علم الادویہ
علم الادویہ

علم الادویہ
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

Advertisements

الکندی کا علم الادویہ (Pharmacology) پر مطالعہ وسیع تھا۔ اس نے نئی نئی جڑی بوٹیاں تلاش کر کے ان پر تجربات کیے، ان کی خصوصیات واثرات معلوم کیے اور ان کی درجہ بندی کی۔ اس نے اپنے زمانے میں رائج تمام دواؤں کی صحیح خوراک کا تعین کیا۔ علاج کے لیے وہ محض دوا پر انحصار نہ کرتا تھا بلکہ پرہیز و احتیاط کی بھی ہدایت دیتا تھا۔ اس طرز علاج کو طب وقائی کہا جاتا ہے۔ اس موضوع پر اس نے کتاب بھی لکھی جس میں اس نے غذا کے ذریعے علاج کا تذکرہ کرتے ہوئے وہا اور امراض کے اسباب پر بھی بحث کی ہے۔ ساتھ ہی روز مرہ کے کھانوں میں ضروری تبدیلیاں کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔

ابن سینا کی بے نظیر کتاب القانون کی دوسری جلد میں 760 دواؤں کی تفصیل دی گئی ہے جبکہ پانچویں جلد میں مختلف ادویہ اور جڑی بوٹیوں کو ملا کر مرکب دوائیں بنانے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ القانون کی یہ دو جلد میں ادویہ مفردہ اور ادویہ مرکبہ پر مشتمل ہیں۔ البیرونی جس کا قلم زندگی بھر چلتا رہا ، اس موضوع پر اس کی کتاب کا نام الصید نہ فی الطب ہے جس کا جرمن ترجمه میکس مائیر ہوف (Max Myerhof) نے کیا ہے۔ کتاب میں پانچ ابواب ہیں۔ 720 دوائیوں کے نام تنجی وار دیے گئے ہیں ۔ ہر دوا کا نام عربی، یونانی، شامی ، ایرانی سنسکرت اوربعض دفعہ عبرانی میں دیا گیا ہے۔ جڑی بوٹیوں کے احوال کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ ان کی

جائے پیدائش کہاں کی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تاثیرات بھی بیان کی گئی ہیں۔
اسلامی اسپین کا ضیاء الدین ابن بیطار (1270ء) قرون وسطی کا سب سے مشہور ماہر ادویہ (pharmacist) اور ماہر نباتات تھا ۔ اس نے نباتات کا علم ذاتی مشاہدات اور تجربات سے حاصل کیا۔ 1219ء میں اس نے تحقیق کے لیے اسپین ، مصر ( دس سال ) ، عرب، شام اور عراق کی سیاحت کی تاکہ جڑی بوٹیوں کے نمونے اکٹھا کر سکے۔ اس کے شاگردوں میں سے ایک مشہور شاگرد ابن ابی اصیبعہ تھا جس نے 600 مسلمان اطبا کی سوانح حیات پر عیون الانباء فی طبقات الاطبا تیار کی ۔ ابن بیطار کی کتاب الجامع المفردات الا دو یہ والاغذیہ ( مطبوعہ قاہرہ 1291ء) میں 1400 سے زیادہ جڑی بوٹیوں اور نباتات کو بمطابق حروف ابجد ترتیب دیا گیا ہے۔ اس نے نباتات کی معرفت، حصول، ناموں کی قسموں کے اختلاف اور مقام پیدائش پر روشنی ڈالی۔ ان میں سے دوسو کے قریب جڑی بوٹیاں اس سے قبل نامعلوم تھیں ۔ کتاب میں 150 مسلم اطبا کے حوالے اور میں یونانی اطبا کے حوالے دیے گئے ہیں اور ان کی تصنیفات میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کالاطینی ترجمہ 1758 ء میں اٹلی سے شائع ہوا۔ بلاشبہ عربی زبان میں یہ سب سے مستند کتاب

ہے۔ اردو میں بھی اس کا ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔
ابن بیطار کی دوسری تصنیف کتاب المغنی فی الادویۃ المفردة میں ادویہ کا ذکر ان کی شفایابی اور تاثیر کی نسبت سے کیا گیا ہے۔ پودوں اور جڑی بوٹیوں کے نام عربی، یونانی اور لاطینی زبانوں میں دیے گئے ہیں۔ اس کی تیسری کتاب کلام فی النبات کا ایینی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ چکا سلیمان ابن حسان ابن جلجل (994ء) نے طبقات الاطبا والحكماء ( History of لكم Medicine) بھی جس میں 57 دقیقہ رس طبیبوں کی سوانح عمریاں دلکش و شگفتہ انداز میں تحریر کی گئی ہیں۔ اس نے مختلف عقاقیر کو از سرنو دریافت کیا علم الادویہ پر اس کی تین کتا میں قابل ذکر ہیں، تفسیر اسماء الادوية المفردة ، مقاله في الذكر الادویۃ اور مقالہ فی ادوبیة الترياقية –

امید ابن ابی الصلت (1134ء) دینیہ (Denia) کے بادشاہ کے دربار میں شاہی طبیب اور ہئیت داں تھا ۔ وفیات الاعیان میں صفحہ 230 پر اس کا لقب الادیب الحکیم دیا گیا ہے۔
اس نے ریاضی، علم بیت (الحدیقہ ، الوجیز ) منطق ( تقویم الذهن) موسیقی ، علم الادویہ اور معالجات ( انتصار ) پر متعدد کتا بیں تصنیف کیں۔ اس کی کتاب الادوية المفردة کا ترجمہ 1260ء میں لاطینی میں کیا گیا ۔ الغافقی (1165ء) قرطبہ کا نامور طبیب اور ماہر ادویہ تھا۔ اس کو علم نباتات (Botany) پر عبور حاصل تھا۔ قدیم عربی ادبیات الغافقی (Classical Arabic Literature) میں اس موضوع پر اس کی تصنیف جس میں اسپین اور شمالی افریقہ کے پودوں، درختوں اور نباتات کا ذکر کیا گیا ہے سب سے زیادہ اہم اور جامع تصور کی جاتی ہے۔ اس کی کتاب الادویۃ المفردة میں جڑی بوٹیوں کے نام عربی ، لاطینی اور بربری زبانوں میں دیے گئے ہیں۔ الا دریسی نے اس موضوع پر کتاب الجامع الصفت اشتات النبات لکھی جس میں جڑی بوٹیوں کے نام شامی ، یونانی، فارسی، ہندی، لاطینی اور بربری زبانوں میں پیش کیے گئے ہیں۔
یہاں افغانستان کے دیدہ ورمحقق ابوالمنصور الموفق کا ذکر بھی ضروری ہے جو ہرات کا باشندہ تھا۔ اس نے علم الادویہ کے موضوع پر کتاب الا بنیہ عن الحقائق الا دویۃ لکھی جس میں یونانی، شامی ، عربی اور ہندی علوم کا نچوڑ پیش کیا گیا۔ اس میں 585 امراض اور ان کے علاج سے بحث کی گئی ہے۔ یہ علاج 466 قسم کی نباتاتی ادویہ سے، 75 معدنی ادویہ سے اور 44 حیوانی ادویہ سے کیا گیا ہے۔ اس نے سوڈیم کاربونیٹ (sodium carbonate) اور پوٹاشیم کاربونیٹ (potassium carbonate) میں فرق بتلایا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب اصل حالت میں فارسی زبان میں ویانا کے میوزیم میں موجود ہے۔ اس کتاب کے مسودے کی کتابت ایرانی شاعر اسدی نے کی تھی ۔ 1838ء میں اس کتاب کا لاطینی ترجمہ شائع ہوا تھا۔ اصل فارسی کتاب بھی کئی مرتبہ چھپ چکی ہے۔
جارج سارٹن نے اس کی چار خاص باتوں کا ذکر کیا ہے:

  1. اس نے سوڈیم کاربونیٹ اور پوٹاشیم کاربونیٹ کے درمیان فرق کیا۔
  2. وہ آرسینیئس آکسائیڈ، کپرک آکسائیڈ، سلیکک ایسڈ کو جانتا تھا۔
  3. وہ تانبے اور سیسہ کے مرکبات کے زہریلے اثرات کو جانتا تھا،
  4. وہ پلاسٹر آف پیرس کی ساخت اور اس کے جراحی کے استعمال سے واقف تھا۔
    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کافور کو سب سے پہلے عربوں نے ہی بطور علاج استعمال کیا تھا۔ علم الادویہ کی درج ذیل اصطلاحات عربی سے ماخوذ ہیں: ,alchohol, zedoary sherbert, camphor, lemon, syrup, alizarin, borax, amber, bezoar, talc اور tartar مختلف زبانوں میں قرابادین کو منتقل کرنے کا وقیع کام بھی سب سے پہلے عربوں نے کیا تھا۔ صاعد بن بشر نے فالج اور لقوہ کا علاج بغیر بعض اغذیہ کے استعمال سے کیا۔ مشہور مؤرخ جرجی زیداں نے اپنی مایہ ناز کتاب تاریخ التمدن الاسلامی میں المسلمون فی الطب کے باب میں اس کی مکمل تفصیل دی ہے۔
    بحوالہ مسلمانوں کے سائنسی کارنامے۔61تا64)

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme