدیل کر دیا۔ جاسوسوں اور محافظوں کے طور پر ان کے کردار کا مطلب تھا کہ وہ اب سلطنت کے جبری نظام کا حصہ تھے، جو ان کی اپنی برادری اور پڑوسی گروہوں کے ساتھ پیچیدہ سماجی حرکیات پیدا کر سکتا تھا۔ تاریخی ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب اورنگزیب کے بعد مرکزی مغل ریاست کمزور ہوئی تو بہت سے بے روزگار ڈاک میوڑہ ڈکیتی کی طرف لوٹ گئے، اور اس کے لیے انہوں نے شاہی ملازمت میں حاصل کردہ تجارتی راستوں کے علم اور مہارتوں کا استعمال کیا 1۔

مغل ریاست کے لیے فوائد

  • میوات کا انتظامی انضمام: یہ پالیسی میوات کے علاقے کو مغل سلطنت میں انتظامی اور سیاسی طور پر ضم کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتی تھی۔ اکبر نے اس خطے کو آگرہ اور دہلی کے صوبوں (صوبہ) کے تحت باقاعدہ انتظامی اکائیوں (سرکار اور پرگنہ) میں تقسیم کیا، اور اسے پہلی بار براہ راست شاہی حکمرانی کے تحت لایا 2۔
  • بہتر سیکیورٹی اور انٹیلیجنس: میوات کے پرامن ہونے سے دو اہم شاہی دارالحکومتوں، آگرہ اور دہلی، کے درمیان اہم راہداری محفوظ ہوگئی۔ میوؤں کی وفاداری نے ریاست کو ایک اسٹریٹجک طور پر اہم علاقے میں ایک انمول انٹیلیجنس نیٹ ورک فراہم کیا 2۔
  • حکمرانی کا ایک قابلِ تقلید ماڈل: ڈاک میوڑہ پالیسی کی کامیابی نے دیگر پسماندہ یا باغی گروہوں سے نمٹنے کے لیے ایک نمونہ فراہم کیا۔ اس نے سلطنت کی سرحدوں کو مستحکم کرنے کے لیے شمولیت اور عملی انضمام کو ایک موثر آلے کے طور پر ثابت کیا۔

مغل ریاست نے اپنی انتظامی اور روزگار کی پالیسیوں کے ذریعے سماجی تبدیلی کے ایک طاقتور محرک کے طور پر کام کیا۔ ڈاک میوڑہ پالیسی نے نسل در نسل میو برادری کی اقتصادی بنیاد اور سماجی شناخت کو فعال طور پر تبدیل کیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک قبل از جدید ریاست کس طرح عظیم اعلانات کے بجائے بھرتی اور روزگار کے معمول کے بیوروکریٹک عمل کے ذریعے سماجی تبدیلی لا سکتی تھی۔ میوؤں کی وفاداری باہمی اور مشروط تھی۔ یہ ریاست کی روزگار اور استحکام فراہم کرنے کی صلاحیت سے منسلک تھی۔ یہ حقیقت کہ 18ویں صدی میں مرکزی حکومت کے کمزور ہونے کے بعد بہت سے ڈاک میوڑہ شاہراہوں پر ڈکیتی کی طرف لوٹ گئے 1، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا انضمام عملی تھا، مطلق نہیں۔ ان کی وفاداری اس ادارے سے تھی جو انہیں روزگار فراہم کرتا تھا، اور جب وہ ادارہ ٹوٹ گیا، تو وہ پرانی بقا کی حکمت عملیوں کی طرف لوٹ گئے، اگرچہ اب وہ ریاستی خدمت سے حاصل کردہ مہارتوں اور علم سے لیس تھے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اکبر کی پالیسی ایک شاندار لیکن عارضی حل تھی، جس کی کامیابی خود مرکزی ریاست کی صحت سے جڑی ہوئی تھی۔

حصہ ششم: دو پالیسیوں کا موازنہ: میوات بمقابلہ میواڑ

اکبر کی ریاستی حکمت عملی کی پیچیدگی اور لچک کو پوری طرح سمجھنے کے لیے میوات کے ساتھ اس کی پالیسی کا موازنہ میواڑ کے ساتھ اس کے تعلقات سے کرنا ضروری ہے۔ یہ تقابلی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ اکبر کے پاس “شمولیت” کا کوئی ایک، جامد فارمولا نہیں تھا، بلکہ اس کا نقطہ نظر ہر سیاسی اکائی کی نوعیت کے مطابق انتہائی مخصوص اور موزوں تھا۔

میواڑ: محکومیت اور اشرافیہ کی شمولیت کی پالیسی

اکبر کے میواڑ کے ساتھ تعلقات طویل اور شدید فوجی تصادم پر مبنی تھے 47۔ اس میں 1568 میں چتوڑ کا خونی محاصرہ اور 1576 میں رانا پرتاپ کے خلاف ہلدی گھاٹی کی مشہور جنگ شامل تھی 48۔ میواڑ اور دیگر بڑی راجپوت ریاستوں کے ساتھ اکبر کا مقصد سماجی تبدیلی نہیں بلکہ سیاسی تابعداری حاصل کرنا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ مغل بالادستی کو تسلیم کریں، خراج ادا کریں اور ضرورت پڑنے پر فوجی مدد فراہم کریں 48۔

اس مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیے جانے والے اوزار بھی مختلف تھے: بڑے پیمانے پر فوجی مہمات، حکمران اشرافیہ کو اعلیٰ منصب اور صوبائی گورنری کی پیشکش، اور ازدواجی تعلقات کی کوششیں (جنہیں میواڑ نے مشہور طور پر مسترد کر دیا) 16۔ اکبر کے جانشینوں کے دور میں میواڑ کی حتمی اطاعت خصوصی مراعات کے ساتھ ہوئی، جیسے کہ رانا کو دربار میں ذاتی حاضری سے مستثنیٰ قرار دینا—ایک ایسی رعایت جو دیگر راجپوت حکمرانوں کو نہیں دی گئی تھی 50۔

میوات: انضمام اور سماجی تبدیلی کی پالیسی

میواڑ کے نقطہ نظر کے برعکس، میوات کے ساتھ پالیسی کا مقصد کسی حریف اشرافیہ سے مذاکرات کرنا نہیں تھا، بلکہ نچلی سطح پر ایک بے چین آبادی کو پرامن بنانا اور ریاست میں ضم کرنا تھا۔ یہاں بنیادی آلہ اعلیٰ سطحی سفارت کاری یا بڑی فوجیں نہیں، بلکہ نچلی سطح پر انتظامی بھرتی (ڈاک میوڑہ) تھی۔ توجہ عام میو نوجوانوں پر مرکوز تھی، نہ کہ ان کے سرداروں پر (خانزادہ اشرافیہ

کو الگ سے زمیندار کے طور پر ضم کیا گیا تھا) 2۔

تقابلی تجزیہ

یہ براہ راست موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ اکبر کی “شمولیت کی پالیسی” یکساں نہیں تھی۔ اس کا نقطہ نظر اس سیاسی اکائی کی مخصوص نوعیت کے مطابق انتہائی موزوں تھا۔ میواڑ جیسی طاقتور اور مرکزی ریاستوں کے ساتھ، اس نے غلبے کے لیے ایک ہم پلہ جدوجہد کی، جس کا مقصد انہیں ماتحت اتحادی بنانا تھا۔ میوؤں جیسی غیر مرکزی اور قبائلی برادریوں کے ساتھ، اس نے کمزور قیادت کو نظرانداز کیا اور آبادی کو براہ راست ریاستی مشینری کے نچلے درجوں میں ضم کر لیا، جس سے ان کی منظم مزاحمت کی صلاحیت کو اندر سے ہی ختم کر دیا گیا۔

خصوصیتمیواتمیواڑ
غالب برادریمیو (قبائلی، مخلوط العقیدہ مسلمان) 23سسودیا راجپوت (ہندو جنگجو ذات) 6
سیاسی ڈھانچہغیر مرکزی قبائلی سرداریاں 22مرکزی جاگیردارانہ ریاست 16
اکبر سے پہلے کی حیثیتبے چین سرحد؛ مستقل باغی 4طاقتور، آزاد علاقائی ریاست 48
اکبر کی بنیادی حکمت عملیسماجی انضمام اور انتظامی شمولیت 2فوجی فتح اور سیاسی محکومیت/اتحاد 48
کلیدی پالیسی کے اوزارنچلی سطح کی ریاستی ملازمت میں بھرتی (ڈاک میوڑہ، خدمتیہ) 2محاصرے (مثلاً چتوڑ)، میدانی جنگیں (ہلدی گھاٹی)، ازدواجی اتحاد (میواڑ نے مسترد کیا)، دیگر راجپوت قبیلوں کو اعلیٰ منصب دینا 48
بنیادی نتیجہعلاقے کا انضمام اور امن کا قیام 2طویل مزاحمت کے بعد اکبر کے جانشینوں کے دور میں مراعات یافتہ اطاعت 47

نتیجہ

ڈاک میوڑہ کا معاملہ اکبر کی جامع ریاستی حکمت عملی کی عملی تطبیق کو سمجھنے کے لیے ایک طاقتور اور گہری بصیرت فراہم کرتا ہے۔ یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح اس نے میوات کی بے چین سرحد کو میو برادری کو شاہی ڈاک اور انٹیلیجنس نیٹ ورک میں اسٹریٹجک طور پر ضم کرکے تبدیل کر دیا۔ اکبر نے ایک تاریخی طور پر سرکش گروہ کی توانائی اور صلاحیتوں کو جبر سے دبانے کے بجائے ریاست کے مفاد میں استعمال کرنے کا ایک انوکھا راستہ تلاش کیا۔

یہ تجزیہ واضح کرتا ہے کہ اکبر کی پالیسیاں محض اشرافیہ کے ساتھ اتحاد قائم کرنے سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھیں۔ ڈاک میوڑہ کا اقدام نچلی سطح پر انضمام کی ایک حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے، جس میں ایک غیر اشرافیہ، پسماندہ برادری کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں سلطنت کے استحکام اور کارکردگی میں براہ راست حصہ دار بنایا گیا۔ یہ پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ اکبر کے نزدیک شمولیت صرف ایک اخلاقی اصول نہیں بلکہ حکمرانی کا ایک موثر آلہ تھا۔

اس پالیسی کی وسیع تر اہمیت اس کے ریاستی تعمیر کے منفرد ماڈل میں مضمر ہے، جو صرف فتح یا ثقافتی یکسانیت کے بجائے عملی سماجی انجینئرنگ اور مقامی مہارتوں کے استعمال پر انحصار کرتا تھا۔ ڈاک میوڑہ کی کہانی مغل تاریخ میں محض ایک حاشیہ نہیں، بلکہ ایک کثرت پر مبنی اور مربوط سلطنت کے لیے اکبر کے وژن کی گہرائی، لچک اور ذہانت کا ایک گہرا ثبوت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سلطنت کے اعصاب کو، جزوی طور پر، انہی لوگوں نے طاقت بخشی تھی جو کبھی انہیں کاٹنا چاہتے تھے۔

Works cited

  1. ‘dak-runners’ to ‘bandit gangs’ : a historical trajectory of dak-mewras or meoras 1 in central india – ResearchGate, accessed on October 16, 2025, https://www.researchgate.net/publication/383547184_’DAK-RUNNERS’_TO_’BANDIT_GANGS’_A_HISTORICAL_TRAJECTORY_OF_DAK-MEWRAS_OR_MEORAS_1_IN_CENTRAL_INDIA
  2. The Making of a Region in Medieval India: Mewat from 13 th to 18 th …, accessed on October 16, 2025, https://rjhssonline.com/HTML_Papers/Research%20Journal%20of%20Humanities%20and%20Social%20Sciences__PID__2017-8-2-4.html#:~:text=During%20the%20reign%20of%20Akbar,subas%20of%20Agra%20and%20Delhi.
  3. The Politics of Inclusion: Akbar’s Approach to Religious and Cultural Diversity in Governance – R Discovery, accessed on October 16, 2025, https://discovery.researcher.life/article/the-politics-of-inclusion-akbar-s-approach-to-religious-and-cultural-diversity-in-governance/d851a56767353a14a2c6c67fe9abb307
  4. The Meos of Mewat : A Historical Perspective – ijrpr, accessed on October 16, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE6/IJRPR14628.pdf
  5. History of Mewar: from earliest times to 1751 A.D., accessed on October 16, 2025, https://ia801801.us.archive.org/29/items/dli.ministry.14106/19485.61324_text.pdf
  6. Imagining the Rajput past in Mughal-era Mewar (Chapter 5) – The Last Hindu Emperor, accessed on October 16, 2025, https://www.cambridge.org/core/books/last-hindu-emperor/imagining-the-rajput-past-in-mughalera-mewar/D30E6130D14905A9D7CD06E52E9071DF
  7. Akbar’s Tolerance: Principles & Impact – StudySmarter, accessed on October 16, 2025, https://www.studysmarter.co.uk/explanations/history/the-mughal-empire/akbars-tolerance/
  8. The Deep Roots of Mughal Tolerance – JSTOR Daily, accessed on October 16, 2025, https://daily.jstor.org/the-deep-roots-of-mughal-tolerance/
  9. Akbar’s Religious Policy – Rest The Case, accessed on October 16, 2025, https://restthecase.com/knowledge-bank/akbar-s-religious-policy
  10. [Solved] Akbar abolished pilgrimage tax in…………….. and jizya – Testbook, accessed on October 16, 2025, https://testbook.com/question-answer/akbar-abolished-pilgrimage-tax-in–681c6d228b9dc497585eeeac
  11. Religious Policy of Akbar, Sulh-i-Kul, Jizya tax, Din-i-Ilahi – Vajiram & Ravi, accessed on October 16, 2025, https://vajiramandravi.com/upsc-exam/religious-policy-of-akbar/
  12. Akbar’s Religious Tolerance Policy | PDF – Scribd, accessed on October 16, 2025, https://www.scribd.com/document/667377683/akbar-National-spirit
  13. What was a key characteristic of Akbar’s religious policies? – Too Lazy To Study, accessed on October 16, 2025, https://www.toolazytostudy.com/history-essays/what-was-a-key-characteristic-of-akbar’s-religious-policies%3F
  14. Jizya – (World History – 1400 to Present) – Vocab, Definition, Explanations | Fiveable, accessed on October 16, 2025, https://fiveable.me/key-terms/world-history-since-1400/jizya
  15. Akbar – Wikipedia, accessed on October 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Akbar
  16. Rajput Policy of Akbar, Evolution, Features, Reasons, Impact, accessed on October 16, 2025, https://vajiramandravi.com/upsc-exam/rajput-policy-of-akbar/
  17. Akbar’s Relations With The Rajputs | PDF – Scribd, accessed on October 16, 2025, https://www.scribd.com/document/321945786/Akbar-s-Relations-With-the-Rajputs
  18. Rajput Policy Of Akbar: Features, Phases, Reasons, Impacts & UPSC Notes – Testbook, accessed on October 16, 2025, https://testbook.com/ias-preparation/rajput-policy-of-akbar
  19. Rajput Policy of Akbar – self study history, accessed on October 16, 2025, https://selfstudyhistory.com/2020/04/06/rajput-policy-of-akbar/
  20. Rajput Policy of Akbar – UPSC Notes – LotusArise, accessed on October 16, 2025, https://lotusarise.com/rajput-policy-of-akbar/
  21. Shahabuddin Khan Meo – Punjab University, accessed on October 16, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/salauddin.pdf
  22. Socio-Political Perspective on the Origin and Evolution of the Meo Community – ijrpr, accessed on October 16, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE8/IJRPR16431.pdf
  23. Meo (ethnic group) – Wikipedia, accessed on October 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Meo_(ethnic_group)
  24. Literature & Culture – Mewati Dunya, accessed on October 16, 2025, https://mewatidunya.com/cultures/detail/36/Meo+History
  25. THE ORIGIN AND DEVELOPMENT OF THE MEO COMMUNITY: A SOCIO-POLITICAL PERSPECTIVE – International Journal of Information Movement, accessed on October 16, 2025, https://www.ijim.in/files/2023/October/Vol%208%20Issue%20V%2026-30%20%20Paper%205%20The%20Origin%20and%20Development%20of%20the%20Meo%20Community%20ASocio-pol%20Perspective.pdf?_t=1700054911
  26. What you should know about the Meo Muslims of Mewat – Hindustan Times, accessed on October 16, 2025, https://www.hindustantimes.com/static/Meo-Muslims-of-Mewat/
  27. Mewat – Wikipedia, accessed on October 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mewat
  28. A Study of Babur’s Account of Mewat Region in his Memoir Baburnama – ijrpr, accessed on October 16, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE12/IJRPR20334.pdf
  29. Dak Roads, Dak Runners, and the Reordering of Communication Networks* | International Review of Social History | Cambridge Core, accessed on October 16, 2025, https://www.cambridge.org/core/journals/international-review-of-social-history/article/dak-roads-dak-runners-and-the-reordering-of-communication-networks/94489BAB395094A87AA56AEC21BB4844
  30. Postal history of India: When letters travelled by horses and pigeons …, accessed on October 16, 2025, https://www.indiatvnews.com/photos/india-postal-history-of-india-when-letters-travelled-by-horses-and-pigeons-see-pictures-2025-07-16-999182
  31. The Messenger’s Odyssey: Unveiling the Legacy of Indian Mail Runners – Medium, accessed on October 16, 2025, https://medium.com/@behind_shadows/the-messengers-odyssey-unveiling-the-legacy-of-indian-mail-runners-7c2f65ae5d1e
  32. The History of Post in India – Philately & Stamps – Home.blog, accessed on October 16, 2025, https://philatelist.home.blog/2019/04/17/the-history-of-post-in-india/
  33. Postage stamps and postal history of India – Wikipedia, accessed on October 16, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Postage_stamps_and_postal_history_of_India
  34. Milestones | A timeline of Indian Postal History, accessed on October 16, 2025, http://www.indianphilately.net/milestones.html
  35. Historicity Research Journal, accessed on October 16, 2025, https://www.oldhistoricity.lbp.world/Administrator/UploadedArticle/659.pdf
  36. Postal Communication – Banglapedia, accessed on October 16, 2025, https://en.banglapedia.org/index.php/Postal_Communication
  37. The Institutions of Intelligence and Information under Mughals (1526-1707 AD) – Quest Journals, accessed on October 16, 2025, https://www.questjournals.org/jrhss/papers/vol10-issue6/Ser-5/I10065769.pdf
  38. The Dak Harkara – Maddy’s Ramblings, accessed on October 16, 2025, https://maddy06.blogspot.com/2010/01/dak-harkaka.html
  39. Harkara : Messengers and Dak Runners – Rana Safvi, accessed on October 16, 2025, https://ranasafvi.com/harkara-messengers-and-dak-runners/
  40. How India’s Postal Services Evolved: From Pigeons to Modern Mail, accessed on October 16, 2025, https://www.ojaank.com/blog/detail/how-india-s-postal-services-evolved–from-pigeons-to-modern-mail
  41. The Mughal Empire’s Espionage System – Algor Cards, accessed on October 16, 2025, https://cards.algoreducation.com/en/content/C0TXhEz5/mughal-espionage-system
  42. Mughal Espionage: Techniques, Impact | StudySmarter, accessed on October 16, 2025, https://www.studysmarter.co.uk/explanations/history/the-mughal-empire/mughal-espionage/
  43. Scholars Journal of Arts, Humanities and Social Sciences ISSN 2347-5374 (Online) Pre Colonial Intelligence System in India wi – SAS Publishers, accessed on October 16, 2025, https://saspublishers.com/article/12764/download/
  44. I Am Sharing ‘ASSIGN AP’ With You | PDF | Mughal Empire – Scribd, accessed on October 16, 2025, https://www.scribd.com/document/837885981/I-Am-Sharing-ASSIGN-AP-With-You
  45. Local Administration in the Mughal Empire – UPSC Medieval History Notes – Edukemy, accessed on October 16, 2025, https://edukemy.com/blog/local-administration-in-the-mughal-empire-upsc-medieval-history-notes/
  46. The Making of a Region in Medieval India: Mewat from 13th to 18th Centuries – Research Journal of Humanities and Social Sciences, accessed on October 16, 2025, https://rjhssonline.com/HTMLPaper.aspx?Journal=Research%20Journal%20of%20Humanities%20and%20Social%20Sciences;PID=2017-8-2-4
  47. Write a short note on Akbar’s relationship with the ruler of Mewar – Filo, accessed on October 16, 2025, https://askfilo.com/user-question-answers-smart-solutions/write-a-short-note-on-akbars-relationship-with-the-ruler-of-3336393737333539
  48. Akbar | Biography, History, & Achievements – Britannica, accessed on October 16, 2025, https://www.britannica.com/biography/Akbar
  49. Chronology of Mughal – Mewar war : r/IndianHistory – Reddit, accessed on October 16, 2025, https://www.reddit.com/r/IndianHistory/comments/1hmnwm1/chronology_of_mughal_mewar_war/
  50. Did Mewar get any special privileges upon finally joining Mughal Empire? – Reddit, accessed on October 16, 2025, https://www.reddit.com/r/IndianHistory/comments/1hmy3a6/did_mewar_get_any_special_privileges_upon_finally/
  51. Indian History Part 81 Akbar Section IV The Conquering Emperor 2. Rajputana – Triumph and Tragedy – Sanu Kainikara, accessed on October 16, 2025, https://sanukay.wordpress.com/2020/07/12/indian-history-part-81-akbar-section-iv-the-conquering-emperor-2-rajputana-triumph-and-tragedy/
  52. Mewār painting | Mughal, Rajput & Hindu – Britannica, accessed on October 16, 2025, https://www.britannica.com/art/Mewar-painting
  53. UNIT 5 GROWTH OF MUGHAL EMPIRE: I, accessed on October 16, 2025, http://niu.edu.in/sla/Growth_of_mughal_emprire.pdf
  54. Mughal-Rajput Relations Under Akbar | PDF – Scribd, accessed on October 16, 2025, https://www.scribd.com/document/545556447/Mughal-Rajput-Relations
  55. Akbar’s Rajput Policy – 1 – AIDCSC, accessed on October 16, 2025, http://www.indiancommunities.org/2018/01/30/akbars-rajput-policy-1/

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme