
برصغیر کی تاریخ: سلطنتوں کا عروج و زوال اور میوات کی گونج
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو؎
حصہ اول: قدیم ہندوستان پر بیرونی حملے اور اسلامی دور کا آغاز
باب 1: سکندر مقدونی کا حملہ (326 قبل مسیح)
تفصیلات
326 قبل مسیح کے موسم بہار میں، مقدونیہ کے حکمران سکندر اعظم نے اپنی فتوحات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے درہ خیبر کے راستے برصغیر کی سرزمین پر قدم رکھا 1۔ اس کا مقصد محض ملک گیری نہیں تھا، بلکہ وہ دنیا کے آخری کونے تک پہنچنے کے جنون میں مبتلا تھا 1۔ پنجاب کے زرخیز میدانوں میں اس کا سامنا دریائے جہلم کے کنارے مقامی حکمران راجہ پورس کی بہادر فوج سے ہوا۔ یونانی مؤرخین کے مطابق، اس جنگ میں سکندر کو فتح نصیب ہوئی، لیکن وہ پورس کی شجاعت اور خودداری سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے نہ صرف پورس کی حکمرانی بحال رکھی بلکہ اس کی سلطنت میں مزید علاقوں کا اضافہ بھی کر دیا 3۔
تاہم، سکندر کی پیش قدمی کسی ایک بادشاہ کو شکست دینے کے بعد آسان نہ رہی۔ پنجاب کے مقامی قبائل نے بیرونی حملہ آور کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ خاص طور پر ملتان کے ‘ملی’ قبیلے اور دیگر مقامی آبادیوں نے یونانی فوج کے خلاف شدید گوریلا جنگ کا آغاز کیا 4۔ ان جھڑپوں اور حملوں میں سکندر خود بھی شدید زخمی ہوا اور بمشکل اپنی جان بچا سکا 4۔ اس مسلسل اور غیر متوقع مزاحمت نے یونانی فوج کے حوصلے پست کر دیے۔ جب وہ دریائے بیاس کے کنارے پہنچے تو تھکاوٹ اور بیزاری کا شکار اس کی فوج نے مزید آگے بڑھنے سے صاف انکار کر دیا 1۔ یوں پنجاب کے عوام کی بے مثال مزاحمت نے ہندوستان کے وسیع علاقوں کو سکندر کی یلغار سے محفوظ رکھا۔
اثرات
سکندر کا حملہ عسکری طور پر نامکمل رہا، لیکن اس کے تہذیبی اور تاریخی اثرات گہرے تھے۔ سکندر کے ساتھ آنے والے یونانی مؤرخین اور عالموں نے ہندوستان کے سماجی، سیاسی اور جغرافیائی حالات کو پہلی بار تفصیل سے قلمبند کیا 5۔ اگرچہ ان کی اصل تحریریں آج موجود نہیں، لیکن بعد کے یونانی مصنفین نے ان کے اقتباسات اپنی کتابوں میں محفوظ کر لیے، جو آج قدیم ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم ماخذ ہیں۔ اس حملے نے ہندوستان اور یونان کے درمیان براہِ راست تہذیبی، تجارتی اور علمی روابط کی بنیاد رکھی۔ سکندر کی واپسی کے بعد اس کے ہزاروں سپاہی جو راستے میں بچھڑ گئے تھے، باختر (موجودہ شمالی افغانستان اور ترکستان) میں آباد ہو گئے 5۔ انہوں نے وہاں ایک یونانی سلطنت قائم کی جو تقریباً ایک صدی تک قائم رہی اور اس خطے میں یونانی فن، ثقافت اور طرزِ حکومت کے گہرے نقوش چھوڑ گئی، جسے تاریخ میں “ہند-یونانی” تہذیب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے 5۔
باب 2: باب الاسلام – محمد بن قاسم کی سندھ آمد (712 عیسوی)
پس منظر اور اسباب
سکندر کے حملے کے تقریباً ایک ہزار سال بعد، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دورِ حکومت میں برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ عراق کے طاقتور گورنر حجاج بن یوسف نے اپنے سترہ سالہ بھتیجے اور داماد، عماد الدین محمد بن قاسم الثقفی کو ایک فوجی مہم کی قیادت سونپ کر سندھ روانہ کیا 6۔ اس حملے کی فوری اور بنیادی وجہ سندھ کے ساحل پر دیبل کے قریب بحری قزاقوں کی جانب سے مسلمانوں کے تجارتی جہازوں کو لوٹنا اور مسافروں کو قید کرنا تھا [User Query]۔ جب حجاج بن یوسف نے سندھ کے حکمران راجہ داہر سے ان قزاقوں کے خلاف کارروائی اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو اس نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے انکار کر دیا، جسے اموی سلطنت نے اپنی حاکمیت کے لیے ایک چیلنج سمجھا۔ دیگر عوامل میں راجہ داہر کی جانب سے اموی سلطنت کے عرب باغیوں کو پناہ دینا اور اس کی اپنی رعایا، خصوصاً بدھ مت کے پیروکاروں پر مبینہ مظالم بھی شامل تھے، جنہوں نے بعد میں عرب فوج کا ساتھ دیا 7۔
فتح سندھ
711 عیسوی میں محمد بن قاسم کی قیادت میں عرب فوج نے مکران کے راستے سندھ میں داخل ہو کر دیبل کی بندرگاہ کا محاصرہ کیا اور منجنیقوں کی مدد سے اسے فتح کر لیا 6۔ یہ برصغیر میں مسلمانوں کی پہلی بڑی فوجی کامیابی تھی۔ اس کے بعد اسلامی لشکر نے پیش قدمی کرتے ہوئے نیرون، بہرور اور وہلیلہ جیسے اہم شہروں اور قلعوں کو فتح کیا 8۔ اس مہم کا فیصلہ کن معرکہ راوڑ کے مقام پر راجہ داہر کی فوج سے ہوا۔ جنگ کے دوران ایک عرب سپاہی کا تیل میں بجھا ہوا تیر راجہ داہر کے ہاتھی پر نصب پالکی کو جا لگا، جس سے آگ بھڑک اٹھی۔ ہاتھی بدحواس ہو کر دریا کی طرف بھاگا، جس سے داہر کی فوج میں افراتفری پھیل گئی اور اسی دوران وہ قتل کر دیا گیا 10۔ راجہ کی موت کے بعد سندھ کی مرکزی مزاحمت دم توڑ گئی اور محمد بن قاسم نے پہلے برہمن آباد اور پھر 713ء میں ملتان کو فتح کر کے سندھ کی فتح مکمل کی 8۔
نظم و نسق اور اثرات
محمد بن قاسم نے سندھ میں تقریباً چار سال قیام کیا اور ایک فاتح سے بڑھ کر ایک بہترین منتظم کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا 6۔ اس نے مقامی آبادی کے ساتھ غیر معمولی رواداری، انصاف اور حسنِ سلوک پر مبنی پالیسی اپنائی۔ غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی، ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا گیا اور ان پر معمولی جزیہ عائد کر کے ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لی گئی 11۔ اس نے مقامی ہندو امراء اور برہمنوں کو انتظامی عہدوں پر برقرار رکھا، حتیٰ کہ راجہ داہر کے وزیر کو بھی اہم ذمہ داریاں سونپیں 9۔ اس منصفانہ نظام اور رواداری نے سندھ کے عوام کے دل جیت لیے اور وہ بڑی تعداد میں اسلام کی طرف راغب ہوئے۔ اسی وجہ سے سندھ کو “باب الاسلام” یعنی اسلام کا دروازہ کہا جاتا ہے 8۔ محمد بن قاسم کی فتح نے برصغیر اور عالم اسلام کے درمیان علمی، تہذیبی اور تجارتی تعلقات کا ایک نیا دور شروع کیا، جس کے اثرات صدیوں تک قائم رہے۔
ایک تاریخی غلط فہمی کی تصحیح
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ صارف کی فراہم کردہ فہرست میں محمد بن قاسم کے حملے کے ساتھ “جنگ جم” کا ذکر ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ درست نہیں۔ محمد بن قاسم کی سندھ مہم میں اس نام کی کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ سندھ میں فیصلہ کن معرکہ “جنگِ راوڑ” تھا 10۔ “جنگِ جمل” (اونٹ کی جنگ) درحقیقت 656 عیسوی میں بصرہ (موجودہ عراق) کے قریب چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حامیوں کے درمیان لڑی گئی تھی اور اس کا ہندوستان کی تاریخ سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے 12۔
سکندر اور محمد بن قاسم کے حملوں کا موازنہ برصغیر پر بیرونی یلغار کے بدلتے ہوئے مقاصد کو واضح کرتا ہے۔ سکندر کی مہم ذاتی جاہ و جلال اور دنیا کو مسخر کرنے کی ایک کلاسیکی یونانی خواہش کا مظہر تھی 1۔ اس کا مقصد ایک پائیدار سلطنت کا قیام نہیں تھا، جس کا ثبوت اس کی فوج کے واپس جانے کے اصرار سے ملتا ہے 4۔ اس کے برعکس، محمد بن قاسم کی مہم اموی سلطنت کی ریاستی پالیسی کا نتیجہ تھی جس کا آغاز تو بحری قزاقی کے جواب میں ہوا لیکن جلد ہی یہ علاقائی فتح اور ایک منظم انتظامی ڈھانچہ قائم کرنے کی کوشش میں بدل گئی 6۔ یہ تبدیلی محض ذاتی خواہش سے ریاستی مفاد کی طرف ایک اہم قدم تھا، جس نے برصغیر میں مستقبل کی مسلم حکومتوں کی بنیاد رکھی۔
حصہ دوم: ترکوں کی آمد اور سلطنتِ دہلی کا قیام
باب 3: غزنوی اور غوری خاندان (998-1206 عیسوی)
سلطان محمود غزنوی
محمد بن قاسم کے تقریباً تین سو سال بعد، وسطی ایشیا سے ترکوں کی آمد نے برصغیر کی تاریخ کا رخ ایک بار پھر موڑ دیا۔ سلطنتِ غزنویہ کے بانی سبکتگین کے بیٹے، سلطان محمود غزنوی نے 998ء میں تخت سنبھالنے کے بعد ہندوستان پر 17 حملوں کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا 18۔ ان حملوں کے مقاصد پر مؤرخین کے درمیان آج بھی بحث جاری ہے۔ کچھ مؤرخین اسے ایک “بت شکن” اور اسلام کے عظیم مجاہد کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کا مقصد کفر کا خاتمہ تھا 20۔ تاہم، جدید مؤرخین کی اکثریت کا خیال ہے کہ ان حملوں کا بنیادی محرک سیاسی اور معاشی تھا۔ محمود کا اصل مقصد ہندوستان کی بے پناہ دولت کو لوٹ کر اپنی وسیع وسطی ایشیائی سلطنت کے اخراجات پورے کرنا اور اسے مزید مضبوط بنانا تھا 4۔ اس نے پنجاب کو اپنی سلطنت کا مستقل حصہ بنا لیا تاکہ مستقبل کے حملوں کے لیے اسے ایک محفوظ فوجی اڈے کے طور پر استعمال کیا جا سکے 20۔ 1026ء میں گجرات میں سومنات کے مندر پر اس کا حملہ تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور ہے، جہاں سے اسے بے تحاشا دولت حاصل ہوئی 19۔
شہاب الدین محمد غوری
غزنوی سلطنت کے زوال کے بعد، افغانستان کے پہاڑی علاقے غور سے ایک اور ترک خاندان، غوری، ابھرا 23۔ شہاب الدین محمد غوری نے 1175ء کے بعد ہندوستان پر حملوں کا آغاز کیا، لیکن اس کے مقاصد محمود غزنوی سے یکسر مختلف تھے [User Query]۔ وہ دولت لوٹ کر واپس جانے کے بجائے یہاں ایک مستقل سلطنت قائم کرنے کا خواہشمند تھا۔ 1191ء میں ترائن (تلاوڑی) کی پہلی جنگ میں اسے اجمیر اور دہلی کے راجپوت حکمران پرتھوی راج چوہان کے ہاتھوں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا 23۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور اگلے ہی سال، 1192ء میں، پوری تیاری کے ساتھ واپس آیا۔ ترائن کی دوسری جنگ میں اس نے پرتھوی راج چوہان کو ایک فیصلہ کن شکست دی اور دہلی اور اجمیر پر قبضہ کر لیا 23۔ اس فتح نے شمالی ہندوستان میں مسلم حکومت کی بنیاد رکھ دی۔ محمد غوری نے اپنے سب سے قابل ترک غلام جرنیل، قطب الدین ایبک، کو ہندوستان میں اپنے مفتوحہ علاقوں کا منتظم مقرر کیا 24۔ 1206ء میں، دریائے جہلم کے کنارے گکھڑ قبائل کے حملے میں محمد غوری کی شہادت کے بعد، قطب الدین ایبک نے دہلی میں ایک خود مختار سلطنت کی بنیاد رکھی، جو تاریخ میں “سلطنتِ دہلی” کے نام سے مشہور ہوئی 23۔
محمود غزنوی اور محمد غوری کے کردار کا فرق برصغیر میں ترک طاقت کے ارتقاء کو ظاہر کرتا ہے۔ محمود ایک حملہ آور تھا جس کا بنیادی مقصد وسائل کا حصول تھا، جبکہ پنجاب پر اس کا قبضہ مستقبل کے حملوں کے لیے ایک اسٹریٹجک ضرورت تھی 20۔ اس کے برعکس، محمد غوری ایک سلطنت ساز تھا جس کا وژن ہندوستان میں ایک نئی سیاسی بنیاد رکھنا تھا 23۔ اس کا اپنے غلام جرنیلوں، جیسے ایبک، کو منتظم مقرر کرنا ایک دانشمندانہ ریاستی حکمت عملی تھی جس نے اس کی موت کے بعد بھی اس کے کام کو جاری رکھا 24۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں مسلم سلطنت کا حقیقی بانی محمود غزنوی کو نہیں، بلکہ محمد غوری کو سمجھا جاتا ہے۔
باب 4: خاندانِ غلاماں (1206-1290 عیسوی)
قیام و استحکام
قطب الدین ایبک نے 1206ء میں دہلی سلطنت کے پہلے حکمران خاندان، خاندانِ غلاماں، کی بنیاد رکھی 26۔ اس خاندان کو یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ اس کے بانی اور کئی مشہور حکمران ابتدائی زندگی میں غلام تھے 27۔ ایبک کے بعد اس کے داماد، شمس الدین التمش، نے سلطنت کو حقیقی معنوں میں مستحکم کیا۔ اس نے نہ صرف اندرونی بغاوتوں کو کچلا بلکہ چنگیز خان کی قیادت میں منگولوں کے طوفان سے بھی سلطنت کو محفوظ رکھا 28۔ التمش نے اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹوں پر اپنی بیٹی، رضیہ سلطانہ، کو ترجیح دیتے ہوئے اسے اپنا جانشین نامزد کیا، جو 1236ء میں تخت نشین ہو کر ہندوستان کی پہلی اور واحد مسلم خاتون حکمران بنی 26۔
غیاث الدین بلبن اور میوات
اس خاندان کا سب سے طاقتور اور سخت گیر حکمران غیاث الدین بلبن تھا، جو 1266ء میں تخت پر بیٹھا 28۔ بلبن کو ورثے میں ایک کمزور اور غیر مستحکم سلطنت ملی تھی۔ اس کے دور میں، دہلی کے نواح میں واقع میوات کا علاقہ سلطنت کے لیے ایک مستقل دردِ سر بن چکا تھا۔ میواتی قبائل، جو اپنی جنگجو فطرت اور آزادی پسندی کے لیے مشہور تھے، اکثر دہلی کے مضافات تک چھاپے مارتے، قافلوں کو لوٹتے اور دارالحکومت کے امن و امان کو تہ و بالا کر دیتے تھے 29۔ میوات کی دہلی سے قربت نے اس خطرے کو مزید سنگین بنا دیا تھا، کیونکہ یہ دارالحکومت کی سپلائی لائنوں اور سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ تھا۔
میوات کے خلاف چھیڑ چھاڑ
بلبن نے اس خطرے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے انتہائی بے رحمانہ پالیسی اختیار کی۔ یہ دہلی سلطنت اور میوات کے درمیان پہلا بڑا اور منظم تصادم تھا۔ اس نے میوات کے گھنے جنگلات، جو میواتیوں کے لیے پناہ گاہ کا کام دیتے تھے، کو بڑے پیمانے پر کٹوا دیا۔ اس کے بعد ایک بڑی فوج بھیج کر میوات پر حملہ کیا گیا، جس میں ایک اندازے کے مطابق ہزاروں میواتیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور بغاوت کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ بلبن کا یہ اقدام محض سزا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک اسٹریٹجک ضرورت تھی جس کا مقصد دارالحکومت کے دروازے پر موجود ایک طاقتور اور خود سر قوت کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔
باب 5: خلجی اور تغلق خاندان (1290-1414 عیسوی)
خلجی خاندان
1290ء میں، ایک بزرگ خلجی سردار، جلال الدین فیروز خلجی، نے خاندانِ غلاماں کے آخری کمزور حکمران کو معزول کر کے خلجی خاندان کی بنیاد رکھی 30۔ وہ ایک رحم دل حکمران تھا، لیکن اس کی نرمی کو کمزوری سمجھا گیا 31۔ 1296ء میں، اس کے महत्त्वाकांक्षी بھتیجے اور داماد، علاؤالدین خلجی، نے اسے دھوکے سے قتل کر دیا اور خود تخت پر قابض ہو گیا 32۔ علاؤالدین خلجی دہلی سلطنت کے عظیم ترین حکمرانوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ ایک بے رحم لیکن انتہائی قابل منتظم اور فوجی رہنما تھا۔ اس نے نہ صرف منگولوں کے پے در پے حملوں کو کامیابی سے پسپا کیا بلکہ گجرات، مالوہ اور راجپوتانہ کو فتح کیا۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی دکن اور جنوبی ہند تک سلطنت کو وسعت دینا تھی، جو اس سے پہلے کسی مسلم حکمران نے نہیں کیا تھا 28۔ اس کی معاشی اصلاحات، خصوصاً بازار میں قیمتوں کا تعین (مارکیٹ کنٹرول پالیسی)، تاریخ میں بے مثال سمجھی جاتی ہیں۔
تغلق خاندان
خلجی خاندان کے خاتمے کے بعد 1320ء میں غازی ملک نے غیاث الدین تغلق کے لقب سے تغلق خاندان کی بنیاد رکھی 34۔ اس کا بیٹا، محمد بن تغلق، جو 1325ء میں تخت نشین ہوا، دہلی سلطنت کی سب سے متنازع شخصیت ہے۔ وہ ایک ذہین اور पढ़ा-لکھا بادشاہ تھا لیکن اس کے منصوبے، جیسے دارالحکومت کی دہلی سے دیوگری (دولت آباد) منتقلی، اور چاندی کے سکوں کی جگہ تانبے کی علامتی کرنسی (ٹوکن کرنسی) کا اجراء، بری طرح ناکام ہوئے اور رعایا کے لیے شدید مشکلات کا باعث بنے 35۔
فیروز شاہ تغلق اور میوات
محمد بن تغلق کے بعد اس کا چچا زاد بھائی، فیروز شاہ تغلق، 1351ء میں تخت پر بیٹھا۔ اس نے اپنے پیشروؤں کی سخت گیر پالیسیوں کے برعکس ایک نرم اور مفاہمانہ رویہ اپنایا۔ بلبن کی میوات کے خلاف تباہ کن پالیسی کے بالکل برعکس، فیروز شاہ نے میواتی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے سلطنت کے نظام میں ضم کرنے کی کوشش کی۔
میوات کے ساتھ تعلقات
1372ء میں، فیروز شاہ تغلق نے میوات کے ایک مقامی سردار، راجہ ناہر خان کو، “والیِ میوات” کا خطاب عطا کیا اور اسے باقاعدہ طور پر خطے کا حکمران تسلیم کر لیا 36۔ یہ میوات کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس اقدام نے میوات کو ایک نیم خود مختار ریاست کی حیثیت دے دی، جس کے حکمران دہلی کے سلطان کے وفادار تھے۔ اس کے بعد ناہر خان کی اولاد، جو “خانزادہ” کہلائی، نے تقریباً ڈیڑھ صدی تک میوات پر خود مختاری سے حکومت کی 36۔ فیروز شاہ کی یہ پالیسی اس حقیقت کا اعتراف تھی کہ میواتیوں کو طاقت سے مکمل طور پر دبانا ممکن نہیں، لہٰذا بہتر یہی

ہے کہ انہیں اتحادی بنا کر سلطنت کے ڈھانچے کا حصہ بنا لیا جائے۔
باب 6: امیر تیمور کا حملہ اور سلطنت کا زوال (1398-1399 عیسوی)
پس منظر
چودھویں صدی کے آخر تک تغلق سلطنت داخلی خلفشار اور کمزور حکمرانوں کی وجہ سے زوال پذیر ہو چکی تھی۔ اسی دوران وسطی ایشیا میں چنگیز خان کی विरासत کے دعویدار، امیر تیمور، نے ایک وسیع سلطنت قائم کر لی تھی 37۔ ہندوستان کی بے پناہ دولت اور دہلی سلطنت کی کمزوری نے اسے ہندوستان پر حملے کی ترغیب دی 39۔ اس نے اپنے حملے کو “کافروں کے خلاف جہاد” کا نام دیا، حالانکہ اس کی راہ میں آنے والی زیادہ تر ریاستیں اور حکمران مسلمان ہی تھے 40۔
تباہی
1398ء کے اواخر میں تیمور ایک لاکھ کی فوج کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوا اور راستے میں آنے والے شہروں، بشمول تلمبہ اور ملتان، کو تباہ و برباد کرتا ہوا دہلی کی طرف بڑھا 40۔ دہلی کے قریب اس نے سلطان ناصر الدین محمود تغلق کی کمزور فوج کو آسانی سے شکست دے دی۔ دہلی پر قبضے کے بعد، تیمور نے شہر میں تاریخ کا بدترین قتل عام کروایا، جو کئی دن تک جاری رہا۔ شہر کو لوٹا گیا اور عمارتوں کو آگ لگا دی گئی، جس سے دہلی مکمل طور پر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی 39۔ تیمور کی واپسی کے بعد دہلی سلطنت عملی طور پر ختم ہو گئی اور اس کا اقتدار صرف دہلی اور اس کے چند نواحی علاقوں تک محدود ہو کر رہ گیا 29۔
باب 7: سید اور لودھی خاندان (1414-1526 عیسوی)
سید خاندان
تیمور کے حملے سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا میں، اس کے مقرر کردہ ملتان کے گورنر، خضر خان، نے 1414ء میں دہلی پر قبضہ کر کے سید خاندان کی بنیاد رکھی 41۔ یہ ایک انتہائی کمزور خاندان تھا جس کا دورِ حکومت افراتفری اور بغاوتوں سے عبارت رہا۔ ان کی حکومت کا دائرہ کار دہلی کے اردگرد کے چند اضلاع سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔
لودھی خاندان
1451ء میں، لاہور اور سرہند کے ایک طاقتور افغان گورنر، بہلول لودھی، نے آخری کمزور سید حکمران کو معزول کر کے ہندوستان میں پہلے پشتون حکمران خاندان، لودھی خاندان، کی بنیاد رکھی 41۔ بہلول لودھی نے اپنی قابلیت سے سلطنت کو کسی حد تک بحال کیا اور جونپور کی طاقتور شرقی سلطنت کو شکست دے کر دوبارہ دہلی میں ضم کر لیا 42۔ اس کا بیٹا، سکندر لودھی، اس خاندان کا سب سے مشہور اور قابل حکمران تھا۔ اس نے انتظامی اصلاحات کیں اور سلطنت کو مضبوط کیا۔ اسی نے 1504ء میں آگرہ شہر کی بنیاد رکھی اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا 42۔
سکندر لودھی کے بعد اس کا بیٹا، ابراہیم لودھی، تخت پر بیٹھا۔ وہ ایک مغرور اور نااہل حکمران تھا جس نے اپنے افغان امراء کو ناراض کر دیا 42۔ اس کی اسی نااہلی اور داخلی سازشوں سے تنگ آ کر پنجاب کے گورنر دولت خان لودھی اور ابراہیم کے چچا عالم خان لودھی نے کابل کے مغل حکمران، ظہیر الدین بابر، کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی۔ اسی دعوت کے نتیجے میں 1526ء میں پانی پت کی پہلی جنگ ہوئی، جس میں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر لودھی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی 42۔

اس دور میں میوات
سید اور لودھی خاندانوں کے کمزور مرکزی اقتدار کے دوران، والیانِ میوات اپنی نیم خود مختار حیثیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ وہ دہلی کے تخت کے ساتھ اپنے تعلقات کو وقت اور طاقت کے توازن کے مطابق ڈھالتے رہے۔ کبھی وہ خراج ادا کر کے اپنی وفاداری کا یقین دلاتے تو کبھی مرکزی حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر بغاوت کر دیتے۔ اس پورے دور میں، وہ شمالی ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم علاقائی قوت کے طور پر موجود رہے۔
حصہ سوم: مغلیہ سلطنت – عروج، استحکام اور زوال
باب 8: سلطنتِ مغلیہ کا آغاز (1526-1556 عیسوی)
ظہیر الدین بابر
امیر تیمور اور چنگیز خان کی نسل سے تعلق رکھنے والے، فرغانہ کے شہزادے ظہیر الدین محمد بابر نے وسطی ایشیا میں ناکامیوں کے بعد کابل میں اپنی حکومت قائم کی اور پھر ہندوستان کا رخ کیا 44۔ 21 اپریل 1526ء کو پانی پت کے میدان میں، بابر نے اپنی چھوٹی مگر منظم فوج اور جدید آتشیں اسلحے، یعنی توپ خانے اور بارود، کے بل بوتے پر سلطان ابراہیم لودھی کی کئی گنا بڑی فوج کو شکست دی 45۔ اس فتح نے دہلی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔
جنگِ خانوا اور میوات کی فیصلہ کن مزاحمت
پانی پت کی فتح کے باوجود، بابر کی حکومت کو اصل خطرہ میواڑ کے بہادر راجپوت حکمران، رانا سانگا، کی قیادت میں متحد ہونے والی ہندوستانی افواج سے تھا۔ اس اتحاد میں سب سے نمایاں اور طاقتور شخصیت والیِ میوات، راجہ حسن خان میواتی کی تھی۔ حسن خان میواتی، جو خود ایک مسلمان تھے، نے مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر، ایک بیرونی حملہ آور کے خلاف اپنے وطن کے دفاع کے لیے رانا سانگا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ 1527ء میں آگرہ کے قریب خانوا کے میدان میں ایک خونریز جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں حسن خان میواتی اپنی بارہ ہزار میو سپاہیوں پر مشتمل فوج کے ساتھ بے جگری سے لڑے اور جامِ شہادت نوش کیا 46۔ اگرچہ اس جنگ میں بابر کو فتح نصیب ہوئی، لیکن حسن خان میواتی کی قربانی میو قوم کی تاریخ میں ان کی بہادری، حب الوطنی اور خود مختاری کی علامت بن گئی۔ اس جنگ نے شمالی ہندوستان میں مغل حکومت کے قیام کی راہ ہموار کر دی۔
سوری خاندان
بابر کے بعد اس کا بیٹا نصیر الدین ہمایوں تخت نشین ہوا، لیکن وہ اپنے باپ کی طرح قابل جرنیل اور منتظم ثابت نہ ہوا۔ 1540ء میں، ایک بہادر افغان سردار، شیر شاہ سوری، نے قنوج کے مقام پر ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا 47۔ شیر شاہ سوری نے صرف پانچ سال حکومت کی، لیکن اس مختصر عرصے میں اس نے ایسے شاندار انتظامی، معاشی اور فوجی اصلاحات نافذ کیں (مثلاً گرینڈ ٹرنک روڈ کی تعمیر، روپیہ کا اجراء، اور زمین کی پیمائش کا نظام) کہ بعد میں مغل بادشاہ اکبر نے بھی ان میں سے بہت سی اصلاحات کو اپنایا 43۔ 1555ء میں، شیر شاہ کی وفات کے دس سال بعد، ہمایوں نے ایرانی مدد سے سوریوں کو شکست دے کر دہلی کا تخت دوبارہ حاصل کر لیا، لیکن اگلے ہی سال اس کا انتقال ہو گیا۔
باب 9: عہدِ اکبری (1556-1605 عیسوی)
استحکام اور پالیسیاں
ہمایوں کی اچانک موت کے بعد، اس کا صرف 14 سالہ بیٹا، جلال الدین محمد اکبر، اپنے اتالیق بیرم خان کی سرپرستی میں تخت نشین ہوا 48۔ اکبر نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور قابلیت سے نہ صرف سلطنت کو مستحکم کیا بلکہ اسے ایک وسیع اور مضبوط سلطنت میں تبدیل کر دیا۔ اکبر کو تاریخ میں اس کی مذہبی رواداری کی پالیسی “صلحِ کل” (سب کے ساتھ امن)، ہندو راجپوتوں کے ساتھ سیاسی اور ازدواجی اتحاد قائم کرنے، اور ایک مؤثر انتظامی نظام (منصبداری نظام) متعارف کروانے کی وجہ سے “اکبر اعظم” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے 48۔
اکبر اور میوات
اکبر نے اپنے پیشروؤں کے برعکس میوات کے مسئلے کا ایک مستقل حل نکالا۔ اس نے میوات کی نیم خود مختار سیاسی حیثیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اس نے میوات کے علاقے کو انتظامی طور پر تقسیم کر کے براہِ راست مغل صوبوں، آگرہ اور دہلی، کا حصہ بنا دیا۔ اس نے میو قوم کی روایتی سماجی اور علاقائی تقسیم، یعنی “پالوں” (علاقائی اکائیوں)، کی از سرِ نو تنظیم کی تاکہ ان کی اجتماعی طاقت کو کمزور کیا جا سکے اور انہیں مرکزی حکومت کے کنٹرول میں لایا جا سکے 49۔ یہ میوات کے ساتھ ایک مختلف قسم کی “چھیڑ چھاڑ” تھی، جو فوجی طاقت کے بجائے انتظامی حکمتِ عملی پر مبنی تھی۔ اس کا مقصد میواتی شناخت کو ختم کرنا نہیں، بلکہ ان کی سیاسی خود مختاری کو ختم کر کے انہیں مغل نظامِ حکومت کا حصہ بنانا تھا۔
اکبر کے اس اقدام نے میوات کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بلبن نے میواتیوں کو فوجی طاقت سے دبانے کی کوشش کی، فیروز شاہ نے انہیں سیاسی طور پر اپنا اتحادی بنایا، اور بابر نے ان سے میدانِ جنگ میں مقابلہ کیا۔ لیکن اکبر نے ان کی سیاسی ساخت کو ہی تحلیل کر کے ان کی مزاحمت کی نوعیت کو بدل دیا۔ اس کے بعد میوات کی طرف سے کوئی بڑی سیاسی یا فوجی بغاوت دیکھنے میں نہیں آئی، اور ان کی جدوجہد اپنی ثقافتی اور سماجی شناخت کو محفوظ رکھنے تک محدود ہو گئی۔
باب 10: جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر (1605-1707 عیسوی)
عہدِ جہانگیر (1605-1627)
اکبر کے بعد اس کا بیٹا نورالدین سلیم، جہانگیر کے لقب سے تخت پر بیٹھا۔ اس نے بڑی حد تک اپنے والد کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ اس کا دور امن و امان اور فنونِ لطیفہ، خاص طور پر مصوری، کے فروغ کے لیے مشہور ہے 50۔
عہدِ شاہ جہاں (1628-1658)
جہانگیر کے بعد اس کا بیٹا شہاب الدین محمد خرم، شاہ جہاں کے لقب سے بادشاہ بنا۔ اس کے دور کو مغلیہ سلطنت کا “سنہری دور” کہا جاتا ہے، خاص طور پر فنِ تعمیر کے حوالے سے 51۔ شاہ جہاں نے دنیا کی تاریخ کی چند خوبصورت ترین عمارتیں تعمیر کروائیں، جن میں آگرہ کا تاج محل، دہلی کا لال قلعہ، اور جامع مسجد دہلی شامل ہیں 50۔ یہ عمارتیں فارسی، وسطی ایشیائی اور ہندوستانی طرزِ تعمیر کا ایک بے مثال امتزاج ہیں 53۔ تاہم، اس تعمیراتی شان و شوکت کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ ان عظیم الشان منصوبوں پر اٹھنے والے بے پناہ اخراجات نے شاہی خزانے پر شدید بوجھ ڈالا۔ ایک موقع پر دربار کو چلانے کے اخراجات سلطنت کی کل آمدنی سے بھی تجاوز کرنے لگے تھے 51۔ اس طرح، جو دور ظاہری طور پر سلطنت کے عروج کی علامت تھا، وہی معاشی طور پر اس کے مستقبل کے زوال کی بنیاد بھی رکھ رہا تھا۔
عہدِ اورنگزیب عالمگیر (1658-1707)
شاہ جہاں کے بیٹوں میں تخت نشینی کی خونریز جنگ کے بعد، محی الدین محمد اورنگزیب، عالمگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اورنگزیب ایک انتہائی قابل منتظم، محنتی اور دیندار حکمران تھا 54۔ اس نے سلطنت کو اس کی تاریخ کی سب سے بڑی جغرافیائی وسعت تک پہنچایا، جس میں تقریباً پورا برصغیر شامل تھا۔ تاہم، اس کی کچھ پالیسیوں نے سلطنت کے لیے طویل مدتی مسائل پیدا کیے۔ دکن میں مرہٹوں کے خلاف اس کی 25 سالہ طویل اور مہنگی جنگی مہمات نے شاہی خزانے کو خالی کر دیا اور شمالی ہندوستان میں اس کی عدم موجودگی نے بغاوتوں کو پنپنے کا موقع دیا۔ اس کے علاوہ، غیر مسلموں پر جزیہ کا دوبارہ نفاذ اور بعض مندروں کو مسمار کرنے کے واقعات نے ہندو آبادی، خصوصاً راجپوتوں اور مرہٹوں، کو سلطنت سے متنفر کر دیا، جس سے سلطنت کی بنیادیں کمزور ہو گئیں۔
اس دور میں میوات
اکبر کی انتظامی اصلاحات کے بعد، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب کے ادوار میں میوات بڑی حد تک پرامن رہا اور مغل سلطنت کا ایک حصہ بن کر رہا۔ میو افراد نے مغل فوج میں بھی خدمات انجام دیں، لیکن ان کی مقامی اور قبائلی شناخت بدستور مضبوط رہی 36۔ اس دور میں مرکزی حکومت کی طرف سے میوات میں کسی بڑی فوجی مداخلت یا تصادم کا کوئی اہم ثبوت نہیں ملتا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اکبر کی پالیسی میوات کو مغل نظام میں ضم کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
حصہ چہارم: مغلیہ سلطنت کا زوال اور بیرونی یلغار
باب 11: کمزور جانشین اور سلطنت کا انتشار (1707-1739 عیسوی)
1707ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات مغلیہ سلطنت کے زوال کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ اس کی موت کے بعد تخت نشینی کے لیے اس کے بیٹوں میں خونریز جنگیں شروع ہوئیں، جس نے سلطنت کی عسکری اور سیاسی طاقت کو شدید نقصان پہنچایا۔ اورنگزیب کے بعد آنے والے حکمران، جیسے بہادر شاہ اول، جہاندار شاہ، فرخ سیر، اور محمد شاہ ‘رنگیلا’، نااہل، عیش پرست اور درباری سازشوں میں گھرے ہوئے تھے [User Query]۔ مرکزی حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبائی گورنروں نے اپنی نیم خود مختار ریاستیں قائم کرنا شروع کر دیں، جن میں دکن میں نظام الملک اور اودھ میں سعادت خان قابلِ ذکر ہیں۔ اسی دوران مرہٹے، سکھ اور جاٹ جیسی علاقائی طاقتیں ابھریں اور انہوں نے مغل علاقوں پر قبضے کرنا شروع کر دیے، جس سے سلطنت تیزی سے سکڑنے لگی 55۔
باب 12: نادر شاہ کا حملہ (1739 عیسوی)
پس منظر
مغلیہ سلطنت کے اس داخلی انتشار اور زوال کے دوران، ایران میں ایک نیا اور طاقتور حکمران، نادر شاہ افشار، ابھرا 56۔ اس نے مغل سلطنت کی کمزوری اور اس کی افسانوی دولت کو دیکھتے ہوئے ہندوستان پر حملے کا منصوبہ بنایا 57۔ مغل دربار میں موجود ایرانی اور تورانی امراء کی باہمی رقابتوں اور سازشوں نے بھی نادر شاہ کو حملے کی ترغیب دی۔ نظام الملک اور سعادت خان جیسے طاقتور امراء نے مبینہ طور پر نادر شاہ کو خطوط لکھ کر حملے کی دعوت دی 58۔
جنگ اور قتلِ عام
نادر شاہ نے مئی 1738ء میں اپنی مہم کا آغاز کیا اور کابل، پشاور اور لاہور پر قبضہ کرتا ہوا دہلی کی طرف بڑھا 58۔ فروری 1739ء میں، کرنال کے مقام پر اس کا سامنا مغل بادشاہ محمد شاہ ‘رنگیلا’ کی فوج سے ہوا۔ اس جنگ میں نادر شاہ نے مغل فوج کو چند گھنٹوں میں فیصلہ کن شکست دے دی 56۔ مارچ 1739ء میں وہ فاتح کی حیثیت سے دہلی میں داخل ہوا۔ اس کے دہلی میں قیام کے دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ نادر شاہ مارا گیا ہے، جس پر دہلی کے کچھ شہریوں نے طیش میں آ کر اس کے چند سپاہیوں کو قتل کر دیا 57۔ اس واقعے نے نادر شاہ کو آگ بگولہ کر دیا اور اس نے 22 مارچ 1739ء کو اپنی فوج کو دہلی میں “قتلِ عام” کا حکم دے دیا 59۔ اس کے سپاہیوں نے کئی گھنٹوں تک شہر میں خون کی ہولی کھیلی، جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 20,000 سے 30,000 افراد ہلاک ہوئے 60۔
لوٹ مار اور اثرات
قتلِ عام کے بعد نادر شاہ نے دہلی کو منظم طریقے سے لوٹا۔ وہ اپنے ساتھ کروڑوں روپے کی دولت، ہیرے جواہرات، اور سب سے بڑھ کر شاہ جہاں کا مشہور “تختِ طاؤس” اور “کوہِ نور” ہیرا بھی لے گیا 59۔ نادر شاہ کے اس حملے نے مغلیہ سلطنت کی رہی سہی طاقت، دولت اور وقار کو خاک میں ملا دیا۔ یہ حملہ مغلیہ سلطنت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، جس کے بعد وہ صرف نام کی سلطنت رہ گئی اور اس کا اختیار دہلی کے لال قلعہ تک محدود ہو گیا۔
باب 13: احمد شاہ ابدالی کے حملے (1748-1767 عیسوی)
پس منظر
1747ء میں نادر شاہ کے قتل کے بعد، اس کا سب سے قابل افغان جرنیل، احمد شاہ، ابدالی قبیلے کا سردار ہونے کی وجہ سے درانی کے لقب سے افغانستان کا بادشاہ بن گیا 61۔ اس نے اپنے پیشرو نادر شاہ کی طرح ہندوستان کو اپنی سلطنت کے لیے وسائل اور دولت کا ذریعہ سمجھا اور 1748ء سے

1767ء کے درمیان ہندوستان پر سات حملے کیے 62۔
پانی پت کی تیسری جنگ
احمد شاہ ابدالی کا سب سے اہم اور تاریخی حملہ 1761ء میں ہوا، جب اس نے پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کیا۔ اس وقت مرہٹے شمالی ہندوستان پر چھا چکے تھے اور دہلی بھی ان کے زیرِ اثر تھا۔ پانی پت کی تیسری جنگ برصغیر کی تاریخ کی سب سے بڑی اور خونریز جنگوں میں سے ایک تھی۔ اس جنگ میں ابدالی نے مرہٹوں کو ایک تباہ کن شکست دی، جس سے ان کی طاقت کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا 61۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ ابدالی کو شاہ ولی اللہ جیسے ہندوستانی علماء نے مرہٹوں کے خلاف مدعو کیا تھا، لیکن اس کی فوج نے دہلی، متھرا اور آگرہ جیسے شہروں میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں کوئی تفریق کیے بغیر شدید لوٹ مار اور قتل و غارت کی 63۔
اثرات
نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملے مغلیہ سلطنت کے زوال کی وجہ نہیں تھے، بلکہ یہ اس کے داخلی زوال کی علامت اور نتیجہ تھے۔ ایک مضبوط اور متحد سلطنت کبھی بھی اس طرح بیرونی حملہ آوروں کا شکار نہیں ہو سکتی تھی۔ ان حملوں نے سلطنت کو صرف آخری دھکا دیا۔ ابدالی کے حملوں نے شمالی ہندوستان میں ایک بہت بڑا سیاسی خلا پیدا کر دیا۔ مغل بادشاہ بے اختیار ہو چکے تھے اور مرہٹہ طاقت بکھر چکی تھی۔ اس سیاسی خلا کو بالآخر ایک نئی اور ابھرتی ہوئی طاقت، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی، نے پر کیا، جس کے لیے ہندوستان کی فتح کی راہ ہموار ہو چکی تھی۔
اختتامیہ: ایک تاریخی خلاصہ
برصغیر کی تاریخ، سکندر کی یلغار سے لے کر ابدالی کے حملوں تک، بیرونی حملہ آوروں کی آمد، مقامی تہذیبوں کی مزاحمت، اور عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال کی ایک طویل اور پیچیدہ داستان ہے۔ ہر دور نے اس خطے کی سیاست، معاشرت، ثقافت اور آبادیاتی ساخت پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ جہاں سکندر کے حملے نے مغرب اور مشرق کے درمیان تہذیبی راستے کھولے، وہیں محمد بن قاسم کی آمد نے اس خطے میں اسلام کی بنیاد رکھی۔ غزنوی اور غوری حملوں نے ترکوں کو ہندوستان کا حکمران بنایا، جس کے نتیجے میں سلطنتِ دہلی کا قیام عمل میں آیا، جو تین سو سال سے زائد عرصے تک قائم رہی۔
اس طویل تاریخی سفر میں میو قوم اور میوات کا خطہ ایک منفرد اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دہلی کے تخت سے جغرافیائی قربت کی وجہ سے، وہ ہمیشہ مرکزی حکومتوں کی نگاہ میں رہے۔ ان کا حکمرانوں کے ساتھ تعلق وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہا۔ یہ تعلق کبھی شدید تصادم (غیاث الدین بلبن، ظہیر الدین بابر)، کبھی سیاسی مفاہمت (فیروز شاہ تغلق)، اور کبھی انتظامی انضمام (جلال الدین اکبر) کی شکل میں ظاہر ہوا۔ میوات کی تاریخ دراصل مرکزی طاقت کے خلاف ایک مضبوط علاقائی شناخت اور خودمختاری کی جدوجہد کی ایک بہترین مثال ہے، جو آج بھی تاریخ کے طالب علموں کے لیے گہری دلچسپی کا باعث ہے۔
جدول: کلیدی حکمران اور میوات کے ساتھ تعلقات
حکمران/خاندان | دورِ حکومت | میوات/میو قوم کے ساتھ تعلقات کی نوعیت |
غیاث الدین بلبن (خاندانِ غلاماں) | 1266-1286 | تصادم اور بے رحمانہ دباؤ: دہلی کے لیے خطرہ سمجھ کر میواتیوں کی بغاوت کو سختی سے کچلا، جنگلات کٹوائے اور بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا۔ |
فیروز شاہ تغلق (تغلق خاندان) | 1351-1388 | مفاہمت اور اتحاد: راجہ ناہر خان کو “والیِ میوات” کا خطاب دے کر نیم خود مختار حکمران تسلیم کیا۔ تصادم کی بجائے سیاسی انضمام کی پالیسی اپنائی 36۔ |
ظہیر الدین بابر (مغلیہ سلطنت) | 1526-1530 | جنگ اور فیصلہ کن مزاحمت: والیِ میوات حسن خان میواتی نے جنگِ خانوا (1527) میں رانا سانگا کا ساتھ دیا اور بابر کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ |
جلال الدین اکبر (مغلیہ سلطنت) | 1556-1605 | انتظامی انضمام اور سیاسی تحلیل: میوات کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے براہِ راست مغل صوبوں میں ضم کر دیا۔ میو “پالوں” کی تنظیمِ نو کی تاکہ ان کی سیاسی طاقت کو کمزور کیا جا سکے 49۔ |
Works cited
- فاتح عالم سکندر اعظم – Roshnai – روشنائی, accessed on September 30, 2025, https://roshnai.com/sikandar-e-azam/
- خیبرپختونخوا: برصغیر پاک و ہند کا گیٹ وے – WE News, accessed on September 30, 2025, https://wenews.pk/news/47184/
- وہ تین خواتین جو مریم نواز سے پہلے پنجاب کی حکمران رہیں – Independent Urdu, accessed on September 30, 2025, https://www.independenturdu.com/node/161846
- ملتان کے ملی قبیلے کی سکندراعظم کےخلاف جنگ سونے کے حروف سے لکھی جانے والی داستان ہے – Daily Pakistan, accessed on September 30, 2025, https://dailypakistan.com.pk/23-Aug-2022/1477268
- سکندر کے ہند پر حملے سے کنشک کے دربار تک ۔۔۔۔۔ – Daily Pakistan, accessed on September 30, 2025, https://dailypakistan.com.pk/23-Mar-2022/1417666
- محمد بن قاسم – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%A8%D9%86_%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85
- محمد بن قاسم نے سندھ میں اسلام پھیلایا یا دہشت؟ – Naya Daur Urdu, accessed on September 30, 2025, https://urdu.nayadaur.tv/10-May-2022/18545
- محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ – Nawaiwaqt, accessed on September 30, 2025, https://www.nawaiwaqt.com.pk/22-Mar-2024/1774776
- فاتحِ سندھ، غازی محمد بن قاسمؒ اسلام کی عظمتِ رفتہ کا امین – Daily Jang, accessed on September 30, 2025, https://jang.com.pk/news/766656
- محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%A8%D9%86_%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85_%DA%A9%D8%A7_%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE_%D9%BE%D8%B1_%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%81
- فاتحِ سندھ ؛ محمد بن قاسم ثقفیؒ (2) | Rahimia Institute of Quranic Sciences (Trust) Lahore, accessed on September 30, 2025, https://rahimia.org/en/articles/fateh-sindh-muhammad-bin-qasim-2/
- جنگ جمل – ویکیپدیا، دانشنامهٔ آزاد, accessed on September 30, 2025, https://fa.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%86%DA%AF_%D8%AC%D9%85%D9%84
- جنگ جمل – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%86%DA%AF_%D8%AC%D9%85%D9%84
- امیر المؤمنین علی (ع) کے خلاف عائشہ اور معاویہ کی ایجاد کردہ داخلی جنگوں میں صحابہ کی اکثریت کس کے ساتھ تھی ؟, accessed on September 30, 2025, https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1536
- جنگ جمل کی داستان – شیعہ, accessed on September 30, 2025, https://ur.al-shia.org/%D8%AC%D9%86%DA%AF-%D8%AC%D9%85%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86/
- (*) جنگ جمل, accessed on September 30, 2025, https://almonji.com/gu/ur?param=node/show/11525
- جنگ جمل ۔حضرت عائشہ اور حضرت علی کے درمیان جنگ کی حقیقت, accessed on September 30, 2025, https://aqilkhans.wordpress.com/2012/12/26/%D8%AC%D9%86%DA%AF-%D8%AC%D9%85%D9%84-%DB%94%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%B9%D8%A7%D8%A6%D8%B4%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85/
- سلطنت غزنویہ – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D8%BA%D8%B2%D9%86%D9%88%DB%8C%DB%81
- محمود غزنوی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF_%D8%BA%D8%B2%D9%86%D9%88%DB%8C
- سلطان محمود غزنوی – Roshnai – روشنائی, accessed on September 30, 2025, https://roshnai.com/sultan-mehmood-ghaznavi/
- سلطان محمود غزنوی – چند بڑے اعتراضات کا جائزہ, accessed on September 30, 2025, https://ilhaad.com/history/tareekh-e-hindustan/sultan-mehmood-ghaznavi/
- سلطان محمود غزنوی – ایکسپریس اردو – Express.pk, accessed on September 30, 2025, https://www.express.pk/story/2302142/sltan-mhmwd-ghznwy-2302142
- سلطنت غوریہ – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D8%BA%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81
- غوری خاندان – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%BA%D9%88%D8%B1%DB%8C_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86
- شہاب الدین غوری – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%A8_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%BA%D9%88%D8%B1%DB%8C
- خاندان غلاماں – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86_%D8%BA%D9%84%D8%A7%D9%85%D8%A7%DA%BA
- خاندان غلاماں۔۔۔۔(1206ءسے 1290ءتک) – Daily Pakistan, accessed on September 30, 2025, https://dailypakistan.com.pk/07-Apr-2022/1423676
- سلطنت دہلی – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا | PDF – Scribd, accessed on September 30, 2025, https://www.scribd.com/document/707103005/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF-%D8%AF%D8%A7%D8%A6%D8%B1%DB%83-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81-%D9%88%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D9%BE%DB%8C%DA%88%DB%8C%D8%A7
- سلطنت دہلی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C
- خلجی خاندان – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%D8%AC%DB%8C_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86
- جلال الدین خلجی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D9%84%D8%A7%D9%84_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%AE%D9%84%D8%AC%DB%8C
- ہندوستان کے 2 اصلاحات پسند بادشاہ – Daily Jang, accessed on September 30, 2025, https://jang.com.pk/news/1182815
- خاندانِ خلجی۔۔۔۔۔۔(1290ءسے 1320ءتک) – Daily Pakistan, accessed on September 30, 2025, https://dailypakistan.com.pk/09-Apr-2022/1424527
- محمد بن تغلق کے سندھ میں آخری ایام! – Opinions – Dawn News Urdu, accessed on September 30, 2025, https://www.dawnnews.tv/news/1135832
- خاندان تغلق اور خونی سلطان۔۔۔۔(1320ءسے 1414ءتک) – Daily Pakistan, accessed on September 30, 2025, https://dailypakistan.com.pk/12-Apr-2022/1425768
- میوات – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA
- امیر تیمور سیف اسلام با گردن اسلام۔مختصر جائزہ/ایم کاشف۔۔۔دوسری،آخری قسط – مکالمہ, accessed on September 30, 2025, https://www.mukaalma.com/65224/
- امیر تیمور – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%B1_%D8%AA%DB%8C%D9%85%D9%88%D8%B1
- ملتان تلمبہ اُچ شریف پاکپتن دیپالپور اور دہلی ان سب شہروں میں امیر تیمور کا مقابلہ مسلمانوں سے ہی ہوا – Daily Pakistan, accessed on September 30, 2025, https://dailypakistan.com.pk/13-Aug-2022/1473555
- سیف السلام با گردن اسلام۔۔۔۔۔امیر تیمور/ایم کاشف – مکالمہ, accessed on September 30, 2025, https://www.mukaalma.com/65139/
- سید خاندان – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D8%AF_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86
- لودھی سلطنت – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%84%D9%88%D8%AF%DA%BE%DB%8C_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA
- بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 60 – Daily Pakistan, accessed on September 30, 2025, https://dailypakistan.com.pk/09-Jun-2017/591267
- منگولوں کے ہندوستان پر حملے – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%86%DA%AF%D9%88%D9%84%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%92_%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%D9%BE%D8%B1_%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%92
- آرپی ۔ترپاٹھی کی کتاب مغلیہ سلطنت کا عروج وزوال | ریختہ – Rekhta, accessed on September 30, 2025, https://www.rekhta.org/ebooks/detail/mughalia-saltanat-ka-urooj-o-zawal-rptirpathi-ebooks?lang=ur
- زمرہ:میو راجپوت – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B2%D9%85%D8%B1%DB%81:%D9%85%DB%8C%D9%88_%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%BE%D9%88%D8%AA
- پاکستان میں مسلم فن تعمیر : ایک مختصر جائزہ | مراۃالعارفین انٹرنیشنل – Mirrat.com, accessed on September 30, 2025, https://www.mirrat.com/article/92/1556
- اکبرِ اعظم کو کافرِ اعظم بنا کر کیوں پیش کیا گیا؟ – Independent Urdu, accessed on September 30, 2025, https://www.independenturdu.com/node/124066
- History Of Meo Caste | میواتی قوم کی تاریخ / मेव जाति का इतिहास | Documentary In Urdu/Hindi – YouTube, accessed on September 30, 2025, https://www.youtube.com/watch?v=OmcMtKct6L0
- مغل طرز تعمیر: جس نے دنیا بھر میں شہروں کے – فکرو خبر نیوز, accessed on September 30, 2025, https://fikrokhabar.com/mughal-tarze-tameer/
- مغلیہ سلطنت – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%BA%D9%84%DB%8C%DB%81_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA
- تاج محل اسلامی فن تعمیر کا عظیم شاہکار – اسلام ۔۔۔۔۔۔ کیوں؟, accessed on September 30, 2025, https://ur.islamwhy.com/Contents/view/details?id=308&cid=45
- مغلیہ طرز تعمیر – آزاد دائرۃ المعارف, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%BA%D9%84%DB%8C%DB%81_%D8%B7%D8%B1%D8%B2_%D8%AA%D8%B9%D9%85%DB%8C%D8%B1
- اورنگزیب عالمگیرپرلگائےجانےوالےبڑےاعتراضات کاعلمی جائزہ – الحاد جدید کا علمی محاکمہ, accessed on September 30, 2025, https://ilhaad.com/history/tareekh-e-hindustan/aurangzeb-alamgir-ahtirazat-jaiza/
- مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں کی فہرست – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%BA%D9%84%DB%8C%DB%81_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%DA%A9%DB%92_%D8%AD%DA%A9%D9%85%D8%B1%D8%A7%D9%86%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%8C_%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA
- en.wikipedia.org, accessed on September 30, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Nader_Shah’s_invasion_of_India
- نادر شاہ جگہ جگہ قتل عام آتش زنی اور لوٹ مار کرتا ہوا دہلی میں داخل ہوا – Daily Pakistan, accessed on September 30, 2025, https://dailypakistan.com.pk/14-Aug-2022/1473814
- نادر شاہ کا مغلیہ سلطنت پر حملہ – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D8%A7%D8%AF%D8%B1_%D8%B4%D8%A7%DB%81_%DA%A9%D8%A7_%D9%85%D8%BA%D9%84%DB%8C%DB%81_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D9%BE%D8%B1_%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%81
- تاریخ کے آئینے میں 22 مارچ: جب نادرشاہ نے قتل عام کا حکم دیا – Hindusthan Samachar Urdu, accessed on September 30, 2025, https://urdu.hindusthansamachar.in/Encyc/2025/3/21/Article-On-this-day-22-March.php
- جب نادر شاہ دلی سے 30 ارب ڈالر کا مال لوٹ کر لے گیا | Independent Urdu, accessed on September 30, 2025, https://www.independenturdu.com/node/172021
- Ahmad Sha Abadal And Baluchistan احمد شاہ ابدالی اور بلوچستان – Balochistan, accessed on September 30, 2025, http://balochistansearch.blogspot.com/p/ahmad-sha-abadal-and-baluchistan.html
- احمد شاہ ابدالی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed on September 30, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%B4%D8%A7%DB%81_%D8%A7%D8%A8%D8%AF%D8%A7%D9%84%DB%8C
- احمد شاہ ابدالی: حملہ آور یا ہیرو ( ڈاکٹر مبارک علی )۔۔۔۔۔۔۔حمزہ ابراہیم – مکالمہ, accessed on September 30, 2025, https://www.mukaalma.com/71932/
- احمد شاہ ابدالی بھی ایک سلطنت ساز حملہ آور تھا, نیشاپور کی آبادی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ کسی بادشاہ – Daily Pakistan, accessed on September 30, 2025, https://dailypakistan.com.pk/16-Aug-2022/1474506