“جنگ نامہ میوات” ایک ادبی، تاریخی اور ثقافتی تجزیہ

0 comment 15 views
"جنگ نامہ میوات" ایک ادبی، تاریخی اور ثقافتی تجزیہ
“جنگ نامہ میوات” ایک ادبی، تاریخی اور ثقافتی تجزیہ

“جنگ نامہ میوات” ایک ادبی، تاریخی اور ثقافتی تجزیہ

Advertisements

محمد کمال الدین کمال سالار پوری

از”۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

حصہ اول: تعارف اور سیاق و سباق

یہ تحریرمحمد کمال الدین کمال سالار پوری کی تصنیف “جنگ نامہ میوات” کا ایک جامع ادبی، تاریخی اور ثقافتی جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کو محض ایک متن کے طور پر دیکھنے کے بجائے، اسے جنوبی ایشیا کی جنگ نامہ کی بھرپور روایت، میوات کی مخصوص تاریخ اور تقسیمِ ہند کے وسیع تر المیے کے تناظر میں رکھ کر پرکھا جائے گا۔ اس تجزیے کا مقصد کتاب کی گہرائی، اس کے بیانیے کی پیچیدگیوں، اور اس کی عصری معنویت کو اجاگر کرنا ہے۔

باب 1: محمد کمال الدین کمال سالار پوری اور ان کا عہد

کسی بھی ادبی کام کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے اس کے خالق اور اس کے عہد کے سماجی و سیاسی حالات سے آگاہی ناگزیر ہے۔ “جنگ نامہ میوات” کے مصنف، محمد کمال الدین کمال سالار پوری، محض ایک شاعر نہیں بلکہ اپنے دور اور اپنی قوم کے اجتماعی کرب کی ایک زندہ علامت تھے۔

شاعر کا تعارف اور ذاتی کرب

کتاب کے پیش لفظ اور شوکت ہاشمی کے تحریر کردہ تعارف سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ کمال سالار پوری ایک قادرالکلام شاعر تھے جنہیں اردو، فارسی اور عربی پر مکمل دسترس حاصل تھی 1۔ ان کی شاعری پر علامہ اقبال کے پیغام، جوش ملیح آبادی کے انقلابی آہنگ اور اختر شیرانی کے رومانوی اسلوب کے گہرے اثرات تھے 1۔ تاہم، ان کی زندگی شدید ذاتی مشکلات اور مصائب سے عبارت تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے آبائی وطن میوات سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں انہیں شدید غربت، بے روزگاری اور مسلسل بیماری کا سامنا کرنا پڑا 1۔ یہ ذاتی کرب ان کی شاعری، خصوصاً “احوالِ واقعی” اور “خیالات کا ہجوم” جیسے ابواب میں پوری شدت سے جھلکتا ہے، جہاں وہ اپنی بے بسی، روحانی اذیت اور معاشی تنگدستی کا نقشہ کھینچتے ہیں:

میں ہی ہوں اب جسے افکار سے فرصت نہیں ملتی

وہ جس کے جسم کو آزار سے راحت نہیں ملتی

جسے ہر سمت سے آفات و محرومی نے گھیرا ہے

درختِ یاس و حرماں کے تلے جس کا بسیرا ہے

1

ان کا یہ ذاتی دکھ صرف انفرادی نہیں رہتا، بلکہ یہ تقسیم کے بعد پاکستان آنے والے لاکھوں میو مہاجرین کے اجتماعی صدمے اور بے سروسامانی کی داستان بن جاتا ہے۔ ان کی غربت اور بیماری اس وسیع تر المیے کی عکاس ہے جس کا سامنا ایک پوری نسل کو کرنا پڑا۔ اس طرح کمال سالار پوری کی شخصیت اپنی قوم کی اجتماعی جدوجہد کا ایک استعارہ بن جاتی ہے۔ ان کا اپنی تاریخ لکھنے کا عزم، وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود، محکوم اور پسماندہ طبقات (subaltern) کی اس آفاقی کوشش کی عکاسی کرتا ہے جو اپنی تاریخ خود لکھنے اور اپنے بیانیے کو فراموشی سے بچانے کے لیے کرتے ہیں۔

کتاب کی تصنیف کا مقصد: تاریخ کا تحفظ

کمال سالار پوری کا بنیادی مقصد میو قوم کی ان قربانیوں اور بہادری کی داستانوں کو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنا تھا جنہیں، ان کے بقول، مرکزی دھارے کے مورخین نے دانستہ طور پر نظر انداز کر دیا تھا 1۔ وہ اس خوف کا شکار تھے کہ 1947 کے عظیم المیے اور اس میں میو قوم کے کردار کو بھی ماضی کی طرح “افسانے” بنا کر بھلا دیا جائے گا 1۔ وہ لکھتے ہیں:

اگر اس جنگ کے حالات بھی لکھ نہ جائے گے

تو ان کو آنیوالے من گھڑت قصے بتائیں گے

1

یہ کتاب دراصل اس رسمی تاریخ نویسی کے خلاف ایک طاقتور احتجاج ہے جو صرف بادشاہوں، فاتحین اور اشرافیہ کے کارناموں کا احاطہ کرتی ہے اور عوام کی قربانیوں کو حاشیے پر دھکیل دیتی ہے۔ مصنف کا یہ الزام کہ مورخین کے قلم “سیم و زر” کے پابند ہو گئے ہیں، اس کتاب کو ایک عوامی تاریخ نویسی (subaltern historiography) کا منشور بنا دیتا ہے 1۔

اشاعت کا پس منظر (لاہور، 1953)

“جنگ نامہ میوات” کا پہلا ایڈیشن جنوری 1953 میں لاہور سے شائع ہوا 1۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان ایک نوزائیدہ ریاست کی حیثیت سے اپنی قومی شناخت اور تاریخی بیانیے کی تشکیل کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ اس تناظر میں، اس کتاب کی اشاعت محض ایک ادبی واقعہ نہیں، بلکہ ایک اہم سیاسی اور ثقافتی عمل تھا۔ یہ پاکستان کے قومی بیانیے میں میو برادری کی قربانیوں، ان کی شناخت اور ان کے کردار کے اندراج کی ایک شعوری کوشش تھی۔ یہ کتاب پاکستان کی بنیادوں میں میو قوم کے خون اور آنسوؤں کا دعویٰ پیش کرتی ہے۔ کتاب کی اشاعت کا سفر خود ایک داستان ہے۔ مصنف کی شدید مالی مشکلات کے باعث یہ کام تین سال تک رکا رہا، یہاں تک کہ دو صوفی بزرگوں، حضرت یامین شاہ اور مرید شاہ قادری، نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری اٹھائی 1۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ منصوبہ ذاتی جذبے اور کمیونٹی کے اجتماعی تعاون سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچا۔

باب 2: ‘جنگ نامہ’ کی ادبی روایت اور میوات کی شفاہی تاریخ

“جنگ نامہ میوات” کو سمجھنے کے لیے اسے اس کی ادبی صنف ‘جنگ نامہ’ اور میوات کی بھرپور شفاہی روایات کے وسیع تر تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔

مصنفِ جنگ نامہ کا تعارف

جنگ نامہ فارسی زبان سے ماخوذ ایک رزمیہ نظم کی صنف ہے جو جنگی واقعات، بہادری کے کارناموں، قومی المیوں اور ہیروز کی داستانوں کو منظوم شکل میں بیان کرتی ہے 2۔ یہ صنف برصغیر پاک و ہند کی متعدد زبانوں، خصوصاً پنجابی ادب میں، بہت مقبول رہی ہے 3۔ جنگ نامے اکثر تاریخی واقعات پر مبنی ہوتے ہیں لیکن ان کا نقطہ نظر درباری مورخین کے برعکس عوامی ہوتا ہے۔ اسی لیے انہیں “عوامی تاریخ” یا “نیچے سے تاریخ” (history from below) کا ایک اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے 4۔ شاہ محمد کا “جنگ نامہ ہند پنجاب”، جو سکھوں اور انگریزوں کی جنگ کا ایک جذباتی نوحہ ہے، اس صنف کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے 3۔ اسی طرح قاضی نور محمد کا جنگ نامہ احمد شاہ درانی کے حملے کی چشم دید گواہی فراہم کرتا ہے 7۔

‘جنگ نامہ میوات’ بطور جنگ نامہ

کمال سالار پوری کا “جنگ نامہ میوات” اسی ادبی روایت کا تسلسل ہے۔ یہ 1947 کی تقسیم، جسے کتاب میں ایک جنگ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، کو میو قوم کے نقطہ نظر سے بیان کرتا ہے۔ اس میں روایتی جنگ ناموں کے تمام لوازمات موجود ہیں: اللہ تعالیٰ کی حمد 1، نبی اکرم ﷺ کی نعت 1، میدانِ جنگ کی ہولناک منظر کشی 1، بہادروں کی شجاعت کے گیت 1، اور دشمن کی بزدلی اور ظلم کی مذمت۔ تاہم، یہ روایتی جنگ ناموں سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ کسی بادشاہ یا سلطان کی جنگ کی داستان نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کے وجود کی بقا، اس کے المیے اور اس کی ہجرت کی کہانی ہے۔

میوات کی شفاہی روایات (Oral Traditions)

میوات کی ثقافت میں زبانی روایات، قصہ گوئی اور لوک شاعری کو ہمیشہ سے مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے 8۔ میواتی ادب میں دوہے، لوک گیت، اور “پنڈون کا کڑا” (مہابھارت کا میو ورژن) جیسی اصناف شامل ہیں، جو نسل در نسل تاریخ، اقدار اور اجتماعی حافظے کو منتقل کرتی آئی ہیں 11۔ مصنف کا نثر کے بجائے ‘جنگ نامہ’ کی منظوم صنف کا انتخاب ایک شعوری فیصلہ تھا۔ یہ انتخاب کتاب کو محض ایک تاریخی دستاویز کے بجائے ایک ثقافتی یادگار (cultural artifact) بناتا ہے۔ شاعری، خاص طور پر رزمیہ شاعری، واقعات کو جذباتی رنگ دے کر اجتماعی حافظے میں زیادہ گہرائی سے پیوست کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ انتخاب کتاب کو میوات کی انہی شفاہی روایات سے جوڑتا ہے، جہاں قصے گائے اور سنائے جاتے ہیں۔ اس طرح، کتاب کی ہیئت (form) اور اس کا مواد (content) ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ یہ کتاب ایک “متبادل آرکائیو” (counter-archive) کے طور پر بھی کام کرتی ہے، جو سرکاری دستاویزات اور مرکزی دھارے کی تاریخ کے بیانیوں کو چیلنج کرتی ہے۔ جہاں سرکاری ریکارڈ تشدد کو محض اعداد و شمار میں قید کر دیتا ہے، وہیں جنگ نامہ اس کے انسانی تجربے—خوف، بہادری، غداری اور بقا—کو زندہ کرتا ہے۔

باب 3: میوات اور میو قوم: تاریخ کے آئینے میں

“جنگ نامہ میوات” میں پیش کیے گئے تاریخی دعووں اور ثقافتی حوالوں کو سمجھنے کے لیے میو قوم کی پیچیدہ تاریخ اور ان کی منفرد ثقافتی شناخت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

میو قوم کی اصلیت پر بحث

“جنگ نامہ میوات” میں مصنف میو قوم کی اصلیت کو وسطی ایشیا سے آنے والے جنگجو قبیلے “ہن” سے جوڑتے ہیں 1۔ یہ ایک دلچسپ بیانیہ ہے، تاہم علمی اور تاریخی تحقیق میں غالب نظریہ یہ ہے کہ میو بنیادی طور پر شمالی ہندوستان کے مقامی راجپوت قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں اسلام قبول کیا 13۔ ان کا نسلی تعلق مینا اور گجر جیسے دیگر مقامی قبائل سے بھی جوڑا جاتا ہے 16۔ ان کے سماجی ڈھانچے، مثلاً گوت (clans) اور شادی بیاہ کی رسومات (جیسے اپنے گوت میں شادی نہ کرنا)، ان کے ہندو ورثے کی مضبوط عکاسی کرتے ہیں 15۔

کتاب میں میو قوم کو ہنوں سے جوڑنا ایک اہم نظریاتی انتخاب معلوم ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ انہیں راجپوت یا دیگر مقامی گروہوں کے سماجی ڈھانچے سے باہر نکال کر ایک خودمختار اور قدیم جنگجو قوم کے طور پر قائم کرتا ہے۔ یہ بیانیہ ان کی تاریخی مزاحمت اور مرکزی طاقتوں سے الگ تھلگ رہنے کی نفسیات کو ایک تاریخی جواز فراہم کرتا ہے اور ان کے “دوسرے” (the other) ہونے کے احساس کو کمتری کے بجائے فخر کی علامت میں بدل دیتا ہے۔

مزاحمت کی طویل تاریخ

کتاب میں میو قوم کی صدیوں پر محیط مزاحمتی تاریخ پر بجا طور پر فخر کیا گیا ہے، جس میں پرتھوی راج چوہان، غیاث الدین بلبن، جلال الدین اکبر اور انگریزوں کے خلاف ان کی مسلسل جدوجہد کا ذکر ہے 1۔ تاریخی مآخذ بھی اس بیانیے کی بھرپور تصدیق کرتے ہیں۔ دہلی سلطنت کے حکمران غیاث الدین بلبن نے میواتیوں کی طاقت کو کچلنے کے لیے ان کے خلاف شدید ترین مہم چلائی، جنگلات کو صاف کروایا اور ایک لاکھ سے زائد میوؤں کو بے دردی سے قتل کیا 1۔ مغلوں کے دور میں بھی ان کی مزاحمت جاری رہی اور حسن خان میواتی نے بابر کے خلاف رانا سانگا کا ساتھ دیا 13۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں میواتیوں نے سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک اندازے کے مطابق 10,000 سے زائد میو اس جدوجہد میں شہید ہوئے، جس کے بعد انگریزوں نے ان پر شدید مظالم ڈھائے 22۔ یہ مزاحمت میو شناخت کا ایک کلیدی اور غیر متنازع جزو رہی ہے۔

1947 سے قبل کی مخلوط ثقافت (Syncretic Culture)

تقسیمِ ہند سے قبل، میو ثقافت ہندو اور اسلامی روایات کا ایک منفرد اور خوبصورت امتزاج تھی۔ وہ اسلامی عقائد پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی جیسے تہوار مناتے تھے، ان کے ناموں (جیسے امر سنگھ، چاند سنگھ) اور شادی بیاہ کی رسومات میں بھی یہ امتزاج واضح طور پر جھلکتا تھا 14۔ ان کی اپنی ایک الگ مہابھارت بھی تھی جسے “پنڈون کا کڑا” کہا جاتا تھا 12۔ اس مخلوط شناخت کی وجہ سے انہیں اکثر قدامت پسند مسلم اور ہندو حلقوں کی جانب سے بالترتیب “کچے مسلمان” اور “میلے چھتری” سمجھا جاتا تھا، جس کی وجہ سے وہ دونوں کمیونٹیز میں ایک حد تک الگ تھلگ رہے 14۔ یہ کتاب اس مزاحمتی اور منفرد ثقافتی ورثے کو 1947 کے واقعات سے جوڑ کر اسے ایک تاریخی تسلسل عطا کرتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے، 1947 کی جنگ کوئی نیا واقعہ نہیں، بلکہ بلبن، اکبر اور انگریزوں کے خلاف صدیوں پر محیط جدوجہد کا ایک نیا اور المناک باب ہے۔

حصہ دوم: ‘جنگ نامہ میوات’ کا متن اور تجزیہ

یہ حصہ کتاب کے متن کا گہرائی سے جائزہ لے گا، جس میں اس کے شعری اسلوب، تاریخی بیانیے کی تشکیل، تقسیم کے المیے کی عکاسی، اور مہاجرت کے کرب جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

باب 4: شعری ساخت، اسلوب اور فنی خصوصیات

“جنگ نامہ میوات” کا ادبی تجزیہ اس کی فنی قدر و قیمت اور مصنف کی شاعرانہ مہارت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

شعری ہیئت اور زبان

کتاب مثنوی کی روایتی ہیئت میں لکھی گئی ہے، جو اردو اور فارسی شاعری میں طویل بیانیہ اور رزمیہ موضوعات کے لیے ایک مقبول اور آزمودہ صنف رہی ہے۔ مصنف کی زبان سادہ، رواں اور عام فہم ہے، جس کا مقصد واضح طور پر اپنے پیغام کو وسیع تر عوامی حلقے تک پہنچانا تھا، جیسا کہ وہ خود بھی اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ وہ اسے پہلے “طرزِ جنگ آٹھا” (ممکنہ طور پر لوک انداز) پر لکھنا چاہتے تھے تاکہ ہر خاص و عام سمجھ سکے 1۔ اس کے باوجود، کلام میں فارسی اور عربی کی مشکل تراکیب اور استعارات کا برجستہ استعمال ان کی علمی قابلیت اور کلاسیکی شاعری پر ان کی گرفت کو ظاہر کرتا ہے۔

ادبی اثرات اور اسلوب کا امتزاج

جیسا کہ شوکت ہاشمی نے اپنے تعارف میں لکھا، کمال کی شاعری میں “اقبال کا پیغام، جوش کا جوش اور اختر شیرانی کا رومان” تینوں کے رنگ ملتے ہیں 1۔ کتاب میں اقبال کا اثر سب سے نمایاں ہے۔ کتاب کا آغاز ہی اقبال کے اس مشہور شعر سے ہوتا ہے:

آن عزمِ بلند آور، آن سوزِ جگر آور

شمشیرِ پدر خواہی، بازوئے پدر آور

1

اقبال کی طرح، کمال بھی اپنی قوم کو اس کے شاندار ماضی کی یاد دلا کر بیدار کرنا چاہتے ہیں اور عمل پر اکساتے ہیں 1۔ جوش ملیح آبادی کی طرح، ان کے ہاں بھی انقلابی جوش، ولولہ انگیز زبان اور میدانِ جنگ کی ایسی منظر کشی ملتی ہے جو پڑھنے والے کے خون کو گرما دیتی ہے۔ یہ مختلف اسالیب کا امتزاج اس کتاب کو ایک کثیرالجہتی ادبی کام بناتا ہے جو بیک وقت تاریخ، نوحہ، اور قومی ترانہ ہے۔

فنی محاسن اور اخلاقی بیانیہ

شاعر نے منظر نگاری، کردار نگاری اور جذبات نگاری جیسے فنی محاسن کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ “وطن کی یاد” 1 اور “احوال واقعی” 1 جیسے ابواب شاعر کی ذاتی اور جذباتی گہرائی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ کتاب صرف فوجی بہادری پر ہی زور نہیں دیتی، بلکہ میو قوم کی اخلاقی برتری کو بھی قائم کرتی ہے۔ اس کی سب سے بہترین مثال حسن پور کے جاٹوں کا واقعہ ہے، جہاں وہ شکست کے خوف سے ایک معصوم لڑکی کو “نذر” کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن میو سردار اسے یہ کہہ کر عزت کے ساتھ واپس کر دیتے ہیں:

ہمیں اب اسکی عصمت اپنی جانوں سے بھی پیاری ہے

یہ لڑکی اب تمہاری ہی نہیں، بیٹی ہماری ہے

1

یہ واقعہ میو جنگجوؤں کو نہ صرف بہادر بلکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل محافظ کے طور پر پیش کرتا ہے، جو دشمن کی عورت کی عصمت کا بھی احترام کرتے ہیں۔ یہ بیانیہ دشمن کو نہ صرف عسکری طور پر بلکہ اخلاقی طور پر بھی کمتر ثابت کرتا ہے۔

باب 5: تاریخ کی تشکیلِ نو: ماضی کی بازیافت اور قومی بیانیہ

“جنگ نامہ میوات” میں تاریخ محض ماضی کا بیان نہیں، بلکہ حال کے جواز اور مستقبل کے لیے ایک لائحہ عمل کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ مصنف تاریخ کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے ایک مخصوص قومی بیانیہ تشکیل دیتے ہیں۔

قدیم تاریخ کا بیانیہ

کتاب کا آغاز ہندوستان کی قدیم تاریخ سے ہوتا ہے، جس میں سنتھال، دراوڑ، آریہ اور پھر ہنوں کی آمد کو ایک تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے 1۔ اس طویل تاریخی کینوس کا مقصد میو قوم کی آمد اور ان کی شناخت کو برصغیر کی تاریخ کے ایک وسیع تناظر میں رکھنا اور ان کی قدامت اور جنگجو ورثے کو ثابت کرنا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، میوؤں کو ہنوں سے جوڑنا انہیں ایک قدیم، بیرونی اور خودمختار جنگجو قوم کے طور پر قائم کرتا ہے، جو ان کی مزاحمتی تاریخ کو ایک گہرا تاریخی جواز فراہم کرتا ہے۔

مورخین کے خلاف فردِ جرم

مصنف کا ایک مرکزی خیال یہ ہے کہ مرکزی دھارے کے مورخین نے میو قوم کی تاریخ اور قربانیوں کو فراموش کر دیا ہے۔ وہ بار بار اس “چشم پوشی” پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں 1۔ وہ حسن خان میواتی، راؤ مالھا اور دیگر گمنام ہیروز کو یاد کرتے ہیں جن کے کارنامے تاریخ کی کتابوں میں جگہ نہ پا سکے 1۔ یہ کتاب اس تاریخی خاموشی کو توڑنے اور ایک جوابی بیانیہ (counter-narrative) پیش کرنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔

داخلی انتشار کا سبب: اکبر کی پالیسی

کتاب میو قوم کے داخلی انتشار اور زوال کا ایک بڑا سبب مغل بادشاہ اکبر کی “پال بندی” کی پالیسی کو قرار دیتی ہے 1۔ مصنف کے نزدیک اسی پالیسی نے قوم کا شیرازہ بکھیر دیا اور انہیں کمزور کر دیا 1۔ تاریخی طور پر، اکبر نے راجپوتوں سمیت کئی گروہوں کو مغل نظام میں ضم کرنے کے لیے پیچیدہ پالیسیاں اپنائیں، جن میں انتظامی تقسیم اور شادیوں کے ذریعے ان کی طاقت کو کنٹرول کرنا شامل تھا 8۔ کتاب اس پالیسی کو ایک منفی رنگ میں، یعنی میو اتحاد کو توڑنے کی ایک دانستہ سازش کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ ایک عام بیانیہ سازی کی تکنیک ہے جس میں قومی اتحاد پر زور دینے کے لیے داخلی کمزوریوں کی ذمہ داری کسی بیرونی طاقت یا سازش پر ڈال دی جاتی ہے۔ یہ 1947 کے تناظر میں میو اتحاد کی ضرورت پر زور دینے کا ایک بالواسطہ طریقہ بھی ہے۔

باب 6: تقسیمِ ہند کا المیہ: تشدد، ہجرت اور شناخت کا بحران

کتاب کا مرکزی حصہ 1947 کے واقعات کے گرد گھومتا ہے۔ یہ حصہ اس بیانیے کا دیگر تاریخی ذرائع کی روشنی میں تجزیہ کرے گا۔

تشدد، نسل کشی اور مزاحمت کا بیانیہ

کتاب میں تقسیم کے دوران ہونے والے تشدد کو “تباہی کے شعلے” کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے 1۔ اس میں قتل و غارت، لوٹ مار، اور بستیوں کو نذرِ آتش کرنے (جیسے سکت پور، کوٹہ، اور بسر) کے واقعات کو تفصیل سے منظوم کیا گیا ہے 1۔ یہ شاعرانہ بیانیہ اس تاریخی تحقیق سے مکمل مطابقت رکھتا ہے جس کے مطابق الور اور بھرت پور کی شاہی ریاستوں میں میوؤں کے خلاف منظم اور شدید تشدد ہوا، جسے کئی مورخین، مثلاً شیل مایارام، نے “نسل کشی” (ethnic cleansing) اور “صفایا” (cleaning) تک قرار دیا ہے 29۔ ان واقعات میں ریاست کی فوجیں اور مقامی انتہا پسند ہندو گروہ، جیسے آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا، براہِ راست ملوث تھے 29۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بھرت پور میں 30,000 اور مجموعی طور پر 82,000 سے زائد میو قتل کیے گئے 29۔

اگرچہ مصنف خود براہِ راست تمام واقعات کے شاہد نہیں تھے 1، لیکن ان کی کتاب ان واقعات کے بارے میں میو برادری کے اجتماعی تجربے اور حافظے کی ایک طاقتور دستاویز ہے۔ یہ سرکاری رپورٹوں کے خشک اعداد و شمار کے برعکس تشدد کے زندہ، جذباتی اور انسانی پہلو کو سامنے لاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار کو انسانی چہرہ عطا کرتی ہے، اور تاریخ کو “محسوس” کرنے کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔

سیاسی قیادت کی تصویر کشی

کتاب میں سیاسی قیادت کا کردار ایک مخصوص نقطہ نظر سے پیش کیا گیا ہے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ایک منفی کردار کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو الور اور بھرت پور کے راجاؤں اور امیروں کو میوؤں کے خلاف کارروائی پر اکساتے ہیں 1۔ تاریخی ذرائع بھی اس کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ کئی مورخین نے لکھا ہے کہ سردار پٹیل میوؤں کے بارے میں شدید شکوک و شبہات رکھتے تھے اور ان کی موجودگی کو نئی دہلی کے لیے خطرہ سمجھتے تھے، اس لیے وہ ان کے پاکستان جانے کے حامی تھے 30۔ ان پر الور اور بھرت پور میں ہونے والے تشدد کو دانستہ طور پر نظر انداز کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے 31۔

اس کے برعکس، قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک عظیم رہنما اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جن کی قیادت میں پاکستان کی محفوظ پناہ گاہ حاصل ہوئی 1۔ یہ تصویر کشی کتاب کے پاکستانی تناظر اور ان میو مہاجرین کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے جن کے لیے کانگریس کا سیکولر ازم انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا تھا، جبکہ مسلم لیگ کا دو قومی نظریہ انہیں ایک نئے وطن کا وعدہ فراہم کر رہا تھا۔

“جنگ نامہ میوات” میں مذکور واقعات اور تاریخی مآخذ کا تقابلی جائزہ
واقعہ (کتاب کے مطابق)
سردار پٹیل سے مشورہ
موضع سکت پور کا جلنا
جاٹ لڑکی کا واقعہ

باب 7: وطن کی یاد اور مہاجر کا کرب

“جنگ نامہ میوات” کا سب سے زیادہ اثر انگیز حصہ وہ ہے جہاں مصنف اپنے ذاتی اور اجتماعی کرب کو زبان دیتے ہیں۔ یہ حصے کتاب کو تقسیم کے صدماتی ادب (Trauma Literature) کی صف میں کھڑا کرتے ہیں۔

وطن کی یاد اور جنتِ گم گشتہ

“وطن کی یاد” 1 اور “احوال واقعی” 1 کے ابواب میں شاعر اپنے کھوئے ہوئے وطن میوات کا ایک انتہائی رومانوی اور مثالی (idyllic) نقشہ کھینچتا ہے۔ وہ وہاں کے سبز کھیتوں، بل کھاتی ندیوں، پہاڑوں پر چھاتی گھٹاؤں اور پنگھٹ کے حسین منظر کو یاد کرتا ہے۔ یہ محض ایک رومانوی یاد نہیں، بلکہ ہجرت کے ناقابلِ تلافی نقصان اور گہری حسرت (nostalgia) کا شدید اظہار ہے۔ یہ “جنتِ گم گشتہ” کا وہ بیانیہ ہے جو حال کی مشکلات کو مزید تکلیف دہ بنا دیتا ہے۔ ماضی کی یہ مثالی تصویر حال کی بدصورتی اور اذیت کو سمجھنے اور بیان کرنے کا ایک پیمانہ بن جاتی ہے۔

مہاجر کا تجربہ اور طنز کی کاٹ

اس جنتِ گم گشتہ کے برعکس، شاعر پاکستان میں اپنے مہاجر ہونے کے تجربے کو شدید تلخی سے بیان کرتا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے آزادی، راحت اور وقار سب کچھ کھو دیا ہے 1۔ انہیں نئی سرزمین پر بیوروکریسی اور “تحصیلداری” کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں 1۔ کتاب کا باب “انصارانِ پاکستان” 1 بظاہر مقامی آبادی (انصار) کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتا ہے، لیکن اس کے آخر میں مصنف کا لکھا ہوا یہ چھوٹا سا جملہ “اے کاش میں اس نظم کو طنزاً نہ لکھتا” 1 پورے باب کے معنی بدل دیتا ہے۔ یہ لطیف لیکن گہرا طنز مہاجرین کو درپیش سماجی بے حسی، حقارت اور مشکلات پر ایک انتہائی تلخ اور طاقتور تبصرہ ہے۔ یہ اس پیچیدہ حقیقت کو سامنے لاتا ہے کہ مہاجرین کا استقبال ہمیشہ کھلے دل سے نہیں کیا گیا اور انہیں نئی جگہ پر اپنی شناخت اور وقار کے لیے ایک نئی جنگ لڑنی پڑی۔ یہ طنز دراصل سماجی بے حسی کے خلاف ایک لطیف لیکن گہری مزاحمت ہے۔

یہ بھی پڑھئے

میواتی کھانا

اس کتاب کا موازنہ امرتا پریتم کی نظم “اج آکھاں وارث شاہ نوں” یا فیض احمد فیض کی “صبحِ آزادی” سے کیا جا سکتا ہے۔ جہاں امرتا پریتم پنجاب کی تقسیم کا نوحہ کرتی ہیں، وہیں کمال سالار پوری میوات کے اس المیے کو آواز دیتے ہیں جسے مرکزی بیانیوں میں اکثر فراموش کر دیا گیا ہے۔

حصہ سوم: ثقافتی اثرات اور عصری معنویت

یہ آخری حصہ کتاب کے تجزیے کو اس کے ثقافتی اثرات، میو شناخت پر اس کے ممکنہ کردار، اور آج کے دور میں اس کی اہمیت سے جوڑتا ہے۔

باب 8: ‘جنگ نامہ میوات’ اور میو شناخت کی تشکیلِ نو

تقسیم کا صدمہ میو شناخت کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ ان کی صدیوں پرانی مخلوط ثقافت، جو بقا کی ایک کامیاب حکمت عملی رہی تھی، 1947 کے تشدد کے سامنے ناکام ہوگئی۔ جب ان کی یہ منفرد شناخت انہیں ہندو انتہا پسندوں کے حملوں سے نہ بچا سکی تو اس وجودی بحران نے انہیں ایک نئی، زیادہ واضح اور غیر مبہم شناخت کی تلاش پر مجبور کیا 26۔ یہ خلا تبلیغی جماعت نے پر کیا، جو اتفاق سے 1920 کی دہائی میں میوات ہی سے شروع ہوئی تھی 33۔ تقسیم کے بعد اس کا اثر بہت تیزی سے پھیلا اور اس نے میوؤں کو ان کی مخلوط روایات سے دور کرکے ایک زیادہ راسخ العقیدہ اسلامی شناخت اپنانے کی ترغیب دی 27۔

“جنگ نامہ میوات” اسی عبوری دور کی پیداوار ہے۔ یہ کتاب ایک طرف تو میوؤں کی منفرد جنگجو تاریخ (جو ان کے راجپوت ورثے سے منسلک ہے) پر فخر کرتی ہے، اور دوسری طرف ان کی جدوجہد کو اسلام کے لیے قربانی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ کتاب میں حفیظ جالندھری کا یہ شعر نقل کرنا کہ “نمازِ عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں” 1، اور پاکستان کے قیام کو ایک اسلامی فتح کے طور پر سراہنا 1، اسی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کتاب میو شناخت کو ان کے علاقائی ورثے (میوات) سے نکال کر ایک وسیع تر پاکستانی اور اسلامی شناخت سے جوڑنے میں ایک پل کا کام کرتی نظر آتی ہے۔ اس میں ایک دلچسپ تناؤ بھی پایا جاتا ہے: ایک طرف وطن (میوات) کی محبت ہے، اور دوسری طرف ایک نئے نظریاتی وطن (پاکستان/اسلام) سے وفاداری۔ کمال سالار پوری ان دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

باب 9: تاریخ، حافظہ اور ادب

یہ کتاب، خاص طور پر پاکستان میں مقیم میو برادری کے لیے، ان کی تاریخ، قربانیوں اور شناخت کی ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ان کے لیے محض ایک کتاب نہیں، بلکہ ان کے وجود کے جواز کی دلیل اور ان کی زبانی تاریخ کی ایک تحریری سند ہے، جسے آنے والی نسلیں پڑھ سکتی ہیں۔

کتاب کا پہلا ایڈیشن 1953 میں نایاب ہو جانے کے بعد طویل عرصے تک منظرِ عام سے غائب رہا 1۔ تاہم، 2020 میں اس کا ایک ڈیجیٹل اسکین شدہ ورژن “انٹرنیٹ آرکائیو” پر اپ لوڈ کیا گیا 37۔ کتاب کے ہر صفحے پر “Mewati Dunya” کا لوگو بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کمیونٹی کے اندر اپنے ورثے کو محفوظ کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اسے پھیلانے کی شدید خواہش موجود ہے 1۔ کتاب کی طبعی نایابی اور پھر انٹرنیٹ پر اس کا دوبارہ ظہور اس بات کی علامت ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کس طرح فراموش شدہ یا پسماندہ بیانیوں کو دوبارہ زندہ کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہ ایک طرح سے مصنف کے اس مشن کی تکمیل ہے جسے وہ وسائل کی کمی کے باعث خود آگے نہ بڑھا سکے۔

مصنف نے پیش لفظ میں لکھا تھا کہ وہ قارئین سے مزید معلومات اور تصحیحات کے منتظر ہیں تاکہ اگلے ایڈیشن کو بہتر بنایا جا سکے 1۔ کتاب کی مزید اشاعتوں کی عدم موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ میو تاریخ کو مرتب کرنے کا یہ منصوبہ شاید ادھورا رہ گیا۔ یہ کتاب ایک آغاز تھی، اختتام نہیں۔

باب 10: اختتامیہ: ایک قومی شاعر کی صدا اور اس کی بازگشت

“جنگ نامہ میوات” ایک کثیر جہتی تصنیف ہے جس کی اہمیت کئی سطحوں پر ہے۔

ادبی طور پر، یہ جنگ نامہ کی روایتی صنف میں ایک اہم اور منفرد اضافہ ہے جو کلاسیکی اور جدید اسالیب کو کامیابی سے ہم آہنگ کرتا ہے۔

تاریخی طور پر، یہ تقسیمِ ہند کے دوران میوات کے خطے میں ہونے والے تشدد، مزاحمت اور ہجرت کے بارے میں ایک نایاب عوامی (subaltern) نقطہ نظر فراہم کرتا ہے، جو سرکاری تاریخ کے بیانیوں میں اکثر غائب رہتا ہے۔

ثقافتی طور پر، یہ ایک کمیونٹی کے اجتماعی صدمے، بقا کی جدوجہد اور شناخت کی تشکیلِ نو کے پیچیدہ عمل کی ایک طاقتور اور جذباتی دستاویز ہے۔

کمال سالار پوری نے اپنی قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے شاعر کی سرپرستی کریں تاکہ یہ “عظیم الشان کام” انجام کو پہنچ سکے 1۔ آج، یہ کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تاریخ صرف فاتحین نہیں لکھتے، بلکہ اس کی تشکیل میں ان گنت گمنام آوازوں کا بھی حصہ ہوتا ہے جنہیں سننے کی ضرورت ہے۔ جنوبی ایشیا میں جہاں شناخت، مذہب اور تاریخ کے سوالات آج بھی انتہائی حساس اور متنازع ہیں، “جنگ نامہ میوات” جیسے متون ہمیں ماضی کو زیادہ گہرائی، تنوع اور ہمدردی سے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

آخر میں، یہ کتاب صرف میو قوم کی تاریخ کا آئینہ نہیں، بلکہ یہ برصغیر کی تقسیم کے اس پیچیدہ اور تکلیف دہ عمل کا بھی آئینہ ہے جس نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں اور شناختوں کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ یہ کتاب ہمیں دکھاتی ہے کہ کس طرح ایک کمیونٹی نے تاریخ کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک کا سامنا کیا، اس پر ردِ عمل ظاہر کیا، اور اپنی شناخت کو از سرِ نو تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ اس کی کہانی صرف میوات کی نہیں، بلکہ تقسیم سے متاثر ہونے والے ہر اس گروہ کی کہانی ہے جس نے اپنی تاریخ خود لکھنے کی کوشش کی۔

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme