1947ءکی ہولناکی میں تبلیغی جماعت کا جاندار کردار
1947ءکی ہولناکی میں تبلیغی جماعت کا جاندار کردار
حکیم المیوات۔ قاری محمد یونس شاہد میو
تقسیم ہند( 15 اگست 1947 )کے بعد تبلیغی جماعت نے جس استقلال پامردی اور احتیاط سے اپنے کام کو جاری رکھا وہ قابل تحسین ہے جب ہندو ریاستوں میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور میواتی دہلی میں پناہ گزین ہوئے تو ان پناہ گزینوںمیں جماعت میں خاصا کام کیا، افتخار فریدی مراد آبادی کا بیان ہے (ملاحظہ ہو:سوانح مولانا محمد یوسف صفحہ 270 )
حضرت مولانا محمد یوسف کا یہ حال تھا کہ وہ پناہ گزینوں میں دوڑتے رہتے تھے ان کو اپنے تن بدن کا ہوش تک نہ تھا، پیروں میں چھالے پڑجاتے پیدل سوار جیسے بن پڑتا پہنچتے اور دربدر پھرتے اور ان کو جمع کرکے تقریریں کرتے ان کی ہمت بندھاتے ہیں ایمان وتوکل کا درس دیتےاور اس پوری مدت میں مولانا کو بھوک پیاس کا
ذرا بھی ہوش نہیں رہتا”۔۔۔
اس طرح جب دہلی میں فسادات ہوئے تو جماعت نے نہایت بے جگری اور عزم و استقلال سے کام کیا کیونکہ مرکز نظام الدین اولیاء میں پناہ گزینوں کا اجتماع تھا لہٰذا مرکز فسادیوں کی نظر میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا کئی بار انہوں نے حملے کی تیاری کی مگر اللہ تعالی نے ہر مرتبہ مامون و محفوظ رکھا۔بعض اوقات و حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ مخلصین تک نے مشورہ دیا کہ مرکز کو چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ پر منتقل ہوجانا چاہیے مگر مولانا کے پائے استقلال میں لغزش نہ ہوئی اور انہوں نے کسی صورت میں مرکز چھوڑنا گوارا نہ کیا اگرچہ مشکلات اور پریشانیوں سے بھی دوچار ہونا پڑا ۔تاآنکہ کئی مرتبہ خانہ تلاشی کی بھی نوبت آئی مگر ان کے گھر میںعزم و استقلال کے سوا کوئی ہتھیار اور کوئی اسلحہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے اہم بات مشرقی پنجاب میں کام کا آغاز تھا ،مشرقی پنجاب سے مسلمان اُجڑ چکے تھے، مسجدیں اور خانقاہیں ویران ہوگئی تھیں کچھ مسلمان پہاڑوں میں چلے گئے تھے ان علاقوں میں مسلمانوں کا نام و نشان تک نہ تھا،نامساعد حالات میں تبلیغی جماعتیں سکھوں اور ہندوؤں کےمراکز میں پہنچیں اور موت کے منہ میں جا کر انہوں نے معجزانہ کارنامے انجام دیئے ۔ایک واقعہ ملاحظہ ہو
(سوانح مولانا محمد یوسف دفعہ 295)
خضر آباد میں پہلا پڑاؤ کیا، سکھوں نے اس عجیب و غریب جماعت کو دیکھا، حیرت میں پڑ گئے، مسلمان صورتیں دیکھ کر غیض و غضب میں آ گئے، دلوں کے زخم تازہ تھے، جس مسجد میں ہماری جماعت نے قیام کیا تھا، اس کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور شور ہنگامہ کرنے لگے کہ حملہ کی صورت پیدا ہو گئی تھی اس تشویشناک صورتحال کو دیکھ کر خدا کے نحیف و نزار بندے اس وقت خدا پر یقین و اعتماد کے پیکر بن گئے اور اپنی شہادت کے انتظار میں کھڑیاںگننے لگے،
امیر جماعت نے خدا کا نام لے کر حملہ آوروں کو مخاطب کرکے تقریر کرنا شروع کر دیں، جماعت کے بقیہ لوگ صلوٰۃ الحاجہ پڑھ کر ذکرو دعا میں مشغول ہو گئے، خدا نے اپنے بے سروسامان بندوں کی دعا کو سن لیا، امیر جماعت کی تقریر جو حقیقت میں درد اثر میں ڈوبی ہوئی اور اخلاص وللٰہیت سے معمور تھی، سننے والوں کے دلوں میں گھر کرنے لگی،مقلب القلوب نے دلوں کو پلٹ دیا، جو آنکھیں سرخ اور خونین تھیں دیکھتے دیکھتے آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔
بلند آوازیں خاموش ہوگئیں، اٹھتے ہوئے ہاتھ گر گئے، وہ لوگ جو مارو مارو کی صدائیں بلند کررہے تھے اپنی انہی کی زبانوں سے کہنے لگے۔ یہ ملا تو بہت ہی اچھی باتیں کرتے ہیں، واقعی ہمارے اندر حیوانیت آ گئی تھی، امیر جماعت نے آدھے گھنٹے تک بات کی، بات جو ختم ہوئی توایک لحیم و شحیم آدمی کھڑا ہوا، اور اس نے اعلان کیا کہ یہ لوگ دہلی سے آئے ہیں، آپس میں امن و صلح کی دعوت دیتے ہیں، ظلم و عداوت اور انسان کشی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، ہر شخص ان کی بات سنے، اگر کوئی ان کو تکلیف دے گا تو میں سب سے پہلے ان کے ساتھ مرنے کو تیار ہوں:”۔۔۔۔
2 comments
At the beginning, I was still puzzled. Since I read your article, I have been very impressed. It has provided a lot of innovative ideas for my thesis related to gate.io. Thank u. But I still have some doubts, can you help me? Thanks.
Thanks for visiting our website. Feel free to share your thoughts, so we can improve the post