
اتحاد علماء میوات پاکستان کا جوڑ اور مذہبی لوگوں میں پریشانی کی لہر2
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
لیکن دوسو کے قریب علماء میں سے چوتھائی تعداد نے اس فارم کو پُر کرنے کی زحمت فرمائی۔ستر ،اسی، لوگوں نے اپنی تجاویز و آراء لکھیں۔ اتفاق سے مجھے چند ایک کے مطالعہ کا موقع ملا۔ایسا لگا کہ یہ تحریریں علماء کی نہیں بلکہ پرائمری کے طلباء نے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔
اس اجتماع میں مختلف کنہ مشق علماء نے اپنے جذبات کا اظہار کیامثلاء علماء میوات میں دیوبندیوں کے ساتھ علماء بریلوی۔علماء اہل حدیث بھی شامل کئے جائیں ۔اسی قسم کے اجتماعات مختلف علاقوں اور اضلاع میں ہونے چاہیئں ۔کچھ جوشیلے جوانوں نے تو اسے چاروں صوبوں تک پھیلا دیا۔جس تحمل و بردباری اور یکسانیت کے ساتھ یہ مجلس ہورہی تھی میری زندگی میں انوکھا کارنامہ تھا۔
راقم الحروف صوفی عرفان انجم صاحب کے والد محترم جناب صوفی روز دار مرحوم سے بھی یاد اللہ ہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب واہگہ چوکی مسجد میں مولانا ابو المظفر الظفر مرحوم حضرت احمد علی لاہوری کی نیابت فرماتے ہوئے فیضان تصوف سے دلوں کی آبیاری فرماتے تھے۔بھلے لوگ تھے۔میں بہت چھوٹا ہوا کرتا تھا۔ہمارے استاد محترم حاجی عبدالشکورعلیہ الرحمہ جوکہ ہماری مسجد کے امام تھے مجھے حکم دیتے ہم لوگ بائیسائیکل پر بھسین گائوں کھارا کھوہ سے واہگہ چوکی آتے۔یہیں پر صوفی روزدار صاحب کو مولانا کی خدمت کی حاضر دیکھتے۔
اس وقت ادب ہی ادب تھا سمجھ بوجھ کچھ نہ تھی۔البتہ میو ہونا کے ناطے ساری گفتگو میواتی زبان میں ہوا کرتی تھی۔ بھلے وقت اور بھلے لوگ تھے۔کیا معلوم تھا یہ لوگ ہم سے پہلے راہی جنت ہونگے۔ہمیں ان کی لگائی ہوئی فصل کی آبیاری کرنی پڑؑے گی۔
صوفی عرفان انجم اسی گلشن کا مہکتا پھول ہیں ۔ویسے بھی صاحب علم فارغ التحصیل ہیں ۔سب سے اہم بات یہ کہ خانقاہ کے ساتھ مکتب و مدرسہ بھی چلاتے ہیں ۔اتحاد علماء میوات۔ کے وجود کا سبب عرفان انجم ضرور ہے۔لیکن یہ وہی فکر گم کشتہ ہے ۔جس کی فکر خانقاہ ابو المظفر علیہ الرحمہ میں ہوا کرتی تھی ۔وہ لوگ جب گفتگو کرتے تھے تو مختلف موضوعات پر بات کرتے تھے۔مقامی علماء کے اتحاد پر بھی بات ہوا کرتی تھی۔ماضی کے دھندلکے جھٹنے لگے ہیں ۔شاید انہیں کا

فیضان فکر ہے جس کا ظہور صوفی عرفان انجم کے توسط سے ہوا ہے۔
عمومی طورپر میں کشف و کرامات۔بزرگی اور تکشف کا قائل کم ہی ہوں۔لیکن جب ایک چالیس کے بعد فکر مجسم ہوکر سامنے آجائے تو کسی دلیل کی ضروعت کہاں باقی رہتی ہے؟۔
اس اجتماع میں مفتی مسعود الرحمن کی نمائیندگی شاید اسی کا شاخانہ ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ سب لوگ رائیونڈ کے اجتماع میں جو کہ اس وقت ایک ہی ہوا کرتاتھا میں پہلے سے پہنچ جایا کرتے تھے یوں لگتا ان سے بڑا تبلیغی کوئی نہیں ہے۔لیکن ان کا انداز فکر اپنا تھا۔تبلیغی جماعت والوں کو چھ نمبری کہا کرتے تھے۔یعنی وہ لوگ جو فنا فی التبلیغ ہوجاتے ہیں ۔حالانکہ بھسین گائوں میں حاجی عبد الشکور۔واہگہ چوکی میں مولانا ظفر۔سہانکے گائوں میں میانجی روز دار تبلیغی جماعتوں کے میزبان ہوا کرتے تھے۔اس ساری وابسطگی کے باوجود تبلیغی لوگوں کے نزدیک یہ بزرگ کبھی ان معنوں میں تبلیغی نہ بن سکے۔جو انہیں مطلوب ہیں۔
اس کے علاوہ سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے متوالے تھے۔کوئی جلسہ یا اجتماع ایسا نہ ہوتا تھا جس میں یہ لوگ شریک نہ ہوتے ہوں یوں محسوس ہوتا جمیعت کا جیالا ان سے بڑھ کر کوئی نہیں۔قدمے سخنے درمے۔جہاں تک ہوسکتا یہ لوگ ساتھ چلتے۔کچھ ایسا ماحول تھا کہ جو بھی مذہبی اجتماع ہوتا ۔اسی کے ہورہتے۔خانقاہ جمیلیہ مولانا جمیل احمد دہلویؒ رائیونڈ کی مجالس ہوں۔یا حضرت درخواستی اور مفتی محمود صاحب کی سیاسی مجالس، جلوس۔یا پھر تبلیغی اجتماعات۔ایسا لگتا یہ سارے کام ان کے اپنے ہیں۔
وہ دور گیا آج ان کے جانشین لوگ ہیں، صوفی عرفان انجم کو شاید انہی کی توجہ و التفات نصیب ہوا ۔اور اتحاد علماء میوات کے عنوان سے اہل علم کو یکجا کرنے کی ٹھانی۔اور علمی جامہ پہنایا۔۔اللھم زد فزد۔
اتحاد علماء میوات پاکستان کا جوڑ اور مذہبی لوگوں میں پریشانی کی لہر3
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
جس وقت اتحاد علماء میوات کا بڑا جوڑ جامعہ عثمانیہ کاہنہ نولاہور میں طے پایا تو انتظامیہ اور میزبان کے فون کی گھنٹیاںبجنے لگیں۔شکوک و خدشات کا ان دیکھا طوفان اُمنڈ آیا۔دنیا داروں کے فون تو رہے ایک طرف، مذہبی طبقات کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جانے لگا۔اس میں دو طرح کے لوگ تھے ۔
(1)تبلیغی جماعت کے احباب۔انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار شروع کردیا کہ دیکھیں جی یہ تبلیغی جماعت کے خلاف اکٹھ ہورہا ہے ادھر رائیونڈ کا اجتماع ہے ادھر علماء کا جوڑ رکھ دیا گیا ۔یہ تبلیغی جماعت کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو تبلیغی جماعت سے الگ ہوگئے ہیں یہ فلاں گروپ ہے۔اس کا تعلق فلاں سےہے۔.
سب سے اہم بات یہ کہ منتظمین اور اتحاد علماء میوات کے اہل حل و عقد سے کسی نے پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ
آپ کیا کررے ہیں؟ ۔
اغراض و مقاصد کیا ہیں؟۔
علماء کے جوڑ کی کیوں ضرورت پیش آئی؟
ایسا کچھ نہیں ہوا خدشات اور الزامات کا طوفان تھا۔
۔”جواللہ سے ہونے کا یقین غیر سے کچھ نہ ہونے یقین “۔سلوگن والوں کی طرف سے اُٹھایا گیا تھا۔
میں نہیں سمجھتا کہ یہ مخلص تبلیغی لوگوں کی طرف سے ترجمانی کررہے تھے یا پھر اپنے طورپے نگہبانی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
لیکن رویہ اور انداز تخاطب بہر حال جارحانہ تھا۔میزبان سے بھی اس قسم کے سوالات ہوئے ،
انہوں نے معتدل انداز میں علمی جواب شائشتگی سے دیا کہ اجلاس میری طرف سے نہیں بلایا گیا ۔
میں تو فرائض میزابانی ادا کررہا ہوں ۔نہ مجھے ایجنڈے کا پتہ پے۔نہ مجھے اس بارہ میں بتایا گیا ہے ۔
البتہ علماء کی میزبانی کو اپنے لئے باعث شرف گردانتاہوں۔
رہا صوفی عرفان انجم ساحب کا معاملہ تو یہ بےچارا۔ دوہری مشقت میں مبتلاتھے۔ایک طرف علماء کو جمع کرنا ۔
انہیں یکجا ہونے پر قائل کرنا ۔دوسری طرف معترضین کے چھبتے ہوئے سوالات کا جواب دینا۔
دوسری طرف سیاسی علماء کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ جمیعت علماء اسلام خلاف ایک گٹھ جوڑ ہے۔
جاننے والے احباب اس بات کے گواہ ہیں اہل کتاب کے کونسے کونسے خدشات تھے۔
کچھ لوگوں نے دور کی کوڑی ملائی کہ یہ جوڑ بنیادی طورپر مفتی عبدالحفیظ صاحب کے خلاف گٹھ جوڑہے۔
جب باتیں کھلتی ہیں تو بہت زیادہ کشادگی دکھائی دینے لگتی ہے ۔بتانے والوں نے بتایا کہ حضرت مفتی صاحب مدظلہ کی تو بنیادی رکنیت ہی معطل ہے ۔بھلا ایک معطل انسان کے خلاف دو صد سے زائد علماء کو گٹھ جوڑ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔۔
لیکن ہم مشرقی لوگ دور کوڑی لانے دوسروں کے کردار میں شکوک و شبہات تلاش کرنے میں پیدائش مہارت رکھتے ہیں۔
آئے ہم ان دونوں طبقات کی بے چینی کا جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے خود ساختہ پیامبران تبلیغ۔انہیں اس بات سے کوئی سرکار نہیں کوئی گناہ کرے یا ثواب۔بس ان کے پیٹرن اور اسی زاویہ میں ہونا چاہئے جو انہوں نے مقرر کیا ہوا ہے۔ان کے معیارات اس قدر بودے اور خود فریبی پر مبنی ہوتے ہیں کہ علماء و فضلاء کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرتے جب تک وہ ان کا نصاب چلہ ۔چار مہینہ جیسی مشق نہ کرلیں ۔
عام لوگوں کے چلہ چار ماہ کافی ہوتے ہیں ۔لیکن علماء کے لئے سال سے کم میں قبولیت کے دروازے بند ہیں ۔ان کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ عالم تو ہیں لیکن ابھی اصلاح نہیں ہوئی۔
اگر اللہ کے راستے میں وقت لگ جائے تو اصلاح ہوجائے۔
لاحول والا قوۃ۔
کیا جس نے چار پانچ سال کی عمر پڑھنا شروع کیا۔حفظ کیا۔دو سالہ قرات کا کورس کیا آٹھ سالہ درس نظامی کیا۔اگر ہمت کی تو دو چار سالہ تخصص بھی کیا۔بیس بائیس سالہ تعلیم ۔یعنی تعلیم الاسلام سے لیکر کلماتان حبیبتان الی الرحمن تک پڑھا۔وہ نہیں سدھرا ۔ایک سال لگا کر وہ سدھر گیا؟۔
۔یا للعجب ۔کیسے جہالت کو لبادہ تقدس میں ملفوف کردیا گیا ہے؟
جب معیار تقوی اور تقدس زندگی چلہ چار مہینے قرار پائیں تو پھر تو ہر کسی پر اعتراض تو بنتا ہے کہ دین کا کوئی کام خواہ کسی شعبہ میں کیوں نہ ہو۔اس پر تبلیغی مہر ہونی لازم ہے۔ورنہ وہ مردور ٹہرے گی۔
رہی بات جمیعت والے۔ تو اِن کے معیارات بھی اپنے ہیں ۔جب تک ان کے پیرائے میں زندگی نہ دھل جائے وہ قابل قبول نہیں ۔
کچھ لوگوں کو حصار مذہبی میں لے کر ہر طرح سے استثنی دیدیا گیا ۔ان کی بر ہات قابل قبول ان کے دائرہ سے باہر ہر بات مردود ؟۔
ہم ان دونوں جماعتوں کی توقیر کرتے ہیں ۔
ہمارے آباء و اجداد ان سے وابسطہ رہے ہیں ۔
ان جماعتوں کے ترجمانوں کو سوچنا چاہئے کہ جو باتیں دوسروں میں تلاش کرتے ہیں کیا ان کے خود بھی اتنے ہی پابند ہیں ؟۔
انسانی نفسیات ہے جب وہ کسی طبقہ یا جماعت سے اطمنان نصیب نہ ہو تو دوھر اُدھر جھانکنے لگتا ہے۔
اگر کچھ لوگ ان کاموں یا معاشرتی خدمات سے غیر مطمئن ہوکر اپنے لئے کوئی میدان عمل تلاش کرتے ہیں
تو چاہئے کہ ان کی طرف اشارہ اعتراض سے پہلے اپنے انداز خدمات اور معاشرتی امیج پر ضرور نظر ڈالیں
کہ کونسی ایسی ضرورت آن پڑی تھی نوجوان علماء اپنے لئے الگ سے میدان عمل کے لئے تگ و دو کرنے پر مجبور ہوئے۔
اس کی دو ہی صورتیں ہیں۔
یاتو ان کے دستور و منشور میں جواانون اور نئے دور کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کا سامان موجود نہیں۔
یا پھر جو ذمہ دار تھے وہ علمی کردار اور کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔
بہر حال قابل توجہ یہ امر ہے یہ دونوں طبقے نئے علماء و فضلاء کو کیوں مطمئن نہ کرسکے؟۔
ان کی ضروریات کیا ہیں؟۔
کیوں االگ سے انہیں جمع ہونے اور نیا پلیٹ فارم تلاش کرنے ضرورت پیش آئی؟
جس وقت میرا یہ مضمون میڈیا کی زینت بنےگا تو کچھ لوگ جذبات سے مغلوب ہوکر سینہ سپر ہوجائیں گے۔
ناقص معلومات کی بنیاد پر واہی تباہی ۔اناپ شناب کہیں گے۔
ایسے لوگوں گزارش ہے ۔لکھنے یا بولنے سے پہلے جن خامیوں۔کوتاہیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
بڑے سے اس بارہ میں بات چیت ضرور فرمالیں۔۔۔
مجھے کسی کو ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔
از راہ معلومات بتانا چاہونگا۔کہ ہم لوگ سیاسی طورپر جمیعت سے تعلق رکھتے ہیں
تبلیغی جماعت سے ہماری وابسطگی خاندانی ہے۔۔۔
وماعلینا الابلاغ المبین۔
