امام ابن عبد البر رحمه الله_(ھ463_368)
آپ کا نام یوسف بن عبد اللہ اور کنیت ابو عمر ہے۔ آپ ابن عبدالبر کے نام سے معروف ہیں۔
ابن عبدالبر کا شمار فقہ مالکی کے اکابر محققین اور مصنفین میں ہوتا ہے آپ علم حدیث فقہ تاریخ ادبیات
اور مختلف علوم وفنون کے زبردست ماہر تھے۔
امام ابن عبد البر 25 ربیع الثانی 368 ہجری میں قرطبہ میں بنو نمر بن قاسط کے خاندان میں پیدا ہوئے اُن کے والد عبد اللہ ایک فقیہ تھے اور اُن کا شمار قرطبہ کے جلیل القدر اہل علم میں ہوتا تھا۔
ابن عبدالبر کی نشو و نما قرطبہ میں ہوئی، اُنہوں نے قرطبہ کے اکابر مشائخ سے علم فقہ حدیث لغت اور تاریخ کا علم حاصل کیا اُن کے اساتذہ میں نمایاں نام یہ ہیں:
(1) ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمن اسد چمنی
(2) ابو عمر احمد بن محمد بن جسور
(3) ابو عمر احمد بن عبد اللہ باجی
(4) ابو ولید بن فرضی ( ابن عبدالبر نے ان سے علم حدیث میں بہت زیادہ استفادہ کیا اور اُنہوں نے ان کے سامنے مند مالک بھی پڑھی تھی۔
(5) ابوعمر طلمنکی مقری ( یہ قرآت کے استاد ہیں )
ابن عبد البر نے شیخ ابو عمر احمد بن عبدالملک بن ہاشم کا ساتھ اختیار کیا جو اشبیلیہ سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے فقیہ تھے۔ ابن عبدالبر نے اُن سے علم فقہ میں بطور خاص استفادہ کیا اس کے علاوہ اُنہوں نے شیخ ابومحمد عبد الله بن محمد بن عبد المؤمن سے امام ابوداؤد کی سفن اُن کی کتاب: ناسخ و منسوخ، مسند احمد کا سماع کیا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے محمد بن عبد الملک سے تفسیر محمد بن سنجر کا درس لیا انہوں
نے ابن وہب کی نقل کردہ موطا کا درس شیخ عبد الوارث بن سفیان سے لیا۔
ابن عبد البر بہت جلد علم حدیث اسماء رجال قرات فقہاء کے اختلاف کے بڑے عالم بن گئے ابن عبد البر کا رجحان ابتداء میں ظاہری مسلک کی طرف تھا لیکن پھر بعد میں اُنہوں نے مالکی مسلک کو اختیار کر لیا۔ بعض فقہی مسائل میں اُن کا میلان فقہ شافعی کی طرف بھی ہے۔
ابن عبد البر کا شمار کثیر التصانیف بزرگوں میں ہوتا ہے اُنہوں نے بہت سا علمی ذخیرہ یاد گار چھوڑا ہے اُن کا سب سے عظیم علمی کام موطا امام مالک کی دو شرحیں تحریر کرنا ہے جو دونوں آج تک بے مثال ہیں۔
اُن میں سے ایک کتاب کا نام التمهيد لما في الموطأ من المعاني والاسانید ہے۔
اس کتاب کے بارے میں علامہ ابن حزم کی یہ رائے ہے کہ مجھے فقہ حدیث کے بارے میں اس جیسے کسی کلام کا علم نہیں ہے تو کوئی اس سے بہتر کیسے ہو سکتا ہے۔
ابن عبد البر کی دوسری عظیم شرح الاستذکار فی معرفہ مذاہب علماء الامصار ہے۔
ابن عبدالبر کی ایک اور اہم تصنیف “الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب” ہے جو صحابہ کرام کے احوال و آثار کے
ابن عبد البر أكبر مؤرخ عرفه التاريخ
بارے میں بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
مورخین نے ابن عبدالبر کی چند دیگر کتابوں کے اسماء بھی تحریر کیسے ہیں جن میں سے بعض کتا بیں شائع بھی ہو چکی ہیں۔ محدثین کے نزدیک ابن عبد البر کو نمایاں حیثیت حاصل ہوئی یہاں تک کہ امام ذہبی نے انہیں حافظ مغرب“ کا خطاب دیا اور اُن کے بارے میں ابو علی عسانی نے یہ کہا: ہمارے علاقوں میں علیم حدیث میں قاسم بن محمد اور احمد بن خالد حباب کے پایہ کا اور کوئی شخص نہیں ہے لیکن ابن عبد البر بھی ان سے کم نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے پیچھے ہیں۔ ابو ولید باجی نے ابن عبدالبر کے بارے میں یہ کہا: علم حدیث میں اندلس میں ابو عمر بن عبدالبر جیسا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مغرب کے سب سے بڑے حافظ الحدیث ہیں ۔ شیخ ابو عبد اللہ بن ابوافتح کہتے ہیں: ابو عمر (یعنی ابن عبدالبر ) سنن آثار اور فقہاء کے اختلاف کے بارے میں اُندلس کے سب سے بڑے عالم تھے۔
ابن عبد البر کا انتقال ربیع الثانی کے مہینہ میں 463 ہجری میں شاطبہ میں ہوا۔