
شاہکار رسالت
علامہ غلام احمد پرویز مرحوم
گزر گاہ خیال
میرا سفینہ حیات ، متعدد جو بہاروں اور متنوع آبناؤں سے گذر کر اس مقام تک پہنچا ہے۔ میری پیدائش ہے ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو شریعت اور طریقت کا نہایت نظیف ولطیف آمیزہ تھا۔ گھر کے اسی ماحول کی نسبت سے میں اکثر استعارہ ) کہا کرتا ہوں کہ میری پیدائش پر اگر میرے ایک کان میں اذان کی ندائے جانفزا پہنچی تھی تو دوسرے میں قوالوں کی آواز میں امیر خسرو کے ” قول قلبانوں ” کی نشید رح افروز. (میرے والد مرحوم تو نا خواندہ تھے لیکن میرے دادا (مولوی چوہدری رحیم بخش ، حنفی مسلک کے ایک جید عالم اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے ممتاز بزرگ تھے ۔ علاوہ ازیں ، وہ ایک ماہر طبیب بھی تھے لیکن انھوں نے ان میں سے کسی خصوصیت کو بھی ذریعہ معاش نہ بنایا کہ وہ نوع انسان کی طبیعی یا روحانی اصلاح یا امداد کا معاوضہ لینا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ چونکہ وہ مجھے اپنے علم و سلوک کا وارث بنانا چاہتے تھے ، اس لئے انھوں نے شروع ہی سے مجھے اپنے آغوش میں لے لیا اور میری پرورش تربیت اور تعلیم انہی کے ہاتھوں یا زیر نگرانی ہوئی ۔ فطرت کی گرم گستری سے ذہن رسا پایا تھا اس لئے علوم شریعت و طریقت کے مبادیات پر تھوڑے سے عرصہ میں عبور حاصل کر لیا. داد آجان، سلوک کی منازل بھی ساتھ
کے ساتھ طے کرائے جاتے تھے اس لئے مراقبات، مجاہدات ، ریاضات (چلہ کشیاں اور زاویہ نشینیاں) اس عمر میں میرے معمولات بن چکے تھے جس میں بچے ہنوز ” گلی ڈنڈا ” کھیلا کرتے تھے۔ میرے ہمعصر پتنگیں اڑایا کرتے تھے اور میں آنسو نے افلاک ” کے حقائق و معارف سمجھنے میں محو ہوتا تھا۔ اس ضمن میں ایک بات مالخصوص قابل ذکر ہے ۔ میں اکثر سوچیا کرتا ہوں کہ بعض ” اتفاقات ” کس طرح ایک فرد کی زندگی کے مستقبل کی تعمیرمیں موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ محض حسن اتفاق تھا کہ دادا جان کا تعلق تصوف کے چشتہ نظامیہ سلسلہ سے تھا جس میں موسیقی کو جز و عبادت سمجھا جاتا ہے ۔ اس سے شعر نغمہ سے متعلق میرے ذوق لطیف کی از خود نشو نما ہوتی گئی ۔ اگر ا کا تعلق (مثلا) قادر یہ با نقشبندیہ سلسلہ سے ہوتا تو میرے اس ذوق کا دم گھٹ جاتا اور نہ معلوم پھر یہ تسکین نایافتہ تقاضے کس کس ترکم نفسیاتی معاذیر کے جھونکوں سے جھانکتے اور شریعی تاویلوں کے روزنوں سے سر نکالتے ۔
بنالہ ایک متشد و قسم کا مذہبی قصبہ تھا۔ آبادی کی اکثریت تو حنفی المسلک سنیوں پر مشتمل تھی لیکن اہل حدیث اور اہل تشیع بھی خاصی مؤثر حیثیت رکھتے تھے۔ اس زمانے میں قادیان جانے کے لئے بٹالہ ہی ریلوے اسٹیشن تھا۔ اس لئے وہاں کے زائرین کے لئے یہ قصبہ ناگزیر گزرگاہ نی ناہ تھا۔ علاوہ ازیں ، یہ عیسائی یہ عیسائی مشنریوں کا مرکز اور آریہ سماج کا بھی گڑھ تھا۔ اس زمانے میں بین الفرق مناظروں اور بین المذاہب مباحثوں کا بڑا زور تھا۔ اس لئے جس طرح دریا کے کنارے بستیوں کے بچے پیدائشی تیراک ہوتے ہیں ، بٹالہ کے مذہب پرست طلبا پیدائشی مناظرہ ہوتے تھے ۔ تھے ۔ فضا کے ان تقاضوں کی وجہ سے مختلف فرقوں اور مذہبوں کے تقابلی مطالعہ کی ضرورت لاحق ہوئی ۔ داد آجان کو ان سب کے لٹریچر پر کافی عبور حاصل تھا اور تو اور وہ سنسکرت کے بھی عالم تھے اس لئے میں ان وادیوں سے باآسانی گزرتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی میری انتہائی خوش بختی تھی کہ وہ اس قدر مذہبی شخصیت ہونے کے باوجود ، بڑے روشن خیال اور وسیع الظرف واقعہ ہوتے تھے۔ ابتداء وہ انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ اس زمانے میں اس زبان کا جاننا کس قدر ضروری ہے، تو انھوں نے کافی بڑی عمر میں تھوڑے سے عرصہ میں اس میں بھی خاصی استعداد حاصل کرلی۔ مجھے اس کا یہ فائدہ ہوا کہ انھوں نے میری اسکول کی تعلیم کو بھی نظر انداز نہ ہونے دیا۔ انہی موثرات و عوامل کا نتیجہ تھا کہ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے میری نگاہ کی مشرقی اور مغربی افقین کافی وسیع ہو چکی تھیں اور ان کے ساتھ ہی باطنی علوم “ کی گہرائیاں بھی کافی عمیق ۔
یہ بھی پڑھیں

غلام احمد پرویز کی 50 کے قریب کتابیں
تصوف کا ” ہمہ اوست انسان کو وسیع المشرب بنا دیتا ہے ۔ اگرچہ اکثر اوقات کچھ ضرورت سے زیادہ ہی وسیع المشرب – اس وسیع المشرب کا نتیجہ تھا کہ میں جس جذب و شوق سے میلاد کی محفلوں میں شریک ہوتا بقیہ کتاب ہذا میں ملاحظہ کریں
کتاب یہاں سے حاصل کریں