کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔9
تحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی۔کاہنہ نولاہور پاکستان
بناسپتی گھی سے پیدا شدہ امراض کا تریاق۔کچلہ ہے
کچلہ اپنے مخصوص خواص کی وجہ سے مشہور ہے۔جب تک ڈالڈا گھی نے ہمارا دستر خواں پر پنجے گاڑے ہیں کچلہ کی اہمیت و افادیت دوچند ہوگئی ہے۔جب کوئی رواجی باتوں سے ہٹ کر بات کرتا تو لوگ اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ہم اپنی کتابوں اس کی وضاحت کرچکے ہیں کہ،ڈالڈا گھی نے ہماری صحت کو کھوکھلا کردیا ہے۔،یہ تو ایک نشہ ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرسکتے ۔ ۔
ڈالڈا گھی نے مردوں اور عورتوں کے ان کی طبعی خصوصیات سلب کرلی ہیں۔ڈالڈا گھی تو وہ صابن ہے جسے ہم کپڑے دھونے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔کبھی سوچا ہے کہ جہاں بناسپتی گھی ملتا ہے وہیں سے آپ کو صفائی کے لئے صابن ملتا ہے۔۔ان دونوں میں اتنا گہرا تعلق کیوں ہے؟دراصل بناسپتی گھی کا سیال حصہ بناسپتی گھی اور اس کا گاڑھا و کثیف حصہ صابن ہوتا ہے۔اس میں انتہا درجہ کی اعصابیت ہوتی ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ آج کل اعصابی سوزش نے ہر ایک کو اپنے پنجہ میں قابو کیا ہوا ہے۔۔۔
قدرتی تیل اور حیوانی روغنیات وغیرہ کے فوائد آگے لکھیں گے۔اطباء و معالجین کو چاہئے۔کچلہ اعصابی تریاق ہونے کی وجہ سے وقت کی اہم ضرورت اور معالج و مریض کی ضرورت ہے۔
کچلہ عضلاتی غدی(خشک گرم )ہے/اس کے مرکبات۔ د ل کے امراض ،سستی کاہلی۔کام میں جی نہ لگنا۔جسم کا پپلا پن۔ رات کے وقت ٹانگوں میں بے چینی۔مردوں میں قوت مردمی۔اور قوت رجولیت کی کمی ۔عورتوں میں بیضہ انثی کی خرابی ،بانجھ پن روز مرہ کی علامات واسباب ہیں۔کیا دیکھتے نہیں کہ دل کے مریضوں کے لئے بناسپتی گھی ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔کہنے کو تو چکنائی کا پرہیز ہوتا لیکن در حقیقت یہ پرہیز بنا سپتی گھی کا ہوتا۔لیکن کارباری مصالح حقیقت بیان کرنے سے مانع ہوتے ہیں اس لئے مطلق چنکائی سے پرہیز دیا جاتا ہے۔
اورکچلہ ان کا تریاق ہے۔میرے مطب میں کچلہ جزو لازم کے طور پر موجود رہتا ہے۔عمومی طور پر مجھے پنساری کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی دستیاب اشیاء جو روزہ مرہ استعمال کرتے ہیں سے اپنے مطب کی ضرورت کو پورا کرلیتا ہوں۔
میرا باوچی خانہ میرا دواخانہ ہے
میرا باورچی خانہ میرا دواخانہ ہوتاہے۔وہی لوگ ،دار چینی۔زیرہ سفید۔کالی زیری۔میٹھا سوڈا۔آٹے کا چھان(بور۔چوکر) چائے کی استعمال شدہ پتی ۔املی۔کالی مرچ۔سرچ مرچ۔دھنیا سبز و خشک ۔ گھر میں آنے والی سبزیاں اور پھل مطب چلانے کے لئے اتنا کچھ کافی ہیں ۔ بحمد اللہ یہی اشیاء مجھے مریضوں کی ضرورت کے لئے درکار ہوتی ہیں۔باہر سے لانے کی یا پنساری کے پاس جانے ضرورت کم ہی محسوس ہوتی ہے۔البتہ جو چیزیں میری ضرورت ہیں اور وہ پنساری کے بغیردستیاب نہیں ہوسکتیں۔مجبوری پنساری کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتاہے۔ان میں سے کچلہ بھی ہے،جس کی دستیابی کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔نہ ہی کچلہ ہمارے علاقے کی چیز ہے کہ اسے دیگر ذرائع سے حاصل کیا جاسکے
حکماء پاک و ہند نے کچلہ کو اپنے معمولات میں بیان کیا ہے بالخصوص ہندو ویدک میں اس کی کافی تفصیل پائی جاتی ہے لیکن وہی باریکیاں اورماہرانہ خوفناک مشورے،کچلہ کی اہمیت کو گہنا دیتے ہیں۔کیونکہ عمومی معالجین کو تحقیق و تدقیق سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ تو صرف دو وقت کی روٹی کے فکر میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔وہ کوئی بھی ایسی دوا کے استعمال سے خوف ذدہ رہتے ہیں جس کے استعمال سے ممکنہ نقصان ہوسکتا ہو۔نقصان کے نام سن کر ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔عافیت اسی میں دکھا ئی دیتی ہے کہ ہر وہ چیز جس سے روزی روٹی کے مسئلہ میں گڑ بڑ دکھائی دے سے دست بردار ہوجاتے ہیں۔
…..