حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے
قرآن نے طب سے پہلے یہ بیان کیا کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: “اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی۔ اس کی ماں نے اسے مشقت پر مشقت اٹھا کر پیٹ میں رکھا، اور اس کا حمل اور دودھ چھڑانا (مل کر) تیس مہینے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو کہنے لگا: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائیں، اور میں ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو، اور میری اولاد کو بھی نیک بنا۔ بے شک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔“(سورۃ الاحقاف: 15)
اور اس کا فرمان: “اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت کو پورا کرنا چاہے۔“(سورۃ البقرہ: 233)
“اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے بارے میں نصیحت کی: اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری کے ساتھ (پیٹ میں) اٹھایا، اور اس کی دودھ چھڑائی دو سال میں ہے۔ کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔ میری ہی طرف (سب کو) لوٹ کر آنا ہے۔“(سورۃ لقمان: 14)
پس اگر ہم دودھ پلانے کی مکمل مدت یعنی دو سال یعنی دو سال کو ختم کر دیں۔ (24) (30) تیس مہینوں میں سے چوبیس مہینے ، جو حمل اور دودھ پلانے کی مدت ہے، حمل کی کم سے کم مدت وہ ہے جس میں بچہ مکمل پیدا ہو جائے تو زندہ رہ سکتا ہے۔ .
صحابہ نے اس فہم پر بھروسہ کیا، جیسا کہ روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت سے شادی کی اور اس نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو چھ ماہ تک بچہ پیدا کیا، یہ سمجھ کر کہ اس پر زنا کی سزا لگائی جائے گی۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر وہ تم سے خدا کی کتاب کے مطابق جھگڑے تو اللہ تعالیٰ نے اسے حاملہ کر کے الگ کر دیا۔ تیس مہینے تک) اور فرمایا (اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑا دیا) تو حمل کے صرف چھ مہینے باقی تھے، اس لیے وہ عورت ٹھیک ہوگئی۔
تفسیر اور کتب حدیث میں واقعے کا ذکر:
- تفسیر الطبری:
امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ان آیات کے تحت اس واقعے کو بیان کیا ہے، جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حمل کی کم سے کم مدت 6 مہینے قرار دی۔ - تفسیر ابن کثیر:
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان آیات کی تفسیر میں اس واقعے کو ذکر کیا اور وضاحت کی کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت کے مجموعے سے حمل کی کم سے کم مدت نکالی گئی۔ - مصنف عبدالرزاق:
اس واقعے کا ذکر مصنف عبدالرزاق (جلد 6، حدیث 11260) میں موجود ہے۔ - سنن دارقطنی:
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس واقعے کو اپنی کتاب “سنن دارقطنی” (جلد 3، صفحہ 299) میں بیان کیا ہے۔ - کتب فقہ و اصول فقہ:
اس واقعے کو اسلامی فقہ کے کئی متون میں بطور دلیل ذکر کیا گیا ہے، خاص طور پر حمل کی کم سے کم مدت کو ثابت کرنے کے لیے
حدیث مبارکہ:
- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق 6 مہینے میں مکمل ہو سکتی ہے۔“
(مصنف عبدالرزاق، حدیث: 11260)
- ایک واقعے میں جب ایک عورت نے 6 مہینے کے حمل کے بعد بچہ جنم دیا، تو لوگ اسے غیر معمولی سمجھنے لگے۔
- حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس پر زنا کا الزام لگایا، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وضاحت کی کہ قرآن میں کم از کم حمل کی مدت 6 مہینے بتائی گئی ہے۔
(تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر)
- حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس پر زنا کا الزام لگایا، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وضاحت کی کہ قرآن میں کم از کم حمل کی مدت 6 مہینے بتائی گئی ہے۔
. فقہی رائے:
کم از کم مدت:
فقہاء کا اجماع ہے کہ حمل کی کم از کم مدت 6 مہینے (180 دن) ہے، جیسا کہ قرآن و سنت سے واضح ہوتا ہے۔
زیادہ سے زیادہ مدت:
- جمہور فقہاء (مالکیہ، شافعیہ، حنبلیہ):
زیادہ سے زیادہ مدت 4 سال تک ہو سکتی ہے، اگرچہ یہ غیر معمولی ہے۔
(الفقہ الاسلامی وادلته، وہبہ الزحیلی) - امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ:
زیادہ سے زیادہ مدت 2 سال ہے۔
(المبسوط للسرخسی، جلد 5، صفحہ 129) - معاصر قانون اور جدید طبی نقطہ نظر:
آج کے دور میں زیادہ سے زیادہ مدت طبی لحاظ سے 9 مہینے اور 10 دن (280 دن) مانی جاتی ہے۔
. طبی تحقیق:
جدید طب میں حمل کی مدت کو 280 دن (40 ہفتے) یا تقریباً 9 مہینے 10 دن مانا جاتا ہے، لیکن بعض کیسز میں قبل از وقت پیدائش (پریمیچور ڈلیوری) 180 دن (6 مہینے) میں بھی ہو سکتی ہے، اور بچہ زندہ رہ سکتا ہے۔
. قانونی نقطہ نظر:
اسلامی ممالک میں فقہی اصولوں کو قانونی نظام میں شامل کیا گیا ہے:
- شریعت کے مطابق:
کم از کم مدت 6 مہینے، اور زیادہ سے زیادہ مدت فقہاء کی آراء کے مطابق مختلف ہوتی ہے (2-4 سال)۔ - جدید قوانین:
جدید میڈیکل سائنس کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ مدت کو 9-10 مہینے تسلیم کیا جاتا ہے۔
نتیجہ:
- کم از کم مدت: 6 مہینے (180 دن)۔
- زیادہ سے زیادہ مدت:
- فقہاء کے مطابق: 2 سے 4 سال۔
- طبی لحاظ سے: 9 مہینے 10 دن۔
یہ تفصیلات قرآن، سنت، فقہاء کی آراء، اور طبی و قانونی تحقیق پر مبنی ہیں
طب نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ حمل کی کم از کم مدت جس کے بعد بچے کی پیدائش چھ ماہ تک ہو جائے اسے اسقاط حمل کہا جاتا ہے اور جنین اس کے بعد اور مکمل ہونے سے پہلے زندہ نہیں رہ سکتا نو ماہ یا (270) دو سو ستر دن کے حمل کو قبل از وقت یا لیبر کہا جاتا ہے، اور قبل از وقت بچہ زندہ رہ سکتا ہے، لیکن دوا اس کے لیے خاص خیال رکھتی ہے۔
طبی نقطہ نظر سے:
طبی اعتبار سے چھ ماہ (تقریباً 24-26 ہفتے) کے حمل کو پریمیچور (قبل از وقت) یا انتہائی پریمیچور قرار دیا جاتا ہے۔
- ممکنہ وجوہات:
- ماں کی صحت کے مسائل (بلڈ پریشر، ذیابیطس، یا رحم کی کمزوری)۔
- جینیاتی یا جسمانی معیوبیت۔
- حمل کے دوران پیچیدگیاں۔
کیا 6 ماہ کا بچہ زندہ رہ سکتا ہے؟
- جدید طبی سہولیات اور نوزائیدہ (نیونٹل) کیئر کے ذریعے چھ ماہ کا بچہ زندہ رہ سکتا ہے، لیکن اسے خاص دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
- پیدائش کے وقت مسائل:
- وزن کی کمی (عمومًا 500-800 گرام)۔
- اعضاء کی ناپختگی (خصوصاً پھیپھڑے)۔
- جسمانی حرارت کو برقرار رکھنے میں دشواری۔
بچنے کے امکانات:
- چھٹے مہینے میں پیدا ہونے والے بچوں کے بچنے کے امکانات طبی سہولیات کی دستیابی پر منحصر ہیں، اور دنیا کے کئی ممالک میں 50-70% زندہ رہنے کی شرح رپورٹ کی گئی ہے۔
) اس تحقیق میں، ہم نے درج ذیل ذرائع پر انحصار کیا: – (1)ڈاکٹر محمود ناظم النسیمی کی تحقیق۔ (2)- طبی، فقہی اور قانونی نقطہ نظر سے حمل کا دورانیہ، ڈاکٹر عبدالرزاق حمامی کی زیر نگرانی یونیورسٹی کا مقالہ)۔
زیادہ تر بین الاقوامی ممالک کی عدالتوں میں اس مدت کو قانونی طور پر سمجھا جاتا ہے، اور ڈاکٹر زیاد درویش نے آرٹیکل (128) میں ذاتی حیثیت کے قانون کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے : “حمل کی کم از کم مدت (180) ایک سو اسی دن ہے، اور سب سے طویل ایک شمسی سال ہے “