سخن ہائے گفتنی۔ روح ایک ایسا موضوع ہے جو دنیا کے ہر خطے اور ہر قوم کے لئے اہم رہا ہے۔ایک جنگلی وحشی انسان سے لیکر ایک مہذب ترین شخص تک ہر کوئی روح کے بارہ میں سنے ان سنے دیکھے ان دیکھے تصورات و اعتقادات میں گھرا ہوا ہے۔کچھ است حددرجہ اہمیت دیتے ہیں تو کچھ ماننے کی حد تک تسلیم کرتے ہیں۔ اہل اسلام کا اس بارہ میں خاص نظریہ ہے۔قل الروح من امر ربی۔۔۔کہ روح تو ایک امر ربی ہے۔جس میں کسی فرد و بشر کا عمل دخل نہیں۔آسمانی مذاہب کے پیرو کار اس کی توجیہ اپنے اپنے عقائد کے تصورات کے تحت کرتے ہیں۔ہندومت میں تناسخ کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔باربار جنم لینا اور اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا وغیرہ۔ جب کہ یہودیت و عیسایت اور اسلام میں تناسخ کا کوئی تصور موجود نہیں ہے لیکن روح کا ایک مضبوط کردار پایا جاتا ہے۔ ہر ایک روح کا نام لیکر اپنا اپنا دھندہ کئے ہوئےہیں۔عاملین امراض کو روحانی قرار دیتے ہیں۔اہل تصور روح کی جلاء دینے کے نام پر طرح طرح کی مشقیں اور چلے وظائف کراتے ہیں۔جب کہ مبلغین کی تحقیق و تدقیق روح پر آکر ختم ہوتی ہے ۔مذہبی لوگ روح کی پرواز و پاکیزگی پر زور دیتے ہیں۔لیکن کچھ لوگ خفیہ انسانی طاقتوں کو بیدار کرنے کے بے شمار طریقے بیان کرتے ہیں ،یہ لوگ اپنے طریقے اور اعمال میں کسی مذہب کو نہیں گھسیڑتے۔اپنی مشقیں دُہراتے ہیں۔ ایک نہ ایک راستہ ایسا تلاشتے ہیں جو ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ مشرقی لوگ روح کے اعمال میں اپنے مذہبی اوراد و ازکار کو شامل کرتے ہیں جبکہ مغربی لوگ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے گوکہ وہ اپنے اعمال کو قبول عامہ کی خاطر مذہب اور نیک لوگوں کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔لیکن اسے اس انداز یں نہیں لیتے جس طرح مشرقی لوگ خیال کرتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب”روح کی مہم جوئی”ایک عیسائی مصنف کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔وہ کہیں کہیں بائبل کا حوالہ دیتے ہیں۔اور اپنی ضرورت کے مطابق مذہب سے وابسطگی کا اظہار کرتے ہیں۔لیکن ان کی کتاب میں مذہبی انداز میں روحانی اعمال موجود نہیں ہیں۔ایک خاص وجہ یہ سمجھی جاسکتی ہے کہ عمر رسیدہ لوگ ہی زیادہ تر اعمال روحانیہ کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ اور بوڑھاپے میں جب جسمانی سرگرمیاں محدود ہوجاتی ہیں تو وہ جینے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔بالخصوص وہ لوگ جنہوں نے زندگی بھرپور انداز میں گزاری ہو۔لوگوں کے ہجوم میں خوش رہے ہوں۔بوڑھاپے میں اکے وہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔اگر وہ انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے روحانیات کے میدان میں اپنی جگہ بنالیں تو لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ پھر سے شروع کیا جاسکتا ہے۔دو باتیں ہوئیں ایک عمر کی پراگندگی نے انہیں زندگی کی سرگرمیوں سے محروم کردیا ہے۔دوسرا جینے کی خواہش اور لوگوں کا ہجوم جو کہ انہیں قابل قدر نگاہ سے دیکھے کی خواہش۔ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ انسانی جیسے جیسے بوڑھا ہوتا ہے اس کی خواہشات اور دنیا سے محبت جوان ہونا شروع ہوجاتی ہیں یہ کتاب آپ کو ایسے طریقے مہیا کرے گی اور ایسی مشقیں بتائے گی جن کی مدد سے ذہنی طورپر آسودگی کا سامان بہم پہنچایا جاسکتا ہے۔ مشرقی عاملین کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاتھ کوئی ایسا کلیہ لگ جائے جس کے بل بوتے پر وہ دوسروں سے تفوق حاصل کرسکیں ۔ اس لئے وہ کالے پیلے۔چلے کرتے ہیں۔اور ہر اس عمل کی پرکھ کرتے ہیں جس میں انہیں امید برآنے کی کرن دکھائی دے۔ عملیاتی کتب کا نقص۔ عملیات کے فن پر لکھی گئی کتب اس قسم کے اعمال سے بھری ہوئی ہیں کہ فلاں عمل سے ہمزاد قابو کرلوگے۔فلاں سے جنات سے روابط پیدا ہوجائیں گے۔فلاں روحانی عمل سے کشف قبور حاصل ہوجائے گا۔فلاں سے تسخیر خلائق کا حصول ممکن ہے۔ان ساری باتوں میں خوف ناک بات یہ ہے کہ یہاں مشاہدات کے بجائے منقولات ملتے۔ان کتب میں کئی قسم کے دجل و فریب بھی موجود ہوتے ہیں۔سب سے بڑی خامی یہ کہ اعمال کے ماخذ و مصدر کا حوالہ نہیں دیا جاتا۔دوسری بات یہ کہ ان کے ساتھ ایسے شرائط عائد کردی جاتی ہیں۔جن کا عمل کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔تیسرا فریب یہ کہ انہیں مذہب و مسلک کے رنگ میں دکھایا جاتا ہے۔چوتھا نقص یہ کہ جو باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ان کا مسلک و مذہب بھی اس کی تائید نہیں کرتا۔ بہتر تجویز۔ اگر عملیات کو مذہب و مسلک کا رنگ دینے کے بجائے اسے بطور فن و ہنر اپنا لیا جائے۔عملیات کے میدان میں انقلابی پیش رفت ہوسکتی ہے۔راقم الحروف عملیات کو مذۃب کا حصہ نہیں سمجھتا بلکہ دیگر فنون کی طرح ایک ہنر و فن سمجھتا ہے۔اپنے مدعا کے ثبوت میں کئی کتب لکھی ہیں جیسے”جادو جنات کا طبی علاج””جادو کی تاریخ”جادو کے بنیادی قوانین اور ان کا توڑ” وغیرہ۔زیر نظر کتاب بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد وورچوئل سکلز پاکستان کے پلیٹ فارم سے طب و عملیات پر دوسو کے قریب کتب ڈیجیٹل فارمیٹ میں شئاع ہوچکی ہیں۔ادارے کی نمائندہ ویب سائٹس۔ 1۔www.tibb4all.com…۔۔2www.dunyakailm.com ۔پر اپلوڈ کردی گئی ہیں۔۔کتابوں کی فہرست کتاب کے آخرمیں دیدی گئی ہے۔ کتاب مطالعہ کرنے والوں سے التماس ہے میرے والدین اور بیٹے سعد یونس مرحوم کو اپنی دعائوں میں ضرور یاد رکھیں ۔مطالعہ کرنے والے اپنی رائے کا ضرور اظہا ر کریں۔تاکہ بہتر سے بہتر کتب پیش کی جاسکیں۔ خیر اندیش۔طالب دعا۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان کتاب یہاں سے حاصل کریں
پھل غذا سے پہلے کھائیں یا بعدمیں؟
پھل غذا سے پہلے کھائیں یا بعدمیں؟ قران کریم سے اخذ کردہ طبی نکاتٹیبل آف کونٹینٹس 5. خلاصہ اور نتیجہ تعارف قرآن کریم انسانی زندگی کے ہر پہلو کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے، جس میں صحت اور غذا بھی شامل ہیں۔ طبی ماہرین اکثر پھل کھانے کے وقت کے حوالے سے مختلف نظریات پیش کرتے ہیں۔ قرآنی آیات کی روشنی میں یہ معلوم کرنا نہایت دلچسپ ہے کہ پھل کھانے کے صحیح وقت کے بارے میں کیا رہنمائی ملتی ہے۔ قرآن کریم میں غذائی ہدایات**قرآن مجید میں مختلف مقامات پر پھلوں کا ذکر کیا گیا ہے، جنہیں اللہ کی نعمتوں میں شمار کیا گیا ہے۔ سورۂ واقعہ میں جنت کے پھلوں کا ذکر ہے:اور جنت میں میوے (پھل) وہ ہوں گے جنہیں وہ پسند کریں گے۔”** (الواقعہ: 20-21) یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پھل انسانی غذا کا لازمی حصہ ہیں اور ان کا استعمال اعتدال اور حکمت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ پھل کھانے کے وقت کی طبی اہمیت غذا سے پہلے پھل کھانے کے فوائد پھلوں میں موجود قدرتی شکر اگر غذا کے فوراً بعد لی جائے تو یہ خون میں شکر کی سطح کو غیر متوازن کر سکتی ہے، جو صحت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ قرآنی تعلیمات کی سائنسی توثیقجدید طبی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ پھل خالی پیٹ یا غذا سے پہلے کھانے کے زیادہ فوائد ہیں۔ ماہرین غذائیت کے مطابق، پھلوں میں موجود وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس خالی پیٹ زیادہ موثر طریقے سے جذب ہوتے ہیں، جو جسمانی نظام کو بہتر بناتے ہیں۔ قرآنی تعلیمات اور سائنسی تحقیق کے اس ہم آہنگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایات ہمیشہ انسانی بھلائی کے لیے ہوتی ہیں۔ خلاصہ اور نتیجہقرآن کریم اور جدید سائنس دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ پھلوں کا صحیح وقت پر استعمال انسانی صحت کے لیے نہایت اہم ہے۔ غذا سے پہلے پھل کھانے کے بے شمار فوائد ہیں، جبکہ غذا کے بعد پھل کھانے سے مختلف طبی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ قرآنی رہنمائی کے مطابق، اعتدال اور حکمت سے پھلوں کا استعمال نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات6۔
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات6۔ تحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔ منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی۔کاہنہ نولاہور پاکستان (کچلہ سخت اور کڑوے اثرات کا حامل اکسیری پھل ہے۔جو اپنے فوائد اثرات اور اکسیری صفات کی وجہ سے طبی دنیا میں اپنا لوہا منواتا ہے ۔اسے تیار کرنے والو کو طبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔کشتہ کچلہ۔شنگرف،سم الفار۔دار چکنا رسکپور وغیرہ ایسی ادویات ہیں جنہیں سنیاسی اور سادھو لوگوں سے نتھی کیاجاتاتھا(حکیم المیوات محمد یونس شاہد میو) ٹیبل آف کونٹنٹ 1. تعارف 2. کچلہ کیا ہے؟ 3. کچلہ کی تاریخی اہمیت 4. طبی فوائد 5. کچلہ کے کڑوے اثرات 6. اکسیری صفات 7. تیاری کے مراحل 8. طبی دنیا میں اہمیت 9. استعمال کے ممکنہ نقصانات 10. خلاصہ — دس نکات 1. **کچلہ** ایک سخت اور کڑوے ذائقے والا پھل ہے جو قدرتی طور پر بے شمار طبی فوائد رکھتا ہے۔ 2. یہ مختلف بیماریوں کے علاج میں ایک اکسیری دوا کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ 3. کچلہ کی تاریخی اہمیت طبِ یونانی اور طبِ آیوروید میں صدیوں پرانی ہے۔ 4. اس کا مناسب طریقے سے استعمال صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ 5. اس کے کڑوے اثرات بعض اوقات حساس معدے والے افراد کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ 6. کچلہ میں اکسیری صفات موجود ہیں جو جسمانی توانائی کو بحال کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ 7. اس کی تیاری ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے لیے خاص مہارت اور احتیاط درکار ہوتی ہے۔ 8. اسے تیار کرنے والے ماہرین کو طبی دنیا میں بڑی عزت دی جاتی ہے۔ 9. غلط استعمال یا زائد مقدار لینے سے زہر خورانی کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ 10. طبی ماہرین کی رہنمائی میں اس کا استعمال محفوظ اور فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ — خلاصہ کچلہ ایک قدرتی اکسیری پھل ہے جو اپنی سختی، کڑوے ذائقے، اور طبی فوائد کی بدولت منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس کا استعمال مختلف بیماریوں کے علاج اور جسمانی توانائی کو بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بے شمار فوائد رکھتا ہے، لیکن اس کے کڑوے اثرات اور غلط استعمال سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی موجود ہے۔ کچلہ کی تیاری ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے لیے ماہرین کی مہارت درکار ہوتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ طبی دنیا میں اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ کچلہ کی تدبیر اور اس کے استعمالات میں مقدار خواک بہت اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔دیسی طب میں ایک بات بہت مشہور ہے کہ کسی چیز کو بے ضررر بنا دیا جائے۔۔اسی لئے کشتہ جات کے نیچے آگوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔باقاعدہ بتایا جاتا ہے کہ سو آگیں دینی ہیں ۔اتنے من اُوپلے جلانے ہیں۔۔ بیری کی لکڑی جلانی ہے۔،ایک چوبی دو چوبی آگ دینی ہے۔وغیرہ۔اتنی باریکیاں ہیں کہ عام انسان طب کرنا تودور کی بات سوچ تے وقت بھی چکر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔اس کا انکار نہیں کہ یہ باتیں بہت اعلی اور طب کے راز ہیں۔لیکن ان رازوں کے امین کہاں سے لائیں؟ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کتب عام نہ تھیں،نیٹ کا زمانہ نہیں آیا تھا۔آج یہ باتیں مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں لیکن ہڈ بیتی ہے کوئی تعلی نہیں ہے۔ کئی بار کنوار گندل۔دودھ گھی نہ جانے کن کن بکھیڑوں سے کچلہ تیار کیا اور نسخوں کا جزو بنایا۔لیکن آہستہ آہستہ لوازمات کم سے کم کردئے۔ یوں کچلہ کی تیاری میں سے کم ہوکر ہفتوں پے آگئی۔بتدریج دنوں پر ۔اور اب گھنٹوں اور منتوں تک۔۔۔کتابوں میں لکھے سے خوب فائدہ اٹھا یا جہاں مطلوبہ فوائد نہ ملے وہاں کچلہ کچا رہنے کا بہانہ کیا۔ الحمد اللہ کچلہ سے تین دیہائیوں کے استفادہ میں آج تک نقصان کا کوئی کیس سامنے نہ آیا۔یعنی وہ ڈرائونا بھوت جو کچلہ کے نقصان کی صورت مین مہیب صورت بنا ئے منہ پھاڑے شروع میں ڈرارہا تھا،غائب ہوگیا۔۔۔۔ کچلہ کا ڈر اُن جنات اور موکلات سے کم نہ تھا جن کے بارہ میں عملیات کے اساتذہ نے بتایا تھا۔میں خوش قسمت تھا یا پھر محتاط،عملیاتی میدان میں پون صدی گزارنے کے باوجود آج تک رجعت نامی کسی چیز سے آشنا نہ ہوا ۔نہ طبی طورپر کسی مریض پر دوا کا ری ایکشن دیکھنے کو ملا۔۔۔ حکیم عبد اللہ مرحوم۔نے پانی میں کڑواہٹ دور کرنے والی ترکیب بتائی۔میں نے اس ترکیب سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا۔جس وقت کچلہ تیار کرنے کے لئے احتیاط کرتا تھا تو کچھ باتیں ایسی تھیں جو کتابوں سے نہیں تجربات سے ملتی ہیں۔یہی وہ دولت ہوتی ہے جو صرف محنت کرنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔جیسے جیسے کچلہ کے بارہ میں معلومات و تجربات ہوتے گئے میرے مشاہدات کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ اس کے استعمال کی مختلف صورتیں سامنے آتی رہیں۔دنیائے طب میں کچلہ کو بہت زیادہ اور مختلف انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔ کچلہ کا بچا ہوا پانی میں نے بھی اس کے مختلف استعمالات کئے۔میں نے کچلہ نرم کرنےکے لئے استعمال ہونے والا پانی ضائع کرنے کے بجائے۔ مریضوں کو قطرات میں صورت میں پلانے کا تجربہ کیا۔۔اس کے وہی اثرات تھے جو کچلہ کے تھے ۔۔میں نے ہومیو پیتھی والوں کے نیکس وامیکا کے قطرے منگوائے۔اور اپنے اس پانی سے مقابلہ کیا تو مریضوں نے دونوں کے بہترین نتائج سے آگاہ کیا۔۔ اس کے علاوہ جس گھی میں کچلہ کو پکایا جاتا تھا۔اسے دفن کردیا جاتا تھا۔لیکن میں اسی گھی کو کھانے میں اور دردوں کے اکڑائو اور جسم کے اعصاب میں سوزش کے لئے استعمال کرایا بہترین نتائج سامنے آئے۔یعنی اب میں کچلہ سے حاصل شدہ تین قسم کے اجزاء سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ (1)کچلہ کا سفوف جو مطلوب خاص ہوتا تھا (2)دوسرا وہ گھی جسے کچلہ پکانے کے لئے زمین میں دفن کردیا جاتا تھا (3)تیسرا وہ پانی۔جسے بہا دیا جاتا تھا۔۔ اس سے مجھے مالی طورپر بہت فائدہ ہوا اور نئے نئے تجربات سے لوگوں کے لئے علاج پر کشش بنامثلاََ ایک مریض کو کچلہ کا سفوف یا گولیاں دینی ہوں تو اسے تین وقت ایک جیسی گولیوں سے زیادہ فیس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اس طریقہ یوں اختیار کیا گیا کہ ایک وقت ۔گولی ۔ایک وقت ۔گھی کے
19 دسمبر۔یوم میوات۔
19 دسمبر۔یوم میوات۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ·آج 19 دسمبر ہے ،،یو دن ،، یوم میوات ،، کا دن کا نام سے منایو جاوے ہے ،یا دن سو میوات کی تاریخ۔خون میں لتھڑا ہوا قوم کا نونہال بچہ۔بڑا بوڑھان کی لاش۔ماں بیٹین کی عدم تحفظ کا احساس سو اکُھڑی ہوئی سانس ۔آج بھی تاریخ کا پنان میں لہو رنگ کے ساتھ موجود ہاں۔۔ہماری ذمہ داری ہے کہ نئی پود کو بتاواہاں کہ میوات کی تاریخ میں اتنو خون بہو ہو کہ واکی سرخی سو تاریخی اوراق آج بھی لت پت ہاں۔ مہاتما گاندھی کو میوات کودورہ: ایک تاریخی جائزہ مہاتما گاندھی، جو ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے روحِ رواں ہو، 19 دسمبر 1947ء کو میوات کا تاریخی گاؤں گھاسیڑہ تشریف لائیو۔ای دورہ نہ صرف میوات بلکہ پورا ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت راکھے ہے۔ای مضمون گاندھی جی کا یا دورہ کا مقاصد، اثرات، اور واکی تاریخی پس منظر کو جائزہ لئے گو، کتب کا حوالہ جات کے ذریعہ اس واقعے کی تصدیق بھی پیش کرے گوٍ۔ میوات کو تاریخی پس منظر میوات، جو موجودہ ہریانہ، راجستھان، اور اتر پردیش کا کچھ حصان پے مشتمل ہے، اپنی منفرد ثقافت اور تاریخ کےحالہ سو مشہور ہے۔ میوات کا لوگ، جن سو میو کہو جاوے ہے، زیادہ تر کسان اور پیشہ ور محنت کش ہاں۔ تقسیمِ ہند کے بعد، میوات بھی اُن خطان میں شامل ہو جن میں فرقہ وارانہ فسادات نے حالات نہایت پیچیدہ بنا دیا ہا۔ وا وقت میوات کا لوگ عدم تحفظ اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلاہا۔ گاندھی جی کو دورہ: وجوہات اور مقاصد 19 دسمبر 1947ء کو مہاتما گاندھی گھاسیڑہ پہنچو۔ اُن کایا دورہ کو مقصد میوات کا عوام کو امن، اتحاد، اور بھائی چارہ کو پیغام دینوہو۔ گاندھی جی نے یا موقع پے عوام سو خطاب کرو اور اُن کی حوصلہ افزائی کری کہ وے صبر و تحمل سو کام لیواں اور فرقہ وارانہ حالات میں ہم آہنگی کو فروغ دیواں۔ گاندھی جی نے کہو :ہم سب ایک ہی خدا کا بندہ ہاں۔ ہم نے نفرت اور دشمنی چھوڑ کے محبت اور بھائی چارہ اپنانو ہوئےگو۔”(حوالہ: گاندھی جی کے خطوط، مجموعہ جلد 90، صفحہ 112) یائے بھی پڑھو میو قوم میں خدمت کو جذبہ۔دورہ کا اثرات گاندھی جی کا یا دورہ سو پیچھے میوات کا حالات میں کھوب بہتری آئی۔ مقامی لوگن نے آپس میں مل جل کے امن قائم کرن کی کوشش شروع کردی۔ گھاسیڑہ گاؤں، جو ایک وقت فرقہ وارانہ تنازعات کوشکار ہو، امن و شانتی کی ایک مثال بن گیو۔تاریخ دان موہن لال شرما اپنی کتاب “میوات کی جدوجہد” میں لکھے ہے:گاندھی جی کا دورہ نے میوات کا لوگن کو ان کی اہمیت کو احساس دلایو اور ان کو قومی دھارے میں شامل ہونا کی ترغیب دی۔”(موہن لال شرما، میوات کی جدوجہد، صفحہ 234) گاندھی جی کی تعلیمات کو تسلسل گاندھی جی کا دورہ کے بعد، میوات میں کئی سماجی اور تعلیمی اصلاحات شروع ہوئی۔ ان کا پیغام کے تحت مقامی قیادت نے کمیونٹی کا مسائل کا حل کے مارے مل جل کے کام کرن کو ادارہ کرو۔ آج بھی 19 دسمبر میوات میں گاندھی جی کی آمد کی یاد میں مختلف تقریبات کو مناواہاں۔ یائے بھی پڑھو تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانی۔ نتیجہمہاتما گاندھی کو میوات کو دورہ ایک تاریخی واقعہ ہے جا نے نہ صرف یا خطہ کا لوگن کا دلن میں جگہ بنائیبلکہ ان کو امن اور اتحاد کو راستہ دکھایو۔ ان کایا دورہ کی اہمیت یابات سوبھی پہنچانی جاوے ہے کہہم کو یادکرواوے ہے کہ عدم تشدد، صبر، اور محبت جیسا اصول کائی بھی بحران کو حل پیش کرسکاہاں۔گاندھی جی کی یہ تعلیمات آج بھی میوات اور دیگر خطان والان کےمارے مشعلِ راہ ہاں۔حالات کی کشیدگی اور آنوالا وقت کی دھندلاہٹ نے میون کے سامنے بہت سا راستہ کھولا۔ان میں سو ہجرت اور میوات کی بسارت میں سو ایک اختیار کرنو ہو۔جاکی سمجھ میں جو کچھ آئیو وانے فیصلہ کرو۔آج ہندستان میں بسن والا بھی خوش ہاں اور پاکستان ہجرت کرن والا بھی خوش ہاں۔لیکن تقسیم کے وقت کو گھائو لگاہا ۔وے آج بھی ہرا ہاں۔میوات کی تاریخ کا پنان سو میوات میں بہن والو لہو ٹپکتو رہے گو۔
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔5۔
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔5۔ تحریر :حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی۔کاہنہ نولاہور پاکستان (کچلہ کا یہ مضمون ہماری ویب سائٹ(www.tibb4all.com)پر 25 قسطوں میں شائع ہوا۔ مضمون کے مطالعہ میں مشکلات پیش آرہی تھیں مضمون کو نظر ثانی لے ساتھ پیش کیا جارہااہے۔شکریہ) ٹیبل آف کونٹینٹس ضمیمہ انسانی زندگی میں وہی لوگ شہرت پاتے ہیں جو انسانی ضروریات سے وابسطہ کسی ایسےراز سے پردہ سرکاتے ہیں جو عمومی طور پر فائدہ مند ہو،ایسے ہی لوگ تاریخ کے صفحات میں باقی رہتے ہیں جو خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر انسانیت کی فلاح و فوز کے لئے ہمہ تن مصروف ہوتے ہیں ۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں لوگ کسی شخصیت کو یاد نہیں کرتے بلکہ ان خدمات کو یاد رکھتے ہیں جو اس نے دوسروں کے لئے سر انجام دی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی انسان موجد نہیں ہوتا وہ تو ایک کھوجی ہوتا ہے جو پہلے سے موجود چیز کا سراغ لگاتا ہے۔کوئی بھی تحقیق کسی چیز کو جنم نہیں دیتی البتہ پہلے سے موجود کائنات کی کسی چیز یا زندگی کے کسی پہلو کو تلاش کرلیتا ہے۔ طبی دنیا میں بے شمار لوگ روزی روٹی تلاش کرتے ہیں اس میدان میں اس لئے آتے ہیں کہ آنہ ٹکا کی آمدن ہوجائے۔وہ چار ناچار ایسے مراحل سے گزرتے ہیں کہ انہیں کچھ راز معلوم ہوجاتے ہیں۔یہ راز قدرت نے انہیں کے حصے میں لکھے ہوتےہیں ان میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوتا۔یہ راز بجلی کی وہ کوند ہوتے ہیں جنہیں گرفت میں لاکر فائدہ اٹھا نا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔کسی نے کہا ہے۔اتفاقات بھی انہیں پیش آتے ہیںجو کسی کام میں لگے ہوتے ہیں”۔۔۔ کچلہ سخت جان چیز کچلہ سخت جان چیز ہے اسے بغیر نرم کئے استعمال کرنا باریک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ،جب تک کوئی چیز باریک نہ ہوجائے اس وقت تک ہمارا جسم قبول نہیں کرتا۔ طبی دنیا میں بہت سی عجیب باتیں پائی جاتی ہیں ۔جنہیں فن کاری اور مہارت سمجھا جاتا ہے،جیسے کسی دوا کا کے ذائقہ کو بدل دینا یا اسے بے ذائقہ کردینا۔ طبی کتب میں ان باتوں کو بطور راز درج کیا جاتا ہے۔کچلہ کو ہی لےلیں،اس کی کڑواہٹ ہی اس کی صفت خاص اور اس کا امتیاز ی وصف ہے۔حکماء نے بہت ساری تراکیب لکھی ہیں کہ کچلہ کی کڑواہٹ دور کی جاسکتی ہے۔ مثلاََ حکیم محمد اللہ مرحوم نے اپنی مشہور زمانہ کتاب کنز المجربات میں ایک ترکیب یوں لکھی ہے” کچلہ کی کڑواہٹ دور کرنا۔ کا عنوان دیگر حکیم صاحب لکھتےہیں”کچلہ حسب ضرورت لیکر کنوئیں کےپانی میں بھگودیں اور روزانہ تازہ پانی بدلتے رہیں جب بالکل نرم ہوجائے تو قینچی سے یا چھوٹے چھوٹے چاقو سے کتر کر بدستور پانی میں تے رہیں،غالبا چالیس دن میں کڑواہٹ مٹ جائے گی،اسکو گھی میں بریاں کرکے شامل ترکیب کریں(کنز المجربات صفحہ515) کسی چیز کا قدرتی ذائقہ ہی اس کی پہچان اور ہوتی ہے،اصل حالت میں استعمالات کے فوائد بہت گہرے ہوتے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کہ جن لوگوں نے یہ نکات دریافت کئے انہوں نے زندگی کی بہت سی قیمتی گھڑیاں اس کی نذر کیں۔وقت وسائل کا بے دریغ استعمال کیا ۔کسی بھی چیز کا ذائقہ اور اس کی اصلی حالت ہی طبی لحاظ سے بہترین استعمال کے قابل ہوتی ہے۔ البتہ جو چیزیں اصلی حالت میں کام میں نہ لائی جاسکیں انہیں قابل استعمال بنانے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کی جاتی ہیں کشتہ جات،سفوف۔مربہ جات،شربت گولیاں وغیرہ اس کی مختلف صورتیں ہیں۔مثلاََ تمہ کی کڑواہٹ دور کرکے اس کا مربہ بنانا۔یا کچلہ کی کڑواہٹ دور کرنا وغیرہ حکیم عبد اللہ صاحب کا فارمولہ کہ ایک مخصوص مدت تک پانی میں رکھنے سے کچلہ کی کڑواہٹ دور ہوجاتی ہے۔میں نے بھی اس ترکیب کو استعمال کیا،اور کچلہ کو قابل استعمال بنانے کے لئے پانی کا استعمال کرتے ہوئے اس سے مختلف انداز میں فوائد حاصل کئے۔۔۔ ………. اضاٖفہ کچلہ، جسے عربی میں “اذراقی” اور انگریزی میں “Poison Nut” کہا جاتا ہے، ایک منفرد اور طاقتور جڑی بوٹی ہے جس کے بارے میں میرے تجربات و مشاہدات بہت دلچسپ ہیں۔ اس پودے کی خصوصیات، فوائد اور استعمالات نے مجھے اس کی اہمیت کا قائل کیا ہے۔ کچلہ کی خصوصیات کچلہ کا درخت عموماً 40 سے 50 فٹ اونچا ہوتا ہے اور یہ ہر موسم میں ہرا بھرا رہتا ہے۔ اس کے پتلے مگر مضبوط شاخیں ہوتی ہیں اور اس کے پتے آم یا جامن کی طرح چمک دار ہوتے ہیں۔ اس کے پھول سردی اور بہار میں آتے ہیں اور ان کی بو ہلدی جیسی ہوتی ہے۔ یہ پودا زہریلا ہوتا ہے، لیکن اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس کے فوائد قابل ذکر ہیں۔ صحت کے فوائد استعمال کے طریقے کچلہ کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے: احتیاط کچلہ کا استعمال کرتے وقت احتیاط ضروری ہے کیونکہ یہ غیر مدبر صورت میں تشنج پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ ماہرین سے مشورہ کر کے ہی اس کا استعمال کریں۔ نتیجہ میرے تجربات و مشاہدات نے یہ ثابت کیا کہ کچلہ ایک طاقتور جڑی بوٹی ہے جو مختلف بیماریوں کے علاج میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ یہ زہریلا ہو سکتا ہے، لیکن صحیح طریقے سے استعمال کرنے پر یہ بے شمار فوائد فراہم کرتا ہے۔ سابقہ قسطیں 1قسط نمبر قسط نمبر2 3قسط نمبر 4قسط نمبر قسط نمبر5
میوقوم کاوٹس ایپ گروپن کو بُرو حال
میوقوم کاوٹس ایپ گروپن کو بُرو حال حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ میو قوم سادہ زندگی سو پُر تکلف طرز زندگی کا مہیں آتی جای ہے۔بہت سا لوگ تو یائے بھی بھول چکا ہاں کہ ہم ان لوگن کی اولاد ہاں۔جو ہفتہ عشرہ میں ایک دو بار سانجھ کے وقت لگان پکاوے ہا۔دھیرئیں لگان پکان کو کوئی تصور بھی نہ ہو ۔رات کو بچو لگان۔دہی۔چھاچھ۔چٹنی۔نونی گھی،اور دلیہ مہیری کھان سو دن کی شروعات ہووے ہی۔دھئیرئیں۔تندور کی روٹی تازہ نونی گھی سو چپڑ دی جاوے ہے۔کھیتن میں چار اور چھاچھ کے ساتھ وہی روٹی ہری کو پہنچادی جاوے ہی۔واکا کھانا میں جو لذت ہی اُو اب کا کباب۔پیزا۔شوارما۔اور مرغن غذا میں نہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے میو قوم کی حالت بدلی ۔تنگ دستی کی جگہ خوشحالی ۔جہالت کی جگہ تعلیم۔کچا گھرن کی جگہ پکا مکان۔کار کوٹھی دیا۔جاڑان میں میو دو۔تین قمیضن نے پہن کے جاڑا سیت سو بچن کی کوشش کرے ہا۔آگ تاپنو ۔حقہ کے ساتھ پوُر پے دیر تک بیٹھنو معمول زندگی ہو۔ مرغا بولے اُٹھ کے گھر کا کاج کرکے سیدوسی کھیتن کو چلا جاوے ہا۔خدا محمد کے پہر اٹھنو اچھو سمجھو جاوے ہو۔جو دیر تک سووے ہا۔وائے بے برکتی کو سبب سمجھے ہا۔کچھ کمزور مالی حالت والا بھی ہا۔جن کے اپنے تو ڈھور ڈنگر کو سلسلہ نہ ہو ۔وے آڑوسی پاڑوسین سو چھاچھ مانگ کے گزارو کرے ہا۔۔بنگلہ/بیٹک پے جاکے بڑا بوڑھان کا حقہ تازہ کرے ہا۔چلم بھرے ہا۔اب اللہ نے ان کی نسل کی باں پکڑی ۔وسائل دیا ۔زندگی آسان ہوگئی۔روزگار مل گئیو۔چار پیسہ آگیا۔تو انکا من میں بھی چوہدر کو کو کیڑا مچلن لگو۔۔۔۔ویسے تو پیش نہ گئی۔تو اُنن نے واٹس ایپ گروپ بنا لیا۔۔نوں سمجھو کہ جو کام پہلے بیٹھک۔پور۔اور بنگلہ پے ووے ہو۔وائی کام اے اپ واٹس ایپ گروپن میں کراہاں۔ یومِ شہدائے میواتمیون کا بے شمار گروپ ہاں ۔سب کو دعویٰ ای ہے کہ یہ گروپ میو قوم کا دُکھ درد ہڑن کے مارے بنایا گیا ہاں۔ان گروپن کی وجہ سو میو قوم انچی اُڑان بھرے گی اور ترقی کرے گی۔نوں سمجھو کہ میو قوم کی کھاٹ کو ان گروپن نے کاندھو دے راکھو ہے۔۔۔دعوٰی بہت بڑا ہاں۔لیکن کام ابھی تک چھاچھ مانگن والان والا ای ہاں۔ یائے بھی پڑھو تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانی۔ کائی نے معمولی سی بھی مزاج کے خلاف بات کردی ۔یا کائی نے اپنی سمجھ کے مطابق بات کردی۔تو وائے گروپ سو فارغ کردینگا۔کہن گا کہ گروپ کی پالیسی کے خلاف بات کری ہے یا مارے گروپ سو ریمو کرو گئیو ہے۔بُرو مانن کی بات نہ ہے میں بھی بہت سا گروپن میں سو نکال پھنکو گئیو ہو۔سچی بات کردئیو۔گروپ سو فارغ ۔۔مشاہدہ ای ہے کہ میو قوم کا آزاد خیال،ترقی پسند۔اوربہتر سوچ کا حامل افراد چُن۔چُن کے گروپن میں سو نکال باہر کرا گیا ہاں۔ یائے بھی پڑھو تاریخ میو اور داستان میوات کل عاصد رمضان میو سو بات ہوری ہی۔وانے فون کرو کہ حکیم صاحب کونسو ایسو کمنٹ کردئیو کہ میون کا ایک گروپن نے۔تیسری پوسٹ ڈیلیٹ کردی ہے۔میں نے تعجب کرو کہ آج تو میں اپنی ایک کتاب کی لکھائی اور ترتیب میں مگن ہو کوئی بات بھی نہ کری ہے ۔میرے پئے گنومنو وقت رہوے ہے۔ہاں ایک کتاب ضرور شئیر کری ہے۔عاصد کہنے لگو پھر وہی ڈیلیٹ کری ہے۔عاصد رمضان عمرہ سو واپس آئیو ہے۔ابھی تو مبارکباد دینو بھی باقی ہے۔واکی مہربانی وانے پوسٹ کا بارہ میں اظہار ہمدردی کرو ہے۔میو قوم کا نام سو بنن والا واٹس ایپ گروپس کا ایڈمنن سو گزارش ہے۔بڑا بنو ۔چھاچھ مانگن والی عادت چھوڑ کے بڑی سوچ اپنائو۔اور دوسران کی باتن نے برداشت کرو۔
انار کے چھلکوں کے حیرت انگیز فوائد: قدرت کا چھپا ہوا راز
انار کے چھلکوں کے حیرت انگیز فوائد: قدرت کا چھپا ہوا راز حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ انار کے چھلکوں کے حیرت انگیز فوائد: قدرت کا چھپا ہوا رازحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومنتظم اعلیٰ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ فہرستِ مضامین قران کریم میں جن نعمتوں کا ذکر قران کریم نے کیا ہے ان میں ایک انار بھی ہے۔ قرآن مجید میں انار کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے، جہاں اسے جنت کے پھلوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ انار ایک نہایت فائدہ مند پھل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے زمین پر اُگایا اور اسے اپنی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا۔ 1. سورۃ الرحمٰن (55:68) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ” ترجمہ: “ان (باغوں) میں پھل ہیں، اور کھجوریں اور انار ہیں۔” یہ آیت جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتی ہے، جس میں انار کو خصوصی طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انار ایک عظیم اور بابرکت پھل ہے جسے جنت کی نعمتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ 2. سورۃ الانعام (6:99) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ انظُرُوا إِلَى ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ” ترجمہ: “اور وہی (اللہ) ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس سے ہر قسم کی نباتات اُگائیں، پھر ہم نے اس سے سبزہ نکالا، کہ ہم اس سے تہ بہ تہ دانے نکالتے ہیں، اور کھجور کے درختوں سے ان کے گچھے (پیدا کرتے ہیں) جو جھکے ہوئے ہوتے ہیں، اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار (پیدا کیے) جو بعض ایک دوسرے سے مشابہ ہیں اور بعض غیر مشابہ۔ اس کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو (بھی دیکھو)۔ بے شک ان میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔” یہ بھی مطالعہ کریں تشخیصات متعددہ/حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو قدرت کی فیاضی نے ہمیں بے شمار نعمتیں ایسی عظاء کی ہیں جو گرانمایہ ہیں۔لیکن ان کی بکثرت موجودگی نے انہیں بے قیمت ٹہرادیا ہے۔ پھل ہیں جن کا یک رخا استعمال ہی جانے ہیں کسی کے چھلکے پھینک دئے جاتے ہیں (تربوز۔انار،مالٹا کنوں،مسمی وغیرہ) اور کچھ پھلوں کے گٹھلیاں (جیسے۔آم ۔آڑو۔خوبانی وغیرہ) لیکن یہ تمام چیزیں قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔لیکن سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ یہ بھی کھائے جانے والے حصے کی طرح اہمیت کے حامل اجزء ہیں چونکہ انار کا موسم بھی ہے، اور انار کے بہت زیادہ فوائد ہیں، لیکن بھی دکھ ہوتا ہوتا ہےجب لوگ انار کھا کر اسکے چھلکے ضائع کرکے کچرے میں پھینک دیتے ہیں،،،،،،،،،،،، امید ہے یہ تحریر پڑھنے کے بعد آپ کو انار کے چھلکوں سے محبت ہو جائے گی۔ یہ بھی مطالعہ کریں کتب حکیم قاری محمد یونس شاہد میو انار کے چھلکوں کی غذائی اہمیت پر غور کیا جائے تو یہ غذائیت اور طبی فوائد سے بھرپور ہیں۔ اگرچہ عام طور پر لوگ انار کے چھلکوں کو ضائع کر دیتے ہیں، لیکن یہ صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ انار کے چھلکوں میں درج ذیل غذائی اجزاء اور خصوصیات شامل ہیں: 1. اینٹی آکسیڈنٹس انار کے چھلکوں میں پولی فینولز، فلیونوئڈز اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں جو جسم کو فری ریڈیکلز کے نقصان سے بچاتے ہیں۔ یہ اینٹی آکسیڈنٹس بڑھتی عمر کے اثرات کم کرتے ہیں اور جلد کو صحت مند رکھتے ہیں۔ 2. وٹامنز اور منرلز انار کے چھلکوں میں وٹامن سی کی اچھی مقدار موجود ہوتی ہے جو قوتِ مدافعت بڑھانے میں مددگار ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پوٹاشیم، کیلشیم اور فاسفورس جیسے منرلز بھی شامل ہوتے ہیں۔ 3. فائبر کی موجودگی انار کے چھلکے میں غذائی ریشے (Dietary Fiber) کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو نظامِ ہاضمہ کو بہتر بناتی ہے اور قبض سے نجات دیتی ہے۔ 4. اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل خصوصیات انار کے چھلکے میں موجود اینٹی مائیکروبائل خصوصیات جسم کو بیکٹیریل اور وائرل انفیکشنز سے بچاتی ہیں۔ یہ خصوصیات گلے کے درد اور دانتوں کے مسائل جیسے کہ مسوڑھوں کی سوزش میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ 5. اینٹی انفلیمیٹری خصوصیات انار کے چھلکوں میں سوزش کو کم کرنے والے اجزاء پائے جاتے ہیں، جو جوڑوں کے درد اور دیگر جسمانی سوزش کو کم کرتے ہیں۔ 6. کولیسٹرول کی سطح میں کمی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انار کے چھلکے بُرے کولیسٹرول (LDL) کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں، جو دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ 7. جلد کے لیے مفید انار کے چھلکوں کا سفوف جلد پر لگانے سے کیل مہاسے، جھریاں اور داغ دھبے کم ہوتے ہیں۔ ان میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس جلد کو جوان اور نرم و ملائم رکھتے ہیں۔ 8. وزن میں کمی انار کے چھلکوں سے تیار شدہ قہوہ میٹابولزم کو تیز کرتا ہے اور چربی کو گھلانے میں مدد دیتا ہے، جو وزن کم کرنے میں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ 9. کینسر سے بچاؤ انار کے چھلکوں میں موجود اجزاء خلیوں کی غیر معمولی افزائش کو روکتے ہیں، خاص طور پر یہ بریسٹ اور پروسٹیٹ کینسر کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔ استعمال کا طریقہ انار کے چھلکوں کی غذائی اہمیت انار کے چھلکوں کی یہ غذائی اہمیت انہیں ایک قدرتی اور سستا علاج بناتی ہے جو مختلف بیماریوں سے تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ انار کے چھلکوں کی غذائی خصوصیات (Nutrition) درج ذیل ہیں: 1. توانائی (Calories) انار کے چھلکے میں بہت کم کیلوریز موجود ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ وزن کم کرنے والی غذا میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ 2. کاربوہائیڈریٹس (Carbohydrates) انار کے چھلکے میں قدرتی طور پر کاربوہائیڈریٹس کی معمولی مقدار موجود ہوتی ہے، جو جسم کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ 3. فائبر (Dietary Fiber) انار کے چھلکے میں غذائی ریشے کی بڑی مقدار ہوتی
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔4
My experiences and observations about Kuchla.4 کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔4 تحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی۔کاہنہ نولاہور پاکستان (کچلہ کا یہ مضمون ہماری ویب سائٹ(www.tibb4all.com)پر 25 قسطوں میں شائع ہوا۔ مضمون کے مطالعہ میں مشکلات پیش آرہی تھیں مضمون کو نظر ثانی لے ساتھ پیش کیا جارہااہے۔شکریہ) اس نسخہ سے دو فوائد حاصل ہوئے تھے،والد محترم کو بھوک خوب لگتی تھی، کھلانے پلانے میں آسانی تھی یوں بہت ساری انٹی بائیٹک اور دیگر انفیکشن روکنے والی ادویات سے جان چھوٹ گئی تھی،کسی دوا کی الگ سے ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔دوسرا فائدہ یہ تھا کہ انہیں بروقت وارش روم کی حاجت ہوتی اور بافراغت اس مرحل سے گزرتے۔جب کہ دیکھا گیا ہے ایسی حالت میں غذائوں سے زیادہ مریضوں کو دوائیں کھلائی جاتی ہیں۔ان کی خشکی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کئی کئی دن قضائے حاجت کے لئے ترسنا پڑتا ہے ،حقنہ تک کی نوبت آجاتی ہے ،الحمد اللہ دوائوں کی لمبی جو ڑی فہرست نہیں بنانی پڑی،صرف کچلہ کی مناسب مقدار مختلف اجزاء کے رد وبدل کے بعد جاری رہی۔ زخموں پر چھڑکا جانے والا سفوف زخموں پر مردہ سنگ۔رال سفید،کتھہ۔معمولی سا نیلا تھوتھا شامل کرکے سفوف بنایا ہوا تھا ،وہ چھڑکا کرتا تھا۔مزید کسی دوا کے یہ عمل جاری رہا ۔ لیکن زخموں کو پھٹکڑی اور کے ساتھ نیم کے تازہ پتے ابال کر پانی تیار کیا جاتا،ہر روز زخموں کو اس نیم گرم پانی سے دھویا کرتاتھا۔زخموں کے بارہ اتنا یاد رکھیں، ہلکا موٹا پیپ ریشہ پیدا ہونا قدرت کا وہ عمل ہے جو زخم بھرنے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے،جن رطوبات کو طبیعت مدبرہ زخم ٹھیک ہونے کے لئے مختص کرتی ہےوہ مقام زخم کو درست کرتی ہیں،اگر کچھ بچ جائے تو پیپ کی صورت اختیار کرجاتی ہیں۔ زخم سے بہنے والے مواد کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس پیپ کے اندر زبر دست قوت شفا موجود ہوتی ہے ،اس پر پھر کبھی بات کریں گے ۔اس وقت یہ سب معلومات مجھے معلوم حاصل نہ تھیں۔زخم پر جب بھی رطوبات کی کثرت دیکھتا صاف کردیا کرتاتھا ۔ ۔ کچلہ کی وجہ سے انہیں درد روکنے والی ادویات کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ،مجھے یہ سب کچھ اس لئے معلوم ہواتھا کچلہ کے بارہ میں حکماء نے لکھا تھا کہ دردوں کو ختم کرتا ہے،ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ عام حالات میں دردوں کو ختم کرتا ہے تو والد محترم کو بھی تو زخموں میں درد ہوتا ہے۔ ایک ہفتہ کے بعد ایک مرہم لگانی شروع کردی تھی،گوکہ اس مرحم کا کچلہ سے کوئی تعلق موجود نہیں ہے لیکن میں نے اس وقت یہ طریقہ علاج اختیار کیا تھا،اس لئے مرہم کا نسخہ درج ذیل ہے۔یہ نسخہ غالبا “امرت ساگر” سےلیا گیاتھا کسی ہند وید نے ترتیب دیا تھا،میں اسے کالی مرہم کے نام اپنے پاس بنا کر تیار رکھتا تھا۔ اس کے اجزاء یہ تھے۔رال سفید۔کتھہ پاپڑیہ۔مردہ سنگ۔نیم کے پتوں کا پانی،گائے کا گھی وغیرہ۔۔پھوڑے پھنسیوں۔زخم۔موسمی جلدی امراض وغیرہ میں تین دھائیوں سے استعمال کررہاہوں۔۔ والد محترم کی تیمار داری کے دوران جو دعائیں مجھے ملیں مجھے ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ یہ دو ماہ جن میں ان کی خدمت کی گئی تھی مجھے انعام میں دئے ہیں۔جب سے میں ہوش سنبھالا تھا۔ان کی خدمت کرنے کا موقع نہ ملا تھا۔ان کے الفاظ آج بھی میرے لئے راحت کا سبب بنتے ہیں ”میرے اس بیٹے نے،خدمت کرکے بیٹا ہونے کا حق ادا کردیا”۔ والد صاحب جسمانی طورپر مضبوط تھے،کھیتو ں کام کرنا،ہل چلانا،کئی کا استعمال۔مویشیوں کے چارہ کھیت سے کاٹ کر لانا،پھر اسے ہاتھ کے ٹوکے سے کوٹ کر جانوروں کو کھلانا روز مرہ کے معمولات میں شامل تھا/۔اس لئے وہ اتنی سخت تکلیف کو برداشت کرگئے۔میں نہیں کہتا کہ کوئی اس تجربہ کو دُہرائے ……………..اضافہ کچلہ کے دس فوائد سمری کچلہ ایک مفید جڑی بوٹی ہے جو کئی جسمانی اور ذہنی مسائل کے علاج میں کارآمد ہے۔ یہ نظامِ ہاضمہ کو بہتر بنانے، جوڑوں کے درد کو کم کرنے، اور اعصابی نظام کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کچلہ دماغی صلاحیت میں اضافہ اور جسمانی طاقت کو بڑھانے کے لیے موثر ہے۔ یہ پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے، سانس کی بیماریوں میں مفید ثابت ہوتا ہے اور مردانہ کمزوری کا علاج بھی کرتا ہے۔ خون کی گردش کو بہتر بنانا اور جلد کے مسائل کا علاج کرنا اس کے دیگر فوائد میں شامل ہیں کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔1 کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔2 کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔3 کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔4
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔ 3
My experiences and observations about the kuhlah 3. کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔ 3 تحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی۔کاہنہ نولاہور پاکستان (کچلہ کے بارہ میں یہ مضمون ہماری ویب سائٹ(www.tibb4all.com)پر 25 قسطوں میں شائع ہوچکا تھا۔ویب سائٹ ہیک ہونے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے مضمون کے مطالعہ میں مشکلات پیش آرہی تھیں اس لئے دوبارہ (www.dunyakailm.com) پر اس مضمون کو نظر ثانی جدید انداز میں پیش کیا جارہااہے۔شکریہ) جب انسان کسی بات کا بھید پالیتا ہے تو بہت ساری الجھنیں ختم ہوجاتی ہیں۔اس سے بے پروا ہوجاتا ہے کہ کسی نے کیا کہا ،کسی نے کیا لکھا ہے ؟ فلاں کتاب ،یا نسخہ میں کونسی ہدایات درج ہیں۔اس بات سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا کہ کہ حذاق اساتذہ کرام نے اپنی کتب میں جو ہدایات لکھی ہیں،یا اپنے متعلقین کو یہ باتیں سینہ بسینہ منتقل کی جاتی ہے۔ان میں کچھ خاص بھیدہوتے ہیں۔منجملہ ان میں کسی دوا کا بنانا ۔ اسکا استعمال ۔مقدار خوراک۔متعلقہ غذائیں۔پرہیز وغیرہ۔ عام ادویہ جنہیں بے ضرور سمجھا جاتا ہے اور ان کا روز مرہ کا استعمال مشاہدہ میں ہے ،کے بارہ میں کوئی ہدایات یا پرہیزی معاملات دیکھنے کو نہیں ملتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مانوس ادویہ کا استعمال اور انکے فوائد اتنے عام ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان باتوں کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا نہ ان باتوں کو درخور اعتناء سمجھا جاتا ہے۔لیکن میدان طب میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں،اگر جسم کو ضرورت نہ ہو تو کالی مرچ ،زیرہ سفید۔دھنیا۔الائچی۔گڑ شکر۔حتی کہ گھی دودھ بھی نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔عمومی اشیاء کے استعمال میں لوگ اپنے تجربات پر انحصار کرتے ہیں کسی سیانے یا حاذق طبیب کا انتظار نہیں کرتے۔ مشاہدہ ہے کالی مرچ زیادہ مقدار میں سینہ کی جلن کا سبب بنتی ہیں۔۔۔دھنیا خشک۔الائچی اعصابی مریض کے لئے آفت سے کم نہیں۔نزلہ زکام والا ابلے چاول کھالے تو اس کی چھینکیں نہیں رکتیں۔ ہماری والدہ مرحومہ پرہیز کے بارہ میں بہت سخت تھیں۔معمولی سا نزلہ زکام ہوتا گھی دودھ پر پابندی عائد کردی جاتی۔موسمی بخار آجاتا تو کاڑھے اور چھوہارے کھانے پڑتے وغیرہ لیکن ان علامات کو کوئی بھی سمی علامات قرار نہیں دیتا ۔ لیکن کچلہ بناہ خدا۔ ۔۔عام لوگوں کے لئے زہر قاتل ہے۔۔۔ ماہر اساتذہ نے جو پرہیز اور احتیاطی تدابیر لکھی ہیں شاید وہ اناڑی لوگوں کے لئے ہوں۔یا پھر نئے حکماء کے لئے،تاکہ حد سے تجاوز نہ کریں۔ان کی مقرر کردہ مقدار سے اگر دوگنی مقدار بھی کھالی جائے تو بھی خیر ہوتی ہے۔لیکن احیتاطا خوراکی مقدار کوکم سے کم رکھا جاتا ہے ۔ بات کچلہ کی ہورہی تھی۔کچلہ طبی دنیا کا مفید دوا ہے جس کے بارہ میں اطباء نے اتنا ڈرایا ہے کہ استعمال تو رہا ایک طرف اس کے بارہ میں کوشش کو بھی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔جس نسخے میں کچلہ کو بطور جز استعمال کیا جائے،اس دوران کوئی غیر طبعی علامت ظاہر ہوجائے تو قصور کچلہ کا ہی نکلے گا ۔۔ طبیب و مریض یک زبان ہوکر کچلہ کو برا بھلا کہنا شروع کردیں گے۔اسباب و علامات پر غور نہیں کریںگے۔مثلا ایک آدمی شکایت کرتا ہے کہ جناب کچلہ کھانے سے مجھے زکام لگ گیا ۔یا مجھے ٹھنڈ لگ گئی؟۔اگر معالج علم العقاقیر سے واقف ہوگا تو فورا ،مریض کے دعوے کو رد کردیگا۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ مریض کو کچلہ کے استعمال سے اعصابی علامات ظاہر ہوجائیں۔کیونکہ قدرت نے جس چیز میں جو تاثیر رکھ دی ہے وہ کبھی معطل نہیں ہوسکتی۔ ولن تجد لسنة الله تبديلا کچلہ سے ایک بات یا د آئی کہ جن دنوں میں کچلہ مدبر کرنے کا جنون تھا،بہت سے لوگ اس کے دوانے تھے۔بالخصوص بختہ عمر کے لوگ۔حال چال پوچھنے آتے اور بڑی شائشتگی سے ایک طرف لے جاکر پوڑیہ طلب کرتے۔۔اگلے دن حسن کارکردگی سے آگاہ کرتے۔ایک صاحب میرے پاس بیٹھا کرتے تھے۔ان کی تمام سروسیں مفت ہوا کرتی تھیں ۔وہ کبھی دودھ لادیتے۔کبھی لکڑیاں اور اوپلے۔مہیا کردیتے۔انہوں نے کبھی نسخہ کی تعریف نہ کی ،بلکہ منہ بسورتے ہوئے کہتے ،اتنا فائدہ نہیں ہوا۔جتنا لوگ بتاتے ہیں ۔آج مجھے زیادہ مقدار میں دوا دینا۔بارہا یہ سلسلہ چلا ۔ان کی باتیں کبھی تو مرے یقین کو متزلزل کردیتیں۔کہ ممکن ہے نسخہ میں کوئی جھول رہ گیا ہو؟ ۔ کافی تجسس کے بعد معلوم ہوا کہ جناب تو دوا کے سپلائر بن چکے ہیں۔لوگ میرے پاس آنے کے بجائے ،ان سے رابطے میں رہتے ہیں۔ان دنوں کتابوں کا مطالعہ بکثرت تھا۔طبی کتابیں اوڑھنا بچھونا تھیں،طرح طرح کے تجربات جاری تھے۔میں نے کچلہ میں فالج اور اعصابی سوزش میں بجلی کی طرح کام کرتے ہوئے پایا۔تھکاوٹ۔سینہ پر بوجھ،خواب میں ڈر جانا۔کسی بات کا فوبیا ہوجانا وغیرہ میں کچلہ کی تاثیر مسلم دیکھی ۔ قبض میں اور گوشت کے درد میں بہت کام کرتا ہے۔۔۔ (اضافہ) دیال سنگھ لائبریر سے استفادہ۔یہ 1990 کے قرب و جوار کی بات ہے ۔ہمارے ایک ساتھی جو دیال سنگھ کالج کے طالب علم تھے اور طلباء تنظیم کے کارکن تھے۔میرے ساتھان کا آنا جانا تھا صبح کے وقت ساتھ میں مدسرہ اور کالج سکول وغیرہ کی سواری میں ہمسفر تھے۔انہوں نے میرا ذوق مطالعہ دیکھا تو کہنے لگے چلو میں آپ کو دیال سنگھ لائبریری کی ممبر شپ دلوادوں۔ان دونوں میں کتب کی قلت تھی ۔قوت خرید تھی نہیں مستعار کوئی دیتا نہ تھا۔موقع غنیمت سمجھتے ہوئے ممبر شب کرالی۔اس لائبریری سے جتنا فائدہ میں اٹھا یا شاید ہی کسی نے اٹھایاہو۔۔چار کتب جاری ہوا کرتی تھیں ۔ میں بڑی بڑی کتب پسند کرتا اور ایشوکراکے لے جاتا۔مطالعہ کی رفتار کافی بہتر تھی ایک دن میں ہزار صفحات تک معمول بنالیا تھا۔چوتھے پانچویں دن کتب واپس کرکے نئی کتب جاری کرالیتا۔لائبریرین تنگ آگئے ۔کئی بار کہتے مولوی صاحب اتنی جلدی کون پڑھ سکتا ہے؟آپ خوامخواہ کرایہ خرچ کرکے ہمیں تنگ کرنے آجاتے ہو۔اس بہترین لائبریری میں مجھے وہ ذخیرہ علم دستیاب ہوا جس میں تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ تفسیر قران ۔حدیث،تاریخ۔فلسفہ۔طب۔سوانح عمریاں۔سائنسی علوم۔باغبانی۔انسائیکلوپیڈیاز۔عربی فارسی۔پنجابی۔میواتی انگریزی کتب سے بھرپور استفادہ کیا۔بہت سی کتب ایسی تھیں جن کا پہلی بار مطالعہ میں نے کیا۔آج تیس سال بعد بھی ان کتب کو کسی نے ایشو نہیں کروایا۔جیسے جیسے مطالعہ بڑھتا گیا
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات2
..My experiences and observations about Kuchla.part.2 کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات2 تحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان ہندو ویدک میں کچلہ کے بارہ میں بہت سی اساطیری داستانیں کہی سنائی جاتی ہیں۔اس کی مختلف توجیہات بیان کی جاتی ہیں۔مجھے آج بھی یاد ہے 35سال پہلے جب طب سے جنون کی حد تک لگائو تھا ،میدان عمل میں نیا نیا تھا۔جو کتاب دیکھی، پڑھ ڈالی ۔بسوں کے سفر ہوا کرتے تھے۔سفر بھی مطالعہ کےلئے وقت فراہم کیا کرتاتھا ۔زندگی کے اتنے جھمیلے نہ تھے ۔جو کچھ تھا، پر سکون تھا۔کمی کا خدشہ نہ زیادتی کی فکر، جو ملتا قابل شکر تھا۔ جب پہلی بار استاد الحکماء محمد عبد اللہ صاحب کی کنز المجربات ملی تو دل باغ باغ ہوگیا۔اس میں کچلہ کی تدبیر اور اسے قابل استعمال بنانے کا جو گُر بیان کیا گیا تھا آزمانے کا فیصلہ کیا۔ پنساری کے پاس پہنچا ۔کچلہ طلب کیا ۔دکان پر بیٹھا شخص ایسے اُچھلا جیسے واہگہ بارڈر سے انڈیا نے حملہ کردیا ہو۔پہلے تو اسے یقین نہ آیاکہ میں کچلہ مانگ رہا ہوں۔بار بار پوچھا،کچلہ ہی کہا ہے ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔زندگی کا پہلا موقع تھا کہ کچلہ دیکھنے کو ملا۔پنساری کی لیت و لعل سے سمجھ گیا کہ یہ کم عمر سمجھ کر دینے پر آمادہ نہیں ہے۔قریب ہی ایک جاننے والے تھے،میرے نمازی تھے،انہوں نے سلام کیا حال احوال معلوم کئے۔ دکان پر کھڑے ہونے کا سبب دریافت کیا۔پنساری سے کہا۔امام صاحب ہیں۔بہت اچھے انسان ہمارے قاری صاحب ہیں انہیں بہترین اجزاء دینا۔ تاکہ یہ بہتر نسخہ بنا سکیں۔گویا کہ یہ سفارش تھی کو جسے پنساری نے قبول کیا۔دو روپے کا کچلہ لئے خوشی خوشی رہائش گاہ پہنچا۔یہ مسجد کی طرف سے مجھے دی گئی تھی۔جب میں نے اپنے شاگردوں سے جو کہ میرے پاس ناظرہ و حفظ کے طالب علم تھے کو نسخہ کے بارہ میں بتایا کہ دودھ گھی وغیرہ کی ضرورت ہوگی تو انہوں نے مجھے گھی دودھ وافر مقدار میں مہیا کردیا ۔ساتھ میں کئی گاہگ بھی مہیا کئے جنہوں نے مکمل عقیدت ہماری حکمت کی تصدیق کی اور نسخہ کے لئے ایڈوانس بھی جمع کرادیا ۔ میرے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ ایک ماہ کا موٹر سائکل کا پٹرول کا بند بست ہوگیا۔ کچھ جو عقیدت تھا۔کچھ طبی کتب پر ایمان کی حد تک یقین تھا۔سوچوں کی دنیا محدود تھی۔نسخہ کامیاب رہا۔دیہاتی لوگ کچلہ کی پوڑیہ لینے میرے پاسآجاتے ۔دودھ بھی ساتھ لے آتے۔مجھے بھی پلاتے ،خود بھی پیتے۔ساتھ میں مٹھی باندھ کر نذرانہ بھی دیتے۔ یوں زندگی کے طبی تجربات شروع ہوئے۔شروع دن سے ایک اصول زندگی اپنائے رہا کہ غلط بیانی۔دھوکہ دہی سے کسی کو کچھ نہ دیا ۔یہی ہمارے والد بزرگوار علیہ الرحمہ کی نصیحت تھی۔ آج الحمد اللہ ساٹھ کے قریب طبی کتب لکھ چکا ہوں،اور طب نبوی ﷺکے حوالہ سے اللہ کی توفیق سے بہت محنت کی ہے۔تجربات کا وسیع میدان ہے۔لیکن یقین کی جو کیفیت اس وقت تھی آج تجربات کی لامتناہی دنیا میں اس کی کمی محسوس ہورہی ہے۔اب طبی باتوں پر یقین کے بجائے تجسس نے لے لی ہے۔ (اضافہ)اوئل عمر میں انسان بہت سے شوق پالتا ہے۔مجھے اللہ کی طرف سے دو ذوق عطاء ہوئے ایک مطالعہ اور کتب لکھنے کا۔دوسرا طب و حکمت عملیات۔یہ دو فن میری پہنچان بنے اور اللہ نے اسی کو میری روزی کا سبب بنایا۔سطور بالا میں جو کچھ لکھا گیا یہ اس وقت کی بات ہے جب فراغت درس نظامی سے فراغت کے بعد امامت کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔تقریبا چھ سال یہی خدمات سرانجامد یتا رہا اس کے بعد بیس سال صحرا نوردی میں گزرے۔طب و حکمت کی کتب کا والہانہ لگائو میری طبی زندگی کا آگاز تھا۔کچھ عرصہ بعد تجربات میں نکھار پیدا ہوتا گیا) پہلی قسط یہاں سے پڑھیں