کیا یہ افطار پارٹیاں جائز ہیں؟

0 comment 54 views
کیا یہ افطار پارٹیاں جائز ہیں؟
کیا یہ افطار پارٹیاں جائز ہیں؟

کیا یہ افطار پارٹیاں جائز ہیں؟

Advertisements


از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
دنیا بھر کا تو پتہ نہیں البتہ پاکستان میں کچھ سالوں سے روزہ افطاری پر بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں ۔بڑے اہتمام سے افطار پارٹیاں دی جاتی ہیں۔ سب لوگ بلا جھجک ان افطار پارٹیوں میں شرکت کرتے ہیں اسےبہٹ بڑا ثوات کا کام سمجھا جاتا ہے
لوگوں کا ان پارٹیوں میں ہجوم کی شکل میں شرکت کرنا کم از دین کا حصہ تو نہیں ہوسکتا،نہ ہی اسے سند جواز مل سکتا ہے۔البتہ اس کا جواز اس جہت سے ثابت کیا جاتا ہے کہ جناب روزہ دار کاو روزہ افطار کرانا ۔افطار کرانے والے کو بھی ثواب میں شریک کردیتا ہے ۔روزہ دار کی افطار بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔
روزہ افطار کرانے کی فضیلت بہت زیادہ ہے اور اس پر شریعت میں عظیم اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔


چند اہم فضائل درج ذیل ہیں:

  1. رسول اللہﷺ کی بشارت
    نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اسے بھی روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی ہو۔”(ترمذی: 807، ابن ماجہ: 1746)
    • جہنم سے آزادی کا ذریعہ
      افطار کرانے کو جہنم سے نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے:
      یہ (رمضان) ایسا مہینہ ہے جس کا آغاز رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے، اور جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے، اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اسے جہنم سے آزادی ملتی ہے۔”(بیہقی، شعب الایمان: 3608)
  2. افطار کرانے سے رزق میں برکت
    حدیث میں ہے:”اللہ اس گھر میں خیر و برکت نازل کرتا ہے جہاں روزہ داروں کو کھلایا پلایا جاتا ہے۔”(مسند احمد)
  3. افطار کرانے کا بہترین عمل
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو کھانا کھلانے والا ہے۔”(مسند احمد: 23408)
  4. قیامت کے دن اجر و انعام
    قیامت کے دن اللہ تعالیٰ روزہ داروں اور ان کے معاونین کو خصوصی انعام و اکرام سے نوازے گا
    یہ تمام فضائل برحق ہیں
    لیکن کوئی بتانا پسند کرے گا کہ یہ پارٹیاں دین کی منشاء یا رضائے خدااوندی کا سبب ہیں۔
    ان پارٹیوں کی پسند و ناپسند کو بلایا جاتا ہے ۔جن غریبوں کے روزہ افطار کی فضیلت بیان کی گئی ہے،انہیں دستر خوان سے دھتکارا جاتا ہے۔ان پارٹیوں میں دنیادار۔مناصب کے حامل لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ان میں مہمانان خصوصی بلائے جاتے ہیں ۔دولت مند ۔حکومتی یا سیاسی سماجی نامور لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔کیا یہ دین خداوندی کی پاسداری ہے؟۔
    عوام کو تو ہجوم و طعام اور ہلہ گلہ چاہئے۔

علماء کا افسوس ناک کردار

افسوس تو ان علماء کرام پر ہے جو بڑے بڑے جبوں قبوں سے مزین بڑے طمطراق کے ساتھ ان محافل میں شرکت کرتے ہیں ۔ سچی بات پوچھیں تو یہ علماء کے لبادے میں دین فروش لوگ ہیں ۔جنہیں جھک کر سلام کرلیا جائے عقیدت کے دو چار مناظر دکھائے جائیں تو ایسے لوگوں کو اطاعت ودین داری کی سند عطاء کردی جاتی ہے۔
ان علماء کے روپ میں بہروپئیوں نے دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
پورا دین، ختم قران کی محافل۔افطار پارٹیوں کے انعقاد۔جلسے جلوس۔مذہبی یا مسلکی اجتماعات کے انعقاد کو دین کا نام دیدیا گیا ہے ۔ جب کہ دین سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔اپنے مسلک و مذہب کے لوگ کریں تو تاویل، دوسرے کریں تو بدعت۔
جن سہتیوں کی زندگیوں کو جواز بناکر یہ خرفات کی جاتی ہیں، ان کے وہم و گمان میں بھی یہ دین

کو مٹانے والی خرفات نہ ہونگی
لوگوں نے دین کو ایک ہلہ گلہ کے روپ مین اپنایا ہوا ہے۔۔اس کے جواز میں فتاوے پیش کئے جاتے ہیں۔اپنے مسلکی علماء کی نظیریں پیش کی جاتی ہیں۔
رہی بات اس بارہ میں علماء۔صلحاء اور دار الافتاء کیوں خاموش ہیں ؟
۔۔بھائی ان کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔ورنہ فتوی پوچھ لیں۔شرعی دلائل کے بجائے تاویلات اور گھسٹ پٹے دلائل کے علاوہ کوئی چیز دستیاب نہ ہوگی۔۔
سچی بات یہ ہے جب سے دین مسلمانوں کے ہتھے چڑھا ہے اسے مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔عوام سے کوئی گلہ نہیں۔علماء خود شرکت کرکے جواز فراہم کرتے ہیں۔
اس جرم میں ۔تمام مسالک کے علماء مفتیان عظام۔مجتہدین کرام برابر کے شریک ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں دین اتنا ہی سمجھ میں آتا ہے جتنے میں ہمارے مفادات کا تحفظ ہو۔یا مخالف کے خلاف دلیل مل سکے۔باقی دین کی ضرورت ہے نہ ہی اس کی کوشش کی جاتی ہے۔
چلین اصحاب پیغمبرﷺ کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں کیا وہ بھی افطار پارٹیاں دیا کتے تھے؟
کیا صحابہ کرام افطار پارٹیاں دیا کرتے تھے؟
:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ روزہ داروں کو افطار کرانے میں بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے، لیکن آج کل کی “افطار پارٹیوں” کی صورت میں نہیں بلکہ خالصتاً ثواب اور اللہ کی رضا کے لیے، سادگی اور اخلاص کے ساتھ
۔1. صحابہ کرام کا طرزِ عمل
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روزہ افطار کے وقت ہمیشہ کسی مسکین یا ضرورت مند کو اپنے ساتھ بٹھاتے تھے، اور اگر کوئی غریب نہ ملتا تو خود افطاری نہیں کرتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ روزہ داروں کے لیے کھانا تیار کرتے اور خود خدمت کرتے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ضرورت مندوں کے لیے افطار کا خاص اہتمام کرتے اور اکثر اپنے کھانے میں دوسروں کو شریک کرتے
۔2. افطار کا اصل مقصدصحابہ کرام کا افطار کرانے کا مقصد شہرت، دکھاوا یا رسمی دعوتیں نہیں تھیں بلکہ یہ خالصتاً نیکی، صدقہ اور بھوکوں کو کھلانے کے جذبے پر مبنی ہوتا تھا۔ وہ زیادہ تر مساکین، مسافروں، غلاموں اور حاجت مندوں کے لیے افطار کا اہتمام کرتے تھے۔

  1. آج کی افطار پارٹیوں سے فرقآج کل “افطار پارٹی” کا جو تصور عام ہے، وہ اکثر سادگی کے بجائے نمود و نمائش، ضیافت اور غیر ضروری اسراف پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ صحابہ کرام انتہائی سادہ کھجور، پانی اور روٹی سے افطار کراتے تھے، اور ان کا مقصد محض اللہ کی رضا ہوتا تھا، نہ کہ سوشل گیاثرنگ یا تعلقات بڑھانے کے لیے افطار کا اہتمام۔
    عمومی طورپر دیکھا گیا ہے افطار پارٹی دینے والا بھی روزہ سے عاری اور افطار پارٹی کے مہمانان گرامی بھی روزہ سے ناآشنا۔
    اور افطار پارٹی دھڑلے سے جاری ہے۔سمجھ میں نہین آتا یہ دین کی کونسی خدمت ہورہی ہے ۔اور کس چیز کا جواز پیش کیا جارہا ہے۔
    خدا لگتی کہئے کیا کوئی حلال کمائی سے ماسوائے چند لوگوں کے یہ پارٹیاں دے سکتا ہے ؟
    کیا کبھی کسی نے سوال کیا ہے کہ یہ اہتمام کس آمدن سے کیا جارہا ہے؟
    پیسہ کہاں سے آیا؟۔۔
    بھائی مشکوک ککھانے سے تو روزہ کا ویسے ہی جنازہ نکل جاتا ہے ۔تم لوگ ان پارٹیوں میں خدا کی رضا تلاش کرتے ہو؟
    امید ہے اس پوسٹ کو جوش اور مسلکی تعصب سے ہٹ کر کشادہ دلی سے مطالعہ کیا جائے گا؟

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme